30 Mar 2018

جہاد

جہاد
حامدا ومصلیا اما بعد۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
معزز سامعین ،لائق صد احترام حاضرین! جب ہم اپنی تیرہ سوسالہ تاب ناک ماضی کے اوراق کو پلٹتے ہیں ، گذری ہوئی تیرہ صدیوں کے جھرونکوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں اور اس عہدِرفتہ کے شب و روز کا موجودہ صدی کے لیل و نہا رسے موازنہ کرتے ہیں ، تو یہ بات ہمیں خون کے آنسو رلانے لگتی ہے کہ کل تیرہ سو سال تک اس فرش گیتی پر ہماری عظمت و شوکت کا کیا عالم تھا اور آج اپنی ذلت و نکبت کا کیا حال ہے،کل ایک ہزار برس تک اس روئے زمین پر ہمارے رعب و دبدبہ کی کیا شان تھی اور آج اپنے خوف و ہراس کی کیا حالت ہے ، کل تک آفاق کی وسعتوں میں ہماری خلافت و حکمرانی کا کیا جلال تھا اور آج اپنی غلامیت ومحکومیت اور مظلومیت کی کیسی فریاد ہے ، کل تک کفر ذلت کی ناچ ناچنے پرمجبور تھا، عدو رسوائی کے گیت گانے پر مجبور تھا ، باطل پستی و خواری کارونارونے پر مجبور تھا ۔
کہیں فرعونیت لرزہ براندام تھی تو کہیں ۔۔۔ہامانیت
کہیں نمرودیت رعشہ بر اجسام تھی تو کہیں ۔۔۔شدادیت
کہیں یہودیت خوف زدہ تھی تو کہیں۔۔۔ عیسائیت
کہیں قیصریت سہمی ہوئی تھی تو کہیں ۔۔۔کسرائیت
کہیں رافضیت دبکی ہوئی تھی تو کہیں ۔۔۔مرزائیت
غرض کہ ان تیرہ سو سالوں میں آپ کفر و باطل کو جس رنگ وروپ میں دیکھنا چاہیں، جس شکل و صورت میں دیکھنا چاہیں ، جس علاقے میں دیکھنا چاہیں، جس ملک میں دیکھنا چاہیں، وہ آپ کو ڈرا ہوا، سہما ہوا، کپکپاتا ہوا، روتا ہوا، بلبلاتا ہوااور سر پہ خاک اڑاتا ہوا ملے گا۔
یہ صرف ہماری لفاظی اور زبان آوری نہیں ؛ بلکہ ایک ایسی حقیقت اور سچائی ہے کہ 
ہمالیہ کی چوٹیاں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
بحر اٹلانٹک کی طغیانیاں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
دجلہ کی موجیں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
افریقہ کے جنگلات اس کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
بغداد کے باغات اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
غرناطہ کی نہریں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
جامع قرطبہ کی میناریں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
سندھ وہند کی سرحدیں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
ملک شام میں چلنے والی ہوائیں اس کے ۔۔۔ ۔۔۔گواہ ہیں
بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ یہ اجرام فلکیہ ہوں یا اجسام ارضیہ؛ سب کے سب اس کے گواہ ہیں کہ ایک ہزار برس تک چہاردانگ عالم میں مسلمانوں کی شان وشوکت اور ان کی عظمت و سطوت کی ایسی طوطی بولتی تھی کہ باطل کو پرمارنے کی بھی ہمت نہ ملتی تھی ؛ مگر افسوس صد افسوس اسے مسلم قوم کی تیرہ بختی کہیے یا خود ان کی اپنی کردار کشی ، ان کی ا قبال مندی و برو مندی کا وہ سورج جو آج سے چار سوسال پہلے ماضی کی دھندلکیوں میں غروب ہوا تھا ، اب تک حال کے افق پر نمودار نہ ہوسکا، مسلمانوں کی جاہ و جلال کی وہ لیلیٰ جو آج سے چار سوسال پہلے عہدِ رفتہ کی محمل میں غائب ہوئی تھی ، اب تک عہد رواں کے اسٹیج پر جلوہ فگن نہ ہوسکی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان چار سو سالوں میں کفر جری ہوگیا، باطل دلیر بن گیا، دشمن نڈر ہوگئے اور لومڑی شیر بن گئی۔
کبھی آذر کی اولاد نے شرارت کی ۔۔۔تو کبھی عاد کی اولاد نے
کبھی بوجہل کی نسل نے ستم گری کی ۔۔۔تو کبھی بولہب کی اولاد نے
کبھی عتبہ کی ذریت نے ظلم پروری کی ۔۔۔ تو کبھی شیبہ کی اولاد نے
کبھی ابی ابن خلف کے چیلوں نے شقاوت دکھائی ۔۔۔ تو کبھی امیہ ابن خلف کی اولاد نے
کبھی مسیلمہ کذاب کے بیٹوں نے بد تمیزی کی ۔۔۔ تو کبھی اسود عنسی کی اولاد نے
کبھی طلیحہ کے حامیوں نے زبان درازی کی۔۔۔ تو کبھی تسلیمہ نسرین کی اولاد نے
کبھی مرزا قادیانی کے پٹھووں نے سرکشی کی ۔۔۔ تو کبھی سلمان رشدی کی اولاد نے
حضرات! کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ اس کایا پلٹ کی وجہ کیا ہے ؟ اس تغیروتبدل کا باعث کیا ہے؟ اس انقلاب عظیم کا سبب کیا ہے؟ اگر نہیں کیا، تو سنیے اور غور کیجیے کہ کل تک ہمارے پاس ایک عظیم دولت تھی، جو آج نہیں ہے، کل تک ہمارے پاس ایک فولادی قوت و طاقت تھی جو آج نہیں ہے،کل تک ہمارے پاس ایک روحانی زور تھا جو آج نہیں ہے، کل تک ہمارے پاس ایک بے مثال نعمت تھی جو آج نہیں ہے ، کل تک ہمارے پاس محمد رسول اللہ ﷺ کی ایک وراثت تھی جو آج نہیں ہے۔
وہ دولت ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔ ۔۔۔ دولت تھی
وہ نعمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔نعمت تھی
وہ طاقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔طاقت تھی
وہ قوت ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔جہاد کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوت تھی
وہ وراثت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہادکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وراثت تھی
جب تک ہمارے اندر جذبۂ جہاد موجود رہا، ہم ہر جگہ سربلند و سرفراز رہے ، ہر جگہ باعزت و با اعزاز رہے، لیکن جب سے ہمارے اندر بزدلی آگئی اور جذبۂ جہاد سے دل خالی ہوگیا، تو ہم ہر مقام پر ذلیل و خوار ہوئے اور ہر مقام پر رسوا و پشیمان ہوئے ۔ 
معزز سامعین کرام ! اگر ہمیں پھر سے وہی عہد رفتہ کی عظمت کی تلاش ہے، اگر ہمیں پھر سے اسی عزت و وقار کی تلاش ہے ، اگر ہمیں پھر سے اسی جام خلافت کی تلاش ہے ، تو اس کے لیے قرآن کو سینے سے لگانا ہوگا، ایمان کو مضبوط بنانا ہوگااور جہاد کے لیے ہمہ تن سر بکف اور کفن بردوش رہنا ہوگا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر 
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
اور ؂
شراب کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
کے فلسفے پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر جہاد کا جذبہ پیدا فرمادے آمین،ثم آمین۔
وما علینا الا البلاغ

29 Mar 2018

ایک فقید المثال باوقار عالم کی کچھ یادیں کچھ باتیں


ایک فقید المثال باوقار عالم کی کچھ یادیں کچھ باتیں
۱۹۴۹ ؁ میں سنور میڈل اسکول کے بعد میرے والد صاحب مرحوم و مغفور کی خواہش ہوئی کہ میں پرسہ ہائی اسکول میں پڑھوں؛ لیکن ہمار ے خالو منشی عبدالرحمٰن صاحب لوچنی مرحوم کی رائے ہوئی کہ اس کو مدرسہ میں پڑھاؤ؛ خالو مرحوم فارسی کے بڑے جید عالم تھے۔ ان کا ثانی دور دور میں نہیں تھا۔ ان کی رائے کے مطابق مدرسہ اسلامیہ جہاز قطعہ میں والد صاحب مرحوم و مغفور نے جاکر میرا داخلہ کرادیا، جن کی بنیاد کچھ دنوں قبل حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک ہاتھوں سے پڑ چکی تھی ۔ اجراڑہ سے تشریف لانے کے بعد حضرت نے حضرت شیخ الادب والفقہ نور اللہ مرقدہ کی سرپرستی میں اس مدرسہ کی بنیاد ڈالی تھی اور بڑی قلیل المختصر مدت میں مدرسہ کا ہر چہار جانب شہرہ ہوگیا اور اطراف و جوانب اور ضلع و غیر ضلع طلبہ کثرت سے مدرسہ کے دامن میں جمع ہوکر اپنی تشنگی دور کرنے اور فیضیاب ہونے لگے ۔ حضرت الاستاذ کے علم و عمل کا بھی شہرہ کھلااور ان کی تابندگی و نورانی کرن نے دور دراز کے تاریک خطوں کو بھی روشن کردیا ۔علاقہ کے کچھ قدیم مدرسے اور ان کے علمائے کرام اور کچھ پڑھے لکھے باوقار افراد کے لیے بھی مدرسہ اسلامیہ بھی اور حضرت الاستاذ کی ذات گرامی قدر بھی ایک کھٹک بن گئی اور ان کی رقیبانہ و حاسدانہ نگاہ پڑنے لگی ۔ خدا ان کو معاف فرمائے۔
اللہ رب العزت نے حضرت استاذ مکرم کو بڑی خوبیوں سے نوازا تھا ۔ علوم وفنون کے دریچے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے ان پر کھول دیے تھے۔ فقہ و حدیث پاک، نحو و صرف، ادب و بلاغت، منطق و فلسفہ وغیرہ علوم پر یکساں بصیرت حاصل تھی ۔ علاقہ و دور دراز علماء کی صف میں حضرت استاذ ؒ کی شخصیت منفرد و ممتاز تھی ۔ خدا وندکریم نے ان کی ذات ستودہ صفات کو بڑا نوازا تھا؛ لیکن بایں ہمہ ان کی طبیعت، ان کا مزاج بڑا سادہ تھا۔ نمود و نمائش کی ادنیٰ جھلک بھی ان کی ذات میں نہیں تھی۔ خلوت میں رہیں یا جلوت میں ، ہر ماحول میں سادگی ہی سادگی تھی۔ ان کی ذات گرامی میں اسلاف کی شان نمایاں تھی؛ بالخصوص حضرت شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی نور اللہ مرقدہ کی ان کی ذات گرامی مجسم تصویر تھی۔ ان کی آغوش تعلیم وتربیت میں وہ پلے بڑھے تھے۔ ان کی صحبت میں وہ پروان چڑھے تھے ۔ ان کے فیوض و برکات سے وہ مستفیض ہوتے تھے۔ ان کی شفقت ، ان کا لطف و کرم دارالعلوم دیوبند میں بھی ، اجراڑہ میں بھی اور جہاز قطعہ میں ہمہ دم حضرت استاذ پر سایہ فگن رہا۔دو ڈھائی سال کے بعد جب مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ سے دارالعلوم جانا نصیب ہوا، تو حضرت شیخ الادب والفقہ ؒ کے نام حضرت الاستاذ نے ایک سفارشی مراسلہ ہم لوگوں کے لیے لکھا۔ اور ہم لوگوں کا داخلہ دارالعلوم دیوبند میں بڑی آسانی سے ہوگیا ۔ داخلہ امتحان فارم دارالعلوم دیوبند کے منشی نے حضرت مولانا معراج ؒ کے یہاں پہنچا دیا ۔ ہم لوگوں نے اپنی پیشانی ٹھونک لی کہ ہم لوگ پھنس گئے کہ یہاں امتحان داخلہ بڑا سخت ہوتا ہے ۔ دس سال، بارہ سال شیخ الحدیث کے عہدہ پر دیگر مدرسوں میں رہنے والے اساتذہ، دارالعلوم کی نسبت حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں اور یہاں داخلہ امتحان میں میزان و منشعب مل جاتی ہے ۔ اور دارالعلوم سے نسبت میں وہ شامل نہیں ہوسکتے۔ وہ دارالعلوم سے بیرنگ واپس ہوجاتے ہیں ۔ ابھی داخلہ امتحان ہم لوگوں کا شروع نہیں ہوا تھا کہ حضرت شیخ الادب والفقہ دارالحدیث میں تشریف لے آئے اور منشی جی سے فرمایا کہ ان طلبہ کا داخلہ فارم وہاں سے اٹھا کر لے آؤ اور حضرت شیخ الادب ؒ نے ہم لوگوں کا داخلہ امتحان لیا۔ اور دارالعلوم میں داخلہ ہوا۔ اور جب تک حضرت شیخ الادب والفقہ باحیات رہے، ان کی شفقت و عنایت ہم لوگوں پر سایہ فگن رہی۔ داخلہ کے کچھ ہی دنوں بعد مولانا اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کو حاسدوں نے اکھاڑہ بنا دیا اور حضرت شیخ الادب ؒ کے نام حضرت الاستاذ کے خلاف کچھ تراشیدہ الزامات کے ساتھ بذریع رجسٹری ملفوف مراسلہ بھیجا۔ اور دلیل و شہادت کے لیے ہم تین لڑکوں کا نام پیش کیا ۔ خط موصول ہونے کے بعد حضرت ؒ نے ہم تینوں طلبہ کو بلاکر تحقیق و تفتیش فرمایا اور حضرت شیخ الادب ؒ کی ذات گرامی قدر کے دل میں حاسدوں کی کوئی بھی بات بیٹھ نہیں پائی ۔ اور حضرت شیخ الادب ؒ کے قلب میں ہم لوگوں کے لیے مزید شفت و محبت جم گئی۔اور گاہ گاہ ہم حضرت شیخ الادب ؒ کے یہاں آنے جانے لگے۔ خاص کر بھاگلپوریوں اور ہم دمکا والوں کے لیے ان کے پاکیزہ دل میں بڑی اہم جگہ تھی۔ حضرت شیخ الادب ؒ کے یہاں مولانا محمد منیر الدین ؒ کی درسی تقریروں کی کچھ کاپیاں : بخاری شریف، ترمذی شریف، مشکوٰۃ شریف، دیوان متنبی ، حماسہ و مقامات وغیرہ کی نظر آئیں۔ مشکوٰۃ شریف کی درسی تقریر کی کاپی ، حضرت مولانا عبدالسمیع صاحب نور اللہ مرقدہ کی کاپی، حضرت مولانا محمد شعیب بھاگلپوریؒ کے ہاتھ میں نظر آئی ۔ ہم نے شیخ الادب ؒ سے عرض کیا کہ حضرت یہ ہمارے استاذ حضرت مولانا منیر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کاپی ہے، ہمیں عنایت کی جائے کہ ہم کو اس کا زیادہ حق ہے۔ مولانا شعیب ؒ کو حکم ہوا کہ یہ کاپی ان کو دیدو اور حضرت ؒ کی شفقت و عنایت سے ہم کو مل گئی۔ ہماری نگاہ حضرت الاستاذ کی مختلف کاپیوں پر تھی، جن کے حاصل کرنے کی تمنا ہمارے دل میں بیٹھی ہوئی تھی، لیکن صد حیف کہ حضرت شیخ الادب ؒ کا وصال ہوگیا اور ہم یاس و حسرت میں ڈوب گئے۔ 
حضرت مولانا منیر الدین نور اللہ مرقدہ شیخ الادبؒ کی ذات گرامی قدر کی آغوش تعلیم وتربیت میں پروان چڑھے تھے ۔ اس قیمتی صحبت و ماحول نے استاذ مکرم کو کندن بنادیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے علوم و ورع اور تقویٰ کا وافر حصہ حضرت مولانا منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرمایا تھا ۔ علوم و تقویٰ ، اعمال و اخلاق ، تہذیب وانسانیت کی ان کی ذات گرامی مجسم تصویر تھی ۔ ائے کاش حضرت استاذ ؒ کچھ اور جیے ہوتے ، تو بڑی قیمتی تصنیف و تالیف منظر عام پر آتی۔ ان کی خواہش بارہا میرے سامنے ظاہر ہوئی ، لیکن قدرت کاملہ کا نظام ہے اور اس میں کسی کو دخل نہیں۔ نورانی آفتاب چمکتا ہے اور شام کو غروب ہوجاتا ہے۔ چاند رات کو روشن کردیتا ہے اور دن کو ماند پڑجاتا ہے۔ بے شمار سورج و چاند و ستارے روپوش ہوگئے ، خدا کا نظام یہی ہے۔ ساری قیمتی ہستیاں حکم الٰہی کے مطابق کام کرگئیں اور اسی نے چمکدار اور روشن راستے بنادیے۔ آج دنیا ان سے منور ہے اور فیض حاصل کر رہی ہے ۔ اور ان کا کردار وعمل زندہ اور تابندہ ہے ۔ اور ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے ۔ ؂
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما۔
(مولانا)محمد خلیل الرحمٰن قاسمی غفرلہ و لوالدیہ
ساکن کیتھ پور، ضلع گڈا جھارکھنڈ
۲۹؍ ربیع الاول ۱۴۲۷ھ، مطابق ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۴ء


حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب ایک نابغۂ روزگار ہستی


حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب ایک نابغۂ روزگار ہستی
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا اظہر الحق صاحب جہازی، استاذ مدرسہ رحمانیہ روڑکی اتراکھنڈ
حامدا و مصلیا و مسلما امابعد
از آدم تا ایں دم، اربوں کھربوں اور خدا معلوم کتنے انسان اس دنیائے ناپید میں آکر یہاں سے جاچکے ہیں۔ اور صبح قیامت تک آمدو رفت کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ لیکن ان مسافروں میں کچھ مخصوص ہستیاں اور شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اپنے ملی کارنامے اور علمی خدمات ، ذہنی تعمیرات اور مردم ساز قابلیتوں ، تخلیقی صلاحتیوں اور اعلیٰ سیرتوں و کردار کی بدولت اپنی راہ نوردی کے کچھ ایسے انمٹ نقوشِ قدم اور آثار سفر چھوڑ جاتی ہیں جو زمانے کی دست و برد کے باوجود محفوظ رہتے ہیں ۔ ؂
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخیِ نقش پا کی
ایسی ہی ایک درویشی خدا پرست، بے نفس، نابغۂ روزگاراور عبقری شخصیت حضرت مولانا محمد منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی گذری ہے ۔
وطن عزیز کی آزادی سے کوئی ایک دہائی قبل مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑہ ضلع میرٹھ سے تدریسی زندگی کا آغاز ہوا، یہاں آپ سے حدیث و فقہ اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں متعلق رہیں۔غالباً ۱۹۴۸ ؁ء میں وہاں سے مستعفی ہوکر وطن عزیز کا قصد کیا اور اپنے گاؤں جہاز قطعہ میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے نام سے ایک دینی درس گاہ کی داغ بیل ڈالی۔ قرین قیاس یہی ہے کہ اجراڑہ میں ملازمت ، اور پھر ملازمت سے مستعفی ہوکر خدمت دین کے لیے اپنے علاقہ کو اختیار کرنا بلا مشورہ استاذ و مربی خاص حضرت مولانا اعزاز رحمۃ اللہ علیہ شیخ الادب والفقہ دارالعلوم دیوبند محض حادثاتی و اتفاقی طور پر نہیں ہوا ہوگا؛ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وقفہ وقفہ سے ان بندوں کو جو غفلت کی نیند میں دیر سے سو رہے ہوں، ان کے کانوں میں اذان حق دے کر بیدا ر کرنے کے لیے اور اس امت اور ملت کے بکھرے ہوئے بال و بر کی شیرازہ بندی اور بگڑے ہوئے نظام مے خانہ کو بدلنے کے لیے جن مردان خدا آگاہ اور رندوں کا انتخاب کرتا ہے، ان میں سے ایک حضرت مولانا بھی ہوں۔ اس لیے جو کہ خطہ اور علاقہ علم و فن میں شورہ اور بنجر زمین کی طرح پڑا ہواتھا، اس جگر سوختہ مرد حق کی انتھک کدو کاوش اور جہد مسلسل کے نتیجہ میں ایک لہلہاتا ہوا شاداب چمن بن گیا ۔ اور اس چمن میں نہ جانے کتنے لالہ و گل اگے ۔ میری اس تحریر کے حق میں وہ لوگ شہادت دیں گے، جنھوں نے ماضی کی جہالت دیکھی ہے ، یا علم اور تاریخ کی راہ سے یہ جانا ہے کہ ۱۸۵۷ ؁ء کے انگریزوں نے خاص طور سے مسلمانوں کو اپنا حریف سمجھ کر ہدف بنایا اور ہر میدان میں مات دینے کی ٹھان لی۔ چنانچہ علمی، تمدنی، اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کو ثریا سے پاتال میں پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا ۔ فطری طور پر یہ علاقہ بھی استعماری قوت کی پامالی سے محفوظ نہیں رہ سکا، جب کہ یہ علاقہ پہلے سے ہی جاں بلب تھا۔
مولانا مرحوم نے جس پر آشوب دور اور جہالت و نا خواندگی کے تاریک زمانہ اور مایوس حوصلہ شکن عہد میں ہوا کے رخ پر علم کا چراغ روشن کرنے کی کوشش شروع کی ہے، کون کہہ سکتا تھا کہ اتنی جلدی کایا پلٹ ہوجائے گی۔ لیکن واقعاتی دنیا میں ایسا ہی ہوا ، حالاں کہ جہاز قطعہ کوئی بہت شہرت یافتہ مقام نہیں تھا اور نہ ہی رقبہ و عمارت کے لحاظ سے مدرسہ اسلامیہ ہی اتنا بڑا تھا ؛ لیکن خاص افضال خداوندی سے دیکھتے ہی دیکھتے دور و نزدیک سے جوق در جوق طالبان دین اور جویان حق آتے رہے اور حضرت والا طلبہ کی کھیپ در کھیپ تیار کرکے بڑے بڑے مدارس؛ خصوصا دارالعلوم اور مظاہر علوم روانہ فرماتے رہے ۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں ایک سے بڑھ کر ایک عالم فاضل نظر آنے لگے۔ اسی طرح چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ جہالت اور ناخواندگی کی تاریکی چھٹتی رہی اور علم کی روشنی پھیلتی رہی۔ اور آج ہر قابل ذکر علوم و فنون کے لوگ اس علاقہ میں صرف موجود ہی نہیں؛ بلکہ ملک کے تقریبا ہر حصہ اور دنیا کے بہت سے گوشوں میں علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یقیناًاسی تعلیمی بیداری اور پاکیزہ انقلاب میں حضرت مولانا منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کا بہت بڑا حصہ و دخل ہے، جس کا انھیں اجر وصلہ مل رہا ہوگا۔ حضرت والا جید عالم ، سادہ مزاج، ولی صفت ، خدا ترس اور قوم وملت کے لیے شب و روز بے انتہا مخلصانہ اور صبرو عظیمت کے ساتھ محنت کرنے والے انسان تھے۔
قسام ازل کی طرف سے حضرت مولانا مرحوم کو تعلیمی ، تدریسی اور تدریبی مہارت وملکہ کے ساتھ ذوق تحریر وتالیف بھی عطا ہوا تھا ۔ خیا ل کیا جاتا ہے کہ مولانا نے اپنے پیچھے اچھا خاصا تحریری سرمایہ چھوڑا تھا، لیکن وہ محفوظ نہیں رہ سکا۔ منجملہ تصانیف اور ترکہ علمی میں سے ’’رہنمائے مسلم‘‘ کتاب ہے۔کتاب کے تعارف کے حوالے سے صرف اتنی سی بات عرض ہے کہ کتاب اسم با مسمیٰ ہے۔ ایک مسلمان کو پیدائش سے لے کر موت تک کس طرح زندگی گذارنی چاہیے ، یا یوں کہیے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اپنے نام لیواؤں کے لیے اس خاکدان ارضی پر چلنے کے لیے جو شاہراہ قائم فرمائی ہے، اسی کی بزبان اردو تعبیر وتشریح اور ترجمانی ہے۔ 
حضرت الاستاذ کس قدر کثیر المطالعہ اور وسیع العلم عالم تھے، اس کتاب کے حوالجات کو دیکھنے ہی سے پتہ چلتا ہے۔ اور ایسے دور افتادہ علاقہ میں جہاں نہ بجلی کی سہولت تھی ، نہ دوسری آسانیاں، دن میں سورج اور رات میں لالٹین اور دیا کے سوائے کوئی تیسری روشنی نہیں ہوتی ۔ 

الغرض مولانا مرحوم بہت سی صلاحیتوں اور قابلیتوں ، کمالات اور خوبیوں کے مالک تھے ۔ جن کی گواہی نسلاً بعد نسلٍ لوگ دیتے رہیں گے۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے پیچھے اپنے اوصاف وکمالات اور علوم وفنون کے ہزاروں بلا واسطہ اور بالواسطہ شاگرد اور علمی وارثین چھوڑے ہیں۔ خدا بھلا کرے مولانا مرحوم کے برادرزادہ جناب مولانا قاری عبدالجبار قاسمی کا ، جنھوں نے سالہا سال تک اپنے نامور مورث کے قیمتی ورثہ کی حفاظت کی ۔ اور یہ خاص فضل ربی ہوا کہ مولانا کی یہ قیمتی تصنیف قاری صاحب موصوف کے قدر داں ہاتھوں میں آگئی، ورنہ دیگر تصانیف کی طرح یہ بھی خرد برد ہوکر ضائع ہوجاتی ؛ بلکہ اس کتاب کے مسودوں کے بھی کچھ اجزا ضائع ہوگئے تھے، جس کو قاری صاحب نے اپنی زر بفت تحریر کے ذریعے انتہائی سلیقہ کے ساتھ مخمل میں ایسی پیوند کاری کی ہے کہ پڑھنے والے کو اس پیوند کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ 

عارف باللہ مولانا منیر الدین صاحب جہاز قطعہ


عارف باللہ مولانا منیر الدین صاحب جہاز قطعہ
(۱۹۷۷۔۱۹۱۹ء)
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا ثمیر الدین صاحب قاسمی چیرمین ہلال کمیٹی لندن
۱۹۶۷ء ؁ کی کسی صبح کو تبلیغی جماعت کے ساتھ یہ کفش بردار جہاز قطعہ پہنچا ۔ مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ کے احاطہ میں قدم رکھا ، تو ایک فرشتہ صفت بزرگ سے ملاقات و مصافحہ ہوا۔میانہ قد، گداز بدن، نورانی چہرہ، متبسم پیشانی، دراز کرتا اور لنگی میں ملبوس عارف باللہ مولانا منیر الدین صاحب جہاز قطعہ تھے۔آپ ۱۹۱۹ء ؁ ، مطابق ۱۳۳۷ھ ؁ میں پہلی مرتبہ دنیائے رنگ و بوسے روشناس ہوئے۔ابتدا میں مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ میں مولانا خلیل الرحمٰن صاحب سیری چک کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ پھر علمی تشنگی بجھانے کے لیے ۱۳۵۷ھ ؁، مطابق ( ۱۹۳۸ء ؁ ) میں منبع علم و عرفاں دارالعلوم دیوبند کا قصد فرمایا اور ۱۳۶۲ھ ؁، (مطابق۱۹۴۳ء ؁ ) اس کے ماء زلال سے سیراب ہوتے رہے۔ فراغت کے بعد بھی دولت کدہ تشریف نہیں لائے؛ بلکہ اس کی اشاعت کے لیے مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑہ میرٹھ یوپی میں صدر مدرس منتخب ہوئے ۔ اور وہیں نمایاں خدمات انجام دیتے رہے۔مکمل آٹھ سال کی غربت و مسافرت کے بعد گھر تشریف لائے، تو علاقائی ابتری دیکھ کر دل ابلنے لگا۔ لوگوں کو دیکھا کہ وہ علم سے کورے اور تہذیب اسلامی سے نابلد ہیں۔ان کی اصلاح اور راہ راست پر لانے کے لیے کسی مرد کامل سے بھی میدان خالی ہے، اس لیے آپ علم کی ضیا پاشیوں کے لیے کمربستہ ہوگئے اور مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ کی بنیاد ڈالی۔خود ہی منتظم اور خود ہی مدرس تھے۔
خود کوزہ خود کوزہ و خود گل کوزہ
آپ کے درسی لگاؤ اور انہماک کی اتنی شہرت ہوئی کہ مدرسہ مینارہ نور بن گیا، جس سے سیکڑوں پروانوں نے روشنی حاصل کی۔ مولانا خلیل کیتھپورہ،، مولانا غلام رسول اسنہاں، مولانا ابراہیم انجنا اور مولانا عرفان صاحب جہاز قطعہ اور کاتب عبدالجبار جیسے علم و فن نے استفادہ کیا اور علاقے میں آفتاب و مہتاب بن کر چمکے۔
آپ کے دور نارسا میں علاقے میں تصنیفی کام کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اور دیہاتی علماء کی دسترس سے بالاتر چیز سمجھی جاتی تھی، لیکن آپ علاقے میں پہلی شخصیت ہیں، جنھوں نے تصنیفی کام کا آغاز کیا اور لوگوں کو باور کرایا کہ محنت و لگن سے ثریا پر بھی کمندیں ڈالی جاسکتی ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کی اصلاح حال اور سنتوں کی ترویج کے لیے ’رہنمائے مسلم‘ اور ’زجاج المصابیح‘ تصنیف فرمایا۔ دونوں کتابیں زیور طباعت سے آراستہ نہ ہوسکیں۔البتہ آپ کے لائق ترین بھتیجہ قاری و مولانا و کاتب عبدالجبار صاحب اس کو طباعت سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں۔ رہنمائے مسلم اردو میں ۱۶۰؍ صفحہ کی کتاب ہے۔ اس میں پیدائش سے لے کر موت تک کے کس موقع کے لیے کونسا طریقہ سنت نبوی سے ہم آہنگ ہے اور اس وقت کے لیے کونسی دعا دہن مبارک ﷺ سے منقول ہے، اس کی پوری تفصیل ذکر کی گئی ہے۔ اور اس کے مآخذ کے لیے درجنوں کتابوں کا حوالہ درج ہے۔ دیہی علاقہ جہاں موقر کتابیں نایاب یا کمیاب ہیں، معلوم نہیں مصنف نے کس جاں کاہی سے اس کو مہیا کیا ہوگا۔دوسری کتاب زجاج المصابیح عربی زبان میں نور الایضاح کی طرز کی فقہ کی کتاب ہے۔اس میں انھوں نے کافی مسائل جمع کیا ہے۔ انداز بیاں دلنشیں اور شگفتہ ہے۔ زبانی ذہن نشین کرنے کے لیے بہت مفید کتاب ہے۔
آپ خاموش طبع اور عزلت پسند واقع ہوئے تھے۔ رزم و بزم، شور و ہنگامہ سے آپ کی طبع دور تھی۔ آپ دل کی دنیا کو آباد و معمور رکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ راہ سلوک میں بہت سے مرد کامل کے لیے مشعل راہ اور رشک نگاہ بنے ہوئے تھے۔ آپ سالک بے مثال حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے دامن سے وابستہ تھے۔ عمر کے آخیر عشرے میں فالج کا شدید حملہ ہوا، جس سے جاں بر نہ ہوسکے اور آخر اس مخلص خادم نے ۱۹۷۷ء ؁ میں جان جاں آفریں کو سپرد کیا اور ہزاروں سوگواروں کو داغ مفارقت دے کر سفر آخرت کے لیے روانہ ہوگئے۔ ؂
پلٹ کے کہتی ہے آنکھوں کی پتلیاں دم مرگ
چلو یہاں سے کہ دنیا کا اعتبار نہیں

(یاد وطن، صفحہ۲۹؍تا ۳۱)

27 Mar 2018

مولانا محمد اسلام مظاہری جہازی نور اللہ مرقدہ


محمد یاسین جہازی قاسمی

مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ کے بعد جہازی اکابرین میں دوسرا بڑا نام مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ محمد اسلام نام تھا، ساجدؔ تخلص کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ مظاہر علوم سہارنپور سے سند فراغت حاصل کی تھی، اس لیے اس نسبت سے کبھی مظاہری اور کبھی مظہری لکھا کرتے تھے۔ ان کے والد محترم کا نام جناب عبدالرحمٰن تھا، جو نصیرالدین عرف نسو کے فرزند تھے۔ نسو ابن پھیکو، ابن گھولی ابن دروگی تھے۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب نہ کسی کو معلوم ہے اور نہ ہی محفوظ ہے۔ دستیاب نسب نامہ کی تحریر پر ہر نام کے ساتھ شیخ یا مرڑ کا لاحقہ لگا ہوا ہے، جس سے پوری برادری شیخ کہلاتی ہے۔ گرچہ اس حوالے سے کوئی مستند معلومات نہیں ہیں، تاہم قبائلی روایت کو تسلیم کرتے ہوئے مولانا بھی شیخ برادری میں آتے ہیں۔
مولانا مرحوم کی پیدائش اور بچپن کے حالات کے تعلق سے کوئی بھی معلومات دستیاب نہیں ہیں، تاہم عینی شاہدین سے استفار کے مطابق مولانا مرحوم کی بنیادی تعلیم گاؤں کے مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں ہوئی۔ آپ نے درجہ سوم تک یہاں تعلیم حاصل کی ۔ اور اعلیٰ تعلیم کے لیے مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیااور تقریبا ۱۹۶۲ء ؁ میں درجہ چہارم میں داخلہ لیا۔ اور ۱۹۶۶ ؁ء میں سند فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعدہی حضرت مولانا محمد منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی طلب پر غالباً ۱۹۶۷ء ؁ میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے استاذ مقرر کیے گئے اور درجہ سوم تک کی کتابوں کی تدریس وابستہ کی گئی۔ نور الایضاح،قدوری،میزان و منشعب، نحومیر، گلستاں اور بوستاں کا درس بہت زیادہ مقبول تھا۔ تقریبا ۶؍ سال تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں ایک استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ناظمدارالاقامہ بھی تھے، جس کے ذریعے بچوں کی تربیت پر خاص نگاہ رکھتے تھے ۔ مطبخ کی ذمہ داری بھی وابستہ تھی، جس سے تہذیبی و سماجی تربیت پر بھی خصوصی توجہ فرماتے تھے۔ان تمام ذمہ داریوں کے ساتھ وہ ایک باکمال خطیب بھی تھے اور جمعہ کے دن جامع مسجد میں خصوصیت کے ساتھ خطاب فرمایا کرتے تھے۔ 
وہ کم گو تھے، لیکن طبیعت میں ظرافت تھی۔ساتھ ہی وہ قابل تقلید اخلاق کے بھی مالک تھے۔نرم خوئی ان کی خاص صفت تھی، اس لیے مدرسے کے بچے آپ سے بہت زیادہ بے تکلف رہا کرتے تھے۔ تدریس سے فراغت کے بعد بالعموم تحریر و کتابت میں مصروف رہتے تھے۔اور ان کی کئی کتابیں ان کی علمی وراثت کی یادگار ہیں۔ 
گاؤں میں دو بڑے سیلاب کے حادثے، وارثین کی نااہلی اور کتابوں کے تعلق سے بے حسی کی وجہ سے مولانا مرحوم کی ذاتی لائبریری فنا کے حوالے ہوگئی، تاہم ان حوادث کے باوجود جو سرمایہ محفوظ رہا ہے، اس میں مولانا کے کتابوں کا مسودہ موجود ہے، جس کا تعارف پیش ہے۔
۱۔ ذکر حبیبﷺ
مولانا مرحوم ؒ کی اس کتاب میں سیرت نبوی ﷺ کے مختلف عنوانات پر بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی تقریریں تھیں۔ اس کا مسودہ اب تک محفوظ تھا، لیکن پچھلے دنوں دیمک لگ جانے کی وجہ سے پورا مسودہ لکڑی کے برادے کی طرح چور چور ہوگیا؛ حتیٰ کہ ایک صفحہ بھی پڑھنے سمجھنے کے قابل نہیں بچا، اس لیے مولانا مرحوم کا یہ قیمتی سرمایہ ضائع ہوگیا۔ 
۲۔ دل کی راہ سے
اس کتاب میں اخباری تراشے ہیں ، تراشوں میں چھپے مضامین اور خبروں پر تبصرے کیے گئے ہیں ، جس میں مولانا ؒ نے حالات حاضرہ پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے ، اپنی قیمتی رائے پیش کی ہے ۔ اپنے وقت کا سب سے مشہور اور معیاری اخبار الجمعیۃ کے مضامین بکثرت موجود ہیں۔ جا بجا منظر کشی کے لیے لائنوں کے خاکے بھی بنے ہوئے ہیں، جس میں اشارے اورطنز و مزاح پائے جاتے ہیں۔ اس کا مسودہ اب تک راقم الحروف کے پاس محفوظ ہے۔
۳۔اشعار برجستہ
اس میں مولانا مرحوم نے اپنی یاد داشت کی بنیاد پر ایک سو تین مختلف عناوین پر بڑے بڑے شاعروں کے شعروں کاانتخاب پیش کیا ہے۔اس کا پورا مسودہ صحیح و سالم ملا۔ الحمد اللہ اس کی کمپوزنگ بھی مکمل ہوگئی ہے اور عن قریب چھپ کر منظر عام پر آجائے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
۴۔ حرف آخر
اس کتاب میں مولانا مرحوم نے مختلف ممالک کا نقشہ پیش کیا ہے ۔ اور قدیم و جدید جغرافیائی حدود پر عالمانہ و محققانہ بحث کی ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جہاں تحقیق و مراجع کا کوئی جدید ذریعہ موجود نہیں تھا، اور معلومات کا کوئی بھی فاسٹ وسائل مہیا نہیں تھے، ایسے بے سروسامانی کے عالم میں اتنا تحقیقی کام کیسے کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے مسودے میں صرف تین چار صفحات ہی دستیاب ہوسکے۔اور سر دست وہ بھی ناقابل استفادہ ہوچکے ہیں۔ 
۵۔ فیض القدیر لمولانا امیرؒ 
مظاہر علوم سہارنپور کے استاذ حدیث حضرت مولانا امیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ ترمذی کا درس دیا کرتے تھے۔ مولانا محمد اسلام صاحب نے درس کی تقریر قلم بند کی ہے۔ راقم کے پاس جو کاپی موجود ہے، اس میں کتاب السیر کے باب ما جاء فی الطیرۃ تک کی تقریر موجود ہے۔ اور مسودہ پر پانے نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں، لیکن بہ مشکل اسے پڑھا جاسکتا ہے۔ اور اسے شائع بھی کیا جاسکتا ہے۔ 
اسلوب تحریر
مولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ بہت ہی سادہ اور سلیس نثر لکھتے تھے ،جس میں انشا نگاری کا عکس جھلکتا تھا۔ اسلوب میں رنگینی فکر غالب تھی اور کسی بات کو دلچسپ پیرایہ میں بیان کرنے کے ہنر میں کمال رکھتے تھے ۔ ان کے اسلوب کا اندازہ لگانے کے لیے اس اقتباس کو ملاحظہ فرمائیں: 
جمعہ کی رات(شب اول) سہانی، خوشگوار پرفضا چاند کی کوثر تسنیم میں دہلی ہوئی چاندنی اور اس پرہولے ہولے جھکولے کھاتی ہوا، کتنا پرسکون ہوتا ہے اور پھر اس پر سونے پر سہاگہ کیوں نہ ہوجائے، جب کہ ایسی حالت میں دوست اور یار غار آجائے!۔
ا س پر فضا ماحول میں ہم بیٹھے ہوئے تھے، بعد نماز مغرب کے آدھ گھنٹے گفتگو میں گذر جانے کے بعد اچانک دروازے کی جانب سے السلام علیکم کی آواز آئی۔ سر اٹھا کر دیکھا، آواز جانی پہچانی تھی۔ خوشی دوبالا ہوگئی۔ رات گفتگو میں گذری۔
صبح کو بعد ناشتہ جب مہمان اپنے میزبان کے ساتھ تنہا تھے، نہایت سنجیدگی کے ساتھ یہ بات پیش کی: 
’’مولوی اسلام! آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں، اکثر چاہا، مگر بھول جاتا ہوں۔ ابھی پھر خیال آیا، دیکھیے آج ہماری، آپ کی اور نہ جانے کتنے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ نہ وہ گھر کا گنا جاتا ہے اور نہ باہر کا۔ اور ان میں سے اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں، جو مدارس نظامیہ سے تعلیم حاصل کرکے آتے ہیں اور معمولی سی تنخواہ میں بچوں کو تعلیم دینا شروع کردیتے ہیں۔ اول پیسے کی کمی۔ دوئم وقت سے فراغت کم ہونے کی وجہ سے وہ گھر کے کسی اور کام کو انجام دے نہیں پاتا۔ اور گھر سے ایک قسم کی بے تعلقی ہوجاتی ہے۔ اور پھر گھر والے اس کو علاحدہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا گھاٹ کا‘‘ والی مثال ہوجاتی ہے۔ ایسے عالم میں وہ جاہل مزدور سے بھی گیا گذرا ہوجاتا ہے، جو روزانہ کم از کم دو سیر مزدوری کرلیتا ہے۔ لوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنستے ہیں اور تماشائی بنتے ہیں۔
آج ہمیں ضرورت ہے کہ ایک ایسی انجمن ہو، جس کی کچھ مالی حیثیت ہو اور وہ ایسے لوگوں نیز اور دوسرے غربا و مفلسوں کی وقتی امداد کرسکے اور جب فراغت ہوجائے، وہ شخص اس قرض حسنہ کو ادا کردے۔ میں اس چیز کی اہمیت کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ تم کیا کہتے ہو؟؟!‘‘۔
اور محمد اسلام نے اپنے دوست کو اپنا دلی ترجمان دیکھ ہاں کہہ کر اپنا وہ منصوبہ پیش کردیا جو ایک مدت سے اپنے دل میں پال رکھا تھا۔ اور۔۔۔ اسی وقت ان دونوں ’’میزبان اور مہمان‘‘ نے ایک انجمن کی داغ بیل ڈال دی! خدا کرے ان دو دوستوں کی دلی تمنا پوری ہو۔ اور دونوں کی کوشش بار آور ہو!!!!۔
ملی کارنامے
تصنیف و تالیف اور خطابت کے علاوہ مولانا ملی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے ۔ اور سماجی مسائل کے حل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا کرتے تھے۔ علاقہ میں بے پناہ غربت کے پیش نظر ملی و سماجی کاموں کو سہارا دینے کے لیے مولانا نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسے ’’تنظیم ملت‘‘ کا نام دیا۔ اس میں لوگوں کو جوڑ کر ملت کے وہ تمام کام انجام دیتے تھے، جو وقت کی ضرورت ہوتی تھی، جو بالیقین مولانا مرحوم کی ملی خدمات پر شاہد عدل ہیں۔ 
مولانا کے شاگرد
مولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ تقریبا آٹھ سال تک مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے استاذ رہے۔ درجہ سوم تک تعلیم تھی، آپ سے سبھی درجات کی کتابیں متعلق تھیں، اس لیے آپ کے بہت سے شاگرد تھے، چند مشہور شاگردوں کے نام یہ ہیں: مولانا محمد یونس صاحب کیتھپورہ، محمد اسلام، فیض الرحمان، محمد عرفان، محمد فاروق رجون، حافظ ظفیر الدین، رحمت علی تلوائی، شوکت علی مرنئی، محمد اکرام الحق صاحبان۔
حادثہ فاجعہ 
مولانا کا شب و روز درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گذر رہا تھا کہ اچانک مولانا مرحوم کو پہلے سردی والا بخار آیا، جو رفتہ رفتہ میعادی بخار میں تبدیل ہوگیا۔گاؤں کے ڈاکٹر جناب ثمیر الدین صاحب نے علاج شروع کیا، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، جس کے پیش نظر جھپنیاں کے ڈاکٹراکرام صاحب سے رجوع کیا گیا، لیکن یہاں بھی کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے کیا گیا کہ حکیمی علاج شروع کیا جائے، چنانچہ گاؤں کے حکیم جناب محمد حسین مرحوم نے علاج شروع کیا، لیکن یہاں بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آیا، بالآخر علاقے کے سب سے مشہور ڈاکٹر جناب شہید پچوا قطعہ سے رابطہ کیا گیا۔ انھوں نے خصوصی توجہ کے ساتھ تقریبا بارہ تیرہ ایام تک علاج کیا اور اپنے گھر پر ہی اپنی نگرانی میں رکھا، لیکن مرضی مولیٰ برہمہ اولیٰ ہوتا ہے، اس لیے اس بیماری سے وہ جاں بر نہ ہوسکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ کر واصل بحق ہوگئے۔والد محترم کی ملی ایک تحریر کے مطابق تاریخ وفات ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۲ء ؁ بروز بدھ تقریبا دو بجے دن ہے۔ اس کے اگلے دن آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔ پسماندگان میں ایک لڑکا جناب محمد اطہر اور ایک لڑکی مَسُودہ خاتون ہے ، جو تا دم تحریر با حیات اور صاحب اولاد ہیں۔ مولانا مرحوم کی تاریخ پیدائش کا کوئی رکارڈ موجود نہیں ہے، ہم عصروں کے مطابق ان کا انتقال پینتیس چالیس کی عمر میں ہوگیا تھا۔ ان کے انتقال کے وقت لڑکی ابھی کچھ ہی مہینوں کی تھی اور بڑی اولاد لڑکے کی عمر کچھ سال کی تھی۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردو س میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، آمین۔


16 Mar 2018

میاں اللہ تو دیکھ رہا ہے!

میاں اللہ تو دیکھ رہا ہے!
محمد یاسین جہازی
صحابہ کی محفل جمی ہوئی ہے۔ حضور پر نور محمد عربی ﷺ کی موجودگی اس محفل کی رونق و برکت میں دوبالگی پیدا کر رہی ہے۔ اسی دوران ایک شخص شریک محفل ہوتے ہیں۔ کپڑے انتہائی صاف ستھرے ہیں، بال بہت کالے ہیں۔ محفل میں موجود ہر شخص کے لیے اجنبی ہے ، کیوں کہ وہ وہاں کا رہنے والا نہیں ہے اور کہیں سے سفر کرکے آیا ہے، لیکن سفر کے اثرات اس پر بالکل بھی ظاہر نہیں ہورہے ہیں۔ وہ بلا تکلف اس مجلس میں شریک ہوجاتا ہے اور نبی اکرم ﷺ کے مبارک گھٹنہ سے اپنا گھٹنا ملا کر بیٹھ جاتا ہے ، اتنا ہی نہیں؛ بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں کو نبی اکرم ﷺ کے مبارک رانوں پر رکھ دیتا ہے اور پھر نبی اکرم ﷺ سے کئی سوالات کرتے ہیں ۔ پہلا سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
یا محمد اخبرنی عن الاسلام۔
ائے محمد مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ جواب دیتے ہیں کہ
الاسلام ان تشھد ان لا الٰہ الا اللہ و ان محمد رسول اللہ، و تقیم الصلاۃ و توتی الزکوٰۃ، و تحج البیت ان استطاع الیہ سبیلا۔
یہ جواب سن کر اجنبی کہتا ہے کہ صدقتَ ۔ آپ نے بالکل صحیح جواب دیا۔ حاضرین مجلس کو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسا سائل ہے کہ خود ہی پوچھ رہا ہے اور خود ہی تصدیق بھی کر رہا ہے۔ پھر وہ اجنبی دوسرا سوال کرتا ہے کہ
اخبرنی عن الایمان ۔
مجھے ایمان کے متعلق بتائیے۔ نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
کہ ان تومن باللہ و ملائکتہ، و کتبہ و رسلہ ، والیوم الآخر، و تومن بالقدر خیرہ و شرہ۔ 
اجنبی جواب سن کر تصدیق کرتا ہے اور پھر سوال کرتا ہے کہ
فاخبرنی عن الاحسان۔
مجھے یہ بھی بتایا جائے کہ احسان کیا ہے؟ نبی اکرم ﷺ جواب دیتے ہیں کہ 
ان تعبداللہ کانک تراہ، و ان لم تکن تراہ، فانہ یراک 
کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو، گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ سکتے، تو خدا تو تم کو دیکھ ہی رہا ہے۔ اجنبی نے پھر سوال کیا کہ
اخبرنی عن الساعۃ
کہ مجھے قیامت کے متعلق بتائیں، تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اس کے بارے میں مجھے آپ سے زیادہ معلومات نہیں ہیں ، اس پر اجنبی نے سوال کیا، تو اچھا پھر کم از کم علامت ہی بتادیجیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ
ان تلد الامۃ ربتہا، و ان تریٰ الحفاۃ العراۃ العالۃرعاء الشاء یتطاولون فی البنیان ۔
یعنی اس کی ایک علامت یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالک اور آقا کو جنے گی ۔ ایک اور علامت یہ ہے کہ جن کے پاوں میں جوتا تک نہیں، جن کو تن ڈھکنے کے لیے کپڑا میسر نہیں ، جو بکریاں چراکر گذارا کرتے ہیں، وہ لوگ بھی بڑی بڑی عمارتیں بناکر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔
اس حدیث کے راوی حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اجنبی شخص چلا گیا، تو تھوڑی دیر کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ یا عمر ا تدری من السائل؟ حضرت عمرنے جواب دیا کہ اللہ و رسولہ اعلم، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل تھے جو تمھیں دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔
اس حدیث پاک میں پانچ سوالات و جوابات ہیں۔ (۱) اسلام کیا ہے۔ (۲) ایمان کیا ہے۔(۳) احسان کیا ہے۔ (۴) قیامت کب آئے گی۔ (۵) قیامت کی علامتیں کیا ہیں۔
حدیث کے ان پانچوں جزئیات کی تشریح اس مختصر تحریر میں ناممکن ہے ، اس لیے آج کی معروضات میں تمام جزئیات کو چھوڑ کر صرف ایک جزئیہ: احسان کے متعلق مختصراعرض کیا جائے گا۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم ﷺ سے تیسرا سوال یہ کیا تھا کہ اخبرنی عن الاحسان مجھے بتائیے کہ احسان کیا ہے ؟ اس پر نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا کہ ان تعبدا للہ کانک تراہ و ان لم تکن تراہ فانہ یراک کہ خدائے متعال کی عبادت و بندگی اس طرح کرو ، گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تمھیں دیکھ ہی رہا ہے۔
ہمارے محاورے میں احسان کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو کہا جاتا ہے ، لیکن حدیث شریف اور قرآن پاک میں وارد یہ لفظ کسی اور معنی اور ایک خاص اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ
بلیٰ من اسلم اجھہ للہ وھو محسن فلہ اجرہ عند ربہ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے کہ 
و من احسن دینا ممن اسلم وجھہ للہ وھو محسن 
اس کی وضاحت ایک مثال سے اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ایک ملازم اپنے مالک کے آفس میں کام کرتا ہے ۔ جب مالک سامنے ہوتا ہے تو اس ملازم کے کام کرنے کا انداز اور طرز عمل اس سے مختلف ہوتا ہے جب کہ مالک اس کے سامنے نہیں ہوتا۔ ملازم اپنے باوس کی موجودگی میں جس دھیان ، محنت اور خوب صورتی سے کام کرتا ہے ، وہ مالک کی عدم موجودگی میں نہیں کرتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح احسان کا مطلب یہ ہے کہ بندہ جب خدا تعالیٰ کی عبادت و بندگی بجالائے تو اس تصور و دھیان کے ساتھ بجالائے کہ خدائے بزرگ و برتر حاضر و ناظر ہے اور ہماری ہر حرکت وسکون اس کی نگاہ میں ہے ۔ وہ ہم کوہر لحظہ دیکھ رہا ہے۔ جب اس تصور کے ساتھ کوئی عبادت کی جائے گی تو آپ کے اندر ایک عجیب کیفیت اور خاص شان پیدا ہوگی جو اس صورت میں پیدا نہیں ہوسکتی ، جب اس تصور سے خالی ہوکر کوئی عبادت انجام دی جائے۔
مثال کے طور پر ہم حج کریں، روزہ رکھیں، زکوٰۃ دیں، تو ان تمام اعمال کو انجام دہی کے وقت ہمارا ذہن اس تصور سے خالی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے سامنے اللہ موجود ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ تصور قائم نہ کرسکیں تو یہ حقیقت تو مسلم ہے کہ اللہ تو ہم کودیکھ ہی رہا ہے۔۔ اسی طرح ہم نماز پڑھتے ہیں۔نماز خالص عبادت ہے۔ نماز پڑھنے کی حقیقی لذت اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب کہ ہم احسان کی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ادھر نماز کی نیت باندھی اور ادھر دنیا کے تمام تفکرات سامنے آگئے ۔ دن بھر کی جو باتیں ہمیں کسی وقت یاد نہیں آتیں، وہ نماز کی نیت باندھتے ہی ذہنوں میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ ہماری زبانیں تو نماز کے اذکار میں مصروف رہتی ہیں، لیکن ہمارا ذہن و دماغ بالکل بھی نماز میں حاضر نہیں رہتا۔اس کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز کی فرضیت تو ساقط ہوجاتی ہے، لیکن نماز کی جو برکات و انوار ہیں، وہ ہمیں حاصل نہیں ہوتے۔ نماز کے فوائد کے حوالے سے قرآن کا اعلان ہے کہ 
ان الصلاۃ تنھیٰ عن الفحشاء والمنکر والبغی (
نماز بے حیائی ، منکرات، ظلم و جبر اور گناہوں سے روک دیتی ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہم زندگی بھر نماز پڑھتے ہیں، اس کے باوجود بھی ہماری نماز کسی برائی کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی۔ آخر وجہ کیا ہے ۔ وجہ یہی ہے کہ ہم نماز کو احسان کی کیفیت کے ساتھ ادا نہیں کرتے ۔ جس دن ہم نماز کو احسان کی کیفیت کے ساتھ ادا کرنے لگیں ، اسی دن ہماری نماز بالیقین تمام گناہوں سے ہمیں روک دے گی۔
اس موقع پر ہم عذر کرتے ہیں کہ اجی کیا کریں ہم کتنی بھی کرشش کریں ، پھر بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہم نماز کو تفکرات سے آزاد ہوکر ادا کرسکیں۔ خدا جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہم نماز میں نہیں ہوتے، تو کوئی چیز یاد کرنے کی کوشش کے باوجود یاد نہیں آتی اور جوں ہی نماز کی نیت باندھتے ہیں، تو زندگی کی تمام بھولی بسری یادوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اور ہمارا ذہن نماز سے نکل کر زمین و آسمان کی سیر کرنے لگتا ہے ۔ 
یہ ناچیز بھی اس مصیبت میں گرفتار تھااور اس سے نجات پانے کے لیے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے خلیفہ و مجاز حضرت مولانا شاہ ابرارالحق نور اللہ مرقدہ کو ایک خط لکھا اور اس کا علاج پوچھا، ان کی طرف سے جو جواب آیا، وہ جواب پیش کیا جارہا ہے تاکہ آپ بھی اسے اختیار کرکے اس مصیبت سے نجات پاسکتے ہیں۔ جواب یہ تھا کہ جب ہم نماز کی نیت باندھ لیں، تو تکبیر تحریمہ کے بعد جو اذکار اور قرآن کی آیتیں پڑھتے ہیں، ان چیزوں کے متعلق سوچنا شروع کردیں۔ اور جس مرحلہ سے گذریں، اس سے آگے کی پڑھنے والی چیزوں کے بارے میں سوچنا شروع کردیں۔ مثال کے طور پر نیت باندھنے کے بعد جس وقت ہم ثنا پڑھیں، تو اس وقت یہ سوچیں کہ آگے ہمیں سورہ فاتحہ پڑھنی ہے۔ جب سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کردیں،تو اس وقت یہ سوچنا شروع کریں کہ اس کے بعد ہمیں کون سی سورۃ کی تلاوت کرنی ہے۔ سورۃ تلاوت کرتے ہوئے رکوع کے بارے میں، رکوع میں سجدہ کے متعلق ، اسی طرح ہر اگلے رکن کے بارے میں سوچنا شروع کریں۔ اس طریقے سے آپ کا ذہن نماز کے ارکان میں گردش کرتا رہے گا اور باہر کے تفکرات شامل نہیں ہوسکیں گے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ اچھی طرح وضو نہ کرنے کے سبب نماز میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے اور انسان کے ذہن کو بھٹکا دیتا ہے ، اس لیے خشو ع و خضوع اور تمام لایعنی فکروں سے آزاد نماز پڑھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اچھی طرح سے وضو کریں اور انتہائی توجہ اور کامل اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرنے کی کوشش کریں اور ذہن بھٹکنے کی صورت میں درج بالا ترکیب پر عمل کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

2 Mar 2018

کیاہم زندہ ہیں؟

کیاہم زندہ ہیں؟
اپنے ضمیر سے ایک سوال: محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علمائے ہند
اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ زندہ ہیں؟ تو بالیقین اس سوال پر آپ تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے کہ بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ ہم آپ سے محو کلام ہیں، کیا یہ زندہ ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت نہیں ہے! ۔ لیکن اس کے جواب میں یہ سوال کرلیا جائے کہ اس زندگی پر انسان و جانورمیں پھر کیا امتیاز ہوگا؟ تو یقیناًسوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کیا واقعی ہم زندہ ہیں؟ اور ہمارا تعلق ایک زندہ قوم سے ہے؟
آئیے ایک فرد اور ایک قوم ہونے کی حیثیت سے زندہ ہونے کی علامات کی روشنی میں اپنے ضمیرسے کچھ سوالات کرتے ہیں۔ اگر ان سوالوں کے جوابات مثبت ہوں گے ، تو ہمیں خود کو اور اپنی قوم کو زندہ ہونے پر فخرکا احساس کرنا چاہیے اور اگر ان کے جوابات میں نفی میں ملتے ہیں، تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں زندہ رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
پہلا سوال
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں، تو اس اعتبار سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ایمان محفوظ بھی ہے یا صرف رسمی مسلمان ہیں۔ اگر ہمارا ایمان محفوظ ہے، تو آئیے تحفظ ایمان کے پیمانے پر اپنے ایمان کو جانچ کردیکھتے ہیں اورمعلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم کتنے حقیقی مسلمان ہیں اور کتنے رسمی مسلمان۔
146146ہمارا ایمان محفوظ ہے145145 اس کو جانچنے کے لیے قرآن و احادیث میں مختلف پیمانے بیان کیے گئے ہیں ، ہم محض ایک دو پیمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
(۱) ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم (الزمر ، آیۃ نمبر ۲۳)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے یہ کہ جب لوگوں کے سامنے کلام الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے، تو کتاب اللہ سن کر اللہ کے خوف اور اس کے کلام کی عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، اور بدن کے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اور بدن اور روح دونوں پر ایک خاص اثر پیدا ہوجاتا ہے۔
اب خود کا جائزہ لیجیے کہ قرآن کی شکل میں ایمان میں اضافہ اور مضبوطی پید اکرنے کے لیے جوکلام الٰہی ہمیں دیا گیا ہے، ہم اس کی کتنی تلاوت کرتے ہیں ۔ اور اگر تلاوت کرتے ہیں، تو کیا ہمارے دل پر اس کلام کی عظمت کا رعب پیدا ہوتا ہے؟ ۔ ہم ہر نماز میں امام صاحب کی قرات کے توسط سے کلام الٰہی سنتے ہیں، اسے سن کر کیا ہمارے دل و ذہن پر کوئی خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے ؟ اگر آپ کا ضمیر اس کا جواب ہاں میں دے، تو آپ کہیے الحمد للہ ، سبحان اللہ کہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم آپ کے ساتھ ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ اس کا جواب146146 نہیں 145145ہے، تو سمجھ لیجیے کہ ہمارا ایمان کمزور ہے، ہم صرف نام کے مسلمان ہیں ، ہمارے اندر ایمان کی کوئی طاقت موجودنہیں ہے۔ ہم ایمان کے اس طاقت سے محروم ہیں، جس کے سامنے پہاڑ کی بلندی اور دریاوں کی طغیانی تھم جایا کرتی تھی اور جسے دیکھ کر شیطان اپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہوجایا کرتا تھا۔
(۲) دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں، یہ سب جانتے ہیں، لیکن ہماری آبادی کے تناسب سے مسجد میں مرد نمازیوں کی اور گھروں میں عورت نمازیوں کی تعداد کتنی ہے؟ ہم صرف اپنے اپنے گھر کا جائزہ لیں، تو یہ کہنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ ایک پرسنٹ بھی نمازی نہیں ہے۔ اس جائزہ میں اگر آپ خود کو اور اپنے گھر کو اس معیار پر پاتے ہیں کہ آپ کے گھر میں سبھی مرد و عورت پنج وقتہ نمازی ہیں، تو آپ کہیے کہ الحمد اللہ، سبحان اللہ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام و اکرام آپ کے ساتھ اور آپ کے اہل خانہ کے ساتھ ہے ۔ اور اس بنیاد پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں بحیثت فرد ابھی ایک زندہ شخصیت کا حامل ہوں، لیکن اگر خدا نخواستہ معاملہ اس کے برعکس ہے ، اور آپ خود اور گھر کے سبھی حضرات نماز کی توفیق سے محروم ہیں،تو یاد رکھیے آپ کو زندہ شخص کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور آپ کا تعلق جس قوم سے ہے، اس قوم کی اکثریت کا یہی حال ہے، تو وہ قوم بھی زندہ کہلانے کا حق نہیں رکھتی۔
دوسرا سوال
ہمیں صاحب ایمان اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہم مذہب اسلام کے فالوور ہیں، لہذا اسی سے دوسرا سوال یہ نکلتا ہے کہ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام کے لیے کیا کرتے ہیں؟
اس سوال پر اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ ہم اسلام کے لیے کر کیا سکتے ہیں،تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہندستان میں اسلام کے تحفظ کے لیے پانچ بڑے ادارے ہیں: (۱) مدارس و مکاتب۔ (۲) مساجد۔ (۳) خانقاہیں۔ (۴) ملی تنظیمیں۔ (۵) تبلیغی جماعت۔تو ہندستان میں اسلام کے تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ، ان پانچوں اداروں سے اپنی وابستگی اور جان مال اور وقت کی قربانی پیش کریں۔
تو اب آپ اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ آپ ان اداروں سے کس درجہ قلبی لگاو اور تعلق رکھتے ہیں اور ان کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے جانی و مالی اور وقت کی کتنی قربانی پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ الحمد اللہ میں ان سبھی اداروں سے وابستہ ہوں، میں نے خود یا میرے بچے نے مدرسہ میں بھی وقت لگایا ہے، مسجد سے بھی رشتہ مضبوط ہے، جماعت میں بھی وقت لگاتا ہوں اور ملی اداروں کی آواز پر جان مال وقت سب کچھ قربان کرتا رہتا ہوں، کبھی کسی ادارے کو نہ تو چندے سے محروم رکھتا ہوں اور نہ ہی کسی دوسرے تقاضے کے وقت پیچھے ہٹتا ہوں، تو آپ کو کہنا چاہیے کہ الحمد اللہ میں ابھی زندہ ہوں ۔ اور اگر پوری قوم کی یہی حالت ہے تو آپ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ الحمد اللہ میری پوری قوم زندگی کی اس صفت سے متصف ہے، لہذا ہم ایک زندہ قوم ہیں۔
لیکن اگر ضمیر کا جواب یہ ہوتا ہے کہ نہ تو میں خود اور نہ ہی میرے بچے مدارس و مساجد اور خانقاہوں سے جڑے ہیں اور نہ ہی کبھی جماعت میں وقت لگایا ہے، جب بھی جماعت والے کہتے ہیں کہ بھائی رکیں، دین کی بات ہوگی، تو ہم اس جملہ کو سنتے ہیں اچھی جگہ سے شیطان کے بھاگنے کی طرح بھاگتے ہیں، اور کسی ملی تنظیم سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے، تو پھر آپ زندہ کہلانے کا حق نہیں رکھتے۔ اور اگر آپ کی پوری قوم کی یہی کیفیت ہے، تو وہ قوم بھی زندگی کی نعمت سے محروم ہے۔
تیسرا سوال
اللہ تعالیٰ نے سیکڑوں ممالک میں سے ہندستان کو ہمارے لیے منتخب کیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارا یہ ملک گوناگوں خصوصیات و امتیازات سے لبریز ہے۔ ہمیں اس سیکولر ملک میں بہت سے ایسے اختیارات حاصل ہیں، جو بہت سے اسلامی ملکوں میں بھی مسلمانوں کو حاصل نہیں ہے، اس لیے ہمیں اس پر خدائے بررگ و برتر کا بے حد شکر گزار ہونا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ملک میں پیدا فرمایا ہے، جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے، تو اس تعلق سے داعی امت کا فرد ہونے کی بنیاد پر ہمارے اوپر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں، جس میں ایک فرض یہ بھی ہے کہ اس ملک کے تحفظ اور سالمیت کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
یہاں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ جمہوریت میں کسی بھی قوم اور پارٹی کا وقار جماعتی طاقت میں مضمر ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم یا پارٹی اجتماعیت کی طاقت سے محروم ہے، تو اس کا نام ونشان مٹ جانا طے ہے، اس لیے ہندستان میں مسلمانوں کے تحفظ کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ مسلم قوم ہونے کی حیثیت سے کسی متحد و مشترک پلیٹ فارم سے وابستہ ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر ڈیڑھ اینٹ کی عمارت بنانے سے کوئی وجود بننے والا نہیں ہے۔ اس حقیقت کے مد نظر تیسرا سوال یہ ہوگا کہ ہم ہندستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟۔
اگر آپ کا ضمیر یہ جواب دیتا ہے کہ ملی تشخص اور اسلامی امتیازات کو تحفظ فراہم کرنے والی ملی جماعتوں سے میں وابستہ ہوں اور ان کی آواز پر ہمہ وقت پابہ رکاب رہتا ہوں، خواہ وہ جمعیۃ علماء ہند ہو، یا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہو، یا پھر کوئی اور ملی تنظیم ہو، ان کے قائدین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مردانہ وار عملی میدان میں کود پڑتا ہوں، تو آپ کو کہنا چاہیے کہ الحمد اللہ، میں ابھی زندہ ہوں ۔ اور اگر آپ کی پوری قوم کی اجتماعی شعور کا یہی عالم ہے ،تو آپ دعویٰ سے کرسکتے ہیں، الحمد اللہ میری پوری قوم زندہ ہے ۔ لیکن اگر معاملہ اس کا الٹا ہے، آپ کسی بھی جماعت سے وابستہ نہیں ہے، آپ تنہائی کے شکار ہیں ، یعنی آپ کے اندر قومی اتحاد اور ملی اجتماعیت کا شعور نہیں ہے، تو یاد رکھیے کہ پھر آپ بھی زندہ نہیں ہیں اور آپ کی قوم بھی مردہ ہوچکی ہے۔
چوتھا سوال
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پوری امت مسلمہ فرد واحد کی طرح ہے۔ پوری دنیا میں بسنے والی قوم الگ الگ جغرافیائی حدود میں تقسیم ہونے کے باوجود جسم واحد کی طرح ہے، اور یہ اتحاد ہمارے کلمہ کی تلقین ہے، لہذا اگر دنیا کے ایک کونے میں بسنے والے کسی مسلم بھائی کے پیر میں کانٹا چبھے، تو دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والے مسلم بھائی کے دل میں اس کا ٹیس محسوس ہونا ہماری ایمانی نسبت کی روح ہے۔ اس تناظر میں چوتھا سوال یہ ہے کہ آج پورے عالم اسلام میں مسلمان ظلم و زیادتی کے شکار ہیں، ان پر بموں کی برسات ہورہی ہے، ان کے خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں، فلسطین کا قضیہ آپ کے سامنے ہے۔ مصر کے حالات سے بھی آپ بہ خوبی واقف ہیں اور آج شام میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے؟ تو ان ناگفتہ بہ حالات میں مسلم بھائیوں کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ان کے جسم سے نکلنے والے خون کے پھوارے سے آپ کا خون خشک ہوتا ہے؟ کیا معصوم بچوں اورمظلوم عورتوں کی چیخیں آپ کے لیے صدائے درد بنتی ہیں؟ کیا بوڑھوں کی درماندگی آپ کے ذہن و دماغ کی چولیں ہلارہی ہے اور آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ آخر یہ سب کب تک؟ اب آگے کچھ اور نہیں ہونے دوں گا۔ اگر آپ کا ضمیر آپ کو جھنجھوڑتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ لبیک یا فلسطین، لبیک یا سیریا، ائے روئے زمین کے مظلمو! ہم ابھی زندہ ہیں۔ اور میرے جیتے جی ظلم کا سلسلہ اب اور آگے نہیں بڑھ سکتا، تو آپ کو کہنا چاہیے کہ الحمد اللہ ابھی آپ کا ضمیر زندہ ہے، آپ کے اندر انسانیت کی رمق باقی ہے اور آپ ایک زندہ شخص ہیں۔ اور اگر پوری قوم کی یہی کیفیت ہے تو آپ کا یہ دعویٰ حقیقت کا اعلان ہوگا کہ آپ کی قوم بھی زندہ ہے۔ لیکن اگر معاملہ ایسا نہیں ہے، ظلم کی خبریں سن کر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، مظلوموں کی چیخوں سے ہمارے اوپر کوئی اثر نہیں ہوتا، خاک و خون میں غلطاں و پیچاں معصوموں کو دیکھ کر میری آنکھیں نم نہیں ہوتیں۔ خون کے پھوارے چھوڑتے جسموں کا منظر میرے شعور کو دعوت عبرت نہیں دیتا، تو آپ تسلیم کریں یانہ کریں، آپ کے اندر زندگی کی کوئی علامت موجود نہیں ہے۔ اور اگر پوری قوم اسی لاشعوری میں محو خواب ہے، تو وہ قوم بھی مردہ ہوچکی ہے۔
تاریخ شاہد عدل ہے کہ جب کوئی قوم زندہ ہوتی ہے، تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی، وہ جہاں سے گذرتی ہے ،عروج اور اقبال مندی اس کے قدم چومنا فخر سمجھتی ہے۔ایسی قوم کو نہ تو زیر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی غلامی کی زنجیریں اسے روک سکتی ہے،پھر ہوتا یہ ہے کہ وہ ہوائے حریت کی طرح پورے عالم پر چھا جاتی ہے۔ روئے زمین پر بسنے والی سبھی مخلوق اس کے زیر نگیں ہوتی ہے، اس کے حمد و ثنا کے پھریرے اڑتے ہیں اور اس کی ہر ادا کی تقلید شرافت و نجابت کا معیار قرار پاتی ہے۔
لیکن جو قوم مردہ ہوجاتی ہے، تو محکومیت ہی اس کا نصب العین ہوتی ہے، اس کی حیثیت فٹ بال کی مانند ہوتی ہے، جو جب چاہتا ہے لات ماردیتا ہے، اور اسے لات کھانا پڑتی ہے، لیکن زندگی کا حق پھر بھی رکھتی ہے، کیوں کہ وہ صرف جسم کے اعتبار سے غلام ہوتی ہے، لیکن فکری غلامی بھی مسلط ہوجائے، تو پھر اس قوم کو ہلاکت و بربادی سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی، کیوں کہ فکری غلامی اور مایوسیت کا کوئی علاج ہی نہیں ہے۔
اس لیے ہمارے قائدین اور اکابرین بار بار ہمیں تلقین کرتے ہیں کہ حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر چہ زندہ ہونے کے جتنے سوالات ہیں، ان سب کے جوابات نفی میں ہیں، لیکن پھر بھی اگر ہم ہمت نہ ہاریں، ہم قنوطیت کے شکار نہ ہوں، اور مایوسی کو اپنے دل کے اندر جگہ نہ دیں، تو ان شاء اللہ ہمیں کوئی بھی قوم اور پارٹی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ وقتی طور پر حالات آسکتے ہیں، لیکن ہم ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوجائیں، یہ نا پہلے ہوا تھا اور نہ ابھی تک ہوا ہے اور ان شاء اللہ نہ ہونے دیں گے۔ ہم عزم و حوصلے سے جینے کا وہ سلیقہ رکھتے ہیں، جسے دیکھ کر مردہ شخص بھی زندہ ہوجاتا ہے ، تو پھر یہ عارضی حالات کچھ بھی نہیں ہیں، ہم اسے ٹھوکروں سے اڑا سکتے ہیں۔ اور پھر ان شاء اللہ وہ صبح ضرور آئے گی، جب ہماری عظمت رفتہ ہماری قدم بوسی کے لیے ہمارے منتظر ہوگی۔

12 Dec 2017

سماوی، انسانی، شیطانی آفات اور تحفظ کے فطری طریقے تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی


سماوی، انسانی، شیطانی آفات اور تحفظ کے فطری طریقے
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی
رابطہ: 9871552408
Defence، حفاظت اور بچاو تمام مخلوقات کا نیچر ہے۔ ہر ایک مخلوق خواہ وہ انسان ہو یا جانور؛اپنا بچاو اور دفاع کے ہنر سے واقف ہوتی ہے، کوئی بھی خطرہ درپیش ہو، اس سے اپنے آپ کو بچانے اور محفوظ کرنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ آپ نے یہ منظر بارہا دیکھا ہوگا کہ چوہے بلی کی آہٹ سن کر ہی جان بچانے کے لیے بلوں میں چھپ جاتے ہیں۔ کبھی آپ کا اور سانپ کا آمنا سامنا ہوجائے، تو جس طرح سانپ اپنی جان بچانے کے لیے راہ فرار تلاش کرتا ہے، اسی طرح آپ بھی اس کے خوف سے سر پر پاوں رکھ کر بھاگتے ہیں۔ المختصر اپنی جان کی حفاظت کرنا، ہر ایک مخلوق کا نیچر ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کے علاوہ جتنی بھی مخلوقات ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی حفاظت کے آلات خود انھیں کے جسم کا ایک حصہ اور جز بنادیا ہے۔ آپ ہاتھی کو دیکھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی حفاظت کے لیے طاقت اور سونڈ دے دیا ہے ، شیر کو خوں خوار پنجہ ، کتے کو نوکیلے دانت، سانپ اور بچھو کو زہر آلود ڈنک،گائے، بیل ، بھینس کو سینگ ، پرندوں کو بے قید ہوا میں اڑبھاگنے کی صلاحیت وغیرہ وغیرہ۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ ایک ہی مخلوق میں الگ الگ مقامات کے سرد و گرم موسم کے اعتبار سے جسم و جثہ میں جزوی تبدیلی ۔ اس کے بالمقابل انسان کو قدرت کاملہ نے اس طرح کا کوئی بھی ہتھیار اس کے جسم کا حصہ نہیں بنایا ہے۔ انسان کے بدن پر پنکھ یا روئی دار کھال نہیں ہوتے کہ جسے وہ سردی سے حفاظت کے لیے استعمال کرے۔ اس کے پاس خوں خوار پنجے اور نوکیلے دانت بھی نہیں ہیں کہ ان سے اپنے تحفظ کا کام لے اور نہ ہی ہاتھی کی طرح سونڈ، گائے کی طرح سینگ ہیں کہ انھیں بطور اوزار کام میں لائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کے مقابلے میں انسان کو عقلی سلیم عنایت فرمادی ہے ، جسے وہ استعمال کرکے ہاتھی سے زیادہ طاقت ور، خوں خوار پنجوں سے زیادہ تیز، نوکیلے دانت سے زیادہ نوکیلے ہتھیار اور زہر آلود ڈنک سے زیادہ خطرناک زہر تیار کرکے اپنی حفاظت کا سامان بہم پہنچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں اور دیگر مخلوقات کے تحفظ کا طریقہ کار یکسر مختلف ہوتا ہے۔
آفتیں تین طرح کی ہوتی ہیں: (۱) آفات سماوی۔ (۲) آفات انسانی۔ (۳) آفات شیطانی۔ انسانوں کے علاوہ جتنی بھی مخلوقات ہیں، وہ صرف پہلی دونوں آفتوں کی شکار ہوتی ہیں۔ تیسری قسم یعنی آفات شیطانی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اسی لیے آپ نے کبھی یہ نہیں سنا ہوگا کہ کسی کتے ، بلی یا گائے بیل پر بھوت سوار ہوگیا ہے ۔ آفت شیطانی کی زد میں صرف حضرت انسان ہی آتے ہیں، ساتھ ہی انسان آفات سماوی اور آفات انسانی سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ 
تینوں آفتوں سے بچنے بچانے اور تحفظ فراہم کرنے کے طریقے بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور ہتھیار بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک آفت و مصیبت سے تحفظ کے وقت دوسری آفت سے بچاو کے ہتھیار کام آجاتے ہیں، لیکن کچھ آفتیں ایسی بھی ہیں، جہاں دوسرے ہتھیاربالکل بھی کام نہیں آتے، اس سے بچاو کے لیے مخصوص ہتھیار ہی استعمال کرنے ہوں گے۔ آئیے ذیل کی سطروں میں یہ دیکھتے ہیں کہ تینوں قسم کی آفتوں کے لیے کیا کیا ہتھیار ہیں۔
طوفان، آندھی، سیلاب، زلزلہ؛ آفات سماوی ہیں، ان سے بلا استثنا سبھی مخلوقات متاثر ہوتی ہیں۔ زہریلے بم پھوڑ دینا، فسادات برپا کرنا، ایک قوم کا دوسری قوم سے برسرپیکار ہونا، ناحق کسی کو مار ڈالنا، چوری ، گالم گلوچ اور اس قسم کی دیگر حرکتیں آفات انسانی کی مثالیں ہیں۔ ان آفتوں میں سے بعض سے تو انسان جانور سمیت سبھی مخلوقات متاثر ہوتی ہیں، جس کی مثالیں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے ایٹم بم ہیں۔ اس بم کے گرانے کے بیسیوں سال بعد بھی نئی نسل اس کے مہلک اثرات سے متاثر ہوتی رہی اور وہ گونگے، بہرے اور لنگڑے پیدا ہوتی رہی۔ درج بالا دونوں آفتوں سے حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی عقل سلیم کا استعمال کرے اور ان آفتوں کے اسباب پر غور کرکے، اپنے اور دیگر مخلوقات کے تحفظ کا سامان فراہم کرے۔ مثال کے طور پر بار بار سیلاب آجاتا ہے ، تو اس سے تحفظ کے لیے پانی کے سرچشمہ پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرے، وہاں باندھ لگائے اور اس قسم کی جو بھی تدبیریں ہیں وہ اختیار کی جائیں۔ اسی طرح آفات انسانی کے طور پر بار بار دو ملکوں میں جنگ کے خطرات منڈلاتے ہیں، تو دونوں ملکوں کو معاہدہ امن پر مجبور کیا جائے۔ المختصر انسانی حکمت عملی کے ذریعے اس قسم کی مصیبتوں سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔البتہ تیسری قسم کی جو آفت ہے، اس سے بچنے کے لیے کوئی بھی انسان کا مصنوعی ہتھیار کارگر نہیں ہوتا۔ اس سے حفاظت کے لیے ایک دوسرا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اگر کسی پر شیطان سوار ہوجاتا ہے، تو آپ یہ بتائیے کہ اسے چاقو، ڈنڈا یا ایٹم بم دکھانے سے وہ بھاگ جاتا ہے؟ ۔ بالکل نہیں بھاگتا؛ بلکہ اسے بھگانے کے لیے دوسری تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ وہ تدابیر پیش خدمت ہیں۔
کلام پاک میں ہے کہ 
لَہُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ یَحْفَظُونہُ مِنْ أَمْرِ اللَّہِ ( سورۃ الرعد، آیۃ: ۱۱)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو بحکم الٰہی اس کی نگہبانی کرتے رہتے ہیں۔ 
جس طرح بندوں کے اعمال پر نگہبانی کے لیے دو فرشتے مقرر ہیں؛ ایک دائیں، دوسرا بائیں۔ دایاں والا نیکیاں لکھتا ہے اور بایاں والا برے اعمال رقم کرتا ہے، اسی طرح انسانوں کو ہر قسم کی آفتوں سے بچانے کے لیے ہر وقت دو فرشتے ان کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ ایک فرشتہ سامنے ہوتا ہے اور دوسرا فرشتہ اس کے پیچھے۔ اس طرح گویاہمہ وقت چار فرشتے انسان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اگر یہ فرشتے انسانوں کی حفاظت نہ کریں، تو شیطان انسان کا اس قدر دشمن ہیں کہ فوری طور پر اس کو ہلاک کردیں۔ 
آج حادثات اور آفتوں کا دور دورہ ہے۔ اگر ایک شخص صبح کا گھر سے نکلا ہوا، شام کو صحیح سلامت گھر واپس آجائے، تو اسے سجدہ شکر بجالانا چاہیے۔ ان میں جہاں آفات سماوی اور آفات انسانی ہمہ وقت گردش کرتی رہتی ہیں، وہیں آفات شیطانی بھی تعاقب کرتی رہتی ہیں، اول الذکر دونوں آفتوں سے تحفظ کا طریقہ آپ نے پڑھ لیا ، شیطانی آفتوں سے حفاظت کا طریقہ چوں کہ ان طریقوں سے مختلف ہے ، اس لیے یہاں پر احادیث کی روشنی میں چند تدبیریں لکھی جارہی ہیں۔
یوں تو احادیث میں آفتوں اور شیطانی اثرات سے بچنے کے لیے بہت سے دعائیں موجود ہیں، لیکن بہت ہی مختصر اور جامع دو تین دعائیں یہ ہیں:
۱۔ ہر صبح و شام فجر اور مغرب کی نماز کے بعد تین تین مرتبہ یہ دعا پڑھیں کہ 
بسم اللہ الذی لایضر مع اسمہ شیء فی الارض ولا فی السماء ، وھو السمیع العلیم۔
۲۔ تین تین مرتبہ سورہ اخلاص اور سورہ معوذتین۔
پابندی کے ساتھ اگر یہی دونوں اعمال کیے جائیں، تو نبی اکرم ﷺ کی زبانی یہ وعدہ ہے کہ اسے جہاں آفات سماوی و انسانی سے نجات مل جائے گی، وہیں شیطان بھی اس کا کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ دعا فرمائیں کہ اللہ پاک ہمیں سرور کائنات کے ارشادات پر عمل کی توفیق دے اور ہمیں ہر قسم کی آفات و بلیات سے محفوظ فرمائے، آمین۔

7 Dec 2017

گناہ کا مزاج وعلاج اور ہمارا مزاج

گناہ کا مزاج وعلاج اور ہمارا مزاج
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی جہازی

عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ تعرف الاشیاء باضدادھا، چیزوں کی شناخت ان کی ضد والی چیز سے ہوتی ہے۔ شناخت میں اس کی اہمیت و افادیت اور قدروقیمت بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے مد مقابل کی چیز سے اس کا موازنہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر ہمیں روشنی کی صحیح قدروقیمت اس وقت معلوم ہوتی ہے، جب ہم کبھی کسی سخت تاریکی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اس اصول سے ایک اور اصول وابستہ ہے، جسے ہم کہتے ہیں کہ علاج بالضد، یعنی کسی چیز کا علاج اس کے اپوزٹ والی چیز سے کیا جاتا ہے، مثلا یہ اگر آپ کو سردی لگتی ہے تو گرمی پیدا کرنے والے سامان کا استعمال کرتے ہیں ، جب گرمی کا موسم آتا ہے، تو اس کے علاج کے لیے اے سی، کولر، فرج وغیرہ کو زیر استعمال لاتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ اصول فطری تقاضوں کی ترجمانی پر قائم ہے، اور مذہب اسلام چوں کہ دین فطرت کہلاتا ہے، اس لیے اس اصول کی کرشمہ سازیاں ہمیں وہاں بھی نظر آتی ہیں۔ درج ذیل سطور میں اس کی مثا لیں پیش کی جارہی ہیں۔
انسان کے اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک اچھے اور ثواب پیدا کرنے والے اعمال۔ دوسرے برے اور گناہ والے اعمال۔ ان دونوں عملوں کی اپنے اپنے مزاج کے اعتبارسے الگ الگ خصوصیات ہیں۔ نیک اعمال کا مزاج نرم اور سرد ہے ، جب کہ برے اعمال کا مزاج گرم اور ہیجان خیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ان اعمال کا تذہ کرتے وقت ایسا انداز بیان اختیار کیا گیا ہے،جن سے ان کے مزاج کی طرف واضح اشارہ ہوجاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْ کُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ط وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا(النساء، آیۃ: ۱۰، پ۴)
جو لوگ ناحق طریقے سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ درحقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جہنم میں جلیں گے۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مال حرام گرچہ دنیا میں کتنا ہی ٹھنڈا کیوں نہ ہو، عالم آخرت میں اس کی تاثیر اور اس کا مزاج گرم ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ صبر کا مزاج اس دنیا میں بہت کڑوا ہے، لیکن آخرت میں یہ شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ 
وَالصَّدَقَۃ تُطْفیءُ الْخَطیءۃکمَا یُطْفیءُ الْمَاءُ النَّارَ(مسند الشھاب القضاعی،ص۹۵) صدقہ گناہ کو ایسے ٹھندا کردیتا ہے جیسے کہ پانی آگو کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ 
إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّیطَانِ، وَإِنَّ الشَّیْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ،فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضأْ (سنن ابی دادو، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب)
غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے۔ اور شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے،لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وضو کرلے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آگ میں دو خاص وصف ہیں : ایک گرمی اور دوسرا علو، یعنی اوپر چڑھنا۔ اس حدیث شریف کی رو سے غصہ شیطان کی طرف سے آتا ہے، شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے، اس لیے غصہ کا مزاج آگ ہے۔ اسی لیے غصہ ہونے کو محاورہ میں آگ بگولہ ہونا بولا جاتا ہے ۔ تو جس طرح آگ کی دو خاص وصف ہیں اسی طرح اس مزاج کے حامل غصہ میں بھی یہ دونوں وصف ہوں گے، یعنی گرمی اور علو۔ گرمی کے لحاظ سے نبی اکرم ﷺ نے یہ علاج تجویز فرمایا کہ فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضأْ۔ اور علو کے لیے یہ فرمایا کہ إِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ وَھُوَ قَاءِمٌ فَلْیَجْلِسْ، فَإِنْ ذَھَبَ عَنْہُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْیَضْطَجِعْ (سنن ابی دادو، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب)
جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے، تو اگر وہ کھڑا تھا تو بیٹھ جائے، غصہ ختم ہوجائے گا، لیکن اگر بیٹھنے سے غصہ ختم نہ ہو تو لیٹ جائے۔ اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کے معمول میں یہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ نماز میں ثنا کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اللھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَایَا، کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ( صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار،باب التعوذ من شر الفتن و غیرھا)
ائے اللہ ہمارے گناہوں کو برف اور پانی سے اور میرے دل کو گناہوں سے اس طرح دھو دے جس طرح کہ میلے سپید کپڑے کو دھویا جاتا ہے۔
جس طرح اعمال کی یہ دو خاصیتیں ہیں، اسی طرح اعمال کے درجے بھی دو ہیں: ایک ہے کبیرہ،دوسرا ہے صغیرہ۔ کبیرہ کے معنی ہے بڑا۔ اور صغیرہ کے معنی ہے چھوٹا۔ اس کو اعمال کے ساتھ جوڑ کر یہ کہاجاتا ہے کہ یہ اعمال صغیرہ ہیں اور یہ اعمال کبیرہ ہیں۔ اسی طرح گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ بھی بولا جاتا ہے۔ 
صغیرہ گناہ نیک اعمال کرنے سے خود بخود معاف ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پرآپ نے ظہر کی نماز پڑھی، اس کے بعد دنیوی کاموں میں مصروف ہوگئے، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، بات چیت ہوئی، اس دوران کچھ بھول چوک ہوگئی، اور صغیرہ گناہ سرزد ہوگیا۔ پھر عصر کا وقت آیا، تو آپ نے مسجد کا رخ کیا، اچھی طرح سے وضو کرکے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی، تو اس دوران جتنے بھی چھوٹے چھوٹے گناہ ہوئے تھے ، وہ سب معاف ہوگئے۔ لیکن اگر کبیرہ گناہ ہوجائے، تو پھروہ آٹومیٹک معاف نہیں ہوتے، اس کی معافی کے لیے توبہ ضروری ہے۔ اور توبہ بھی اس عزم و عمل کے ساتھ مشروط ہے کہ اسے دوبارہ نہ کرنے کا عہد شامل ہو۔ کیوں کہ اگر دل میں یہ چور چھپا ہے کہ پھر کبیرہ گناہ ہوجائے گا، تو پھر توبہ کر کے معاف کرالیں گے، تو اس کا نام توبہ نہیں ہے۔ گرچہ دوبارہ کبیرہ گناہ سرزد ہوجائے، تو دوبارہ توبہ کرنے سے معافی مل جاتی ہے۔
المختصر برے اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں : گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ۔ شریعت مطہرہ کی یہ تقسیم گناہوں کی کیفیت پر مبنی ہے ، لیکن اس کے بالمقابل گناہوں کی ایک تقسیم ہم نے بھی کر رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی مولوی سے صغیرہ گناہ بھی ہوجائے، تو وہ ہماری نگاہ میں گناہ کبیرہ سے بڑا گناہ ہوجاتا ہے ۔ اور اس کی وجہ سے وہ اتنا زیادہ سماجی لعن طعن کا شکار ہوتا ہے جیسے کہ کوئی فساد برپر کردینے والا اجتماعی جرم کردیا ہے۔ گرچہ حقیقت یہ ہے کہ گناہ بے شک گناہ ہے، اور اس سے اجتناب بہرحال لازم ہے، لیکن اگر سماج اور عام طبقہ بڑے بڑے گناہ کے اعمال کریں، تو وہ اپنے لیے بھی اور سماج کی نگاہ میں بھی کوئی گناہ تک نہیں سمجھا جاتا، کیوں کہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ اگر سماج کا ایک عام فرد سینما ہال سے نکلے ، تو کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا، فلم کے اثرات کو اپنی زندگی میں اتار لے، تو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا، لیکن اگر ایک مولوی محض سینماہال کے پاس بس کے انتظار میں کھڑا رہے، تو یہی شخص یا اس جیسا شخص یہ ٹوکنے کا سماجی حق رکھتا ہے کہ مولوی صاحب! آپ اور سینما گھر کے پاس؟۔ عام افراد سنت نبوی ﷺ کو ہر روز چہرے سے مٹانے کی کوشش کریں، تو کوئی عیب نہیں؛ لیکن ایک مولوی اگر تزئین کاری کرلے، تو پورے سماج کے چہرے پر قیامت برپا ہوجاتی ہے۔
بے شک ہم عوام اور امت کے اس نیک جذبے کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ وہ اپنے دینی قائد علمائے کرام کو منہج نبوی اور سنت طریقہ سے ایک انچ بھی ہٹا ہوا دیکھنا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ہم ہٹ جائیں ، تو وہ گناہ ، گناہ ہی نہیں ہوگا!۔ اسے توفیق الٰہی سے محرومی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟؟؟!!!۔

3 Dec 2017

رحلت نبوی ﷺ


رحلت نبوی ﷺ 
بارہ وفات نبوی ؑ پر ایک خصوصی تحریر
تحریر: محمد یاسین قاسمی گڈاوی دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
آج قلم کی روح بے چین و مضطرب ہے، کاغذ کا دل گریہ کناں و ماتم آسا ہے ، فکر کی لہریں درماندہ و افسردہ ہیں اور خامہ فرسانمدیدہ و دل گرفتہ ہے، اس کے آئینہ و فکر و خیال میں ماضی کے کچھ نقوش ابھرتے ہیں اور پھر غائب ہوجاتے ہیں ،عشق محو حیرت ہے کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے اور کیوں کر ہے؟ قلم کی روح کیا اس لیے بے چین ہے کہ وہ افسانۂ ہجرو وفراق کی خامہ فرسائی کر رہا ہے ، دل قرطاس کیا اس لیے ماتم زار ہے کہ حکایت برق و خرمن کے کرب و کسک سے بے چین ہو اٹھا ہے؟یا پھر تاریخ کے سینے میں محفوظ کچھ قیمتی جاں گسل یادیں اسے گریہ و بکا پر مجبور کر رہی ہیں؟ جی ہاں اس کی وجہ وہی تاریخ کی قیمتی یادیں ہیں، جو ہر صاحب خردو ذی شعور اور مدعی حب آں حضور کو بلک بلک کر رونے پر مجبور کر رہی ہیں۔
راجح تاریخ کے مطابق سرکار دو جہاں نبی اکرم ﷺ کی تاریخ پیدائش ۹؍ ربیع الاول ہے ، جب کہ رحلت نبوی علیہ السلام کی تاریخ ۱۲ ؍ ربیع الاول ہے ۔خود امام اہل سنت فاضل بریلوی اعلیٰ حضرت نور اللہ مرقدہ نے نطق الہلال بارخ ولادۃ الحبیب والوصال میں صفحہ نمبر ۴ پر دلائل کے ساتھ تاریخ پیدائش ۸؍ ربیع الاول اور یوم وفات ۱۲؍ ربیع الاول تحریر فرمایا ہے۔ اور ہمارے یہاں ۱۲؍ تاریخ ، بارہ وفات سے ہی مشہور و معروف ہے۔ آئیے تاریخ سے معلوم کرتے ہیں کہ اس ۱۲؍ تاریخ کو اس کائنات رنگ و بو میں کونسا حادثہ دلدوز پیش آیا تھا کہ اس کی کسک و اضطراب سے دنیا آج بھی آہ فغا کر رہی ہے۔ 
جب سورہ فتح نازل ہوئی تو سرکار دوجہاں ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی مرضی کو پالیا کہ اب رحلت قریب آگئی ہے۔اس کا اشارہ خود سرکار نے حجۃ الوداع میں کئی مرتبہ دیا ،چنانچہ میدان عرفات کے خطبہ حج میں حمد و صلاۃ کے بعد پہلا درد انگیز یہی جملہ ارشادفرمایا کہ ائے لوگو! میں خیال کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں اور تم اس اجتماع میں دوبارہ کبھی جمع نہیں ہوں گے۔ حج سے واپسی کے بعد خداوند متعال کے دیدار کے شوق میں روز بروزاضافہ اور صبح و شام تسبیح و تحمید اور ذکرو اذکار میں انہماک بڑھتا گیا ۔ ایک دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں تو ان سے ارشاد فرمایا کہ بیٹی ! اب میری رحلت کا وقت قریب معلوم ہوتا ہے۔ایک دن شہدائے احد کی مردانہ وارقربانیوں کا خیال آیا تو گنج شہیداں تشریف لے گئے اور ان کے لیے بڑے درد و گداز سے دعائیں کیں اور انھیں اس طر ح الوداع کہا جس طرح کہ آخری ملاقات پر الوداع کہاجاتا ہے۔ان ایام میں خیال زیادہ تر گزرے ہوئے نیازمندوں کی طرف مائل رہتا تھا ،چنانچہ ایک رات آسودگان بقیع کا خیال آگیا ،تو آدھی رات کو اٹھ کر وہاں تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا کہ انا بکم سلاحقون کہ اب جلد تمھارے ساتھ شامل ہورہا ہوں۔
بیماری کی ابتدا
۲۹؍ صفر بروز سوموار ایک جنازے سے تشریف لا رہے تھے کہ راستے میں ہی سر کے درد سے بیماری کا آغاز ہوگیا ۔ حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ سر مبارک پر رومال باندھا ہوا تھا وہ اس قدر جل رہا رتھا کہ ہاتھ کو برداشت نہ ہوتی تھی۔ مرض بڑھتا گیا اس واسطے ازواج مطہرات نے مرضی سرکار کے مطابق آپ کا مستقل قیام حجرہ عائشہ میں کردیا ۔ ضعف اس قدر طاری تھا کہ حجرہ عائشہ تک خود قدموں سے چل کر نہ جاسکے ۔ حضرت علی اور حضرت فضل ابن عباسؓ نے آپ کے دونوں بازو تھام کر بڑی مشکل سے حجرہ عائشہ تک پہنچایا۔حضرت عائشہؓ نے دعا پڑھ کر جسم اطہر پر ہاتھ پھیرنے کا ارادہ کیا تو حضور اقدس ﷺ نے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اللھم اغفرلی والحقنی بالرفیق الاعلیٰ ائے اللہ معافی اور اپنی رفاقت عطا فرما۔
وفات سے پانچ رو ز پہلے
وفات اقدس کے پانچ روز قبل بروز بدھ پتھر کے ایک ٹب میں بیٹھ گئے اور سر اقدس پر پانی کی سات مشکیں ڈالوائیں ۔ جس سے مزاج اقدس میں تھوڑی خنکی اور تسکین ہوئی تو مسجد نبوی تشریف لے گئے اور ایک مختصر تقریر فرمائی جس میں آپ نے یہود و نصاریٰ کی طرح انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا ۔ پھر ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ دنیا و ما فیہا کو قبول کرے یا آخرت کو ترجیح دے، مگر اس نے آخرت کو قبول کیا۔ یہ سن کر رمز شناس نبوت حضرت ابو بکر صدیق ؓ زاروقطار رونے لگے، جس پر حاضرین نے انھیں تعجب سے دیکھتے ہوئے کہا کہ سرکار ایک شخص کا واقعہ بیان کر رہے ہیں، اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ حضرت ابوبکر کی یہ حالت دیکھ کرخیال اشرف سے ارشاد ہوا کہ میں سب سے زیادہ جس شخص کی دولت اور رفاقت کا مشکور ہوں وہ ابوبکر ہیں۔اگر میں کسی شخص کو اپنی دوستی کے لیے منتخب کرتا تو وہ ابوبکر ہوتے، لیکن اب رشتہ اسلام میرے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد مسجد کے رخ پر سوائے دریچہ ابوبکر کے سب کو بند کرنے کا حکم دیا۔علالت نبوی پر انصار کو روتے ہوئے دیکھا تو انصار کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنے کی وصیت فرمائی۔پھر حضرت اسامہ بن زید کو شام پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ پھر فرمایا کہ حلال وحرام کے تعین کو میری طرف منسوب نہ کرنا میں نے وہی چیز حلال یا حرام کیا ہے جسے قرآن اور خدا نے حلال یا حرام قرار دیا ہے۔پھر اپنے اہل بیت کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ائے رسول کی بیٹی فاطمہ اور ائے پیغمبر خدا کی پھوپھی صفیہ ! خدا کے ہاں کے لیے کچھ کرلو میں تمھیں خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکتا ۔
وفات سے چار روز پہلے
بروز جمعرات حضرت عائشہؓ سے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد ابوبکر اور بھائی عبدالرحمان کو بلا لیجیے اور دوات کاغذ لے آئیے میں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوں گے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے سرور کائنات کی شدت مرض کو دیکھ کر یہ رائے ظاہر کی کہ ایسی حالت میں تکلیف دینا مناسب نہیں ہے ،اب تکمیل دین کا کوئی ایسا نکتہ باقی نہیں رہا جس میں قرآن کافی نہ ہو۔ بعض دوسرے صحابہ نے اس رائے سے اتفاق نہ کیا اور شور شرابہ ہونے لگا جس پرحضور نے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو ، میں جس مقام میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو۔پھر تین وصیتیں فرمائیں کہ کوئی مشرک عرب میں نہ رہے،سفیروں اور وفود کی بدستور عزت و مہمانی کی جائے اور تیسری قرآن کے بارے میں کچھ تھا جو راوی کو یاد نہ رہا۔
وفات سے تین روز پہلے
جمعہ کے دن مغرب کی نماز پڑھائی ۔ پھر غنودگی طاری ہوگئی ۔ عشا کے وقت آنکھ کھلی تو دریافت فرمایا کہ کیا نماز ہوچکی؟صحابہ نے عرض کیا کہ سب لوگ حضور ﷺ کے منتظر ہیں۔ لگن میں پانی بھرواکر غسل فرمایا اور ہمت کرکے اٹھے مگر غش آگیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر آنکھ کھلی تو ارشاد فرمایا کہ کیا نماز ہوچکی ہے ؟ صحابہ نے وہی جواب دیا کہ لوگ سرور کونین کی امامت کے منتظر ہیں۔اس مرتبہ اٹھنے کی کوشش کی مگر بے ہوش ہوگئے۔ جب تیسری مرتبہ جسم مبارک پر پانی ڈالا گیا اور اٹھنے پر غشی آگئی ، تو افاقہ ہونے پر ارشاد فرمایا کہ ابوبکر نماز پڑھادیں۔حضرت ابوبکر بہت رقیق القلب تھے، اس لیے انھوں نے حضرت عمرؓ کو آگے بڑھادیا ۔ مگر حضور نے تین مرتبہ منع فرمایا اور فرمایا کہ نماز ابوبکر ہی پڑھائیں۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حیات نبوی میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔
وفات سے دو روز پہلے
بروز سنیچر حضرت صدیقؓ ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ سرور کائنات حضرات علی وعباسؓ کے سہارے مسجد تشریف لائے ۔ نمازی نہایت بے قراری سے حضور ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت صدیق بھی مصلیٰ سے پیچھے ہٹے ، مگر حضور نے دست اقدس سے اشارہ کیا کہ پیچھے مت ہٹو ، پھر حضور ، حضرت صدیق کے برابر بیٹھ گئے ، اب حضرت صدیق سرکار کی اقتدا کررہے تھے اور مسلمان صدیق اکبر کی اقتدا میں تھے۔ یہ پاک نماز اسی طرح مکمل ہوئی ۔ بعد ازاں حضور حجرہ حضرت عائشہ میں تشریف لے آئے۔
وفات سے ایک روز پہلے
اتوار کے دن صبح بیدار ہوئے تو پہلا کام یہ کیا کہ سب غلاموں کو آزاد کردیا جو ۴۰ کی تعداد میں تھے۔ پھر اثاث البیت کا جائزہ لیا تو صرف سات دینار تھے، جنھیں غریبوں میں تقسیم کرادیایہاں تک کہ آخری رات کو کاشانہ نبوی میں چراغ جلانے کے لیے تیل تک موجود نہیں تھا۔ گھر میں کچھ ہتھیار تھے ، انھیں مسلمانوں کو ہبہ کردیا گیا ۔کمزوری لمحہ لمحہ بڑھ رہی تھی، حتی کہ غشی آگئی جس پر دردمندوں نے آپ کو دوا پلادی، افاقہ کے بعد جب احساس ہوا تو فرمایا اب یہی دوا ان پلانے والوں کو پلائی جائے، کیوں کہ دیدار خداوندی کا اشتیاق اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اب اس میں نہ دعا کی گنجائش تھی اور نہ ہی دوا کی۔
یوم رحلت
۱۲؍ ربیع الاول بروز سوموار مطابق مئی یا جون ۶۲۳ ء مزاج اقدس میں کسی قدر سکون تھا نماز فجر ادا کی جارہی تھی کہ سرکار نے مسجد اور کمرہ کا درمیانی پردہ سرکادیا، چشم اقدس نے دیکھا کہ لوگ رکوع و سجود میں مصروف ہیں، اس پاک منظر کو دیکھ کر جوش مسرت سے ہنس پڑے۔ لوگوں کو خیال ہوا کہ آں حضور مسجد میں تشریف لارہے ہیں ، نمازی بے اختیار ہونے لگے اور نمازیں ٹوٹنے لگیں۔ حضرت صدیق امامت کررہے تھے وہ پیچھے ہٹنے لگے، مگر حضور نے اشارہ اقدس سے سب کو تسکین دی اور چہرہ انور کی ایک جھلک دکھلاکر پھر کمرے کا پردہ ڈال دیا۔ طبیعت کا حال یہ تھا کہ غشی کے ایک بادل آتے تھے اور جاتے تھے ۔ ان تکلیفوں کو دیکھ حضرت فاطمہ رونے لگیں ۔ بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ بیٹی مت رو۔میں دنیا سے رخصت ہوجاوں تو انا للہ و انا الیہ راجعون کہنا ۔ پھر آپ نے ان کے کان میں کہا کہ بیٹی میں اس دنیا کو چھوڑ کر جارہا ہوں ، جس پر حضرت فاطمہ بے اختیار رونے لگیں۔ پھر فرمایا کہ فاطمہ!میرے اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگی، جس پر فاطمہؓ بے اختیار ہنس دیں۔حضرت حسن و حسین بہت غمگین ہورہے تھے انھیں پاس بلایا ، دونوں کو چوما اور ان کے احترام کی وصیت فرمائی ۔ پھر ازواج مطہرات کو طلب فرمایا اور انھیں بھی نصیحتیں کیں۔ پھر حضرت علی کو بلوایا اور انھیں بھی نصیحت فرمائی اور فرمایا کہ الصلاۃ الصلاۃ و ما ملکت ایمانکم، نماز، نماز اور غلام باندی۔رفتہ رفتہ حالت نازک ہوتی جارہی تھی کہ زبان اقدس سے ارشاد ہوا کہ لاالٰہ الا اللہ ان للموت سکرات۔کبھی ارشاد ہو تا کہ اللھم بالرفیق الاعلیٰ۔ آپ کبھی چادر اقدس چہرے پر ڈالتے تھے اور کبھی ہٹا دیتے تھے کہ دفعۃ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہود نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، ان لوگوں نے اپنے انبیاء اور ولیوں کی قبروں کو سجد گاہ بنالیا ۔ اسی دوران حضرت عبدالرحمان بن ابوبکر ایک تازہ مسواک لے کر آئے ، جسے دیکھ کر حضور نے مسواک پر نظر جمادی ، جس سے حضرت صدیقہ نے اشارہ سمجھ لیا اور دانتوں میں نرم کرکے مسواک پیش کی ۔ آپ نے بالکل تندرست کی طرح مسواک فرمایا ۔ پھریک لخت ہاتھ اونچا کیا گویا کہ کہیں تشریف لے جائیں گے اور زبان اقدس سے نکلا کہ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ اب اور کوئی نہیں صرف اسی کی رفاقت منظور ہے۔ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ بل الرفیق الاعلیٰ ۔ تیسری آواز پر ہاتھ لٹک آئے ، پتلی اوپر کو اٹھ گئی اور روح شریف عالم قدس کو ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
یہ ربیع الاول کی ۱۲ کی تاریخ سوموار کا دن اور چاشت کا وقت تھا عمر مبارک قمری تاریخ کے اعتبار سے ۶۳؍ سال ہوئی ۔
تجہیز و تکفین
منگل کو تجہیز و تکفین کا کام شروع ہوافضل بن عباس اور اسامہ بن زید پردہ تان کر کھڑے ہوئے۔ اوس بن خولی انصاریؓ پانی کا گھڑا بھر کر لائے ۔ حضرت عباس اور ان کے صاحبزدے جسم مبارک کی کروٹیں بدلتے تھے اورحضرت اسامہ اوپر سے پانی ڈالتے تھے اور حضرت علی غسل دے رہے تھے۔تین سوتی کپڑوں کا کفن دیا گیا ۔ حضرت صدیق اکبر کی رائے کے مطابق حجرہ عائشہ میں قبر کھودی گئی۔ حضرت طلحہ نے لحدی قبر کھودی ۔ زمین میں نمی تھی اس لیے بستر نبوی کو قبر میں بچھا دیا گیا ۔ جب جنازہ تیار ہوگیا تو اہل ایمان نماز کے لیے ٹوٹ پڑے اور سب نے الگ الگ نماز پڑھی۔ جنازہ چوں کہ کمرے میں تھا اس لیے نماز کا سلسلہ تقریبا ۳۲؍ گھنٹہ جاری رہا۔ اس لیے تدفین بروز بدھ رات کو عمل میں آئی ۔ جسم اطہر کو حضرات علی، فضل بن عباس، اسامہ بن زید اور حضرت عبدالرحمان بن عوف نے قبر میں اتارا اور اس باعث کون و مکاں ہستی کو ہمیشہ کے لیے اہل دنیا کی نگاہ سے اوجھل کردیا گیا ۔