8 Apr 2018

حرف نون کا اعلان وسقوط

قسط نمبر (14) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
حرف نون کا اعلان وسقوط
صوتی اعتبار سے نون کی دو قسمیں ہیں: نون غنہ، نون اعلانیہ۔ نونِ غنہ کی آواز ناک سے نکالی جاتی ہے۔ اور اس میں کوئی حرکت نہیں ہوتی،جیسے:چیونٹی،جہاں،وہاں۔اورنون اعلانیہ میں نون بالکل ظاہر کر کے پڑھا جاتا ہے،جیسے: دھڑکن، دولہن،دلارن۔
اساتذۂ فن کے مابین یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے کہ کہاں پر اعلانِ نون ہوگا اور کہاں پر سقوط۔اس حوالے سے فیصلہ کن بات تو یہی ہے کہ جہاں پر مذاق سلیم جس کا متقاضی ہوگا وہاں پر ویسا ہی کیا جائے گا؛ لیکن ایک نو آموز طلبہ کے لیے مذاق سلیم سے کسی بات کا فیصلہ کرنا نہ صرف مشکل ہے؛ بلکہ ناممکن ہے؛ اس لیے ذیل کی سطروں میں چند استقرائی قواعد درج کیے جارہے ہیں، جن کی روشنی میں اعلان وسقوط کے مواقع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے: 
(۱) جب کسی فارسی لفظ کے آخر میں نون ہو، اور وہ ترکیب اضافی یا ترکیب توصیفی کے طور پر استعمال ہوا ہو؛ تو نون کا اعلان نہ ہوگا ، جیسے: قلب ناتواں،دل وجاں ۔اور جب اس میں ترکیب اضافی نہ ہو، تو نون کا اظہار ہوگا، جیسے: جان،جہان ، آسمان،ایمان۔ 
(۲)اردو الفاظ کے وہ ظرف زمان،جن کے آخر میں نون ہو،اس کا اعلان نہیں ہوگا، جیسے: وہاں، یہاں، جہاں، کہاں 
(۳)فارسی ترکیب رکھنے والے وہ اسم فاعل سماعی، جس کے آخر میں نون ہو، اس کا اعلان نہیں ہوگا، جیسے: گل چیں ،خوشہ چیں ، نکتہ چیں۔ اسی طرح نون فاعلی جمع کابھی اعلان نہیں ہوگا، جیسے: رفتگاں، درخشاں۔ 
(۴)اردوالفاظ کی جمع مؤنث کے نون کا اعلان نہ ہوگا، جیسے:روٹیاں،چڑیاں،بوٹیاں، چٹائیاں، مٹھائیاں،دوائیاں۔ 
(۵)اسم عدد اور عدد وصفی کے آخر میں آنے والے نون کابھی اعلان نہیں ہوگا، جیسے:چاروں، پانچوں،ساتوں،آٹھوں تیرھواں،چودھواں،پچاسواں۔
(۶)عربی الفاظ کے جمع کے آخر میں آنے والے نون کا اعلان ہوگا، جیسے:ارکان، اوزان، اراکین، سامعین، حاضرین۔
(۷)اردو افعال کے آخر میں آنے والے نون کا اعلان نہیں ہوگا، جیسے: کہوں،لکھوں،پڑھوں، جاؤں ، سنوں پڑھوں،جاؤں،رہوں۔
(۸)جونون مصوتوں کے بعد درمیان میں آئے، تو وہ ساکن ہوگااور اس کا اظہار نہیں ہوگا، بلکہ غنہ سے پڑھا جائے گا، جیسے: سانس، مونگ پھلی،رونگٹھا،جھینگر ،بھینس۔ 
(۹)عربی اور فارسی کے الفاظ میں اگر نون غنہ ب ،پ،بھ اور پھ سے پہلے آئے، تو اس کی آواز میم میں بدل جائے گی، جیسے: انبیائے کرام، انبساط، تنباکو،منبر،سنبھل۔
(۱۰)کچھ ایسے الفاظ جن کے آخر میں نون ہو اور اس سے پہلے کوئی مصوتہ ہو، اور مصوتے کے ماقبل کی حرکت موافق ہو، تو نون کا اعلان نہیں ہوگا،بلکہ غنہ ہوگا، جیسے: کہیں،یہیں،وہاں،جبیں۔

تراکیب مُہَنَّد

قسط نمبر (13) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس

تراکیب مُہَنَّد 
’مہند‘ لفظ تہنید سے مشتق ہے۔عربی اور فارسی میں اس کے لفظی معنی:ہندستانی لوہے کی بنی ہوئی تلوار کے ہیں۔ ہندستان میں جب فارسی میں ہندستانی لفظوں کو بہ کثرت استعمال کیا جانے لگا، اور عربی وفارسی الفاظ مختلف تصرفات سے دوچار ہونے لگے، تو یہاں یہ لفظ اصطلاحی معنی میں استعمال ہونے لگا۔ ترکیب مہند کا مطلب یہ ہے کہ مرکب الفاظ کا ایک جز عربی یا فارسی ہو اور دوسرا جز کسی اور زبان سے تعلق رکھتا ہو۔ مہند کو ’اردو انا‘ بھی کہا جاتا ہے، مگر یہ اصطلاح مستعمل نہیں ہے۔ 
اردو مہند کی وضاحت کرتے ہوئے صاحبِ ’نور اللغات‘ رقمطراز ہیں : 
’تہنید کسی غیر زبان کے لفظ کو ہندی بنا لینا ، جیسے: فارسی ’دہل‘ سے ’ڈھول‘، انگریزی’لارڈ‘سے ’لاٹ‘۔ تہنید کئی طرح کی ہوتی ہے: ایک یہ کہ دوسری زبان کے لفظ کولفظاً ومعناً دونوں طرح بدلیں،جیسے:’افراتفری‘ کہ اصل میں ’افراط تفریط ‘ تھا اور اردو میں بہ معنی ’ہل چل‘ہے۔ دوسرے: صرف لفظ کو بد ل دینا، جیسے: ’پلید‘سے’پلیت‘۔ تیسرے: صرف معنوں کو بدلیں ، جیسے:’روزگار‘ فارسی میں’زمانہ‘ اردو میں’نوکری‘ ۔ چوتھے: حرکات کو بھی بدل دیں اور معنوں کو بھی،جیسے: ’مشّاطہ‘ عربی مبالغے کا صیغہ، اردومیں ’مشاطہ‘ بغیر تشدید دوم ، وہ عورت جو زن و مرد کی نسبت ٹھہرائے اور شادی کرائے۔ پانچویں: جمع کے واحد کے معنی لیں ، جیسے: ’اصول‘ ،’احوال‘۔ چھٹے : دوسری زبان کے مادہ ہائے الفاظ سے ایسے صیغے بناناجو اس زبان میں مستعمل نہ ہوں ، جیسے: ’عفو‘ اور ’عتاب‘سے’معاف‘ اور ’معتوب‘۔ جولفظ ہندی صورت اختیار کرے، اس کو ’مُہَنَّد‘کہتے ہیں۔ گویااردو میں ’مُہنّد‘کاوہی مطلب ہے جو عربی میں’ مُعَرَّب‘(وہ لفظ جو در اصل کسی اور زبان کا ہو اور اس کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ عربی بنالیا ہو، جیسے: ’مُشک‘ سے ’مِسک‘ ۔
چوں کہ اردو کی خمیر میں مختلف زبانوں کے الفاظ اور تراکیب شامل ہیں، جن میں زیادہ تر عربی اور فارسی کے الفاظ وتراکیب ہیں، لیکن عربی وفارسی وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ باقاعدہ فارسی ترکیب دینا قابل اعتراض اور عموماً غیر معتبر سمجھا گیا ہے، اس لیے اس حوالے سے چند قواعد یہاں لکھے جارہے ہیں،تاکہ ان سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ کہاں پر ترکیب در ست اور معتبر ہوگی اور کہاں پرنہیں ہوگی۔ لیکن یہ ملحوظ خاطر رہے کہ ان قواعد میں ایسی قطعیت نہیں ہے کہ ان سے سرموانحراف درست نہیں۔ تاہم اکثر مواقع پر ان کی رعایت بھی ناگزیر ہے۔ 
ترکیب مہند کی تین صورتیں ہیں:(۱)عطفی مرکبات(۲)اضافی مرکبات۔اس میں توصیفی مرکبات بھی شامل ہیں(۳)غیر عطفی وغیر اضافی مرکبات۔ 
عطفی واضافی مرکبات کے چند قاعدے
(۱) ایسے الفاظ ، جو فارسی اور عربی کے انداز پر بنے ہوں اور شکل وصورت میں عین عربی وفارسی کے معلوم ہوتے ہوں؛ مگر وہ یہیں کی پیدا وار ہوں ، جیسے: شکریہ ،رہائش ،یگانگت ،مرغن،جنات وغیرہ ؛ ایسے تمام لفظوں کو عطفی واضافی ترکیبوں کے ساتھ بلا تکلف استعمال کرنا درست ہے،جیسے:شکرے�ۂ احباب، محبت ویگانگت،سکونت ورہائش،غذائے مرغن،یومِ پیدائش،جائے پیدئش۔ 
(۲)فارسی وعربی کے وہ الفاظ ،جن میں مختلف قسم کے تصرفات ہوئے ہوں:یا تو نئے معنی کا اضافہ ہو گیا ہو،جیسے:’مشکورعربی میں اس کو کہتے ہیں،جس کا شکریہ ادا کیا جاے؛ مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں،جو کسی کا شکریہ ادا کرے‘۔ اورجیسے:شادی،راشی،شادی،تکراروغیرہ۔اوریاصورت میں ذراسی ترمیم ہو گئی ہو، جیسے: جواہرات کہ اس کی اصلی شکل’جواہر‘ہے،اور جیسے:غلطی،دائمی وغیرہ۔ایسے تمام الفاظ میں عطفی و اضافی دونوں ترکیبیں درست ہیں۔نیز ایسے الفاظ، مرکب کا ایک جز بھی ہو سکتے ہیں اور دونوں جز بھی، جیسے : غلطی ہائے مضامین، رنجش وتکرار،محربِ آبِ وراں،شبِ شادی ،جواہراتِ شاہی ۔
(۳)وہ تمام الفاظ ،جو ہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں، (جس کو الف سے بد لنا درست ہے) چوں کہ ہائے مختفی فارسی کے ساتھ خاص ہے ، اردو میں اس کی جگہ ’الف‘ آتاہے، اور اکثر صورتوں میں ہائے مختفی الف کے آواز کو قبول کر لیتی ہے، اس لیے ایسے لفظوں میں عطفی واضافی دونوں ترکیبیں درست ہوں گی، جیسے:شمع وپروانہ، دیوانہ ومستانہ، نان وحلوہ، لطفِ نظارہ، کیفِ جلوہ، صحرائے زمانہ، خدائے واحد، جلوۂ جاناں۔،کوچۂ عاشقاں۔
(۴)ہندی وغیرہ کے ایسے اسما واعلام،جن کا بدل موجود نہ ہو ، ان کو عطفی واضافی ترکیبو ں میں استعمال کرنا درست ہے؛ لیکن ایسے اعلام کا مرکب کے ایک جز کے طور پر آنا چاہیے، جیسے:صبحِ بنارس،سمتِ کاشی، آغوشِ لیلا، جانبِ متھرا،شام اودھ، رام وراون، دلی وپٹنہ،سیتاوبسنتی۔
(۵)ہندی وانگریزی کے ایسے تمام الفاظ ، جو عام طور پر اردو میں مستعمل ہیں اور ان کا اردو میں بدل نہیں ہیں، جیسے: اسٹیشن ، ڈگری ، ممبر،چندا،سڑک،سول سروس وغیرہ۔یا وہ الفاظ جو مہینوں اور موسموں کے نام ہیں، جیسے: کاتک، جنوری،خزاں،برسات،بہار۔ یا وہ اسمائے جنس ہیں، جیسے: نیل گائے،گدھا۔ ایسے تمام الفاظ میں اضافی وعطفی ترکیبیں درست ہیں،جیسے:موسمِ برسات،خدماتِ سول سروس،سوئے نیل گائے،امام باڑہ،ماہ جنوری،چندہ ودھندھا،ممبران پارلیامنٹ، ترقیِ کمیٹی،ڈگری وسند، جانب سڑک، لبِ سڑک۔
نوٹ: اگر دونوں جز انگریزی کے ہوں یا ہندی کے ہوں ، تو ترکیب وہیں پر درست ہوگی جہاں مذاق سلیم ناگواری محسوس نہ کرے، جیسے: ممبرانِ پارلیامنٹ۔اور جہاں مذاق سلیم ناگواری محسوس کرے،وہاں ترکیب درست نہ ہوگی ، لہذا انجنِ ریل،بوگیِ ٹرین ، گوشتِ بھینس وغیرہ نہیں کہا جائے گا۔ 
(۶)ایسے الفاظ، جو شکل وصورت سے فارسی الاصل معلوم ہوتے ہوں یا عربی الاصل لگتے ہوں (خواہ وہ کسی بھی زبان کے ہوں) اگروہ اردو زبان کے مزاج سے ہم آہنگ ہوں اور مذاق سلیم ان کو ناگوار نہ سمجھے، تو ایسے لفظوں میں بھی عطفی واضافی ترکیبیں درست ہوں گی، جیسے: صرفِ چلمن۔ع
کررکھا ہے کلسِ گنبدِ دستار اسے (سوادؔ )
ان میں ’چلمن‘ اور ’کلس‘ فارسی الاصل معلوم ہوتے ہیں اور جیسے: ’کف رومان‘ میں’ رومان‘ عربی نژاد معلوم ہوتاہے۔چوں کہ ان ترکیبوں میں بالکل بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہورہاہے ، اس لیے ان میں دونوں ترکیبیں درست ہیں۔ اور جیسے: زمزمۂ واہ واہ، موجِ لہو، دستاربسنتی وغیرہ۔ 
(۷)ایسے الفاظ اور جملے، جن کے درمیان حرف عطف ہو، اور وہ عطف ناگوار محسوس نہ ہو، تو ایسی عطفی ترکیب درست ہوگی، جیسے: ؂
گل گراں گوش و چمن صورت حیراں ہے 
کس گلستاں میں ہمیں حکم غزل خوانی ہے
یہ جو رو جورش تھے کہاں آگے عشق میں 
تجھ سے جفا ومیر سے رسم وفا چلی 
اس میں گوش و چمن اور جفا و میر میں کوئی ناگواری محسوس نہیں ہو رہی ہے۔اور اگر ناگوار صورت پیدا ہوجائے ، تو یہ ترکیب ناقابل قبول ہوگی، جیسے: ؂ 
جوں ابر بے کسانہ روتے اٹھے ہیں گھر سے 
برسے ہے عشق اپنے دیوار سے ودرسے 
دیوا رسے و در سے میں نہایت ناگوار صورت پیدا ہوگئی ہے، اس لیے یہ قابل قبول نہیں ۔ 
(۸)ایسے الفاظ، جن کے دونوں اجزا میں سے ایک جز فارسی اور عربی کے علاوہ ہو ، اور دوسرا جز ہندی یا انگریزی کا ہو، تو ان میں عطفی ترکیب درست ہوگی، جیسے:چرخی وبان۔ ؂
لگیں ا س کو نہ جب تک راج ومزدور 
کوئی رہ گیا موش ومینڈک کا زور
(۹)ایسے الفاظ ، جن کے دونوں جز ہندی ہوں یا ایک ہندی اور دوسرا غیر ہندی (عربی وفارسی وغیرہ) ہو؛ تو ان میں کسرۂ اضافت درست نہیں ، جیسے: دیوارِ گھر ،سرکارِ ساقی ،چاہتِ صدیق ۔ 
(۱۰)موصو ف کے آخر میں کسرۂ اضافت اردو میں درست نہیں ، جیسے: پھولِ خوب ،قلمِ اچھا، اونٹِ بے نکیل،بھینس موٹا وغیرہ۔
نوٹ: غیر عربی وفارسی الفاظ کے ٹکڑے اکثر واوِ عطف کے بغیر آتے ہیں، انھیں واو عطف کے ساتھ لانا فصاحت کے خلاف ہے، جیسے:دانہ پانی، پھول پھل ، ہاتھ پیر، دن رات۔ان الفاظ کو پھول وپھل ، ہاتھ و پیر اور دن و رات لکھنابولنا درست نہیں ہے ۔ 
غیر عطفی اور غیر اضافی مرکبات کے چند قاعدے
ہر طرح کے غیر اضافی اور غیر عطفی مرکبات کا استعمال درست ہے، ان کی چند صورتیں ہیں: 
(۱)وہ مرکب الفاظ،جن کے دونوں جز اسم ہوں، جیسے: گل بدن ،پن چکی، قلم کار،ناول نگار۔
(۲)وہ مرکبات، جن کا ایک جز فعل ہو اور اردو یا ہندی سے تعلق رکھتا ہو، اور دوسرا جز اسم ہو، جو عربی یا فارسی کا ہو، جیسے: دم کٹا، دل جلا، دل شکن، کفر توڑ ،دل لگی،دل جلا، فوق البھڑک۔
(۳) وہ مرکبات، جو اسم وفعل پر مشتمل ہوں ، اور دونوں جز عربی وفارسی کے علاوہ ہوں، جیسے: من چلا، منہ بولا ، آنکھ پھوڑ، لٹھ مار، تیس مار، دانت کاٹی،رس بھری۔
(۴)وہ مرکبات، جن کے دونوں جزعربی یا فارسی کے ہوں ، مگر وہ اردو کے انداز پر ہوں ، جیسے: عمر قید،لٹھ باز،تھانے دار۔ یاان کے دوسرے جزمیں یا ئے نسبتی اور یائے مصدری کا اضافہ ہو، جیسے: لٹھ باز ی، گھڑی سازی،تھانے داری۔
(۵)وہ مرکبات ،جو فارسی کے سابقوں اور لاحقوں سے بنے ہوں،جیسے:بے ڈھپ،گاڑی بان، کاری گر،صنعت کار،دل کش۔
(۶)وہ مرکبات، جن میں فارسی افعال ایک جز کے طور پر آئیں، جیسے: کھدر پوش، پھول دار ، ڈگری یافتہ، سنسنی خیز، رجسٹری شدہ، تھوک فروش۔
(۷)وہ مرکبات ،جن میں فارسی افعال کسی تصرف کے ساتھ آئے ہوں، جیسے: اٹھائی گیرا، صبح خیزیا۔ 
(۸)وہ مرکبات، جن کا ایک جز فارسی یا عربی ہو اور دوسرا مقامی ، جیسے: ڈاک خانہ، دھوکے باز، عجائب گھر ، چڑیا گھر،ٹکڑگدا،لنگر خانہ، جیل خانہ، کٹھ ملا۔
غیر عطفی اورغیراضافی مرکبات کی یہ تمام صورتیں اردو میں مستعمل ہیں۔ 

واحداور جمع

قسط نمبر (12) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
واحد اور جمع
واحد: وہ ہے جس سے ایک چیز سمجھی جاتی ہے،جیسے: کتاب،قلم،دوات،کاپی۔ 
جمع :وہ ہے جس سے دو یا اس سے زیادہ چیزیں سمجھی جاتی ہیں، جیسے: کتابیں،قلموں، دواتوں، رسالوں، کاپیوں،لوگوں،مدارس،مکاتب۔
جمع بنانے کے قاعدے 
(۱)جن مذکر اسموں کے آخر میں الف یا ہ ہو ، اسے’ ے‘ سے بدل دیتے ہیں ،جیسے: لڑکاسے لڑکے،بندہ سے بندے ،شہزادہ سے شہزادے، گھوڑا سے گھوڑے۔ 
(۲)جس اسم مؤنث کے آخر میں یائے معروف ہو، اس کے آخر میں ’اں‘ بڑھا دیتے ہیں، جیسے:لڑکیاں، کھڑکیاں،بچیاں،بیویاں۔
(۳)جس اسم مؤنث کے آخر میں ’یا‘ہو،اس کے آخرمیں ’ں‘بڑھا دیتے ہیں،جیسے:چڑیاسے چڑیاں،گڑیاسے گڑیاں۔
(۴)اگر اسم مؤنث کے آخر میں نہ تو ’ی‘ ہو اور نہ ہی ’یا‘تو اس کے آخر میں یا اور نون بڑھا دیتے ہیں، جیسے:رات سے راتیں،دعا سے دعائیں،کتاب سے کتابیں، دوات سے دواتیں۔
(۵)حالت ندا میں جمع بنانے کے لیے مذکر اور مؤنث دونوں کے آخر میں واوِمجہول بڑھا دیتے ہیں، جیسے:مردو!عورتو!۔
(۶)جس اسم کے بعد علامت فاعل:’نے‘،علامت مفعول: ’کو،سے‘ یا حروف جار (کا ،کے، کی)وغیرہ ہوں ، تو اس میں واو اور نون بڑھا دیتے ہیں، جیسے: مردوں نے،عورتوں سے ، بچوں کو۔
(۷)اگر اسم مذکر کے آخر میں اں(الف اور نون غنہ)ہو ؛تو ان کو گرا کر ہمزہ ،ی اور نون غنہ بڑھادیتے ہیں، جیسے:کنواں سے کنوئیں، دھواں سے دھوئیں۔
(۸)اگر اسم مؤنث کے آخر میں واو معروف یا الف ہو ، تو ہمزہ ،ی اور نون بڑھا دیتے ہیں،جیسے:دعا سے دعائیں ،خوشبو سے خوشبوئیں۔
(۹)اگر اسم مؤنث کے آخر میں نون ظاہر ہو؛تو ی اور نون غنہ بڑھا دیتے ہیں جیسے:سالن سے سالنیں ، لاٹین سے لالٹینیں،دھڑکن سے دھڑکنیں۔ 
(۱۰)فارسی کے وہ الفاظ، جو جان داروں کے نام ہوں ،ان کے آخر میں الف اور نون غنہ بڑھا دیتے ہیں ، جیسے:مرد سے مرداں، بہادر سے بہادراں،نامور سے ناموراں ۔
(۱۱)جان داروں کے نام کے آخر میں ’ہ ‘ ہو ،تو اسے حذف کرکے لفظ ’گان‘ بڑ ھا دیتے ہیں، جیسے:باشندہ سے باشندگان،بندہ سے بندگان۔
(۱۲)بے جان چیزوں کے ناموں کے فارسی الفاظ میں ’ہا‘اور ’اں‘جوڑ دیتے ہیں، جیسے: گل سے گلہا، درخت سے درختاں،سگ سے سگہا،صد سے صدہا۔
(۱۳)واحد کا وزن برقراررکھتے ہوئے آخر میں ’الف ، تا‘،’وں‘ اور’ ین‘ بڑھا دیتے ہیں، جیسے: سوالات، کمالات،دوکانوں ،قلموں،معلمین،مدرسین۔
(۱۴)عربی الفاظ کے واحد میں گھٹا بڑھا کر جمع بناتے ہیں ،جیسے:شاعر سے شعرا، کتاب سے کتب،مدرسہ سے مدارس،مسجد سے مساجد۔عالم سے علما،جاہل سے جہلا۔
نوٹ:کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جو قاعدے کی رو سے جمع ہیں ،لیکن اردو میں واحد ہی استعمال کیے جاتے ہیں،جیسے:اصول،اوائل،افواہ۔اور کچھ الفاظ ایسے ہیں،جو ہمیشہ واحد استعمال ہوتے ہیں، جیسے: درد،پانی،بخار،جوانی۔اور کچھ الفاظ ہمیشہ جمع استعمال ہوتے ہیں،جیسے:والد، والدہ،استاذ، اوسان وغیرہ۔

جنس کابیان


قسط نمبر (11) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
جنس کابیان
دنیا کی تمام زبانوں میں دو قسم کی چیزیں ہوتی ہیں:ایک مذکر،دوسری مؤنث۔او ران دونوں کے لیے لفظ’جنس‘ بولاجاتا ہے،لہذا جنس کی دو قسمیں ہوئیں: مذکراور مؤنث۔پھر ان دونوں کی دودو قسمیں ہیں:حقیقی ، غیر حقیقی ۔ہر ایک کی تعریف درج ذیل ہے:
مذکر حقیقی:اسے کہتے ہیں جس کے مقابلے میں کوئی جان دارمؤنث ہوتی ہے،جیسے: لڑکا، مرد، باپ ،بیٹا،پوتا،دادا۔
مؤنث حقیقی:وہ ہے جس کے مقابلے میں کوئی جان دار مذکر ہوتا ہے، جیسے: عورت،لڑکی ، گھوڑی،بیوی،ساس،سمدھن۔
مذکر غیر حقیقی :وہ ہے جس کے مقابلے میں کوئی جان دارمؤنث نہیں ہوتی، جیسے:درخت ، قلم،پتھر،گھر،مکان،بیگ۔
مؤنث غیر حقیقی: وہ ہے جس کے مقابلے میں کوئی جان دار مذکر نہیں ہوتا،جیسے:کاپی، کتاب، دوات،روشنائی،تِپائی،چٹائی،دھلائی۔ 
مذکر حقیقی سے مؤنث حقیقی بنانے کے قاعدے 
مذکر الفاظ کے آخری حروف کے بدلنے یاآخر میں ایک حرف یا کئی حرفوں کے بڑھانے سے مذکر حقیقی ، مؤنث حقیقی میں تبدیل ہوجاتاہے ۔اس کی چند صورتیں ہیں:
(الف)ہندی اور فارسی کے وہ مذکر الفاظ، جن کے آخر میں’الف یا ہ‘ ہو ،انھیں یائے معروف سے بدل دیتے ہیں،تووہ مؤنث حقیقی بن جاتے ہیں، جیسے:لڑکا سے لڑکی،شہزادہ سے شہزادی،بندہ سے بندی،بیٹا سے بیٹی،پوتا سے پوتی۔
(ب)مذکر الفاظ کے’ الف یا ی‘ کو نون سے بدلنے سے مؤنث حقیقی بنتا ہے،جیسے:ہجڑا سے ہجڑن،جوگی سے جوگن،دولہاسے دولہن ؛لیکن یہ قاعدہ ذوی العقو ل کے ساتھ خاص ہے۔
(ج)مذکر الفاظ کے آخر میں یائے معروف بڑھانے سے بھی مؤنث بنتا ہے ،جیسے: برہمن سے برہمنی ، بوڑھن سے بوڑھنی۔
(د)مذکرالفاظ کے آخرمیں لفظ’نی‘یا’انی‘بڑھاکربھی مؤنث حقیقی بنایاجاتاہے،جیسے:شیر سے شیرنی،سید سے سیدانی،سیٹھ سے سیٹھانی۔
(ہ)مذکر الفاظ کے آخر میں کچھ تبدیلی یابغیر تبدیلی کے ’یا‘بڑھانے سے بھی مذکر حقیقی مؤنث حقیقی میں بدل جاتاہے،جیسے:کتا سے کتیا، بوڑھا سے بوڑھیا،چوہا سے چوہیا۔
مذکر حقیقی اور مذکر غیر حقیقی کی شناخت کے اصول
(۱)پیشہ وروں کے ہندی نام، جن کے آخر میں یائے معروف ہو، جیسے: دھوبی،موچی،بڑھء۔
(۲)عربی کے وہ الفاظ ،جن کے آخر میں یائے معروف ہو،جیسے:مولوی،مفتی،قاضی۔ 
(۳)وہ الفاظ، جن کے آخر میں یائے نسبتی ہو، جیسے:ہندستانی،شہری، پاکستانی۔
(۴)وہ الفاظ جن کے آخر میں الف یا ہا ئے مختفی ہو، جیسے:تارا،لوہا،پروانہ،مستانہ، قورمہ،دانہ ، سودا،موٹا۔
(۵)تمام مہینوں کے نام(خواہ وہ کسی بھی زبان کے ہوں) جیسے:محرم،کاتک،جنوری وغیرہ ۔
(۶)دنوں کے نام سوائے جمعرات کے، جیسے:سنیچر ،اتوار،پیر،منگل،بدھ۔
(۷)دھاتوں اور جواہرات کے نام ،جیسے:لوہا، ہیرا،سونا،پیتل۔
(۸)وہ الفاظ جن کے آخر میں لفظ ’بند‘ہو،جیسے:ازار بند،کمربند،بازوبند۔
(۹)جن کلموں کے آخر میں لفظ’بان‘ہو،جیسے:بادبان،سائبان،بیابان۔
(۱۱)جن کلموں کے آخر میں لفظ’دان‘ہو ،جیسے:قلم دان،روشن دان۔
(۱۲)جن کلموں کے آخر میں لفظ’واں‘ہو،جیسے:کارواں، دھواں، ناتواں،ساتواں۔
(۱۳)جن کلموں کے آخر میں لفظ ’ستاں‘ہو،جیسے:شبستاں،کوہستاں، زمستان۔
(۱۴)جن ہندی کلموں کے آخرمیں الفاظ:پن،پنااورپامیں سے کوئی ایک ہو،جیسے: لڑکپن،بچپن، بچپنا، بڑھاپا،موٹاپا۔
(۱۵)اللہ تعالیٰ کے تمام نام،جیسے:اللہ،خدا،رحمٰن،رحیم،کریم۔
(۱۶)پہاڑوں کے نام،جیسے:کوہ ہمالیہ،کوہ قاف،کوہ عدن۔
(۱۷)اقوام ومذاہب کے نام، جیسے:ہندو،مسلم ،عیسائی،سکھ۔
(۱۸)ستاروں اور شہروں کے نام،جیسے:گڈا،پٹنہ، مریخ،عطارد۔
(۱۹)اردوکے تمام مصادراور عربی کے وہ مصادر،جن کے شروع میں الف ہو،جیسے: کرنا، سونا، استقبال کرنا، اقبال،اظہار،اقرار۔
(۲۰)وہ الفاظ، جن کے آخر میں تائے مخففہ یعنی’ۃ‘ہو،جیسے:معانقہ، موازنہ،معاملہ۔
(۲۱)وہ تمام اسما جن کے آخر میں یا تو’ار‘ہو،جیسے:کوہسار،آبشار،اخبار، کردار۔یاپھر’ان‘ ہو،جیسے: میدان،گمان،احسان،ارمان۔
(۲۲)غیر جان دارچیزیں،جن کے آخر میں ’ی‘ نہ ہو جیسے:گھر،درخت،برتن،قلم،پتھر،آسمان۔
ان تمام صورتوں میں ، الفاظ مذکر ہوں گے۔
مؤنث حقیقی او رمؤنث غیرحقیقی کی شناخت کے اصول
(۱)ہندی کے تمام مصغر الفاظ ،جن کے آخر میں’یا‘ ہو،جیسے:ڈبیا،پڑیا، چڑیا، بڑھیا،دنیا۔
(۲)عربی کے’ سہ حرفی‘ الفاظ، جیسے:ادا، قضا،خطا،وبا،دعا۔
(۳)عربی کے بعض مصادر، جن کے آخرمیں’الف ‘ہو ،جیسے:التجا،ابتدا، ارتقا،انتہا۔ 
(۴)فارسی،عربی اور ہندی کے بعض اسما، جن کے آخر میں ’ہائے ملفوظی ‘ہو،جیسے:راہ، پناہ،نباہ،باہ۔
(۵)جن الفاظ کے آخر میں ’یائے معروف‘ہو،جیسے:بجلی،کنگھی،مکڑی،لڑکی،نیکی۔
(۶)جن عربی،فارسی اورہندی الفاظ کے آخر میں’ت‘ہو،جیسے:ندامت،دولت،شرافت۔ 
(۷)جن کلموں کے آخر میں لفظ’کار‘ہو،جیسے:سرکار،للکار،پھٹکار، دھتکار۔
(۸)جن ہندی کلموں کے آخر میں ’سین مصدری‘ہو،جیسے:مٹھاس،کھٹاس،بکواس،پیاس۔
(۹)جن کلموں کے آخر میں’نون‘ہو،جیسے:دھڑکن،پھڑکن،دلہن۔
(۱۰)زبانوں کے نام،جیسے:عربی،فارسی،اردو،ہندی ،مراٹھی۔
(۱۱)آواز کے سارے نام، جیسے:کوکو،غٹ غٹ،ککڑوں کوں،پھنکار،تڑاتڑ،ٹن ٹن، بھوں بھوں، میاؤں میاؤں،کھوں کھوں،کائیں کائیں۔
(۱۲)فارسی کے دو لفظوں سے مرکب الفاظ،جیسے:آمدو رفت،زدو کوب۔
(۱۳)نمازوں کے نام،جیسے:فجر،ظہر،عصر، مغرب ، عشا، تہجد۔
(۱۴)حاصل مصدر(خواہ وہ فارسی ہو یاہندی)یا اسمائے کیفیات،جیسے:لوٹ، مہک، جھلک، کمائی، دھلائی، ڈھلائی،رسائی۔
(۱۵)عربی کے وہ مصادر، جو باب تفعیل سے ہوں،جیسے:تقدیر ،تحریر، تحریک، تنظیم ،ترتیب ،تذکیر، تانیث،تعبیر،تحسین،تبدیل،تشریف۔
(۱۶)اوقات کے نام،جیسے:صبح ،شام،دوپہر،سہ پہر،چہار پہر۔
(۱۷)جن کلموں کے آخر میں ’الف ونون‘ یا’نون‘’نی‘اور ’ویں‘ ہو،جیسے:بکریاں،ہرنیاں،چڑیاں، دعائیں، کتابیں،زبانی،کہانی،پانچویں، ساتویں۔
(۱۸)اردو ، فارسی اور عربی کے تمام مصادر،جن کے آخر میں ت،ٹ،س، ش،ن،میں سے کوئی ایک ہو، جیسے : کہاوت، ملاوٹ، دسترس ، کوشش،جلن ، چلن۔
(۲۰) جن الفاظ کے آخر میں لفظ ’گاہ ‘ہو جیسے :بارگاہ ، درگاہ ، عید گاہ ، قربان گاہ۔
ان سب صورتوں میں الفاظ مؤنث استعمال ہوں گے۔ 
فائدہ:حروف تہجی میں سے ب، پ، ت، ٹ، ث، چ، ح، خ، د، ڈ، ذ، ر، ڑ،ز،ژ،ط،ظ،ف،ہ، ھ،ی ، ے، مؤنث ہیں۔ اور باقی حروف مذکر ہیں۔ جیم ، ہمزہ او ر میم میں اختلاف ہے۔مگر مذکر راجح ہے اور د،ڈاور ذ میں بھی اختلاف ہے،مگر مؤنث مرجح ہے۔نیز مرکب الفاظ اگر جا ن دار کے لیے بولے جاتے ہوں ؛تو مذکر استعمال ہوتے ہیں، جیسے:ماں باپ جارہے ہیں۔اور اگر وہ مرکب الفاظ بے جان کے لیے ہوں ،تو اپنے آخری الفاظ کے اعتبار سے مذکر یا مؤنث بولے جاتے ہیں ،جیسے:ڈاک خانہ۔شب و روز(مذکر) اور آب و ہوا ۔سال گرہ (مؤنث)۔ 
نوٹ : کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جو مذکر اور مؤنث دونوں استعمال ہوتے ہیں،انھیں جنس عام یا جنس مستوی کہا جا تا ہے،جیسے:بلبل،نقاب،سحر، آغوش،املا ، ایجاد، برف،پستان ، رمز، طرز ،قلم ،لالچ ، وجوہ۔
یاد رہے کہ مذکورہ بالا مذکر غیر حقیقی اور مؤنث غیر حقیقی کی شناخت کے اصول کچھ سماعی کچھ قیاسی اور کچھ استقرائی ہیں، مذکورہ بالا میں ہی منحصر نہیں ہیں ۔

حروفِ مرکبہ کی خصوصیات

قسط نمبر (10) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس

حروفِ مرکبہ کی خصوصیات 
آپ :غائب وحاضرکے لیے بطورِ تعظیم استعمال کیا جاتا ہے،جیسے: آپ تشریف لائے،آپ کب آرہے ہیں؟آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟
ات:بعض کلمات میں لاحقے کے طور پراستعمال ہوتا ہے اور مصدری معنی کا فائدہ دیتاہے، جیسے: بہتات،برسات۔
اپا: بطور لاحقہ کیفیت بتانے کے لیے آتاہے، جیسے:موٹاپا، بڑھاپا، اوڑھا پا۔
آر:بطورِ لاحقہ کبھی مصدری اور کبھی فاعلیت کا معنی دیتا ہے، جیسے: پھنکار، سنار،لوہار۔
آرا: اسم کے آخر میں آکرفاعلیت کا معنی دیتا ہے، جیسے: چمن آرا، جہاں آرا۔
آگیں: یہ لفظ فارسی اسم کے آخر میں آکر اسے صفت بنا دیتا ہے اور بھرا ہوا اور لب لباب کے معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: خلوص آگیں ، شر م آگیں۔
آمیز: بطورلاحقہ فاعلی معنی میں مستعمل ہے، جیسے: کم آمیز،ذلت آمیز۔
آموز: یہ بھی بطور لاحقہ فاعلی معنی میں مستعمل ہے، جیسے : سبق آموز، درس آموز،عبرت آموز۔
آور: بطور لاحقہ فاعلیت کے لیے آتا ہے، جیسے: خواب آور، نشہ آور، بارآور۔
آشام: لاحقے کے طور پر آکر فاعلی معنی پیدا کر تا ہے ،جیسے: زہر آشام، خوں آشام۔
افروز: لاحقے کے طور پر آتا ہے،جیسے: جہاں افروز،شمع افروز۔
افزا: لاحقے کے طور پر مستعمل ہے، جیسے: صحت افزا، روح افزا،ہمت افزا۔
ام: مرکبات میں سابقے کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جیسے: امسال، امروز،امشب۔
اَن : بطور سابقہ نفی کے معنی پیدا کرتا ہے ،جیسے: ان پڑھ،انجان، ان دیکھا۔
اُن: ضمیر:اس کی جمع ہے اور تعظیم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اندوز:جمع کرنے کے معنی میں لاحقے کے طور پر آتا ہے، جیسے: لطف اندوز،ذخیرہ اندوز۔
اندیش: سوچنے والے کے معنی میں بطور لاحقہ آتا ہے، جیسے: دور اندیش ،خیر اندیش،فکر اندیش۔
انگیز: برداشت اور اٹھانے والے کے معنی میں بطور لاحقہ آتا ہے، جیسے: فتنہ انگیز ،شر انگیز۔
آلود: بطور لاحقہ مفعولیت کے معنی میں مستعمل ہے، جیسے: دامن آلود، گرد آلود،خون آلود۔
انداز: فاعل کے معنی میں بطور لاحقہ مستعمل ہے، جیسے: خلل انداز، دست انداز۔
با۔بہ: سے، میں اور ساتھ وغیرہ کے معنی میں بطور سابقہ استعمال کیا جاتاہے، جیسے: باادب، بانصیب،بااخلاق ، بہ آواز بلند، بہ مشکل،بہ طور۔
باز: بطور لاحقہ فاعلی معنی دیتا ہے، جیسے: کبوتر باز، پتنگ باز،ہوا باز۔
بہر: کوئی، کسی، ہر وغیرہ کے معانی میں بطور سابقہ مستعمل ہے، جیسے: بہر کیف، بہر طور ،بہر صورت۔
باختہ: لاحقہ کے طور پر، اڑا ہوا، کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: حواس باختہ۔
بافتہ: بنا ہوا کے منی میں بطور لاحقہ مستعمل ہے، جیسے: زربافتہ۔
بان: لاحقے کے طور پر محافظ اور مالک کے معنی دیتا ہے، جیسے: بادبان،دربان،کشتی بان۔
بخش: معاف اور عطا کرنے کے معنی میں بطور لاحقہ آتا ہے، جیسے: خطا بخش ،تاج بخش، گنج بخش۔
بر:لے جانے کے معنی میں بطور لاحقہ مستعمل ہے، جیسے: دل بر ،نامہ بر۔
بند: بطور لاحقہ بندش کے معنی میں آتا ہے، جیسے: چہرہ بند،ازاربند،کمر بند۔
بردار: بطور لاحقہ فاعلی معنی میں مستعمل ہے، جیسے: حاشیہ بردار ،علم بردار، حقہ بردار۔
بے: بطور سابقہ نفی کے معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: بے ایمان،بے شعور،بے کار،بے عمل۔
پا: بطور لاحقہ آکر کیفیتی معنی پیدا کر تا ہے،جیسے: بڑھاپا،چراغ پا، دیرپا۔
پاش: چھڑکنے کے معنی میں بطور لاحقہ مستعمل ہے، جیسے: آب پاش،گلاب پاش۔
پذیر: مؤثر اور حاصل کرنے کے معنی میں لاحقے کے طور پر آتا ہے، جیسے: دل پذیر، اثر پذیر،درس پذیر،اشاعت پذیر،نصیحت پذیر۔
پژوہ: بطور لاحقہ استعمال کیاجاتا ہے، جیسے:انصاف پژوہ۔
پن:درجے اور نسبت بیان کرنے کے لیے بطور لاحقہ استعمال کیا جاتاہے،جیسے: بچپن، لڑکپن،د یوانہ پن،مسخرہ پن، آ وارہ پن۔
تر : لاحقۂ تفضیل کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جیسے: خوش تر،خوب تر، بدتر۔
تگ: مرکباتِ عطفی میں آتا ہے، جیسے: تگ ودو، تگ وتاز۔
چہ: بطور لاحقہ تصغیر کے معنی دیتا ہے، جیسے: کتاب چہ،طاق چہ،صندوق چہ۔
چیں: لاحقے کے طور پر آکر فاعلی معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: نکتہ چیں،گل چیں۔
خاستہ :اسم مفعول کے معنی میں لاحقے کے طور پر مستعمل ہے، جیسے: نوخاستہ،برخاستہ۔
دار : فارسی لاحقہ بمعنی رکھنے والا مستعمل ہے، جیسے:دل دار ،آب دار، موتی دار، دکان دار۔
دامن: فارسی سابقہ بمعنی کنارہ استعمال ہوتا ہے، جیسے: دامنِ دل، دامنِ صحرا۔
دان: فارسی لاحقہ ہے جو کبھی کلمۂ ظرف کے طور پر اور کبھی فاعلی معنی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: پان دان، قلم دان، نمک دان، نکتہ دان، زبان دان۔
دہ : اسم میں لاحقے کے طور پر مستعمل ہوکر فاعلی معنی پیدا کرتا ہے،جیسے: آرام دہ، تکلیف دہ۔
ذی: بطور عربی سابقہ فاعلی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: ذی حیات،ذی شعور، ذی اقتدار۔
رو: بطور لاحقہ فاعلی معنی میں مستعمل ہے،جیسے: خود رو،راہ رو،تیز رو۔
زا: پیدا کرنے کے معنی میں بطور لاحقہ مستعمل ہے، جیسے: فتنہ زا،میرزا۔
زار: جگہ وغیرہ کے معنی میں بطور لاحقہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: سبزہ زار، کارزار، مرغ زار۔
ساز:بطور لاحقہ فاعلی معنی کے لیے آتا ہے،جیسے:کارساز، ملمع ساز،سنگ ساز۔
سارا: شئی مفرد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسے:سارا کھانا ،سارا گھر۔
سب: افراد کے لیے مستعمل ہے، جیسے: سب لوگ،سب چیزیں۔
شناس: اسم کے بعد آنے پر اسم فاعل بنا دیتا ہے اور پہچاننے وا لے کے معنی دیتا ہے، جیسے: اخترشناس، حقیقت شناس،نبض شناس ۔
شگفتہ: بمعنی مفعولیت سابقے کے طور پر مستعمل ہے،جیسے: شگفتہ مزاج،شگفتہ خاطر،شگفتہ طبع۔
صاحب:فاعلی معنی میں سابقے کے طور پراستعمال کیاجاتاہے،جیسے:صاحب اقتدار،صاحب حیثیت،صاحب اقبال،صاحب مال۔
طراز: لاحقے کے طور پر آکر فاعلی معنی دیتا ہے، جیسے: سحر طراز،جادو طراز،سخن طراز۔
عالم: بطور سابقہ زمانہ، دنیا وغیرہ کے معنی میں مستعمل ہے، جیسے: عالم آخرت، عالم اسباب،عالم تصور،عالمِ خیال ،عالمِ بالا،عالمِ بہشت۔
علیٰ:’کے طور پر‘ کے معنی میں بطور سابقہ مستعمل ہے، جیسے: علی التاثیر،علی الدوام،علی الاجمال، علی العموم،علیٰ الحساب۔
فام: لاحقے کے طور پر رنگ،شبیہ اور مانند کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: سفید فام، سیاہ فام،گل فام۔
فِزا: بڑھوتری اور زیادتی کے معنی میں لاحقے کے طور پر آکر فاعلی معنی پیدا کر تا ہے،جیسے: راحت فزا، جاں فِزا،روح فزا۔
نِگار: زخمی،گھایل اور مجروح کے معنی میں بطور لاحقہ مستعمل ہے۔جیسے: دل نگار ،سینہ نِگار۔اورلکھنے والے کے معنی میں بھی آتا ہے ،جیسے:مضمون نگار،افسانہ نگار،نغمہ نگار۔
فی:درمیان،ساتھ،ہرایک وغیرہ معانی میں سابقے کے طورپرمستعمل ہے،جیسے:فی الحقیقت،فی الواقع،فی صد، فی نفر۔
کار: یہ لفظ سابقہ اور لاحقہ دونوں طور پر مستعمل ہے،جب سابقے کے طور پر استعمال کیا جائے گا، تو عموماً کام کاج کے معنی پیدا کرے گا، جیسے: کارِ ثواب،کار آمد، کارساز۔اور جب لاحقے کے طور پر استعمال ہوگا،تو فاعلی معنی پیدا کرے گا،جیسے:تجربہ کار، واقف کار، آزمودہ کار۔
کثیر: بطور سابقہ مستعمل ہے، جیسے: کثیر المقاصد، کثیر الوقوع ،کثیر العلائق۔
کج: بطورسابقہ مستعمل ہے، جیسے: کج رو،کج فہم، کج ادا ، کج اخلاق۔
کدہ: بطور لاحقہ جگہ ،مقام کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: صنم کدہ، بت کدہ ،دولت کدہ، عشرت کدہ،ماتم کدہ۔
کُش: بطور لاحقہ فاعلی معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: جرعہ کش ،محنت کش،جراثیم کش۔
کشا: بطور لاحقہ مستعمل ہے،جیسے: مشکل کشا،بندکشا،گرہ کشا۔
کَلْ: لفظ کالا کا مخفف ہے،بطور سابقہ مستعمل ہے،جیسے:کل جبھا ،کل سرا، کل منھا۔
کم :سابقے کے طور پر آکر نفی اور تصغیری معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: کم آزار، کم ہمتی، کم ذات۔
کن: کھود نے کے فاعلی معنی میں بطور لاحقہ مستعمل ہے، جیسے: چاہ کن،کوہ کن، گورکن۔
کُن: یہ بھی فاعلی معنی میں لاحقے کے طور پر مستعمل ہے، جیسے: کارکن،فیصلہ کن۔
کِن: سوالیہ جمع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: کن لوگوں نے ایسا کہا؟۔
گار: بطور لاحقہ فاعلی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جیسے: کام گار،گنہ گار ،ستم گار۔
گاہ: جگہ کے معنی میں لاحقے کے طور پر آتا ہے، جیسے: درس گاہ،جادو گاہ،پائے گاہ۔
گداز: بطور لاحقہ مستعمل ہے، جیسے: دل گداز،نرم گداز،جاں گداز۔
گر:بطور لاحقہ فاعلی معنی پیدا کرتا ہے، جیسے:کاری گر، جادو گر، زر گر۔
گرفتہ : مفعولی معنی میں سابقہ ولاحقہ دونوں طرح مستعمل ہے، جیسے: اجل گرفتہ،دل گرفتہ،لب گرفتہ،گرفتہ خاطر۔
گزیں: فاعلی معنی میں بطور لاحقہ مستعمل ہے، جیسے: عزلت گزیں،خلوت گزیں۔
گُستر: بطور لاحقہ مستعمل ہے، جیسے: کرم گستر، عدل گستر، سخن گستر۔
گُسِل: بطور لاحقہ فاعلی معنی دیتا ہے، جیسے: جاں گُسِل۔
گفتار: بطور لاحقہ فاعلی معنی میں مستعمل ہے، جیسے: شریں گفتار،خوش گفتار۔
گیں: بطورلاحقہ آکر اسم کی صفت بنا دیتا ہے،جیسے: غم گین، اندوہ گین، سرمگیں۔
لم: دراز کے معنی میں بطور سابقہ مستعمل ہے، جیسے: لم تڑنگا، لم ڈگو،لم کنا۔
مآب: لاحقے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: عزت مآب، رسالت مآب ،فضیلت مآب۔
ناک: بطور لاحقہ آکر صفت بناتا ہے،جیسے: حیرت ناک ،افسوس ناک، خطرناک۔
نشیں: اسم کے بعد آکر اسے فاعلی معنی عطا کرتا ہے، جیسے: خلوت نشیں ،گوشہ نشیں۔
نما ونمائی: لاحقے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے: خودنما،خوش نما، خود نمائی، خوش نمائی۔
نواز: بطور لاحقہ فاعلی معنی دیتا ہے ، جیسے: بندہ نواز، غریب نواز،شاہ نواز۔
نی: اسمائے ہندی کے آخر میں آکر تانیث کا فائدہ دیتا ہے، جیسے: اونٹنی،کھٹنی، نتنی۔
دار: لاحقے کے طور پر آکر نسبت کا فائدہ دیتا ہے،جیسے: بزرگ وار،پروانہ وار، دیوانہ وار۔
والا: نسبت وفاعلیت کے معنی دیتا ہے، جیسے:دودھ والا، گھر والا، دہلی والا۔
داں: لاحقے کے طور پر آکر اعداد کو وصفی وترتیبی اعداد میں بدل دیتا ہے،جیسے: پانچواں،دسواں، بیسواں،تیسواں،چالیسواں،پچاسواں۔
وٹی: نسبت کے لیے آتا ہے، جیسے: کجلوٹی، کجروٹی، لنگوٹی۔
وش: مرکبات کے آخر میں آکر مانند کے معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: پری وش، حور وش۔
وی:نسبت پیدا کرنے کے لیے اسما کے آخر میں لگایا جا تا ہے، جیسے:دہلوی،گڈاوی۔
وں: دو اسم مکرر کے درمیان اتصال پیدا کر نے کے لیے آتا ہے، جیسے: کانوں کان،ہاتھوں ہاتھ۔ اورکبھی اسم مفرد کے ساتھ دوری کے معنی بتانے کے لیے آتا ہے،جیسے: کوسوں،برسوں،مہینوں۔
ہرا: نسبت بیان کرنے کے لیے آتا ہے،جیسے:اکہرا،دوہرا،تہرا۔
ہم:سابقے کے طور پرآکرمشارکت کا معنی پیدا کرتاہے، جیسے:ہم بستر،ہم آغوش،ہم سفر، ہم عمر، ہم آہنگ،ہم خیال،ہم رکاب،ہم فکر۔
یا: اسم کے آخر میں آکر کبھی نسبت پیدا کرتا ہے، جیسے: پہاڑیا،تیلیا۔اور کبھی تصغیر ی معنی دیتا ہے،جیسے: بڑھیا،گڑیا،ڈبیا۔
یاب: لاحقے کے طور پرآکرفعل کے معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: کام یاب، فیض یاب، دست یاب۔
یت: فاعلی معنی میں آتا ہے ،جیسے: ڈکیت،برچھیت، پھندیت۔
یل: لاحقے کے طور پر آکر فاعلی معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: اڑیل،سڑیل، مریل، کڑیل۔
یرا:نسبت بیان کرنے کے لیے آتا ہے، جیسے: خلیرا، ممیرا، پھپھیرا۔
یلا: نسبت وملکیت کے معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: رسیلا،رنگیلا،نشیلا،بھڑکیلا۔
ہے:شی واحد میں استعمال کیا جاتا ہے، جیسے:یہ قلم ہے،وہ کتاب ہے۔
ہیں: جمع میں استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: یہ سب کتابیں ہیں،وہ سب آدمی ہیں۔
اسم مکرر:کبھی مقدار بیان کرنے کے لیے آتا ہے، جیسے: چارچار گز،سوسو روپے۔کبھی شک وشبہ پیدا کردیتا ہے، جیسے: فلاں چیز کچھ کالی کالی ہے۔ کبھی کثرت کو ظاہر کرتا ہے، جیسے: گھر گھر اسلام پھیل گیا۔ اور کبھی تاکیدی معنی دیتا ہے، جیسے: بہت بہت شکریہ،خوب خوب مبارک۔

خصوصیاتِ حروف حروفِ مفردہ کی خصوصیات

قسط نمبر (9) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس

خصوصیاتِ حروف
حروفِ مفردہ کی خصوصیات
(۱)الف 
اردو ،فارسی، عربی، پنجابی ، سندھی ،پشتو اور بلوچی میں حروفِ تہجی کا پہلا حرف ہے۔ اردو میں بطور حرفِ علت استعمال ہوتا ہے۔ الف کی دو قسمیں ہیں: ممدودہ،مقصورہ ۔ الفِ ممدودہ کے اوپر مدہوتا ہے اور کھینچ کر پڑھا جاتا ہے، جیسے: آگ ،آپ،آمد ۔جب کہ الف مقصورہ کے اوپر نہ تو مد ہوتا ہے اور نہ ہی اسے کھینچ کر پڑھتے ہیں، جیسے: اگر، اٹل، ابھی،ادھر،امر،اثر،اکثر۔
الف کلمے کے شروع میں متحرک ہوتا ہے،ساکن نہیں ہوتا۔کلمے کے وسط اور آخر میں درج ذیل معانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے:
(۱)انحصار واستیعاب کے واسطے ،جیسے : سراپا،مونہا منہ۔
(۲)متجانسین کے درمیان اتصال کے واسطے، جیسے: ماراً مار، دوڑا دوڑ، گرما گرم، چھما چھم۔
(۳)اضافت کے معنی پیدا کرنے کے واسطے، جیسے: بھڑیا چال، موتیا بند، موسلادھار۔ 
(۴)حرف ندا کے طور پر ،جیسے: ناصحا،خدایا،اجی،اے ،او۔
(۵)علامت فاعل کے طورپر،جیسے: قاتل،ظالم، حاکم، دانا،بینا۔
(۶)علامت جمع کے طور پر ،جیسے:مذاہب ،مساجد،مدارس،مکاتب۔
(۷)علامت تعدیہ کے طور پر ،جیسے:پڑھنا سے پڑھانا، نکلنا سے نکالنا۔
(۸)علامتِ ماضی مطلق کے طور پر، جیسے: سنا ،دیکھا،گیا، چلا۔
(۹)علامتِ تذکیرکے طور پر، جیسے: بھینسا،مرغا، بکرا،لڑکا،بڑا۔
(۱۰) علامتِ تانیث کے طور پر، جیسے: رادھا ،بیوا، صغریٰ ،کبریٰ ، بشریٰ۔
(۱۱) نفی کے طور پر ،جیسے: اٹل ،اچھوت ،امٹ۔
(۱۲)حرفِ تفضیل کے طور پر، جیسے:اشرف ،اکبر ،افضل ،اکرم، اعظم۔
(۱۳)تحقیر کے طور پر ،جیسے: کلوا،کالیا،ٹٹوا، بٹوا۔
(۱۴)اظہارِحسرت کے طور پر، جیسے: مسرتا، دردا۔
(۱۵)علامتِ اسم وحاصل مصدر کے طور پر، جیسے: جھگڑا،بلاوا۔
(۲)با
یہ اردو،فارسی اور عربی کا دوسرااور ہندی کا تئیسواں حرف ہے۔ یہ حرف فارسی ترکیبوں میں ہمیشہ مفتوح رہتا ہے اور درجِ ذیل معانی کے لیے آتا ہے:
(۱)بمعنی طرف وجانب ،جیسے: روبقبلہ، رو براہ۔
(۲)بمعنی آمنے سامنے، جیسے: روبرو۔
(۳)برائے اتصال، جیسے: ماہ بماہ، روز بروز، در بدر۔ 
(۴)برائے قسم،جیسے: بخدا،برب کعبہ۔
(۵)برائے مطابقت، جیسے: بقولِ شخصے، بارشادِ خداوندی۔
(۶)بمعنی توسل، جیسے: بصدقۂ فلاں،برسالت رسول۔
(۷)بمعنی میں،جیسے: خاکم بدہن۔
(۸)کبھی یہ حرف زائد ہوتا ہے، جیسے: بجز ،بغیر۔
عربی ترکیبوں میں ب ہمیشہ مکسور رہتی ہے ،عربی میں اسے حرفِ جر کہا جاتا ہے اور درجِ ذیل معانی میں استعمال کیا جاتا ہے :
(۱)سے،ساتھ ،جیسے:بالا رادہ ،بالواسطہ۔
(۲)قسم، جیسے: باللہ۔
(۳)وسیلے سے،جیسے:بحرمت النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
(۴)یہ کبھی حرفِ ذیل سے بدل جاتی ہے، جیسے: پ: بادشاہ سے پادشاہ۔ د: کب سے کد ۔ و: بابا سے باوا۔
(۳)پا
یہ اردواور فارسی کا تیسرا اور ہندی کا اکیسواں حرف ہے۔ 
(۱)یہ ہندی الفاظ کے آخر میں آجائے، تو مصدری معنی دیتی ہے، جیسے: ملاپ۔
(۲)فارسی میں کئی حرفوں سے بدل جاتی ہے، جیسے: تب سے تپ،سپید سے سفید ۔
(۴)تا
ارود، فارسی حروف تہجی کا چوتھا، عربی کا تیسرا اور ہندی کا سو لھواں حرف ہے۔یہ حرف درجِ ذیل معانی کے لیے آتا ہے۔
(۱)حاصل مصدر کے معنی میں،جیسے: بادشاہت،چاہت،صدارت۔
(۲)عربی، فارسی اور ہندی الفاظ میں بطور تانیث ،جیسے: محبت، دولت،الفت۔ بعض جگہوں میں مذکر بھی مستعمل ہے، لیکن وہ قلیل الاستعمال ہے، جیسے: شربت وغیرہ ۔
(۵)ٹا
اردو کا پانچوں اور ہندی کا گیارھواں حرف ہے، فارسی اور عربی میں یہ حرف نہیں ہے، اس کا دوسرا نام تائے ثقیلہ اور تائے ہندی بھی ہے۔ یہ حرف بعض کلمات کے آخر میں آکر مصدری معنی پیدا کرتا ہے،جیسے: بناوٹ، سجاوٹ، گھلاوٹ۔
(۶)جیم
اردوکاساتواں،فارسی کاچھٹا،عربی کاپانچواں اور ہندی کا آٹھواں حرف ہے۔ یہ عربی کے قمری حروف میں سے ایک ہے۔ اگر اس سے پہلے ’ال‘آئے گا، تو لام اپنی آواز دے گا، جیسے:الجمل، الکتاب۔بعض اردو کلمات کے آخر میںآکر ان کو مصدریا اسم کیفیت بنا دیتا ہے، جیسے: گرج،اپج،سج۔
(۷)سین
اردو کا اٹھا رھواں،فارسی کا پندرھواں اور ہندی کا تیسواں حرف ہے۔ یہ شمسی حرف ہے، یعنی اس سے پہلے ’ال‘ آئے گا،تو اپنی آواز نہیں دے گا؛البتہ اس کومشدد کر دے گا، جیسے: السعید،السفر۔
(۱)یہ لفظ کے آخرمیں آکر اسمِ کیفیت کامعنی دیتا ہے، جیسے: مٹھاس،پیاس ۔
(۲)ہندی الفاظ کے شروع میںآکر خوب صورت اور نیک کے معنی پیداکرتاہے،جیسے: سڈول، سمیل ۔
(۸)کاف
اردو کا اٹھائیسواں،فارسی کا پچیسواں اور ہندی کا پہلا حرف ہے۔یہ درج ذیل معانی میں استعمال کیا جاتا ہے:
(۱)کلمے کے آخرمیں اسمِ کیفیت کے معنی میں آتا ہے، جیسے: ٹھنڈک،لے پالک۔
(۲)کبھی تصغیری معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: ڈھولک،طفلک۔
(۳)دو کلمے کے بیچ میں مشارکت کے معنی دیتا ہے، جیسے: مارک مارا،نوچک نو چا۔
(۴)کبھی نفی کے معنی دیتا ہے، جیسے: کراہ، کڈھب، کپوت،کڈھنگ۔
(۹)لام
اردو کا تیسواں، فارسی کا ستائیسواں، عربی کا تئسیواں اور ہندی کا اٹھائیسواں حرف ہے۔ اور درجِ ذیل معانی میں مستعمل ہے:
(۱)اردو مصادرکومتعدی بنا دیتاہے، جیسے: کھانا سے کھلانا، سوناسے سلانا۔
(۲)متعدی مصدرمیں تاکیدی خصوصیت پیدا کرتا ہے،جیسے: دکھانا سے دکھلانا،بتانا سے بتلانا۔
(۳)کبھی الفاظ کے آخر میں آنے سے مصدریت کا فائدہ دیتاہے ، جیسے: دیکھ بھال،چال ڈھال۔
(۴)کبھی نسبت کے لیے آتا ہے، جیسے: بوجھل۔
(۵)عربی کلمے کی ابتدا میں آکر ’لیے‘ کا معنی دیتا ہے، جیسے:للّہ۔
(۱۰)میم
اردو کا اکتیسواں، فارسی کا اٹھائیسواں، عربی کا چو بیسواں اور ہندی کاپچیسواں حرف ہے۔ 
(۱)دوکلموں کے درمیان مشارکت کا معنی پیداکرتا ہے،جیسے:گھوسم گھوسا،بھاگم بھاگ،دھکم دھکا۔
(۲) عربی لفظ کے شروع میں مفتوح آئے تو اسم ظرف یا اسم مفعول بنادیتا ہے، جیسے: مجلس، محفل، مظلوم،مجبور،مقہور،مغلوب،منصور۔ 
(۳)اگر مضموم آئے، تو اس کوفاعل بنا دیتا ہے،جیسے: محافظ،مجاہد،مناظر،مسافر،منافق۔
(۴)فارسی میں اسمائے اعداد کے آخر میں آکر ان کو صفتِ ترتیبی بنا دیتا ہے، جیسے: دوم، سویم، چہارم،پنجم، ششم، ہفتم،نہم،دہم۔
(۱۱)نون
اردو کابتیسواں ،فارسی کا انتیسواں ،عربی کا پچیسواں اور ہندی کا بیسواں حرف ہے۔ اور درجِ ذیل مواقع پر مندرجہ ذیل معانی میں مستعمل ہے: 
(۱)ہندی الفاظ کے شروع میں نفی کے واسطے آتا ہے اور ہمیشہ مکسور رہتا ہے، جیسے: نِڈر ۔
(۲)اسم کے آخر میں تانیث بناتا ہے، جیسے: رحیمن ،کریمن،سمدھن۔
(۳)کبھی نسبت وزوجیت کا اظہار کرتا ہے، جیسے: مولون،دلہن، حجن، دھوبن۔
(۴)ماضی اور امر کے صیغوں کے آخر میں حاصل مصدر بنا دیتا ہے،جیسے: جلن، دھڑکن،کڑھن۔
(۵)مونث الفاظ، جن کے آخر میں ’یا‘ہو ،اس کے آخر میں آکر انھیں جمع میں تبدیل کر دیتا ہے،جیسے: گڑیا سے گڑیاں،پڑیاسے پڑیاں،چڑیا سے چڑیاں۔
(۱۲) واو
اردو کا تنتیسواں، فارسی کا تیسواں، عربی کا چھبیسواں اور ہندی کا انتیسواں حرف ہے۔ اس کی چار قسمیں ہیں : (۱)واو معروف(۲)واوِ مجہول (۳)واوِ موقوف (۴)واوِ معدولہ۔
واوِ معروف:جس واو سے پہلے پیش ہوتا ہے اور خوب ظاہر کر کے پڑھا جاتاہے ، جیسے:دُور، حُور، خُوب، زُود۔
واوِ مجہول : جس واو سے پہلے پیش تو ہو تا ہے ؛لیکن خوب ظاہر کر کے نہیں پڑھا جاتاہے ، جیسے:ہوش،زور،گوش،لوگ۔
واو مو قوف: جو لفظ کے آخر میں آتا ہے اور اس سے پہلے الف ہوتا ہے،جیسے: بھاو،تاو،واو۔
واوِ معدولہ: جو لکھا تو جاتا ہے مگر پڑھا نہیں جاتا، جیسے:درخواست ،خواہش ،استخوان۔
ارود اور فارسی میں یہ حرف درجِ ذیل معانی میں استعمال کیاجاتا ہے:
(۱)عربی وفارسی الفاظ کے درمیان میں معیت کے معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: پیری وصدعیب،شب وروز،آب ودانہ،صبح و شام۔
(۲)فارسی وعربی مرکبات میں بطور عطف مستعمل ہے، جیسے: زید وبکر، صبح وشام۔
(۳)کبھی نسبتی معنی دیتا ہے، جیسے: ہندو،بدھو ،کلو۔
(۴)کبھی قسم کے معنی دیتا ہے، جیسے: واللہ۔ 
(۵)واوِ مجہول امر حاضر کے آخر میں برائے جمع تعظیمی معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: آؤ، بیٹھو۔
(۶)کبھی حاصل مصدرکے معنی میں آتا ہے،جیسے: چڑھاو،بچاو،پلاو۔
(۱۳)یا 
یہ اردو کا پینتیسواں، عربی کا اٹھائیسواں اور ہندی کا چھبیسواں حرف ہے۔ اس کی دوقسمیں ہیں: (۱)یائے معروف (۲)یائے مجہول ۔
یائے معروف: وہ ’ی‘ ہے جس سے پہلے کے حرف پر زیر ہو اور خوب ظاہر کر کے پڑھا جائے ، جیسے: عید، فقیر،امیر،حقیر۔
یائے مجہول: وہ ’ی‘ ہے جس سے پہلے کے حرف کی زیر خالص نہ ہو اور خوب ظاہر کے بھی نہ پڑھا جائے ، جیسے:دلیر ، گریز ،سے،دیر۔
یہ درجِ ذیل معانی میں مستعمل ہے:
(۱)یائے معروف اسم اور فعل کے آخر میں علامتِ تانیث ہے، جیسے: ٹوپی، لڑکی،مٹھائی۔
(۲)کبھی فاعلیت کا معنی دیتی ہے،جیسے: تیلی، مداری، پنساری، شرابی،کبابی۔
(۳)کبھی نسبت کے لیے آتی ہے، جیسے:پڑوسی، پاکستانی،ہندستانی، شہری۔
(۴)کبھی اجرت کا معنی دیتی ہے،جیسے: پسائی،دھلائی،ڈھلائی۔
(۵)کبھی اسمِ صفت کے بعد آکر مصدری معنی دیتی ہے، جیسے:بھلائی ،برائی،دانائی،چو ڑائی، بزرگی،برد باری،سمجھ داری۔
(۶)کبھی اسم صفت کے بعدآکر مصدری معنی دیتی ہے ،جیسے:مشفقی، مکرمی،الہی، قبلہ گاہی۔
(۷)کبھی مفعولیت کے لیے آتی ہے، جیسے: تحریری، تقریری، زبانی۔
(۸)یائے لیاقت کے طور پر مصدر کے آخر میں آکر صلاحیت کا اظہار کر تی ہے،جیسے:دیدنی، خوردنی،کشتنی۔
(۹)یائے مجہول اگر ایسے اسم کے آخر میں آئے جس کے آخر میں الف ہو،تو اسے جمع بنا دیتی ہے،جیسے: گھوڑا سے گھوڑے۔گدھا سے گدھے۔