8 Apr 2018

خصوصیاتِ حروف حروفِ مفردہ کی خصوصیات

قسط نمبر (9) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس

خصوصیاتِ حروف
حروفِ مفردہ کی خصوصیات
(۱)الف 
اردو ،فارسی، عربی، پنجابی ، سندھی ،پشتو اور بلوچی میں حروفِ تہجی کا پہلا حرف ہے۔ اردو میں بطور حرفِ علت استعمال ہوتا ہے۔ الف کی دو قسمیں ہیں: ممدودہ،مقصورہ ۔ الفِ ممدودہ کے اوپر مدہوتا ہے اور کھینچ کر پڑھا جاتا ہے، جیسے: آگ ،آپ،آمد ۔جب کہ الف مقصورہ کے اوپر نہ تو مد ہوتا ہے اور نہ ہی اسے کھینچ کر پڑھتے ہیں، جیسے: اگر، اٹل، ابھی،ادھر،امر،اثر،اکثر۔
الف کلمے کے شروع میں متحرک ہوتا ہے،ساکن نہیں ہوتا۔کلمے کے وسط اور آخر میں درج ذیل معانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے:
(۱)انحصار واستیعاب کے واسطے ،جیسے : سراپا،مونہا منہ۔
(۲)متجانسین کے درمیان اتصال کے واسطے، جیسے: ماراً مار، دوڑا دوڑ، گرما گرم، چھما چھم۔
(۳)اضافت کے معنی پیدا کرنے کے واسطے، جیسے: بھڑیا چال، موتیا بند، موسلادھار۔ 
(۴)حرف ندا کے طور پر ،جیسے: ناصحا،خدایا،اجی،اے ،او۔
(۵)علامت فاعل کے طورپر،جیسے: قاتل،ظالم، حاکم، دانا،بینا۔
(۶)علامت جمع کے طور پر ،جیسے:مذاہب ،مساجد،مدارس،مکاتب۔
(۷)علامت تعدیہ کے طور پر ،جیسے:پڑھنا سے پڑھانا، نکلنا سے نکالنا۔
(۸)علامتِ ماضی مطلق کے طور پر، جیسے: سنا ،دیکھا،گیا، چلا۔
(۹)علامتِ تذکیرکے طور پر، جیسے: بھینسا،مرغا، بکرا،لڑکا،بڑا۔
(۱۰) علامتِ تانیث کے طور پر، جیسے: رادھا ،بیوا، صغریٰ ،کبریٰ ، بشریٰ۔
(۱۱) نفی کے طور پر ،جیسے: اٹل ،اچھوت ،امٹ۔
(۱۲)حرفِ تفضیل کے طور پر، جیسے:اشرف ،اکبر ،افضل ،اکرم، اعظم۔
(۱۳)تحقیر کے طور پر ،جیسے: کلوا،کالیا،ٹٹوا، بٹوا۔
(۱۴)اظہارِحسرت کے طور پر، جیسے: مسرتا، دردا۔
(۱۵)علامتِ اسم وحاصل مصدر کے طور پر، جیسے: جھگڑا،بلاوا۔
(۲)با
یہ اردو،فارسی اور عربی کا دوسرااور ہندی کا تئیسواں حرف ہے۔ یہ حرف فارسی ترکیبوں میں ہمیشہ مفتوح رہتا ہے اور درجِ ذیل معانی کے لیے آتا ہے:
(۱)بمعنی طرف وجانب ،جیسے: روبقبلہ، رو براہ۔
(۲)بمعنی آمنے سامنے، جیسے: روبرو۔
(۳)برائے اتصال، جیسے: ماہ بماہ، روز بروز، در بدر۔ 
(۴)برائے قسم،جیسے: بخدا،برب کعبہ۔
(۵)برائے مطابقت، جیسے: بقولِ شخصے، بارشادِ خداوندی۔
(۶)بمعنی توسل، جیسے: بصدقۂ فلاں،برسالت رسول۔
(۷)بمعنی میں،جیسے: خاکم بدہن۔
(۸)کبھی یہ حرف زائد ہوتا ہے، جیسے: بجز ،بغیر۔
عربی ترکیبوں میں ب ہمیشہ مکسور رہتی ہے ،عربی میں اسے حرفِ جر کہا جاتا ہے اور درجِ ذیل معانی میں استعمال کیا جاتا ہے :
(۱)سے،ساتھ ،جیسے:بالا رادہ ،بالواسطہ۔
(۲)قسم، جیسے: باللہ۔
(۳)وسیلے سے،جیسے:بحرمت النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
(۴)یہ کبھی حرفِ ذیل سے بدل جاتی ہے، جیسے: پ: بادشاہ سے پادشاہ۔ د: کب سے کد ۔ و: بابا سے باوا۔
(۳)پا
یہ اردواور فارسی کا تیسرا اور ہندی کا اکیسواں حرف ہے۔ 
(۱)یہ ہندی الفاظ کے آخر میں آجائے، تو مصدری معنی دیتی ہے، جیسے: ملاپ۔
(۲)فارسی میں کئی حرفوں سے بدل جاتی ہے، جیسے: تب سے تپ،سپید سے سفید ۔
(۴)تا
ارود، فارسی حروف تہجی کا چوتھا، عربی کا تیسرا اور ہندی کا سو لھواں حرف ہے۔یہ حرف درجِ ذیل معانی کے لیے آتا ہے۔
(۱)حاصل مصدر کے معنی میں،جیسے: بادشاہت،چاہت،صدارت۔
(۲)عربی، فارسی اور ہندی الفاظ میں بطور تانیث ،جیسے: محبت، دولت،الفت۔ بعض جگہوں میں مذکر بھی مستعمل ہے، لیکن وہ قلیل الاستعمال ہے، جیسے: شربت وغیرہ ۔
(۵)ٹا
اردو کا پانچوں اور ہندی کا گیارھواں حرف ہے، فارسی اور عربی میں یہ حرف نہیں ہے، اس کا دوسرا نام تائے ثقیلہ اور تائے ہندی بھی ہے۔ یہ حرف بعض کلمات کے آخر میں آکر مصدری معنی پیدا کرتا ہے،جیسے: بناوٹ، سجاوٹ، گھلاوٹ۔
(۶)جیم
اردوکاساتواں،فارسی کاچھٹا،عربی کاپانچواں اور ہندی کا آٹھواں حرف ہے۔ یہ عربی کے قمری حروف میں سے ایک ہے۔ اگر اس سے پہلے ’ال‘آئے گا، تو لام اپنی آواز دے گا، جیسے:الجمل، الکتاب۔بعض اردو کلمات کے آخر میںآکر ان کو مصدریا اسم کیفیت بنا دیتا ہے، جیسے: گرج،اپج،سج۔
(۷)سین
اردو کا اٹھا رھواں،فارسی کا پندرھواں اور ہندی کا تیسواں حرف ہے۔ یہ شمسی حرف ہے، یعنی اس سے پہلے ’ال‘ آئے گا،تو اپنی آواز نہیں دے گا؛البتہ اس کومشدد کر دے گا، جیسے: السعید،السفر۔
(۱)یہ لفظ کے آخرمیں آکر اسمِ کیفیت کامعنی دیتا ہے، جیسے: مٹھاس،پیاس ۔
(۲)ہندی الفاظ کے شروع میںآکر خوب صورت اور نیک کے معنی پیداکرتاہے،جیسے: سڈول، سمیل ۔
(۸)کاف
اردو کا اٹھائیسواں،فارسی کا پچیسواں اور ہندی کا پہلا حرف ہے۔یہ درج ذیل معانی میں استعمال کیا جاتا ہے:
(۱)کلمے کے آخرمیں اسمِ کیفیت کے معنی میں آتا ہے، جیسے: ٹھنڈک،لے پالک۔
(۲)کبھی تصغیری معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: ڈھولک،طفلک۔
(۳)دو کلمے کے بیچ میں مشارکت کے معنی دیتا ہے، جیسے: مارک مارا،نوچک نو چا۔
(۴)کبھی نفی کے معنی دیتا ہے، جیسے: کراہ، کڈھب، کپوت،کڈھنگ۔
(۹)لام
اردو کا تیسواں، فارسی کا ستائیسواں، عربی کا تئسیواں اور ہندی کا اٹھائیسواں حرف ہے۔ اور درجِ ذیل معانی میں مستعمل ہے:
(۱)اردو مصادرکومتعدی بنا دیتاہے، جیسے: کھانا سے کھلانا، سوناسے سلانا۔
(۲)متعدی مصدرمیں تاکیدی خصوصیت پیدا کرتا ہے،جیسے: دکھانا سے دکھلانا،بتانا سے بتلانا۔
(۳)کبھی الفاظ کے آخر میں آنے سے مصدریت کا فائدہ دیتاہے ، جیسے: دیکھ بھال،چال ڈھال۔
(۴)کبھی نسبت کے لیے آتا ہے، جیسے: بوجھل۔
(۵)عربی کلمے کی ابتدا میں آکر ’لیے‘ کا معنی دیتا ہے، جیسے:للّہ۔
(۱۰)میم
اردو کا اکتیسواں، فارسی کا اٹھائیسواں، عربی کا چو بیسواں اور ہندی کاپچیسواں حرف ہے۔ 
(۱)دوکلموں کے درمیان مشارکت کا معنی پیداکرتا ہے،جیسے:گھوسم گھوسا،بھاگم بھاگ،دھکم دھکا۔
(۲) عربی لفظ کے شروع میں مفتوح آئے تو اسم ظرف یا اسم مفعول بنادیتا ہے، جیسے: مجلس، محفل، مظلوم،مجبور،مقہور،مغلوب،منصور۔ 
(۳)اگر مضموم آئے، تو اس کوفاعل بنا دیتا ہے،جیسے: محافظ،مجاہد،مناظر،مسافر،منافق۔
(۴)فارسی میں اسمائے اعداد کے آخر میں آکر ان کو صفتِ ترتیبی بنا دیتا ہے، جیسے: دوم، سویم، چہارم،پنجم، ششم، ہفتم،نہم،دہم۔
(۱۱)نون
اردو کابتیسواں ،فارسی کا انتیسواں ،عربی کا پچیسواں اور ہندی کا بیسواں حرف ہے۔ اور درجِ ذیل مواقع پر مندرجہ ذیل معانی میں مستعمل ہے: 
(۱)ہندی الفاظ کے شروع میں نفی کے واسطے آتا ہے اور ہمیشہ مکسور رہتا ہے، جیسے: نِڈر ۔
(۲)اسم کے آخر میں تانیث بناتا ہے، جیسے: رحیمن ،کریمن،سمدھن۔
(۳)کبھی نسبت وزوجیت کا اظہار کرتا ہے، جیسے: مولون،دلہن، حجن، دھوبن۔
(۴)ماضی اور امر کے صیغوں کے آخر میں حاصل مصدر بنا دیتا ہے،جیسے: جلن، دھڑکن،کڑھن۔
(۵)مونث الفاظ، جن کے آخر میں ’یا‘ہو ،اس کے آخر میں آکر انھیں جمع میں تبدیل کر دیتا ہے،جیسے: گڑیا سے گڑیاں،پڑیاسے پڑیاں،چڑیا سے چڑیاں۔
(۱۲) واو
اردو کا تنتیسواں، فارسی کا تیسواں، عربی کا چھبیسواں اور ہندی کا انتیسواں حرف ہے۔ اس کی چار قسمیں ہیں : (۱)واو معروف(۲)واوِ مجہول (۳)واوِ موقوف (۴)واوِ معدولہ۔
واوِ معروف:جس واو سے پہلے پیش ہوتا ہے اور خوب ظاہر کر کے پڑھا جاتاہے ، جیسے:دُور، حُور، خُوب، زُود۔
واوِ مجہول : جس واو سے پہلے پیش تو ہو تا ہے ؛لیکن خوب ظاہر کر کے نہیں پڑھا جاتاہے ، جیسے:ہوش،زور،گوش،لوگ۔
واو مو قوف: جو لفظ کے آخر میں آتا ہے اور اس سے پہلے الف ہوتا ہے،جیسے: بھاو،تاو،واو۔
واوِ معدولہ: جو لکھا تو جاتا ہے مگر پڑھا نہیں جاتا، جیسے:درخواست ،خواہش ،استخوان۔
ارود اور فارسی میں یہ حرف درجِ ذیل معانی میں استعمال کیاجاتا ہے:
(۱)عربی وفارسی الفاظ کے درمیان میں معیت کے معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: پیری وصدعیب،شب وروز،آب ودانہ،صبح و شام۔
(۲)فارسی وعربی مرکبات میں بطور عطف مستعمل ہے، جیسے: زید وبکر، صبح وشام۔
(۳)کبھی نسبتی معنی دیتا ہے، جیسے: ہندو،بدھو ،کلو۔
(۴)کبھی قسم کے معنی دیتا ہے، جیسے: واللہ۔ 
(۵)واوِ مجہول امر حاضر کے آخر میں برائے جمع تعظیمی معنی پیدا کرتا ہے، جیسے: آؤ، بیٹھو۔
(۶)کبھی حاصل مصدرکے معنی میں آتا ہے،جیسے: چڑھاو،بچاو،پلاو۔
(۱۳)یا 
یہ اردو کا پینتیسواں، عربی کا اٹھائیسواں اور ہندی کا چھبیسواں حرف ہے۔ اس کی دوقسمیں ہیں: (۱)یائے معروف (۲)یائے مجہول ۔
یائے معروف: وہ ’ی‘ ہے جس سے پہلے کے حرف پر زیر ہو اور خوب ظاہر کر کے پڑھا جائے ، جیسے: عید، فقیر،امیر،حقیر۔
یائے مجہول: وہ ’ی‘ ہے جس سے پہلے کے حرف کی زیر خالص نہ ہو اور خوب ظاہر کے بھی نہ پڑھا جائے ، جیسے:دلیر ، گریز ،سے،دیر۔
یہ درجِ ذیل معانی میں مستعمل ہے:
(۱)یائے معروف اسم اور فعل کے آخر میں علامتِ تانیث ہے، جیسے: ٹوپی، لڑکی،مٹھائی۔
(۲)کبھی فاعلیت کا معنی دیتی ہے،جیسے: تیلی، مداری، پنساری، شرابی،کبابی۔
(۳)کبھی نسبت کے لیے آتی ہے، جیسے:پڑوسی، پاکستانی،ہندستانی، شہری۔
(۴)کبھی اجرت کا معنی دیتی ہے،جیسے: پسائی،دھلائی،ڈھلائی۔
(۵)کبھی اسمِ صفت کے بعد آکر مصدری معنی دیتی ہے، جیسے:بھلائی ،برائی،دانائی،چو ڑائی، بزرگی،برد باری،سمجھ داری۔
(۶)کبھی اسم صفت کے بعدآکر مصدری معنی دیتی ہے ،جیسے:مشفقی، مکرمی،الہی، قبلہ گاہی۔
(۷)کبھی مفعولیت کے لیے آتی ہے، جیسے: تحریری، تقریری، زبانی۔
(۸)یائے لیاقت کے طور پر مصدر کے آخر میں آکر صلاحیت کا اظہار کر تی ہے،جیسے:دیدنی، خوردنی،کشتنی۔
(۹)یائے مجہول اگر ایسے اسم کے آخر میں آئے جس کے آخر میں الف ہو،تو اسے جمع بنا دیتی ہے،جیسے: گھوڑا سے گھوڑے۔گدھا سے گدھے۔