7 Apr 2018

تمہیدی باتیں


قسط نمبر (3) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس

بسم اللہ الرحمٰن لرحیم
تمہیدی باتیں 
الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین وخاتم النبیین وعلی اٰلہ ٖ وصحبہ اجمعین، اما بعد: 
کسی بھی زبان کی صحت وعدم صحت اور سیکھنے کے حوالے سے جو اصول و ضوابط بنائے گئے ہیں، انھیں اصطلاح میں ’’قواعد‘‘کہا جاتاہے ۔ زبان وادب کاپہلا مرحلہ حروف ہوتے ہیں اور حروف کے متعلق ’علم ہجا ‘ میں بحث کی جاتی ہے ، لہذا زبان وادب سیکھنے کے لیے’ علم ہجا‘ کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔ حروف کے مجموعے سے الفاظ بنتے ہیں اور الفاظ کی ترکیب وتالیف سے جملے وجود میں آتے ہیں، اور یہ دونوں چیزیں’ علم صرف‘ اور’ علم نحو‘ کے موضوع ہیں، لہٰذا ان دونوں علوم سے واقفیت بھی ناگزیر ہے۔ ان کے علاوہ زبان وادب میں لفظوں کی ظاہری ومعنوی خوبیاں بھی مد نظر رکھی جاتی ہیں ،جو’ علم بلاغت‘ کا موضوع ہے، لہٰذا ’علم بلاغت‘ کے متعلق بھی کچھ جان کاری حاصل کرنا لابدی ہے۔ پھر اصناف نظم میں بحر اور قافیے وغیرہ ہوتے ہیں، جنھیں’علم عروض‘ سے تعبیر کیا جاتاہے ، لہٰذ ا ’علم عروض‘ سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ ’علم ہجا‘ میں یہ بیان کیاجاتاہے کہ ایک زبان میں کتنی زبانوں کے حروف والفاظ پائے جاتے ہیں ؟ ان کا صحیح تلفظ کیا ہے ؟ ان کا رسم الخط کیسا ہونا چاہیے؟ اور دیگر زبانوں کے استعمال کیے جانے والے الفاظ کی شناخت کے کیا کیا طریقے ہیں؟۔ ’علم صرف‘ میں الفاظ کی ساخت اور ان کی حرکات وسکنات میں تغیر وتبدل کے مسائل زیر بحث ہوتے ہیں ۔ ’علم نحو‘ میں جملوں کا جوڑ توڑ اور ان کا باہمی تعلق بیان کیاجاتاہے ۔’ علم بلاغت‘ میں جملوں میں لفظی ومعنوی خوبیاں پیدا کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ اور’ علم عروض‘ میں نظم نگاری اور قوا نین شاعری بیان کیے جاتے ہیں ۔
اختصار کے پیش نظر اس کتاب میں اردو و زبان وادب سیکھنے کے لیے مذکورہ بالا پانچوں لابدی علوم پر تفصیلی کلام کرنا ممکن نہیں ہے ، اس لیے اس میں صرف وہی باتیں بیان کی جائیں گی ، جو’’ رہ نما ئے اردوادب ‘‘ کے لیے انتہائی ناگزیر ہوں اور ان کو تحریر کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہ ہو۔ 
کسی بھی زبان کے سیکھنے کے حوالے سے چوں کہ ’علم ہجا‘ بنیاد کی حیثیت رکھتاہے، اس لیے بحث کا آغازمباحث ہجاہی سے کیا جائے گا ۔ اس کے بعد الفاظ کے جوڑ توڑ اور ان کی ترکیب وتالیف کی جان کاری کا نمبر آتاہے، اس لیے اس کے بعد اردو کے چند بنیادی اور ضروری قواعد سے بحث کی جائے گی ۔ بعد ازاں ان میں ظاہری اور معنوی خوبیاں پیداکرنے کی منزل آتی ہے، لہٰذ ا ’علم بلاغت‘ کے متعلق بھی چندسطریں لکھی جائیں گی ۔ اس مقام پر پہنچنے کے بعد مضمون نگاری کے چند رہ نما اصول تحریر کیے جائیں گے ۔ پھر اس کے بعد اردو ادب کی دونوں قسموں : نثر ونظم اور ان کی اصناف کا تعارف کرایاجائے گا ۔بعد ازاں اسالیب کی مختلف اقسام بیان کی جائیں گی ۔ اور آخر میں تحقیق وتصنیف کے طریقے بھی لکھے جائیں گے ، لیکن اختصار کا دامن کہیں ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ، ہوالموفق والمعین وہو حسبی ونعم الوکیل ۔ 
ہجا کے مباحث
انسانی زندگی میں زبان کی بڑی قدروقیمت ہے،کیوں کہ زبان اظہارِ جذبات اورترسیلِ خیالات کا بنیادی وسیلہ ہے۔ زبان کے سائنسی وتجزیاتی مطالعے کا نام لسانیات ہے۔ لسانیات کی متعدد شاخیں ہیں۔ چند اہم شاخیں ذیل میں درج ہیں:
(۱)صوتیات 
(۲)توضیحی لسانیات
(۳)اسلوبیات 
(۴)بولیاں
صوتیات 
عضوِنطق سے ادا کی جانے والی آواز وں کا علم، صوتیات اور علم الاصوات کہلاتا ہے۔
اس کی دوقسمیں ہیں: (۱)مصوتے ۔(۲)مصمتے۔
مصوتے 
اس سے مراد اعضائے نطق سے پیدا ہونے والی وہ آوازیں ہیں، جن میں پھیپھڑوں میں نکلنے والی سانس منھ میں کہیں بھی رکاوٹ کے بغیر خارج ہوتی ہے، صرف زبان اوپر،نیچے یا درمیانی حالت میں ہوتی ہے اور ہونٹ کبھی مدور ہو جاتا ہے اور کبھی غیر مدوررہتا ہے۔ مصوتوں کی ادائیگی میں منھ کبھی کم اور کبھی زیادہ کھلا ہوا رہتا ہے،لیکن کہیں رکاوٹ نہیں ہوتی، جیسے: آ، اِ، ای، اُو، اَو۔ مصوتوں کا دوسرا نام حروف علت بھی ہے۔
مصمتے
ان آوازوں کو کہا جاتا ہے ،جن کی ادائیگی پھیپھڑوں سے نکلی ہوئی سانس منھ میں حلق سے لے کر دانتوں یا ہونٹوں تک کہیں نہ کہیں رک جاتی ہے، اور یہ رکاوٹ دور ہونے کے بعد ہی وہ آواز پیدا ہوتی ہے، جیسے: با،فا، حا۔مصمتوں کو حروفِ صحیح سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔
توضیحی لسانیات 
توضیحی لسانیات زبان کے ڈھانچے سے بحث کرتی ہے۔ اس میں لفظوں کی حرکات وسکنات، ان کے تغیر وتبدل اور سابقے ولا حقے لگا کر نئے نئے الفاظ بنانے کے طریقوں سے بحث کی جاتی ہے یعنی صرف ونحو کا مطالعہ کیاجاتاہے۔
اسلوبیات 
اس میں مطالعہ کیا جاتاہے کہ عبارت کو پیش کرنے کے لیے کون کون سے طریقے اختیارکیے گئے ہیں۔صاحب قلم کی نفسیاتی کیفیات کیا ہیں ؟اور فن پارے میں کن کن تکنیکوں کو برتا گیا ہے۔
بولیاں 
لسانیات میں دو چیزیں ہوتی ہیں: بولی اور زبان ۔ جب عام بول چال کی زبان قید تحریر میںآجاتی ہے اور اس میں شعر وادب لکھاجانے لگتا ہے، تو اس کا ایک معیار متعین ہو جاتا ہے اور قواعد وضوابط ایجاد کیے جاتے ہیں۔اگر چہ یہ معیار اور قواعد وضوابط حتمی وقطعی نہیں ہوتے۔ ان میں زبان ومکان کے اعتبار سے تبدیلیا ںآتی رہتی ہیں، پھر بھی ان کی رعایت اورپابندی ضروری ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف بولی کے لیے اصول وضوابط ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی پابندی ناگزیر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ مختلف علاقوں کے لوگوں کی زبان، لب ولہجہ، الفاظ اور انداز تکلم میں فرق پایا جاتا ہے، جب کہ تمام خطوں کے قلم کاروں کی تحریروں میںیکسانیت اور ہم آہنگی نظر آتی ہے۔

کچھ کتاب رہ نمائے اردو ادب کے بارے میں

قسط نمبر (2) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
اردو ادب کے لیے لازمی علوم 
علامہ ثعلبی وغیرہ نے علم ادب کی تحصیل کے لیے بارہ علوم کے حصول کو لازم قرار دیا ہے۔چنانچہ ان حضرات نے علم ادب کی تعریف ہی ان بارہ علوم کے مجموعوں سے کی ہے:(۱)علم لغت (۲) علم صرف (۳)علم اشتقاق(۴)علم نحو(۵)علم معانی (۶)علم بیان (۷)علم عروض (۸)علم قافیہ (۹)علم رسم الخط (۱۰)علم قرض الشعر (۱۱)انشائے نثر (۱۲)علم تاریخ ۔لیکن اردو ادب کے لیے کم سے کم پانچ علوم سے واقفیت ناگزیر ہے: (۱)علم ہجا (۲)علم صرف (۳)علم نحو (۴)علم بلاغت(۵)علم عروض۔ 
علم ہجا: اس علم کو کہا جاتا ہے، جس میں حروف تہجی سے بحث کی جاتی ہے۔اس کے موضوع کے تحت چند بحثیں آتی ہیں: ایک تو یہ کہ حروف کے مخارج کیا ہیں؟دوسری یہ کہ حروف کی آواز کو حرکات وسکنات سے کس طرح ربط دیا جائے؟ تیسری یہ کہ ایک زبان میں کتنی اقسام کے حروف استعمال کیے جاتے ہیں؟ چوتھی یہ کہ کون سے حروف کس زبان سے تعلق رکھتے ہیں ؟ پانچویں یہ کہ ان کا رسم الخط کیسا ہونا چاہیے؟ چھٹی یہ کہ ان کے املا کے کیاکیا طریقے ہیں؟۔ 
زیر نظر کتاب میں ان ساری بحثوں میں سے صرف چوتھی ، پانچویں اور چھٹی بحث کو بیان کیا گیاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی اور دوسری بحث کا تعلق علم ہجا کے ساتھ فن تجوید وقرا ت سے بھی ہے اور یہ ایک مستقل فن کی حیثیت رکھتاہے ۔ اس لیے ان دونوں بحثوں سے تعرض کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ’’رہ نمائے اردو ادب‘‘ کے لیے یہ دونوں اس درجہ ناگزیر بھی نہیں ہیں کہ ان کا تذکرہ کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہ ہو اور مطلوب ومقصود کے فوت ہونے کا خطرہ درپیش ہو۔ جہاں تک تیسری بحث کا تعلق ہے، تو اس حوالے سے یہ کہاجاسکتا ہے کہ اردو میں زیادہ تر عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت کے الفاظ پائے جاتے ہیں، اور ان کے علاوہ بھی کئی ایک زبانوں کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، جن کی حقیقت کا مکمل ادراک نہ صرف دشوار ہے ، بلکہ امر محال ہے ۔اور چوں کہ علم ادب کے ساتھ یہ علم لغت کا بھی موضوع ہے ، اس لیے اسی پر تکیہ کرلیا گیا ہے۔اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ بقیہ تینوں بحثوں ہی کو یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو یہاں کسی خاص اور اہم مقصد کے تحت لایا گیا ہے ، اور وہ خاص مقصد یہ ہے کہ زبان وادب کے لیے حروف بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔اور ادبی زبان چوں کہ تحریر وکتابت سے تعلق رکھتی ہے ۔ اور تحریرو کتابت کے لیے املا کے قواعد ، رموز واوقاف اور رسم الخط سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے ، اس لیے ان تینوں کا تذکرہ یہاں انتہائی ضروری تھا۔ 
علم صرف کی تعریف یہ ہے کہ جس سے حروف وحرکات کے تغیرو تبدل، کلمات کے بنانے کے قاعدے، اسموں اورفعلوں کی گردانیں معلوم ہوتی ہیں۔ غرض اس علم میں الفاظ کی کیفیات وحالات کا تفصیلی تذکرہ ہوتا ہے۔ 
علم نحو اس علم سے عبارت ہے ،جس سے مفردات کی ترکیب،جملوں کی ساخت ، ان کی باہمی ترکیب اور ایک دوسرے سے لگاؤ کے قواعد معلوم ہوتے ہیں۔ حروف کی شناخت کے بعد زبان وادب کے سیکھنے کا دوسرا مرحلہ ان کے ترکیبی مجموعے یعنی الفاظ کے تلفظ کا آتا ہے ۔اور صحت تلفظ کے بعد الفاظ کی باہمی ترکیب وتالیف کی منزل آتی ہے۔ اول الذکر علم صرف سے تعلق رکھتا ہے اور آخر الذکر علم نحو سے متعلق ہے، لہذا یہ دونوں علوم بھی ’’رہ نمائے اردوادب ‘‘کے لیے حد درجہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ان دونوں علوم کو مجموعی طور پر ’’چند بنیادی قواعد‘‘ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے، لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہی ہے کہ قواعد کی دگر کتابوں کی طرح تمام جزئیات وفروعیات کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ بالخصوص حروف کی بحث میں عام مضامین سے مکمل انحراف کرتے ہوئے اس کی جگہ ایک الگ اوربالکل نئی بحث لائی گئی ہے۔ کیوں کہ طول طویل مباحث سے قاری اور وہ بھی ایک نو آموز قاری کسی نتیجہ پر پہنچنے کے بجائے انھیں قواعد کے پیچ وخم میں الجھ کر رہ جاتا ہے ۔اور سوائے عبارت خوانی کے کوئی مواد حاصل نہیں کرپاتا ، مزید برآں کتاب سے اکتاہٹ بھی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس لیے ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، صرف انھیں قواعد و اصول کی بحثوں کو چھیڑا گیا ہے ،جو ایک مبتدی کو بہ آسانی راہ ادب تک پہنچا دے اور وہ دوران مطالعہ گنجلک یا اکتاہٹ بھی محسوس نہ کرے۔ 
علم بلاغت سے مراد یہ ہے کہ اپنے خیالات وجذبات کو مختلف اور دل چسپ پیراےۂ بیان میں بیان کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ اس کی تین قسمیں ہیں: (۱)علم بیان (۲)علم معانی (۳) علم بدیع ۔ پھر ان تینوں قسموں کی مختلف اقسام وفروع ہیں، لیکن اس کتاب میں صرف انھیں اقسام وانواع کو جگہ دی گئی ہیں ، جن کا تذکرہ کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔بایں وجہ ان پر مجموعی طور پر یہ سرخی لگادی گئی ہے کہ ’’اظہار خیال کے مختلف پیراےۂ بیان‘‘ ۔ 
عوامی زبان یعنی غیر ادبی زبان اور ادبی زبان کے مابین امتیاز پیدا کرنے والی چیز ادبی زبان کا وہ مخصوص طرز وانداز ، لب ولہجہ اور حلاوت وچاشنی ہیں، جن سے غیر ادبی زبانیں اور غیر ادبی تحریریں محروم ہوتی ہیں۔ اور یہ خصوصیات وامتیازات علم بلاغت کی مدد ہی سے پیدا کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے علم بلاغت کو بھی جزو کتاب بنا لیا گیا ہے۔ 
علم عروض وقوافی میں اشعار کے متعلق جملہ لوازمات سے بحث کی جاتی ہے ۔اگر چہ نثر نگاری کے لیے اس علم سے مکمل واقفیت لازمیت کی حد تک ناگزیر نہیں ہے ، تاہم نثر کو سمجھنے کے لیے اس کی بنیادی اصطلاحات کی جان کاری حاصل کرنا ضروری ہے۔نیز ادب کا اطلاق نثر ونظم دونوں صنفوں پر ہوتاہے، اس بنیاد پر ان دونوں صنفوں کے بار ے میں بنیادی معلومات رکھنا ایک اچھا قلم کار بننے کے لیے ضروری ہے۔بایں وجہ اس حوالے سے بھی چند سطور لکھ دی گئی ہیں۔ 
ابحاث کی ترتیب وضعی کی خاص وجہ
اس کتاب کا اصلی مقصدان رہ روانِ شوق کو اردو ادب کی راہ پر لانا ہے، جن کی مادری زبان اردو تو ہے، لیکن اردو ادب سے واقف نہیں ہیں، لیکن ابحاث کی ترتیب کچھ اس طرح رکھی گئی ہے کہ یہ ان حضرات کے لیے بھی مفید ثابت ہوگی ،جن کی مادری زبان تو اردو نہیں ہے، لیکن وہ اردو کے سچے عاشق ہیں ، اور اس زبان سے آگہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔چنانچہ کتاب کا آغاز علم ہجا سے کیا گیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان وادب سیکھنے کے لیے مطالعہ کے ساتھ ساتھ تحریر وکتابت کا سہارا لیا جاتاہے ، اور اس کے لیے املا کے قواعد اور رموز واوقاف کو جاننا ضروری ہے۔ اور قواعد املا کو صحیح طور پر اسی وقت برتا جاسکتاہے، جب کہ پہلے یہ معلوم ہو کہ اس زبان میں پائے جانے والے الفاظ دوسری کس زبان سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کا ہماری زبان میں صحیح املا کیا ہے؟ اسی طرح ان کا صحیح تلفظ کیا ہے؟ چوں کہ ان تمام ابحاث کا تعلق علم ہجا سے ہے ،اس لیے سب سے پہلے علم ہجا سے بحث کا آغاز کیا گیا ہے۔ کتاب کو اس بحث سے آغاز کرنے کی ایک وجہ تو یہ تھی ۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ املا کے رموز وقواعد سے عموماً کوتاہی برتی جاتی ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ناواقفیت ہے۔ حالاں کہ تحریر کی خو ب صورتی اور قابل فہم بنانے کے لیے یہ رموز اتنے ہی ضروری ہیں جتنے کہ ایک درخت کے لیے دھوپ اور پانی۔ 
جب ایک نو آموز اور مبتدی طالب علم، قواعد املا سے واقف ہوجائے گااور وہ چند سطور ان قواعد کی رعایت کے ساتھ لکھنے پر قادر ہوجائے گا، تو زبان وادب سیکھنے کے لیے اس کا دوسرا مرحلہ شروع ہوجائے گا۔ اور وہ مرحلہ یہ ہے کہ اپنے دل کی باتوں کو صفحۂ کاغذ پر کس طرح منتقل کیا جائے کہ اس میں واحد، جمع ، تذکیر وتانیث اور کسی طرح کی کوئی غلطی درنہ آئے ، اس لیے علم ہجا کے معاً بعد ’’چند بنیادی قواعد‘‘ لکھے گئے ہیں، جن کی مدد سے ہر قسم کی غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ 
اس بحث کے بعد ’’اظہار خیال کے مختلف پیراےۂ بیان ‘‘کے عنوان سے ایک بحث رکھی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سابقہ مباحث کے مطالعے سے طالب علم کے اندر اتنی صلاحیت پیدا ہو چکی ہوگی کہ وہ کسی طرح کی غلطی کیے بغیر سیدھے سادے انداز میں کوئی مضمون لکھ سکتا ہے۔ لیکن ابھی وہ اس بات پر قادر نہیں ہوگا کہ اس کے اندر کسی ظاہری ومعنوی خوبیوں کو پیدا کر سکے ، جب کہ ایک عمدہ اور معیاری مضمون کے لیے ان خوبیوں کا ہونابھی ضروری ہے۔ اور یہ خوبیاں علم بلاغت کے ذریعہ پیدا کی جاتی ہیں، اس لیے یہ بحث اس جگہ رکھی گئی ہے۔ 
اس کے بعد اردو میں مستعمل نثر کی مختلف اصناف کا تعارف کرایا گیا ہے اور ہر ایک صنف کے انداز نگارش کو بیان کیا گیا ہے، کیوں کہ اس سے پہلے کے مباحث کے مطالعہ سے طالب علم کے اندر اتنی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے کہ وہ کسی طرح کی غلطیوں کے بغیر ظاہری ومعنوی خوبیوں کے ساتھ ایک مضمون تیار کرسکتا ہے، لیکن موضوع کی مناسبت سے انداز تحریر کیا ہونا چاہیے؟ اس سے ابھی وہ ناواقف ہے ، جب کہ ایک معیاری مضمون کے لیے مناسب انداز نگارش بھی ضروری ہے۔ اور چوں کہ یہاں سے مضمون نگاری کا اصل میدان شروع ہوتاہے، اس لیے اس سے پہلے ’’مضمون نگاری کے چند رہ نما اصول‘‘ اور مزید چند ضروری باتیں بھی تحریر کر دی گئی ہیں، جن کی روشنی میں بصیرت وبصارت کے ساتھ وہ مضمون نگاری کر سکتا ہے۔ 
زبان وادب سیکھنے کے لیے نظم ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔اس لیے اس کے معاًبعد نظم کے حوالے سے کچھ ضروری باتیں لکھی گئی ہیں، تاکہ نثر کے ساتھ ساتھ نظم سے بھی واقفیت ہو جائے ۔ اور جگہ جگہ اپنی تحریر میں اشعار استعمال کر کے اس کی خوبیوں میں مزید نکھار پیدا کر سکے۔ 
اس مقام پر پہنچنے کے بعد طالب علم کی یہ پوزیشن ہوجائے گی کہ وہ کسی بھی موضوع پر اس کے مطابق انداز نگارش کے ساتھ ایک معیاری اور عمدہ مضمون لکھ سکتاہے ، لیکن ابھی وہ کسی دوسرے کے مضمون میں حسن و قبح کی نشاندہی نہیں کرسکتا ہے ۔ حالاں کہ ایک ادیب صحیح معنی میں ادیب اسی وقت کہلاتا ہے ، جب کہ وہ کسی تحریر میں خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اس صلاحیت کو اصطلاح میں ’’تنقید‘‘ کہاجاتا ہے ۔ اس کتاب کے خاکے میں ’’اصول تنقید‘‘کو بھی جزو کتاب بنا یا گیا تھا ؛ لیکن کسی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس کو خاکے سے حذف کر دیا گیا اور اس کی جگہ ’’ مختلف اسالیب ‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی بحث لائی گئی ہے ، جس میں اگر چہ اصول تنقید بیان نہیں کیے گئے ہیں، لیکن اس میں کچھ ایسے مواد شامل کیے گئے ہیں، جن سے اسالیب کی مختلف اقسام سے آگاہی حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ تنقیدی صلاحیت بھی پیدا ہو جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ گویا یہ بحث ایک تیر دو شکار کا مصداق بن گئی ہے، اور یہی حکمت بالغہ ہے۔ 
امام الہند جناب حضرت مولانا ابو الکلام آزادؔ ؒ لکھتے ہیں کہ
’’سب سے بڑا مقام جو کسی انسان کے لیے ہوسکتا ہے ،وہ یہ کہ مضامین لکھے جائیں، اور اس سے بلند تر مقام یہ ہے کہ کسی اخبار یا رسالے کے ایڈیٹر ہوں‘‘۔
گویا مضمون نگاری کی آخری حد اور کسی ادیب کا آخری مقام یہ ہے کہ وہ کوئی کتاب یا کوئی تحقیقی مضمون لکھ لیتاہے۔ اس لیے کتاب کے آخر میں ’’تحقیق وتصنیف کے چند زریں اصول‘‘ بھی لکھ دیے گئے ہیں۔ 
ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب اردو ادب سکھانے کے حوالے سے ایک مکمل گائڈ اور معتبر رہ نما کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اور ایک مبتدی کو درجۂ ابتدا سے بلند کر کے محقق ومصنف کے منصب پر فائز کرسکتی ہے۔ اور یہی راقم الحروف کا مقصد ہے۔ اللہ کرے کہ یہ مقصد پورا ہو۔ آمین۔ 

اسلوب نگارش 
الکاتب الاسلامی جناب حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامینیؔ مدظلہ العالی دوران درس بارہا فرمایا کرتے تھے کہ’’الفاظ کی کثرت سے حقیقت نکل جاتی ہے‘‘ ۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ حقیقت بیانی اور عبارت آرائی دونوں ایک دوسرے سے تضاد کی نسبت رکھتے ہیں ۔ بایں وجہ اس کتاب میں عبارت آرائی سے مکمل احتراز کر تے ہوئے ایجاز واختصار سے کام لیا گیا ہے، لیکن اختصار کا وہ پہلو بھی اختیار نہیں کیا گیا ہے ،جس سے نفس مضمون غیر واضح اور گنجلک ہو جائے، بلکہ مضمون کی ادائیگی کے لیے جتنے الفاظ کی ضرورت تھی اتنے ہی الفاظ لائے گئے ہیں، جسے اصطلاح میں مساوات کہا جاتا ہے اوراسالیب ثلاثہ میں ’’ اسلوب علمی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ 
یہاں یہ عرض کردینا نا مناسب نہ ہوگا کہ مآخذ ومراجع کی کتابوں سے استفادہ کرنے میں مختلف طریقے اپنائے گئے ہیں:کبھی تو یہ طریقہ اپنا یا گیا ہے کہ مطالعے کے بعد نفس مضمون کا خلاصہ لے لیا گیا ہے، جس کا حوالہ ’’مستفاداز‘‘ سے دیا گیا ہے۔اور کبھی بعینہ عبارت نقل کر لی گئی ہے، جیسا کہ حوالہ نقل کرنے کا طریقہ ہے ۔ کہیں ایسا بھی کیا گیا ہے کہ ایک کتاب سے دوسری کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے ، لیکن وہاں پر اصل کتا ب کی بھی صراحت کر دی گئی ہے۔ متعدد کتابوں سے استفادہ کی صورت میں انھیں کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے ، جن سے نفس مضمون یا ان کی عبارت بھی نقل کر لی گئی ہے۔اور اگر صرف ان کا مطالعہ کیا گیا ہے اور ان سے کسی طرح کا اقتباس نہیں لیا گیا ہے، تو ایسا تو لکھ دیا گیا ہے کہ اس موضوع پر اس کتاب کا مطالعہ مفید ہوگا، لیکن ان کا باقاعدہ کوئی حوالہ نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی ان کو فہرست مراجع میں درج کیا گیا ہے۔ کتاب کے مواد ومیٹر میں کتابوں کے علاوہ حضرات اساتذۂ کرام اور فن کے ماہرین کے تجربات بھی شامل کرلیے گئے ہیں، جن سے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ 
منظور ہے گذارش احوال واقعی 
بعض مصنفین ومؤلفین کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ وجہ تالیف کے حوالے سے یارو احباب کا بے حد الحا ح واصرار ، گونا گوں مصروفیات ومشغولیات ، اپنی تہی مائیگی وکم علمی کا اظہار اور اعتذار کے فسانے انتہائی تفصیل کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں۔جس سے مبالغہ آمیزی کی بوآنے لگتی ہے اور اختراع کا شبہ ہونے لگتا ہے ۔ 
جہاں تک راقم الحروف کی بات ہے، تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ؛بلکہ ’’حادثہ‘‘ ہی پیش نہیں آیا، جس پر کسی داستان بے ستون کی بنیاد رکھی جاتی اور ایک د ل چسپ افسانہ تیار کر لیا جاتا۔ بس جو کچھ ہوا صرف اتنا ہوا کہ مطالعۂ ادبیات کے دوران اچانک یہ خیال آیا کہ اگر مطالعے کے ماحصل کو یکجا اور مختلف منتشر تراشوں کو اکٹھا کر کے کتابی شکل دے دی جائے، توکتابی دنیا میں دھماکہ نہیں ،تو کم از کم اضافہ ضرور ہو جائے گا۔ 
چنانچہ اسی جذبے کے پیش نظر قلم اٹھالیا، لیکن اس کا پہلا مرحلہ انتخاب موضوع اور دوسرا مرحلہ خاکہ تیار کر لینے کے بعد جب اپنے گریباں میں جھانکا اور نہا خانۂ دل کے علمی جغرافیہ کا جائزہ لیا ، تو محسوس ہوا کہ راہ تحریر کے اس نووارد مسافر کے لیے کوئی کتاب ترتیب دینے کا ارادہ کرنا اور وہ بھی ادب کے موضوع پر ،شیخ چلی کا منصوبہ یا بیداری میں دیکھا ہوا ایک خواب تھا جو شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ میرے دل ودماغ میں یہ بات گھر کر گئی کہ یہ کام میری ہمت وحوصلہ سے بالا تر ہے ۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ لاشعوری طورپر علامہ اقبال کا یہ شعر ورد زبان تھا کہ : ؂ 
گر حوصلے بلند ہوں اور کامل ہو شوق بھی 
وہ کام کونسا ہے جو انساں نہ کرسکے 
خدا جانے اس شعر میں شاعر کی کون سی روحانی قوت کا ر فرما تھی کہ میرا شوق پھر سے انگڑائی لینے لگا۔ میرا عزم جواں اور حوصلے بلند ہونے لگے۔ بالآخر پختہ ارادہ کر لیا کہ اس کام کو تابہ انجام پہنچا کر رہوں گا، ان شاء اللہ ۔ 
چنانچہ میں نے پھر سے قلم اٹھالیا اور نوعیت نگارش، ترتیب مباحث ، تعیین مخاطب اور ان جیسے ضروری پہلووں پر غور وفکر کرنے کے بعد کام کا آغاز کر دیا ، لیکن دریں اثنا شدت کے ساتھ یہ فکرستانے لگی کہ کیا مجھ سے اس موضوع کا حق ادا ہو سکے گا؟ بڑے بڑے ادیبوں کے ہاتھوں میں کتاب پہنچے گی ، تو وہ کیا تأثر لیں گے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ یارو احباب دشنام طرازیاں کرنے لگیں۔ غرض پردۂ ذہن پر ان جیسی فکر پریشاں کی اتنی تصویریں ابھر نے لگیں کہ میں شکست کھا گیا ، قلم کی سیاہی خشک ہوگئی اور زنجیر تردد نے پائے عزم کو اس طرح جکڑ دیا کہ تعطل وجمود کو حوصلہ مل گیا؛ لیکن پھر خیال آیا کہ : ؂ 
انجام اس کے ہاتھ ہے آغاز کر کے دیکھ 
بھیگے ہوئے پروں سے ہی پر واز کرکے دیکھ 
اسی تصور کے ساتھ پھر سے کمر بستہ ہوگیا اور انجام صاحب انجام کے حوالے کر کے توکل علی اللہ کا توشہ لے کر مائل بہ پرواز ہوگیا۔ اور جب کبھی شیطانی وسوسوں نے راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی، توانھیں اس یقین کا منھ توڑ جواب دیا گیاکہ یارو احباب، سب وشتم کے بجائے مسرت و فرحت کا اظہار کریں گے، اور اکابرین تنقید وتنقیص کے بجائے اپنی دعاؤں سے نوازیں گے۔ 
مشاہدہ شاہد عدل ہے کہ جب ایک آدمی کوئی کارنامہ انجام دیتا ہے ، تو اس کے متعلق دو طرح کے نظریے قائم کیے جاتے ہیں: ایک نظریہ توایسا قائم کیاجاتا ہے، جس میں کار کن کی حوصلہ افزائی ومدح سرائی کی جاتی ہے، اور اس کی کاوش کو داد وتحسین کی نظر وں سے دیکھاجاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا نظریہ ہوتا ہے جو اپنے اندر حقیقت شناسی اور دور بینی کا جوہر رکھتے ہیں، اور ہر چیز کو اس کا صحیح مقام عطا کرنے کی صلاحیت سے عاری نہیں ہوتے ، بلکہ ان کا فیصلہ مبنی بر حقیقت اور صدق وعدالت کا سراپا ہوتا ہے ، نہ اس میں کذب کا شائبہ ہوتا ہے اور نہ ہی تعصب کا تعفن ۔اور دوسرا نظریہ وہ قائم کیا جاتاہے ، جس میں صرف اس کی خامیاں مد نظر رکھی جاتی ہیں اور اچھائیوں کی طرف بالکل التفات نہیں کیا جاتا ، بلکہ ہر ممکن یہی کوشش ہوتی ہے کہ کہیں نہ کہیں سے کوئی ایسا سراغ مل جائے ،جس سے اس کو مضحکۂ روز گار بنا یا جاسکے ۔ اس نظریے کے حامل افراد،وہ ہوتے ہیں،جو یاتو نظر وفکر کی دولت ہی سے محروم ہوتے ہیں ، یا پھر ان کی طینت وفطرت میں بغض وحسد کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ کسی اچھی چیز کو اچھائی کی نظروں سے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ۔ جلن اور کڑھن ان کے افکار ونظریات کا ماحصل ہوتا ہے ۔ 
راقم الحروف کو اس کاوش کے متعلق اولاً یہ دعویٰ ہی نہیں ہے کہ یہ کوئی کارنامہ ہے ۔ لیکن تصنیف وتالیف کے حوالے سے کوئی کارنامہ سمجھ لیا جائے ، تو اس کے متعلق کونسا نظریہ قائم کیا جائے گا، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کر پائے گا، لیکن یہ اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہے ، اس کا فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ البتہ ہر مصنفین کی طرح میری بھی یہی دعا ہے کہ یہ کاوش تمام لوگوں کی منظور نظر ہو جائے اور مقبولیت عامہ حاصل کرلے، آمین ۔ 
تحریر و کتابت ، تسویدو تبییض اور تصنیف وتالیف انتہائی مشکل کام ہے۔ان کی مشکلات کا صحیح اندازہ وہی حضرات لگا سکتے ہیں ، جو ان راہوں سے گزر چکے ہیں، یا پھر کسی مسافر قلم کے ساتھ رفیق ومعاون کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دشوار گزار گھاٹیوں کو تنہا سر کرنا ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اس کے فضل وکرم سے چند ایسے احباب ہمیں میسر آئے کہ اگر یہ احباب شریک سفر نہ ہوتے اور قدم قدم پر ہماری مدد نہ کرتے،تو شاید یہ تمام مراحل اتنی عجلت کے ساتھ پورے نہ ہوپا تے ۔ ان احباب و محسنین میں سے سب سے پہلے ہم جناب مولوی ذکر اللہ العربیؔ سیتامڑھی کا شکریہ اداکرنا چاہیں گے ؛ کیوں کہ مراجع کی کتابیں مہیا کرانے میں جو کردار انھوں نے ادا کیا ہے ، اگر وہ ایسا کردار ادا نہیں کرتے ، تو شاید ہماری کوشش ناکامی کا شکار ہوجاتی۔ اس موقعے پر جناب مولوی خلیق رحمانیؔ رامپوری کو کیسے بھول سکتے ہیں ، جن کی شب وروز محنت ولگن اور جہد مسلسل سے کتابت کے اغلاط، ممکنہ حد تک ختم ہوگئے ۔ جناب مولوی عبد الرزاق گڈاوی، جناب مولوی تفصیل احمد سیتامڑھی بھی شکریے کے مستحق ہیں، جن کی مسلسل حوصلہ افزائیوں اور فکر مندیوں سے ہمارے پائے استقلال میں لغزشوں کو راہ نہ مل سکی ۔ انجمن آئینۂ اسلاف طلبۂ ضلع گڈا (جھارکھنڈ) ، بزم سجاد طلبۂ بہار ، جھارکھنڈ ، اڑیسہ و نیپال اور کتب خانۂ دارالعلوم دیوبند کو کیسے فراموش کیا جاسکتاہے، جہاں سے استفادہ کر کے اس کی خمیر تیار کی گئی ہے۔ یکتائے روز گار وبے مثال خطاط جناب حضرت مولانا قاری عبد الجبار صاحب قاسمی(استاذ دارالعلوم دیو بند) کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کریں ، جن کی نیک خواہشات و توجہات نے ہماری زندگی میں بڑا کام کیا ۔جناب مولانا محمد شاہد غنی صاحب قاسمیؔ کمپیوٹر آپریٹر کا کیوں نہ شکریہ ادا کریں، جنھوں نے اس کتاب کی کتابت وتزئین میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا اور اس کو جلد از جلد پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے رات دن ایک کردیا ۔ ہم صمیم قلب سے ممنون ومشکور ہیں ، علم وادب کے پیکر، اسلامی اہل قلم جناب حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامینیؔ ( ایڈیٹر’’ الداعی‘‘ عربی، واستاذ عربی ادب دار العلوم دیو بند) کے ؛جنھوں نے مسودہ پر نظر کرم فرماکر اپنی قیمتی آرا ء، دعائیہ کلمات اور تأثرات وتقریظات سے نواز کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔ فجزا ھم اللہ جمیعاً خیرالجزاء۔ 
اللہ تعالیٰ راقم الحروف ، معاونین ، مخلصین اور قارئین سب کی مغفرت فرمائے اور احقر کو اخلاص و للہیت کی دولت سے نوازے اور اس کتاب کو مقبول خاص وعام بنا دے ، آمین ثم آمین۔والحمد للہ رب العلمین اولاََ و آخراََ۔ 
محمد یاسین قاسمی 
جہاز قطعہ، گڈا، جھارکھنڈ انڈیا

اردو کی مختصر تاریخ

قسط نمبر (1) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
اردو کا آغاز
جب کبھی د و قومیں آپس میں ملتی ہیں؛ تو اس سے ایک نئی تہذیب اور ایک نئی زبان وجود میں آتی ہے۔ اردو زبان بھی اسی ملاپ کا نتیجہ ہے۔ ہندستان کی قدرتی خو ب صورتی اور فطری مناظر کی د ل کشی کی وجہ سے جو قومیں یہاں آئیں، بس یہیں کی ہو کررہ گئیں ۔ انھیں قوموں میں سے ایک آریائی یا ایرین قوم ہے، جو دراؤڑی قوم کے بعد ۱۵۰۰ ؁ ق م میں درۂ خیبر اور ایران کی راہوں سے آکر یہاں آبسی ۔ اس قوم کے آنے سے یہاں کی تہذیب وتمدن اور زبان میں نئی نئی تبدیلیاں ہوئیں۔دراوڑی قوم کی زبان ’’پراکرت‘‘ تھی اور آریائی قوم اپنے ساتھ ویدک بولی لے کر آئی تھی ، جو بعد میں سنسکرت کہلانے لگی۔ لیکن اس قوم میں ذات پات کی تفریق پائی جانے کی وجہ سے سنسکرت صرف اونچے طبقے کی اور مذہبی واحترامی زبان بن کر رہ گئی ،جس کی وجہ سے اسے عوامی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی، جب کہ پراکرت عوامی بول چال کی زبان کی حیثیت اختیار کر گئی۔ 
کچھ عرصہ بعد ایک ایسا دور آیا کہ پراکرت میں ملاوٹ ہونے لگی اور سنسکرت کے محرف الفاظ کا ذخیرہ اس میں بڑھنے لگا، جسے ماہر لسانیات ’’اپ بھرنش دور‘‘ کہتے ہیں ۔اور اس کو چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں : (۱)شور شینی اپ بھرنش۔(۲)ماگدھی اپ بھرنش۔(۳)مہاراشٹر اپ بھرنش۔(۴)اودھ ماگدھی اپ بھرنش۔انھیں اپ بھر نشوں میں سے شور شینی اپ بھرنش سے لگ بھگ ۱۰۰۰ ؁ ء میں اردو زبان وادب کی بنیاد پڑی ہے۔صاحبِ اردو ادب کی بھی یہی رائے ہے ،چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ زبان اردواس ہندی بھاشاکی ایک شاخ ہے ، جوصدیوں دہلی اور میرٹھ کے اطراف میں بولی جاتی تھی۔اور جس کا تعلق شورشینی پراکرت سے بلا واسطہ تھا‘۔(ص؍۷)۔پھر تدریجی طور پر ترقی کے مراحل سے گذرتی ہوئی پورے ہندستان میں پھیلی ہے۔ اور یہاں کی مقبولِ خاص وعام زبان بن گئی ہے۔ذیل کی سطروں میں اس کی ابتدائی نشو ونما اور مراحلِ ترقی کے حوالے سے چند باتیں درج کی جارہی ہیں۔
ابتدائی نشو ونما 
’’اردو‘‘ ترکی کا لفظ ہے ،جس کے معنی ’’لشکر‘‘ اور ’’فوج‘‘ کے ہیں۔ مولانا محمد حسین آزادؔ لکھتے ہیں کہ: ’’اردوترکی میں بازار لشکر کوکہتے ہیں‘‘۔ (آب حیات۔ص؍۳۱)۔ اردو کی اس تسمیہ کی وجہ یہ ہے کہ اس کی نشو ونما اور تعمیر وترقی میں فوجیوں اور لشکروں کا بھی غیر معمولی کردار رہا ہے۔علاوہ ازیں کچھ ایسے تاریخی واقعات بھی پیش آئے ہیں، جو اردو کے حق میں نہایت مفید اور اس کی تعمیر وتشکیل میں کافی ممد ومعاون ثابت ہوئے ہیں۔جن میں سے چند واقعات درج ذیل ہیں: 
(۱)محمدبن قاسم کے لشکر میں عربی اور فارسی بولنے والے لوگ شامل تھے۔جب انھوں نے سندھ اور ملتان کو فتح کرلیا؛ تو ان کی فاتحانہ تہذیب کے اثرات سے وہاں کی تہذیب کے ساتھ ساتھ زبان بھی متأثر ہوئی ، اور اس کی جگہ ایک نئی زبان وجود میں آئی، جسے ہم اردو کا ہیولیٰ کہہ سکتے ہیں۔ 
(۲)اس کے بعد جب محمود غزنوی کا دور آیا ، اور اس نے شمال و مغرب سے فتح کرتے ہوئے سندھ، ملتان اور پنجاب سے لے کر میرٹھ اور نواح دہلی تک کے تمام علاقوں کو اپنی حکومت میں شامل کرلیا، تو مسلمانوں کے وہ تہذیبی اور لسانی اثرات( جن کی بنیادیں محمد بن قاسم کے فاتحانہ دور میں پڑ چکی تھیں) کافی گہرے ہوتے گئے، جس کے نتیجے کے طور پراردو کسی محدود علاقے کی زبان کے بجائے مختلف خطوں کی زبان بن گئی۔علاوہ ازیں یہ زبان دہلی کے آس پاس میرٹھ اور اس کے اطراف واکناف کی زبانوں کواپنے اندر جذب کرنے لگی اور خود بھی ان کے اندر جذب ہو کر سارے ہندستان میں پھیلنے لگی۔ 
(۳)علاؤالدین خلجی نے گجرات سے لے کر دکن تک کے تمام علاقوں کو سوسو حلقوں میں تقسیم کر دیا تھا، اور ہر علاقے میں ایک ترک افسر مقرر کیا تھا۔ چوں کہ یہ افسران ترکی اور فارسی تو جانتے تھے، لیکن یہاں کی عوامی زبان (ابتدائی اردو) سے بالکل ناواقف تھے ، جس سے انھیں عوامی سطح پر بات چیت کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے وہ لوگ اپنی زبان کے ساتھ یہاں کی مقامی زبان کے الفاظ ملاکر بولتے تھے، جس سے اردو کا دامن وسیع ہوتا چلا گیا۔ 
(۴)تغلقوں کے دور میں محمد بن تغلق نے سلطنت دہلی پر تخت نشیں ہونے کے بعد دکن ، گجرات اور مالویہ پر اپنی گرفت کو مضبوط ومستحکم کرنے کے لیے دولت آباد (دیوگیری)کو دار السلطنت بنالیا اور ۱۳۲۷ء ؁ میں یہ حکم جاری کیا کہ دہلی کے تمام باشندگان، فوجی افسران اور ان کے متعلقین دولت آباد منتقل ہوجائیں۔اس فرمان شاہی کو سن کر بہت سے علمائے کرام بھی دکن منتقل ہو گئے۔جس کا فائدہ یہ ہوا کہ شمال سے لے کر دکن تک ایک مشترکہ تہذیب پھیل گئی۔ اور اردو زبان قلیل عرصے میں شمال ودکن کے تمام علاقوں میں رواج پاگئی ۔ 
(۵)اردو زبان واد ب کی نشو ونما میں اس وقت کے صوفیائے کرام نے بھی زبر دست کردار ادا کیا ہے۔ان سالکان طریقت نے اشاعت دین کے لیے عربی یا فارسی کے بجائے ایک ایسی زبان کو اختیار کیا،جس میں عربی اور فارسی کے ساتھ مقامی زبان کے الفاظ بھی شامل تھے۔ان بزرگوں میں سے بابا فرید،امیر خسرواور خواجہ گیسو دارز وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ 
ارتقائی مراحل 
اردو زبان وادب کے ارتقائی مراحل کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (۱)دور قدیم ۔(۲)دور متوسط۔ (۳)دور جدید۔ 
دور قدیم 
اس دور کا اطلاق اردو کی ابتدا سے سترھویں صدی تک ہوتا ہے۔اس دور میں اردو زبان کی تعمیر وتشکیل میں بہمنی دور (۱۳۵۰ء ؁ ۱۵۲۵ء ؁) کے ادبی کارنامے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔خاص کر شاعروں میں حضرت امیر خسرو اورنثر نگاروں میں حضرت خواجہ بندہ گیسو دراز کی تصانیف قابل ذکر ہیں۔بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد گول کنڈہ کا قطب شاہی دور(۱۵۱۸ء ؁ ۱۶۸۷ ؁ء )اوربیجاپورکے عادل شاہی دورکا بھی اردو کی خدمات میں نمایاں مقام رہاہے۔ان دونوں سلطنتوں کے زوال کے بعد چوں کہ اورنگ آباد شعر وادب کا مرکز بن گیا تھا۔ اس لیے اردو کی آبیاری میں یہاں کے ادیبوں، ان میں بطور خاص ولی اور سراج کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔
اس دور کے شمالی ہند کے شعرا فارسی میں شعر کہا کرتے تھے ۔ اردو میں سب سے پہلے امیر خسرو نے شعر کہے اور انھیں سے اردو میں شعر گوئی کا آغاز ہوا ۔ چوں کہ اس وقت اردو ابھی ایک نوپید زبان تھی اور اس نے مکمل صورت اختیار نہیں کی تھی، اس لیے اس دور کی نظم اور نثر دونوں میں عربی وفارسی کے الفاظ کم اور ہندستانی الاصل الفاظ جیسے : کھڑی بولی، برج بھاشا، قدیم پنجابی، قدیم مراٹھی اور ڈھیروں ناہموار الفاظ پائے جاتے ہیں۔ 
دور متوسط 
اس دور کا آغاز سترھویں صدی سے ہوتاہے اور انیسویں صدی پر ختم ہو جاتاہے ۔ اس دور کی شاعری کی ترقی میں یہ واقعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ:
’’ولی نے ۱۷۰۰ ؁ء میں سید ابوالمعالی کے ہمراہ دلی کا سفر کیا ۔ یہاں کے شعرا جس طرح فارسی کے اشعار سناتے تھے، اسی طرح ولیؔ نے اردو میں غزلیں سنانی شروع کیں۔ ان کی غزلیں اتنی مقبول ہوئیں کہ دلی کے تمام شعرا نے ان کی تقلید میں اردو میں شعر کہنا شروع کردیا‘‘۔ (اردو اد ب ،ص؍۲۶۳)۔ 
اس دور کی سرکاری زبان فارسی تھی۔دور قدیم کی تحریر وں میں ہندستانی الاصل کے کچھ ایسے ناہموار الفاظ بھی تھے، جو اردو زبان سے پوری طرح میل نہیں کھاتے تھے۔ اس لیے مرزا مظہر جان جاناںؒ نے اس بات پر زور دیا کہ اردو میں رائج ہندستانی الاصل الفاظ کے بجائے عربی اور فارسی کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ حضرت کی یہ کوشش کامیاب ہوئی اور عربی وفارسی کے بے شمار الفاظ اور محاورے اردو کے جز بن گئے۔جن سے اردو کو ایک نئی جہت اور نئی ترقی ملی۔ 
اسی طرح اس دور میں اردو کی فروغ کاری میں دبستان دہلی (۱۷۰۰ ؁ء ۱۸۵۷ ؁ء ) اور دبستان لکھنؤ (۱۷۵۰ء ؁ ۱۹۰۰ ؁ء ) کے شاعروں اور ادیبوں کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔علاوہ ازیں ۱۷۷۱ء ؁ میں فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس اور ۱۸۰۰ء ؁ میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کا قیام بھی اردو ادب کی تعمیر وترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے،کیوں کہ ان دونوں یونی ور سیٹیوں کے قیام کا مقصد انگریز ملازموں کو ہندستانی رسم ورواج سے واقف اور اردو زبان سے روشناس کرانا تھا، لیکن اس وقت اردو زبان میں کوئی ایسی کتاب نہیں تھی ،جو داخل نصاب کی جاتی۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ان کالجوں میں اردو ادیبوں کا تقرر عمل میں آیا اور ان کے ذریعے انگریزی اور دگر زبانوں کی کتابوں کا ترجمہ کرایا گیا ، جس سے اردو مزید پروان چڑھی۔ 
دور جدید 
اس دور کا باقاعدہ آغاز ۱۸۵۷ ؁ء سے ہوتا ہے ۔ اس دور میں غالب نے اپنی منفرد اور دل چسپ مضمون نگاری اور فلسفیانہ شاعری کے ذریعہ اردو کو ترقی کے بام عروج پر پہنچادیا۔ اسی طرح تحریک سر سید اور ان کے رفقا مولانا حالی، مولانا شبلی نعمانی ، مولوی نذیر احمد اور مولانا حسین آزادؒ وغیرہ نے اپنی اپنی انفرادی ومتنوع صلاحیتوں اور کوششوں سے اردو ادب کو بہت فروغ دیا۔ علاوہ ازیں ۱۹۱۸ء ؁ میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کا قیام عمل میں آیا ۔جس میں ابتدا ہی سے تعلیمی وتدریسی زبان اردو رکھی گئی۔ اس میں تالیف وترجمے کے لیے دار الترجمہ کے نام سے ایک شعبہ قائم کیا گیا اور سماجیات، سیاسیات،معاشیات، جغرافیہ، تاریخ، سائنس، طب، انجنیرنگ اوردیگر علوم وفنون کی انگریزی کتابوں سے اردو میں ترجمے کیے گئے ، جس سے دامنِ اردو علوم وحکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس طرح مختلف ادوار سے گذرتی ہوئی یہ زبان ترقی کے اس اعلیٰ معیار پر پہنچ گئی ہے، جس کی بنا پر ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ عالمی زبانوں کی فہرست میں ایک نام اردو کا بھی شامل ہے۔ 
اردو کے مختلف قدیم نام 
ہندستان کے مختلف علاقوں میں اردوکی نشو ونما ہوئی ہے۔اس لیے یہ زبان مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے پکاری گئی ہے۔چنانچہ گجرات میں ’’گجری‘‘ اور دکن میں ’’دکنی‘‘ کہلائی ۔ حضرت امیر خسروؒ نے ’’ہندی‘‘ اور ’’ہندوی ‘‘سے یاد کیا۔ غالب نے ’’اردو ئے معلی‘‘ کہا ۔ بعض لوگوں نے ’’ریختہ‘‘ اور’’ زبانِ دہلوی ‘‘سے پکارا۔ انگریز مؤرخوں نے ’’ہندستانی‘‘ کا نام دیا ۔ لاطینی زبان میں ’’لنگو اندوستانی‘‘ کہا گیااور سب سے آخر میں اس کا نام ’’اردو‘‘ قرار پایا۔ 
عصر حاضر میں اردو کے سب سے مضبوط قلعے 
اگرچہ کچھ مؤرخین نے اردو زبان وادب کی تعمیر وترقی کے حوالے سے مدارس اسلامیہ کے کارناموں کو نظر انداز کردیا ہے، اورادوار ثلاثہ میں سے کسی بھی دور میں ان کی کسی بھی خدمات کا اعتراف اور تذکرہ نہیں کیا ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو کی آبیاری میں مدارس کا بھی زبر دست کردار رہاہے ۔ 
یوں تو اردو زبان وادب کی فروغ کا ری کے نام پر ہندستان کے مختلف خطوں میں سینکڑوں ادارے اور بے شمار اکیڈمیاں قائم ہیں، اور وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف کار بھی ہیں، لیکن عصر حاضر میں اردو کی جو خدمات مدارس اسلامیہ انجام دے رہے ہیں اور اس کی بقا وتحفظ کے لیے جو کردار ادا کررہے ہیں، فروغ اردو کے نام پر قائم تمام ادارے اور تمام اکیڈمیاں مل کر بھی وہ کردار ادا نہیں کرپارہی ہیں، کیوں کہ ان کا دائرۂ کار صرف کتابوں کے ترجمے اور کچھ نا م وروں کو ایوارڈ نوازنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔اور ظاہر ہے کہ اردو کی بقا کے لیے یہ خدمات آٹے میں نمک کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں ،کیوں کہ کسی بھی زبان کی عمر کودراز کر نے کے لیے اس کے رجال کار پیدا کرنا ناگزیر ہے اور اس کے لیے درجِ ذیل صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں : 
(۱)اس زبان کے قارئین پیدا کرنا اور ان کی تعداد میں اضافہ کرنا ۔ 
(۲)اس زبان کے مقررین پیدا کرنا ۔ 
(۳)اس زبان کے مصنفین و مترجمین پیدا کرنا ۔ 
(۴)ان کی تصانیف کو منظر عام پر لاکر ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کرنا۔
اور ان تمام صورتوں سے صحیح معنی میں صرف مدارس ہی رجال کار پیدا کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ قارئین بھی پیدا کر رہے ہیں ۔ مصنفین ومقررین کی کھیپ بھی تیار کر رہے ہیں اور آئے دن فضلائے مدارس کی تصانیف بھی منصہ شہود پر آرہی ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے ،جو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس بنا پر ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ عصر حاضر میں اگر اردو کی کچھ رمق باقی ہے اور جو کچھ پرچھائیاں نظر آرہی ہیں وہ صر ف اور صرف انھیں مدارس کی دَین ہیں ، اس لیے اگر مدارس کو اردو کے مضبوط قلعوں سے تعبیر کیا جائے،تو یہ مبالغہ آرائی ہوگی اور نہ ہی خلاف واقعہ حکایت ۔ پٹنہ ، بہار کے شہرۂ آفاق شاعر ونقا ، میر ثانی ، آبروئے بہار جناب ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب (سابق پروفیسر پٹنہ یو نی ور سٹی وامیر تبلیغ جماعت بہار) لکھتے ہیں : 
لیکن مدارس عربیہ کے لیے یہ سوغات ہے، اس معنی کر کہ اب اردو کی حفاظت میں مدارس جس قدر معاون اور مددگار ہیں، اسکولوں اور کالج اور یو نی ورسیٹیاں اب نہیں ہیں۔ موجودہ نسل جس حد تک اردو کو چلا سکے گی، چلائے گی؛ لیکن مستقبل قریب اور بعید میں میرا خیال یقین کی حد تک ہے کہ اردو کی نشو ونما ، اس کا بچاؤ اوراس کی اشاعت مدارس کو منتقل ہونے والی ہے۔ ادب اور زبان کی طرف جس قدر رغبت مدارس کے طلبہ میں پیدا ہورہی ہے،کالجوں اوریونیورسیٹیوں میں نہیں۔ خدا کرے یہ فال نیک ہو!۔ (ماخوذ از:تقریظ بردبستانِ بلاغت)۔ 
علمائے دیوبند کی اردو خدمات 
دار العلوم دیوبند ایک ایسا ادارہ اور ایک ایسی تحریک کا نام ہے، جس کی ہمہ گیر وہمہ جہت خدمات کا دوست ودشمن؛سب نے یکساں طور پر اعتراف کیا ہے، لیکن اردو ادب کے حوالے سے اس کی خدمات کو جس طور پر سراہا جانا چاہیے تھا، اس طور پر سراہا نہیں گیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ اردو کی آبیاری میں دار العلوم دیوبند کا کوئی خاص کردار نہیں رہا ہے ۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس باب میں بھی اس کا زبردست رول رہا ہے۔ 
اس غلط فہمی کی پیدا ہونے کی چند وجوہات ہیں۔ جن میں سے سب سے بڑی وجہ خودہم جملہ فضلائے دارالعلوم کی کوتا ہی اور لاپرواہی ہے ، کیوں کہ ہم نے دار العلوم دیوبند کا ان پہلووں سے تو تعارف کرایا کہ اس نے دنیا کو فقہ وفتاویٰ کی دولت عظمیٰ سے مالا مال کردیا، تفاسیر واحادیث کے بڑے بڑے امام پیدا کردیے، سیاسیات و اقتصادیات کے ماہر ین اور طب وحکمت کے جیالے فراہم کیے، برصغیر میں دین اسلام کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو پھر سے روشن،بلکہ روشن سے روشن تر کردیا۔ غرض ہم نے اس کی ایک ایک خدمات سے دنیاکو روشناس کرایا، لیکن اردو ادب کی خدمات کے حوالے سے کما حقہ تعارف نہیں کرایا۔جب کہ واقعہ یہ ہے کہ سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ سے لے کر تادم تحریر اس ادارے کے اساتذۂ کرام، فضلا وطلبائے عظام؛ سبھی کے سبھی اردو کی خدمات کرتے رہے ہیں۔ 
علمائے دیوبند کی اردو فروغ کاری کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ دگر اداروں اور اکیڈمیوں نے اس زبان کو صرف اس حد تک گلے لگایا کہ یہ ایک شیریں اور محبت والفت کی زبان ہے، لیکن علمائے دیوبند نے اسے اس حیثیت سے بھی قبول کیا کہ اشاعت دین کے لیے عربی زبان کے بعد اس کو دوسری زبان کے طور پر منتخب کرلیا، اور بے شمار عربی علوم وفنون کو اردو میں منتقل کر کے اس کے دامن تنگ کو وسیع سے وسیع تر کردیا۔ علاوہ ازیں روزاول ہی سے اگر چہ دارالعلوم کی نصابی کتابیں عربی اور فارسی زبانوں کی رہی ہیں، لیکن ان کی تعلیم وتدریس کے لیے اردو زبان ہی منتخب کی گئی ہے، جو اس زبان کی خدمت پر واضح اور بین دلیل ہے۔ 
علمائے دیوبند کی اردو خدمات کے پردۂ خفا میں رہنے کی ایک وجہ تو یہ تھی۔ اور دوسری وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس ادارے کا سارا کام اردو زبان میں ہونے کی وجہ سے یہ پہلو روز روشن کی طرح عیاں رہا، اور’’عیاں راچہ بیاں‘‘ کے پیش نظر اس کو درخوئے اعتنا نہیں سمجھا گیا۔حالاں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ 
بہر کیف! اردو ادب کی تعمیر وترقی میں علمائے دیوبند نے بھی غیر معمولی کارنامے انجام دیے ہیں۔ اس دعوے کی تصدیق کے لیے یہاں کے مصنفین اور ادبا وشعرا کے صرف ناموں ہی کی فہرست تیار کی جائے، تواس کے لیے کافی صفحات درکار ہوں گے ۔

6 Apr 2018

زندگی تبدیل کرنے کا تیر بہدف فارمولہ

محمد یاسین جہازی
زندگی تبدیل کرنے کا تیر بہدف فارمولہ
ارشاد ربانی ہے کہ
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلیک مِنَ الکتابِ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ ، إِنَّ الصَّلَاۃَ تنھیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمکنر، وَلَذِکرُ اللّٰہِ اکبرُ، وَاللّہُ یعلمُ مَا تَصْنَعُونَ۔ (العنکبوت، آیۃ: ۴۵)
قرآن مجید کی تلاوت کیجیے اور نماز کی پابندی کیجیے ، کیوں کہ نماز بے شرمی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو تم کر رہے ہو۔
تمام عبادات میں جو اہمیت و فضیلت نماز کو حاصل ہے ، وہ کسی اور عبادت کو حاصل نہیں ہے ،ا ور قرآن و احادیث میں جتنا تذکرہ نماز کا کیا گیا ہے، اتنا کسی اور عبادت کا نہیں کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی کسی عبادت کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اگر تم اس عبادت کو بجا لاؤگے تو وہ تمھیں تمام گناہوں اور بے شرمیوں کے لیے حجاب بن جائے گی۔ مثال کے طور پر روزہ کے تعلق سے یہ نہیں کہا گیا ہے کہ روزہ تمام گناہوں سے باز رکھتا ہے۔ زکوٰ ۃ کے تعلق سے بھی یہ وعدہ نہیں کیا گیا ہے ۔ حج کے تعلق سے بھی یہ ارشاد نہیں ہے کہ یہ تمام گناہوں کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔ الغرض کسی بھی عبادت کے حوالے سے ایسا پیغام نہیں دیا گیا ہے کہ اس کے مخصوص فوائد کے ساتھ ساتھ تمام گناہوں کے لیے آڑ بن جاتی ہے۔ یہ صفت صرف نماز کے ساتھ مخصوص ہے کہ نماز اور بے شرمی و بے حیائی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔ نماز کے اندر وہ مقناطیسی کشش ہے کہ وہ اپنے چاہنے والے کو گناہوں کے دلدل میں پھنسنے نہیں دیتی ۔ اوراس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے شاید یہ تو دیکھا ہوگا کہ ایک شخص روزہ رکھ لیتا ہے، مگر نماز نہیں پڑھتا، لیکن ایسا شخص آپ نے نہیں دیکھا ہوگا جو کہ پابندی سے تو نماز پڑھتا ہے، لیکن رمضان کا روزہ نہیں رکھتا۔ آپ نے یہ تو دیکھا ہوگا کہ ایک شخص زکوٰۃ دیتا ہے، مگر نماز نہیں پڑھتا؛ لیکن ایسا آدمی مشاہدے میں نہیں آئے گا کہ نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتا ہے، لیکن وہ فرضیت زکوٰۃ کو ادا کرنے سے گریز کرتا ہے۔ آپ نے یہ بارہا مشاہدہ کیا ہوگا کہ ایک شخص استطاعت پر حج کرلیتا ہے، مگر نماز نہیں پڑھتا؛ لیکن ایسا آدمی آپ کو شاید ہی ملے جو نماز کا تو عاشق ہے ؛ البتہ حج فرض ہونے کے باوجود زیارت بیت اللہ کے شوق سے بے نیاز ہے۔
نماز کی فطری اثر انگیزی صرف حقوق اللہ تک محدود نہیں ہے ، بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی کوتاہی نہیں آنے دیتی۔ سچے نمازی کی پہچان یہی ہے کہ اس کے اندر حیا وپاکیزگی کی صفت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ شرافت و نجابت اوراخلاق حسنہ کا عنوان بن جاتا ہے ۔ اس کی امتیازی شان اسے تمام لوگوں کا منظور نظر اور مقبول بارگاہ الٰہی بنادیتی ہے اور وہ انسانیت کا حقیقی علم بردار اور اسلام کا عملی ترجمان بن جاتا ہے۔ 
اگر ہماری نماز ہمارے اندر یہ خصوصیات پید انہیں کر رہی ہے، تو یقین مانیے ہماری نماز بیمار ہے، ہم نماز کی چوری کر رہے ہیں۔ ہم نماز کو نماز کی شان سے ادا نہیں کر پارہے ہیں۔ ہماری نماز احسان کی کیفیت اور اخلاص نیت سے عاری ہے۔ 
اگر ہم اپنی زندگی میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اخلاق، حسن اخلاق کے لیے مثال بن جائیں، ہماری زندگی گناہوں کی کثافت سے پاک و صاف رہے اور ہمارے بچے نیک تربیت اور حسن آداب کے نمونے کہلائیں، تو آپ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی نماز کو اس کی اعلیٰ شان اور احسان کی کیفیت کے ساتھ ادا کیجیے اور کرائیے، بالیقین آپ کی زندگی یک قلم بدل جائے گی اور آپ اپنے معاشرے میں بھی قابل تقلید شخصیت بن جائیں گے اور اخروی کامیابی بھی آپ کے قدم چومے گی۔ 

مسلمان اتنے جلسے جلوس کیوں کرتے ہیں؟

محمد یاسین جہازی قاسمی 
مسلمان اتنے جلسے جلوس کیوں کرتے ہیں؟
دنیامیں جتنی بھی قومیں ہیں، انھیں عقیدے اور مذہب کی اساس کی بنیاد پر تحدیدکریں، تو مرکزی طو رپر چار مذاہب سامنے آتے ہیں: (۱) اسلام۔ (۲) یہودیت۔ (۳) نصرانیت۔ (۴) مشرکین۔ 
اسلام کی اساس توحید پر قائم ہے اور یہی چیز اسے تمام مذاہب سے امتیاز بخشتی ہے۔ اور اس اساس کا سلسلہ اتنا ہی قدیم ہے، جتنا کہ خود انسان۔ چنانچہ قرآن گواہ ہے کہ سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی محمد عربی ﷺ تک سب کی دعوت کا بنیادی مرکز اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار پر مبنی تھا ۔ اور آج بھی اس مذہب کے پیروکار کہے جانے والے مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ اسی پر قائم ہے۔ کیوں کہ وہ شخص تمام دیگر اسلامی خصوصیات کا حامل ہونے کے باوجود مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، جو اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہ کرے۔ 
یہودی اپنا سلسلہ آغاز ابراہیم علیہ السلام سے مانتے ہیں اور ملت ابراہیمی کے دعویدار ہیں۔سردست حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی جانے والی توریت کی پیروی کرتے ہیں۔لیکن یہودی اپنے بعض عقائد کے مطابق اسلام کے برعکس عقیدے کے ماننے والوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ المختصر عصر حاضر میں یہودیوں کی مذہبی کتاب تورات ہے اوراس مناسبت سے یہ حضرات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مخصوص قوم سمجھے جاتے ہیں۔
نصرانیت کی ابتدا و انتہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی قدر ہے۔لیکن اس کی مذہبی روایات میں حد سے زیادہ تحریفات ہونے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا تصور کرتے ہیں۔ تثلیث کا عقیدہ ان کے یہاں بہت مشہور عقیدہ ہے۔
یہ تینوں مذاہب ایسے ہیں، جن کے شارع اور بانیان کا تاریخی تسلسل موجود ہے ، لیکن ان کے علاوہ اکثر مذاہب ایسے ہیں، جن کے وجود کا کوئی علم نہیں ہے۔ اگر کچھ مذاہب کو اپنے بانیان کی سوانح و تاریخ معلوم بھی ہے ، تو وہ اپنے عقیدے اوررسوم کی وجہ سے مشرکین میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر بودھ کی کچھ دھندھلکی تاریخ موجود ہے، لیکن خود بودھ کے مجسمے کی پوجا کرنے کی وجہ سے مشرکین کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں، اس لیے ایسے تمام چھوٹے مذاہب مشرک میں شمار کیے جائیں گے۔
مذاہب کے مطالعۂ فطرت سے اشارہ ملتا ہے کہ ہر قوم اپنے اپنے نبیوں کی خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں۔ اور یہ چیز کسب کی محتاج نہیں ہوتی، بلکہ فطرت الٰہی خود اس کے اندر ودیعت کردیتی ہے۔ ہندستان کے مشرکین (ہندووں) کی مذہبی روایات اور اس کے بانیان کی سوانح کا مطالعہ کیجیے، تویہ حقیقت آشکارا ہوگی کہ ان کے دیوی دیوتاجنسیات اور فحاشیات کے بڑے علم بردار رہے ہیں۔ ان کے پرانوں اور کتھاوں میں دیوتاوں کے عشق کی کہانیاں ثواب سمجھ کر سنی اور سنائی جاتی ہیں۔بڑے بڑے مندروں میں بھگوانوں کے حیاسوز مجسموں کے سامنے جبین نیاز کو جھکاکر اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ کرشن جی کی کرشن لیلا کی داستان سے سبھی واقف ہیں۔ اسی طرح بھگوانوں میں لڑائیاں بھی ان کے یہاں ایک تاریخی وراثت ہے۔ بھگوانوں اور بانیان مذاہب کی یہ خصوصیات کم و بیش تمام مشرکین میں پائی جاتی ہیں۔فیشن کے نام پر بے حیائی اور عریانیت کا جومظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے، اس میں یقیناًمذہب کی اجازت شامل ہے۔ اگر صاف لفظوں میں اجازت نہیں بھی ہے تو کم از کم یہ تو دعویٰ کیا ہی جاسکتا ہے کہ کوئی نکیر نہیں ہے۔ اور کہیں کہیں پر جو نکیر دیکھنے سننے کو ملتی ہے، وہ محض سماجی دباو اور دیگر مذاہب کی اچھائیوں کے اثرات ہیں۔ مہابھارت کی کتھا میں بھگوان رام کی لڑائی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اسی طرح راوڑ کے ماننے والے اس کہانی کے دوسرے پہلو کو اپنے لیے سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں ۔ کہانی کے ان دو الگ الگ رخ سے اس فطرت کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ظلم و زیادتی کے لیے یا کبھی کبھار اس کے برخلاف آواز اٹھانا اور اس کے لیے کسی بھی حد کو پار کرجانا ایک مذہبی و فطری وراثت ہے۔ آج کل جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات اور ماب لنچنگ کے واقعات اس فطرت کے عملی مظاہر ہیں۔ 
نصرانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پانچ خصوصیات عطا فرمائی تھیں، جن کا ذکر خود قرآن پاک میں موجود ہے ۔
وَرَسُولًا اِلٰی بَنِی اِسْرآءِیلَ اَنِّی قَدْ جِءْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ اَنِّی اَخْلُقُ لَکُم مِّنَ الطِّینِ کَہَیءَۃِ الطَّیرِ فَاَنفُخُ فِیہِ فَیَکُونُ طَیرًا بِاِذْنِ اللہِ وَاُبْرِیُ الاَکْمَہَ وَالاَبْرَصَ وَاُحیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِ وَاُنَبِّءُکُم بِمَا تَاکُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ۔
(پارہ 3، سورہ آل عمران، آیت 49)
ترجمہ:کنزُالعِرفان: اور (وہ عیسیٰ) بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا کہ میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں،وہ یہ کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، بیشک ان باتوں میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔
اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پانچ معجزات کا تذکرہ کیا گیا ہے: (۱) مٹی کا پرندہ بناکر زندہ کردینا۔ (۲) پیدائشی اندھوں کی آنکھوں میں روشنی پیدا کرنا۔ (۳)کوڑھ کے مرض کو شفا دینا۔ (۴) مردوں کو زندہ کرنا۔ (۵)غیب کی خبریں بتانا۔ ان پانچوں معجزات پر غور کریں تو یہی حقیقت ابھرے گی کہ ان سب کا بالعموم تعلق علاج و معالجہ اور طب سے ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ خصوصیت عیسائیت کی فطرت میں شامل نظر آتی ہے۔ چنانچہ یہ قوم جہاں بھی اپنا وجود قائم کرتی ہے، وہاں سب سے پہلا کام یہی کرتی ہے کہ اپنی مشنریوں کے ذریعے ڈسپنری اور علاج معالجہ کا سینٹر قائم کرتی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک جلیل القدر جلالی پیغمبر تھے۔ انھیں تسخیر کی خصوصی قوت عطا کی گئی تھی، چنانچہ اپنی لاٹھی کے معجزے سے رات میں روشنی، دن میں رزق، سانپ بناکر جادوگروں کی تسخیر اور لوگوں کے دلوں پر فتح پالیتے تھے۔ان کی یہ خصوصیت یہودیوں میں آج بھی موجود ہے، چنانچہ عصر حاضر میں تسخیر کائنات کی عالمی سازش میں قوم یہود منظم طور پر مصروف کار ہے اور گلوبلائزیشن کا نعرہ دے کر پوری دنیا پر اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔
امت مسلمہ کو امت دعوت قرار دیا گیا ہے ارشاد خداوندی ہے کہ
کنتُمْ خَیرَ أُمّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنھوْنَ عَنِ الْمُنکرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہ (آل عمران، آیۃ ۱۱۰)
یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ میں دعوت و تبلیغ فطرت کی ایک آواز بن کر جاری و ساری ہے۔جمعہ، عیدین اور حج کے خطبے اس کی واضح مثالیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زمانے کے اعتبار سے اس کی شکلیں بدلتی رہی ہیں۔ ایک وقت تھا، جب اسلام کی ترویج و اشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ خانقاہیں ہوا کرتی تھیں۔ پھر مدارس وجود میں آئے۔ بعد ازاں تبلیغی جماعت کی تشکیل ہوئی اور ان سب کے ساتھ ساتھ اس مقصد کی تکمیل کے لیے جلسے جلوس اور کانفرنسوں کا بھی اہتمام کیا جانے لگا۔ اور ان سب کا راز یہی ہے کہ یہ امت دعوت ہے اور دعوت امت مسلمہ کی فطرت میں شامل ہے۔ 
ہندستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ منظر نامہ سامنے آتا ہے کہ ہر روز کہی نہ کہی اور کسی نہ کسی ادارے کی طرف سے کوئی جلسہ یا کانفرنس ہورہی ہے ۔ ایک طرف جمعیۃ علماء ہند کے تحت حالات کے مطابق مختلف عناوین پر کانفرنسوں اور جلسہ ہائے عام کا تسلسل جاری ہے ، تووہی دوسری طرف مسلم پر سنل لاء بورڈ کے بینر تلے تین طلاق کے خلاف خواتین کا ہجوم سڑکوں پر آچکا ہے۔ اور شریعت میں مداخلت کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔ ایک طرف مدارس کے جلسوں کا سلسلہ ہے ، تو وہی دوسری طرف تبلیغی جماعت کے بڑے بڑے عالمی اور علاقائی اجتماعات ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں چھوٹی موٹی رفاہی و اصلاحی تنظیموں اور اداروں کے پروگرام بھی مسلسل ہورہے ہیں۔ اگر آپ سوشل میڈیا یوز کر رہے ہیں،تو ہر روز بڑی تعداد میں کہیں چلنے، احتجاج کرنے اور پروگرام ہونے کے پوسٹر اور پیغامات آتے رہتے ہیں۔ کثرت کا یہ عالم ہوچکا ہے کہ سبھی پوسٹر کو پڑھنے کے بعد اپنے پروگرام کی تاریخ اور اپنے پروگرام میں کہاں اور کب چلنا ہے ؛ تک بھول جاتے ہیں۔ ان واقعات کو دیکھتے ہوئییہ دعویٰ کرنا نہ خلاف واقعہ حکایت ہوگی اور نہ ہی مبالغہ آرائی کہ جب سے دنیا قائم ہے، اس وقت سے لے کر تا حال جتنے جلسے جلوس اور کانفرنسیں امت مسلمہ کرچکی ہیں ، پوری دنیا کی قوموں کے سبھی پروگراموں کو اگر شامل کردیا جائے، تو بھی صرف ایک قوم مسلم کے پروگراموں کی تعدادکا عشر عشیر بھی نہیں پہنچ سکتی۔ اور اس کی صرف ایک ہی تاویل ہوسکتی ہے کہ یہ قوم کی فطری خصلت کے مظاہر ہیں اور فطرت اپنے وجود سے کبھی جدا نہیں ہوسکتی، لہذا مسلمانوں نے دعوت و ارشاد کا جو یہ سلسلہ شروع کیا ہے ، ان شاء اللہ یہ جاری و ساری رہے گا۔
اس بات کا تذکرہ کیے بغیر تحریر میں تشنگی محسوس کی جائے گی کہ بالآخر ان اجتماعات اور کانفرنسوں کے نتائج کیا ہیں، تو میرے عندیے کے مطابق کچھ چیزیں قارئین کے لیے بھی چھوڑنا چاہیے تاکہ انھیں بھی اپنے ذہن و دماغ کو متحرک کرنے کا موقع مل سکے۔ 

فکری انقلاب کے بنیادی اسباب

محمد یاسین جہازی 
فکری انقلاب کے بنیادی اسباب
علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے کہ 
قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف
یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو
قوموں کی زندگی اور ان کی موت کا سارا دارومدار ان کے تخیل پر موقوف ہے۔ انسان کی زندگی، اس کی بلندی اور کامیابی و کامرانی اس کے مزاجی رخ اور فکری نہج پر مبنی ہے ۔ اگر انسان کی فکر کا دھارا صحیح سمت میں بہہ رہا ہے ، تو اس کی زندگی کی ڈگر صحیح سمت میں رواں دواں ہے اور اگر اس میں کچھ کمی ہے ، کجی ہے گڑبڑی ہے ۔ تو یاد رکھیے کہ اس کی دنیا بھی بربادہے اور آخرت تو بالیقین تباہی کے دہانے پر ہے۔ جب یہ مسئلہ اتنا اہم ہے تو شریعت اسلامیہ جو کہ ایک دین فطرت ہے دینی الٰہی ہے ، خدا کا آخری پیغام ہے، اس کے لیے ناممکن تھا کہ وہ اس پہلو سے انسان کی راہ نمائی سے دست کشی اختیار کرتا۔ چنانچہ اس پہلو سے بھی انسان کی رہنمائی اور دست گیری کی ہے ۔ 
فطرت کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ حقیقت کھل کے سامنے آئے گی کہ انسان کے مزاج و تخیل میں تغیر و انقلاب پیدا کرنے والی تین بنیادی چیزیں ہیں۔
(۱) عقائد کسی انسان کے اندر فکری انقلاب اور تغیر و تبدل پیدا کرنے میں عقائد کا سب سے بڑا کردار ہوتا ہے ۔ یہ عقیدے انسان کو سب سے زیادہ مضبوط بھی بناتے ہیں اور اس کے آگے انسان مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور بھی نظر آتے ہیں ۔ صحیح عقیدے انسان کو قوت فراہم کرتے ہیں جب کہ غلط عقیدے انسان کو کمزور سے کمزور تر بنادیتے ہیں۔ ہمیں اللہ کی وحدانیت کا یقین ہے ، اس خدائے بزرگ و برتر کے ایک ہونے پر ہمارا ایمان ہے ۔ اس ایمان و یقین کو کوئی متزلزل کرنا چاہے تو یہ ناممکن ہے ۔ ہماری یہ پیشانی صرف اور صرف خدائے وحدہ لاشریک لہ کے سامنے جھکنے کے لیے ہے، لہذا دنیا کی ساری طاقت اکٹھی ہوجائے اور اسے اس کے علاوہ کسی اور کے سامنے جھکانے پر مجبور کرے تو یہ ناممکن ہے ۔ اسی طرح اگر کسی کا عقیدہ یہ ہے کہ پتھر میں بھگوان بستا ہے، یہ پتھر ہی ہماری تقدیر طے کرتا ہے تو اس غلط عقیدے کے ہاتھوں وہ اتنا کمزور ، لاچار اور بے بس ہے کہ وہ اتنا بھی سمجھنے سوچنے پر قدرت نہیں رکھتا کہ جس کے سامنے کے بتاشے کو مکھی اڑا لے جائے، تو اسے نہیں روک سکتا، بھلا ہماری تقدیر کا مالک کیسے بن سکتا ہے۔ اور یہ کمزوری محض اس غلط عقیدے کی دین ہے۔ لہذا اسلام نے انسان کی رہ نمائی کرتے ہوئے اسے صحیح عقائد عطا فرمائے ہیں تاکہ ان سے قوت پاکر دنیا کا سب سے پاور فل شخص بن جائے اور ان تمام غلط عقیدوں کا یکسر خاتمہ کردیا ہے جو کسی بھی درجے میں انسان کو کمزور بناتے ہیں۔
(۲) اعمال انسان کے فکری انقلاب پیدا کرنے والی دوسری بنیادی چیز اعمال ہیں۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ عمل انسان کے اندر ایک تعلق پید اکرتا ہے ، خواہ وہ عمل اس کے مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ جب ایک شخص مسلسل کوئی عمل کرتا ہے تو اس عمل کا تعلق اس کے اندر اپنا تاثر پیدا کرتا ہے اور یہی تاثر اس کے ذہن و فکر کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب انسان گناہ کا کام کرتا ہے، تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ۔ اب اگر کوئی نیک کام کرلیتا ہے ، تو وہ سیاہی مٹ جاتی ہے ، لیکن اگر کوئی نیک کام نہیں کرتا ، بلکہ مزید گناہوں پر گناہ کرتا چلاجاتا ہے، تو گناہ کی وہ سیاہی بڑھتی چلی جاتی ہے ، یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ اور جب انسان کا دل ہی بدل جائے تو اس کے ذہن بدلنے میں کیا دیر لگتی ہے۔ اس لیے شریعت اسلامی نے صحیح اعمال اور غلط اعمال کی نشاندھی کرکے انسان کی رہ نمائی کا کامل فریضہ انجام دیا ہے۔
(۳) ماکولات و مشروبات یہ تیسری بنیادی چیز ہے ، جو انسان کے اندر تغیر و انقلاب پیدا کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور یہ بالکل مشہور بات ہے ، کیوں کہ ہم سب کا تجربہ و مشاہدہ ہے کہ جب ہم کوئی ٹھنڈ تاثیر والی چیز کھاتے ہیں تو ہم ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں ، اسی طرح جب کوئی گرم اثر والی چیز کھاتے ہیں تو اس کا اثر بھی ہمارے جسم و ذہن پر پڑتا ہے۔برف سے ٹھنڈک اور انڈے سے گرمی حاصل کرتے ہیں ۔ یہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کھانے پینے سے جس طرح ہمارے جسم کی ظاہری نشو ونما ہوتی ہے ، اسی طرح ماکولات و مشروبات کے کے باطنی اثرات ہوتے ہیں ، جو اپنی خاصیت اور تاثیریت کے لحاظ سے ذہنوں اور فکروں میں انقلاب پیدا کرتے ہیں ، اس لیے شریعت اسلامیہ نے اس لحاظ سے بھی ہماری بھرپور رہ نمائی کی ہے اور ہمیں یہ بتایا ہے کہ کیا کھانا حلال ہے اور کیا کھانا حرام ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے مزاج و تقاضے پر چلنے کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔

تیرے اخلاق کی خوشبو، مری سانسوں میں بسی ہے

تیرے اخلاق کی خوشبو، مری سانسوں میں بسی ہے
(حضرت مولانا ازہر صاحب نور اللہ مرقدہ کے صاحب زدگان کے کریمانہ اخلاق کو سلام)
قول بزرگ ہے کہ بچہ اپنے باپ کے نہج پر ہوتا ہے۔ اس کی صداقت کے عملی مظاہر آپ نے بہت دیکھا اور سنا ہوگا،یہ تحریر ذاتی تجربے پر مشتمل اسی نوعیت کے ایک واقعہکی منظر کشی ہے۔ ۱۴؍ جنوری ۲۰۱۸ کو جھارکھنڈ میں جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کے صدارتی انتخاب کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے آبزور کی حیثیت سے شرکت کرنا ہوا۔ اس سفر میں مولانا محسن اعظم صاحب قاسمی آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند مصاحب سفر تھے۔ دو نفری یہ قافلہ انتخاب سے ایک دن قبل رانچی پہنچ گیا۔ آغاز سفر میں ہی منصوبہ یہ بنایاگیا تھا کہ مشاغل حیات کی کثرت کی وجہ سے مجلس انتخاب تمام ہوتے ہی وطن مالوف گڈا لوٹ آئیں گے، لیکن منصوبہ کا شیڈول برقرار نہ رہ سکا اور مزید ایک دن رانچی کے نام کرنا پڑا۔ اس کی وجہ کوئی پریشانی یا مجبوری نہیں تھی؛ بلکہ جھارکھنڈ کے سب سے بڑا مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کے بانی مولانا محمد ازہر صاحب نور اللہ مرقدہ خلیفہ و مجاز حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کے فرزند ارجمند مولانا اسجد صاحب استاذ مدرسہ ہذا کے کریمانہ اخلاق تھے۔ انھوں نے اور پھر مولانا ابوبکر صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء جھارکھنڈ نے یکے بعد دیگرے اور پھر مشترکہ طور پر یہ کہا کہ آپ دونوں کا ایک دن مزید ہمارے لیے چاہیے، پہلے تو جواب نہیں میں تھا، لیکن ان کے حسن عمل اور ذوق تکریم کے باعث ہاں کہنا پڑا۔
اگلی صبح مولانا اسجد صاحب مہمان خانہ میں وارد ہوئے اور تیار رہیں ، کہہ کر چلے گئے۔ ایک آدھ گھنٹے کے بعد پھر تشریف لائے اور ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ ہم سراپا تجسس تھے ۔پہلے تو ہمیں رانچی کے سب سے بڑے ہاسپٹل ’’ عالم ہاسپٹل‘‘ لے گئے۔ یہاں ہمارے رفیق سفرمولانا محسن اعظم صاحب کا مکمل چیک اپ کرایا۔ کیوں کہ رات ان کی طبیعت کافی ناساز ہوگئی تھی۔ دل کا معاملہ چوں کہ بہت اہم ہوتا ہے، اس لیے سب سے بڑے ہاسپیٹل کا رخ کیا گیا۔ یہ ہاسپٹل دل اور دماغ کے لیے علاج کے لیے بہت مشہور ہے اور کوسٹلی بھی ہے، لیکن مولانا اسجد صاحب کے کریمانہ اخلاق کی تحسین کیے بغیر تحریر ناقص رہے گی کہ، انھوں نے دل کے سارے بل اپنی طرف سے ادا کیا۔ پھر دل بہلانے کے لیے دوسرا انتظام یہ کیا کہ رانچی سے ۴۳ کلو میٹر دور ’’جوہنا فال‘‘ لے گئے۔ رانچی میں کئی خوبصورت آبشار اور دل کش جھرنیں ہیں، جو سیاحوں کو اپنی دل کش دید کے لیے مجبور کردیتی ہیں۔ ان کے بارے میں سن کرہم بھی ان کے حسن کے فریفتہ ہوگئے اور دید کیے بغیر نہ رہ سکے۔ جب فطرت کی ان صد رنگ دل کش نظاروں کو دیکھا تو ہمارا ذوق جمالیات مزید جوان ہوگیا اور زبان بے ساختہ یہ پکار اٹھی کہ
ربنا ما خلقت ھذا باطلا
یہ کائنات کتنی حسین ہے، خالق کائنات کی بوقلمونیوں کو دیکھنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے۔ پھر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ اونچے اونچے پربت، یہ نیلے نیلے ساگر، چاروں طرف پھیلی ہریالی، ہواوں سے جھومتے ان کی پتیاں، ان میں کدکتے پھدکتے چرند پرند، ساتھ ہی گیت گاتے آبشار؛ سب خدا کی تسبیح و تقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔اور ایک ہم انسان ہیں ، جنھیں اشرف المخلوقات کا تمغہ ملا ہوا ہے ، اس کے باوجود ہمہ وقت خدائے رحمان کی نافرمانی و ناشکری ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔
ان حسین و دل کش کو منظر کو دیکھ کر سبھی نے آبشاروں کے بیچ ایک بڑے پتھر پر سجدہ شکر ادا کیا اور دو گانہ پڑھ کر واپسی کی راہ لی۔
رانچی میں بہت سارے آبشار ہیں، جس میں پہاڑ کی تا حد نگاہ کی بلندیوں سے صاف و شفاف اور شیریں پانی ، پتھروں کے پیچ و خم میں الجھتے ہوئے گذرتا ہے اور تا حد نگاہ گہرائیوں میں گر کر گم ہوجاتا ہے۔ خرام انداز میں چلنے کی وجہ سے پتھروں کی ٹھوکریں لگتی ہیں، لیکن شکوہ کرنے کے بجائے ایک حسین ترنم پیدا کرتے ہوئے پانی آگے گذرجاتا ہے۔ بے حداونچائی سے گرنے کی وجہ سے برف کی طرح سفید جھاگ کے بڑے بڑے بلبلے اٹھتے اور غائب ہوتے ہیں، جو منظر کو بے حد حسین و پرکشش بنا دیتے ہیں۔ اگر آپ کو بھی موقع ملے، تو ان قدرتی حسن کے دیدار کی کوشش ضرور کیجیے گا۔
واپسی کی راہ میں مغل کیفے کا دسترخوان ہمارا منتظر تھا۔ وہاں ہم نے اپنے اپنے مقدرات کو تناول کیا۔ گاڑی کا بھی وقت ہوا چاہتا تھا، اس لیے پہلے جائے قیام مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچے آئے ، جہاں یہاں کے مہتمم حضرت مولانا محمد صاحب دامت برکاتہم اور ان کے بھائی مولانا احمد صاحب دامت برکاتہم ہمارے منتظر تھے۔ سلیک علیک اور معانقہ کے بعد رخصت کی اجازت لی۔ مہمان خانہ سے نکلتے ہوئے مولانا نے پوچھا کہ کوئی چیز تو یہاں نہیں رہ گئی ہے؟ اس پر بندے کی طرف سے حقیقت حال کی ترجمانی تھی کہ چھوٹا تو نہیں؛ البتہ چھوڑ کر جانا پڑ رہا ہے، اس پر تعجب آمیز لہجوں میں سوال تھا کہ وہ کیا؟ ۔ ۔۔۔ میرا دل۔۔۔ ہاں میرا دل یہی چھوڑ کر جارہا ہوں۔ پھر شکرو شکیب کے کلمات ادا کرتے ہوئے جزاکم اللہ کہا اور رانچی کو الوداع کہہ دیا۔
یہ مسلم حقیقت ہے کہ اولاد پر ماں باپ کے گہرے اثرات ہوتے ہیں، اسی وجہ سے ہمارے یہاں کسی چیز کی تقویت و اہمیت کے لیے ’’ خاندانی ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مولانا محمد ازہر نور اللہ مرقدہ کے تربیت یافتہ بالیقین اپنے اندر اپنی پدری وراثت کی تمام خوبیاں اپنے رکھتے ہیں اور ان کے تینوں صاحب زادے ان کے اخلاق حسنہ کے عملی مظاہر ہیں۔اور حسن اخلاق کے ایسے ہی کرداروں کی وجہ سے آج تک اچھائی کو اچھائی اور نیکی کو نیکی کا نام دیا جاتا ہے، ورنہ برسوں پہلے نیک و بد مترادف ہوچکے ہوتے۔ اس لیے ہم تہہ دل سے دوبارہ شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جزکم اللہ خیرا و احسن الجزاء۔
آپ کی معلومات کے لیے عرض کردیں کہ حضرت مولانا محمد ازہر نور اللہ مرقدہ کے تین صاحب زادے ہیں، جن میں مولانا محمد صاحب سردست مدرسہ حسینہ کڈرو رانچی کے مہتمم اور ساتھ نائب صدر جمعیۃ علماء جھارکھنڈ ہیں، مولانا احمد صاحب ناظم تعلیمات ہیں، جب کہ مولانا اسجد صاحب استاذ ہیں۔ یہ آخر الذکر دارالعلوم دیوبند میں راقم کے ہم عصر تھے، البتہ انھیں سینیرٹی حاصل تھی۔ 

میرا دل، تیرے پاس گروی ہے!

میرا دل، تیرے پاس گروی ہے!
۲۲؍ جنوری ۲۰۱۸
۱۳؍ جنوری ۲۰۱۸ء کی صبح سرد ترین صبح میں سے تھی۔ مولانا محسن اعظم صاحب آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند اورراقم (محمد یاسین قاسمی) ، مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کی اطلاع کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کی حکم پر ۱۴؍ جنوری بروز اتوار ، رانچی میں جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کے صدارتی انتخاب میں شرکت کے لیے رانچی پہنچا۔ قبل از روانگی مولانا ابوبکر صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کو آمد کی اطلاع دی گئی۔ انھوں نے پر مسرت استقبالیہ کلمات سے مرحبا کہا۔ ضلع گڈا سے شام بس پر سوار ہوا اور پانچ بجے علیٰ الصباح رانچی بس اڈے پر پہنچ گیا۔ بس ابھی کھڑی ہی ہوئی تھی کہ ناچیز کا فون بجا۔ نمبر جانا پہچانا تھا۔ سلیک علیک کے بعد اپنا جائے آمد بتاتے ہوئے راقم نے کہا کہ ان شاء اللہ آدھے گھنٹے بعد یہاں سے روانہ ہوتا ہوں تاکہ آپ کو سردی کی زحمت اٹھانی نہ پڑے۔ لیکن اس ادا پر دل جگر سب فدا ہوگیا ، کیوں کہ دوسری طرف سے فون کے آخری کلمات یہ تھے کہ آپ حضرات وہیں رہیں، ہم علیٰ الفور بس اڈہ پہنچتے ہیں، قبل اس کے کہ اپنا مدعا پیش کرتے ہوئے یہ کہیں، جس خوف کی وجہ سے اس وقت آمدکی اطلاع دینا بھی مناسب نہیں سمجھ رہے تھے، بالآخر وہی ہوجائے گا کہ سرد ترین صبح میں آپ کو تکلیف ہوجائے گی۔ بہر حال تقریبا پندرہ منٹ کے اندر اندر جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ابوبکر صاحب استاذ مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی گاڑی لے کر بس اڈے پر موجود تھے۔ 
سلیک علیک اور مصافحہ و معانقہ کے بعد حضرت کی زحمت فرمائی پر شکریے کے الفاظ کہے گئے ، لیکن حضرت مولانا کا یہ جملہ دل و نگاہ کو ممنون احسان کرگیا کہ یہ تو ہمارے اکابر کا شیوہ رہا ہے اور ہم نے کوئی احسان نہیں کیا، بلکہ وہی کیا جو جمعیۃ علماء ہند کے اکابرین کو اپنے ذمہ داران اور متعلقین کے ساتھ کرتے دیکھا ہے۔ بہر کیف حضرت کے قیمتی پندو نصیحت جاری رہے تاآں کہ ہم لوگ جائے قیام پر پہنچ گئے۔
بالیقین حضرت مولانا ابوبکر صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کا یہ شفقت آمیز حسن سلوک نے ہمارے وجود کو ممنون احسان کرگیا۔ ہم حضرت کے شکر گزار ہیں کہ ہم چھوٹوں کو اکابر کا طریقہ سکھلانے کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات سے نمونہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مہمان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اس کا استقبال و توقیر کا کیا اندازہونا چاہیے، ہم اس پر مکرر شکریے کے کلمات پیش کرتے ہیں، جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء۔ 

جمعیۃ علماء ہند2017قدم بہ قدم ، منزل بہ منزل

محمد یاسین جہازی 
جمعیۃ علماء ہند2017قدم بہ قدم ، منزل بہ منزل
۲۰؍جنوری کو ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے والے طلبا وطالبات کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے تعلیمی وظائف 2016 -17کا اعلان کیا ، اور پروفیشنل تعلیم: ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس، بی یو ایم ایس ، بی فارما ،انجینئرنگ، بی ٹیک(سول الیکٹریکل ، الیکٹرونک کمپیوٹر)، سی اے، بی ایڈ کے طلبا کو اسکالرشپ دیا گیا۔ ۴؍ فروری کو جمعےۃ چلڈرن ولیج انجار گجرات میں سہ روزہ اسکاؤٹ ٹریننگ کیمپ لگاکرسکاؤٹ ایکسپرٹ کے ذریعے بچوں کو صحت مند رہنے اور جسمانی فٹنس کے اصول سکھلائے گئے ۔ جمعےۃ علماء ہند کے ادارہ مباحث الفقہیہ کاتیرہواں فقہی اجتماع بتاریخ۸ تا ۱۰ فروری کو چنئی میں منعقد ہوا، اس میں دو موضوعات زیر بحث تھے،(۱) قبضہ کی حقیقت اور انٹرنیٹ کے ذریعہ عقود کی بعض مروجہ صورتیں (۲) زکوۃ میں ضم اموال کا حکم ۔۲۵؍ مارچ کو وڈاولی گاؤں ( ضلع پاٹن گجرات )میں اسکول کے بچوں کے درمیان معمولی تنازع کے بعد اکثریتی طبقے کے چار ہزار لوگوں کی ایک بھیڑنے مسلم محلہ پر حملہ کر کے سو مکانات جلاڈالے اور کھڑی فصلوں کو آگ لگا دی ۔جمعیۃ نے ان کے لیے فوری طور پر امدادی و راحت رسانی کا کام کیا۔۲۵؍ مارچ کو خواجہ کی نگری اجمیر شریف میں جمعےۃنے میڈیکل کیمپ لگایاکر عرس کے موقع پر زائرین کو طبی خدمات فراہم کرایا۔۶ اور ۷ ؍اپریل کو جمعےۃ علمائے اسلام پاکستان کے زیراہتمام نوشیرہ اضاخیل پاکستان میں صدسالہ اجتماع منعقد ہوا جس میں دعوت ملنے پر جمعےۃ علماء ہند کے نمائندے شریک ہوئے۔ ۱۴؍ اپریل کو گجرات کے وڈاؤلی گاؤں ضلع پاٹن میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات متاثرین کے لیے سو سے ز ائد مکانات کی تعمیر و مرمت کا کام کیا گیا۔ اور فسادیوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا ۔بعد ازاں بتاریخ ۱۶؍مئی کوان کی بازآبادکاری کے تحت ایک سو انتیس مکانات کی چابی ان کے حوالے کی گئی۔سپریم کورٹ میں چل رہے طلاق ثلاثہ کے مقدمہ میں ۱۱؍مئی سے ۱۸؍مئی تک مسلسل چھ دنوں تک مختلف فریقوں کی درخواستوں پر سماعت ہوتی رہی۔ اس میراتھن سماعت کے دوران جمعےۃ علما ء ہند کے وکلاء نے شرکت کی اور اپنا موقف پیش کیا۔۱۰؍جون کو سونیا وہار میں مسجد منہدم کرنے کے سانحے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سرکار و انتظامیہ سے فسادیوں کے خلاف سخت کارروائی اور امن وامان کی بحالی کا مطالبہ کیا ۔ جولائی میں شمالی گجرات میں طوفانی بارش سے بناس کانٹھا اور پالن پور متاثر ہوا ۔ اس سیلاب میں اعداد و شمار کے مطابق۲۲۴؍افراد لقمہ اجل بن گئے اور بے شمار مکانات منہدم ہو ئے اورگھروں اور گلیوں میں کیچڑ لکا ڈھیر جمع ہوگیا تھا، جس کے لیے سات ہزار رضاکاروں نے ۱۶۸۰ مکانات ، ہسپتال، کچہری کورٹ، پولس اسٹیشن اور اسکولوں میں صفائی کی خدمت انجام دی ، اس کے علاوہ متعدد مساجد اور تقریبا ۲۲؍مندروں کی بھی صفائی کی گئی۔اس عمل کی ستائش ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے من کی بات میں بھی کی۔۱۰؍ جولائی کوجمعیۃ کے ایک وفد نے دہلی میں واقع تہاڑ جیل کے انسپکٹر جنرل برائے قیدی کے دفترمیں شعبہ این جی او کے سربراہ مسٹر جوسیف بکسلا سے ملاقات کی اور ان سے ان قیدیوں کی فہرست طلب کی جو جیل میں اپنی مدت توپوری کرچکے ہیں تاہم جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے قید ہیں تاکہ مالی تعاون کے ذریعے ان کی رہائی کو یقینی بنا یا جا سکے۔ ۱۱؍ جولائی کو جنوبی کشمیر کے اننت ناگ میں امرناتھ یاتریوں پر حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے وحشیانہ اور ظالمانہ عمل قرار دیا ۔۱۰؍ اگست کو اترپردیش میں آرٹی ای ایکٹ ۲۰۰۹ء کا حوالہ دے کر سرکاری محکمہ کی جانب سے دینی مدارس کو فوری طور سے بند کرنے کی نوٹس تھمائی گئی۔جس کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے قانونی کار روائی کرنے کا اشارہ دیا۔۱۳؍اگست کی شام اچانک آئے قیامت خیز سیلاب نے بہار کے ۱۹؍اضلاع بالخصوص سیمانچل اور اس کے قرب وجوار کے علاقوں میں زبردست تباہی مچائی ۔اس سیلاب سے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ایک کروڑ اکہتر لاکھ افرا د متاثر ہوئے ، جن کے راحت آپریشن کے دوران جمعےۃ کے خدام نے تقریباً ۸۰۰؍ گاؤں کا دورہ کیا اور ۳۶۰۰۰؍ہزار خاندانوں تک فوڈ کٹس پہنچائے ۔ سردست ان کے مکانات کی تعمیر جاری ہے۔ مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کے خاتمے کے لیے ۱۳؍ اگست کو جمعےۃ کی مختلف یونٹوں کی جانب سے ملک گیر پیمانے پر آٹھ سو سے زائد شہروں میں’’ امن مارچ ‘‘منعقد ہوا ۔اسی دن مدارس کے ذمہ داروں اور جمعےۃ کی اکائیوں کے نام ایک سر کلر میں ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میںیہ مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے اداروں میں پر جوش طریقے سے جشن یوم آزادی منائیں اور اپنے اکابر اورقومی ہیرو کی خدمات سے عوام کو روشناس کرائیں ۔۲۷؍اگست کی شام انتہا پسند بودھسٹ اور برمی آرمی نے مشترکہ طورپر برمی مسلمانوں کی بستیوں کو جلانااور انھیں قتل کرنا شروع کردیا ۔ اس خوفناک منظر سے ہراساں ہو کر صرف دو ماہ میں آٹھ لاکھ سے زائد افراد دوسرے ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، جن کے لیے جمعیۃ مسلسل ہندستان اور بنگلہ دیش میں پناہ گزین برمیوں کے لیے مسلسل پیہم مصروف خدمت ہے۔ اور تا دم تحریر بنگلہ دیش میں ایک ہزار کے قریب مکانات تعمیر کراچکی ہے، بنگلہ دیش میں یہ کام جمعیۃ علماء بنگلہ دیش اصلاح المسلمین پریشد کے ساتھ اشتراک و تعاون سے کیا جارہا ہے۔۲؍ستمبرکو بہار سیلاب متاثرین کو عید کی خوشی میں شامل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر قربانی کا اہتمام کیا۔۲؍ستمبر ۲۰۱۵ء کو دادری میں اخلاق کے قتل سے لے کر عید کے موقع پر جنید ، پہلو خاں ، بلند شہر کے غلام محمد، بیر بھوم کلکتہ کے اظہر شیخ،آسام ناگاؤں کے حنیف سمیت اس طرح کے درجنوں واقعات ہوئے ہیں ۔ جمعیۃ نے جہاں ان تما متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار ہمدردی کا فریضہ انجام دیا، وہیں سیاجی ، سماجی اور آئینی سطح پر ایسی سوچ اور طاقتوں کو کنارہ لگانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔۲۱؍ستمبر کو میانمار میں روہنگیا اقلیتوں کے خلاف جاری نسل کشی اور قتل عام کے خلاف جنتر منتر نئی دہلی میں منعقد ایک مظاہرے میں تقریبا دس ہزار افراد نے شرکت کی۔ ۱۶؍اکتوبرجمعیۃ کے ایک وفد نے فرید آباد میں نام نہاد گؤرکشکوں کے ذریعہ ایک آٹو ڈرائیور اور اس کے اہل خانہ کو درندگی کے ساتھ زدوکوب کیے جانے کے خلاف کمشنر حنیف قریشی اور ڈی سی پی آستھا مودی گپتا سے ملاقات کی اور ظالمو ں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ۔ ۱۸؍نومبرکو ہندستان کی اہم ملی و سماجی جماعتوں نے متفقہ طور سے اسرائیل کو دہشت گرد ملک بتاتے ہوئے اس کے صدر ریولن کی ہندستان آمد کی سخت مذمت کی او ر حکومت ہند کو متنبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے سلسلے میں دوہرے معیار سے بازآئے۔آسام میں حق شہریت کا مسئلہ پر جمعےۃ علماء ہند کی آئینی جد وجہد تا حال جاری ہے۔ ۱۳؍مئی کو مولانا ازہر نائب صدر جمعےۃ علماء ہند ورکن شوری دارالعلوم دیوبند ، ۲۰؍ مئی کونائب صدر جمعیۃ علماء ہندمولانا ریاست علی بجنوری صاحب کے انتقال پر۲۵؍ مئی کو جمعےۃ علماء ہند کے دفتر نئی دہلی میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد ہو ا۔ اسی طرح شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارن پور مولانا محمد یونس جونپوری ،صدر جمہوریہ ہند کے معالج ،شہرت یافتہ حکیم محمد انوار، جناب ای احمد ،مفتی میاں ثمر دہلوی ، سید شہاب الدین، مولانا امجد بیمات اور سعید سہروردی صاحبان کے انتقال پر ملال پر اظہار تعزیت کیا گیا۔
جمعےۃ علماء ہند کی خدمات 2017سے متعلق جو کچھ یہاں پیش کیا گیا وہ صرف یادداشت پر مبنی ہے، ورنہ پچھلے ایک سال میں جمعےۃ علماء ہند اور اس کی شاخوں نے ملک کے گوشے گوشے میں بڑی خدمات انجام دی ہیں اور جن کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اپنا خاص فضل فرمائے اور خصوصی نصرت سے نوازے ۔ آمین۔

فلسطین سے ہمیں محبت کیوں ہے؟

محمد یاسین جہازی
فلسطین سے ہمیں محبت کیوں ہے؟


پوری دنیا کے مسلمانوں کا فلسطین سے مضبوط رشتے کی تین بنیادی وجوہات ہیں: (۱) انسانیت۔ (۲) وحدت امت۔ (۳) قبلہ اول۔
ہمیں فلسطین سے محبت اس لیے ہے کہ وہاں پر رہ رہے انسانوں پر ظلم و بربریت انسانیت پر ظلم و سفاکیت ہے اور ظلم و بربریت پوری دنیائے انسانیت پر کہیں بھی ہو ، ہماری نگاہ میں وہ قابل مذمت و نفریں ہے۔ فلسطینی باشندگان یہودیوں کی چیرہ دستیوں کی اسیر ہیں۔ اور ان کی سفاکیت و خوں آشام فطرت کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں و پیچاں ہیں، اس لیے ہمارا انسانی فریضہ ہے کہ ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ظالم کے پنجے کو مروڑ کر رکھ دیں۔ اگر ہم اپنے اندر اس جذبے کو محسوس نہیں کرتے ہیں، تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہم زندہ قوم نہیں ہیں۔
اسلام وحدت امت کی تعلیم دیتا ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ اگر دنیا کے آخری کونے پر بسنے کسی مسلم بھائی کے پیر میں کانٹا چبھے، تو دنیا کے دوسرے کونے پر بسنے مسلم فرد کے دل میں اس کی چبھن محسوس ہونی چاہیے۔ اگر ہمارا دل اس درد کی لذت سے نا آشنا ہے، تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم مردہ قوم ہیں۔ زندگی ہمارے اوپر لعنت بھیج چکی ہے۔
ہمارا قبلہ اول مسجد اقصیٰ ہے اوریہاں کی سرزمین انبیائے کرام کے ورود بامسعود سے زعفران زار رہی ہے ، اس لیے اس جگہ سے محبت ہمارا وفور ایمان کا حصہ ہے۔ اگر کوئی مسلم شخص اس جذبے سے محروم ہے، تو یقین مانیے کہ اسے اپنے آپ کو زندہ سمجھنے کا حق نہیں ہے۔ 
لیکن ۔۔۔آج ہمارا مظلوم فسلطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا، ان کے حال زار پر رحم و کرم کے لیے بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہونا اور جگہ جگہ پر امن احتجاج اور یوم دعا منانا اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ ہم ابھی زندہ ہیں۔ ہمارے اندر ابھی بھی وہی خون رواں دواں ہے، جو صلاح الدین ایوبی کے وارثین کی شناخت ہے۔ ہم اس وراثت کے امین ہے ، جس نے سمندروں کے سینے چیر کر فتح و ظفر کے جھنڈے گاڑے تھے۔ ہمارے گھوڑے خشکیوں کی رہین منت نہیں تھے، دشت ،و جبل اور ارض و فلک ہمارے اقبال مندی کی پیشانی چومنے کے لیے بے چین و مضطرب رہا کرتے تھے۔ 
مسلمانوں کے دو قبلے اور دستور الٰہی
اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے دو جگہوں کو قبلہ بنایا ہے : ایک بیت اللہ اور دوسرا بیت المقدس۔ ان دونوں قبلوں کے تعلق سے خدا تعالیٰ کا دستور الگ ہے۔ بیت اللہ پر کفار و مشرکین کبھی بھی غالب نہیں آسکتے ، کیوں کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اس سلسلے میں واقعہ فیل مشہور ہے۔ دوسرا قبلہ بیت المقدس ہے۔ اس کے متعلق قانون قدرت یہ ہے کہ جب مسلمان معاصی اور گمراہی میں مبتلا ہوں گے، تو سزا کے طور پر ان سے یہ قبلہ چھین لیا جائے گا ، جو اس بات کی علامت ہوگی کہ امت مسلمہ ہر اعبتار سے پس روی کی شکار ہوگئی ہے، نہ تو اس کے اندر اسلام کی عملی روح باقی ہے اور نہ ہی فکر اسلامی سے اس کا ذہن و دماغ روشن و منور ہے۔ جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ پوری دنیا میں اتنے مسلم ممالک ہونے کے باوجود امت مسلمہ نظریاتی و عملی دونوں اعتبار سے اپاہج ہوچکی ہے ، جو ہم سب کے لیے سوچنے اور کچھ کرگزرنے کی دعوت دے رہا ہے ، لیکن ہم ہیں کہ بہرے سے بھی زیادہ بے حس، گونگے سے بھی زیادہ خاموش اور لنگڑے سے بھی زیادہ پاوں توڑ کر بیٹھ چکے ہیں۔ 
اگر ہم بیت المقدس کو دوبارہ واپس لینا چاہتے ہیں، تو اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔ اور رجوع الیٰ اللہ کے ساتھ ساتھ سیاست و معاشرت میں اسلامی حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے کھل کر فلسطین کی حمایت و نصرت کا اعلان کریں۔
۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۷ کو جمعیۃ علماء ہند نے پورے ملک میں تقریبا ایک ہزار سے زائد مقامات پر رجوع الیٰ اللہ اور اسلامی فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے پرامن احتجاج کیا اور بعد نماز جمعہ ’’یوم دعا ‘‘ مناتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں دعائیں کی گئیں۔ اس دور بیں اور اسلامی حکمت عملی پر مبنی فکر کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داران و کارکنان یقیناًمبارک بادی کے مستحق ہیں۔دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے کی گئی کوششوں کو کامیاب و کامران کرے۔ آمین۔

حساب سے پہلے محاسبہ

محمد یاسین جہازی قاسمی
حساب سے پہلے محاسبہ
شریعت اسلامی کا مزاج دوسروں پر تنقید و تنقیص سے پہلے اس چیز پر زور دیتا ہے کہ انسان دوسروں کی اصلاح سے پہلے خود کا اور خودی کا محاسبہ کرے۔ ارشاد ربانی ہے کہ 
يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْ?ُمْ اَنْفُسَ?ُمْ ?لَا يَضُرُّ?ُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا ا?ْتَدَيْتُمْ ? اِلَ? اللّٰ?ِ مَرْجِعُ?ُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّءُ?ُمْ بِمَا ?ُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں، اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو بتلا دے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے۔(سور? المائد?:105)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری نظر پہلے اپنی کوتاہیوں اور کمیوں پر ہونی چاہیے، پھر دوسرے کی فکر کرنی چاہیے۔
صحابہ کی سیرت میں ہمیں کئی مثالیں ملتی ہیں، جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمیعن دوسروں کی جامہ تلاشی کے بجائے اپنے گریبان کی فکر کرتے ہیں۔ چنانچہ واقعہ مشہور ہے کہ 
حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری ملاقات ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ہوئی تو انھوں نے فرمایاحنظلہ کیسے ہو؟ میں نے کہا:حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے۔ ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو؟ حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم نبی اکرمﷺ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت و جہنم کی یا د دلاتے ہیں تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ گویا ہم اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں اور بیوی بچوں اور جائداد وغیرہ میں مشغول ہوجاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم اس جیسی کیفیت ہماری بھی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ میں اور ابوبکر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) چل پڑے اورآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ حنظلہ منافق ہوگیا ہے آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ جنت و جہنم کی یاد دلاتے ہو تو کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ گویا ہم انھیں دیکھ رہے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے جدا ہوجاتے ہیں اور معاشی امور میں مشغول ہوجاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ہمیشہ اس حال پر رہ جاو? جس حال میں میرے پاس اور ذکر میں ہوتے تو فرشتے تمہارے بستروں اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ ایک گھڑی دوسری گھڑی سے مختلف ہوتی ہے۔
مشہور صحابی رسولﷺ عمروبن العاص کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ اپنے چہرے کو دیوار کی طرف کرکے خوب روئے۔ اس حالت میں ان کے فرزند ان سے کہنے لگے کہ ابا جان کیا رسول اللہﷺ نے آپ کو فلاں فلاں خوشخبریاں نہیں دیں ہیں انھوں نے ان کی طرف منھ پھیر کر کہا کہ تمام اعمال میں سب سے افضل ترین عمل شہادتین کا اقرار ہے۔ میری زندگی تین مختلف ادوارپر مشتمل ہے ایک دور وہ تھا کہ نبی اکرمﷺ سے دشمنی رکھنے والا مجھ سے زیادہ کوئی اور نہ تھا۔ اس دور میں اگر میں آپ پر قابو پالیتا اور معاذاللہ آپ کو قتل کر دیتا اور اگر اسی حالت میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔دوسرا دور جب اللہ نے میرے دل میں ایمان ڈال دی میں آپﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ(ﷺ) اپنا داہنا ہاتھ لاےئے تاکہ میں اسلام پر بیعت کروں، آپﷺ نے داہنا ہاتھ پھیلایا، میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپﷺ نے فرمایا عمرو یہ کیا معاملہ ہے؟میں نے عرض کیا: کہ میرے کچھ شرائط ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:وہ شرائط کیا ہیں؟میں نے کہا:کہ میرے سابقہ گناہ معاف کر دےئے جائیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: کہ تمھیں نہیں معلوم کہ اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اسی طرح ہجرت ماقبل ہجرت کے سارے گناہ ختم کردیتی ہے اور حج بھی پہلے ہونے والے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔ اس دو ر میں رسول اللہﷺ سے زیادہ محبوب میرے دل میں اور کوئی شخصیت نہ تھی اور میں بطور تعظیم رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھ بھی نہیں سکاہوں۔ اگر کوئی مجھ سے آپﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرنے کی فرمائش کرے تو میں بیان نہیں کرسکتا اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھا بھی نہیں۔ اگر اس دور میں میری وفات ہوتی تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا۔ 
تیسرا وہ دور آیا کہ ہم سے کئی کام ایسے ہوئے کہ میں نہیں جانتا کہ اس میں میرا کیا حال ہوگا۔ جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ وماتم کرنے والی نہ آئے اور مجھے دفن کردو تو آہستہ آہستہ مجھ پر مٹی ڈالو، میرے قبر پر اتنی دیر تک(میرے لیے دُعا و استغفار میں) کھڑے رہو جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جا تا ہے تاکہ میں (تمہاری دعا و استغفار سے)انس حاصل کروں اور دیکھوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔
لیکن افسوس صد افسوس ہے کہ آج کا معاشرہ اور لوگوں کی طرز فکر ایسی ہوگئی ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے عیوب کی تلاش میں رہتے ہیں۔ دوسروں کی چھوٹی سے چھوٹی حرکتوں پر نگاہ رکھتے ہیں، لیکن خود اپنی آنکھ کی شہتیر تک نظر نہیں آتی۔ ہر کسی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ فلاں شخص سدھر جائے، لیکن اپنے بارے میں کبھی یہ فکر نہیں ہوتی ہے کہ ہم کتنے سدھرے ہوئے ہیں اور ہمیں کتنا سدھرنے کی ضرورت ہے۔ 
معاملہ اگر یہیں تک رہتا تو قدرے غنیمت تھا، معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ لوگوں نے محاسبہ کرنے، کرانے کے بجائے تملق و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھ لیا ہے۔ جو جتنا بڑا چاپلوس اور چاپلوس پسند ہوتا ہے، وہ اتنا ہی حقیقت اور محاسبہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے، جس کا دینی و دنیوی نقصان جگ ظاہر ہے۔ بہت سارے لوگوں کا دین اسی لیے برباد ہوگیا کہ ان کے چاپلوسوں نے چاپلوس پسندوں کو حقیقت شناسی کا موقع نہیں ملنے دیا۔ اور بہت سارے لوگ اسی لیے خاک میں مل گئے کہ ان کے پروردہ تملق خصلتوں نے ان تک صحیح رپورٹ نہیں پہنچائی، جس کے نتیجے میں ان کا کاروبار حیات تہہ و بالاہو کر رہ گیا۔ یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں ہے؛ بلکہ اکبر کا دین الہی اور عیش کوشی میں بدمست و مدہوش بادشاہوں کے قصہ ہائے پارینہ اس حقیقت پر شاہد عدل ہیں۔ فاعتبروا یا اولو الابصار!!!!!!!!!!!۔