عارف باللہ مولانا منیر الدین صاحب جہاز قطعہ
(۱۹۷۷۔۱۹۱۹ء)
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا ثمیر الدین صاحب قاسمی چیرمین ہلال کمیٹی لندن
۱۹۶۷ء کی کسی صبح کو تبلیغی جماعت کے ساتھ یہ کفش بردار جہاز قطعہ پہنچا ۔ مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ کے احاطہ میں قدم رکھا ، تو ایک فرشتہ صفت بزرگ سے ملاقات و مصافحہ ہوا۔میانہ قد، گداز بدن، نورانی چہرہ، متبسم پیشانی، دراز کرتا اور لنگی میں ملبوس عارف باللہ مولانا منیر الدین صاحب جہاز قطعہ تھے۔آپ ۱۹۱۹ء ، مطابق ۱۳۳۷ھ میں پہلی مرتبہ دنیائے رنگ و بوسے روشناس ہوئے۔ابتدا میں مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ میں مولانا خلیل الرحمٰن صاحب سیری چک کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ پھر علمی تشنگی بجھانے کے لیے ۱۳۵۷ھ ، مطابق ( ۱۹۳۸ء ) میں منبع علم و عرفاں دارالعلوم دیوبند کا قصد فرمایا اور ۱۳۶۲ھ ، (مطابق۱۹۴۳ء ) اس کے ماء زلال سے سیراب ہوتے رہے۔ فراغت کے بعد بھی دولت کدہ تشریف نہیں لائے؛ بلکہ اس کی اشاعت کے لیے مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑہ میرٹھ یوپی میں صدر مدرس منتخب ہوئے ۔ اور وہیں نمایاں خدمات انجام دیتے رہے۔مکمل آٹھ سال کی غربت و مسافرت کے بعد گھر تشریف لائے، تو علاقائی ابتری دیکھ کر دل ابلنے لگا۔ لوگوں کو دیکھا کہ وہ علم سے کورے اور تہذیب اسلامی سے نابلد ہیں۔ان کی اصلاح اور راہ راست پر لانے کے لیے کسی مرد کامل سے بھی میدان خالی ہے، اس لیے آپ علم کی ضیا پاشیوں کے لیے کمربستہ ہوگئے اور مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ کی بنیاد ڈالی۔خود ہی منتظم اور خود ہی مدرس تھے۔
خود کوزہ خود کوزہ و خود گل کوزہ
آپ کے درسی لگاؤ اور انہماک کی اتنی شہرت ہوئی کہ مدرسہ مینارہ نور بن گیا، جس سے سیکڑوں پروانوں نے روشنی حاصل کی۔ مولانا خلیل کیتھپورہ،، مولانا غلام رسول اسنہاں، مولانا ابراہیم انجنا اور مولانا عرفان صاحب جہاز قطعہ اور کاتب عبدالجبار جیسے علم و فن نے استفادہ کیا اور علاقے میں آفتاب و مہتاب بن کر چمکے۔
آپ کے دور نارسا میں علاقے میں تصنیفی کام کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اور دیہاتی علماء کی دسترس سے بالاتر چیز سمجھی جاتی تھی، لیکن آپ علاقے میں پہلی شخصیت ہیں، جنھوں نے تصنیفی کام کا آغاز کیا اور لوگوں کو باور کرایا کہ محنت و لگن سے ثریا پر بھی کمندیں ڈالی جاسکتی ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کی اصلاح حال اور سنتوں کی ترویج کے لیے ’رہنمائے مسلم‘ اور ’زجاج المصابیح‘ تصنیف فرمایا۔ دونوں کتابیں زیور طباعت سے آراستہ نہ ہوسکیں۔البتہ آپ کے لائق ترین بھتیجہ قاری و مولانا و کاتب عبدالجبار صاحب اس کو طباعت سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں۔ رہنمائے مسلم اردو میں ۱۶۰؍ صفحہ کی کتاب ہے۔ اس میں پیدائش سے لے کر موت تک کے کس موقع کے لیے کونسا طریقہ سنت نبوی سے ہم آہنگ ہے اور اس وقت کے لیے کونسی دعا دہن مبارک ﷺ سے منقول ہے، اس کی پوری تفصیل ذکر کی گئی ہے۔ اور اس کے مآخذ کے لیے درجنوں کتابوں کا حوالہ درج ہے۔ دیہی علاقہ جہاں موقر کتابیں نایاب یا کمیاب ہیں، معلوم نہیں مصنف نے کس جاں کاہی سے اس کو مہیا کیا ہوگا۔دوسری کتاب زجاج المصابیح عربی زبان میں نور الایضاح کی طرز کی فقہ کی کتاب ہے۔اس میں انھوں نے کافی مسائل جمع کیا ہے۔ انداز بیاں دلنشیں اور شگفتہ ہے۔ زبانی ذہن نشین کرنے کے لیے بہت مفید کتاب ہے۔
آپ خاموش طبع اور عزلت پسند واقع ہوئے تھے۔ رزم و بزم، شور و ہنگامہ سے آپ کی طبع دور تھی۔ آپ دل کی دنیا کو آباد و معمور رکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ راہ سلوک میں بہت سے مرد کامل کے لیے مشعل راہ اور رشک نگاہ بنے ہوئے تھے۔ آپ سالک بے مثال حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے دامن سے وابستہ تھے۔ عمر کے آخیر عشرے میں فالج کا شدید حملہ ہوا، جس سے جاں بر نہ ہوسکے اور آخر اس مخلص خادم نے ۱۹۷۷ء میں جان جاں آفریں کو سپرد کیا اور ہزاروں سوگواروں کو داغ مفارقت دے کر سفر آخرت کے لیے روانہ ہوگئے۔
پلٹ کے کہتی ہے آنکھوں کی پتلیاں دم مرگ
چلو یہاں سے کہ دنیا کا اعتبار نہیں
(یاد وطن، صفحہ۲۹؍تا ۳۱)