ایک فقید المثال باوقار عالم کی کچھ یادیں کچھ باتیں
۱۹۴۹ میں سنور میڈل اسکول کے بعد میرے والد صاحب مرحوم و مغفور کی خواہش ہوئی کہ میں پرسہ ہائی اسکول میں پڑھوں؛ لیکن ہمار ے خالو منشی عبدالرحمٰن صاحب لوچنی مرحوم کی رائے ہوئی کہ اس کو مدرسہ میں پڑھاؤ؛ خالو مرحوم فارسی کے بڑے جید عالم تھے۔ ان کا ثانی دور دور میں نہیں تھا۔ ان کی رائے کے مطابق مدرسہ اسلامیہ جہاز قطعہ میں والد صاحب مرحوم و مغفور نے جاکر میرا داخلہ کرادیا، جن کی بنیاد کچھ دنوں قبل حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک ہاتھوں سے پڑ چکی تھی ۔ اجراڑہ سے تشریف لانے کے بعد حضرت نے حضرت شیخ الادب والفقہ نور اللہ مرقدہ کی سرپرستی میں اس مدرسہ کی بنیاد ڈالی تھی اور بڑی قلیل المختصر مدت میں مدرسہ کا ہر چہار جانب شہرہ ہوگیا اور اطراف و جوانب اور ضلع و غیر ضلع طلبہ کثرت سے مدرسہ کے دامن میں جمع ہوکر اپنی تشنگی دور کرنے اور فیضیاب ہونے لگے ۔ حضرت الاستاذ کے علم و عمل کا بھی شہرہ کھلااور ان کی تابندگی و نورانی کرن نے دور دراز کے تاریک خطوں کو بھی روشن کردیا ۔علاقہ کے کچھ قدیم مدرسے اور ان کے علمائے کرام اور کچھ پڑھے لکھے باوقار افراد کے لیے بھی مدرسہ اسلامیہ بھی اور حضرت الاستاذ کی ذات گرامی قدر بھی ایک کھٹک بن گئی اور ان کی رقیبانہ و حاسدانہ نگاہ پڑنے لگی ۔ خدا ان کو معاف فرمائے۔
اللہ رب العزت نے حضرت استاذ مکرم کو بڑی خوبیوں سے نوازا تھا ۔ علوم وفنون کے دریچے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے ان پر کھول دیے تھے۔ فقہ و حدیث پاک، نحو و صرف، ادب و بلاغت، منطق و فلسفہ وغیرہ علوم پر یکساں بصیرت حاصل تھی ۔ علاقہ و دور دراز علماء کی صف میں حضرت استاذ ؒ کی شخصیت منفرد و ممتاز تھی ۔ خدا وندکریم نے ان کی ذات ستودہ صفات کو بڑا نوازا تھا؛ لیکن بایں ہمہ ان کی طبیعت، ان کا مزاج بڑا سادہ تھا۔ نمود و نمائش کی ادنیٰ جھلک بھی ان کی ذات میں نہیں تھی۔ خلوت میں رہیں یا جلوت میں ، ہر ماحول میں سادگی ہی سادگی تھی۔ ان کی ذات گرامی میں اسلاف کی شان نمایاں تھی؛ بالخصوص حضرت شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی نور اللہ مرقدہ کی ان کی ذات گرامی مجسم تصویر تھی۔ ان کی آغوش تعلیم وتربیت میں وہ پلے بڑھے تھے۔ ان کی صحبت میں وہ پروان چڑھے تھے ۔ ان کے فیوض و برکات سے وہ مستفیض ہوتے تھے۔ ان کی شفقت ، ان کا لطف و کرم دارالعلوم دیوبند میں بھی ، اجراڑہ میں بھی اور جہاز قطعہ میں ہمہ دم حضرت استاذ پر سایہ فگن رہا۔دو ڈھائی سال کے بعد جب مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ سے دارالعلوم جانا نصیب ہوا، تو حضرت شیخ الادب والفقہ ؒ کے نام حضرت الاستاذ نے ایک سفارشی مراسلہ ہم لوگوں کے لیے لکھا۔ اور ہم لوگوں کا داخلہ دارالعلوم دیوبند میں بڑی آسانی سے ہوگیا ۔ داخلہ امتحان فارم دارالعلوم دیوبند کے منشی نے حضرت مولانا معراج ؒ کے یہاں پہنچا دیا ۔ ہم لوگوں نے اپنی پیشانی ٹھونک لی کہ ہم لوگ پھنس گئے کہ یہاں امتحان داخلہ بڑا سخت ہوتا ہے ۔ دس سال، بارہ سال شیخ الحدیث کے عہدہ پر دیگر مدرسوں میں رہنے والے اساتذہ، دارالعلوم کی نسبت حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں اور یہاں داخلہ امتحان میں میزان و منشعب مل جاتی ہے ۔ اور دارالعلوم سے نسبت میں وہ شامل نہیں ہوسکتے۔ وہ دارالعلوم سے بیرنگ واپس ہوجاتے ہیں ۔ ابھی داخلہ امتحان ہم لوگوں کا شروع نہیں ہوا تھا کہ حضرت شیخ الادب والفقہ دارالحدیث میں تشریف لے آئے اور منشی جی سے فرمایا کہ ان طلبہ کا داخلہ فارم وہاں سے اٹھا کر لے آؤ اور حضرت شیخ الادب ؒ نے ہم لوگوں کا داخلہ امتحان لیا۔ اور دارالعلوم میں داخلہ ہوا۔ اور جب تک حضرت شیخ الادب والفقہ باحیات رہے، ان کی شفقت و عنایت ہم لوگوں پر سایہ فگن رہی۔ داخلہ کے کچھ ہی دنوں بعد مولانا اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کو حاسدوں نے اکھاڑہ بنا دیا اور حضرت شیخ الادب ؒ کے نام حضرت الاستاذ کے خلاف کچھ تراشیدہ الزامات کے ساتھ بذریع رجسٹری ملفوف مراسلہ بھیجا۔ اور دلیل و شہادت کے لیے ہم تین لڑکوں کا نام پیش کیا ۔ خط موصول ہونے کے بعد حضرت ؒ نے ہم تینوں طلبہ کو بلاکر تحقیق و تفتیش فرمایا اور حضرت شیخ الادب ؒ کی ذات گرامی قدر کے دل میں حاسدوں کی کوئی بھی بات بیٹھ نہیں پائی ۔ اور حضرت شیخ الادب ؒ کے قلب میں ہم لوگوں کے لیے مزید شفت و محبت جم گئی۔اور گاہ گاہ ہم حضرت شیخ الادب ؒ کے یہاں آنے جانے لگے۔ خاص کر بھاگلپوریوں اور ہم دمکا والوں کے لیے ان کے پاکیزہ دل میں بڑی اہم جگہ تھی۔ حضرت شیخ الادب ؒ کے یہاں مولانا محمد منیر الدین ؒ کی درسی تقریروں کی کچھ کاپیاں : بخاری شریف، ترمذی شریف، مشکوٰۃ شریف، دیوان متنبی ، حماسہ و مقامات وغیرہ کی نظر آئیں۔ مشکوٰۃ شریف کی درسی تقریر کی کاپی ، حضرت مولانا عبدالسمیع صاحب نور اللہ مرقدہ کی کاپی، حضرت مولانا محمد شعیب بھاگلپوریؒ کے ہاتھ میں نظر آئی ۔ ہم نے شیخ الادب ؒ سے عرض کیا کہ حضرت یہ ہمارے استاذ حضرت مولانا منیر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کاپی ہے، ہمیں عنایت کی جائے کہ ہم کو اس کا زیادہ حق ہے۔ مولانا شعیب ؒ کو حکم ہوا کہ یہ کاپی ان کو دیدو اور حضرت ؒ کی شفقت و عنایت سے ہم کو مل گئی۔ ہماری نگاہ حضرت الاستاذ کی مختلف کاپیوں پر تھی، جن کے حاصل کرنے کی تمنا ہمارے دل میں بیٹھی ہوئی تھی، لیکن صد حیف کہ حضرت شیخ الادب ؒ کا وصال ہوگیا اور ہم یاس و حسرت میں ڈوب گئے۔
حضرت مولانا منیر الدین نور اللہ مرقدہ شیخ الادبؒ کی ذات گرامی قدر کی آغوش تعلیم وتربیت میں پروان چڑھے تھے ۔ اس قیمتی صحبت و ماحول نے استاذ مکرم کو کندن بنادیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے علوم و ورع اور تقویٰ کا وافر حصہ حضرت مولانا منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرمایا تھا ۔ علوم و تقویٰ ، اعمال و اخلاق ، تہذیب وانسانیت کی ان کی ذات گرامی مجسم تصویر تھی ۔ ائے کاش حضرت استاذ ؒ کچھ اور جیے ہوتے ، تو بڑی قیمتی تصنیف و تالیف منظر عام پر آتی۔ ان کی خواہش بارہا میرے سامنے ظاہر ہوئی ، لیکن قدرت کاملہ کا نظام ہے اور اس میں کسی کو دخل نہیں۔ نورانی آفتاب چمکتا ہے اور شام کو غروب ہوجاتا ہے۔ چاند رات کو روشن کردیتا ہے اور دن کو ماند پڑجاتا ہے۔ بے شمار سورج و چاند و ستارے روپوش ہوگئے ، خدا کا نظام یہی ہے۔ ساری قیمتی ہستیاں حکم الٰہی کے مطابق کام کرگئیں اور اسی نے چمکدار اور روشن راستے بنادیے۔ آج دنیا ان سے منور ہے اور فیض حاصل کر رہی ہے ۔ اور ان کا کردار وعمل زندہ اور تابندہ ہے ۔ اور ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے ۔
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما۔
(مولانا)محمد خلیل الرحمٰن قاسمی غفرلہ و لوالدیہ
ساکن کیتھ پور، ضلع گڈا جھارکھنڈ
۲۹؍ ربیع الاول ۱۴۲۷ھ، مطابق ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۴ء