میقات سے بلا احرام باندھے گذرجانا
قسط نمبر (13)
تصنیف:
حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
کوئی آفاقی عاقل بالغ میقات سے بغیر احرام کے آگے گذر جائے، تو اس پر واجب ہے کہ لوٹ کر پھر میقات پر آئے اور احرام باندھے۔ اگر میقات پر آکر احرام نہیں باندھا؛ بلکہ وہیں سے احرام باندھ لیا ،تو اس پر دم واجب ہوگا۔ لوٹ کر میقات سے احرام باندھنے میں کوئی دم نہیں ہے ۔
عن بن عباسؓ قال: اذا جاوز الوقت فلم یحرم حتی دخل مکۃ رجع الیٰ الوقت فاحرم وان خشی ان رجع الیٰ الوقت فانہ یحرم ویحریق لذلک دما ( رواہ اسحاق بن راھویہ فی مسندہ)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا: جب کوئی شخص میقات سے آگے بڑھ جائے اور احرام نہ باندھے، یہاں تک کہ مکہ آجائے، تو وہ میقات کی طرف لوٹے اور احرام باندھے۔ اور اگر میقات کی طرف لوٹنے میں ( حج فوت ہونے کا یا جان کا )ڈر ہو،تو وہیں احرام باندھ لے اور میقات پر احرام نہ باندھنے کی وجہ سے دم دے ۔
مسئلہ : میقات سے بلا احرام گذرا اور آگے جاکر احرام باندھا اور مکہ پہنچنے سے پہلے لوٹا اور میقات پر پہنچ کر تلبیہ پڑھ لیا، تو دم ساقط ہوگیا۔ اگر تلبیہ نہیں پڑھا ،تو دم ساقط نہیں ہوگا ۔
مسئلہ: میقات پر احرام نہیں باندھا اور آگے چل کر احرام باندھااور مکہ بھی پہنچ گیا، مگر افعال حج شروع نہیں کیا تھا کہ پھر لوٹ کر میقات پر آیا اور تلبیہ پڑھا، تو دم ساقط ہوجائے گا ۔
مسئلہ : میقات سے بغیر احرام کے گذرا اور آگے چل کر احرام باندھا، تو اس پر واجب ہے کہ لوٹ کر میقات پر آئے ،ورنہ گنہگار ہوگا اور دم بھی واجب ہوگا ۔البتہ اگر واپس آنے میں جان ومال کا خطرہ یا حج کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو،یا بیماری کی وجہ سے نہیں آسکتا ہے، تو ایسی صورت میں واپس آناواجب نہیں؛ لیکن دم واجب ہوگا، جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ کے قول سے معلوم ہوا ۔
مسئلہ : اگر میقات سے گذر کر آگے احرام باندھا اور پھر میقات پر واپس نہیں آیا، یا کچھ افعال شروع کرنے کے بعد واپس آیا، تودم ساقط نہیں ہوگا، قربانی ہوگی ۔
مسئلہ :جو شخص کسی میقات سے بلا احرام کے گذرا ہے، اس پر یہ واجب نہیں کہ اسی میقات پر واپس آئے؛ بلکہ کسی میقات پر مواقیت مذکورہ میں سے آنا کافی ہے؛ ہاں افضل یہی ہے کہ اسی میقات پر واپس آئے، جس سے گذرا تھا ۔
مسئلہ: کوئی آفاقی میقات سے آگے جانا چاہتاہے، مگر ایسی جگہ جارہا ہے، جو حرم کے حددو کے اندر داخل نہیں ہے؛ بلکہ حل میں ہے ،تووہاں جانے کے لیے میقات سے احرام باندھنا واجب نہیں، بغیر احرام باندھے جاسکتاہے اور پھر وہاں سے حرم کے حدود میں،یا مکہ جانا چاہے ،تو بغیر احرام کے جاسکتا ہے ،اس پر کوئی دم نہیں، یعنی جب حل کسی غرض سے گیا، تو وہ حلی ہوگیا اور حلیوں کے لیے حرم میں بغیر احرام کے جانا درست ہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے آفاقیوں ہی کو بغیر احرام کے میقات سے آگے بڑھنے سے منع کیا ہے اور حل میں پہنچ کر اگر وہاں سے حج یا عمرہ کا احرام باندھنا چاہے ،تو حل سے احرام باندھ لے ۔
مسئلہ: میقات پر جو ارادہ ہے اسی کا اعتبار ہے ۔ اگر اس کے بعد ارادہ بدل دے، تو اس کا اعتبار نہیں ۔ میقات پر مکہ کا ،یا حج، یاعمرہ کاارادہ تھا، مگر میقات پر احرام نہیں باندھا، آگے چل کر حل کا ارادہ کیا، تو یہ ارادہ دم ساقط نہیں کرے گا، کیوں کہ بغیر احرام کے آگے بڑھا ہے؛ البتہ اگر میقات ہی کے اندر حل کا ارادہ تھا اور بغیر احرام میقات سے آگے بڑھا، پھر مکہ کا ارادہ ہوگیا، تو اس پر کوئی دم نہیں؛ لیکن اس کو حل کے اندر احرام باندھ لینا چاہیے ۔
مسئلہ : آفاقی شخص اگر حرم میں، یا مکہ میں بلا احرام کے داخل ہوجائے، تو اس پر ایک حج، یا عمرہ کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔اگرکئی مرتبہ اسی طرح بلا احرام داخل ہوا،تو اتنا ہی مرتبہ اس پر حج ،یا عمرہ واجب ہوگا ۔
مسئلہ: مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونے کی وجہ سے جو حج یا عمرہ واجب ہواتھا، اس کے قائم مقام حج فرض، یا حج نذر، یا عمرہ نذر ہوجا ئے گا، اگر چہ اس کی نیت نہ کی ہو، بشرطیکہ اسی سال حج یا عمرہ کیا ہوجس سال داخل ہوا تھا۔ اگر یہ سال گذر گیا، تو پھر اس کے لیے مستقل حج یا عمرہ واجب ہوگا ۔
مسئلہ : جو لوگ میقات کے رہنے والے ہیں ،جیسے ذوالحلیفہ والے، یا میقات اور حرم کے درمیان رہتے ہیں، اگر وہ حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ جائیں ،تو ان پر حل کے اندر احرام باندھنا واجب ہے ۔(ہدایہ) اور اگر حج یا عمرہ کے ارادہ سے نہ جائیں، تو ان کے لیے احرام باندھ کر جانا واجب نہیں ہے، بلااحرام مکہ میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی وہ آفاقی، جو حل میں مقیم ہو گیا ،ان کو بھی جب حج ،یا عمرہ کا ارادہ نہ ہو،تو بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا جائز ہے۔(فتح القدیر )
عن بن عباسؓ قال: اذا جاوز الوقت فلم یحرم حتی دخل مکۃ رجع الیٰ الوقت فاحرم وان خشی ان رجع الیٰ الوقت فانہ یحرم ویحریق لذلک دما ( رواہ اسحاق بن راھویہ فی مسندہ)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا: جب کوئی شخص میقات سے آگے بڑھ جائے اور احرام نہ باندھے، یہاں تک کہ مکہ آجائے، تو وہ میقات کی طرف لوٹے اور احرام باندھے۔ اور اگر میقات کی طرف لوٹنے میں ( حج فوت ہونے کا یا جان کا )ڈر ہو،تو وہیں احرام باندھ لے اور میقات پر احرام نہ باندھنے کی وجہ سے دم دے ۔
مسئلہ : میقات سے بلا احرام گذرا اور آگے جاکر احرام باندھا اور مکہ پہنچنے سے پہلے لوٹا اور میقات پر پہنچ کر تلبیہ پڑھ لیا، تو دم ساقط ہوگیا۔ اگر تلبیہ نہیں پڑھا ،تو دم ساقط نہیں ہوگا ۔
مسئلہ: میقات پر احرام نہیں باندھا اور آگے چل کر احرام باندھااور مکہ بھی پہنچ گیا، مگر افعال حج شروع نہیں کیا تھا کہ پھر لوٹ کر میقات پر آیا اور تلبیہ پڑھا، تو دم ساقط ہوجائے گا ۔
مسئلہ : میقات سے بغیر احرام کے گذرا اور آگے چل کر احرام باندھا، تو اس پر واجب ہے کہ لوٹ کر میقات پر آئے ،ورنہ گنہگار ہوگا اور دم بھی واجب ہوگا ۔البتہ اگر واپس آنے میں جان ومال کا خطرہ یا حج کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو،یا بیماری کی وجہ سے نہیں آسکتا ہے، تو ایسی صورت میں واپس آناواجب نہیں؛ لیکن دم واجب ہوگا، جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ کے قول سے معلوم ہوا ۔
مسئلہ : اگر میقات سے گذر کر آگے احرام باندھا اور پھر میقات پر واپس نہیں آیا، یا کچھ افعال شروع کرنے کے بعد واپس آیا، تودم ساقط نہیں ہوگا، قربانی ہوگی ۔
مسئلہ :جو شخص کسی میقات سے بلا احرام کے گذرا ہے، اس پر یہ واجب نہیں کہ اسی میقات پر واپس آئے؛ بلکہ کسی میقات پر مواقیت مذکورہ میں سے آنا کافی ہے؛ ہاں افضل یہی ہے کہ اسی میقات پر واپس آئے، جس سے گذرا تھا ۔
مسئلہ: کوئی آفاقی میقات سے آگے جانا چاہتاہے، مگر ایسی جگہ جارہا ہے، جو حرم کے حددو کے اندر داخل نہیں ہے؛ بلکہ حل میں ہے ،تووہاں جانے کے لیے میقات سے احرام باندھنا واجب نہیں، بغیر احرام باندھے جاسکتاہے اور پھر وہاں سے حرم کے حدود میں،یا مکہ جانا چاہے ،تو بغیر احرام کے جاسکتا ہے ،اس پر کوئی دم نہیں، یعنی جب حل کسی غرض سے گیا، تو وہ حلی ہوگیا اور حلیوں کے لیے حرم میں بغیر احرام کے جانا درست ہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے آفاقیوں ہی کو بغیر احرام کے میقات سے آگے بڑھنے سے منع کیا ہے اور حل میں پہنچ کر اگر وہاں سے حج یا عمرہ کا احرام باندھنا چاہے ،تو حل سے احرام باندھ لے ۔
مسئلہ: میقات پر جو ارادہ ہے اسی کا اعتبار ہے ۔ اگر اس کے بعد ارادہ بدل دے، تو اس کا اعتبار نہیں ۔ میقات پر مکہ کا ،یا حج، یاعمرہ کاارادہ تھا، مگر میقات پر احرام نہیں باندھا، آگے چل کر حل کا ارادہ کیا، تو یہ ارادہ دم ساقط نہیں کرے گا، کیوں کہ بغیر احرام کے آگے بڑھا ہے؛ البتہ اگر میقات ہی کے اندر حل کا ارادہ تھا اور بغیر احرام میقات سے آگے بڑھا، پھر مکہ کا ارادہ ہوگیا، تو اس پر کوئی دم نہیں؛ لیکن اس کو حل کے اندر احرام باندھ لینا چاہیے ۔
مسئلہ : آفاقی شخص اگر حرم میں، یا مکہ میں بلا احرام کے داخل ہوجائے، تو اس پر ایک حج، یا عمرہ کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔اگرکئی مرتبہ اسی طرح بلا احرام داخل ہوا،تو اتنا ہی مرتبہ اس پر حج ،یا عمرہ واجب ہوگا ۔
مسئلہ: مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونے کی وجہ سے جو حج یا عمرہ واجب ہواتھا، اس کے قائم مقام حج فرض، یا حج نذر، یا عمرہ نذر ہوجا ئے گا، اگر چہ اس کی نیت نہ کی ہو، بشرطیکہ اسی سال حج یا عمرہ کیا ہوجس سال داخل ہوا تھا۔ اگر یہ سال گذر گیا، تو پھر اس کے لیے مستقل حج یا عمرہ واجب ہوگا ۔
مسئلہ : جو لوگ میقات کے رہنے والے ہیں ،جیسے ذوالحلیفہ والے، یا میقات اور حرم کے درمیان رہتے ہیں، اگر وہ حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ جائیں ،تو ان پر حل کے اندر احرام باندھنا واجب ہے ۔(ہدایہ) اور اگر حج یا عمرہ کے ارادہ سے نہ جائیں، تو ان کے لیے احرام باندھ کر جانا واجب نہیں ہے، بلااحرام مکہ میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی وہ آفاقی، جو حل میں مقیم ہو گیا ،ان کو بھی جب حج ،یا عمرہ کا ارادہ نہ ہو،تو بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا جائز ہے۔(فتح القدیر )