7 Apr 2018

اردو کی مختصر تاریخ

قسط نمبر (1) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
اردو کا آغاز
جب کبھی د و قومیں آپس میں ملتی ہیں؛ تو اس سے ایک نئی تہذیب اور ایک نئی زبان وجود میں آتی ہے۔ اردو زبان بھی اسی ملاپ کا نتیجہ ہے۔ ہندستان کی قدرتی خو ب صورتی اور فطری مناظر کی د ل کشی کی وجہ سے جو قومیں یہاں آئیں، بس یہیں کی ہو کررہ گئیں ۔ انھیں قوموں میں سے ایک آریائی یا ایرین قوم ہے، جو دراؤڑی قوم کے بعد ۱۵۰۰ ؁ ق م میں درۂ خیبر اور ایران کی راہوں سے آکر یہاں آبسی ۔ اس قوم کے آنے سے یہاں کی تہذیب وتمدن اور زبان میں نئی نئی تبدیلیاں ہوئیں۔دراوڑی قوم کی زبان ’’پراکرت‘‘ تھی اور آریائی قوم اپنے ساتھ ویدک بولی لے کر آئی تھی ، جو بعد میں سنسکرت کہلانے لگی۔ لیکن اس قوم میں ذات پات کی تفریق پائی جانے کی وجہ سے سنسکرت صرف اونچے طبقے کی اور مذہبی واحترامی زبان بن کر رہ گئی ،جس کی وجہ سے اسے عوامی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی، جب کہ پراکرت عوامی بول چال کی زبان کی حیثیت اختیار کر گئی۔ 
کچھ عرصہ بعد ایک ایسا دور آیا کہ پراکرت میں ملاوٹ ہونے لگی اور سنسکرت کے محرف الفاظ کا ذخیرہ اس میں بڑھنے لگا، جسے ماہر لسانیات ’’اپ بھرنش دور‘‘ کہتے ہیں ۔اور اس کو چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں : (۱)شور شینی اپ بھرنش۔(۲)ماگدھی اپ بھرنش۔(۳)مہاراشٹر اپ بھرنش۔(۴)اودھ ماگدھی اپ بھرنش۔انھیں اپ بھر نشوں میں سے شور شینی اپ بھرنش سے لگ بھگ ۱۰۰۰ ؁ ء میں اردو زبان وادب کی بنیاد پڑی ہے۔صاحبِ اردو ادب کی بھی یہی رائے ہے ،چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ زبان اردواس ہندی بھاشاکی ایک شاخ ہے ، جوصدیوں دہلی اور میرٹھ کے اطراف میں بولی جاتی تھی۔اور جس کا تعلق شورشینی پراکرت سے بلا واسطہ تھا‘۔(ص؍۷)۔پھر تدریجی طور پر ترقی کے مراحل سے گذرتی ہوئی پورے ہندستان میں پھیلی ہے۔ اور یہاں کی مقبولِ خاص وعام زبان بن گئی ہے۔ذیل کی سطروں میں اس کی ابتدائی نشو ونما اور مراحلِ ترقی کے حوالے سے چند باتیں درج کی جارہی ہیں۔
ابتدائی نشو ونما 
’’اردو‘‘ ترکی کا لفظ ہے ،جس کے معنی ’’لشکر‘‘ اور ’’فوج‘‘ کے ہیں۔ مولانا محمد حسین آزادؔ لکھتے ہیں کہ: ’’اردوترکی میں بازار لشکر کوکہتے ہیں‘‘۔ (آب حیات۔ص؍۳۱)۔ اردو کی اس تسمیہ کی وجہ یہ ہے کہ اس کی نشو ونما اور تعمیر وترقی میں فوجیوں اور لشکروں کا بھی غیر معمولی کردار رہا ہے۔علاوہ ازیں کچھ ایسے تاریخی واقعات بھی پیش آئے ہیں، جو اردو کے حق میں نہایت مفید اور اس کی تعمیر وتشکیل میں کافی ممد ومعاون ثابت ہوئے ہیں۔جن میں سے چند واقعات درج ذیل ہیں: 
(۱)محمدبن قاسم کے لشکر میں عربی اور فارسی بولنے والے لوگ شامل تھے۔جب انھوں نے سندھ اور ملتان کو فتح کرلیا؛ تو ان کی فاتحانہ تہذیب کے اثرات سے وہاں کی تہذیب کے ساتھ ساتھ زبان بھی متأثر ہوئی ، اور اس کی جگہ ایک نئی زبان وجود میں آئی، جسے ہم اردو کا ہیولیٰ کہہ سکتے ہیں۔ 
(۲)اس کے بعد جب محمود غزنوی کا دور آیا ، اور اس نے شمال و مغرب سے فتح کرتے ہوئے سندھ، ملتان اور پنجاب سے لے کر میرٹھ اور نواح دہلی تک کے تمام علاقوں کو اپنی حکومت میں شامل کرلیا، تو مسلمانوں کے وہ تہذیبی اور لسانی اثرات( جن کی بنیادیں محمد بن قاسم کے فاتحانہ دور میں پڑ چکی تھیں) کافی گہرے ہوتے گئے، جس کے نتیجے کے طور پراردو کسی محدود علاقے کی زبان کے بجائے مختلف خطوں کی زبان بن گئی۔علاوہ ازیں یہ زبان دہلی کے آس پاس میرٹھ اور اس کے اطراف واکناف کی زبانوں کواپنے اندر جذب کرنے لگی اور خود بھی ان کے اندر جذب ہو کر سارے ہندستان میں پھیلنے لگی۔ 
(۳)علاؤالدین خلجی نے گجرات سے لے کر دکن تک کے تمام علاقوں کو سوسو حلقوں میں تقسیم کر دیا تھا، اور ہر علاقے میں ایک ترک افسر مقرر کیا تھا۔ چوں کہ یہ افسران ترکی اور فارسی تو جانتے تھے، لیکن یہاں کی عوامی زبان (ابتدائی اردو) سے بالکل ناواقف تھے ، جس سے انھیں عوامی سطح پر بات چیت کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے وہ لوگ اپنی زبان کے ساتھ یہاں کی مقامی زبان کے الفاظ ملاکر بولتے تھے، جس سے اردو کا دامن وسیع ہوتا چلا گیا۔ 
(۴)تغلقوں کے دور میں محمد بن تغلق نے سلطنت دہلی پر تخت نشیں ہونے کے بعد دکن ، گجرات اور مالویہ پر اپنی گرفت کو مضبوط ومستحکم کرنے کے لیے دولت آباد (دیوگیری)کو دار السلطنت بنالیا اور ۱۳۲۷ء ؁ میں یہ حکم جاری کیا کہ دہلی کے تمام باشندگان، فوجی افسران اور ان کے متعلقین دولت آباد منتقل ہوجائیں۔اس فرمان شاہی کو سن کر بہت سے علمائے کرام بھی دکن منتقل ہو گئے۔جس کا فائدہ یہ ہوا کہ شمال سے لے کر دکن تک ایک مشترکہ تہذیب پھیل گئی۔ اور اردو زبان قلیل عرصے میں شمال ودکن کے تمام علاقوں میں رواج پاگئی ۔ 
(۵)اردو زبان واد ب کی نشو ونما میں اس وقت کے صوفیائے کرام نے بھی زبر دست کردار ادا کیا ہے۔ان سالکان طریقت نے اشاعت دین کے لیے عربی یا فارسی کے بجائے ایک ایسی زبان کو اختیار کیا،جس میں عربی اور فارسی کے ساتھ مقامی زبان کے الفاظ بھی شامل تھے۔ان بزرگوں میں سے بابا فرید،امیر خسرواور خواجہ گیسو دارز وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ 
ارتقائی مراحل 
اردو زبان وادب کے ارتقائی مراحل کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (۱)دور قدیم ۔(۲)دور متوسط۔ (۳)دور جدید۔ 
دور قدیم 
اس دور کا اطلاق اردو کی ابتدا سے سترھویں صدی تک ہوتا ہے۔اس دور میں اردو زبان کی تعمیر وتشکیل میں بہمنی دور (۱۳۵۰ء ؁ ۱۵۲۵ء ؁) کے ادبی کارنامے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔خاص کر شاعروں میں حضرت امیر خسرو اورنثر نگاروں میں حضرت خواجہ بندہ گیسو دراز کی تصانیف قابل ذکر ہیں۔بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد گول کنڈہ کا قطب شاہی دور(۱۵۱۸ء ؁ ۱۶۸۷ ؁ء )اوربیجاپورکے عادل شاہی دورکا بھی اردو کی خدمات میں نمایاں مقام رہاہے۔ان دونوں سلطنتوں کے زوال کے بعد چوں کہ اورنگ آباد شعر وادب کا مرکز بن گیا تھا۔ اس لیے اردو کی آبیاری میں یہاں کے ادیبوں، ان میں بطور خاص ولی اور سراج کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔
اس دور کے شمالی ہند کے شعرا فارسی میں شعر کہا کرتے تھے ۔ اردو میں سب سے پہلے امیر خسرو نے شعر کہے اور انھیں سے اردو میں شعر گوئی کا آغاز ہوا ۔ چوں کہ اس وقت اردو ابھی ایک نوپید زبان تھی اور اس نے مکمل صورت اختیار نہیں کی تھی، اس لیے اس دور کی نظم اور نثر دونوں میں عربی وفارسی کے الفاظ کم اور ہندستانی الاصل الفاظ جیسے : کھڑی بولی، برج بھاشا، قدیم پنجابی، قدیم مراٹھی اور ڈھیروں ناہموار الفاظ پائے جاتے ہیں۔ 
دور متوسط 
اس دور کا آغاز سترھویں صدی سے ہوتاہے اور انیسویں صدی پر ختم ہو جاتاہے ۔ اس دور کی شاعری کی ترقی میں یہ واقعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ:
’’ولی نے ۱۷۰۰ ؁ء میں سید ابوالمعالی کے ہمراہ دلی کا سفر کیا ۔ یہاں کے شعرا جس طرح فارسی کے اشعار سناتے تھے، اسی طرح ولیؔ نے اردو میں غزلیں سنانی شروع کیں۔ ان کی غزلیں اتنی مقبول ہوئیں کہ دلی کے تمام شعرا نے ان کی تقلید میں اردو میں شعر کہنا شروع کردیا‘‘۔ (اردو اد ب ،ص؍۲۶۳)۔ 
اس دور کی سرکاری زبان فارسی تھی۔دور قدیم کی تحریر وں میں ہندستانی الاصل کے کچھ ایسے ناہموار الفاظ بھی تھے، جو اردو زبان سے پوری طرح میل نہیں کھاتے تھے۔ اس لیے مرزا مظہر جان جاناںؒ نے اس بات پر زور دیا کہ اردو میں رائج ہندستانی الاصل الفاظ کے بجائے عربی اور فارسی کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ حضرت کی یہ کوشش کامیاب ہوئی اور عربی وفارسی کے بے شمار الفاظ اور محاورے اردو کے جز بن گئے۔جن سے اردو کو ایک نئی جہت اور نئی ترقی ملی۔ 
اسی طرح اس دور میں اردو کی فروغ کاری میں دبستان دہلی (۱۷۰۰ ؁ء ۱۸۵۷ ؁ء ) اور دبستان لکھنؤ (۱۷۵۰ء ؁ ۱۹۰۰ ؁ء ) کے شاعروں اور ادیبوں کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔علاوہ ازیں ۱۷۷۱ء ؁ میں فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس اور ۱۸۰۰ء ؁ میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کا قیام بھی اردو ادب کی تعمیر وترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے،کیوں کہ ان دونوں یونی ور سیٹیوں کے قیام کا مقصد انگریز ملازموں کو ہندستانی رسم ورواج سے واقف اور اردو زبان سے روشناس کرانا تھا، لیکن اس وقت اردو زبان میں کوئی ایسی کتاب نہیں تھی ،جو داخل نصاب کی جاتی۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ان کالجوں میں اردو ادیبوں کا تقرر عمل میں آیا اور ان کے ذریعے انگریزی اور دگر زبانوں کی کتابوں کا ترجمہ کرایا گیا ، جس سے اردو مزید پروان چڑھی۔ 
دور جدید 
اس دور کا باقاعدہ آغاز ۱۸۵۷ ؁ء سے ہوتا ہے ۔ اس دور میں غالب نے اپنی منفرد اور دل چسپ مضمون نگاری اور فلسفیانہ شاعری کے ذریعہ اردو کو ترقی کے بام عروج پر پہنچادیا۔ اسی طرح تحریک سر سید اور ان کے رفقا مولانا حالی، مولانا شبلی نعمانی ، مولوی نذیر احمد اور مولانا حسین آزادؒ وغیرہ نے اپنی اپنی انفرادی ومتنوع صلاحیتوں اور کوششوں سے اردو ادب کو بہت فروغ دیا۔ علاوہ ازیں ۱۹۱۸ء ؁ میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کا قیام عمل میں آیا ۔جس میں ابتدا ہی سے تعلیمی وتدریسی زبان اردو رکھی گئی۔ اس میں تالیف وترجمے کے لیے دار الترجمہ کے نام سے ایک شعبہ قائم کیا گیا اور سماجیات، سیاسیات،معاشیات، جغرافیہ، تاریخ، سائنس، طب، انجنیرنگ اوردیگر علوم وفنون کی انگریزی کتابوں سے اردو میں ترجمے کیے گئے ، جس سے دامنِ اردو علوم وحکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس طرح مختلف ادوار سے گذرتی ہوئی یہ زبان ترقی کے اس اعلیٰ معیار پر پہنچ گئی ہے، جس کی بنا پر ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ عالمی زبانوں کی فہرست میں ایک نام اردو کا بھی شامل ہے۔ 
اردو کے مختلف قدیم نام 
ہندستان کے مختلف علاقوں میں اردوکی نشو ونما ہوئی ہے۔اس لیے یہ زبان مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے پکاری گئی ہے۔چنانچہ گجرات میں ’’گجری‘‘ اور دکن میں ’’دکنی‘‘ کہلائی ۔ حضرت امیر خسروؒ نے ’’ہندی‘‘ اور ’’ہندوی ‘‘سے یاد کیا۔ غالب نے ’’اردو ئے معلی‘‘ کہا ۔ بعض لوگوں نے ’’ریختہ‘‘ اور’’ زبانِ دہلوی ‘‘سے پکارا۔ انگریز مؤرخوں نے ’’ہندستانی‘‘ کا نام دیا ۔ لاطینی زبان میں ’’لنگو اندوستانی‘‘ کہا گیااور سب سے آخر میں اس کا نام ’’اردو‘‘ قرار پایا۔ 
عصر حاضر میں اردو کے سب سے مضبوط قلعے 
اگرچہ کچھ مؤرخین نے اردو زبان وادب کی تعمیر وترقی کے حوالے سے مدارس اسلامیہ کے کارناموں کو نظر انداز کردیا ہے، اورادوار ثلاثہ میں سے کسی بھی دور میں ان کی کسی بھی خدمات کا اعتراف اور تذکرہ نہیں کیا ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو کی آبیاری میں مدارس کا بھی زبر دست کردار رہاہے ۔ 
یوں تو اردو زبان وادب کی فروغ کا ری کے نام پر ہندستان کے مختلف خطوں میں سینکڑوں ادارے اور بے شمار اکیڈمیاں قائم ہیں، اور وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف کار بھی ہیں، لیکن عصر حاضر میں اردو کی جو خدمات مدارس اسلامیہ انجام دے رہے ہیں اور اس کی بقا وتحفظ کے لیے جو کردار ادا کررہے ہیں، فروغ اردو کے نام پر قائم تمام ادارے اور تمام اکیڈمیاں مل کر بھی وہ کردار ادا نہیں کرپارہی ہیں، کیوں کہ ان کا دائرۂ کار صرف کتابوں کے ترجمے اور کچھ نا م وروں کو ایوارڈ نوازنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔اور ظاہر ہے کہ اردو کی بقا کے لیے یہ خدمات آٹے میں نمک کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں ،کیوں کہ کسی بھی زبان کی عمر کودراز کر نے کے لیے اس کے رجال کار پیدا کرنا ناگزیر ہے اور اس کے لیے درجِ ذیل صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں : 
(۱)اس زبان کے قارئین پیدا کرنا اور ان کی تعداد میں اضافہ کرنا ۔ 
(۲)اس زبان کے مقررین پیدا کرنا ۔ 
(۳)اس زبان کے مصنفین و مترجمین پیدا کرنا ۔ 
(۴)ان کی تصانیف کو منظر عام پر لاکر ان کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کرنا۔
اور ان تمام صورتوں سے صحیح معنی میں صرف مدارس ہی رجال کار پیدا کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ قارئین بھی پیدا کر رہے ہیں ۔ مصنفین ومقررین کی کھیپ بھی تیار کر رہے ہیں اور آئے دن فضلائے مدارس کی تصانیف بھی منصہ شہود پر آرہی ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے ،جو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس بنا پر ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ عصر حاضر میں اگر اردو کی کچھ رمق باقی ہے اور جو کچھ پرچھائیاں نظر آرہی ہیں وہ صر ف اور صرف انھیں مدارس کی دَین ہیں ، اس لیے اگر مدارس کو اردو کے مضبوط قلعوں سے تعبیر کیا جائے،تو یہ مبالغہ آرائی ہوگی اور نہ ہی خلاف واقعہ حکایت ۔ پٹنہ ، بہار کے شہرۂ آفاق شاعر ونقا ، میر ثانی ، آبروئے بہار جناب ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب (سابق پروفیسر پٹنہ یو نی ور سٹی وامیر تبلیغ جماعت بہار) لکھتے ہیں : 
لیکن مدارس عربیہ کے لیے یہ سوغات ہے، اس معنی کر کہ اب اردو کی حفاظت میں مدارس جس قدر معاون اور مددگار ہیں، اسکولوں اور کالج اور یو نی ورسیٹیاں اب نہیں ہیں۔ موجودہ نسل جس حد تک اردو کو چلا سکے گی، چلائے گی؛ لیکن مستقبل قریب اور بعید میں میرا خیال یقین کی حد تک ہے کہ اردو کی نشو ونما ، اس کا بچاؤ اوراس کی اشاعت مدارس کو منتقل ہونے والی ہے۔ ادب اور زبان کی طرف جس قدر رغبت مدارس کے طلبہ میں پیدا ہورہی ہے،کالجوں اوریونیورسیٹیوں میں نہیں۔ خدا کرے یہ فال نیک ہو!۔ (ماخوذ از:تقریظ بردبستانِ بلاغت)۔ 
علمائے دیوبند کی اردو خدمات 
دار العلوم دیوبند ایک ایسا ادارہ اور ایک ایسی تحریک کا نام ہے، جس کی ہمہ گیر وہمہ جہت خدمات کا دوست ودشمن؛سب نے یکساں طور پر اعتراف کیا ہے، لیکن اردو ادب کے حوالے سے اس کی خدمات کو جس طور پر سراہا جانا چاہیے تھا، اس طور پر سراہا نہیں گیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ اردو کی آبیاری میں دار العلوم دیوبند کا کوئی خاص کردار نہیں رہا ہے ۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس باب میں بھی اس کا زبردست رول رہا ہے۔ 
اس غلط فہمی کی پیدا ہونے کی چند وجوہات ہیں۔ جن میں سے سب سے بڑی وجہ خودہم جملہ فضلائے دارالعلوم کی کوتا ہی اور لاپرواہی ہے ، کیوں کہ ہم نے دار العلوم دیوبند کا ان پہلووں سے تو تعارف کرایا کہ اس نے دنیا کو فقہ وفتاویٰ کی دولت عظمیٰ سے مالا مال کردیا، تفاسیر واحادیث کے بڑے بڑے امام پیدا کردیے، سیاسیات و اقتصادیات کے ماہر ین اور طب وحکمت کے جیالے فراہم کیے، برصغیر میں دین اسلام کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو پھر سے روشن،بلکہ روشن سے روشن تر کردیا۔ غرض ہم نے اس کی ایک ایک خدمات سے دنیاکو روشناس کرایا، لیکن اردو ادب کی خدمات کے حوالے سے کما حقہ تعارف نہیں کرایا۔جب کہ واقعہ یہ ہے کہ سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ سے لے کر تادم تحریر اس ادارے کے اساتذۂ کرام، فضلا وطلبائے عظام؛ سبھی کے سبھی اردو کی خدمات کرتے رہے ہیں۔ 
علمائے دیوبند کی اردو فروغ کاری کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ دگر اداروں اور اکیڈمیوں نے اس زبان کو صرف اس حد تک گلے لگایا کہ یہ ایک شیریں اور محبت والفت کی زبان ہے، لیکن علمائے دیوبند نے اسے اس حیثیت سے بھی قبول کیا کہ اشاعت دین کے لیے عربی زبان کے بعد اس کو دوسری زبان کے طور پر منتخب کرلیا، اور بے شمار عربی علوم وفنون کو اردو میں منتقل کر کے اس کے دامن تنگ کو وسیع سے وسیع تر کردیا۔ علاوہ ازیں روزاول ہی سے اگر چہ دارالعلوم کی نصابی کتابیں عربی اور فارسی زبانوں کی رہی ہیں، لیکن ان کی تعلیم وتدریس کے لیے اردو زبان ہی منتخب کی گئی ہے، جو اس زبان کی خدمت پر واضح اور بین دلیل ہے۔ 
علمائے دیوبند کی اردو خدمات کے پردۂ خفا میں رہنے کی ایک وجہ تو یہ تھی۔ اور دوسری وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس ادارے کا سارا کام اردو زبان میں ہونے کی وجہ سے یہ پہلو روز روشن کی طرح عیاں رہا، اور’’عیاں راچہ بیاں‘‘ کے پیش نظر اس کو درخوئے اعتنا نہیں سمجھا گیا۔حالاں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ 
بہر کیف! اردو ادب کی تعمیر وترقی میں علمائے دیوبند نے بھی غیر معمولی کارنامے انجام دیے ہیں۔ اس دعوے کی تصدیق کے لیے یہاں کے مصنفین اور ادبا وشعرا کے صرف ناموں ہی کی فہرست تیار کی جائے، تواس کے لیے کافی صفحات درکار ہوں گے ۔