جہاد
حامدا ومصلیا اما بعد۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
معزز سامعین ،لائق صد احترام حاضرین! جب ہم اپنی تیرہ سوسالہ تاب ناک ماضی کے اوراق کو پلٹتے ہیں ، گذری ہوئی تیرہ صدیوں کے جھرونکوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں اور اس عہدِرفتہ کے شب و روز کا موجودہ صدی کے لیل و نہا رسے موازنہ کرتے ہیں ، تو یہ بات ہمیں خون کے آنسو رلانے لگتی ہے کہ کل تیرہ سو سال تک اس فرش گیتی پر ہماری عظمت و شوکت کا کیا عالم تھا اور آج اپنی ذلت و نکبت کا کیا حال ہے،کل ایک ہزار برس تک اس روئے زمین پر ہمارے رعب و دبدبہ کی کیا شان تھی اور آج اپنے خوف و ہراس کی کیا حالت ہے ، کل تک آفاق کی وسعتوں میں ہماری خلافت و حکمرانی کا کیا جلال تھا اور آج اپنی غلامیت ومحکومیت اور مظلومیت کی کیسی فریاد ہے ، کل تک کفر ذلت کی ناچ ناچنے پرمجبور تھا، عدو رسوائی کے گیت گانے پر مجبور تھا ، باطل پستی و خواری کارونارونے پر مجبور تھا ۔
کہیں فرعونیت لرزہ براندام تھی تو کہیں ۔۔۔ہامانیت
کہیں نمرودیت رعشہ بر اجسام تھی تو کہیں ۔۔۔شدادیت
کہیں یہودیت خوف زدہ تھی تو کہیں۔۔۔ عیسائیت
کہیں قیصریت سہمی ہوئی تھی تو کہیں ۔۔۔کسرائیت
کہیں رافضیت دبکی ہوئی تھی تو کہیں ۔۔۔مرزائیت
غرض کہ ان تیرہ سو سالوں میں آپ کفر و باطل کو جس رنگ وروپ میں دیکھنا چاہیں، جس شکل و صورت میں دیکھنا چاہیں ، جس علاقے میں دیکھنا چاہیں، جس ملک میں دیکھنا چاہیں، وہ آپ کو ڈرا ہوا، سہما ہوا، کپکپاتا ہوا، روتا ہوا، بلبلاتا ہوااور سر پہ خاک اڑاتا ہوا ملے گا۔
یہ صرف ہماری لفاظی اور زبان آوری نہیں ؛ بلکہ ایک ایسی حقیقت اور سچائی ہے کہ
ہمالیہ کی چوٹیاں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
بحر اٹلانٹک کی طغیانیاں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
دجلہ کی موجیں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
افریقہ کے جنگلات اس کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
بغداد کے باغات اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
غرناطہ کی نہریں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
جامع قرطبہ کی میناریں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
سندھ وہند کی سرحدیں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
ملک شام میں چلنے والی ہوائیں اس کے ۔۔۔ ۔۔۔گواہ ہیں
بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ یہ اجرام فلکیہ ہوں یا اجسام ارضیہ؛ سب کے سب اس کے گواہ ہیں کہ ایک ہزار برس تک چہاردانگ عالم میں مسلمانوں کی شان وشوکت اور ان کی عظمت و سطوت کی ایسی طوطی بولتی تھی کہ باطل کو پرمارنے کی بھی ہمت نہ ملتی تھی ؛ مگر افسوس صد افسوس اسے مسلم قوم کی تیرہ بختی کہیے یا خود ان کی اپنی کردار کشی ، ان کی ا قبال مندی و برو مندی کا وہ سورج جو آج سے چار سوسال پہلے ماضی کی دھندلکیوں میں غروب ہوا تھا ، اب تک حال کے افق پر نمودار نہ ہوسکا، مسلمانوں کی جاہ و جلال کی وہ لیلیٰ جو آج سے چار سوسال پہلے عہدِ رفتہ کی محمل میں غائب ہوئی تھی ، اب تک عہد رواں کے اسٹیج پر جلوہ فگن نہ ہوسکی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان چار سو سالوں میں کفر جری ہوگیا، باطل دلیر بن گیا، دشمن نڈر ہوگئے اور لومڑی شیر بن گئی۔
کبھی آذر کی اولاد نے شرارت کی ۔۔۔تو کبھی عاد کی اولاد نے
کبھی بوجہل کی نسل نے ستم گری کی ۔۔۔تو کبھی بولہب کی اولاد نے
کبھی عتبہ کی ذریت نے ظلم پروری کی ۔۔۔ تو کبھی شیبہ کی اولاد نے
کبھی ابی ابن خلف کے چیلوں نے شقاوت دکھائی ۔۔۔ تو کبھی امیہ ابن خلف کی اولاد نے
کبھی مسیلمہ کذاب کے بیٹوں نے بد تمیزی کی ۔۔۔ تو کبھی اسود عنسی کی اولاد نے
کبھی طلیحہ کے حامیوں نے زبان درازی کی۔۔۔ تو کبھی تسلیمہ نسرین کی اولاد نے
کبھی مرزا قادیانی کے پٹھووں نے سرکشی کی ۔۔۔ تو کبھی سلمان رشدی کی اولاد نے
حضرات! کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ اس کایا پلٹ کی وجہ کیا ہے ؟ اس تغیروتبدل کا باعث کیا ہے؟ اس انقلاب عظیم کا سبب کیا ہے؟ اگر نہیں کیا، تو سنیے اور غور کیجیے کہ کل تک ہمارے پاس ایک عظیم دولت تھی، جو آج نہیں ہے، کل تک ہمارے پاس ایک فولادی قوت و طاقت تھی جو آج نہیں ہے،کل تک ہمارے پاس ایک روحانی زور تھا جو آج نہیں ہے، کل تک ہمارے پاس ایک بے مثال نعمت تھی جو آج نہیں ہے ، کل تک ہمارے پاس محمد رسول اللہ ﷺ کی ایک وراثت تھی جو آج نہیں ہے۔
وہ دولت ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔ ۔۔۔ دولت تھی
وہ نعمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔نعمت تھی
وہ طاقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔طاقت تھی
وہ قوت ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔جہاد کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوت تھی
وہ وراثت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہادکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وراثت تھی
جب تک ہمارے اندر جذبۂ جہاد موجود رہا، ہم ہر جگہ سربلند و سرفراز رہے ، ہر جگہ باعزت و با اعزاز رہے، لیکن جب سے ہمارے اندر بزدلی آگئی اور جذبۂ جہاد سے دل خالی ہوگیا، تو ہم ہر مقام پر ذلیل و خوار ہوئے اور ہر مقام پر رسوا و پشیمان ہوئے ۔
معزز سامعین کرام ! اگر ہمیں پھر سے وہی عہد رفتہ کی عظمت کی تلاش ہے، اگر ہمیں پھر سے اسی عزت و وقار کی تلاش ہے ، اگر ہمیں پھر سے اسی جام خلافت کی تلاش ہے ، تو اس کے لیے قرآن کو سینے سے لگانا ہوگا، ایمان کو مضبوط بنانا ہوگااور جہاد کے لیے ہمہ تن سر بکف اور کفن بردوش رہنا ہوگا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
اور
شراب کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
کے فلسفے پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر جہاد کا جذبہ پیدا فرمادے آمین،ثم آمین۔
وما علینا الا البلاغ
حامدا ومصلیا اما بعد۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
معزز سامعین ،لائق صد احترام حاضرین! جب ہم اپنی تیرہ سوسالہ تاب ناک ماضی کے اوراق کو پلٹتے ہیں ، گذری ہوئی تیرہ صدیوں کے جھرونکوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں اور اس عہدِرفتہ کے شب و روز کا موجودہ صدی کے لیل و نہا رسے موازنہ کرتے ہیں ، تو یہ بات ہمیں خون کے آنسو رلانے لگتی ہے کہ کل تیرہ سو سال تک اس فرش گیتی پر ہماری عظمت و شوکت کا کیا عالم تھا اور آج اپنی ذلت و نکبت کا کیا حال ہے،کل ایک ہزار برس تک اس روئے زمین پر ہمارے رعب و دبدبہ کی کیا شان تھی اور آج اپنے خوف و ہراس کی کیا حالت ہے ، کل تک آفاق کی وسعتوں میں ہماری خلافت و حکمرانی کا کیا جلال تھا اور آج اپنی غلامیت ومحکومیت اور مظلومیت کی کیسی فریاد ہے ، کل تک کفر ذلت کی ناچ ناچنے پرمجبور تھا، عدو رسوائی کے گیت گانے پر مجبور تھا ، باطل پستی و خواری کارونارونے پر مجبور تھا ۔
کہیں فرعونیت لرزہ براندام تھی تو کہیں ۔۔۔ہامانیت
کہیں نمرودیت رعشہ بر اجسام تھی تو کہیں ۔۔۔شدادیت
کہیں یہودیت خوف زدہ تھی تو کہیں۔۔۔ عیسائیت
کہیں قیصریت سہمی ہوئی تھی تو کہیں ۔۔۔کسرائیت
کہیں رافضیت دبکی ہوئی تھی تو کہیں ۔۔۔مرزائیت
غرض کہ ان تیرہ سو سالوں میں آپ کفر و باطل کو جس رنگ وروپ میں دیکھنا چاہیں، جس شکل و صورت میں دیکھنا چاہیں ، جس علاقے میں دیکھنا چاہیں، جس ملک میں دیکھنا چاہیں، وہ آپ کو ڈرا ہوا، سہما ہوا، کپکپاتا ہوا، روتا ہوا، بلبلاتا ہوااور سر پہ خاک اڑاتا ہوا ملے گا۔
یہ صرف ہماری لفاظی اور زبان آوری نہیں ؛ بلکہ ایک ایسی حقیقت اور سچائی ہے کہ
ہمالیہ کی چوٹیاں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
بحر اٹلانٹک کی طغیانیاں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
دجلہ کی موجیں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
افریقہ کے جنگلات اس کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
بغداد کے باغات اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
غرناطہ کی نہریں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
جامع قرطبہ کی میناریں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
سندھ وہند کی سرحدیں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
ملک شام میں چلنے والی ہوائیں اس کے ۔۔۔ ۔۔۔گواہ ہیں
بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ یہ اجرام فلکیہ ہوں یا اجسام ارضیہ؛ سب کے سب اس کے گواہ ہیں کہ ایک ہزار برس تک چہاردانگ عالم میں مسلمانوں کی شان وشوکت اور ان کی عظمت و سطوت کی ایسی طوطی بولتی تھی کہ باطل کو پرمارنے کی بھی ہمت نہ ملتی تھی ؛ مگر افسوس صد افسوس اسے مسلم قوم کی تیرہ بختی کہیے یا خود ان کی اپنی کردار کشی ، ان کی ا قبال مندی و برو مندی کا وہ سورج جو آج سے چار سوسال پہلے ماضی کی دھندلکیوں میں غروب ہوا تھا ، اب تک حال کے افق پر نمودار نہ ہوسکا، مسلمانوں کی جاہ و جلال کی وہ لیلیٰ جو آج سے چار سوسال پہلے عہدِ رفتہ کی محمل میں غائب ہوئی تھی ، اب تک عہد رواں کے اسٹیج پر جلوہ فگن نہ ہوسکی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان چار سو سالوں میں کفر جری ہوگیا، باطل دلیر بن گیا، دشمن نڈر ہوگئے اور لومڑی شیر بن گئی۔
کبھی آذر کی اولاد نے شرارت کی ۔۔۔تو کبھی عاد کی اولاد نے
کبھی بوجہل کی نسل نے ستم گری کی ۔۔۔تو کبھی بولہب کی اولاد نے
کبھی عتبہ کی ذریت نے ظلم پروری کی ۔۔۔ تو کبھی شیبہ کی اولاد نے
کبھی ابی ابن خلف کے چیلوں نے شقاوت دکھائی ۔۔۔ تو کبھی امیہ ابن خلف کی اولاد نے
کبھی مسیلمہ کذاب کے بیٹوں نے بد تمیزی کی ۔۔۔ تو کبھی اسود عنسی کی اولاد نے
کبھی طلیحہ کے حامیوں نے زبان درازی کی۔۔۔ تو کبھی تسلیمہ نسرین کی اولاد نے
کبھی مرزا قادیانی کے پٹھووں نے سرکشی کی ۔۔۔ تو کبھی سلمان رشدی کی اولاد نے
حضرات! کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ اس کایا پلٹ کی وجہ کیا ہے ؟ اس تغیروتبدل کا باعث کیا ہے؟ اس انقلاب عظیم کا سبب کیا ہے؟ اگر نہیں کیا، تو سنیے اور غور کیجیے کہ کل تک ہمارے پاس ایک عظیم دولت تھی، جو آج نہیں ہے، کل تک ہمارے پاس ایک فولادی قوت و طاقت تھی جو آج نہیں ہے،کل تک ہمارے پاس ایک روحانی زور تھا جو آج نہیں ہے، کل تک ہمارے پاس ایک بے مثال نعمت تھی جو آج نہیں ہے ، کل تک ہمارے پاس محمد رسول اللہ ﷺ کی ایک وراثت تھی جو آج نہیں ہے۔
وہ دولت ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔ ۔۔۔ دولت تھی
وہ نعمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔نعمت تھی
وہ طاقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔طاقت تھی
وہ قوت ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔جہاد کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوت تھی
وہ وراثت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہادکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وراثت تھی
جب تک ہمارے اندر جذبۂ جہاد موجود رہا، ہم ہر جگہ سربلند و سرفراز رہے ، ہر جگہ باعزت و با اعزاز رہے، لیکن جب سے ہمارے اندر بزدلی آگئی اور جذبۂ جہاد سے دل خالی ہوگیا، تو ہم ہر مقام پر ذلیل و خوار ہوئے اور ہر مقام پر رسوا و پشیمان ہوئے ۔
معزز سامعین کرام ! اگر ہمیں پھر سے وہی عہد رفتہ کی عظمت کی تلاش ہے، اگر ہمیں پھر سے اسی عزت و وقار کی تلاش ہے ، اگر ہمیں پھر سے اسی جام خلافت کی تلاش ہے ، تو اس کے لیے قرآن کو سینے سے لگانا ہوگا، ایمان کو مضبوط بنانا ہوگااور جہاد کے لیے ہمہ تن سر بکف اور کفن بردوش رہنا ہوگا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
اور
شراب کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
کے فلسفے پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر جہاد کا جذبہ پیدا فرمادے آمین،ثم آمین۔
وما علینا الا البلاغ