7 Apr 2018

کچھ کتاب رہ نمائے اردو ادب کے بارے میں

قسط نمبر (2) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
اردو ادب کے لیے لازمی علوم 
علامہ ثعلبی وغیرہ نے علم ادب کی تحصیل کے لیے بارہ علوم کے حصول کو لازم قرار دیا ہے۔چنانچہ ان حضرات نے علم ادب کی تعریف ہی ان بارہ علوم کے مجموعوں سے کی ہے:(۱)علم لغت (۲) علم صرف (۳)علم اشتقاق(۴)علم نحو(۵)علم معانی (۶)علم بیان (۷)علم عروض (۸)علم قافیہ (۹)علم رسم الخط (۱۰)علم قرض الشعر (۱۱)انشائے نثر (۱۲)علم تاریخ ۔لیکن اردو ادب کے لیے کم سے کم پانچ علوم سے واقفیت ناگزیر ہے: (۱)علم ہجا (۲)علم صرف (۳)علم نحو (۴)علم بلاغت(۵)علم عروض۔ 
علم ہجا: اس علم کو کہا جاتا ہے، جس میں حروف تہجی سے بحث کی جاتی ہے۔اس کے موضوع کے تحت چند بحثیں آتی ہیں: ایک تو یہ کہ حروف کے مخارج کیا ہیں؟دوسری یہ کہ حروف کی آواز کو حرکات وسکنات سے کس طرح ربط دیا جائے؟ تیسری یہ کہ ایک زبان میں کتنی اقسام کے حروف استعمال کیے جاتے ہیں؟ چوتھی یہ کہ کون سے حروف کس زبان سے تعلق رکھتے ہیں ؟ پانچویں یہ کہ ان کا رسم الخط کیسا ہونا چاہیے؟ چھٹی یہ کہ ان کے املا کے کیاکیا طریقے ہیں؟۔ 
زیر نظر کتاب میں ان ساری بحثوں میں سے صرف چوتھی ، پانچویں اور چھٹی بحث کو بیان کیا گیاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی اور دوسری بحث کا تعلق علم ہجا کے ساتھ فن تجوید وقرا ت سے بھی ہے اور یہ ایک مستقل فن کی حیثیت رکھتاہے ۔ اس لیے ان دونوں بحثوں سے تعرض کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ’’رہ نمائے اردو ادب‘‘ کے لیے یہ دونوں اس درجہ ناگزیر بھی نہیں ہیں کہ ان کا تذکرہ کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہ ہو اور مطلوب ومقصود کے فوت ہونے کا خطرہ درپیش ہو۔ جہاں تک تیسری بحث کا تعلق ہے، تو اس حوالے سے یہ کہاجاسکتا ہے کہ اردو میں زیادہ تر عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت کے الفاظ پائے جاتے ہیں، اور ان کے علاوہ بھی کئی ایک زبانوں کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، جن کی حقیقت کا مکمل ادراک نہ صرف دشوار ہے ، بلکہ امر محال ہے ۔اور چوں کہ علم ادب کے ساتھ یہ علم لغت کا بھی موضوع ہے ، اس لیے اسی پر تکیہ کرلیا گیا ہے۔اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ بقیہ تینوں بحثوں ہی کو یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو یہاں کسی خاص اور اہم مقصد کے تحت لایا گیا ہے ، اور وہ خاص مقصد یہ ہے کہ زبان وادب کے لیے حروف بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔اور ادبی زبان چوں کہ تحریر وکتابت سے تعلق رکھتی ہے ۔ اور تحریرو کتابت کے لیے املا کے قواعد ، رموز واوقاف اور رسم الخط سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے ، اس لیے ان تینوں کا تذکرہ یہاں انتہائی ضروری تھا۔ 
علم صرف کی تعریف یہ ہے کہ جس سے حروف وحرکات کے تغیرو تبدل، کلمات کے بنانے کے قاعدے، اسموں اورفعلوں کی گردانیں معلوم ہوتی ہیں۔ غرض اس علم میں الفاظ کی کیفیات وحالات کا تفصیلی تذکرہ ہوتا ہے۔ 
علم نحو اس علم سے عبارت ہے ،جس سے مفردات کی ترکیب،جملوں کی ساخت ، ان کی باہمی ترکیب اور ایک دوسرے سے لگاؤ کے قواعد معلوم ہوتے ہیں۔ حروف کی شناخت کے بعد زبان وادب کے سیکھنے کا دوسرا مرحلہ ان کے ترکیبی مجموعے یعنی الفاظ کے تلفظ کا آتا ہے ۔اور صحت تلفظ کے بعد الفاظ کی باہمی ترکیب وتالیف کی منزل آتی ہے۔ اول الذکر علم صرف سے تعلق رکھتا ہے اور آخر الذکر علم نحو سے متعلق ہے، لہذا یہ دونوں علوم بھی ’’رہ نمائے اردوادب ‘‘کے لیے حد درجہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ان دونوں علوم کو مجموعی طور پر ’’چند بنیادی قواعد‘‘ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے، لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہی ہے کہ قواعد کی دگر کتابوں کی طرح تمام جزئیات وفروعیات کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ بالخصوص حروف کی بحث میں عام مضامین سے مکمل انحراف کرتے ہوئے اس کی جگہ ایک الگ اوربالکل نئی بحث لائی گئی ہے۔ کیوں کہ طول طویل مباحث سے قاری اور وہ بھی ایک نو آموز قاری کسی نتیجہ پر پہنچنے کے بجائے انھیں قواعد کے پیچ وخم میں الجھ کر رہ جاتا ہے ۔اور سوائے عبارت خوانی کے کوئی مواد حاصل نہیں کرپاتا ، مزید برآں کتاب سے اکتاہٹ بھی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس لیے ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، صرف انھیں قواعد و اصول کی بحثوں کو چھیڑا گیا ہے ،جو ایک مبتدی کو بہ آسانی راہ ادب تک پہنچا دے اور وہ دوران مطالعہ گنجلک یا اکتاہٹ بھی محسوس نہ کرے۔ 
علم بلاغت سے مراد یہ ہے کہ اپنے خیالات وجذبات کو مختلف اور دل چسپ پیراےۂ بیان میں بیان کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ اس کی تین قسمیں ہیں: (۱)علم بیان (۲)علم معانی (۳) علم بدیع ۔ پھر ان تینوں قسموں کی مختلف اقسام وفروع ہیں، لیکن اس کتاب میں صرف انھیں اقسام وانواع کو جگہ دی گئی ہیں ، جن کا تذکرہ کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔بایں وجہ ان پر مجموعی طور پر یہ سرخی لگادی گئی ہے کہ ’’اظہار خیال کے مختلف پیراےۂ بیان‘‘ ۔ 
عوامی زبان یعنی غیر ادبی زبان اور ادبی زبان کے مابین امتیاز پیدا کرنے والی چیز ادبی زبان کا وہ مخصوص طرز وانداز ، لب ولہجہ اور حلاوت وچاشنی ہیں، جن سے غیر ادبی زبانیں اور غیر ادبی تحریریں محروم ہوتی ہیں۔ اور یہ خصوصیات وامتیازات علم بلاغت کی مدد ہی سے پیدا کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے علم بلاغت کو بھی جزو کتاب بنا لیا گیا ہے۔ 
علم عروض وقوافی میں اشعار کے متعلق جملہ لوازمات سے بحث کی جاتی ہے ۔اگر چہ نثر نگاری کے لیے اس علم سے مکمل واقفیت لازمیت کی حد تک ناگزیر نہیں ہے ، تاہم نثر کو سمجھنے کے لیے اس کی بنیادی اصطلاحات کی جان کاری حاصل کرنا ضروری ہے۔نیز ادب کا اطلاق نثر ونظم دونوں صنفوں پر ہوتاہے، اس بنیاد پر ان دونوں صنفوں کے بار ے میں بنیادی معلومات رکھنا ایک اچھا قلم کار بننے کے لیے ضروری ہے۔بایں وجہ اس حوالے سے بھی چند سطور لکھ دی گئی ہیں۔ 
ابحاث کی ترتیب وضعی کی خاص وجہ
اس کتاب کا اصلی مقصدان رہ روانِ شوق کو اردو ادب کی راہ پر لانا ہے، جن کی مادری زبان اردو تو ہے، لیکن اردو ادب سے واقف نہیں ہیں، لیکن ابحاث کی ترتیب کچھ اس طرح رکھی گئی ہے کہ یہ ان حضرات کے لیے بھی مفید ثابت ہوگی ،جن کی مادری زبان تو اردو نہیں ہے، لیکن وہ اردو کے سچے عاشق ہیں ، اور اس زبان سے آگہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔چنانچہ کتاب کا آغاز علم ہجا سے کیا گیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان وادب سیکھنے کے لیے مطالعہ کے ساتھ ساتھ تحریر وکتابت کا سہارا لیا جاتاہے ، اور اس کے لیے املا کے قواعد اور رموز واوقاف کو جاننا ضروری ہے۔ اور قواعد املا کو صحیح طور پر اسی وقت برتا جاسکتاہے، جب کہ پہلے یہ معلوم ہو کہ اس زبان میں پائے جانے والے الفاظ دوسری کس زبان سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کا ہماری زبان میں صحیح املا کیا ہے؟ اسی طرح ان کا صحیح تلفظ کیا ہے؟ چوں کہ ان تمام ابحاث کا تعلق علم ہجا سے ہے ،اس لیے سب سے پہلے علم ہجا سے بحث کا آغاز کیا گیا ہے۔ کتاب کو اس بحث سے آغاز کرنے کی ایک وجہ تو یہ تھی ۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ املا کے رموز وقواعد سے عموماً کوتاہی برتی جاتی ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ناواقفیت ہے۔ حالاں کہ تحریر کی خو ب صورتی اور قابل فہم بنانے کے لیے یہ رموز اتنے ہی ضروری ہیں جتنے کہ ایک درخت کے لیے دھوپ اور پانی۔ 
جب ایک نو آموز اور مبتدی طالب علم، قواعد املا سے واقف ہوجائے گااور وہ چند سطور ان قواعد کی رعایت کے ساتھ لکھنے پر قادر ہوجائے گا، تو زبان وادب سیکھنے کے لیے اس کا دوسرا مرحلہ شروع ہوجائے گا۔ اور وہ مرحلہ یہ ہے کہ اپنے دل کی باتوں کو صفحۂ کاغذ پر کس طرح منتقل کیا جائے کہ اس میں واحد، جمع ، تذکیر وتانیث اور کسی طرح کی کوئی غلطی درنہ آئے ، اس لیے علم ہجا کے معاً بعد ’’چند بنیادی قواعد‘‘ لکھے گئے ہیں، جن کی مدد سے ہر قسم کی غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ 
اس بحث کے بعد ’’اظہار خیال کے مختلف پیراےۂ بیان ‘‘کے عنوان سے ایک بحث رکھی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سابقہ مباحث کے مطالعے سے طالب علم کے اندر اتنی صلاحیت پیدا ہو چکی ہوگی کہ وہ کسی طرح کی غلطی کیے بغیر سیدھے سادے انداز میں کوئی مضمون لکھ سکتا ہے۔ لیکن ابھی وہ اس بات پر قادر نہیں ہوگا کہ اس کے اندر کسی ظاہری ومعنوی خوبیوں کو پیدا کر سکے ، جب کہ ایک عمدہ اور معیاری مضمون کے لیے ان خوبیوں کا ہونابھی ضروری ہے۔ اور یہ خوبیاں علم بلاغت کے ذریعہ پیدا کی جاتی ہیں، اس لیے یہ بحث اس جگہ رکھی گئی ہے۔ 
اس کے بعد اردو میں مستعمل نثر کی مختلف اصناف کا تعارف کرایا گیا ہے اور ہر ایک صنف کے انداز نگارش کو بیان کیا گیا ہے، کیوں کہ اس سے پہلے کے مباحث کے مطالعہ سے طالب علم کے اندر اتنی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے کہ وہ کسی طرح کی غلطیوں کے بغیر ظاہری ومعنوی خوبیوں کے ساتھ ایک مضمون تیار کرسکتا ہے، لیکن موضوع کی مناسبت سے انداز تحریر کیا ہونا چاہیے؟ اس سے ابھی وہ ناواقف ہے ، جب کہ ایک معیاری مضمون کے لیے مناسب انداز نگارش بھی ضروری ہے۔ اور چوں کہ یہاں سے مضمون نگاری کا اصل میدان شروع ہوتاہے، اس لیے اس سے پہلے ’’مضمون نگاری کے چند رہ نما اصول‘‘ اور مزید چند ضروری باتیں بھی تحریر کر دی گئی ہیں، جن کی روشنی میں بصیرت وبصارت کے ساتھ وہ مضمون نگاری کر سکتا ہے۔ 
زبان وادب سیکھنے کے لیے نظم ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔اس لیے اس کے معاًبعد نظم کے حوالے سے کچھ ضروری باتیں لکھی گئی ہیں، تاکہ نثر کے ساتھ ساتھ نظم سے بھی واقفیت ہو جائے ۔ اور جگہ جگہ اپنی تحریر میں اشعار استعمال کر کے اس کی خوبیوں میں مزید نکھار پیدا کر سکے۔ 
اس مقام پر پہنچنے کے بعد طالب علم کی یہ پوزیشن ہوجائے گی کہ وہ کسی بھی موضوع پر اس کے مطابق انداز نگارش کے ساتھ ایک معیاری اور عمدہ مضمون لکھ سکتاہے ، لیکن ابھی وہ کسی دوسرے کے مضمون میں حسن و قبح کی نشاندہی نہیں کرسکتا ہے ۔ حالاں کہ ایک ادیب صحیح معنی میں ادیب اسی وقت کہلاتا ہے ، جب کہ وہ کسی تحریر میں خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اس صلاحیت کو اصطلاح میں ’’تنقید‘‘ کہاجاتا ہے ۔ اس کتاب کے خاکے میں ’’اصول تنقید‘‘کو بھی جزو کتاب بنا یا گیا تھا ؛ لیکن کسی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس کو خاکے سے حذف کر دیا گیا اور اس کی جگہ ’’ مختلف اسالیب ‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی بحث لائی گئی ہے ، جس میں اگر چہ اصول تنقید بیان نہیں کیے گئے ہیں، لیکن اس میں کچھ ایسے مواد شامل کیے گئے ہیں، جن سے اسالیب کی مختلف اقسام سے آگاہی حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ تنقیدی صلاحیت بھی پیدا ہو جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ گویا یہ بحث ایک تیر دو شکار کا مصداق بن گئی ہے، اور یہی حکمت بالغہ ہے۔ 
امام الہند جناب حضرت مولانا ابو الکلام آزادؔ ؒ لکھتے ہیں کہ
’’سب سے بڑا مقام جو کسی انسان کے لیے ہوسکتا ہے ،وہ یہ کہ مضامین لکھے جائیں، اور اس سے بلند تر مقام یہ ہے کہ کسی اخبار یا رسالے کے ایڈیٹر ہوں‘‘۔
گویا مضمون نگاری کی آخری حد اور کسی ادیب کا آخری مقام یہ ہے کہ وہ کوئی کتاب یا کوئی تحقیقی مضمون لکھ لیتاہے۔ اس لیے کتاب کے آخر میں ’’تحقیق وتصنیف کے چند زریں اصول‘‘ بھی لکھ دیے گئے ہیں۔ 
ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب اردو ادب سکھانے کے حوالے سے ایک مکمل گائڈ اور معتبر رہ نما کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اور ایک مبتدی کو درجۂ ابتدا سے بلند کر کے محقق ومصنف کے منصب پر فائز کرسکتی ہے۔ اور یہی راقم الحروف کا مقصد ہے۔ اللہ کرے کہ یہ مقصد پورا ہو۔ آمین۔ 

اسلوب نگارش 
الکاتب الاسلامی جناب حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامینیؔ مدظلہ العالی دوران درس بارہا فرمایا کرتے تھے کہ’’الفاظ کی کثرت سے حقیقت نکل جاتی ہے‘‘ ۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ حقیقت بیانی اور عبارت آرائی دونوں ایک دوسرے سے تضاد کی نسبت رکھتے ہیں ۔ بایں وجہ اس کتاب میں عبارت آرائی سے مکمل احتراز کر تے ہوئے ایجاز واختصار سے کام لیا گیا ہے، لیکن اختصار کا وہ پہلو بھی اختیار نہیں کیا گیا ہے ،جس سے نفس مضمون غیر واضح اور گنجلک ہو جائے، بلکہ مضمون کی ادائیگی کے لیے جتنے الفاظ کی ضرورت تھی اتنے ہی الفاظ لائے گئے ہیں، جسے اصطلاح میں مساوات کہا جاتا ہے اوراسالیب ثلاثہ میں ’’ اسلوب علمی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ 
یہاں یہ عرض کردینا نا مناسب نہ ہوگا کہ مآخذ ومراجع کی کتابوں سے استفادہ کرنے میں مختلف طریقے اپنائے گئے ہیں:کبھی تو یہ طریقہ اپنا یا گیا ہے کہ مطالعے کے بعد نفس مضمون کا خلاصہ لے لیا گیا ہے، جس کا حوالہ ’’مستفاداز‘‘ سے دیا گیا ہے۔اور کبھی بعینہ عبارت نقل کر لی گئی ہے، جیسا کہ حوالہ نقل کرنے کا طریقہ ہے ۔ کہیں ایسا بھی کیا گیا ہے کہ ایک کتاب سے دوسری کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے ، لیکن وہاں پر اصل کتا ب کی بھی صراحت کر دی گئی ہے۔ متعدد کتابوں سے استفادہ کی صورت میں انھیں کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے ، جن سے نفس مضمون یا ان کی عبارت بھی نقل کر لی گئی ہے۔اور اگر صرف ان کا مطالعہ کیا گیا ہے اور ان سے کسی طرح کا اقتباس نہیں لیا گیا ہے، تو ایسا تو لکھ دیا گیا ہے کہ اس موضوع پر اس کتاب کا مطالعہ مفید ہوگا، لیکن ان کا باقاعدہ کوئی حوالہ نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی ان کو فہرست مراجع میں درج کیا گیا ہے۔ کتاب کے مواد ومیٹر میں کتابوں کے علاوہ حضرات اساتذۂ کرام اور فن کے ماہرین کے تجربات بھی شامل کرلیے گئے ہیں، جن سے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ 
منظور ہے گذارش احوال واقعی 
بعض مصنفین ومؤلفین کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ وجہ تالیف کے حوالے سے یارو احباب کا بے حد الحا ح واصرار ، گونا گوں مصروفیات ومشغولیات ، اپنی تہی مائیگی وکم علمی کا اظہار اور اعتذار کے فسانے انتہائی تفصیل کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں۔جس سے مبالغہ آمیزی کی بوآنے لگتی ہے اور اختراع کا شبہ ہونے لگتا ہے ۔ 
جہاں تک راقم الحروف کی بات ہے، تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ؛بلکہ ’’حادثہ‘‘ ہی پیش نہیں آیا، جس پر کسی داستان بے ستون کی بنیاد رکھی جاتی اور ایک د ل چسپ افسانہ تیار کر لیا جاتا۔ بس جو کچھ ہوا صرف اتنا ہوا کہ مطالعۂ ادبیات کے دوران اچانک یہ خیال آیا کہ اگر مطالعے کے ماحصل کو یکجا اور مختلف منتشر تراشوں کو اکٹھا کر کے کتابی شکل دے دی جائے، توکتابی دنیا میں دھماکہ نہیں ،تو کم از کم اضافہ ضرور ہو جائے گا۔ 
چنانچہ اسی جذبے کے پیش نظر قلم اٹھالیا، لیکن اس کا پہلا مرحلہ انتخاب موضوع اور دوسرا مرحلہ خاکہ تیار کر لینے کے بعد جب اپنے گریباں میں جھانکا اور نہا خانۂ دل کے علمی جغرافیہ کا جائزہ لیا ، تو محسوس ہوا کہ راہ تحریر کے اس نووارد مسافر کے لیے کوئی کتاب ترتیب دینے کا ارادہ کرنا اور وہ بھی ادب کے موضوع پر ،شیخ چلی کا منصوبہ یا بیداری میں دیکھا ہوا ایک خواب تھا جو شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ میرے دل ودماغ میں یہ بات گھر کر گئی کہ یہ کام میری ہمت وحوصلہ سے بالا تر ہے ۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ لاشعوری طورپر علامہ اقبال کا یہ شعر ورد زبان تھا کہ : ؂ 
گر حوصلے بلند ہوں اور کامل ہو شوق بھی 
وہ کام کونسا ہے جو انساں نہ کرسکے 
خدا جانے اس شعر میں شاعر کی کون سی روحانی قوت کا ر فرما تھی کہ میرا شوق پھر سے انگڑائی لینے لگا۔ میرا عزم جواں اور حوصلے بلند ہونے لگے۔ بالآخر پختہ ارادہ کر لیا کہ اس کام کو تابہ انجام پہنچا کر رہوں گا، ان شاء اللہ ۔ 
چنانچہ میں نے پھر سے قلم اٹھالیا اور نوعیت نگارش، ترتیب مباحث ، تعیین مخاطب اور ان جیسے ضروری پہلووں پر غور وفکر کرنے کے بعد کام کا آغاز کر دیا ، لیکن دریں اثنا شدت کے ساتھ یہ فکرستانے لگی کہ کیا مجھ سے اس موضوع کا حق ادا ہو سکے گا؟ بڑے بڑے ادیبوں کے ہاتھوں میں کتاب پہنچے گی ، تو وہ کیا تأثر لیں گے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ یارو احباب دشنام طرازیاں کرنے لگیں۔ غرض پردۂ ذہن پر ان جیسی فکر پریشاں کی اتنی تصویریں ابھر نے لگیں کہ میں شکست کھا گیا ، قلم کی سیاہی خشک ہوگئی اور زنجیر تردد نے پائے عزم کو اس طرح جکڑ دیا کہ تعطل وجمود کو حوصلہ مل گیا؛ لیکن پھر خیال آیا کہ : ؂ 
انجام اس کے ہاتھ ہے آغاز کر کے دیکھ 
بھیگے ہوئے پروں سے ہی پر واز کرکے دیکھ 
اسی تصور کے ساتھ پھر سے کمر بستہ ہوگیا اور انجام صاحب انجام کے حوالے کر کے توکل علی اللہ کا توشہ لے کر مائل بہ پرواز ہوگیا۔ اور جب کبھی شیطانی وسوسوں نے راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی، توانھیں اس یقین کا منھ توڑ جواب دیا گیاکہ یارو احباب، سب وشتم کے بجائے مسرت و فرحت کا اظہار کریں گے، اور اکابرین تنقید وتنقیص کے بجائے اپنی دعاؤں سے نوازیں گے۔ 
مشاہدہ شاہد عدل ہے کہ جب ایک آدمی کوئی کارنامہ انجام دیتا ہے ، تو اس کے متعلق دو طرح کے نظریے قائم کیے جاتے ہیں: ایک نظریہ توایسا قائم کیاجاتا ہے، جس میں کار کن کی حوصلہ افزائی ومدح سرائی کی جاتی ہے، اور اس کی کاوش کو داد وتحسین کی نظر وں سے دیکھاجاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا نظریہ ہوتا ہے جو اپنے اندر حقیقت شناسی اور دور بینی کا جوہر رکھتے ہیں، اور ہر چیز کو اس کا صحیح مقام عطا کرنے کی صلاحیت سے عاری نہیں ہوتے ، بلکہ ان کا فیصلہ مبنی بر حقیقت اور صدق وعدالت کا سراپا ہوتا ہے ، نہ اس میں کذب کا شائبہ ہوتا ہے اور نہ ہی تعصب کا تعفن ۔اور دوسرا نظریہ وہ قائم کیا جاتاہے ، جس میں صرف اس کی خامیاں مد نظر رکھی جاتی ہیں اور اچھائیوں کی طرف بالکل التفات نہیں کیا جاتا ، بلکہ ہر ممکن یہی کوشش ہوتی ہے کہ کہیں نہ کہیں سے کوئی ایسا سراغ مل جائے ،جس سے اس کو مضحکۂ روز گار بنا یا جاسکے ۔ اس نظریے کے حامل افراد،وہ ہوتے ہیں،جو یاتو نظر وفکر کی دولت ہی سے محروم ہوتے ہیں ، یا پھر ان کی طینت وفطرت میں بغض وحسد کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ کسی اچھی چیز کو اچھائی کی نظروں سے دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ۔ جلن اور کڑھن ان کے افکار ونظریات کا ماحصل ہوتا ہے ۔ 
راقم الحروف کو اس کاوش کے متعلق اولاً یہ دعویٰ ہی نہیں ہے کہ یہ کوئی کارنامہ ہے ۔ لیکن تصنیف وتالیف کے حوالے سے کوئی کارنامہ سمجھ لیا جائے ، تو اس کے متعلق کونسا نظریہ قائم کیا جائے گا، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کر پائے گا، لیکن یہ اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہے ، اس کا فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ البتہ ہر مصنفین کی طرح میری بھی یہی دعا ہے کہ یہ کاوش تمام لوگوں کی منظور نظر ہو جائے اور مقبولیت عامہ حاصل کرلے، آمین ۔ 
تحریر و کتابت ، تسویدو تبییض اور تصنیف وتالیف انتہائی مشکل کام ہے۔ان کی مشکلات کا صحیح اندازہ وہی حضرات لگا سکتے ہیں ، جو ان راہوں سے گزر چکے ہیں، یا پھر کسی مسافر قلم کے ساتھ رفیق ومعاون کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دشوار گزار گھاٹیوں کو تنہا سر کرنا ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اس کے فضل وکرم سے چند ایسے احباب ہمیں میسر آئے کہ اگر یہ احباب شریک سفر نہ ہوتے اور قدم قدم پر ہماری مدد نہ کرتے،تو شاید یہ تمام مراحل اتنی عجلت کے ساتھ پورے نہ ہوپا تے ۔ ان احباب و محسنین میں سے سب سے پہلے ہم جناب مولوی ذکر اللہ العربیؔ سیتامڑھی کا شکریہ اداکرنا چاہیں گے ؛ کیوں کہ مراجع کی کتابیں مہیا کرانے میں جو کردار انھوں نے ادا کیا ہے ، اگر وہ ایسا کردار ادا نہیں کرتے ، تو شاید ہماری کوشش ناکامی کا شکار ہوجاتی۔ اس موقعے پر جناب مولوی خلیق رحمانیؔ رامپوری کو کیسے بھول سکتے ہیں ، جن کی شب وروز محنت ولگن اور جہد مسلسل سے کتابت کے اغلاط، ممکنہ حد تک ختم ہوگئے ۔ جناب مولوی عبد الرزاق گڈاوی، جناب مولوی تفصیل احمد سیتامڑھی بھی شکریے کے مستحق ہیں، جن کی مسلسل حوصلہ افزائیوں اور فکر مندیوں سے ہمارے پائے استقلال میں لغزشوں کو راہ نہ مل سکی ۔ انجمن آئینۂ اسلاف طلبۂ ضلع گڈا (جھارکھنڈ) ، بزم سجاد طلبۂ بہار ، جھارکھنڈ ، اڑیسہ و نیپال اور کتب خانۂ دارالعلوم دیوبند کو کیسے فراموش کیا جاسکتاہے، جہاں سے استفادہ کر کے اس کی خمیر تیار کی گئی ہے۔ یکتائے روز گار وبے مثال خطاط جناب حضرت مولانا قاری عبد الجبار صاحب قاسمی(استاذ دارالعلوم دیو بند) کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کریں ، جن کی نیک خواہشات و توجہات نے ہماری زندگی میں بڑا کام کیا ۔جناب مولانا محمد شاہد غنی صاحب قاسمیؔ کمپیوٹر آپریٹر کا کیوں نہ شکریہ ادا کریں، جنھوں نے اس کتاب کی کتابت وتزئین میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا اور اس کو جلد از جلد پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے رات دن ایک کردیا ۔ ہم صمیم قلب سے ممنون ومشکور ہیں ، علم وادب کے پیکر، اسلامی اہل قلم جناب حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل الامینیؔ ( ایڈیٹر’’ الداعی‘‘ عربی، واستاذ عربی ادب دار العلوم دیو بند) کے ؛جنھوں نے مسودہ پر نظر کرم فرماکر اپنی قیمتی آرا ء، دعائیہ کلمات اور تأثرات وتقریظات سے نواز کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔ فجزا ھم اللہ جمیعاً خیرالجزاء۔ 
اللہ تعالیٰ راقم الحروف ، معاونین ، مخلصین اور قارئین سب کی مغفرت فرمائے اور احقر کو اخلاص و للہیت کی دولت سے نوازے اور اس کتاب کو مقبول خاص وعام بنا دے ، آمین ثم آمین۔والحمد للہ رب العلمین اولاََ و آخراََ۔ 
محمد یاسین قاسمی 
جہاز قطعہ، گڈا، جھارکھنڈ انڈیا