قسط نمبر (11) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
جنس کابیان
دنیا کی تمام زبانوں میں دو قسم کی چیزیں ہوتی ہیں:ایک مذکر،دوسری مؤنث۔او ران دونوں کے لیے لفظ’جنس‘ بولاجاتا ہے،لہذا جنس کی دو قسمیں ہوئیں: مذکراور مؤنث۔پھر ان دونوں کی دودو قسمیں ہیں:حقیقی ، غیر حقیقی ۔ہر ایک کی تعریف درج ذیل ہے:
مذکر حقیقی:اسے کہتے ہیں جس کے مقابلے میں کوئی جان دارمؤنث ہوتی ہے،جیسے: لڑکا، مرد، باپ ،بیٹا،پوتا،دادا۔
مؤنث حقیقی:وہ ہے جس کے مقابلے میں کوئی جان دار مذکر ہوتا ہے، جیسے: عورت،لڑکی ، گھوڑی،بیوی،ساس،سمدھن۔
مذکر غیر حقیقی :وہ ہے جس کے مقابلے میں کوئی جان دارمؤنث نہیں ہوتی، جیسے:درخت ، قلم،پتھر،گھر،مکان،بیگ۔
مؤنث غیر حقیقی: وہ ہے جس کے مقابلے میں کوئی جان دار مذکر نہیں ہوتا،جیسے:کاپی، کتاب، دوات،روشنائی،تِپائی،چٹائی،دھلائی۔
مذکر حقیقی سے مؤنث حقیقی بنانے کے قاعدے
مذکر الفاظ کے آخری حروف کے بدلنے یاآخر میں ایک حرف یا کئی حرفوں کے بڑھانے سے مذکر حقیقی ، مؤنث حقیقی میں تبدیل ہوجاتاہے ۔اس کی چند صورتیں ہیں:
(الف)ہندی اور فارسی کے وہ مذکر الفاظ، جن کے آخر میں’الف یا ہ‘ ہو ،انھیں یائے معروف سے بدل دیتے ہیں،تووہ مؤنث حقیقی بن جاتے ہیں، جیسے:لڑکا سے لڑکی،شہزادہ سے شہزادی،بندہ سے بندی،بیٹا سے بیٹی،پوتا سے پوتی۔
(ب)مذکر الفاظ کے’ الف یا ی‘ کو نون سے بدلنے سے مؤنث حقیقی بنتا ہے،جیسے:ہجڑا سے ہجڑن،جوگی سے جوگن،دولہاسے دولہن ؛لیکن یہ قاعدہ ذوی العقو ل کے ساتھ خاص ہے۔
(ج)مذکر الفاظ کے آخر میں یائے معروف بڑھانے سے بھی مؤنث بنتا ہے ،جیسے: برہمن سے برہمنی ، بوڑھن سے بوڑھنی۔
(د)مذکرالفاظ کے آخرمیں لفظ’نی‘یا’انی‘بڑھاکربھی مؤنث حقیقی بنایاجاتاہے،جیسے:شیر سے شیرنی،سید سے سیدانی،سیٹھ سے سیٹھانی۔
(ہ)مذکر الفاظ کے آخر میں کچھ تبدیلی یابغیر تبدیلی کے ’یا‘بڑھانے سے بھی مذکر حقیقی مؤنث حقیقی میں بدل جاتاہے،جیسے:کتا سے کتیا، بوڑھا سے بوڑھیا،چوہا سے چوہیا۔
مذکر حقیقی اور مذکر غیر حقیقی کی شناخت کے اصول
(۱)پیشہ وروں کے ہندی نام، جن کے آخر میں یائے معروف ہو، جیسے: دھوبی،موچی،بڑھء۔
(۲)عربی کے وہ الفاظ ،جن کے آخر میں یائے معروف ہو،جیسے:مولوی،مفتی،قاضی۔
(۳)وہ الفاظ، جن کے آخر میں یائے نسبتی ہو، جیسے:ہندستانی،شہری، پاکستانی۔
(۴)وہ الفاظ جن کے آخر میں الف یا ہا ئے مختفی ہو، جیسے:تارا،لوہا،پروانہ،مستانہ، قورمہ،دانہ ، سودا،موٹا۔
(۵)تمام مہینوں کے نام(خواہ وہ کسی بھی زبان کے ہوں) جیسے:محرم،کاتک،جنوری وغیرہ ۔
(۶)دنوں کے نام سوائے جمعرات کے، جیسے:سنیچر ،اتوار،پیر،منگل،بدھ۔
(۷)دھاتوں اور جواہرات کے نام ،جیسے:لوہا، ہیرا،سونا،پیتل۔
(۸)وہ الفاظ جن کے آخر میں لفظ ’بند‘ہو،جیسے:ازار بند،کمربند،بازوبند۔
(۹)جن کلموں کے آخر میں لفظ’بان‘ہو،جیسے:بادبان،سائبان،بیابان۔
(۱۱)جن کلموں کے آخر میں لفظ’دان‘ہو ،جیسے:قلم دان،روشن دان۔
(۱۲)جن کلموں کے آخر میں لفظ’واں‘ہو،جیسے:کارواں، دھواں، ناتواں،ساتواں۔
(۱۳)جن کلموں کے آخر میں لفظ ’ستاں‘ہو،جیسے:شبستاں،کوہستاں، زمستان۔
(۱۴)جن ہندی کلموں کے آخرمیں الفاظ:پن،پنااورپامیں سے کوئی ایک ہو،جیسے: لڑکپن،بچپن، بچپنا، بڑھاپا،موٹاپا۔
(۱۵)اللہ تعالیٰ کے تمام نام،جیسے:اللہ،خدا،رحمٰن،رحیم،کریم۔
(۱۶)پہاڑوں کے نام،جیسے:کوہ ہمالیہ،کوہ قاف،کوہ عدن۔
(۱۷)اقوام ومذاہب کے نام، جیسے:ہندو،مسلم ،عیسائی،سکھ۔
(۱۸)ستاروں اور شہروں کے نام،جیسے:گڈا،پٹنہ، مریخ،عطارد۔
(۱۹)اردوکے تمام مصادراور عربی کے وہ مصادر،جن کے شروع میں الف ہو،جیسے: کرنا، سونا، استقبال کرنا، اقبال،اظہار،اقرار۔
(۲۰)وہ الفاظ، جن کے آخر میں تائے مخففہ یعنی’ۃ‘ہو،جیسے:معانقہ، موازنہ،معاملہ۔
(۲۱)وہ تمام اسما جن کے آخر میں یا تو’ار‘ہو،جیسے:کوہسار،آبشار،اخبار، کردار۔یاپھر’ان‘ ہو،جیسے: میدان،گمان،احسان،ارمان۔
(۲۲)غیر جان دارچیزیں،جن کے آخر میں ’ی‘ نہ ہو جیسے:گھر،درخت،برتن،قلم،پتھر،آسمان۔
ان تمام صورتوں میں ، الفاظ مذکر ہوں گے۔
مؤنث حقیقی او رمؤنث غیرحقیقی کی شناخت کے اصول
(۱)ہندی کے تمام مصغر الفاظ ،جن کے آخر میں’یا‘ ہو،جیسے:ڈبیا،پڑیا، چڑیا، بڑھیا،دنیا۔
(۲)عربی کے’ سہ حرفی‘ الفاظ، جیسے:ادا، قضا،خطا،وبا،دعا۔
(۳)عربی کے بعض مصادر، جن کے آخرمیں’الف ‘ہو ،جیسے:التجا،ابتدا، ارتقا،انتہا۔
(۴)فارسی،عربی اور ہندی کے بعض اسما، جن کے آخر میں ’ہائے ملفوظی ‘ہو،جیسے:راہ، پناہ،نباہ،باہ۔
(۵)جن الفاظ کے آخر میں ’یائے معروف‘ہو،جیسے:بجلی،کنگھی،مکڑی،لڑکی،نیکی۔
(۶)جن عربی،فارسی اورہندی الفاظ کے آخر میں’ت‘ہو،جیسے:ندامت،دولت،شرافت۔
(۷)جن کلموں کے آخر میں لفظ’کار‘ہو،جیسے:سرکار،للکار،پھٹکار، دھتکار۔
(۸)جن ہندی کلموں کے آخر میں ’سین مصدری‘ہو،جیسے:مٹھاس،کھٹاس،بکواس،پیاس۔
(۹)جن کلموں کے آخر میں’نون‘ہو،جیسے:دھڑکن،پھڑکن،دلہن۔
(۱۰)زبانوں کے نام،جیسے:عربی،فارسی،اردو،ہندی ،مراٹھی۔
(۱۱)آواز کے سارے نام، جیسے:کوکو،غٹ غٹ،ککڑوں کوں،پھنکار،تڑاتڑ،ٹن ٹن، بھوں بھوں، میاؤں میاؤں،کھوں کھوں،کائیں کائیں۔
(۱۲)فارسی کے دو لفظوں سے مرکب الفاظ،جیسے:آمدو رفت،زدو کوب۔
(۱۳)نمازوں کے نام،جیسے:فجر،ظہر،عصر، مغرب ، عشا، تہجد۔
(۱۴)حاصل مصدر(خواہ وہ فارسی ہو یاہندی)یا اسمائے کیفیات،جیسے:لوٹ، مہک، جھلک، کمائی، دھلائی، ڈھلائی،رسائی۔
(۱۵)عربی کے وہ مصادر، جو باب تفعیل سے ہوں،جیسے:تقدیر ،تحریر، تحریک، تنظیم ،ترتیب ،تذکیر، تانیث،تعبیر،تحسین،تبدیل،تشریف۔
(۱۶)اوقات کے نام،جیسے:صبح ،شام،دوپہر،سہ پہر،چہار پہر۔
(۱۷)جن کلموں کے آخر میں ’الف ونون‘ یا’نون‘’نی‘اور ’ویں‘ ہو،جیسے:بکریاں،ہرنیاں،چڑیاں، دعائیں، کتابیں،زبانی،کہانی،پانچویں، ساتویں۔
(۱۸)اردو ، فارسی اور عربی کے تمام مصادر،جن کے آخر میں ت،ٹ،س، ش،ن،میں سے کوئی ایک ہو، جیسے : کہاوت، ملاوٹ، دسترس ، کوشش،جلن ، چلن۔
(۲۰) جن الفاظ کے آخر میں لفظ ’گاہ ‘ہو جیسے :بارگاہ ، درگاہ ، عید گاہ ، قربان گاہ۔
ان سب صورتوں میں الفاظ مؤنث استعمال ہوں گے۔
فائدہ:حروف تہجی میں سے ب، پ، ت، ٹ، ث، چ، ح، خ، د، ڈ، ذ، ر، ڑ،ز،ژ،ط،ظ،ف،ہ، ھ،ی ، ے، مؤنث ہیں۔ اور باقی حروف مذکر ہیں۔ جیم ، ہمزہ او ر میم میں اختلاف ہے۔مگر مذکر راجح ہے اور د،ڈاور ذ میں بھی اختلاف ہے،مگر مؤنث مرجح ہے۔نیز مرکب الفاظ اگر جا ن دار کے لیے بولے جاتے ہوں ؛تو مذکر استعمال ہوتے ہیں، جیسے:ماں باپ جارہے ہیں۔اور اگر وہ مرکب الفاظ بے جان کے لیے ہوں ،تو اپنے آخری الفاظ کے اعتبار سے مذکر یا مؤنث بولے جاتے ہیں ،جیسے:ڈاک خانہ۔شب و روز(مذکر) اور آب و ہوا ۔سال گرہ (مؤنث)۔
نوٹ : کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جو مذکر اور مؤنث دونوں استعمال ہوتے ہیں،انھیں جنس عام یا جنس مستوی کہا جا تا ہے،جیسے:بلبل،نقاب،سحر، آغوش،املا ، ایجاد، برف،پستان ، رمز، طرز ،قلم ،لالچ ، وجوہ۔
یاد رہے کہ مذکورہ بالا مذکر غیر حقیقی اور مؤنث غیر حقیقی کی شناخت کے اصول کچھ سماعی کچھ قیاسی اور کچھ استقرائی ہیں، مذکورہ بالا میں ہی منحصر نہیں ہیں ۔
دنیا کی تمام زبانوں میں دو قسم کی چیزیں ہوتی ہیں:ایک مذکر،دوسری مؤنث۔او ران دونوں کے لیے لفظ’جنس‘ بولاجاتا ہے،لہذا جنس کی دو قسمیں ہوئیں: مذکراور مؤنث۔پھر ان دونوں کی دودو قسمیں ہیں:حقیقی ، غیر حقیقی ۔ہر ایک کی تعریف درج ذیل ہے:
مذکر حقیقی:اسے کہتے ہیں جس کے مقابلے میں کوئی جان دارمؤنث ہوتی ہے،جیسے: لڑکا، مرد، باپ ،بیٹا،پوتا،دادا۔
مؤنث حقیقی:وہ ہے جس کے مقابلے میں کوئی جان دار مذکر ہوتا ہے، جیسے: عورت،لڑکی ، گھوڑی،بیوی،ساس،سمدھن۔
مذکر غیر حقیقی :وہ ہے جس کے مقابلے میں کوئی جان دارمؤنث نہیں ہوتی، جیسے:درخت ، قلم،پتھر،گھر،مکان،بیگ۔
مؤنث غیر حقیقی: وہ ہے جس کے مقابلے میں کوئی جان دار مذکر نہیں ہوتا،جیسے:کاپی، کتاب، دوات،روشنائی،تِپائی،چٹائی،دھلائی۔
مذکر حقیقی سے مؤنث حقیقی بنانے کے قاعدے
مذکر الفاظ کے آخری حروف کے بدلنے یاآخر میں ایک حرف یا کئی حرفوں کے بڑھانے سے مذکر حقیقی ، مؤنث حقیقی میں تبدیل ہوجاتاہے ۔اس کی چند صورتیں ہیں:
(الف)ہندی اور فارسی کے وہ مذکر الفاظ، جن کے آخر میں’الف یا ہ‘ ہو ،انھیں یائے معروف سے بدل دیتے ہیں،تووہ مؤنث حقیقی بن جاتے ہیں، جیسے:لڑکا سے لڑکی،شہزادہ سے شہزادی،بندہ سے بندی،بیٹا سے بیٹی،پوتا سے پوتی۔
(ب)مذکر الفاظ کے’ الف یا ی‘ کو نون سے بدلنے سے مؤنث حقیقی بنتا ہے،جیسے:ہجڑا سے ہجڑن،جوگی سے جوگن،دولہاسے دولہن ؛لیکن یہ قاعدہ ذوی العقو ل کے ساتھ خاص ہے۔
(ج)مذکر الفاظ کے آخر میں یائے معروف بڑھانے سے بھی مؤنث بنتا ہے ،جیسے: برہمن سے برہمنی ، بوڑھن سے بوڑھنی۔
(د)مذکرالفاظ کے آخرمیں لفظ’نی‘یا’انی‘بڑھاکربھی مؤنث حقیقی بنایاجاتاہے،جیسے:شیر سے شیرنی،سید سے سیدانی،سیٹھ سے سیٹھانی۔
(ہ)مذکر الفاظ کے آخر میں کچھ تبدیلی یابغیر تبدیلی کے ’یا‘بڑھانے سے بھی مذکر حقیقی مؤنث حقیقی میں بدل جاتاہے،جیسے:کتا سے کتیا، بوڑھا سے بوڑھیا،چوہا سے چوہیا۔
مذکر حقیقی اور مذکر غیر حقیقی کی شناخت کے اصول
(۱)پیشہ وروں کے ہندی نام، جن کے آخر میں یائے معروف ہو، جیسے: دھوبی،موچی،بڑھء۔
(۲)عربی کے وہ الفاظ ،جن کے آخر میں یائے معروف ہو،جیسے:مولوی،مفتی،قاضی۔
(۳)وہ الفاظ، جن کے آخر میں یائے نسبتی ہو، جیسے:ہندستانی،شہری، پاکستانی۔
(۴)وہ الفاظ جن کے آخر میں الف یا ہا ئے مختفی ہو، جیسے:تارا،لوہا،پروانہ،مستانہ، قورمہ،دانہ ، سودا،موٹا۔
(۵)تمام مہینوں کے نام(خواہ وہ کسی بھی زبان کے ہوں) جیسے:محرم،کاتک،جنوری وغیرہ ۔
(۶)دنوں کے نام سوائے جمعرات کے، جیسے:سنیچر ،اتوار،پیر،منگل،بدھ۔
(۷)دھاتوں اور جواہرات کے نام ،جیسے:لوہا، ہیرا،سونا،پیتل۔
(۸)وہ الفاظ جن کے آخر میں لفظ ’بند‘ہو،جیسے:ازار بند،کمربند،بازوبند۔
(۹)جن کلموں کے آخر میں لفظ’بان‘ہو،جیسے:بادبان،سائبان،بیابان۔
(۱۱)جن کلموں کے آخر میں لفظ’دان‘ہو ،جیسے:قلم دان،روشن دان۔
(۱۲)جن کلموں کے آخر میں لفظ’واں‘ہو،جیسے:کارواں، دھواں، ناتواں،ساتواں۔
(۱۳)جن کلموں کے آخر میں لفظ ’ستاں‘ہو،جیسے:شبستاں،کوہستاں، زمستان۔
(۱۴)جن ہندی کلموں کے آخرمیں الفاظ:پن،پنااورپامیں سے کوئی ایک ہو،جیسے: لڑکپن،بچپن، بچپنا، بڑھاپا،موٹاپا۔
(۱۵)اللہ تعالیٰ کے تمام نام،جیسے:اللہ،خدا،رحمٰن،رحیم،کریم۔
(۱۶)پہاڑوں کے نام،جیسے:کوہ ہمالیہ،کوہ قاف،کوہ عدن۔
(۱۷)اقوام ومذاہب کے نام، جیسے:ہندو،مسلم ،عیسائی،سکھ۔
(۱۸)ستاروں اور شہروں کے نام،جیسے:گڈا،پٹنہ، مریخ،عطارد۔
(۱۹)اردوکے تمام مصادراور عربی کے وہ مصادر،جن کے شروع میں الف ہو،جیسے: کرنا، سونا، استقبال کرنا، اقبال،اظہار،اقرار۔
(۲۰)وہ الفاظ، جن کے آخر میں تائے مخففہ یعنی’ۃ‘ہو،جیسے:معانقہ، موازنہ،معاملہ۔
(۲۱)وہ تمام اسما جن کے آخر میں یا تو’ار‘ہو،جیسے:کوہسار،آبشار،اخبار، کردار۔یاپھر’ان‘ ہو،جیسے: میدان،گمان،احسان،ارمان۔
(۲۲)غیر جان دارچیزیں،جن کے آخر میں ’ی‘ نہ ہو جیسے:گھر،درخت،برتن،قلم،پتھر،آسمان۔
ان تمام صورتوں میں ، الفاظ مذکر ہوں گے۔
مؤنث حقیقی او رمؤنث غیرحقیقی کی شناخت کے اصول
(۱)ہندی کے تمام مصغر الفاظ ،جن کے آخر میں’یا‘ ہو،جیسے:ڈبیا،پڑیا، چڑیا، بڑھیا،دنیا۔
(۲)عربی کے’ سہ حرفی‘ الفاظ، جیسے:ادا، قضا،خطا،وبا،دعا۔
(۳)عربی کے بعض مصادر، جن کے آخرمیں’الف ‘ہو ،جیسے:التجا،ابتدا، ارتقا،انتہا۔
(۴)فارسی،عربی اور ہندی کے بعض اسما، جن کے آخر میں ’ہائے ملفوظی ‘ہو،جیسے:راہ، پناہ،نباہ،باہ۔
(۵)جن الفاظ کے آخر میں ’یائے معروف‘ہو،جیسے:بجلی،کنگھی،مکڑی،لڑکی،نیکی۔
(۶)جن عربی،فارسی اورہندی الفاظ کے آخر میں’ت‘ہو،جیسے:ندامت،دولت،شرافت۔
(۷)جن کلموں کے آخر میں لفظ’کار‘ہو،جیسے:سرکار،للکار،پھٹکار، دھتکار۔
(۸)جن ہندی کلموں کے آخر میں ’سین مصدری‘ہو،جیسے:مٹھاس،کھٹاس،بکواس،پیاس۔
(۹)جن کلموں کے آخر میں’نون‘ہو،جیسے:دھڑکن،پھڑکن،دلہن۔
(۱۰)زبانوں کے نام،جیسے:عربی،فارسی،اردو،ہندی ،مراٹھی۔
(۱۱)آواز کے سارے نام، جیسے:کوکو،غٹ غٹ،ککڑوں کوں،پھنکار،تڑاتڑ،ٹن ٹن، بھوں بھوں، میاؤں میاؤں،کھوں کھوں،کائیں کائیں۔
(۱۲)فارسی کے دو لفظوں سے مرکب الفاظ،جیسے:آمدو رفت،زدو کوب۔
(۱۳)نمازوں کے نام،جیسے:فجر،ظہر،عصر، مغرب ، عشا، تہجد۔
(۱۴)حاصل مصدر(خواہ وہ فارسی ہو یاہندی)یا اسمائے کیفیات،جیسے:لوٹ، مہک، جھلک، کمائی، دھلائی، ڈھلائی،رسائی۔
(۱۵)عربی کے وہ مصادر، جو باب تفعیل سے ہوں،جیسے:تقدیر ،تحریر، تحریک، تنظیم ،ترتیب ،تذکیر، تانیث،تعبیر،تحسین،تبدیل،تشریف۔
(۱۶)اوقات کے نام،جیسے:صبح ،شام،دوپہر،سہ پہر،چہار پہر۔
(۱۷)جن کلموں کے آخر میں ’الف ونون‘ یا’نون‘’نی‘اور ’ویں‘ ہو،جیسے:بکریاں،ہرنیاں،چڑیاں، دعائیں، کتابیں،زبانی،کہانی،پانچویں، ساتویں۔
(۱۸)اردو ، فارسی اور عربی کے تمام مصادر،جن کے آخر میں ت،ٹ،س، ش،ن،میں سے کوئی ایک ہو، جیسے : کہاوت، ملاوٹ، دسترس ، کوشش،جلن ، چلن۔
(۲۰) جن الفاظ کے آخر میں لفظ ’گاہ ‘ہو جیسے :بارگاہ ، درگاہ ، عید گاہ ، قربان گاہ۔
ان سب صورتوں میں الفاظ مؤنث استعمال ہوں گے۔
فائدہ:حروف تہجی میں سے ب، پ، ت، ٹ، ث، چ، ح، خ، د، ڈ، ذ، ر، ڑ،ز،ژ،ط،ظ،ف،ہ، ھ،ی ، ے، مؤنث ہیں۔ اور باقی حروف مذکر ہیں۔ جیم ، ہمزہ او ر میم میں اختلاف ہے۔مگر مذکر راجح ہے اور د،ڈاور ذ میں بھی اختلاف ہے،مگر مؤنث مرجح ہے۔نیز مرکب الفاظ اگر جا ن دار کے لیے بولے جاتے ہوں ؛تو مذکر استعمال ہوتے ہیں، جیسے:ماں باپ جارہے ہیں۔اور اگر وہ مرکب الفاظ بے جان کے لیے ہوں ،تو اپنے آخری الفاظ کے اعتبار سے مذکر یا مؤنث بولے جاتے ہیں ،جیسے:ڈاک خانہ۔شب و روز(مذکر) اور آب و ہوا ۔سال گرہ (مؤنث)۔
نوٹ : کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جو مذکر اور مؤنث دونوں استعمال ہوتے ہیں،انھیں جنس عام یا جنس مستوی کہا جا تا ہے،جیسے:بلبل،نقاب،سحر، آغوش،املا ، ایجاد، برف،پستان ، رمز، طرز ،قلم ،لالچ ، وجوہ۔
یاد رہے کہ مذکورہ بالا مذکر غیر حقیقی اور مؤنث غیر حقیقی کی شناخت کے اصول کچھ سماعی کچھ قیاسی اور کچھ استقرائی ہیں، مذکورہ بالا میں ہی منحصر نہیں ہیں ۔