قسط نمبر (3) محمد یاسین جہازی قاسمی کی
کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
بسم اللہ الرحمٰن لرحیم
تمہیدی باتیں
الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین وخاتم النبیین وعلی اٰلہ ٖ وصحبہ اجمعین، اما بعد:
کسی بھی زبان کی صحت وعدم صحت اور سیکھنے کے حوالے سے جو اصول و ضوابط بنائے گئے ہیں، انھیں اصطلاح میں ’’قواعد‘‘کہا جاتاہے ۔ زبان وادب کاپہلا مرحلہ حروف ہوتے ہیں اور حروف کے متعلق ’علم ہجا ‘ میں بحث کی جاتی ہے ، لہذا زبان وادب سیکھنے کے لیے’ علم ہجا‘ کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔ حروف کے مجموعے سے الفاظ بنتے ہیں اور الفاظ کی ترکیب وتالیف سے جملے وجود میں آتے ہیں، اور یہ دونوں چیزیں’ علم صرف‘ اور’ علم نحو‘ کے موضوع ہیں، لہٰذا ان دونوں علوم سے واقفیت بھی ناگزیر ہے۔ ان کے علاوہ زبان وادب میں لفظوں کی ظاہری ومعنوی خوبیاں بھی مد نظر رکھی جاتی ہیں ،جو’ علم بلاغت‘ کا موضوع ہے، لہٰذا ’علم بلاغت‘ کے متعلق بھی کچھ جان کاری حاصل کرنا لابدی ہے۔ پھر اصناف نظم میں بحر اور قافیے وغیرہ ہوتے ہیں، جنھیں’علم عروض‘ سے تعبیر کیا جاتاہے ، لہٰذ ا ’علم عروض‘ سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ ’علم ہجا‘ میں یہ بیان کیاجاتاہے کہ ایک زبان میں کتنی زبانوں کے حروف والفاظ پائے جاتے ہیں ؟ ان کا صحیح تلفظ کیا ہے ؟ ان کا رسم الخط کیسا ہونا چاہیے؟ اور دیگر زبانوں کے استعمال کیے جانے والے الفاظ کی شناخت کے کیا کیا طریقے ہیں؟۔ ’علم صرف‘ میں الفاظ کی ساخت اور ان کی حرکات وسکنات میں تغیر وتبدل کے مسائل زیر بحث ہوتے ہیں ۔ ’علم نحو‘ میں جملوں کا جوڑ توڑ اور ان کا باہمی تعلق بیان کیاجاتاہے ۔’ علم بلاغت‘ میں جملوں میں لفظی ومعنوی خوبیاں پیدا کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ اور’ علم عروض‘ میں نظم نگاری اور قوا نین شاعری بیان کیے جاتے ہیں ۔
اختصار کے پیش نظر اس کتاب میں اردو و زبان وادب سیکھنے کے لیے مذکورہ بالا پانچوں لابدی علوم پر تفصیلی کلام کرنا ممکن نہیں ہے ، اس لیے اس میں صرف وہی باتیں بیان کی جائیں گی ، جو’’ رہ نما ئے اردوادب ‘‘ کے لیے انتہائی ناگزیر ہوں اور ان کو تحریر کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہ ہو۔
کسی بھی زبان کے سیکھنے کے حوالے سے چوں کہ ’علم ہجا‘ بنیاد کی حیثیت رکھتاہے، اس لیے بحث کا آغازمباحث ہجاہی سے کیا جائے گا ۔ اس کے بعد الفاظ کے جوڑ توڑ اور ان کی ترکیب وتالیف کی جان کاری کا نمبر آتاہے، اس لیے اس کے بعد اردو کے چند بنیادی اور ضروری قواعد سے بحث کی جائے گی ۔ بعد ازاں ان میں ظاہری اور معنوی خوبیاں پیداکرنے کی منزل آتی ہے، لہٰذ ا ’علم بلاغت‘ کے متعلق بھی چندسطریں لکھی جائیں گی ۔ اس مقام پر پہنچنے کے بعد مضمون نگاری کے چند رہ نما اصول تحریر کیے جائیں گے ۔ پھر اس کے بعد اردو ادب کی دونوں قسموں : نثر ونظم اور ان کی اصناف کا تعارف کرایاجائے گا ۔بعد ازاں اسالیب کی مختلف اقسام بیان کی جائیں گی ۔ اور آخر میں تحقیق وتصنیف کے طریقے بھی لکھے جائیں گے ، لیکن اختصار کا دامن کہیں ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ، ہوالموفق والمعین وہو حسبی ونعم الوکیل ۔
ہجا کے مباحث
انسانی زندگی میں زبان کی بڑی قدروقیمت ہے،کیوں کہ زبان اظہارِ جذبات اورترسیلِ خیالات کا بنیادی وسیلہ ہے۔ زبان کے سائنسی وتجزیاتی مطالعے کا نام لسانیات ہے۔ لسانیات کی متعدد شاخیں ہیں۔ چند اہم شاخیں ذیل میں درج ہیں:
(۱)صوتیات
(۲)توضیحی لسانیات
(۳)اسلوبیات
(۴)بولیاں
صوتیات
عضوِنطق سے ادا کی جانے والی آواز وں کا علم، صوتیات اور علم الاصوات کہلاتا ہے۔
اس کی دوقسمیں ہیں: (۱)مصوتے ۔(۲)مصمتے۔
مصوتے
اس سے مراد اعضائے نطق سے پیدا ہونے والی وہ آوازیں ہیں، جن میں پھیپھڑوں میں نکلنے والی سانس منھ میں کہیں بھی رکاوٹ کے بغیر خارج ہوتی ہے، صرف زبان اوپر،نیچے یا درمیانی حالت میں ہوتی ہے اور ہونٹ کبھی مدور ہو جاتا ہے اور کبھی غیر مدوررہتا ہے۔ مصوتوں کی ادائیگی میں منھ کبھی کم اور کبھی زیادہ کھلا ہوا رہتا ہے،لیکن کہیں رکاوٹ نہیں ہوتی، جیسے: آ، اِ، ای، اُو، اَو۔ مصوتوں کا دوسرا نام حروف علت بھی ہے۔
مصمتے
ان آوازوں کو کہا جاتا ہے ،جن کی ادائیگی پھیپھڑوں سے نکلی ہوئی سانس منھ میں حلق سے لے کر دانتوں یا ہونٹوں تک کہیں نہ کہیں رک جاتی ہے، اور یہ رکاوٹ دور ہونے کے بعد ہی وہ آواز پیدا ہوتی ہے، جیسے: با،فا، حا۔مصمتوں کو حروفِ صحیح سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔
توضیحی لسانیات
توضیحی لسانیات زبان کے ڈھانچے سے بحث کرتی ہے۔ اس میں لفظوں کی حرکات وسکنات، ان کے تغیر وتبدل اور سابقے ولا حقے لگا کر نئے نئے الفاظ بنانے کے طریقوں سے بحث کی جاتی ہے یعنی صرف ونحو کا مطالعہ کیاجاتاہے۔
اسلوبیات
اس میں مطالعہ کیا جاتاہے کہ عبارت کو پیش کرنے کے لیے کون کون سے طریقے اختیارکیے گئے ہیں۔صاحب قلم کی نفسیاتی کیفیات کیا ہیں ؟اور فن پارے میں کن کن تکنیکوں کو برتا گیا ہے۔
بولیاں
لسانیات میں دو چیزیں ہوتی ہیں: بولی اور زبان ۔ جب عام بول چال کی زبان قید تحریر میںآجاتی ہے اور اس میں شعر وادب لکھاجانے لگتا ہے، تو اس کا ایک معیار متعین ہو جاتا ہے اور قواعد وضوابط ایجاد کیے جاتے ہیں۔اگر چہ یہ معیار اور قواعد وضوابط حتمی وقطعی نہیں ہوتے۔ ان میں زبان ومکان کے اعتبار سے تبدیلیا ںآتی رہتی ہیں، پھر بھی ان کی رعایت اورپابندی ضروری ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف بولی کے لیے اصول وضوابط ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی پابندی ناگزیر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ مختلف علاقوں کے لوگوں کی زبان، لب ولہجہ، الفاظ اور انداز تکلم میں فرق پایا جاتا ہے، جب کہ تمام خطوں کے قلم کاروں کی تحریروں میںیکسانیت اور ہم آہنگی نظر آتی ہے۔
الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین وخاتم النبیین وعلی اٰلہ ٖ وصحبہ اجمعین، اما بعد:
کسی بھی زبان کی صحت وعدم صحت اور سیکھنے کے حوالے سے جو اصول و ضوابط بنائے گئے ہیں، انھیں اصطلاح میں ’’قواعد‘‘کہا جاتاہے ۔ زبان وادب کاپہلا مرحلہ حروف ہوتے ہیں اور حروف کے متعلق ’علم ہجا ‘ میں بحث کی جاتی ہے ، لہذا زبان وادب سیکھنے کے لیے’ علم ہجا‘ کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔ حروف کے مجموعے سے الفاظ بنتے ہیں اور الفاظ کی ترکیب وتالیف سے جملے وجود میں آتے ہیں، اور یہ دونوں چیزیں’ علم صرف‘ اور’ علم نحو‘ کے موضوع ہیں، لہٰذا ان دونوں علوم سے واقفیت بھی ناگزیر ہے۔ ان کے علاوہ زبان وادب میں لفظوں کی ظاہری ومعنوی خوبیاں بھی مد نظر رکھی جاتی ہیں ،جو’ علم بلاغت‘ کا موضوع ہے، لہٰذا ’علم بلاغت‘ کے متعلق بھی کچھ جان کاری حاصل کرنا لابدی ہے۔ پھر اصناف نظم میں بحر اور قافیے وغیرہ ہوتے ہیں، جنھیں’علم عروض‘ سے تعبیر کیا جاتاہے ، لہٰذ ا ’علم عروض‘ سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ ’علم ہجا‘ میں یہ بیان کیاجاتاہے کہ ایک زبان میں کتنی زبانوں کے حروف والفاظ پائے جاتے ہیں ؟ ان کا صحیح تلفظ کیا ہے ؟ ان کا رسم الخط کیسا ہونا چاہیے؟ اور دیگر زبانوں کے استعمال کیے جانے والے الفاظ کی شناخت کے کیا کیا طریقے ہیں؟۔ ’علم صرف‘ میں الفاظ کی ساخت اور ان کی حرکات وسکنات میں تغیر وتبدل کے مسائل زیر بحث ہوتے ہیں ۔ ’علم نحو‘ میں جملوں کا جوڑ توڑ اور ان کا باہمی تعلق بیان کیاجاتاہے ۔’ علم بلاغت‘ میں جملوں میں لفظی ومعنوی خوبیاں پیدا کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ اور’ علم عروض‘ میں نظم نگاری اور قوا نین شاعری بیان کیے جاتے ہیں ۔
اختصار کے پیش نظر اس کتاب میں اردو و زبان وادب سیکھنے کے لیے مذکورہ بالا پانچوں لابدی علوم پر تفصیلی کلام کرنا ممکن نہیں ہے ، اس لیے اس میں صرف وہی باتیں بیان کی جائیں گی ، جو’’ رہ نما ئے اردوادب ‘‘ کے لیے انتہائی ناگزیر ہوں اور ان کو تحریر کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہ ہو۔
کسی بھی زبان کے سیکھنے کے حوالے سے چوں کہ ’علم ہجا‘ بنیاد کی حیثیت رکھتاہے، اس لیے بحث کا آغازمباحث ہجاہی سے کیا جائے گا ۔ اس کے بعد الفاظ کے جوڑ توڑ اور ان کی ترکیب وتالیف کی جان کاری کا نمبر آتاہے، اس لیے اس کے بعد اردو کے چند بنیادی اور ضروری قواعد سے بحث کی جائے گی ۔ بعد ازاں ان میں ظاہری اور معنوی خوبیاں پیداکرنے کی منزل آتی ہے، لہٰذ ا ’علم بلاغت‘ کے متعلق بھی چندسطریں لکھی جائیں گی ۔ اس مقام پر پہنچنے کے بعد مضمون نگاری کے چند رہ نما اصول تحریر کیے جائیں گے ۔ پھر اس کے بعد اردو ادب کی دونوں قسموں : نثر ونظم اور ان کی اصناف کا تعارف کرایاجائے گا ۔بعد ازاں اسالیب کی مختلف اقسام بیان کی جائیں گی ۔ اور آخر میں تحقیق وتصنیف کے طریقے بھی لکھے جائیں گے ، لیکن اختصار کا دامن کہیں ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ، ہوالموفق والمعین وہو حسبی ونعم الوکیل ۔
ہجا کے مباحث
انسانی زندگی میں زبان کی بڑی قدروقیمت ہے،کیوں کہ زبان اظہارِ جذبات اورترسیلِ خیالات کا بنیادی وسیلہ ہے۔ زبان کے سائنسی وتجزیاتی مطالعے کا نام لسانیات ہے۔ لسانیات کی متعدد شاخیں ہیں۔ چند اہم شاخیں ذیل میں درج ہیں:
(۱)صوتیات
(۲)توضیحی لسانیات
(۳)اسلوبیات
(۴)بولیاں
صوتیات
عضوِنطق سے ادا کی جانے والی آواز وں کا علم، صوتیات اور علم الاصوات کہلاتا ہے۔
اس کی دوقسمیں ہیں: (۱)مصوتے ۔(۲)مصمتے۔
مصوتے
اس سے مراد اعضائے نطق سے پیدا ہونے والی وہ آوازیں ہیں، جن میں پھیپھڑوں میں نکلنے والی سانس منھ میں کہیں بھی رکاوٹ کے بغیر خارج ہوتی ہے، صرف زبان اوپر،نیچے یا درمیانی حالت میں ہوتی ہے اور ہونٹ کبھی مدور ہو جاتا ہے اور کبھی غیر مدوررہتا ہے۔ مصوتوں کی ادائیگی میں منھ کبھی کم اور کبھی زیادہ کھلا ہوا رہتا ہے،لیکن کہیں رکاوٹ نہیں ہوتی، جیسے: آ، اِ، ای، اُو، اَو۔ مصوتوں کا دوسرا نام حروف علت بھی ہے۔
مصمتے
ان آوازوں کو کہا جاتا ہے ،جن کی ادائیگی پھیپھڑوں سے نکلی ہوئی سانس منھ میں حلق سے لے کر دانتوں یا ہونٹوں تک کہیں نہ کہیں رک جاتی ہے، اور یہ رکاوٹ دور ہونے کے بعد ہی وہ آواز پیدا ہوتی ہے، جیسے: با،فا، حا۔مصمتوں کو حروفِ صحیح سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔
توضیحی لسانیات
توضیحی لسانیات زبان کے ڈھانچے سے بحث کرتی ہے۔ اس میں لفظوں کی حرکات وسکنات، ان کے تغیر وتبدل اور سابقے ولا حقے لگا کر نئے نئے الفاظ بنانے کے طریقوں سے بحث کی جاتی ہے یعنی صرف ونحو کا مطالعہ کیاجاتاہے۔
اسلوبیات
اس میں مطالعہ کیا جاتاہے کہ عبارت کو پیش کرنے کے لیے کون کون سے طریقے اختیارکیے گئے ہیں۔صاحب قلم کی نفسیاتی کیفیات کیا ہیں ؟اور فن پارے میں کن کن تکنیکوں کو برتا گیا ہے۔
بولیاں
لسانیات میں دو چیزیں ہوتی ہیں: بولی اور زبان ۔ جب عام بول چال کی زبان قید تحریر میںآجاتی ہے اور اس میں شعر وادب لکھاجانے لگتا ہے، تو اس کا ایک معیار متعین ہو جاتا ہے اور قواعد وضوابط ایجاد کیے جاتے ہیں۔اگر چہ یہ معیار اور قواعد وضوابط حتمی وقطعی نہیں ہوتے۔ ان میں زبان ومکان کے اعتبار سے تبدیلیا ںآتی رہتی ہیں، پھر بھی ان کی رعایت اورپابندی ضروری ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف بولی کے لیے اصول وضوابط ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی پابندی ناگزیر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ مختلف علاقوں کے لوگوں کی زبان، لب ولہجہ، الفاظ اور انداز تکلم میں فرق پایا جاتا ہے، جب کہ تمام خطوں کے قلم کاروں کی تحریروں میںیکسانیت اور ہم آہنگی نظر آتی ہے۔