6 Apr 2018

تیرے اخلاق کی خوشبو، مری سانسوں میں بسی ہے

تیرے اخلاق کی خوشبو، مری سانسوں میں بسی ہے
(حضرت مولانا ازہر صاحب نور اللہ مرقدہ کے صاحب زدگان کے کریمانہ اخلاق کو سلام)
قول بزرگ ہے کہ بچہ اپنے باپ کے نہج پر ہوتا ہے۔ اس کی صداقت کے عملی مظاہر آپ نے بہت دیکھا اور سنا ہوگا،یہ تحریر ذاتی تجربے پر مشتمل اسی نوعیت کے ایک واقعہکی منظر کشی ہے۔ ۱۴؍ جنوری ۲۰۱۸ کو جھارکھنڈ میں جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کے صدارتی انتخاب کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے آبزور کی حیثیت سے شرکت کرنا ہوا۔ اس سفر میں مولانا محسن اعظم صاحب قاسمی آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند مصاحب سفر تھے۔ دو نفری یہ قافلہ انتخاب سے ایک دن قبل رانچی پہنچ گیا۔ آغاز سفر میں ہی منصوبہ یہ بنایاگیا تھا کہ مشاغل حیات کی کثرت کی وجہ سے مجلس انتخاب تمام ہوتے ہی وطن مالوف گڈا لوٹ آئیں گے، لیکن منصوبہ کا شیڈول برقرار نہ رہ سکا اور مزید ایک دن رانچی کے نام کرنا پڑا۔ اس کی وجہ کوئی پریشانی یا مجبوری نہیں تھی؛ بلکہ جھارکھنڈ کے سب سے بڑا مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کے بانی مولانا محمد ازہر صاحب نور اللہ مرقدہ خلیفہ و مجاز حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کے فرزند ارجمند مولانا اسجد صاحب استاذ مدرسہ ہذا کے کریمانہ اخلاق تھے۔ انھوں نے اور پھر مولانا ابوبکر صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء جھارکھنڈ نے یکے بعد دیگرے اور پھر مشترکہ طور پر یہ کہا کہ آپ دونوں کا ایک دن مزید ہمارے لیے چاہیے، پہلے تو جواب نہیں میں تھا، لیکن ان کے حسن عمل اور ذوق تکریم کے باعث ہاں کہنا پڑا۔
اگلی صبح مولانا اسجد صاحب مہمان خانہ میں وارد ہوئے اور تیار رہیں ، کہہ کر چلے گئے۔ ایک آدھ گھنٹے کے بعد پھر تشریف لائے اور ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ ہم سراپا تجسس تھے ۔پہلے تو ہمیں رانچی کے سب سے بڑے ہاسپٹل ’’ عالم ہاسپٹل‘‘ لے گئے۔ یہاں ہمارے رفیق سفرمولانا محسن اعظم صاحب کا مکمل چیک اپ کرایا۔ کیوں کہ رات ان کی طبیعت کافی ناساز ہوگئی تھی۔ دل کا معاملہ چوں کہ بہت اہم ہوتا ہے، اس لیے سب سے بڑے ہاسپیٹل کا رخ کیا گیا۔ یہ ہاسپٹل دل اور دماغ کے لیے علاج کے لیے بہت مشہور ہے اور کوسٹلی بھی ہے، لیکن مولانا اسجد صاحب کے کریمانہ اخلاق کی تحسین کیے بغیر تحریر ناقص رہے گی کہ، انھوں نے دل کے سارے بل اپنی طرف سے ادا کیا۔ پھر دل بہلانے کے لیے دوسرا انتظام یہ کیا کہ رانچی سے ۴۳ کلو میٹر دور ’’جوہنا فال‘‘ لے گئے۔ رانچی میں کئی خوبصورت آبشار اور دل کش جھرنیں ہیں، جو سیاحوں کو اپنی دل کش دید کے لیے مجبور کردیتی ہیں۔ ان کے بارے میں سن کرہم بھی ان کے حسن کے فریفتہ ہوگئے اور دید کیے بغیر نہ رہ سکے۔ جب فطرت کی ان صد رنگ دل کش نظاروں کو دیکھا تو ہمارا ذوق جمالیات مزید جوان ہوگیا اور زبان بے ساختہ یہ پکار اٹھی کہ
ربنا ما خلقت ھذا باطلا
یہ کائنات کتنی حسین ہے، خالق کائنات کی بوقلمونیوں کو دیکھنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے۔ پھر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ اونچے اونچے پربت، یہ نیلے نیلے ساگر، چاروں طرف پھیلی ہریالی، ہواوں سے جھومتے ان کی پتیاں، ان میں کدکتے پھدکتے چرند پرند، ساتھ ہی گیت گاتے آبشار؛ سب خدا کی تسبیح و تقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔اور ایک ہم انسان ہیں ، جنھیں اشرف المخلوقات کا تمغہ ملا ہوا ہے ، اس کے باوجود ہمہ وقت خدائے رحمان کی نافرمانی و ناشکری ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔
ان حسین و دل کش کو منظر کو دیکھ کر سبھی نے آبشاروں کے بیچ ایک بڑے پتھر پر سجدہ شکر ادا کیا اور دو گانہ پڑھ کر واپسی کی راہ لی۔
رانچی میں بہت سارے آبشار ہیں، جس میں پہاڑ کی تا حد نگاہ کی بلندیوں سے صاف و شفاف اور شیریں پانی ، پتھروں کے پیچ و خم میں الجھتے ہوئے گذرتا ہے اور تا حد نگاہ گہرائیوں میں گر کر گم ہوجاتا ہے۔ خرام انداز میں چلنے کی وجہ سے پتھروں کی ٹھوکریں لگتی ہیں، لیکن شکوہ کرنے کے بجائے ایک حسین ترنم پیدا کرتے ہوئے پانی آگے گذرجاتا ہے۔ بے حداونچائی سے گرنے کی وجہ سے برف کی طرح سفید جھاگ کے بڑے بڑے بلبلے اٹھتے اور غائب ہوتے ہیں، جو منظر کو بے حد حسین و پرکشش بنا دیتے ہیں۔ اگر آپ کو بھی موقع ملے، تو ان قدرتی حسن کے دیدار کی کوشش ضرور کیجیے گا۔
واپسی کی راہ میں مغل کیفے کا دسترخوان ہمارا منتظر تھا۔ وہاں ہم نے اپنے اپنے مقدرات کو تناول کیا۔ گاڑی کا بھی وقت ہوا چاہتا تھا، اس لیے پہلے جائے قیام مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچے آئے ، جہاں یہاں کے مہتمم حضرت مولانا محمد صاحب دامت برکاتہم اور ان کے بھائی مولانا احمد صاحب دامت برکاتہم ہمارے منتظر تھے۔ سلیک علیک اور معانقہ کے بعد رخصت کی اجازت لی۔ مہمان خانہ سے نکلتے ہوئے مولانا نے پوچھا کہ کوئی چیز تو یہاں نہیں رہ گئی ہے؟ اس پر بندے کی طرف سے حقیقت حال کی ترجمانی تھی کہ چھوٹا تو نہیں؛ البتہ چھوڑ کر جانا پڑ رہا ہے، اس پر تعجب آمیز لہجوں میں سوال تھا کہ وہ کیا؟ ۔ ۔۔۔ میرا دل۔۔۔ ہاں میرا دل یہی چھوڑ کر جارہا ہوں۔ پھر شکرو شکیب کے کلمات ادا کرتے ہوئے جزاکم اللہ کہا اور رانچی کو الوداع کہہ دیا۔
یہ مسلم حقیقت ہے کہ اولاد پر ماں باپ کے گہرے اثرات ہوتے ہیں، اسی وجہ سے ہمارے یہاں کسی چیز کی تقویت و اہمیت کے لیے ’’ خاندانی ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مولانا محمد ازہر نور اللہ مرقدہ کے تربیت یافتہ بالیقین اپنے اندر اپنی پدری وراثت کی تمام خوبیاں اپنے رکھتے ہیں اور ان کے تینوں صاحب زادے ان کے اخلاق حسنہ کے عملی مظاہر ہیں۔اور حسن اخلاق کے ایسے ہی کرداروں کی وجہ سے آج تک اچھائی کو اچھائی اور نیکی کو نیکی کا نام دیا جاتا ہے، ورنہ برسوں پہلے نیک و بد مترادف ہوچکے ہوتے۔ اس لیے ہم تہہ دل سے دوبارہ شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جزکم اللہ خیرا و احسن الجزاء۔
آپ کی معلومات کے لیے عرض کردیں کہ حضرت مولانا محمد ازہر نور اللہ مرقدہ کے تین صاحب زادے ہیں، جن میں مولانا محمد صاحب سردست مدرسہ حسینہ کڈرو رانچی کے مہتمم اور ساتھ نائب صدر جمعیۃ علماء جھارکھنڈ ہیں، مولانا احمد صاحب ناظم تعلیمات ہیں، جب کہ مولانا اسجد صاحب استاذ ہیں۔ یہ آخر الذکر دارالعلوم دیوبند میں راقم کے ہم عصر تھے، البتہ انھیں سینیرٹی حاصل تھی۔