13 Oct 2018

Insan ki insaniat ke taen Zehniat

انسان کی انسانیت کے تئیں ذہنیت
ضرورت ہے کہ انسان اپنی انسانیت کا سبق قرآنی کواکے کردار سے سیکھے
محمد یاسین جہازی، جمعیۃ علماء ہند
9871552408


منطقی اصلاح کے مطابق انسان بھی حیوان کی ہی ایک قسم ہے؛ البتہ حیوان اور انسان میں فرق یہ ہے کہ انسان حیوان ناطق ہے اور حیوان حیوان غیر ناطق۔ اس فرق کے علاوہ ایک اورفرق بھی ہے ، جس کی وجہ سے اسے انسان کہا جاتا ہے۔سماجی ماہرین کا ماننا ہے کہ انسان کی انسانیت کا مظاہرہ اجتماعی زندگی میں ہوتاہے،اور اجتماعیت سماج کی تشکیل کرتی ہے، جس کے باعث حضرت انسان سماجی حیوان بھی کہے جاتے ہیں۔ یہ تینوں(ناطقیت، انسانیت اور سماجیت) خصوصیات انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر تفرق و برتری عطا کرتی ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ناطقی صلاحیت کی وجہ سے اپنے ہم جنس اور غیر جنس کے مافی الضمیر کو دیگر کسی بھی مخلوقات کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے ادا بھی کرسکتا ہے اور سمجھ بھی سکتاہے۔ انسانیت کی صفت اسے اپنے بھائیوں اوردوسری مخلوقات کے ساتھ ہمدردی ، غم گساری اور دکھ درد کو برابر سمجھنے اور شریک ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ اور سماجیت اسے دعوت دیتی ہے کہ اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے کے شریک کار اور معاون بن کر زندگی گذاریں، کیوں کہ اس کے بغیر انسانیت اور ناطقیت کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔ 
لیکن جب ہم اپنے آپ کو ان تینوں خصوصیات سے متصف سمجھتے ہوئے اپنی عملی زندگی اورمائنڈ سیٹ کا جائزہ لیتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم صرف ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے انسان کہے جاتے ہیں، ورنہ انسان پکارے جانے کے لیے کوئی بھی وصف ہمارے اندر باقی نہیں بچا ہے۔ ہمارے اندر کی ناطقیت، انسانیت اور سماجیت سب مرچکی ہے۔ اور ہم اس کوے کے اخلاق سے بھی زیادہ گرچکے ہیں، جس نے تینوں صفتوں سے محروم ہونے کے باوجود ایسی انسانیت اور اعلیٰ کردار کو پیش کیا کہ خوز زبانی ربانی اس کی مدح و توصیف میں رطب اللسان ہوئی اور قرآن میں اس کا ذکر فرماکر ہمیشہ ہمیش کے لیے ہمارے لیے نمونہ بنادیا۔ 
الدر المنثور میں سورہ مائد کی آیت نمبر ۳۱ کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ کا قول نقل کیا گیا ہے کہ شادی کے معاملہ کو لے کر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ روئے زمین پر چوں کہ پہلا قتل اور پہلی میت تھی، اس لیے قابیل کو سمجھ میں نہیں آیاکہ اس کے ساتھ کیا کریں۔ چنانچہ بہت پریشان ہوا۔ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے یہ منظر دکھایا کہ ایک کوا ایک دوسرے مردہ کوے کو لے کر آیا،اوراپنے پیر سے زمین کھود کر اس میں چھپا دیا، تاکہ اسے دوسرے چیر پھاڑ کرنے والے پرندے درندے اس کی بے حرمتی نہ کریں۔ اس منظر کو دیکھ کر قابیل بہت شرمندہ ہوا کہ اور کہا کہ 
یا ویلتا اعجزت ان اکون مثل ھذا الغراب فاواری سوء ۃ اخی۔
ہائے افسوس! مجھ سے اتنا نہ ہوسکا کہ میں اس کوے کے برابر ہوسکوں کہ میں اپنے بھائی کی نعش چھپاؤں۔ 
المختصر، اس کوے کی کہانی ہمارے انسان ، انسانیت اور مائنڈ سیٹ کے لیے بہت سبق افروز ہے کہ وہ جانور ہوکر بھی اپنے ہم جنس کے لیے مرنے کے بعد بھی عزت و احترام اور تعاون کا عملی کردار پیش کر رہا ہے، جب کہ ہمارا طرز عمل اس کے بالکل برخلاف ہے۔جانوروں اور پرندوں کو چھوڑ دیجیے،ہم اپنے ہی جنس اور بھائیوں کے ساتھ ایسا وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک کرتے ہیں کہ بے شعور مخلوق بھی ہماری اس حرکت پر پشیماں پشیماں ہوجاتی ہے۔ ا ور حیرت و استعجاب میں اس کی زبان حال گویا ہوتی ہے کہ ’’کیا یہ انسان ہے؟!‘‘۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں: 
(۱) برق رفتار لائف کی وجہ سے حادثات زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہم اپنی جلدی کے شوق کو پورا کرنے کے لیے کسی دوسرے کی زندگی کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور اسے ٹکر مارتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہماری اتنی سی بھی انسانیت نہیں جاگتی ہے کہ اگر اتفاقی طور پر حادثہ ہوگیا ہے تو چلو، کم از کم اسے ہاسپٹل پہنچا دیں اور اس کی زندگی بچانے کی کوشش کریں۔ متاثرہ شخص کی زندگی سے زیادہ اپنے تحفظات سامنے آجاتے ہیں اور ہم اسے تڑپتا چھوڑ کر آگے بھاگ جاتے ہیں۔ 
چلو مان لیتے ہیں کہ حادثہ چوں کہ خود سے ہوا تھا، اس لیے ہندستانی سماجی رد عمل اور طول طویل قانونی پروسیس کے خوف سے بھاگنا ہماری مجبوری ہے؛ لیکن ہم اس جذبہ کو کیا نام دیں گے ، جب پیچھے سے آنے والا کوئی دوسرا شخص یہ منظر دیکھ رہا ہوتا ہے اور وہ بھی کوئی پرواہ کیے بغیر تیزی سے آگے بھاگ جاتا ہے۔وہ کتنا پتھر دل ہوجاتا ہے کہ زخموں سے چور چوربدن کو دیکھ کر بھی انسانیت نہیں پھڑکتی اور بھاگنے کو ہی عقل مندی سمجھتا ہے!۔
چلو اسے بھی مان لیتے ہیں کہ وہ اپنی گاڑی سے جارہا ہے، اسے جانے کی جلدی ہے، اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ کسی دوسرے کی نگہہ داشت کرسکے، لیکن پھر اس جذبہ کو کیا کہیں گے کہ درجنوں پیدل چلنے والے افراد آس پاس ہوتے ہیں؛ لیکن یہ بھی دست تعاون دراز نہیں کرتے ۔ منظر دیکھ کر ذرا سا رکتے ہیں، گاڑی والوں کو چند کلموں سے نوازتے ہیں، پھر آگے بڑھ جاتے ہیں، حالاں کہ زخمی شخص زبان حال سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ بھائیو! میری مدد کرو، بھائیو! میری مدد کرو۔ لیکن اس کی آواز انسانیت کی جنگل میں فنا ہوجاتی ہے اور کوئی بھی نہیں سنتا۔ 
چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ یہ غریب آدمی قانون کے پروسیس سے گھبرا کر قریب نہیں جاتا، حالاں کہ اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کی مدد کرے؛ لیکن پھر اس جذبہ کا کیا مطلب ہوگا کہ راہ گیروں کا جم غفیر تڑپتا منظر کو دیکھ کر لطف اندوز تو ہوتا ہے، اس کی ویڈیو تو بناتا ہے، لیکن یہ کوشش نہیں کرتا کہ اسے جلد از جلد ہاسپیٹل پہنچادیں، تاکہ اس کی زندگی بچ سکے۔ 
چلو اسے بھی مان لیتے ہیں کہ ویڈیو گرافی بھی انسانیت نوازی کا ایک حصہ ہے کہ اس خونی منظر کو بعد میں بار بار دیکھیں گے اور اپنی سوئی ہوئی انسانیت کو جگائیں گے، پھر جب انسانیت جاگ جائے گی تو اگلے حادثہ پر پوری انسانیت کا مظاہرہ کریں گے۔ لیکن پہلی بات یہ کہ ہمارا یہ مقصد بالکل نہیں ہوتا؛ بالفرض مان لیتے ہیں کہ ہم انسانیت جگانے کے لیے ہی ویڈیو گرافی کر رہے ہوتے ہیں، تو پھر اس حرکت کی کیا تاویل کریں گے کہ اسے فورا سوشل میڈیا پر شئر کرتے ہیں اور اس میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ’’ بھائی یہاں حادثہ ہوگیا ہے، اسے زیادہ زیادہ سے شئر کرو۔‘‘ کوئی بھی یہ نہیں کہتا ہے کہ بھائی اس کی مدد کرو، اس کو جلد از جلد ہاسپیٹل پہنچاؤ۔
زیادہ تر حاثات کی رپورٹ کہتی ہے کہ اگر وقت پر اسے فرسٹ ایڈ مل جائے ، اور اسے فورا کسی قریبی ہاسپٹیل میں پہنچا دیا جائے تو شاید زندگی بچ سکتی ہے ۔ لیکن ہماری انسانیت اور مائنڈ سیٹ کوے کے اخلاق و کردار کو بھی شرمندہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہے اور زندگی کا روز مرہ کا حادثہ سمجھ کر بھلا دیتے ہیں۔ کوے نے تو اپنے مردہ بھائی کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ کیا اور ہم انسان ہوکر بھی مردہ تو دور؛ زندہ کی تڑپتی زندگی کو بچانے اور سہارا دینے کے لیے آگے نہیں آتے ؛ اس سے زیادہ ہماری انسانیت کے لیے چیلنج کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ 
مثالیں اور بھی ہیں: مساجد و مدارس ، مکاتب اور دیگر اداروں میں ملازمین کو ’’ تن خواہ ‘‘ دی جاتی ہے۔ ہم نے کبھی سوچا کہ ’’تن خواہ‘‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے اور ہم انھیں کیا دیتے ہیں!۔ ہمارا کردار تو یہ بتاتا ہے کہ جن ملازمین کے خون پسینے کی محنت و مشقت کی بدولت ہمارا کاروبار حیات قائم و دائم ہے، ہم کہیں اسے ’’تن خواہ‘‘ کے بجائے ’’سیلری‘‘ تو نہیں دے رہے ہیں ۔ اور پھر کیا سیلری دینا ہماری انسانیت کے ثبوت کے لیے کافی ہے؟؟!!!
شادی کے موقع پر لڑکی والوں سے جہیز کے مطالبات،کسی بھائی سے بھاری رقم قرض لے کر ادائیگی سے بے اعتنائی، حج و عمرہ جیسے مقدس عبادتوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ، ملازمت میں بوس کا منظور نظر بننے کے لیے دوسرے اسٹاف کا شکوہ، شکایت،ایک دوسرے کے اعتماد اور رشتے کو خراب کرنے کے لیے چغل خوری، لگائی بجھائی،ذاتی مفاد کے پیش نظر دھوکہ دہی و جعل سازی اور اس طرح کے سیکڑوں ایسے معاملات ہیں، جہاں ہم انسانیت اور اخلاق سے اتنے نیچے گرجاتے ہیں کہ جانور بھی ہماری ان حرکتوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں اور حیرت و استعجاب کا مجسمہ بن جائے گا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اگرہم انسان سے نہیں؛ توکم از کم جانور اور بالخصوص قرآنی کوے کے اعلیٰ کردار سے ہی سبق حاصل کرتے ہوئے یہ عہد کریں کہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے ، جو ہماری انسانیت کے لیے چیلنج اور اس نام کے لیے دھبہ ہو۔دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر انسانیت کا جذبہ بیدار کرے، آمین۔ 

Moza pat Masah ka Bayan

موزہ پر مسح کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (18) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
چمڑے کا موزہ یا وہ اونی ، سوتی موزہ جو موٹا اور اتنا گاڑھا ہو کہ اس میں پانی بھر دے تو نہ چھنے اور بغیر باندھے پنڈلی پر قائم رہے اور کم از کم ٹخنے کو چھپائے اور وضو کے بعد پہنا ہو اور اگر بے ترتیب وضو کیا ہو تو کم از کم پاؤں دھوکر پہنا ہو اور اس کے بعد وضو پورا کرلیا ہو ، اس کے بعد وضو ٹوٹ جائے تو اس دوسرے وضو میں پاؤں دھونے کے بجائے موزہ پر مسح کرلینا درست ہے ۔ اگر مقیم ہے تو موزہ پہننے کے بعد جس وقت حدث ہوا ہے اس وقت سے دوسرے دن اسی وقت تک یعنی چوبیس گھنٹے تک اس موزہ پر مسح کرسکتا ہے ۔ اور اگر مسافر ہے تو اس وقت سے تین دن تین رات تک برابر اس پر مسح کرسکتا ہے ۔ اگر اس درمیان میں ایک موزہ بھی نکال لے گا، یا موزہ کے اندر پانی بھر جائے گا، یا پاؤں کی چھوٹی تین انگلی کی مقدار موزہ پھٹ جائے گا تو مسح ٹوٹ جائے گااور دنوں پاؤں دھونا پڑے گا۔ 
موزہ پر مسح کا ثبوت حدیث مشہورہ ، بلکہ متواترہ سے ہوا ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مجھ سے ستر صحابہ کرامؓ نے بیان کیا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے موزہ پر مسح کیا ہے ۔ امام ابو یوسف ؒ نے فرمایا: مسح کی حدیثیں مشہور ہیں، اس سے کتاب اللہ کا نسخ جائز ہے۔ امام کرخیؒ نے فرمایا: جو شخص موزہ پر مسح کو جائز نہ سمجھے، اس کے کافر ہونے کا خوف ہے ، اس لیے کہ اس کے بارے میں حدیثیں متواتر کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہیں۔امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: موزہ پر مسح کے بارے میں میرے دل میں کوئی خلجان نہیں ہے ۔ اس بارے میں صحابہ رسول اللہ ﷺ سے چالیس حدیثیں ہیں، کچھ مرفوع کچھ موقوف۔ شیخ الاسلامؒ نے فرمایا: جو شخص موزہ پر مسح کرنے کو جائز نہ سمجھے، تو وہ گمراہ ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ سے اہل سنت والجماعۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو امام صاحبؒ نے فرمایا: جو شیخین کو (یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمرکو ) باقی صحابہ کرام پر فضیلت دے اور ختنین (یعنی حضرت عثمان اور حضرت علی) سے محبت رکھے اور موزہ پر مسح کو جائز سمجھے ۔ اور امام صاحب کا یہ قول اصل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے قول سے ماخوذ ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: 
ان السنۃ ان تفضل الشیخین و تحب الختنین و تریٰ المسح علیٰ الخفین۔ (کبیری)
سنت یہ ہے کہ شیخین کو فضیلت دے اور دونوں داماد سے محبت رکھے اور موزہ پر مسح کو جائز سمجھے۔ 
عن المغیرۃ بن شعبۃ قال: کنتُ مع النبی ﷺ فتوضأ فاھویت لانزع خفیہ، فقال: دعھما فانی ادخلتھما طاھرتین فمسح علیھما (متفق علیہ)
حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا تو آپ ﷺ نے وضو فرمایا، تو میں آپ ﷺ کے موزے نکالنے کے لیے جھکا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں کو چھوڑ دو، میں نے اس کو طہارت کی حالت میں داخل کیا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے دونوں پر مسح کیا۔ 
اس حدیث سے دو بات ثابت ہوئی : ایک یہ کہ موزہ پر مسح کرنا جب ہی درست ہے کہ دونوں کو طہارت پر پہنا ہو، یعنی وضو کے بعد پہنا ہو۔ دوسری بات یہ کہ بجائے پاؤں دھونے کے جو وضو میں فرض ہے صرف مسح کرلینا کافی ہے۔ 
عن ابی موسیٰ قال: ان رسول اللّٰہ ﷺ مسح علیٰ جوربیہ و نعلیہ۔ (رواہ الطحاوی رویٰ احمد والترمذی و ابو داؤد وابن ماجہ نحوہ) 
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پاتابے پر اور نعلین پر مسح کیا۔ 
یعنی اصل میں پاتابہ پر مسح کیا اور تبعا نعلین پر بھی کرلیا۔ ورنہ صرف نعلین پر مسح درست نہیں، اس لیے کہ وہ تو صرف اوپر سے فیتے ہوتے ہیں ، وہ پاؤں بالکل نہیں چھپاتے۔ معلوم ہوا کہ نہ صرف موزہ پر مسح جائز ہے ؛ بلکہ پاتابہ پر بھی جائز ہے اسی شرط کے ساتھ جو اوپر مذکور ہوا۔
عن ابی بکرۃ عن النبی ﷺ ، انہ رخص للمسافر ثلاثۃ ایام و لیالیھن و للمقیم یوما و لیلۃ اذا تطھر فلبس خفیہ ان یمسح علیھا۔ (رواہ الاثرم فی سننہ وابن خزیمہ والدار قطنی، و قال الخطابی ھو صحیح الاسناد ھٰکذا فی المنتقیٰ و صححہ ابن خزیمہ)
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے موزہ پر مسح کرنے کی مسافر کو تین دن اور تین رات کی رخصت دی اور مقیم کو ایک دن ایک رات کی، جب کہ پہلے وضو کرلے پھر موزہ پہنے۔ 
جب غسل کی حاجت ہو تو اس وقت موزہ پر مسح درست نہیں ؛ بلکہ موزہ نکال کر پاؤں دھونا ہوگا۔ 
عن صفوان بن عسال قال: کان رسول اللّٰہ یامرنا اذا کنا سفرا ان لانزع خفافنا ثلاثۃ ایام و لیالیھن الا عن جنابۃ و لکن من غائط و بول و نوم (رواہ النسائی والترمذی، و قال الترمذی حدیث صحیح و صححہ ابن خزیمہ) 
حضرت صفوان بن عسال بیان کرتے ہیں کہ ہم جب سفر میں ہوتے تو ہم کو رسول اللہ ﷺ حکم دیتے کہ تین دن اور تین رات موزہ کو نہ نکالیں، مگر جنابت سے ، لیکن پاخانہ پیشاب اور سونے کی وجہ سے موزہ پر مسح کا حکم دیتے۔ 
یعنی جنابت کی حالت میں موزہ کے نکالنے اور پاؤں دھونے کا حکم دیتے، لیکن پیشاب پاخانہ او ر سونے کی حالت میں موزہ پر مسح کا حکم دیتے ۔معلوم ہوا جنابت کی حالت میں موزہ کا نکالنا ضروری ہے۔

12 Oct 2018

Hindustan ke maojodah Halaat min hijrat ki baat


ہندستان کے موجودہ حالات میں ہجرت کی بات
مولانا عظیم اللہ صدیقی قاسمی، میڈیا انچارج جمعیۃ علماء ہند
بھارت کے موجودہ حالات میں  بھی شرعی ہجرت کی بات نہیں آنی چاہیے۔ایسے کوئی کچھ کہہ دے اور لکھ دے تو یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ لکھنے والا کون ہے اور اس کی کیا علمی حیثیت ہے ۔ کم ازکم وہ کسی معتبر ادارے سے عالم یا مفتی ہو ۔موجودہ دور میں بات بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور تل کا تاڑ بن جاتی ہے۔لکھنے والا کوئی ہو اگر بات آپ کے من کے مطابق ہے تو آ پ اسے خوب شےئر کرتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ممکن ہے کہ لکھنے والے نے فتنہ کھڑا کرنے کی نیت کی ہو۔
اگر علمی اور تحقیقی پیمانے پر ہجر ت کی بات کی جائے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انگریزوں کے دور میں بھی کسی عالم نے ہجرت کو لازم قرار نہیں دیا تھا ۔مغلیہ دور کے زوال کے بعد ۱۸۰۶ء میں اُس زمانہ کے فقیہ اعظم، عالم ربانی حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب قدس اللہ سرہٗ العزیز نے برملا فتویٰ صادر فرمایا کہ ہندستان دارالحرب ہوگیا ہے145145 (فتاویٰ عزیزی، جلد اوّل، ص۱۷) اسی طرح ۱۸۵۷ء کے بعد امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس اللہ سرہٗ العزیز سے استفسار کیا گیا، آپ کا جواب بھی یہی تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان اکابر رحمہم اللہ نے کہیں بھی مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی دعوت نہیں دی ۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تو ہندستان کو اس وقت بھی دارالامان ہی فرماتے تھے ۔حالاں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں کی عزت و آبرو زیادہ خطرے میں تھی اور اس کے مقابلے ترکی اور ایران کے پڑوسی ممالک میں مسلم بادشاہوں اور سلطانوں کی عظیم حکومتیں قائم تھیں اور آزادی وطن کے بعد جب مسلمانوں کو کسی ملکہ کے عطا کردہ مذہبی حقوق نہیں بلکہ خود اس کے اپنے حقوق حاصل ہیں توہجرت کی بات کیسے کی جاسکتی ہے ۔
اس سلسلے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی ہجرت مدینہ کو بنیاد بناتے ہیں اور چند ایسی احادیث بھی پیش کرتے ہیں جن میں غیر مسلم اور مشرکین کے ساتھ رہنے کی نفی کی گئی ہے ، مگر ان احادیث کا ایک پس منظر ہے اور اسے اس پس منظر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ اگر ان کا ایماندارانہ جائزہ لیا جائے تو ان کے استدلال، ہندستان کے موجودہ حالات پر منطبق نہیں ہوتے۔بالخصوص ہجرت رسول کو ہرگز اپنے حوالے میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔
واقعہ یہ ہے کہ اسلام کا آغاز ایسے وقت ہوا ،جب دنیا میں 146داعی145 کے علاوہ ایک بھی راہِ حق پر نہیں تھا۔ دعوت پر چند حضرات نے لبیک کہا۔ اگرچہ عرصہ تک یہ موقع نہ تھا کہ دوسروں کے سامنے علانیہ دعوت پیش کی جائے ،یا خود اپنے مسلمان ہونے کا کھلم کھلا اعلان کیا جائے، رفتہ رفتہ ۱۳؍ سال کے عرصہ میں یہ موقع آیا کہ دعوت کو قبول کرنے والوں کی ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہوگئی۔ جماعت کے افراد پوری طرح ترتیب پاچکے تھے ،مگر وہ منتشر تھے۔ ان کا کوئی نظم نہیں قائم ہوسکتا تھا۔ تب ایک آزاد مرکز کی ضرورت تھی، جہاں اس منتشر جماعت کی شیرازہ بندی ہوسکے اور اسلام کے اجتماعی احکام پر بھی عمل ہوسکے۔ چنانچہ مدینہ منورہ 146دارالہجرت145 قرار پایا۔ مسلمان یہاں پہنچے۔ تب ان کو اجتماعی احکام کی تلقین کی گئی۔ مثلاً اذان، جماعت، جمعہ، عیدین وغیرہ۔ اسلامی شعائر جو نظام اسلام میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، مدینہ منورہ پہنچ کر مشروع ہوئے۔ مدینہ طیبہ کے علاوہ کسی جگہ نہ اذان ہوسکتی تھی، نہ جماعت، نہ جمعہ اور نہ عیدین کا امکان تھا۔اس دَور میں فرض کیا گیا کہ جو اسلام میں داخل ہو، وہ لامحالہ ہجرت بھی کرے، تاکہ ان فرائض کو بھی ادا کرسکے جن کا تعلق اگرچہ سیاست، معاشرت، یا اقتصادیات سے نہیں؛ بلکہ صرف عبادات سے ہے، لیکن ان کی ادائیگی کے لیے اجتماعی حیثیت کی ضرورت ہوتی ہے۔رفتہ رفتہ یہ آزاد مرکز ایک جنگی محاذ بھی بن گیا اور سب طرف سے مخالفین اسلام کی کوششیں ہونے لگیں کہ اس محاذ کو صفحہ ہستی سے نیست نابود کردیا جائے۔ اس صورت میں لامحالہ مذہبی، سیاسی اور اخلاقی فرض تھا کہ اس محاذ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے۔ اور اس کا حامی جہاں بھی کوئی ہو ،سمٹ کر وہاں پہنچ جائے۔ یہی دَور تھا جب ہجرت فرض کی گئی اور ترک ہجرت کو گناہ عظیم قرار دیا گیا۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
فرشتے جن لوگوں کی جان اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کررہے تھے (روح قبض کرنے کے بعد) فرشتے اُن سے پوچھیں گے: 146تم کس حال میں تھے145 (یعنی دین کے لحاظ سے تمھارا کیا حال تھا) وہ جواب میں کہیں گے (ہم کیا کرسکتے تھے!) ہم تو دَبے ہوئے کمزور تھے۔ (نہ آزادانہ غور و فکر کرسکتے تھے اور نہ اپنی رائے اور اعتقاد پر عمل کرسکتے تھے) فرشتے کہیں گے : کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ ہجرت کرکے چلے جاتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ بہت بُرا ٹھکانا ہے، مگر وہ مجبور و بے بس مرد عورتیں اور بچیّ جو کوئی چارہ نہیں رکھتے اور نہ (ہجرت کی) کوئی راہ پاتے ہیں، تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ (ان کی معذوریوں پر نظر فرماتے ہوئے) ان کو معاف فرمادیں گے۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔145145(سورہ: النسا ء، آیت: ۹۹۔۹۷، پ:۵)
تقریبا سات سال تک ایسے حالات رہے لیکن رمضان ۸ھ میں جب مکہ معظمہ فتح ہوا اور مدینہ منورہ کا اسلامی محاذ سارے حجاز پرچھا گیا تو یہ دور ختم ہوگیا۔ اب ہجرت کی فرضیت جو عارضی تھی، وہ بھی ختم ہوگئی۔چنانچہ خاتم الانبیاو المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان فرمایا:لَاہِجرۃَ بعدَ الفتحِ، ولٰکن جہادٌ و نیۃٌ واذا اسْتُنفِرْتُمْ فَانْفِرُوا۔ (بخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب فضل الجھاد والسیر) (فتح مکہ) کے بعد ہجرت نہیں رہی، اب جہاد اور نیت باقی ہے اور جب شرکت جہاد کے اعلان عام کے بعد تم سے مطالبہ کیا جائے، تو تم جہاد میں شریک ہونے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس پس منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:لاہجرۃَ الیومَ کان المومنون یَفِرُّ احدُھُم بدینہ الی اللّٰہ ورسولِہ ﷺ مَخافۃَ ان یُفتَنَ فامَّا الیومَ فقد اظْہَرَ اللّٰہُ الاسلامَ والیومَ یعبُدُ ربَّہ حیثُ شاءَ۔(بخاری، کتاب المناقب، باب ھجرۃ النبی ﷺ و اصحابہ الٰی المدینۃ)
(آج ہجرت کا حکم نہیں رہا (ایک دَور ایسا گزرا ہے) کہ مسلمان اپنے دین کو لے کر اللہ اور رسولؐ کی طرف بھاگتے تھے، اس خوف سے کہ اگر وہ وطن میں رہیں، تو کہیں آزمائش میں نہ پڑجائیں (یعنی دُشمنانِ دین کا کوئی منصوبہ کامیاب ہوجائے اور یہ معاذ اللہ ترک دین پر مجبور ہوجائیں) لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو پھیلادیا ہے اورآج مومن جہاں چاہے، اپنے رب کی عبادت کرسکتا ہے۔پہلے ہجرت پر بیعت لی جاتی تھی، لیکن اب حضرت مجاشع بن مسعودؓ حاضر خدمت ہوتے ہیں اور ہجرت پر بیعت کرنا چاہتے ہیں، تو ارشاد ہوتا ہے:لاہجرۃَ بعد فتحِ مکۃَ ولکن اُبایِعُہ علی الاسلامِ (بخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب لاھجرۃ بعد الفتح)(فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں رہی ،البتہ اسلام پر میں اُن سے بیعت لوں گا۔)
اس کے بعد جنگ کے سلسلہ میں بھی ہدایت یہ ہوئی:
(جب تمھارا مشرک حریفوں سے مقابلہ ہو،تو ان کو تین باتوں میں سے ایک کی دعوت دو۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اگر وہ قبول کرلیں، تو تم بھی منظور کرلو۔ اور جنگ کرنے سے باز رہو۔ ان کو اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ قبول کرلیں، تو تم بھی منظور کرلو۔ اور جنگ کرنے سے باز رہو۔پھریہ کہ وہ اپنے ملک کو (دارالحرب کو) چھوڑ کر دارالمہاجرین میں آجائیں۔ اور ان کو آگاہ کردو کہ اگر انھوں نے ایسا کرلیا، تو ان کو وہی رعایتیں ملیں گی، جو مہاجرین کے لیے ہیں اور ان پر وہی ذمہ داریاں ہوں گی، جو مہاجرین پر ہیں۔ اور اگر وہ اپنے ملک سے منتقل ہونے پر آمادہ نہ ہوں، تو ان کو بتادو کہ وہ اعراب مسلمانوں کی طرح سے ہوں گے، (جو جہاد وغیرہ میں شریک نہیں ہوتے ؛بلکہ اپنے دیہات میں رہ کر دیہاتی زندگی گزارتے ہیں۔ جو احکام ان اعراب پر جاری ہوتے ہیں، وہ ان پر بھی جاری ہوں گے۔) اور غنیمت اور سرکاری جاگیروں کی آمدنی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا؛ البتہ اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں، تو غنیمت میں وہ حصہ دار ہوں گے۔۱ (ترمذی شریف، ص۱۹۵، ج۱۔ ابو داود، کتاب الجھاد، باب فی دعاء المشرکین)
یہ حدیث واضح کررہی ہے کہ:(۱)دیہاتی مسلمانوں پر لازم نہیں رہتا تھا کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچیں اور اسلامی فوج میں شامل ہوں۔(۲)اسی طرح دارالحرب کے باشندے اگر مسلمان ہوں تو ان پر لازم نہیں ہے کہ وہ ہجرت کرکے دارالمہاجرین میں پہنچیں۔
اب اس کے باوجود یہ ایک عام آدمی یہ سوال کرسکتاہے کہ ہندستان کی ایسی بہت ساری ریاستیں ہیں جہاں ایک طبقہ اس کے درپے ہے کہ ہندو تہذیب کو حاوی کرے، عوام کے رجحانات یہ ہیں کہ ذبیحۂ گاؤ ایک فتنہ بن گیا ہے، جس کے نتیجہ میں فریضۂ قربانی کی ادائیگی میں دشواریاں پیدا ہوتی ہیں، اسی بعض گاؤں میں جیسا کہ ہریانہ وغیرہ کے حالات ہیں نماز پنچگانہ پر پابندی لگادی گئی ہے ، ایسے حالات میں مسلمان کیا کرے ؟ اس کا راست جواب یہ ہے کہ اگر کچھ افراد یا کوئی جماعت ملک کے دستورِ اساسی کے برخلاف کوئی نعرہ لگائے یا حکم جاری کرے تو اعتبار دستورِ اساسی کا ہوگا۔ اس جماعت کے نعرے قابلِ التفات نہ ہوں گے، کیوں کہ اربابِ اقتدار اور اصحابِ حل و عقد کے قول و فعل کا اعتبار ہوتا ہے۔ اَنَّ المُعتَبرَ فی حکمِ الدارِ ہُوَ السلطانُ فی ظُہُورِ الحُکْمِ۔ (ص۱۰، ج۴۔ شرح السیر
الکبیر، ابواب سھمان الخیل والرجالۃ فی الغنائم، باب الموادعۃ) اس لیے ایسی طاقتوں سے گھبرا کریا بزدل ہو کر ہم اپنے وطن کو نہیں چھوڑ سکتے بلکہ صبرو استقلال کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جائے ۔ الحمد للہ ہمارے اکابر رحمہ اللہ نے ہر دور ایسے حالات کا مقابلہ کیا ہے ، بلکہ یہ دین اسلام کی فطرت ہے کہ اسے جتنا دبایا جائے وہ اتناہی پھلتااور پھولتاہے۔صبر واستقلال کی وجہ سے ہی ہم نے اس ملک کو چنا جو دعوتی ناحیہ سے ہماری ذمہ داری بھی تھی اور جتنی اسلام کو ترقی دور ظلمت میں ہوئی،ہندستان میں دیوبند، سہارنپور، دہلی، فرنگی محل، لکھنؤ، رامپور، ٹونک، گنگوہ، تھانہ بھون وغیرہ سے نقلی و عقلی علوم اور طریقت و معرفت کے چشمے جاری کیے۔دارالعلوم دیوبند، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، مظاہر العلوم سہارنپور، جامعہ ملیہ، جامعہ قاسمیہ مراد آباد، شمس الہدیٰ پٹنہ، جامعہ اسلامیہ ڈابھیل، ندوۃ العلماء لکھنؤ، دارالمصنّفین اعظم گڑھ، ندوۃ المصنّفین دہلی، خدا بخش لائبریری پٹنہ اور بہت سے چھوٹے بڑے تعلیمی اور تبلیغی ادارے، کتب خانے اور لائبریریاں ان علاقوں میں قائم ہوئیں، جہاں مسلمان آٹھ دس فی صدی سے زائد نہ تھے۔ اس لیے صبر و استقلال کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا جائے اور اپنے ظاہری و باطنی اعمال و اطوار سے خود کو بطور داعی پیش کیا جائے ، یہی دین اسلام میں مستحسن اور مطلوب ہے

11 Oct 2018

Nawaqiz-e- Tayammom


نواقض تیمم

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (17) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
جس سے وضو ٹوٹتا ہے ، اسی سے تیمم بھی ٹوٹتا ہے اور وضو کے لائق پانی پر قادر ہوجانے سے وضو کا تیمم ٹوٹ جاتا ہے ۔ اور اگر غسل کا تیمم ہے تو غسل کے لائق پانی پر قادر ہونے سے غسل کا تیمم ٹوٹے گا۔ اگر پانی کم ملا تو تیمم نہیں ٹوٹے گا۔ 
حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
ان الصعید الطیب وضوء المسلم و ان لم یجد الماء عشر سنین فاذا وجد الماء فلیمسہ بشرہ فان ذٰلک خیر۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد، زجاجہ، ۱۴۷) 
بے شک مسلمان کا وضوپاک زمین ہے ، اگر چہ دس سال تک پانی نہ پائے ۔ پھر جب پانی پایا جائے تو اس کو بدن پر استعمال کرے اور یہ بہتر ہے۔
یعنی پانی ملنے پر تیمم ٹوٹ جاتا ہے ۔ اب پانی سے وضو کرے اور غسل کی حاجت ہے تو غسل کرے ۔ پانی پر قدرت پاتے ہوئے تیمم سے نماز صحیح نہیں۔ اگر درمیان نماز میں پانی مل جائے تو وہ نماز بھی باطل ہوجاتی ہے ۔ وضو کرکے نماز پھر سے پڑھے۔ 
اگر راستہ میں پانی ملے ، لیکن اس کو خبر نہ ہو یا خبر ہو لیکن اس کے استعمال پر قادر نہ ہو، جیسے چلتی ریل سے پانی ، ندی، یا تالاب میں دیکھا تو اس سے تیمم نہیں ٹوٹے گا۔
قسط نمبر(18) کے لیے کلک کریں

10 Oct 2018

Sonan-e- Tayammom

سنن تیمم

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (16) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
تیمم کے اندر پانچ سنتیں ہیں: 
(۱) بسم اللہ سے شروع کرنا۔
(۲) ترتیب۔ پہلے منھ کا مسح کرے پھر ہاتھ کا۔
(۳) پے درپے کرنا۔ 
(۴) ہاتھ زمین پر رکھ کر پھر آگے لانا اور پیچھے لے جاکر گرد جھاڑنا، تاکہ صورت خراب نہ ہوجائے۔ 
(۵) انگلیوں کا زمین پر ہاتھ مارتے وقت کشادہ رکھنا۔ 
تیمم کی ترکیب یہ ہے کہ انگلیوں کو کشادہ رکھ کر زمین پر ہاتھ مارے ۔ اگر زیادہ گرد لگ گیا ہو تو اس کو جھاڑے اور پورے منھ پر ہاتھ پھیرے جہاں تک وضو میں دھویا جاتا ہے ۔ اور دوبارہ ہاتھ زمین پر مارے اور چھنگلیاں کی طرف سے تین انگلیاں بائیں ہاتھ کی لے کے تھوڑی ہتھیلی کے ساتھ دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی سرسے کہنی تک ظاہر ہاتھ کا مسح کرے ۔ اس کے بعد شہادت کی انگلی اور انگوٹھے اور باقی ہتھیلی سے باطن ہاتھ کا انگلیوں کے سرے تک مسح کرے۔ اسی طرح دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا مسح کرے ۔ اور انگلیوں کا خلال کرے، بس تیمم ہوگیا۔ تیمم میں سر اور پاؤں کا مسح نہیں ہے۔ 
اگر پانی ملنے کی امید ہو تو تیمم میں تاخیر کرنا مستحب ہے۔
عن علی قال: اذا لم یجد الماء فلیؤخر التیمم الیٰ الوقت الآخر۔ (رواہ عبد الرزاق، زجاجہ ۱۴۹)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: جب پانی نہ ملے تو تیمم کو اخیر وقت تک موخر کرے۔
یعنی جب تک مستحب وقت ہے، وہاں تک تاخیر کرے، مکروہ وقت تک تاخیر نہ کرے۔ اگر تیمم کرکے نماز پڑھ لی، پھر وقت ہی کے اندر پانی مل گیا تو نماز کے دوہرانے کی ضرورت نہیں، پہلی نماز کافی ہے ۔ حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ دو شخص سفر میں نکلے ، پس نماز کا وقت ہوااور ان دونوں کے پاس پانی نہیں تھا ، تو دونوں نے پاک زمین سے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ پھر وقت کے اندر ہی پانی مل گیا ، تو ان دونوں میں سے ایک نے وضو کرکے نماز لوٹائی اور دوسرے نے نماز نہیں لوٹائی۔ پھر دونوں آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا تذکرہ کیا ، تو آپ ﷺ نے اس شخص سے جس نے نماز نہیں لوٹائی فرمایا: 
اصبتَ السنۃ و اجزئتک صلاتک۔ 
تو نے سنت کو پائی اور تیری نماز کافی ہوئی ۔
اور جس نے وضو کیا اور نماز لوٹائی ، اس سے فرمایا: 
لک الاجر مرتین
تجھ کو دوہرا ثواب ہوا۔ یعنی اول فرض کا اور دوسرا نفل کا۔ (ابو داؤد، دارمی)
اگر کسی نے پانی دینے کا وعدہ کیا ہو تو تاخیر کرنا واجب ہے ، اگرچہ قضا کا خوف ہو۔ اگر نزدیک میں پانی کا گمان ہو، جان یا سامان کے ضائع ہونے کا عذر نہ ہو اور امن ہو تو چار سو قدم تک پانی ڈھونڈھنا واجب ہے ، ورنہ واجب نہیں۔ 
اگر کسی کے پاس پانی ہو اور ایسی جگہ میں ہو کہ وہاں پانی دینے میں کوتاہی نہیں کرتا ہو ، اس سے مانگنا واجب ہے۔ مانگنے پر نہ دے تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔ اگر قیمت سے دیتا ہو اور پاس ضروری اخراجات سے زائد پیسہ ہو اور واجب قیمت لیتا ہو تو خرید کر وضو کرنا واجب ہے، ورنہ نہیں۔ 
وضو کی طرح ایک تیمم سے کئی وقتوں کی نمازیں اسی طرح فرض، نفل ؛ سب پڑھ سکتا ہے، ہر وقت کے لیے تیمم کرنا ضروری نہیں ۔ تیمم کی آیت میں آگے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج و لٰکن یرید لیطھرکم و لیتم نعمتہ علیکم لعلکم تشکرون۔ (المائدہ، ۶)
اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں ہے کہ تم کو تنگی میں ڈالے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تم کو پاک صاف رکھے اور یہ کہ تم پر اپنا انعام تام فرمائے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ 
معلوم ہوا کہ تیمم سے بھی طہارت کامل حاصل ہوتی ہے اور یہ خدا کی بڑی نعمت ہے، اسی لیے تیمم کرنے والا وضو کرنے والی کی امامت کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح سے طہارت پانی سے حاصل ہوتی ہے، پانی پر قادر نہ ہونے کی صورت میں تیمم سے بھی طہارت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر آدھا یا آدھے سے زیادہ بدن زخمی ہو اور پانی نقصان دیتا ہو تو غسل کے بجائے تیمم کرے ۔ اور اگر آدھے سے زیادہ تندرست ہو تو اس کو دھوئے اور زخم پر مسح کرے۔
قسط (17) کے لیے کلک کریں

9 Oct 2018

Faraez-e-Tayammom

فرائض تیمم

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (15) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
تیمم کے اندر تین فرض ہیں: 
(۱) اول طہارت کی نیت یا جس کے لیے تیمم کر رہا ہو اس کی نیت۔ مگر نماز اسی تیمم سے صحیح ہے جس میں طہارت کی نیت کی جائے، یا پھر ایسی عبادت مقصودہ کی نیت سے کی جائے کہ وہ عبادت بغیر وضو کے صحیح نہ ہو، جیسے سجدہ تلاوت، صلوۃ جنازہ۔
اگر قرآن کو چھونے یا مسجد میں داخل ہونے کے لیے تیمم کرے گا تو اس تیمم سے نماز پڑھنا درست نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ عبادت مقصودہ نہیں ۔ اور اگر عبادت مقصودہ تو ہو مگر وہ ایسی عبادت نہ ہو کہ بغیر وضو کے درست نہ ہو جیسے قرآن کی زبانی تلاوت، تو قرآن کی تلاوت کی نیت سے وضو کا تیمم کرے گا تو اس سے بھی نماز پڑھنا درست نہ ہوگا۔ البتہ اگر غسل کا تیمم کرکے قرآن تلاوت کرے ، تو اس سے نماز پڑھنا درست ہے ، کیوں کہ حالت جنابت میں قرآن کا زبانی پڑھنا درست نہیں ہے ۔ 
(۲) ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارکر چہرہ پر وہاں تک ملنا جہاں تک وضو میں دھویا جاتا ہے۔ 
(۳) دوبارہ زمین پر ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر کہنی تک ملنا جہاں تک وضو میں دھویا جاتا ہے ۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
التیمم ضربۃ للوجہ وضربۃ للذراعین الیٰ المرفقین۔ (رواہ الدارمی، و قال رجالہ کلھم ثقات و رویٰ الحاکم مثلہ و قال صحیح الاسناد، زجاجہ ۱۴۸)
تیمم ایک ضرب چہرہ کے لیے ہے اور دوسرا ضرب دونوں ہاتھوں پر کہنی تک ملنے کے لیے ۔ 
اگر چہرہ اور ہاتھوں میں سے کوئی جگہ ناخن کے برابر ایسی رہ جائے جہاں ہاتھ نہ پہنچا تو تیمم صحیح نہیں ہوگا۔
قسط نمبر (16) کے لیے کلک کریں

8 Oct 2018

Tayammom Ka Bayaan

تیمم کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (14) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-05-1919_00-06-1976) نور اللہ مرقدہ
تیمم کے معنی قصد اور ارادہ کے ہیں۔ چوں کہ اس سے طہارت ، ارادہ کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے، اس لیے اس کو تیمم کہتے ہیں۔
وضو و غسل کی حاجت ہو اور وضو و غسل کے لائق پانی پر قادر نہ ہو تو اس صورت میں وضو و غسل کے بجائے تیمم کرلینے سے انسان پاک ہوجاتا ہے۔ اگر اتنے پانی پر قادر ہو کہ اس سے بعض اعضا تو دھو سکتے ہیں، پورا وضو نہیں ہوسکتا ہے تو بعض اعضا کو نہ دھوئے ؛ بلکہ تیمم کرے ۔ اگر وضو و غسل دونوں کی حاجت ہے اور پانی اتنا ہی ہے کہ اس سے وضو تو کرسکتا ہے؛ مگر غسل نہیں ہوسکتا ہے تو وہ دونوں کا تیمم کرے۔ 
پانی پر قادر نہ ہونے کی مختلف صورتیں ہیں: 
(۱) پانی ہے؛ مگر اس کا استعمال اس کو نقصان پہنچاتا ہے : بیمار ہونے کا ڈر ہے ، یا صحت میں تاخیر کا اندیشہ ہے ، یا بیماری بڑھ جانے کا خوف ہے ، یا ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ 
(۲) پانی ہے ؛ مگر کھانے پینے کی حاجت سے زائد نہیں ہے۔ اگر پانی وضو یا غسل میں استعمال کرتا ہے تو بھوک پیاس سے ہلاک ہوتا ہے۔ 
(۳) پانی پاس نہیں ہے، پانی سے ایک میل یعنی چار ہزار قدم دور ہے ، یا پانی ہے مگر وہاں تک پہنچ نہیں سکتا، اس لیے کہ وہاں دشمن یا درندہ ہے ، یا کنویں میں ہے مگر ڈول رسی نہیں ہے جس سے نکال سکے۔ یا دوسرے کے پاس پانی ہے اور مانگنے پر بھی نہیں دیتا ہے۔ یا نزدیک میں پانی ملنے کا گمان ہے اور اس گمان پر چار سو قدم تک ڈھونڈھتا ہے ، پھر بھی نہیں ملتا ہے ۔ یا کوئی پانی مفت تو نہیں دیتا، وہ بیچتا ہے اور جو قیمت چاہے اسی قیمت میں دیتا ہے، لیکن پاس میں ضرورت سے زائد پیسے نہیں ہیں ۔ یا پیسے تو ہیں، لیکن قیمت واجبی سے زائد مانگتا ہے، ان تمام صورتوں میں ان کے لیے تیمم کرنا درست ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
ان کنتم مرضیٰ او علیٰ سفر او جاء احدمنکم من الغائط او لامستم النساء فلم تجدوا ماء ا، فتیمموا صعیدا طیبا فامسحو بوجوھکم و ایدیکم (النساء، آیۃ:۴۳)
اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی استنجا سے فارغ ہوکر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے صحبت کی ہو، پھر پانی نہ پاؤ، تو جنس زمین سے تیمم کرو اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرو۔ 
اس آیت کے اندر پانی کا عذر تین صورتوں سے بتایا: 
(۱) مریض ہو، پانی ضرر کرتا ہے۔ 
(۲) سفر درپیش ہے دور تک پانی ملنے کی امید نہیں ہے ۔ پاس میں پانی کھانے پینے کی ضرورت کے لیے ہے ، اس لیے کہ مسافر کھانے پینے کے لیے پانی ضرور رکھتا ہے ، ورنہ سفر میں ہلاک ہوجائے گا۔ 
(۳) پانی موجود ہی نہیں۔ 
اور طہارت کا ضروری ہونا دو صورتوں میں بتایا:
(۱) پیشاب پاخانہ سے آیا ہے وضو کی حاجت ہے۔
(۲) عورت سے صحبت کی ہے ، غسل کی حاجت ہے ۔ الغرض اس آیت کے اندر نجاست حکمیہ سے خواہ حدث اصغر ہو یا حدث اکبر ، پانی پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرنا بتایا ہے ۔ 
اگر وضو میں مشغول ہونے سے کسی ایسی عبادت کے فوت ہونے کا ڈر ہو، جس کا کوئی بدل نہ ہو، یا اس کی قضا نہ ہوتو اس وقت پاس پانی رہتے ہوئے بھی تیمم کرکے اس عبادت میں شریک ہوسکتا ہے ، جیسے عیدین کی نماز ، جنازہ کی نماز غیر ولی کے لیے۔
عن بن عباس قال: قال رسول ﷺ : اذا جاء ت الجنازۃ و انت علیٰ غیر وضوء فتیممْ۔ ( رواہ ابن عدی، زجاجہ ۱۴۹)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب جنازہ آجائے اور تیرا وضو نہ ہو تو تیمم کرلو۔ 
یعنی تیمم کرکے جنازہ کی نماز میں شریک ہوجاؤ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : جب کہ جنازہ کی نماز فوت ہونے کا ڈر ہواور تیرا وضو نہ ہو تو تیمم کراور نماز پڑھ۔ (رواہ ابن ابی شیبہ و رجالہ رجال مسلم الاالمغیرۃ وھو یحتج بہ قالہ الزیلعی، زجاجہ ۱۴۹)
لیکن ولی کے لیے جائز نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کی اجازت کے بغیر دوسرا پڑھا نہیں سکتا ہے ۔ اور اگر پڑھا دے گا تو اس کو دوبارہ پڑھنے کا حق ہے ، اس لیے ولی کی نماز جنازہ فوت ہونے کا احتمال نہیں ہے ۔ اسی طرح جمعہ اور پنج وقت نماز کے لیے وقت تنگ ہونے سے یا جمعہ کے چھوٹنے کے خوف سے تیمم جائز نہیں، اس لیے کہ جمعہ کے بدلے میں ظہر ہے اور ادا کے بدلہ میں قضا ہے۔ 
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ذات السلاسل کی جنگ میں بھیجا۔ مجھے سخت سردی کی رات میں احتلام ہوگیا۔ مجھے خوف ہوا کہ اگر نہاؤں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا، تو میں نے تیمم کیا اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ جب میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ائے عمرو! تونے اپنے ساتھیوں کو ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھائی؟ میں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ!میں سخت سردی کی رات میں محتلم ہوا، میں ڈرا اگر غسل کروں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا اور میں نے اللہ کا قول یاد کیا کہ
لاتقتلوا انفسکم ان اللّٰہ کان بکم رحیما۔ (النساء، ۲۹)
اپنے کو ہلاک مت کرو، اللہ تم پر بڑا مہربان ہے۔ 
تو میں نے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ رسول اللہ ﷺ اس پر ہنسے اور کچھ نہ فرمایا( احمد، ابو داود، حاکم ، منذر، ابن ابی حاتم) زجاجہ، ۱۴۸)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر تندرست آدمی کو بھی پانی نقصان پہنچائے تو تیمم کرنا درست ہے ؛اگرچہ غسل کا تیمم ہو۔ اور ایسی عبادت کے لیے بھی تیمم جائز ہے، جس کے لیے وضو کرنا مستحب ہے، شرط نہیں ہے، جیسے زبانی قرآن شریف پڑھنا، یا سلام کرنا، یا جواب دینا وغیرہ۔ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص آں حضرت ﷺ کے پاس سے ایک گلی میں گذرا اور نبی ﷺ پیشاب یا پاخانہ سے نکلے تھے کہ اس نے سلام کیا، تو آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ دیوار پر مارے، اس سے چہرہ کا مسح کیا،پھر دوبارہ ہاتھ مارے اور اپنے ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کیا، پھر اس شخص کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ تجھے سلام کا جواب دینے سے بے وضو مانع ہوا۔
( اس کو ابو داؤد و طبری نے روایت کیا ہے۔ نور الہدایہ، ۵۲)
تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری نہیں؛ بلکہ جنس زمین سے کوئی چیز ہونا ضروری ہے۔ جنس زمین وہ ہے کہ نہ آگ میں جل کر راکھ ہواور نہ پگھلے، جیسے مٹی، مٹی کی بنی ہوئی کچی پکی اینٹیں، برتن، چونا ،گچ،ہر قسم کے پتھر، بالو وغیرہ۔ 
سونا چاندی، رانگ ، سیسہ وغیرہ دھات سے تیمم جائز نہیں ، کیوں کہ یہ سب چیزیں آگ سے پگھلتی ہیں۔ اور لکڑی کوئلہ وغیرہ سے بھی جائز نہیں ، کیوں کہ یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح راکھ سے بھی تیمم جائز نہیں؛ الغرض جو جنس ارض سے نہیں، اس سے تیمم جائز نہیں، مگر یہ کہ اس پر گرد ہو تو اس گرد سے تیمم جائز ہوگا۔ 
عن علی و عبد اللّٰہ بن عمرو و عن ابی ھریرۃ و جابر و ابن عباس و حذیفۃ و انس و ابی امامۃ و ابی ذر قالوا: ان النبی ﷺ قال: جعلت لی الارض کلھا مسجدا و طھورا۔ (رواہ الترمذی و رویٰ البخاری نحوہ، زجاجہ، ج؍۱، ص؍۱۴۷)
تمام روئے زمین کے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے پاکی کی دو صورتیں بتائیں: 
(۱) پانی کے استعمال پر قدرت ہے تو پانی سے طہارت حاصل کرنا ۔ 
(۲) اگر پانی پر قدرت نہ ہو تو تیمم کرنا۔ 
اب اگر تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری ہوتا تو بہت سے ریگوں اور پہاڑوں کے باشندے جہاں مٹی کا نام و نشان نہیں ہے ، پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم سے بھی محروم ہوجاتے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تیمم کے لیے ایک ایسا لفظ استعمال فرمایا، جس سے کوئی محروم نہ ہوسکے اور وہ لفظ صعید ہے ۔ صعید کے معنہ وجہ ارض کے ہیں، یعنی زمین کے اوپر کا حصہ، خواہ مٹی ہو یا بالو، یا پتھر، یا کنکر، یا کوئی دوسری چیز جو جنس زمین سے ہے ؛ مگر پاک ہونا شرط ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے صعیدا طیبا فرمایا ہے ۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
ان الصعید الطیب وضوء المسلم و ان لم یجد الماء عشر سنین فاذا وجد الماء فلیمسہ بشرہ فان ذٰلک خیر۔ (رواہ احمد والترمذی و ابو داؤد، زجاجہ، ۱۴۷) 
پاک جنس زمین مسلمان کا وضو ہے ، اگر چہ دس سال تک (کھانے پینے کی حاجت سے زائد) پانی نہ پائے ۔ پھر جب پانی مل جائے اس کا استعمال کرے اور یہ بہتر ہے۔ (اور ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (نور الہدایہ، ص؍ ۵۴)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح پانی سے آدمی پاک ہوتا ہے ، اسی طرح تیمم سے بھی پاک ہوتا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں برسوں تیمم سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور پانی ملنے پر خواہ نماز کی حالت میں ملے یا نماز سے باہر ؛ ہر حال میں تیمم کو توڑ دیتا ہے۔ اب پانی سے وضو غسل کرنا ضروری ہے۔ 
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ کچھ لوگ بادیہ نشین آں حضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور انھوں نے عرض کیا کہ ہم لوگ تین چار ماہ ریگوں میں رہتے ہیں اور ہم میں جنبی و حیض و نفاس والے بھی ہوتے ہیں اور ہم پانی (ضرورت سے زائد) نہیں پاتے، تو آپﷺ نے فرمایا: 
علیکم بالارض، ثم ضرب بید ہ الارض بوجھہ ضربۃ واحدۃ ثم ضرب ضربۃ اخریٰ، فمسح بھا علیٰ یدیہ الیٰ المرفقین۔ 
زمین سے تیمم کرنا تم پر لازم ہے۔ پھر آپ ﷺ نے تیمم کرنا بتایا: ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارا چہرہ پر ملنے کے لیے اور دوسری مرتبہ زمین پر ہاتھ مارا اور اس سے دونوں ہاتھوں کو کہنی تک ملا۔ (احمد، طبرانی، ابو یعلی، زجاجہ ۱۴۷)
اس حدیث سے چند امور معلوم ہوئے: 
(۱) تیمم زمین سے کرنا چاہیے۔ اور زمین کا اطلاق صرف مٹی پر نہیں ہوتا؛ بلکہ پتھر، بالو کو بھی زمین کہتے ہیں ۔ 
اور یہ لوگ ریگستان میں رہنے کا حکم دریافت کرتے ہیں ، جہاں مٹی نہیں، بالو ہی بالو ہوتا ہے تو وہاں تیمم بھی بالو ہی پر ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ صرف مٹی سے تیمم جائز ہے؛ بلکہ بالو وغیرہ پر بھی تیمم جائز ہے۔ اب اگر کسی حدیث میں مٹی کا ذکر ہے تو وہ اتفاقی ہے، احترازی نہیں۔ 
(۲) تیمم حدیث اصغر اور حدث اکبر دونوں سے ہی ہوتا ہے ، جیسا کہ انھوں نے جنابت اور حیض و نفاس کا حکم دریافت فرمایا۔ 
(۳) دونوں کا تیمم ایک ہی طرح سے ہے، یعنی دو بار زمین پر ہاتھ مارنا۔ ایک بار منھ پر ملنا اور دوسری بار دونوں ہاتھوں پر کہنی تک ملنا۔
قسط نمبر(15) کے لیے کلک کریں

7 Oct 2018

Gosol-e-Farz-e-Kifaya, Gosol-e- Wajib, Gosol-e-Masnoon, Gosol-e- Mostahab

غسل فرض کفایہ
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (13) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے ۔ فرض کفایہ وہ ہے کہ اگر ایک آدمی ادا کردے تو سب کے سر سے اتر جائے۔ 
غسل واجب
جنابت کی حالت میں کافر مسلمان ہو تو اب اس پر غسل کرنا واجب ہے ۔
عن ابی ھریرۃ فی قصۃ ثمامۃ بن اثال عند ما اسلم، امرہ النبی ﷺ ان یغتسل۔ (رواہ عبد الرزاق واصلہ متفق علیہ، بلوغ المرام ۲۱)
ثمامہ بن اثال کے قصہ کے بارے میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ ان کو نبی کریم ﷺ نے غسل کا حکم دیا، جس وقت انھوں نے اسلام قبول کیا۔ 
غسل مسنون
چار چیز کے لیے غسل کرنا مسنون ہے: 
(۱) جمعہ کے لیے۔ 
(۲) عیدین کے لیے۔ 
(۳) احرام کے لیے۔ 
(۴) وقوف عرفہ کے لیے زوال کے بعد۔ 
جمعہ کے غسل کے بارے میں حضرت سمرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
من توضأ یوم الجمعۃ فبھا و نعمت، و من اغتسل فالغسل افضل۔ (رواہ الخمسۃ و حنسہ الترمذی، بلوغ المرام،ص؍۲۱)
جس شخص نے جمعہ کے دن وضو کیا تو وہ بہت کافی اور اچھا ہے اور جس نے غسل کیا، پس غسل بہتر ہے۔ 
عن الفاکہ قال: کان رسول اللّٰہ ﷺ یغتسل یوم الجمعۃ و یوم الفطر و یوم النحر و یوم عرفۃ۔ (رواہ احمد و الطبرانی)
حضرت فاکہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ، عید، بقرعید اور عرفہ کے دن غسل فرماتے تھے۔ شیخ ابن الہمام نے کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (نور الہدایہ، ص؍۳۶)
عن زید بن ثابت انہ رایٰ النبی ﷺ تجرد لاھلالہ واغتسل۔ (رواہ الترمذی والدارمی)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے احرام کے لیے کپڑے اتارے اور غسل فرمائے۔ (زجاجہ، ھذا حدیث حسن ، نور الہدایہ ۳۶) 
عن ابن عمر انہ کان یغتسل یوم الفطر قبل ان یغدو۔ (رواہ مالک، زجاجہ، ص؍ ۱۵۲) 
اور یہ حدیث صحیح ہے۔ 
غسل مستحب
ان حالتوں کے اندر غسل کرنا مستحب ہے: 
(۱) میت کے غسل دینے کے بعد۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
من غسَّل میتا فلیغتسل۔ (ابن ماجہ، زجاجہ ۱۵۳)
جس نے میت کو غسل دیا اس کو غسل کرلینا چاہیے۔ 
(۲) طہارت کی حالت میں اسلام قبول کرنے کے بعد۔ 
عن قیس بن عاصم انہ اسلم، فامرہ النبی ﷺ ان یغتسل بماء سدر۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد والنسائی)
حضرت قیس ابن عاصم نے اسلام قبولا تو نبی کریم ﷺ نے ان کو بیر کے پتہ کے پانی سے غسل کرنے کو فرمایا۔
عن ابی واثلۃبن الاسقع قال: لما اسلمتُ اتیتُ النبی ﷺ فقال: اغتسل بماء سدر واحلق عنک شعر الکفر۔ (رواہ ابو نعیم و رویٰ الطبرانی فی الکبیر عن قتادۃ و ابی ھشام نحوہ رجالہ ثقات قالہ فی مجمع الزوائد، زجاجہ، ۱۵۳)
اسی واثلہ بن اسقع کو اسلام قبول کرنے کے بعد فرمایا : بیر کے پتے کے پانی سے غسل کر اور کفر کے بال مونڈ ڈال۔ 
بال مونڈنا، بیر کے پتے دے کر پانی اونٹاکر نہانا مستحب ہے ۔ اسی طرح خالص پانی سے غسل کرنا بھی مستحب ہے۔ 
(۳) مکہ میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے۔ حضرت نافع کا بیان ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر جب مکہ کے قریب پہنچتے تو ٹھہر جاتے اور ذی طویٰ میں رات گذارتے ، پھر فجر کی نماز پڑھتے اور غسل کرتے اور فرماتے کہ نبی کریم ﷺ ایسا کرتے تھے ۔ (بخاری، زجاجہ، ۱۵۳)
عن نافع قال: ان ابن عمر کان لایقدم مکۃ الا بات بذی طویٰ حتیٰ یصبح و یغتسل و یصلی فیدخل مکۃ نھارا۔ (متفق علیہ) 
(۴) مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لیے۔ 
(۵) مزدلفہ میں وقوف کے لیے۔ 
(۶) طواف زیارت کے لیے۔
(۷) پندرھویں شعبان کی رات۔ 
(۸) لیلۃ القدر معلوم ہونے پر اسی رات میں۔ 
(۹) عمر سے بالغ ہونے پر۔ 
(۱۰) جنون دور ہونے پر۔ 
(۱۱) سورج گرہن کی نماز کے لیے۔ 
(۱۲) استسقا کی نماز کے لیے ۔ 
(۱۳) خوف کے وقت۔ 
(۱۴) سخت تاریکی پھیلنے کی وجہ سے ۔ 
(۱۵) سخت آندھی کے وقت۔ 
(۱۶) پچھنے لگانے کے بعد ۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ چار چیز سے غسل کرتے تھے: جنابت سے۔ جمعہ کے دن۔ پچھنے سے۔ اور غسل میت سے۔ (ابو داؤد)

6 Oct 2018

Muslim Samaj Aur Abrahi Zehniyat

مسلم سماج اور ابرہی ذہنیت
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
امت مسلمہ کا دوسرا نام امت دعوت بھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے ہر فرد میں دعوت کا کچھ نہ کچھ فطری جذبہ ضرور پایا جاتا ہے۔ اور اس جذبہ کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے؛ کیوں کہ سابقہ امتوں میں دعوت و ارشاد کا کام انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والتسلیم کے ساتھ مخصوص تھا، جب کہ اس امت کا ہر فرد براہ راست داعی کا فریضہ ادا کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔ گویا دعوت، نبوی فریضہ ادا کرنے کی ایک امتیازی صفت ہے اور یہی وجہ اس کی مدح و توصیف کے لیے کافی ہے۔ چنانچہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جہاں چند جمعہ جمعہ پڑھنے والوں کے درمیان ایک پنج وقتہ نمازی ہوتا ہے، تو وہ ہر صدائے تکبیر کے وقت اپنے جمعہ ساتھیوں کو نماز کی دعوت دینا نہیں بھولتا ، اور یہ قابل تحسین جذبہ ہے۔ 
لیکن سماج کا عمومی تجزیہ ہمیں اس نتیجہ پر بھی پہنچاتا ہے کہ دعوت رسانی کا ہمارا یہ جذبہ بالعموم غیر ضروری اور لایعنی باتوں میں بھی الجھا دیتا ہے اور ہم فرائض و واجبا ت کے ترک پر تو کچھ نہیں کہتے ؛ البتہ مستحبات اور جائز کاموں کی اصلاح میں اپنی ساری توانائیاں صرف کردیتے ہیں۔ گویا ہمارے سوچنے کا انداز زمانہ جاہلیت کے انداز فکر سے کوئی بھی اختلاف نہیں رکھتا ۔ پورا سماج سوچ و فکر کے اسی نہج پر گامزن ہے، جس کی مثال ہمیں ابرہہ کی فکر میں ملتی ہے ، لہذا اگر ہم یہ کہیں کہ اتنے زمانے گذرجانے اورامت اتنی ترقیوں کے باوجود ابھی تک زمانہ جاہلیت کی ابرہی فکر سے آگے نہیں بڑھ پائی ہے تو یہ نہ مبالغہ ہوگا اور نہ ہی خلاف واقعہ حکایت۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ابرہہ کون ہے اور اس کا انداز فکر کیا تھا،تو وہ ذیل میں پیش ہے:
زمانہ جاہلیت میں بھی عرب سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں کعبہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی وابستگی عقیدت کے رشتے سے جڑی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے اطراف عالم کے لوگ یہاں کھینچے چلے آتے تھے۔اقتصادی مرکزیت کی بنیاد یہی آمدو رفت کی کثرت تھی، جب کہ کعبہ کی تولیت سیاسی تفوق کا ذریعہ تھی۔عرب کی یہ بالادستی دیکھ کر مسیحیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چوں کہ عربوں کی یہ خصوصیات کعبہ کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں، اس لیے کعبہ کا کوئی متبادل تیار کیا جائے اور لوگوں کو مکہ کے بجائے یہاں اپنی گردن عقیدت خم کرنے کی دعوت دی جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے غالبا ۵۷۰، یا ۵۷۱ء قبل مسیح میں یمن کے گورنر ابرہہ نے اس کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک نہایت خوب صورت کلیسا بنایا اور لوگوں کو اس کے طواف و زیارت کی دعوت دی۔ اہل عرب نے اسے اپنے لیے بے عزتی سمجھی اور انھوں نے اس گرجا کو یا تو نذر آتش کردیا اور یاپاخانہ کرکے اس کے تقدس کو پامال کردیا۔ اس واقعہ سے ابرہہ بہت برہم ہوا اور اس نے کعبہ پر حملہ کی ٹھان لی، چنانچہ اپنی اور دیگر مسیحی سلطنتوں کے فوجی تعاون پر مشتمل تقریبا ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی کا لشکر لے کرمکہ آیا۔ مکہ پہنچتے ہی اس کے مقدمۃ الجیش نے اس کی گھاٹیوں میں چر رہے اونٹوں اور بکریوں پر قبضہ کرلیا۔ان میں سے دو سو یا چار سو اونٹ آں حضرت ﷺ کے دادا جناب عبد المطلب کے بھی تھے۔ ابرہہ نے گفت و شنید کے لیے سردار قریش کو دعوت دی۔ چنانچہ عبد المطلب یہاں سے گئے۔ ابرہہ نے جب پہلی مرتبہ عبد المطلب کو دیکھا تو وجیہ حیثیت و ہیئت کو دیکھ کر بہت مرعوب ہوا اور بہت عزت و احترام کا معاملہ کیا۔ پھر اصل موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ابرہہ نے جب یہ کہا کہ میں تمھارے کعبہ کو ڈھانے کے لیے آیا ہوں، اور ہمارے پاس بہت بڑی فوج ہے کیا تم اس کا مقابلہ کر پاؤگے؟ تم خانہ کعبہ کی کس طرح حفاظت کروگے؟ تو عبد المطلب نے کہا کہ تمھاری فوج نے ہمارے جن اونٹوں پر قبضہ کرلیا ہے، وہ مجھے لوٹا دو۔ یہ جواب سن کر ابرہہ کو بہت تعجب ہوا اور وہ سوچنے لگا کہ جو کعبہ کا متولی ہے اور جس کی وجہ سے مذہبی ، سیاسی و اقتصادی بالادستی حاصل ہے ، وہ شخص کعبہ کی فکر کرنے کے بجائے اپنے چند اونٹوں کے لیے پریشان ہے! یہ کیسا آدمی ہے ، اس کے خیالات کتنے سطحی ہیں! یہ تو لایعنی اور غیر ضروری باتوں کو اہمیت دے رہا ہے۔ چنانچہ حیرت و استعجاب میں ابرہہ نے پوچھا کہ آپ کو اپنے اونٹ کی فکر ہے اور کعبہ کی کوئی فکر نہیں ہے؟ ! اس پر عبد المطلب نے جواب دیا کہ میں اونٹ کا مالک ہوں، اس کا تحفظ میرے ذمہ ہے، اس لیے میں اس کی فکر کر رہا ہوں۔ رہا خانہ کعبہ کو ڈھانے کی تو وہ اللہ کا گھر ہے۔ اللہ اپنے گھر کی خود حفاظت کرلے گا۔ تم تو مجھے بس میرے اونٹ میرے حوالے کردو۔ چنانچہ ابرہہ نے اسے کعبہ ڈھانے کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کی وجہ سے سارے اونٹ واپس کردیے اور اگلے دن اسے نیست و نابود کرنے کا تہیہ کرلیا۔ 
واقعہ اور دور تک جاتا ہے۔لیکن المختصر مضمون کی مناسبت سے اس واقعہ میں جو درس کا پہلو ہے، وہ یہ ہے کہ ابرہہ غیر اہم مطالبہ پرتو تعجب کا اظہار کر رہا ہے اور اونٹ طلبی پر بار بار متوجہ کر رہا ہے، لیکن اس سے بڑی جرات پر کوئی شرمندگی کا اظہار نہیں کر رہا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچ رہا ہے کہ اونٹ کا مالک جب اپنے اونٹ کے لیے اس قدر متفکر ہے ، تو جس قہار و جبار کایہ گھر ہے، وہ اپنے گھر کی حفاظت کے لیے کیا کچھ نہ کرے گا ۔ 
آج پورا مسلم سماج اسی فکر کا اسیر ہے۔ چند کھلی مثالیں پیش خدمت ہیں: 
(۱) مسلم سماج فرض کی ادائیگی سے کوسوں دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ چنانچہ پنج وقتہ نماز چھوڑنے پر آپ کو کوئی بھی نہیں ٹوکے گا۔ گھر میں مائیں بہنیں کھلی بے پردگی کی شکار ہوکر حرام میں مبتلا ہو رہی ہیں، اس پر کبھی نہیں تنبیہہ کی جاتی۔ لیکن اگر آپ کا روزمرہ لباس ٹوپی، کرتا اور پاجامہ ہے، اور اتفاق سے ایک دن دوسرے جائز لباس پہن لیں، تو آپ کی اصلاح و دعوت کے لیے پورا سماج اٹھ کھڑا ہوگا، اور جس گلی و راستہ سے گذریں گے ، ہر جگہ سے ابرہی حیرت و استعجاب میں صدائے دعوت و اصلاح بلند ہوگی کہ ابے میاں ! یہ کیا پہن رکھا ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی اصلاح کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، جو خود غیر شرعی لباس میں ملبوس ہوں گے۔ 
(۲) عام افراد اپنی جائز یا ناجائز کمائی سے دنیا کے مزے لوٹیں، تو کوئی بات نہیں،اور نہ ہی انھیں کسی کو یہ کہنے کا حق ہے کہ آپ اپنی عیش کوشی کو جائز حدود تک ہی رکھیں۔ البتہ اگر ایک مولوی یا مولوی نما حضرات اپنی محنت و مشقت اور جائز کمائی سے چمچماتی گاڑیوں میں سیر کریں اور دنیا کی جائز عیش کوشیوں میں حصہ لیں، تو سماج کی عام ذہنیت ابرہی تعجب میں مبتلا ہوکر جملے کسنے لگتی ہے کہ ہوں، کہیں سے چندہ مارا ہوگا، کسی نے ہدیہ دیا ہوگا۔ 
(۳) مدرسے میں پڑھنے والے بالعموم غریب طلبہ ہوتے ہیں، یہ ایک زمین سچ ہے ، اس سے انکار ممکن نہیں۔ غربت کا یہ تصور سماج کو اس نظریے پر پہنچاتا ہے کہ وہ اسکول، کالج اور یونی ور سیٹیوں میں تعلیم پانے کا حق دار نہیں ہے۔ ایسے میں کوئی مولوی عصری اداروں کا رخ کرتا ہے توسماج ابرہی تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ملا کی دوڑ مسجد تک ہونی چاہیے، یونی ورسیٹی تک نہیں۔ 
(۴) کسی جائز مشاعرے میں غزل پر داد و تحسین کی برسات ہور ہی ہو، اور پورا مجمع غزل بدوش ہوجائے۔ اسی درمیان اگرکوئی تبلیغی جماعت سے وابستہ فرد یا ٹوپی کرتا میں ملبوس آدمی صدائے تحسین بلند کرنے لگے تو سماج کہنے لگتا ہے کہ دیکھو! مولوی صاحب غزل پر کتنے فریفتہ ہیں۔ اگر وہ مسکرا رہا ہو تو ، کہے گا کہ دیکھو مولوی مسکرا رہا ہے۔ گویا اس کا مسکرانا بھی سماج کے لیے حیرت و استعجاب کا سامان فراہم کرتا ہے۔ 
امت دعوت ہونے کا صحیح تقاضا یہ ہے کہ ہم فرض ، واجبات اور نفلوں کی پامالی پر خاموش نہ رہ سکیں، ان کی اصلاح و ارشاد کی مکمل کوشش کریں؛ لیکن اس جذبہ میں اس قدر غلو کہ جائز چیزوں پر تو تعجب کا اظہار کریں، لیکن ناجائز اور حرام پر تعجب تو دور ، اس کے حرام اور ناجائز ہونے کا احساس تک نہ ہو، سراسر اس جذبہ دعوت کے منافی ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلائے ، آمین۔

Gosol-e-Farz, Moojibat-e-Gosol

غسل فرض

موجبات غسل
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (12) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
پانچ چیزوں سے غسل کرنا فرض ہوتا ہے: 
اول: جماع سے خواہ قبل میں ہو یا دبر میں۔ صحبت کرنے سے مرد و عورت دونوں پر غسل واجب ہوتا ہے، خواہ منی نکلے یا نہ نکلے۔ 
عن ابی ھریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: اذا جلس احدکم بین شعبھا الاربع ثم جھدھا فقد وجب الغسل و ان لم ینزل۔ (رواہ مسلم، بلوغ المرام، ص؍۲۰)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب چاروں ہاتھ پاؤں کے درمیان بیٹھ جائے ، پھر کوشش میں لگ جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے ، اگرچہ منی نہ نکلے۔ 
یہاں تک کہ اگر مرد صرف اپنی سپاری عورت کی شرم گاہ میں داخل کرکے فورا نکال لے، تو بھی غسل واجب ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
اذا جاوز الختان الختان وجب الغسل۔
جب سپاری فرج میں داخل ہوئی غسل واجب ہوا۔ 
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں : میں نے اور رسول اللہ ﷺ نے نہائے ہیں۔ البتہ ابتدائے اسلام میں فتح مکہ تک صرف صحبت سے غسل واجب نہیں ہوتا تھاجب تک کہ انزال نہ ہوجائے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ تک رسول اللہ ﷺ صحبت بلا انزال کرتے تھے اور غسل نہیں کرتے تھے ۔ اس کے بعد آپﷺ غسل کرتے تھے اور لوگوں کو اس کا حکم دیتے تھے۔ (رواہ ابن حبان فی صحیحہ)
(۲) دوسرا احتلام سے ۔ کبھی انسان صحبت کا خواب دیکھتا ہے ، جس میں منی خارج ہوجاتی ہے ، تو منی خارج ہونے کی صورت میں غسل واجب ہوجاتا ہے ، خواہ یہ خواب مرد دیکھے یا عورت۔ اگر صرف خواب ہوا اور منی خارج نہ ہوئی تو غسل واجب نہ ہوگا۔ اگر خواب یاد نہ رہے ، لیکن کپڑے وغیرہ میں منی کا اثر پائے تو غسل واجب ہوگا۔ 
عن عائشۃ قالت: سئل رسول اللّٰہﷺ عن الرجل یجد البلل و لا یذکر احتلاما قال: یغتسل، و عن الرجل الذی یریٰ انہ قد احتلم و لا یجد بللا، قال: لا غسل علیہ۔ قالت ام سلیم: ھل علیٰ المرأۃ تریٰ ذالک غسل؟ قال: نعم، ان النساء شقائق الرجال۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد و رویٰ الدارمی وابن ماجہ الیٰ قولہ لا غسل علیہ)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو منی کی تری پاتا ہے اور خواب یاد نہیں پڑتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: غسل کرے۔ اور ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو خواب دیکھتا ہے ، لیکن تری نہیں پاتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس پر غسل نہیں ہے۔ حضرت ام سلیم نے عرض کیا : اگر عورت دیکھے تو کیا اس پر غسل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں،عورتیں مردوں کی مانند ہوتی ہیں۔ 
(۳) تیسرا: شہوت کے ساتھ منی نکلنے سے۔ کسی کو شہوت کی نظر سے دیکھا یا چھوا اور منی خارج ہوگئی، یا کسی جانور یا مردار سے صحبت کی اور منی خارج ہوگئی، یا ہاتھ، ران وغیرہ کی رگڑ سے منی خارج ہوگئی، تو ان صورتوں میں غسل واجب ہوگا جب کہ شہوت سے نکلی ہو۔ 
اگر بغیر شہوت کے منی نکلی تو غسل واجب نہ ہوگا۔ کسی نے سر پر مارا اور منی خارج ہوگئی یا گودنے سے یا بوجھ اٹھانے سے نکل گئی یا پیشاب کے ساتھ بلا شہوت نکل آئی تو غسل واجب نہ ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
اذا خذفت الماء فاغتسل و اذا لم یکن خاذفا فلا تغتسل۔ (رواہ احمد)
جب منی پھینکے تو غسل کر اور جب پھینکنے والا نہ تومت غسل کر۔ 
یعنی منی اچھل کر نکلے تو غسل واجب ہوگا اور اچھل کر اسی وقت نکلتی ہے جب کہ شہوت ہو۔ معلوم ہوا کہ شہوت سے نکلنے سے ہی غسل واجب ہوتا ہے۔ 
(۴) چوتھا حیض سے ۔
(۵) پانچواں نفاس سے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: 
و لا تقربوھن حتَّی یطھرن۔ (البقرۃ، ۲۲۲)
مت قریب ہو ان سے یہاں تک کہ خوب پاک ہولیں، یعنی غسل کرلیں۔ 
معلوم ہوا کہ حیض کے بعد غسل فرض ہے اور نفاس کے بعد غسل بالاجماع فرض ہے ۔ 
(حیض و نفاس کا بیان آگے آئے گا)
قسط نمبر (13) کے کلک کریں

5 Oct 2018

Sunan-e-Gosol

سنن غسل

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (11) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
غسل میں یہ چیزیں مسنون ہیں: 
(۱) بسم اللہ سے شروع کرنا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ 
کان رسول اللّٰہ ﷺ اذا مس طھورا سمیٰ اللّٰہ۔ (رواہ الدار قطنی فی سننہ) 
رسول اللہ ﷺ جب پانی کا استعمال فرماتے تو بسم اللہ کہتے تھے۔ 
(۲) غسل کی نیت کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
انما الاعمال بالنیات۔ 
عمل کا اعتبار نیت سے ہے۔ 
(۳) دونوں ہاتھوں کو کلائی تک دھونا۔ 
(۴) اگر کہیں نجاست لگی ہو، اس کو دھونا۔ 
(۵) شرم گاہ کو دھونا۔ 
(۶) وضو کرنا؛ مگر پاؤں نہ دھوئے اگر کھڑے ہونے کی جگہ میں پانی جمع ہوتو یا کیچڑ ہو ، تو پاؤں غسل سے فارغ ہوکر دھوئے ورنہ پہلے دھوئے۔ 
(۷) تین بار سر پر پانی بہانا۔ 
(۸) سارے بدن پر تین بار پانی بہانا۔ 
عن عائشۃ قالت: کان النبی ﷺ یحب التیمن مااستطاعفی شأنہ کلہ فی طھورہ و ترجلہ و تنعلہ (متفق علیہ)
پہلے دائیں مونڈھے پر ڈالے، پھر بائیں مونڈھے پر۔ اگر پانی میں غوطہ لگائے اور ذرا دیر تک پانی میں ڈوبا رہے تو تین بار پانی بہانے کے بجائے ایک ہی غوطہ کافی ہے۔ 
(۹) بدن کو ملنا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکی کے لیے مبالغہ کا صیغہ استعمال کیا ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ 
ان کنتم جنبا فاطھروا۔ (المائدۃ: ۶)
اگر تم جنبی ہو تو اچھی طرح پورے بدن کو پاک کرو۔ 
اور اچھی طرح پاکی ملنے ہی سے ہوسکتی ہے۔ 
(۱۰) پے درپے غسل کرنا۔ 
عن ابن عباس قال: قالت میمونۃ وضعتُ للنبی ﷺ غسلا فسترتہ بثوب فصب علیٰ یدیہ فغسلھا ثم ادخل یمینہ فی الاناء فافرغ بھا علیٰ فرجہ ثم غسلہ بشمالہ، ثم ضرب بشمالہ الارض فدلکھا دلکا شدیدا ثم غسل فمضمض واستنشق و غسل وجھہ و ذراعیہ ثم افرغ رأسہ ثلاث حثیات ملأ کفیہ ثم غسل سائر جسدہ ثم تنحی فغسل قدمیہ فناولتہ ثوبا فلم یاخذہ فانطلق وھو ینفض یدیہ۔ (متفق علیہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ اور میں نے آپ ﷺ کو کپڑے سے پردہ کیا ، تو آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اس کو دھویا۔ پھر دایاں ہاتھ برتن میں داخل کیا اور اس سے پانی لے کر شرم گاہ پر ڈالا اور بائیں ہاتھ سے اس کو دھویا۔ پھر بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور اس کو خوب رگڑا، پھر اس کو دھویا۔ پھر کلی کیا اور ناک میں پانی ڈالا اور منھ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر پر تین لپ پانی بھر کر ڈالے ، پھر سارے بدن کو دھویا، پھر ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ میں نے آپ ﷺ کو ایک کپڑا دیا، آپ ﷺ نے اس کو نہیں لیا اور اپنے ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے چلے گئے۔
اس حدیث سے حسب ذیل امور کا ثبوت ہوا: 
(۱) پردہ میں نہانا۔ 
(۲) نہانے سے پہلے دونوں ہاتھوں کا کلائی تک دھونا۔ 
(۳) دائیں ہاتھ پانی ڈالنا اور بائیں سے شرم گاہ کو دھونا۔ 
(۴) ہاتھ کو مٹی میں ملنا اور دھونا۔ 
(۵) وضو کرنا، مگر پاؤں غسل کے بعد اس جگہ سے ہٹ کر دھونا۔
(۶) پہلے سر کو دھونا۔
(۷) تمام بدن پر پانی بہانا۔ 
(۸) پے درپے نہانا۔ 
اس روایت میں سرکے مسح کا ذکر نہیں ہے ۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ 
ثم یتوضأ وضوۂ للصلاۃ۔ (مسلم)
پھر آپ ﷺ وضو کرتے جیسے کہ نماز کے لیے وضو کرتے ہیں۔ 
اور نماز کے لیے جو وضو ہوتا ہے، اس میں سر کا مسح بھی ہوتا ہے ، اس لیے سر کا مسح بھی کرے۔ 
اگر ننگا نہائے تو پردہ کرکے نہائے ، کھلے میدان میں نہانا ممنوع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کھلے میدا ن میں ننگا غسل کرتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ منبر پر چڑھے، پھر اللہ کی حمدو ثنا کے بعد فرمایا: 
ان اللّٰہ حی ستیر یحب الحیاء والتستر فاذا اغتسل احدکم فلیستر۔ (رواہ ابو داؤد عن یعلی)
بے شک اللہ تعالیٰ حیا والا پردہ دار ہے، حیا اور پردہ کو دوست رکھتا ہے ، اس لیے جب تم نہاؤ تو پردہ کرلو۔ 
اور جب ننگا نہائے تو کسی قسم کی گفتگو نہ کرے ، نہ دنیا کی باتیں کرے اور نہ ذکر ہی کرے ۔ اگر ستر چھپا کر نہائے تو اس میں بھی کلام نہ کرے کہ سنت کے خلاف ہے ۔ ذکر اللہ اس لیے نہ کرے کہ وہ گندی جگہ ہے ۔ پانی کے استعمال میں نہ حد سے زیادہ کمی کرے نہ اسراف کرے۔ 
عن انس قال: کان النبی ﷺ یتوضأ بالمد و یغتسل بالصاع الیٰ خمسۃ امداد۔ (متفق علیہ) 
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک مد سے وضو اور ایک صاع سے پانچ مد تک سے غسل فرماتے تھے ۔
اسی تولہ کا ایک مد ہوتاہے اور ایک صاع ساڑھے تین سیر اسی تولہ کے سیر سے ہوتا ہے تو آپﷺ ایک سیر پانی سے وضو اور ساڑھے تین سیر پانی سے پانچ سیر پانی تک سے غسل فرماتے تھے۔ 
غسل کے بعد وضو نہیں کرنا چاہیے ، اس لیے کہ غسل کے ساتھ وضو بھی ہوگیا، اسی وضو سے نماز پڑھے۔ 
عن عائشۃ قالت: کان النبی ﷺ لایتوضأ بعد الغسل۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد والنسائی، وابن ماجہ وا سنادہ صحیح)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ غسل کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔
قسط نمبر (11) کے لیے کلک کریں