29 Mar 2018

حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب ایک نابغۂ روزگار ہستی


حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب ایک نابغۂ روزگار ہستی
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا اظہر الحق صاحب جہازی، استاذ مدرسہ رحمانیہ روڑکی اتراکھنڈ
حامدا و مصلیا و مسلما امابعد
از آدم تا ایں دم، اربوں کھربوں اور خدا معلوم کتنے انسان اس دنیائے ناپید میں آکر یہاں سے جاچکے ہیں۔ اور صبح قیامت تک آمدو رفت کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ لیکن ان مسافروں میں کچھ مخصوص ہستیاں اور شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اپنے ملی کارنامے اور علمی خدمات ، ذہنی تعمیرات اور مردم ساز قابلیتوں ، تخلیقی صلاحتیوں اور اعلیٰ سیرتوں و کردار کی بدولت اپنی راہ نوردی کے کچھ ایسے انمٹ نقوشِ قدم اور آثار سفر چھوڑ جاتی ہیں جو زمانے کی دست و برد کے باوجود محفوظ رہتے ہیں ۔ ؂
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخیِ نقش پا کی
ایسی ہی ایک درویشی خدا پرست، بے نفس، نابغۂ روزگاراور عبقری شخصیت حضرت مولانا محمد منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی گذری ہے ۔
وطن عزیز کی آزادی سے کوئی ایک دہائی قبل مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑہ ضلع میرٹھ سے تدریسی زندگی کا آغاز ہوا، یہاں آپ سے حدیث و فقہ اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں متعلق رہیں۔غالباً ۱۹۴۸ ؁ء میں وہاں سے مستعفی ہوکر وطن عزیز کا قصد کیا اور اپنے گاؤں جہاز قطعہ میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے نام سے ایک دینی درس گاہ کی داغ بیل ڈالی۔ قرین قیاس یہی ہے کہ اجراڑہ میں ملازمت ، اور پھر ملازمت سے مستعفی ہوکر خدمت دین کے لیے اپنے علاقہ کو اختیار کرنا بلا مشورہ استاذ و مربی خاص حضرت مولانا اعزاز رحمۃ اللہ علیہ شیخ الادب والفقہ دارالعلوم دیوبند محض حادثاتی و اتفاقی طور پر نہیں ہوا ہوگا؛ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وقفہ وقفہ سے ان بندوں کو جو غفلت کی نیند میں دیر سے سو رہے ہوں، ان کے کانوں میں اذان حق دے کر بیدا ر کرنے کے لیے اور اس امت اور ملت کے بکھرے ہوئے بال و بر کی شیرازہ بندی اور بگڑے ہوئے نظام مے خانہ کو بدلنے کے لیے جن مردان خدا آگاہ اور رندوں کا انتخاب کرتا ہے، ان میں سے ایک حضرت مولانا بھی ہوں۔ اس لیے جو کہ خطہ اور علاقہ علم و فن میں شورہ اور بنجر زمین کی طرح پڑا ہواتھا، اس جگر سوختہ مرد حق کی انتھک کدو کاوش اور جہد مسلسل کے نتیجہ میں ایک لہلہاتا ہوا شاداب چمن بن گیا ۔ اور اس چمن میں نہ جانے کتنے لالہ و گل اگے ۔ میری اس تحریر کے حق میں وہ لوگ شہادت دیں گے، جنھوں نے ماضی کی جہالت دیکھی ہے ، یا علم اور تاریخ کی راہ سے یہ جانا ہے کہ ۱۸۵۷ ؁ء کے انگریزوں نے خاص طور سے مسلمانوں کو اپنا حریف سمجھ کر ہدف بنایا اور ہر میدان میں مات دینے کی ٹھان لی۔ چنانچہ علمی، تمدنی، اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کو ثریا سے پاتال میں پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا ۔ فطری طور پر یہ علاقہ بھی استعماری قوت کی پامالی سے محفوظ نہیں رہ سکا، جب کہ یہ علاقہ پہلے سے ہی جاں بلب تھا۔
مولانا مرحوم نے جس پر آشوب دور اور جہالت و نا خواندگی کے تاریک زمانہ اور مایوس حوصلہ شکن عہد میں ہوا کے رخ پر علم کا چراغ روشن کرنے کی کوشش شروع کی ہے، کون کہہ سکتا تھا کہ اتنی جلدی کایا پلٹ ہوجائے گی۔ لیکن واقعاتی دنیا میں ایسا ہی ہوا ، حالاں کہ جہاز قطعہ کوئی بہت شہرت یافتہ مقام نہیں تھا اور نہ ہی رقبہ و عمارت کے لحاظ سے مدرسہ اسلامیہ ہی اتنا بڑا تھا ؛ لیکن خاص افضال خداوندی سے دیکھتے ہی دیکھتے دور و نزدیک سے جوق در جوق طالبان دین اور جویان حق آتے رہے اور حضرت والا طلبہ کی کھیپ در کھیپ تیار کرکے بڑے بڑے مدارس؛ خصوصا دارالعلوم اور مظاہر علوم روانہ فرماتے رہے ۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں ایک سے بڑھ کر ایک عالم فاضل نظر آنے لگے۔ اسی طرح چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ جہالت اور ناخواندگی کی تاریکی چھٹتی رہی اور علم کی روشنی پھیلتی رہی۔ اور آج ہر قابل ذکر علوم و فنون کے لوگ اس علاقہ میں صرف موجود ہی نہیں؛ بلکہ ملک کے تقریبا ہر حصہ اور دنیا کے بہت سے گوشوں میں علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یقیناًاسی تعلیمی بیداری اور پاکیزہ انقلاب میں حضرت مولانا منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کا بہت بڑا حصہ و دخل ہے، جس کا انھیں اجر وصلہ مل رہا ہوگا۔ حضرت والا جید عالم ، سادہ مزاج، ولی صفت ، خدا ترس اور قوم وملت کے لیے شب و روز بے انتہا مخلصانہ اور صبرو عظیمت کے ساتھ محنت کرنے والے انسان تھے۔
قسام ازل کی طرف سے حضرت مولانا مرحوم کو تعلیمی ، تدریسی اور تدریبی مہارت وملکہ کے ساتھ ذوق تحریر وتالیف بھی عطا ہوا تھا ۔ خیا ل کیا جاتا ہے کہ مولانا نے اپنے پیچھے اچھا خاصا تحریری سرمایہ چھوڑا تھا، لیکن وہ محفوظ نہیں رہ سکا۔ منجملہ تصانیف اور ترکہ علمی میں سے ’’رہنمائے مسلم‘‘ کتاب ہے۔کتاب کے تعارف کے حوالے سے صرف اتنی سی بات عرض ہے کہ کتاب اسم با مسمیٰ ہے۔ ایک مسلمان کو پیدائش سے لے کر موت تک کس طرح زندگی گذارنی چاہیے ، یا یوں کہیے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اپنے نام لیواؤں کے لیے اس خاکدان ارضی پر چلنے کے لیے جو شاہراہ قائم فرمائی ہے، اسی کی بزبان اردو تعبیر وتشریح اور ترجمانی ہے۔ 
حضرت الاستاذ کس قدر کثیر المطالعہ اور وسیع العلم عالم تھے، اس کتاب کے حوالجات کو دیکھنے ہی سے پتہ چلتا ہے۔ اور ایسے دور افتادہ علاقہ میں جہاں نہ بجلی کی سہولت تھی ، نہ دوسری آسانیاں، دن میں سورج اور رات میں لالٹین اور دیا کے سوائے کوئی تیسری روشنی نہیں ہوتی ۔ 

الغرض مولانا مرحوم بہت سی صلاحیتوں اور قابلیتوں ، کمالات اور خوبیوں کے مالک تھے ۔ جن کی گواہی نسلاً بعد نسلٍ لوگ دیتے رہیں گے۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے پیچھے اپنے اوصاف وکمالات اور علوم وفنون کے ہزاروں بلا واسطہ اور بالواسطہ شاگرد اور علمی وارثین چھوڑے ہیں۔ خدا بھلا کرے مولانا مرحوم کے برادرزادہ جناب مولانا قاری عبدالجبار قاسمی کا ، جنھوں نے سالہا سال تک اپنے نامور مورث کے قیمتی ورثہ کی حفاظت کی ۔ اور یہ خاص فضل ربی ہوا کہ مولانا کی یہ قیمتی تصنیف قاری صاحب موصوف کے قدر داں ہاتھوں میں آگئی، ورنہ دیگر تصانیف کی طرح یہ بھی خرد برد ہوکر ضائع ہوجاتی ؛ بلکہ اس کتاب کے مسودوں کے بھی کچھ اجزا ضائع ہوگئے تھے، جس کو قاری صاحب نے اپنی زر بفت تحریر کے ذریعے انتہائی سلیقہ کے ساتھ مخمل میں ایسی پیوند کاری کی ہے کہ پڑھنے والے کو اس پیوند کا احساس بھی نہیں ہوتا۔