6 Apr 2018

اولیا اللہ کے مشن

محمد یاسین جہازی
اولیا اللہ کے مشن (جناب حاجی نور الحسن صاحب ) 
تاریخ شاہد عدل ہے کہ ہندستان میں اسلام کی نیو اگرچہ تاجروں کے ہاتھوں رکھی گئی ، لیکن مسلمانوں کو مسلمان بنانے اور ان کی اخلاقی و دینی تربیت اور روحانی تزکیہ خاک نشیں علما و صلحا ، صاحب کشف و کرامات بزرگوں اور اولیا اللہ نے کی۔ یہ صحرا نشیں اولیا ئے دین ہی کی نگاہ مومنانہ کا کرشمہ تھا کہ جن پر ان کی مشفقانہ نگاہ پڑجاتی تھی ، ان کی زندگیاں بدل جاتی تھیں ، ان کے ایمان و اعتقاد میں انقلاب برپا ہوجاتا تھا ، ان کی عبادتیں رسمی حرکات سے نکل کر احسانی کیفیات کا عملی نمونہ اور پیکر مجسم بن جایا کرتی تھیں۔ پھر وہ شخص کسی کے اقتدا کے بجائے خود لاکھوں لوگوں کے لیے مرجع رشد و ہدایت ہوتا تھا ۔ اس کی ذات بے شمار افراد کے دینی ، اخلاقی اور روحانی تربیت و تزکیہ کا مرکزبن جایا کرتی تھی۔ بیعت و ارشاد کے جتنے بھی سلسلے ہیں ، وہ سب کے سب اسی مشن کے حامی تھے کہ انسانوں کی عبادتیں رسمیات سے نکل کر احسانیات کے پیکر میں ڈھل جائیں ۔وہ جو بھی اعمال بجالائیں، وہ محض ایک رسم بن کر نہ رہ جائے ، بلکہ وہ جو کچھ بھی کریں، مشاہدۂ حق ان کے پیش نظر ہو ۔ اور اگر یہ مقام حاصل نہ کرسکیں ، تو کم از کم یہ یقین تو پیدا ہی کرلیں کہ اللہ تو ضرور ہی دیکھ رہا ہے۔ ہندستان میں اس مشن کے کئی سلسلے ہیں ، اور ان سلسلوں سے جڑے سینکڑوں اولیائے کرام ہیں ، جنھوں نے اپنے اپنے طور پر امت کی صلاح و فلاح اور رشد وہدایت کا کام انجام دیا ، ان میں جہاں خواجہ معین الدین اجمیری ،خواجہ نظام الدین اولیا، خواجہ صابر کلیری، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا اشرف علی تھانوی، مفتی محمود حسن دیوبندی اور دیگر اکابر کے نام نمایاں ہیں ، تووہیں ان کے خلفااور مریدین میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا صفی اللہ ، قاری صدیق احمد باندوی ، مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی، مولانا ابوالحسن ندوی اور مولانا اسعد مدنی رحمھم اللہ وغیرہ کے نام بھی کافی اہم ہیں۔ اسی سلسلہ سے وابستہ ایک نمایاں نام جناب حاجی نور الحسن مد ظلہ العالی کا ہے۔ ان کی زندگی، زندگی کا ہر عمل ، گفتار، کردار، اخلاق، عادات، اطوار، معاملات اور ان کی ہر ادا بزرگوں کی یاد دلاتی ہے، ان کے نورانی چہرے پر کچھ ایسی قدرتی کشش ہے کہ جس کسی کی نظر پڑجاتی ہے، وہی آپ کا شیدا اور دیوانہ بن جاتا ہے ۔ان کی فراست ایمانی متجسس و متذبذب دلوں کو ڈھونڈھ لیتی ہے۔ ان کی مومنانہ نگاہ کرم سے نہ جانے کتنے بندگان خدا کی قسمت سنور گئی، ان کی زندگیوں میں انقلاب آگیا اور گمراہی و ضلالت کے راستے سے نکل کر فلاح و ہدایت کے سچے پیکر بن گئے۔ آج کی تحریر میں اسی ہستی کے کچھ پہلو کا تذکرہ پیش نظر ہے۔
تعارف
آپ کا اسم گرامی نور الحسن ہے۔ حاجی صاحب کا لقب زبان زد خاص وعام ہے۔ بہار کے ضلع مدھوبنی کاگاوں ستگھراآپ کی جائے پیدائش ہے، تاریخ پیدائش۔۔۔۔۔۔۔۔۔بتایا جاتا ہے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت گاوں ہی کے مکتب میں ہوئی ۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ نے لکھنو کا رخ کیا اور مدرسہ فرقانیہ لکھنو سے حفظ کی تکمیل کی۔ آپ بچپن ہی سے انتہائی شریف الطبع واقع ہوئے تھے، لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ سے آپ کو سخت نفرت تھی ،صغر سنی سے ہی تصوف کی طرف میلان تھا ، اس لیے مولوی کی روایتی تعلیم حاصل کرنے کے بجائے تزکیہ نفس کی طرف متوجہ ہوئے ، سلوک و تصوف کی طرف قدم بڑھایا اور بڑھاتے چلے گئے اور اتنے آگے نکل گئے کہ پیچھے مڑکر دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ اس بات کا بھی موقع نہیں ملا کہ باقی درسی تعلیم کی تکمیل کرلیں۔
بیعت و اجازت
آپ بیعت و اجازت کے کئی سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں۔ آ پ کو مولانا انعام الحسن کاندھلوی ؒ سے بھی استفادہ کا موقع ملا اور مولانا ابوالحسن ندوی ؒ کے بھی خوشہ چیں رہے۔ مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی ؒ سے بھی فیض یافتہ ہیں اور مولانا صفی اللہ الٰہ بادی کے بھی منظور نظر رہے۔ ان بزرگوں کی تربیت و تزکیہ نے آپ کو کندن بنادیا۔
بدیس میں ، دیس میں
آپ تین سال تک مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں مقیم رہے اور روحانیت کے مدارج طے کرتے رہے۔ وہاں کے صوفی منش علمائے کرام سے استفادہ کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک مرتبہ کی بات ہے کہ حرم کے سایہ میں مولانا سعد صاحب نور اللہ مرقدہ ، مولانا انعام الحسن کاندھلوی اور مولانا ابوالحسن ندوی ؒ بیٹھے ہوئے تھے ، اسی محفل میں آپ کے بارے میں ان بزرگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب آپ مکہ معظمہ سے ہندستان کا رخ کریں ، وہاں آپ کی سخت ضرورت ہے۔ ہندستان کی امت سخت پیاسی ہے ، وہاں لوگوں کی ہدایت و فلاح کا کام آپ کو سونپا جاتا ہے۔ چنانچہ بزرگوں کے فیصلے کو سر آنکھوں لیتے ہوئے آپ نے یہاں کا رخ کیا اور تب سے مختلف سطح پر ہند کی امت مسلمہ کی صلاح و ہدایت میں مصروف عمل ہیں۔
مسلسل سفر، سفر در سفر
مسلسل سفر ، سفر در سفر آپ کی شان امتیازی ہے ۔ امت کی گمراہی آپ کوایک پل بھی ایک جگہ چین سے بیٹھنے نہیں دیتی، کبھی یہاں کا سفر ، کبھی وہاں کا سفر ، کبھی ادھر جانا ، کبھی ادھر آناآپ کے اصلاحی مشن کا اہم حصہ ہے۔ عموما بزرگوں کے احوال میں یہ لکھا ملتا ہے کہ اپنی خانقاہ میں جلوہ افروز رہتے ہیں اور مریدین کا تزکیہ فرماتے رہتے ہیں ۔ اگرچہ حضرت کی بھی ایک خانقاہ ہے، جس کا نام مولانا ابرارالحق ہردوئیؒ کے دعوتی مشن کے نام پر ’’ خانقاہ دعوت الحق‘‘ ہے ، لیکن حضرت کا ماننا ہے کہ اصلاح و ہدایت کے اس مخصوص دائرے سے نکل کر بھی کام کرنا چاہیے ، تاکہ پتہ چلے کہ امت مسلمہ کے عام طبقہ کی دینی حالت کیا ہے اور اس کی اصلاح و ہدایت کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا چاہیے، یہی وقت اور زمانے کا تقاضا ہے۔ آج دین کے تعلق سے لوگوں کی یہ پوزیشن ہوگئی ہے کہ وہ پیاسے ہیں ، ؛لیکن انھیں پیاس کا احساس نہیں ہے ۔ آج علما کو اس پہلو پرتوجہ دینا ضروری ہے کہ پہلے عوام الناس کو دینی پیاس کا احساس دلائے اور پھر ان کی پیاس بجھانے کا انتظام کرے ۔ یہ انتظام چہاردیواری تک محدود نہ رہے ۔ آج کے دور میں اس بات کا انتظار بالکل لایعنی ہے کہ لوگ آپ کے پاس اپنی ہدایت کے لیے آئیں گے ؛ بلکہ تبلیغ و ہدایت کا صحیح فرض اسی وقت ادا ہوگا ، جب ہم خود چل کر ان کے پاس پہنچیں گے اور ان کو احساس دلائیں گے کہ آپ پیاسے ہیں ، آپ کو آب ہدایت کی سخت ضرورت ہے ۔ اسی لیے حضرت کا یہ خاص امتیاز ہے کہ آپ ہر وقت سفر میں رہتے ہیں ، کبھی یہاں رہتے ہیں ۔کبھی وہاں رہتے ہیں۔
شان کرم و سخا اور بزم سجاد
۲۰۰۴ء کی بات ہے ۔ راقم دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث شریف کا طالب علم تھا۔ اسی سال تین صوبوں: بہار، جھارکھنڈ، اڑیسہ اور ایک ملک :نیپال کی مشترک انجمن ’’بزم سجاد ‘‘ کا صدر تھا ۔ اس کے سالانہ اخراجات تقریبا پچاس ہزار کے قریب تھے ، جو تمام کے تمام ممبری فیس اور مہمانان کرام کی توجہ و عنایت سے پورے ہوتے تھے ، لیکن اس سال قدرت کا کچھ کرنا ایسا ہوا کہ مذکورہ اخراجات کا نصف بھی آمد نہ ہوسکا۔ سالانہ مسابقتی اور اختتامی پروگرام کا وقت آپہنچا تھا۔ راقم اور دیگر ذمہ دار کافی پریشان تھے کہ آخر اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے۔ایک دن نائب صدر مفتی شہزاد قاسمی مظفر پوری راقم کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ چلیے حاجی صاحب بلا رہے ہیں۔ میں تفصیل معلوم کیے بغیر ان کے ساتھ چل دیا۔ وہ ہمیں مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند لے کر آئے اور مذکورہ عہدے کے ساتھ ہمارا تعارف کراتے ہوئے آں حضرت کے سامنے پیش کردیا ۔ حضرت کا پہلا جملہ تھا کہ لاو بھائی پہلے صدر صاحب کو آم کھلاو۔ المختصر دیگر تمام رسمی و لازمی گفتگو ہونے کے بعد دعا کی درخواست کے پیش نظر میں نے حضرت کو انجمن کے حالات بتائے ، تو حضرت نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے ۔ اب میں آگیا ہوں تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ وہ تمام مسائل اس طرح حل ہوئے کہ اس کے دو تین روز بعد حضرت نے مجھے طلب کیا اور اخرجات کی تفصیل پیش کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ میں نے مسابقتی و اختتامی پروگرام کے حوالے سے جتنے اخراجات تھے ، وہ سارے پیش کردیے ، جن میں انعامات ، پروگرام اور ضیافت کے اخراجات تھے ۔ حضرت وہاں سے کسی انجان سفر پر روانہ ہوگئے۔ اور بالکل لاپتہ ہوگئے ۔ حضرت کی تسلی آمیز باتوں سے ہم لوگ بالکل مطمئن تھے، لیکن جب پروگرام میں کچھ ہی دن باقی رہ گئے اور حضرت کا کچھ پتہ نہ چلا کہ کہاں ہیں اور دوبارہ کب تشریف لائیں گے ، تو ہماری پریشانیوں اور حیرانیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ہم لوگ یہ یقین کرچکے تھے کہ ہمیں طفلی تسلی دی گئی ۔ آگے پروگرام کا دباو، وسائل اخراجات نہ ہونے کی فکر،بدنامی کا خدشہ اور ان سب سے بڑھ کر کسی اجنبی کی باتوں پر یقین کرکے تیاریوں سے بے فکر ہوجانے کی حماقت پرآنسو بہا رہے تھے ۔ اب اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ سارازور صرف کرکے تیاریوں کی تکمیل کی جاسکے۔ المختصر حیرانگی و سراسیمگی کے اس عالم میں محو اضطراب تھے کہ پروگرام سے ٹھیک دو دن پہلے حضرت آچانک تشریف لے آئے ۔ 
ہم نے تقریری و تحریری اول، دوم، سوم پوزیشن اور تشجیعی انعامات کے لیے چند کتابوں کی فہرست پیش کی تھی ، لیکن حضرت ایک ٹرک کتابیں لے کر آئے۔ انعامات کے مستحقین میں تقسیم کے علاوہ کچھ کتابیں’’سجاد لائبریری‘‘ کو وقف کی گئیں ، کچھ دیگر انجمنوں کو حوالے گئیں اور کچھ مظاہرالعلوم سہارنپور بھیجی گئیں۔ مالیت کے اعتبار سے لاکھوں سے متجاوزکی کتابیں تھیں۔ اور صرف کتابی اخراجات تک معاملہ نہیں رہا، بلکہ پروگرام سے ایک دن پہلے ہی سے دفتر سجاد لائبریری میں دعوت عام رکھا گیا اور ہر کسی آنے جانے والے کو آم کھلایا گیا ۔ حضرت نے اس موقع سے اتنے دل کھول کر خرچ کیے کہ دیکھنے والے کو رشک آتااور یہ اعتراف کرتا کہ بڑے بڑے مالداروں کو دیکھا ہے ، مگر حضرت کے خرچ کا جو عالم اور کیفیت ہے ، اس کی شان ہی کچھ اور ہے۔حضرت نے صرف انھیں اخراجات کی تکمیل نہیں فرمائی ؛ بلکہ سالوں کے بجلی بل، بورڈ ، دفتر کی مرمت اور دیگر تمام ضروری اشیا بہم پہنچائی ۔ علاوہ ازیں ضیافتی اشیا : دسترخوان، پیالیاں، پلیٹیں وغیرہ اعلیٰ سے اعلیٰ قسم کی خرید کر لائبریری کو وقف کیں۔ یقیناًیہ بزم سجاد کے لیے تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اتنی ہمدرد اور اتنی بہی خواہ شخصیت نے اس کے دفتر میں اپنا قدم مبارک رکھا تھا ، جن کے قدم رنجہ فرمانے سے اس کی رونق میں دوبالگی اور اس کے حسن میں چار چاند لگ گیا تھا۔ 
آم والے حاجی جی
آپ کی شان فیاضی کچھ اس طرح ہے کہ دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پیسے آپ کی جیب میں چبھتے ہوں ۔ آپ دونوں ہاتھ واکرکے دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ اسی سال جب آپ پہلی مرتبہ دیوبند کی مقدس سرزمین پر جلوہ افروز ہوئے تھے اور آم کا موسم تھا ، اتنی کثرت سے آپ نے طلبہ اور شہریوں کو آم کھلایاکہ آپ کا لقب ہی پڑگیا ’’ آم والے حاجی جی‘‘ ۔ آپ مسجد قدیم یا مسجد رشید نماز کے لیے تشریف لے جاتے ، تو راستے میں جو بھی ٹھیلہ والا آم بیچتا نظر آتا ، توآپ یہ کہتے کہ بھائی سب کا سب تولو۔ چنانچہ ٹھیلے والے بھی آپ کی آمد کے منتظر رہتے اور جوں ہی ان کی نظر آپ پر پڑتی ، فورا آپ کے کہے بغیر بھاو تاو اور ناپ تول کی باتیں کرنے لگتے ۔ گویاان کو یقین ہوگیا تھا کہ حضرت کے قدم جب یہاں پڑے ہیں تو ضرور ٹھیلے کے سارے آم خرید لیں گے۔ ہفتوں کا آپ کا قیام وہاں رہا ، لیکن آپ کے فیاضی کے اس عمل میں ذرا بھی فرق نہیں آیا ۔ حتی کہ بزم سجاد کے اختتامی پروگرام کے موقع پر آپ کا یہ کہنا تھا کہ دارالحدیث تحتانی میں ۔جس میں بیک وقت ہزاروں سامعین کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور پروگرام میں شریک رہتے ہیں۔ موجود تمام سامعین کو آم کھلایا جائے ، لیکن انتظامی امور کے پیش نظر اس ارادے کو ملتوی کرنا پڑا اور اس کی دوسری شکل یہ نکالی گئی کہ پروگرام کے دن ظہر کی نماز کے بعد ہی سے دفتر سجاد لائبریری میںآم کی دعوت عام رکھ دی گئی اور عشا کی اذان تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔اس راستے سے گذرنے والے ہر فرد کو پہلے دسترخوان پر بیٹھا کر جی بھر کر آم کھلایا جاتا، پھر جاتے وقت دو دو آم دیا جاتا ۔ مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند میں ہر نماز کے بعد یہی سلسلہ رہتا کہ جو بھی ملاقات کے لیے آتا ، پہلے آم سے اس کی ضیافت کی جاتی ، پھر دوسری کوئی بات کرتے۔ آپ کا یہ عمل کچھ اس طرح شناخت اختیار کرگیا کہ اس دور کے جتنے بھی طالب علم ہیں، ان کے سامنے آپ صرف یہ کہہ دیں گے کہ آم والے حاجی جی ، تو فورا ان کے چہرے پر ایک مسرت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ آپ کی ذات جلوہ گر ہوجائے گی۔
عطر ضرور ملا ہوگا
آپ کی سخاوت کسی خاص موسم کی محتاج نہیں ہے کہ آم کا موسم ہوگا ، تبھی آپ کے دریائے سخاوت کی موجوں میں طغیانی آئے گی۔ آپ کی جودو سخا سدا بہار ہے ، نہ کسی موسم کا پابند ہے اور نہ ہی کسی مخصوص چیزکی محتاج ؛ بلکہ جو کچھ بھی سامنے ہوتا ہے ، جب تک وہ چیز آپ دوسروں کو تحفہ نہیں کردیتے، تب تک آپ کو چین نہیں آتا۔ اگر کسی نے کوئی چیز آپ کے حوالے کی تو وہ چند ہی لمحوں میں کسی اور کی ملکیت میں نظر آئے گی۔ آپ جہاں ایک ہاتھ سے لیتے ہیں ، وہی دوسرے ہاتھ سے فورا کسی اور کو گفٹ کردیتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کے باوجود خصوصیت کے ساتھ جو چیز آپ کسی کودینا نہیں بھولتے ، وہ عطر ہے ۔ آپ اپنے ہر محفل میں ہر واردین و صادرین کو عطر سے معطر ضرور کرتے ہیں ، بلکہ یہ آپ کی ایک امتیازی عادت میں شامل ہے کہ جو کوئی بھی حضرت کے سامنے ہوتے ہیں ، شناسا اور غیرشناسا کی تمیز کیے بغیر آپ فورا عطر لگاتے ہیں اور لگاتے لگاتے شیشی کی شیشیاں ہدیہ دیتے چلے جاتے ہیں ۔ حتی کہ متعلقین میں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ اگر کوئی حضرت سے ملاقات کرکے آتا ہے اور جاننے والے کو پتہ چلتا ہے کہ ابھی حضرت سے مل کر آرہا ہے تو وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ کیا کیا ہدیہ ملا، عطر تو ضرور ملا ہوگا۔
کراماتی نگاہ
آپ کی نگاہ میں کچھ ایسی مقناطیسی قوت ہے کہ جس پر آپ کی نگاہ پڑجاتی ہے ، اس کی تقدیر ہی بدل جاتی ہے۔ راقم نے بڑے بڑے لوگوں کو دیکھا کہ وہ کسی قیمت پر بھی آپ کے ساتھ کوئی معاملہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے؛ لیکن جوں ہی حضرت کی نگاہ ان پر پڑی ، فورا اس کے لیے آمادہ ہوگیے۔ ایسا بارہا مشاہدہ میں آیا ۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کا قصہ ہے کہ وہاں ایک بہت مشہور پینٹر ہے ، جن کا نام مستقیم ہے۔ اسی نام سے ان کی دوکان بھی ہے۔ بڑے ماہر اور مشہور پینٹر ہیں۔ ان سے کچھ بھی پینٹ کرانے کا مطلب ہے کہ آپ کم از کم دو ڈھائی مہینے کا انتظار کریں۔ بزم سجاد کے اختتامی پروگرام میں صرف دو دن رہ گئے تھے ۔ حضرت کا حکم ہوا کہ تین نئے بینر بنوالو ۔ ہم نے عرض کیا کہ حضرت اتنی جلدی تو کوئی بھی لکھ کر نہیں دے سکے گا۔ حضرت نے کہا مجھے پینٹر کے بارے میں بتاو۔ ہم نے اسی مشہور پینٹر کا نام لیا ۔ ایک صاحب نے ان کا موبائل نمبر فراہم کردیا ۔ حضرت نے فون کیا اور یہ کہا کہ آپ صرف ملنے کے لیے دفتر بزم سجاد آئیں۔ پہلے تو انھوں نے وقت کا عذر کیا ؛ لیکن ہم نے دیکھا کہ کچھ دیر بعد وہ دفتر میں حضرت کے روبرو دوزانوبیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت کی نگاہ خاص کا کرشمہ تھا کہ پینٹر صاحب نے دودن کے بجائے اسی دن ہمیں تین بینر بنا کر دیے اور وہ بھی بغیر قیمت لیے۔
راجدھانی دہلی میں ایک جگہ نبی کریم ہے ۔ اس کے پولیس تھانے کے برابر میں میزبان نامی ہوٹل ہے۔ حضرت ایک مرتبہ لکھنو سے تشریف لا رہے تھے ۔ میرے پاس آپ کی تشریف آوری کی اطلاع آئی۔ میں نے فون کی گفتگو میں اپنے پاس تشریف لانے کے لیے اصرار کیا ۔ حضرت نے کہا :پہنچ کر دیکھیں گے۔ البتہ اسٹیشن آجانا۔ ہم نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچے، معلوم ہوا کہ وہاں اورکئی لوگ اپنی اپنی کاریں لے کر موجود ہیں ۔ حضرت نے میزبان کا رخ کیا اور ساتھ میں موجود تمام افراد کو کھانا کھلایا ۔ رات کے پونے ایک بج چکے تھے ۔ ہوٹل مالک نے کہا کہ حضرت آپ کے قیام کا کیا ارادہ ہے۔ حضرت نے میری جانب اشارہ کیا کہ آج کا کمانڈو یہ ہے۔ ہوٹل مالک نے مجھ سے کہا کہ حضرت کو آج میرے یہاں قیام کرنے دو ۔ میں نے حضرت کی سہولت اور آرام کی خاطر ہاں کہہ دیا ۔ باتوں ہی باتوں میں اس بات کا تذکرہ آیا کہ آپ کی حضرت سے وابستگی کیسے ہوئی۔ انھوں نے لمبی داستان سناتے ہوئے آخر میں کہا کہ حضرت نے لوگوں کو فری میں دعوتیں کھلا کھلاکر میرا ہوٹل تقریبا ختم ہی کردیا تھا اور میں کافی متفکر بھی تھا ، لیکن کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ ایک دن ایسے ہی میں نے حضرت سے خیروبرکت کے لیے دعاکو کہا ۔ حضرت نے سامنے بیٹھا کر ایک خصوصی نظر ڈالی اور کچھ نہیں فرمایا ۔ اس دن سے میرے ہوٹل میں اتنی برکت ہوئی کہ یہ ایک منزل سے کئی منزلہ ہوٹل میں تبدیل ہوگیا۔ 
۲۰۰۸ء کا واقعہ ہے کہ حیدرآباد میں جمعیۃ علماء ہند کا انتیسواں اجلاس عام تھا ۔ اس موقع سے از دیوبند تا حیدرآباد خصوصی ٹرین چلائی گئی۔ حضرت نے نظام الدین ریلوے اسٹیشن سے مجھے فون کیا ۔ اس وقت راقم جامعہ عربیہ بیت العلوم جعفرآباد دہلی میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا اور کسی کام سے جامع مسجد آیا ہوا تھا ۔ مجھے حکم دیا کہ بس نظام الدین ریلوے اسٹیشن آجاو۔ میں حاضر خدمت ہوگیا ۔ حضرت نے مجھے اپنے پاس بیٹھا لیا اور کہا کہ دو ٹکٹ ہیں، تمھیں بھی ساتھ چلنا ہے۔ میں نے مدرسے سے چھٹی نہ لینے اور مہتمم صاحب کو اطلاع نہ دینے کا عذر کیا ۔ حضرت نے مجھ پر ایک خاص نگاہ ڈالی کہ پھر میں کچھ نہ کہہ سکا۔ اور بغیر کسی تیاری اور سامان سفر کے حضرت کے ساتھ ہولیا ۔ میں وہاں پہنچ کر بار بار پریشان ہوکر مہتمم صاحب کو فون کررہا تھا ، تاکہ میں اپنی مجبوری بتا سکوں ، لیکن حضرت مہتمم صاحب میرا فون ریسیو تک کرنے کے لیے تیارنہ تھے۔ میری پریشانی کو دیکھتے ہوئے کہاکہ تم سمجھتے ہو کہ تمھیں مدرسے سے نکال دیں گے۔ تم مطمئن رہو ،ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوگا۔چنانچہ وہی ہوا، جو حضرت نے کہا ۔ حضرت مہتمم صاحب ناراض ضرور تھے ، اس کے باوجود راقم کو ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
حیدرآباد کے سعیدآباد میں ایک مدرسہ ہے۔ وہاں حضرت اپنے ساتھی اس مدرسے کے مہتمم جناب قاری امیر حسن ؒ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ حضرت کہیں باہر نکل گئے ہیں اور دوپہر بعد ہی آنے کی توقع ہے۔ انتظار گاہ میں حضرت لیٹ گئے اور کہاکہ ملاقات کرکے ہی جانے کی سوچ رہاہوں۔ لیکن ہم لوگ اکتاہٹ محسوس کرنے لگے ، تو حضرت نے کہا روکو ابھی تھوڑی دیر میں تم لوگوں کو سیر پر لیے چلتا ہوں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک اور شخص حضرت سے ملنے آئے انھوں نے مدرسے کے لیے حیدرآباد سے تقریبا اسی کیلو میٹر دور وقارآباد میں ایک جگہ خریدی تھی ، مدرسے کے سنگ بنیاد اور دعا کے لیے آئے تھے ۔پہلے ان دونوں صاحبان کی نظریں ایک دوسرے سے ملیں۔ پھر گفتگو ہونے لگی اور کچھ دیر بعد وہ بہت زیادہ اصرار کرنے لگے کہ حضرت ان کو تو ہم بعد میں لے کے جائیں گے ہی ، آپ زہے قسمت سے یہاں موجودہیں ، آج آپ کو چلنا ہی پڑے گا۔ چنانچہ حضرت نے ہاں کہہ دیا۔ انھوں نے بیٹے کو فون کیا ۔ ان کا بیٹا گاڑی لے کر آیا اور ہم سب کو وہاں لے گئے ۔ زمین پر کدال چلا کر حضرت نے دعائے خیر فرمائی۔
اس طرح کے کئی اور واقعات ہیں کہ جہاں حضرت کی نگاہ پڑی ،وہاں ناممکن بھی ممکن ہوتا نظر آیا۔ یقیناًیہ آپ کی مومنانہ نگاہ کی فراست ہے کہ جو چیز عام لوگوں کی نگاہیں دیکھنے سے قاصر ہیں، حضرت ان کا ادراک فرمالیتے ہیں اور جن پر وہ نگاہ فراست پڑجائے ، تو ان کی تقدیر بدل جاتی ہے ۔ علامہ اقبال نے شاید انھیں حضرات کے لیے کہا تھا کہ ع
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں 
قوت کشف
حضرت حاجی صاحب کا قوت کشف بھی بہت تیز ہے ۔بارہا ایسا ہوا کہ راقم کے دل میں کچھ خیال گذرا اور حضرت نے اس کے مطابق کچھ کہا یا کروا دیا ۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت دہلی تشریف لائے اور مولانا سلمان صاحب ۔ حضرت مولانا عمر پالنپوری ؒ کے صاحب زادے۔ کے ہوٹل میں بہتر گھنٹے کا قیام فرمایا۔ پہلے دن کسی سے ملاقات کی غرض سے نبی کریم تشریف لے گئے ، وہاں سے فون آیا کہ یہاں چلے آو، ہم چلے آئے اور بیت العلوم سے ایک طالب علم کو بھی ساتھ لے لیا ، جو نعت بڑی اچھی پڑھتا تھا۔ دوسرے دن پھر نظام الدین آنے کا حکم دیا اور کہا کہ اس نعت گو طالب علم کو بھی ساتھ لیتے آنا ۔ چنانچہ تعمیل حکم کرتے ہوئے ہم دونوں دوسرے دن نظام الدین حاضر ہوئے ۔ راستے میں میرے دل میں یہ خیال آیا کہ حضرت اگر یوں ہی روزانہ ہم کو ادھر ادھر بلاتے رہیں گے اور ہم دو آدمی حاضر ہوتے رہیں گے ، تو شاید میری تنخواہ آمدو رفت کے اخراجات کے لیے ناکافی ہوجائے گی۔ حضرت کا کشف ملاحظہ کیجیے کہ حضرت نے جب مجھے واپسی کا حکم دیا تو مولانا سلمان صاحب کو کہا کہ ان کو پانچ پانچ سو دے دو۔ میں چوں کہ کمرے سے باہر آگیا تھا، اس لیے انھوں نے طالب علم کو پیسے دے یے۔ وہ باہر آیا اورمیرا حصہ میرے حوالہ کرنے لگا ، تو میں واپس کرنے اور لینے سے معذرت کے لیے اندر گیا ، تو حضرت نے اور پانچ پانچ سو دینے کا حکم کردیا۔ مولانا سلمان صاحب میرا ہاتھ پکڑے مجھے کمرے سے باہر لائے اور مزید پانچ پانچ سو عنایت کرتے ہوئے بطور مذاق کہاکہ بھائی اب چلے جاو ورنہ میری جیب اور ڈھیلی ہوجائے گی ۔ اور بہ اصرار انھوں نے میرے جیب میں پیسے رکھ دیے ۔ اب انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گئی تھی ۔ اس لیے عافیت اسی میں محسوس ہوئی کہ جتنی جلدی ہوسکے ، یہاں سے نکلنا ہی مناسب ہے۔اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے ، جب حضرت نے اس طرح کے معاملات ہمارے ساتھ کیے۔
ایک لاکھ دو
حضرت کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی مسئلہ آپ کے سامنے بیان کرتا تو ، آپ یہ کہتے کہ اپنا کیس مجھے لکھ کر دو اور ایک لاکھ دو ، تمھارا کام ہوجائے گا، سامنے والا کہتا کہ ہمارے پاس تو ایک لاکھ روپیے نہیں، اور دل میں یہ بھی خیال کرتا کہ یہ کس قسم کے بزرگ ہیں ، جو دعا کے لیے پیسے مانگتے ہیں اور وہ بھی تھوڑا بہت نہیں؛ پورے ایک لاکھ!۔ لیکن جب وہ کہتا کہ یہ تو میرے پاس نہیں ہے ، تب حضرت کہتے کہ ایک لاکھ مجھے درود شریف پڑھ کے مجھے دو۔ آپ کا یہی طرز عمل ہے کہ جس کسی کا کیس لیتے ہیں ، اس سے ایک لاکھ درود شریف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور ہر کسی کو کثرت سے درود شریف پڑھنے کو کہتے ہیں۔
بہت ساری باتیں ہیں ۔ دل چاہتا ہے کہ میں وہ تمام باتیں ، بطور خاص جو باتیں براہ راست راقم کے مشاہدے اور معاملات میں ہوئیں ، ایک ایک کرکے لکھ دوں ، لیکن مصروفیات اجازت نہیں دے رہی ہیں۔ موقع ملے گا، تو پھرکبھی یہ داستان حقیقت سنائیں گے ۔ حضرت کی ذات گرامی ابھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ آپ بھی حضرت سے قریب ہوکران کی شخصیت اور بزرگی سے فائدہ اٹھائیے اور بچشم خود ان حقیقت کا مشاہدہ کیجیے ۔ اللہ حضرت کا سایہ تا دیر ہمارے اوپر قائم رکھے اور ان کی ذات گرامی سے دنیا وجہان کو فائدہ بخشے۔ آمین۔

اصلاح عمل کا صحیح طریقہ

محمد یاسین جہازی
صلاح عمل کا صحیح طریقہ
صحابہ کی مقدس محفل سے مسجد نبوی گلزار بنی ہوئی ہے۔ نبی اکرم صلٰی اللہ علیہ وسلم کا ووجود باجود اس محفل کی رونق میں دوبالگی پیدا کررہا ہے ۔ نورانیت کی یہی فضا چھائی ہوئی ہے کہ اچانک ایک ایسا شخص اس بیچ آجاتے ہیں ، جن کے بال بہت کالے اور جن کا کپڑا انتہائی سفید ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ لمبے سفر سے نہیں آئے ہیں، لیکن وہ وہاں کا رہنے والابھی نہیں ہے ، کیوں کہ حاضرین میں سے کوئی بھی ان سے آشنا نہیں ہے ۔ اس کے باوجود ایک بے تکلف آشنا دوست کی طرح محفل میں آتے ہیں اور سرکاردوجہاں ﷺ کے سامنے دو زانو اس طرح بیٹھ جاتے ہیں کہ اپنے گھٹنے آں حضرت ﷺ کے گھٹنے سے ملادیتے ہیں ۔ اور اپنے ہاتھ حضور اکرم ﷺ کی رانوں پر رکھ دیتے ہیں ۔ پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع کرتے ہیں ۔ پانچ سوال کرتے ہیں ؛ لیکن سوالوں کے جواب پانے کے بعد وہ اجنبی ایک ایسا جملہ بول دیتے ہیں کہ حاضرین محو حیرت ہوجاتے ہیں کہ آخر یہ کون ہیں ، کس قسم کا آدمی ہیں کہ سوال بھی کررہے ہیں اورجواب کے صحیح ہونے پر مہر تصدیق بھی ثبت کررہے ہیں ۔ان کا پہلا سوال ہوتا ہے: یا محمد اخبرنی عن الاسلام ائے محمد ﷺ مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔نبی اکرم صلٰی اللہ علیہ و سلم جواب دیتے ہیں : اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی ذات عبادت و بندگی کے لائق نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور ماہ رمضان کے روزے رکھواور اگر حج بیت اللہ کی استطاعت رکھتے ہو تو حج کرو۔ اس جواب کی تصدیق و تصویب کے بعد دوسرا سوال کرتے ہیں کہ اخبرنی عن الایمان مجھے بتائیے کہ ایمان کیا چیز ہے؟۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کو حق جانواور ہر خیر وشر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو۔ اس جواب کی بھی تصدیق و تصویب کرتے ہیں اور تیسرا سوال پوچھتے ہیں کہ اخبرنی عن الاحسان مجھے بتائیے کہ احسان کسے کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہوتا ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، پس اگر یہ مقام (مشاہدۂ حق ) تمھیں حاصل نہ ہوتو پھر عبادت کرو اس طرح اور اس تصور کے ساتھ کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ اجنبی سلسلہ سوالات جاری رکھتے ہوئے قیامت اور اس کی نشانیوں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں اور جواب پاکر واپس ہوجاتے ہیں ۔ کچھ لمحات یوں ہی گذرجاتے ہیں ، پھر کائنات دوعالم ﷺحضرت عمرؓ سے پوچھتے ہیں کہ تمھیں پتہ ہے کہ سوال کرنے والا کون تھا۔ صحابہ کا اپنے معمول کے مطابق وہی جواب ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ حضرت جبرئیل تھے تمھاری مجلس میں اس لیے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمھارا دین سکھادیں۔ 
ان سوالات و جوابات میں ہمارا روئے سخن تیسرے سوال وجواب کی طرف ہے۔ اس میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جس چیز کی تعلیم دی ہے ، وہ ہماری زندگی کے لیے سب سے اہم تعلیم ہے ۔ اگر ہماری زندگی ، ہماری عبادتیں ، ہماری نمازیں، ہمارا یقین، ہمارا ایمان ، غرض ہمارا ہر ہر عمل اس تصور و فکر سے خالی ہے ، تو یقین مانیے کہ ہمارا کوئی بھی عمل بامعنی نہیں ہوسکتا، ہماری کوئی بھی عبادت لائق تحسین نہیں ہوسکتی، ہماری کوئی بھی دین کے سلسلے کی جدو جہد باوزن نہیں ہوسکتی، ہمارے کسی بھی اعمال پر ان کے برکات و ثمرات مرتب نہیں ہوسکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ نماز پڑھتے پڑھتے ہماری پیشانیاں نشان آلود ہوجاتی ہیں ؛لیکن نماز کا کوئی بھی فائدہ و ثمرہ ہماری زندگی میں نظر نہیں آتا ۔ نماز کی شان امتیازی ہے کہ ان الصلاۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر کہ نماز بیشک ہر قسم کی برائیوں اور بے حیائیوں کے لیے روکاوٹ ہے ؛ مگر ہمارا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ ہماری زندگی نماز پڑھتے پڑھتے آخری منزل میں پہنچ چکی ہے، لیکن ہماری ایک بھی نمازبرائی کے لیے مانع نہیں بنی ۔ آخر کیا وجہ ہے ؟ دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں : یا تو اعمال کے وہ برکات و ثمرات حقیقت میں ہے ہی نہیں ، جو بیان کیا گیا ہے ، صرف شوق و ذوق پیدا کرنے لیے ترغیبی و ترہیبی کلمات ہیں، یا پھر ہماری نماز اور ہمارے اعمال ،وہ اعمال اور وہ نماز ہے نہیں ، جن کے بارے میں یہ ارشادات فرمائے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اول الذکر بات اسی طرح درست نہیں ہوسکتی، جس طرح یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ دودو مل کر چار کے بجائے پانچ ہوجاتے ہیں۔ موخر الذکر بات ہی صحیح ہے کہ درحقیقت ہمارے اعمال اس درجے کے ہوتے ہی نہیں کہ وہ اعمال ہماری زندگی میں اپنے اثرات و نقوش چھوڑ جائیں۔ ان کے فوائد و ثمرات تبھی مرتب ہوسکتے ہیں، جب ہماری نماز میں ، ہمارے تمام اعمال میں احسان کی کیفیت پیدا ہوجائے ۔ 
احسان کے دو درجے ہیں:ایک درجہ تو یہ ہے کہ عابد عبادت اس تصور کے ساتھ کرے کہ میں اللہ کے سامنے ہوں اور اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ مقام درجۂ دوم کے عابدوں اور عارفوں کا ہے ۔ اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ عابد اس یقین کے ساتھ عبادت کرے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں ۔ یہ مشاہدۂ حق کا درجہ ہے ، جو عرفائے کاملین کا مقام ہے۔اگر ہماری عبادتیں اور ہمارے تمام معاملات احسان کی ان کیفیات سے عاری ہیں ، تو سمجھ لیجیے کہ ہمارے کسی بھی اعمال پر ان کا کوئی بھی فائدہ و ثمرہ مرتب ہونے والا نہیں ہے۔ 

سہانے ماضی کے حوالے سے یوم اساتذہ پر چند یادیں اور تاثرات

محمد یاسین جہازی
(تقریر برائے یوم اساتذہ برائے لڑکی)
ناظرین و سامعین! میں جناب ۔۔۔کی نور نظر بی بی۔۔۔ ، کلاس ۔۔۔ کی طالبہ سب سے پہلے آپ تمام حضرات کادل کی اتھاہ گہرائیوں سے استقبال کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں سلام کی سوغات پیش کرتی ہوں : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
میری پیاری پیاری سہیلیواور سامعین! جب گھڑی کی تینوں سوئیاں اپنی اپنی رفتار سے گھومتی ہوئی چوبیس کے علامتی دائرے کو مکمل کر لیتی ہیں ، تو ہماری زندگی سے ایک ’دن ‘نکل چکا ہوتا ہے اور ایک دوسرا’ڈے‘ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ زندگی کے یہ ایام یوں ہی گذرتے رہتے ہیں۔ کچھ ڈے تو یوں ہی آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ، ان میں نہ تو تذکرۂ سرورو مستی ہوتا ہے اور نہ ہی وہ لمحات رنج وغم فراہم کرتے ہیں، بس آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، لیکن کچھ ڈے ایسے بھی آتے ہیں ، جو ہماری زندگی کے لیے خوشیوں کی بہار کا نویدفرحت ہوتے ہیں ، پھر وہ دن ہماری زندگی کا ایک یادگار اور مسرت آمیز دن ہوتا ہے، جس کے ایک ایک لمحہ کو قیمتی جانتے ہوئے اپنے دامن میں خوشیاں سمیٹنے اور باٹنے کا کام کرتے ہیں ۔ یہ سال میں صرف ایک ہی دن، اور ایک ہی ڈے نہیں ہوتا، بلکہ ہماری شعبہ ہائے حیات سے وابستگی جس نوعیت کی ہوتی ہے، اس کے اعتبار سے یہ ایام بار بار ہمیں یہ موقع فراہم کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب ایک سال میں اتنے ڈے آنے لگے ہیں کہ کبھی ہم خود کنفیوز ہوجاتے ہیں کہ سال کے ایام زیادہ ہوتے ہیں یا پھر یہ ڈے۔ 
چنانچہ 
کبھی فادرس ڈے آتا ہے ، تو کبھی مدرس ڈے
کبھی واٹر ڈے آ دھمکتا ہے ، تو کبھی گڈ فرائڈے
کبھی فرینڈ شپ ڈے کی رنگینیاں آتی ہیں تو کبھی میرج ڈے
کبھی بینک ہولی ڈے ہوتا ہے، تو کبھی کرسمس ڈے 
مزدور ڈے، گاندھی ڈے، گرو نانک ڈے،شب معراج ڈے، آزادی دے ، برتھ ڈے اور خدا جانے کتنے ڈے ڈے ڈے۔ المختصر سلیبریشن اور جشن کے اتنے ڈے آتے ہیں کہ ہمارے ممی ڈیڈی، ان ڈیڈوں کے اخراجات اور فنکشن سے بس ڈیڈ ہوتے ہوتے ہی بچتے ہیں۔
میری ہم نفسو! ہوائیں ہر موسم میں چلتی ہیں، لیکن ساون کے مہینے کی باد نسیم کی خنکی کچھ اور ہی پیام لے کر آتی ہے، پرندوں کی چہچہاہٹ سب کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ، لیکن کوئلوں کی کوں کوں اور پپیہوں کی پیہوں پیہوں کی صدائے نشاط سے کون جھومنے پر مجبور نہیں ہوتا،کھیتوں کی ہریالی، باغوں کی لہلہاہٹ ہمیں ضرور دعوت نظارہ دیتی ہے ، پر جو بات یاسمین و نسترن کی رنگت اور چمپاو چمیلی کی مہک میں ہوتی ہے ، اس کی بات ہی الگ ہے۔ اسی طرح سورج ہر دن نکلتا ہے ، شام ہر روز آتی ہے، لیکن جو بات ’یوم اساتذہ‘ میں ہے، وہ کسی اور ڈے میں نہیں۔ 
کیوں کہ جب ہم ان سلیبریشن ایام کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان میں کچھ ڈے تو وہ ہیں ، جو صرف ہماری ذات سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے :برتھ ڈے ، اور کچھ وہ ہوتے ہیں، جو ہماری عشق و شیفتگی اور الفت وارفتگی کا مظہر ہوتے ہیں جیسے شادی ڈے ،فرینڈشپ ڈے۔ کچھ ڈے ایسے ہوتے ہیں ، جو ہمیں ماضی کے سہانے ایام کی یاد دلاتے ہیں ، آزادی ڈے، کرسمس ڈے اس کی مثالیں ہیں۔ اور کچھ زندگی کے تلخ و کڑوی حقیقت سے روشناس کراتے ہیں ، مزدور ڈے اور وفات ڈے کی یہی خصوصیات ہوتی ہیں۔ یعنی یہ ڈیز یا تو ہمیں ماضی کی خوشیاں فراہم کرتے ہیں یا پھر اس کی کسی تاریخی سچائی سے روشناس کراتے ہیں ، ان میں ہمارے حال اور مستقبل کے لیے کوئی لائحۂ عمل یا درس عبرت نہیں ہوتا
لیکن 
میری باتمکین و شگفتین سہیلیوں اور معزز سماعتیں! یہ ٹیچرس ڈے، یہ یوم اساتذہ ، یہ گرو اتسو، یہ یوم المعلمین ہمیں کبھی ماضی میں بھی لے جاتا ہے اور جب کبھی ہمیں اپنا ماضی یاد آنے لگتا ہے تو ہمارے پہلے کے اساتذہ کی شفقتیں اور عنایتیں آنکھوں میں آنسو بن کرامتنان و تشکر کی سوغات پیش کرتی ہیں اور ہم بہ زبان قال نہ سہی، بہ زبان حال یہ ترانہ سنجی کرتی ہیں کہ ؂
کتنی حسین صبح ، حسیں شام آئے گی 
لیکن تمھاری یاد بھلائی نہ جائے گی
یہی ہمارے ماضی کے دھندلکے خواب ہمارے حال کے لائحۂ عمل طے کرنے کے لیے روشنی کا کام کرتے ہیں، اگر ہمارے سابقہ اساتذہ ہمیں تعلیم و تربیت کی شکل میں وہ خواب نہ دکھاتے ، تو آج حال کے اس پردے پر یہ تعبیر ہاں ہاں یہی تعبیر،جو آپ ہیں ،آپ ہیں اور آپ ہیں اور ہم سب ہیں،اسی’ ہم‘ میں سے ایک فرحت جہاں ،آپ کے سامنے کھڑی ہوکر ہمت و حوصلے سے الفاظ کے یہ موتی بکھیرنے کی قابل نہیں ہوتی ۔ آج میں بول رہی ہوں ، آپ بول رہے ہیں اور ہم سب بول رہے ہیں ، تو یہ انھیں اساتذہ کی کرشمہ سازیاں ہیں ۔ انھوں نے ہمیں زندگی کی تلخ راہوں میں چلنے کا شعور بخشتے ہوئے سکھایا کہ 
تیرے بال و پر کا مقصد ہے بلندیوں پہ جانا 
نہ سکوں نہ سیر گلشن نہ تلاش آب و دانہ
انھوں نے ہمیں حوصلہ دیا کہ ؂ 
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا 
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے
چنانچہ ان اساتذہ کی ہدایات و ارشادات کی روشنی میں حال سے گذرتے ہوئے ہم مستقبل کو تلاش کرنے کے سفر پر نکلے ہوئے ہیں اور جب تک ہمیں اپنے مستقبل میں محفوظ منزل نہیں مل جاتی 
ہم چلتے ہی رہیں گے 
ہم بڑھتے ہی رہیں گے
اور قدم بڑھاتے ہی رہیں گے
لہذمیں اپنی طرف سے اور تمام سہیلیوں و ساتھیوں کی طرف سے 
زندگی کے اس موڑ پر 
شب و روز کی اس گردش پر
کلینڈرکی اس تاریخ پر 
میرا مطلب
’’یوم اساتذہ‘‘ کے اس حسین و خوب صورت جشن پر 
ٹیچرس ڈے کے اس سلیبریشن پر
اپنے ماضی وحال کے اساتذہ کے حضور، ممنونیت و مشکوریت کے پھول نچھاور کرتی ہوں اور رنگ ہائے رنگ سے آراستہ و پیراستہ گل دستۂ سلام و محبت پیش کرتی ہوں۔ اس جذباتی لمحات میں ان کی یاد نے میرے دل کے اندر وہ ہلچل پیدا کردی ہے کہ میں یہ کہنے پر پر مجبور ہوئی جارہی ہوں کہ 
ڈھونڈتا ہوں جہاں در جہاں
کھوگیا میرا بچپن کہاں
جی ہاں، وہ بچپن، بچپن کی وہ یادیں، میں ننھی منھی، میرے ننھے مننھے دوست، ہماری معصوم ذہانت، معصومیت و بے شعوری کی شوخی، کبھی ہنسنا، کبھی رونا، کبھی گڈے گڑیے کی لڑائی، کبھی ساتھیوں و ہم جولیوں کی محفل اور ان تمام کیفیتوں میں ہمارے ماں باپ اور اساتذہ کی شفقتیں و عنایتیں، جب کبھی مجھے یاد بن کر ستاتی ہیں ، تو میرا دل اس تمنا سے مچل مچل اٹھتا ہے کہ ؂
ہاں دکھادے ائے تصور ، پھر وہ صبح و شام تو 
لوٹ پیچھے کی طرف ائے گردش ایام تو
لہذاجشن یوم اساتذہ اس کے سلیبریٹی پر چھوڑ دیجیے ان باتوں کو اور فراموش کرجائیے ماضی کی حسین یادوں کو ، جن کو دہرانے سے ماتم کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے، اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ ؂
یہ سچ کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیں
اوراق نظر سے جلووں کی تحریر مٹانا کھیل نہیں
لیکن ؂
لیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاؤ رہنے دو
جو آگ دبی ہے سینے میں ، ہونٹوں پہ نہ لاؤ رہنے دو
میرے ہم صفیرو! ہندی کاایک مشہور محاورہ ہے کہ پیدا کرنے والے سے ، پالنے والا کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے ۔ ہمارے والدین ہماری زندگی کا سبب ہوتے ہیں،ہماری دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں، لیکن اساتذہ ہمارے حال اور مستقبل کو سجانے اور سنوارنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرتے ہیں ، یہ کردار کوئی معمولی کردار نہیں ہوتا۔ اگر والدین کی عنایتوں کے علاوہ اساتذہ کی رہنمائی ہمارے شامل حال نہ ہو ، تو یقین جانیے کہ ہماری زندگی لاحاصل اور بے مقصد ہوسکتی ہے، ہماری ترقی کے تمام راستے مسدود ہوجائیں گے ، ہمارے اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا، گویا ہمیں صف انسان میں شامل ہونے کا شعور اساتذہ کی مرہون منت ہے، اس لیے آج اس یوم اساتذہ کے موقع پر اپنے تمام اساتذہ کے ادب و احترام کے عزم کا اعلان کرتے ہوئے یہ استدعا کرتی ہوں کہ جس طرح آپ نے اب تک ہماری بے لوث رہ نمائی فرمائی
ہم نے اپنی زندگی کے حسین لمحات آپ کے حوالے کیے، آپ نے ہمیں زیور تعلیم وتربیت سے مزین کیا اس کے لیے آپ کا شکریہ
ہم کردار سے خالی تھے ، آپ نے ہمارے کرداروں میں اخلاق حسنہ کے پھولوں کے ہار پہنادیے اس کے لیے بھی شکریہ 
ہم آداب گفتگو سے عاری تھے ،ہماری گفتارمیں شیرینی اور مٹھاس پیدا کی اس کے لیے بھی شکریہ
ہم کردار سے نابلد تھے ،ہمارے کردار کوآپ نے معیار بخشا اس کے لیے بھی شکریہ
راہ حیات کی پر خار وادی میں چلنے کا سلیقہ عطا کیا اس کے لیے بھی شکریہ
زمانے کی سرد و گرم ہواوں سے حفاظت کا طریقہ بتلایا اس کے لیے بھی شکریہ
فکرو فن کا شعور دیا اس کے لیے بھی شکریہ
اخوت و محبت کے درس دیے اس کے لیے بھی شکریہ
فلسفۂ خیر وشرسمجھایا اس کے لیے بھی شکریہ
حسن و عشق کے منطقی انجام سے آگاہ کیا اس کے لیے بھی شکریہ
مستقبل کے حسین خواب دیکھنے کی حوصلہ افزائی کی اس کے لیے بھی شکریہ
خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا گر بتایا اس کے لیے بھی شکریہ
المختصر ہر وہ اس عمل کے لیے شکریہ، جوآپ نے ہمارے لیے کیا اور آئندہ آپ کا ہمارے تئیں جو بھی رول پلے ہوگا، ان کے لیے بھی شکریہ ،شکریہ، شکریہ۔
آخر میں سمع خراشی کی معذرت چاہتے ہوئے اپنے اساتذہ کے لیے دعا گو ہوں کہ ؂
تم سلامت رہو ہزاربرس
ہربرس کے دن ہو پچاس ہزار
اور آپ سے اس وعدے کے ساتھ اجازت چاہتی ہوں کہ ؂
شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تک
تمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

تراویح


محمد یاسین جہازی
تراویح کی روایت
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن آدھی رات کو آپ ﷺ مسجد تشریف لے گئے اور نماز پڑھی ۔ صحابہؓ نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح اس بات کا چرچا ہوا، تو دوسرے دن کافی لوگ مسجد میں آگئے۔ آپ ﷺ نے ان سب کو نماز پڑھائی۔ تیسرے دن اور صحابہؓ کو معلوم ہوا تو وہ سب آگئے ، اس دن بھی آپ ﷺ نے ان سب کو نماز پڑھائی ۔ چوتھے دن اور زیادہ چرچا ہوا اور شوق نماز میں اتنے صحابہ مسجد نبوی میں جمع ہوگئے ، مسجد کھچاکھچ بھر گئی۔ اس دن آپ ﷺ مسجدمیں تشریف نہیں لائے۔ جب فجر کی نماز کے لیے تشریف لے گئے اور فجر کی نماز پڑھادی، تو آپ ﷺ نے ایک تقریر فرمائی۔ حمدو صلاۃ کے بعد ارشاد فرمایا کہ :مجھ سے تم لوگوں کی موجودگی پوشیدہ نہیں تھی، لیکن مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہوجائے اور پھرتم اس نمازکو ادا نہ کرسکو۔آپ ﷺ کی تا وفات معاملہ یوں ہی رہا۔ یعنی پھر کبھی آپ ﷺ نے نماز نہیں پڑھائی اور لوگ اپنے اپنے طور پر پڑھتے رہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں: 
ان رسول اللہ ﷺ خرج لیلۃ من جوف اللیل، فصلی فی المسجد، و صلٰی رجال بصلاتہ، فاصبح الناس، فتحدثوا، فاجتمع اکثر منھم، فصلیٰ فصلوا معہ، فاصبح الناس فتحدثوا، فکثر اھل المسجد من اللیلۃ الثالثۃ، فخرج رسول اللہ ﷺ فصلیٰ فصلوا بصلاتہ، فلما کانت اللیلۃ الرابعۃِ عجز المسجد عن اھلہ، حتٰی خرج لصلاۃ الصبح، فلما قضٰی الفجر، اقبل علیٰ الناس، فتشھد، ثم قال اما بعد! فانہ لم یخف علی مکانکم، ولٰکن خشیت ان تفترض علیکم، فعجزوا عنھا،فتوفی رسول اللہ ﷺ والامر علیٰ ذالک (بخاری، کتاب صلاۃ التراویح ، باب فضل من قام رمضان) 
آپ ﷺ کے بعد
آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں بھی معاملہ یوں ہی رہا۔ صحابہ انفرادی طور پر یہ نماز پڑھتے رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا دور فتنوں اور ارتداد کا دور ہونے کی وجہ سے دیگر کاموں میں مصروف رہے اور اس کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ پھر جب حضرت عمر فاروقؓ کا دور خلافت آیا ، تو انھوں نے جہاں بہت سے سیاسی و ملکی مسائل پر توجہ دی، وہیں صحابہ میں بعض مختلف فیہ مسائل کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور ان اختلاف آراء کو یک جا کرتے ہوئے کبار صحابہ سے مشورے سے کسی ایک رائے پر اجماع کیا، جیسے جماع کے بعد غسل واجب ہونے پر صحابہ کے آرا الگ الگ تھے۔ حضرت عمرؓ نے غسل واجب پر اجماع کیا۔(دیکھیں :مشکل الآثار للطحاوی ، باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللہ ﷺ مما تعلق بہ امامۃ الصبیان الذین لم یبلغوا فی الفرائض من الصلوات ، اذا جاوز الختان الختان، فقد وجب الغسل )اسی طرح اس نماز کے تعلق سے حضرت عمرؓ نے اجماع کیا۔ اجماع کی ضرورت کیوں پیش آئی ، ذیل کی سطروں میں ملاحظہ فرمائیے:
حضرت عمرؓ کا اجماع 
حضرت عبد الرحمانؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ نے کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا۔ وہاں لوگوں کو دیکھا کہ کوئی الگ (تنہا) نماز پڑھ رہا ہے۔ اور کہیں ایک شخص نماز پڑھا رہا ہے اور اس کے ساتھ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ (یہ منظر دیکھ کر) حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرا خیا ل ہے کہ ان سب کو ایک قاری پر جمع کردوں، (تنہا یا مختلف الگ الگ جماعتوں سے پڑھنے کے بجائے ایک ہی جماعت میں سب لوگ شریک ہوکر یہ نماز پڑھیں)تو بہتر ہوگا۔حضرت عمرؓ نے پختہ ارادہ کرکے حضرت ابی ابن کعبؓ کو امام بناکر سب کو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ پھر میں ان کے ساتھ دوسری رات کو نکلا ۔ لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ ( یہ دیکھ کر ) حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ اچھی بدعت ہے ۔ سونے والی گھڑی:، یعنی: رات کے آخری حصے سے ، رات کا شروع والا حصہ بہتر ہے، جس میں وہ لوگ نماز پڑھتے تھے۔ (یعنی صحابہ یہ نماز تہجد کے وقت کے بجائے عشا کے بعد ہی یہ نماز پڑھ لیا کرتے تھے)۔ حدیث کے الفاظ میں : 
عن عبدالرحمان بن عبد القاری انہ قال خرجت مع عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ لیلۃ فی رمضان الیٰ المسجد ، فاذا الناس اوزاع متفرقون ، یصلی الرجل لنفسہ، و یصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط۔ فقال عمر: انی اریٰ لو جمعتُ ھولاء علیٰ قاری واحد، لکان امثل، ثم عزم ، فجمعھم علیٰ ابی ابن کعبؓ ، ثم خرجت معہ لیلۃ اخریٰ ، والناس یصلون بصلاۃ قارءھم۔ قال عمر : نعم البدعۃ ھذہ۔ والتی ینامون عنھاافضل من التی یقومون ، یرید آخر اللیل۔ وکان الناس یقومون اولہ۔ (بخاری، فضل من قام رمضان) 
اس طرح امت مسلمہ میں تراویح کی روایت شروع ہوئی ، جس کا سلسلہ تا ہنوز جاری ہے اور تا قیامت ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
رکعات کی تعداد
نبی اکرم ﷺ سے نماز تراویح کی رکعات کی کوئی تعدادثابت نہیں ہے۔ اس تعلق سے نہ کوئی قولی روایت ہے اور نہ ہی فعلی روایت ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ نے مجموع فتاوی ٰابن تیمیۃ، ج؍ ۵ فصل صلاۃ الخوف صلاھا الرسول مرۃ علیٰ وجہ و مرۃ علیٰ وجہ میں ،علامہ شوکانی نے نیل الاوطار ، جلد ۳ میں ، مولانا وحید الزماں اہل حدیث نے نزل الابرار ، جلد ؍ ۱ میں اور دیگر علما نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔لیکن حضرات صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبع تابعین، ائمۂ مجتہدین،سلف صالحین اور علمائے راسخین کا تواتر کے ساتھ بیس رکعات پڑھنے کا عمل ثابت ہے۔بارھویں صدی تک امت کا توارث و تعامل بھی بیس ہی رکعات پڑھنے کا رہا ہے، ان تمام استشہادات سے ثابت ہوتا ہے کہ تروایح کی نماز بیس رکعات ہیں۔
بارھویں صدی کے اختتام میں اہل حدیث نامی فرقہ کا کہنا ہے کہ تراویح کی نماز بیس رکعات نہیں ؛ بلکہ آٹھ رکعات ہیں، اس کے اثبات کے لیے دو دعوے کرتے ہیں ۔ 
اہل حدیث کے دو دعوے 
پہلا دعویٰ : آٹھ رکعات آں حضرت ﷺ سے ثابت ہے ۔اس پر تین حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں: 
پہلی حدیث:
انہ سال کیف کانت صلاۃ رسول اللہ ﷺ فی رمضان؟ فقالت: ماکان رسول اللہ ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علیٰ احدیٰ عشرۃ رکعۃ ،یصلی اربعا ، فلا تسئل عن حسنھن و طولھن، ثم یصلی اربعا ، فلا تسئل عن حسنھن و طولھن، ثم یصلی ثلاثا، قالت عائشۃؓ فقلت : یا رسول اللہ ﷺ اتنام قبل ان توتر؟ فقال : یا عائشہ ان عینی تنامان ولاینام قلبی (بخاری باب قیام النبی ﷺ فی رمضان و غیرہ)
جوابات
(۱) غیر رمضان کا لفظ قرینہ ہے کہ سائل نے تراویح کے بارے میں نہیں؛ بلکہ تہجدکے بارے میں سوال کیا تھا؛ ورنہ غیر رمضان میں بھی آٹھ رکعات تراویح کا ثبوت ماننا پڑے گا، جو کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
(۲) حضرت عائشہ سے تیرہ رکعات بھی مروی ہے، حدیث میں ہے کہ و عن عائشۃ قالت: کان النبی ﷺ یصلی من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ، منھا الوتر و رکعتا الفجر۔ رواہ مسلم۔ ( مشکوٰ ۃ المصابیح، باب صلاۃ اللیل)، لہذا آٹھ ہی رکعات کی تعیین صحیح نہیں ہوگی۔
(۳) اس میں چار چار رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے اور تراویح دو دو رکعات پڑھی جاتی ہیں، لہذا یہ حدیث تراویح سے متعلق نہیں ہوسکتی۔
(۴) وتر سے پہلے سونے کا بھی تذکرہ ہے، حالاں کہ کسی بھی دیگر روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ آٹھ رکعات پڑھا کر سوجاتے تھے اور صحابہ انتظار میں رہتے تھے پھر آپ ﷺ بیدار ہوکر آتے اور وتر کی نماز پڑھاتے تھے۔
(۵) کسی بھی محدث نے اس روایت کو قیام رمضان کے تحت ذکر نہیں کیا ہے ، اکثر نے قیام اللیل یعنی تہجد کے باب میں ذکر کیا ہے۔
(۶) علامہ قرطبی نے تعداد کے تعلق سے حدیث عائشہ کو مضطرب قرار دیا ہے۔
لہذا انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ حدیث تراویح کی نہیں، بلکہ تہجد کی کیفیت کا بیان ہے ، لہذا تراویح کی آٹھ رکعات کے ثبوت میں اس سے استدلال کسی طرح بھی درست نہیں۔اور تہجد و تراویح دوالگ الگ نمازیں ہیں ؛کیوں کہ
(۱) تہجد کی مشروعیت مکہ میں ہوئی ہے جب کہ تراویح کی مدینہ میں۔
(۲) تہجد کا ثبوت کلام پاک فتہجد بہ نافلۃ لک اور قم اللیل الا قلیلا سے اور تراویح کا ثبوت حدیث سے ہے ۔ ابن ماجہ میں ہے سننت لکم قیامہ (باب ما جاء فی قیام رمضان)
(۳) تہجد کی رکعات بالاتفاق متعین ہیں :کم ازکم سات مع الوتر اور زیادہ سے زیادہ تیرہ مع الوترہیں اورتراویح کی تعداد آپ ﷺ سے منقول نہیں ۔
(۴) تہجد کا وقت سونے کے بعدہے اور تراویح کا عشا کے بعد ہوتا ہے۔
دوسری حدیث 
حدثنا محمد بن حمید الرازی، حدثنا یعقوب ابن عبداللہ حدثنا عیسیٰ ابن جاریہ عن جابر قال: صلٰی رسول اللہ ﷺ فی رمضان لیلۃ ثمان رکعات والوتر ، فلما کان من القابلۃ، اجتمعنا فی المسجد ورجونا ان یخرج الینا ، فلم نزل فیہ حتیٰ اصبحنا، قال کرھت او خشیت ان یکتب علیکم الوتر (صحیح ابن خزیمہ، باب ذکر الاخبار)
عیسیٰ بن جاریہ کو حافظ ذہبی نے میزن الاعتدال میں علامہ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں اور امام فن جرح و تعدیل یحیٰ ابن معین کہا ہے کہ لیس بذالک یعنی قوی نہیں ہے ، امام نسائی اور ابو داود نے منکر الحدیث کہا ہے۔ اور محمد ابن حمید الرازی کو بھی ضعیف کہا گیا ہے ، لہذا یہ حدیث قابل حجت نہیں۔ 
تیسری حدیث 
حدثنا محمد بن حمید الرازی، حدثنا یعقوب ابن عبداللہ حدثنا عیسیٰ ابن جاریہ عن جابر جاء ابی ابن کعب فی رمضان ۔ فقال یا رسول اللہ ﷺ کان منی لیلۃ شئی ، قال وما ذالک یا ابی قال نسوۃ داری قلن انا لا نقرا القرآن ، فنصلی خلفک بصلاتک ، فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر، فسکت عنہ النبی ﷺ (قیام اللیل ، ) 
عیسیٰ بن جاریہ مجروح ہیں۔
دوسرا دعویٰ 
آٹھ رکعات تراویح کا حکم حضرت عمرؓ نے دیا تھا ۔
مالک عن محمد بن یوسف عن سائب بن یزید انہ قال امر عمر ابن الخطاب ابی ابن کعب و تمیما الدارمی ان یقوما للناس باحدیٰ عشرۃ رکعۃ (موطا امام مالک، ماجاء فی قیام رمضان) 
اس سند میں موجود محمد بن یوسف کے پانچ شاگرد ہیں 
امام مالک کی روایت میں حکم، دونوں صحابہ اور تعداد کا تذکرہ ہے ، رمضان کا نہیں۔
یحیٰ ابن قطان کی روایت میں لوگوں کو جمع کرنے اور گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے ، حکم، رمضان کا ذکر نہیں ہے۔
عبدالعزیز ابن محمد کی روایت میں زمانہ عمر میں گیارہ رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے ، حکم صحابہ اور رمضان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
ابن اسحاق کی روایت میں حضرت عمر کے زمانے میں بماہ رمضان تیرہ رکعات کا تذکرہ ہے۔
عبدالرزاق کی روایت میں حضرت عمر کا حکم اکیس رکعت مذکور ہے۔ 
لہذا تعداد میں مضطرب ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔
محمد ابن یوسف کے ساتھی یزید بن خصیفہ سے بیس رکعات کی روایت مروی ہے سنن کبریٰ للبیھقی جلد ۲ میں۔ اس سند کو امام نووی ، امام عراقی اورامام سیوطی نے صحیح قرار دیا ہے۔لہذ اس حدیث پر عمل ہی انصاف اور عقل کا تقاضا ہوگا۔

شب قدر: مسائل، فضائل اور اسراروحکم

محمد یاسین جہازی 
شب قدر: مسائل، فضائل اور اسراروحکم
شریعت اسلامی میں تین چیزیں ہیں: (۱) مسائل: یعنی عمل و عبادت کا طریقہ۔ (۲) فضائل: یعنی اس کے کرنے کا اخروی فائدہ اور ثواب ۔ (۳) اسراروحکم: یعنی فطرت انسانی کے تقاضے کے مطابق ملحوظ حکمتیں اور کسی قدر دنیاوی فائدے۔ 
مسائل کی حیثیت بنیادی ہے، ان کا جاننا سب سے زیادہ اہم ہے۔ کیوں کہ ان کے بغیر انسان کوئی عمل اورعبادت نہیں کرسکتا۔ فضائل ثانوی چیز ہیں، ان کے جاننے سے عبادت کرنے کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے ۔اور اسراروحکم معلوم ہوجانے سے ذوق و شوق میں اضافہ اورثواب کی امید یقین میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
شریعت اسلامیہ کے ہر حکم اور ہر عمل میں یہ تینوں امتیازات وخصوصیات پائی جاتی ہیں۔ موضوع کی مناسبت سے آئیے دیکھتے ہیں کہ شب قدر میںیہ تینوں خصوصیات کس طرح پائی جاتی ہیں۔ 
شب قدر کے مسائل
اس رات کوتلاش کرنا، رات بھر ذکرو اذکار میں مشغول رہنا،بتائے گئے امکانی اوقات : رمضان کے آخری عشرے کے طاق راتوں میں اسے ڈھونڈھنا؛ شب قدر کے مسائل کی باتیں ہیں۔ اس رات کے لیے کوئی مخصوص عمل نہیں ہے، اپنے ذوق وشوق کے پیش نظر ، نفلی نمازیں، تلاوت کلام پاک اور تسبیحات وغیرہ میں سے جو آپ پڑھنا چاہیں، وہ پڑھ سکتے ہیں۔
شب قدر کے فضائل
اس کی فضیلت کلام پاک کی آیتوں اور احادیث مبارکہ دونوں سے ثابت ہیں۔ کلام پاک میں ایک جگہ تیسویں پارہ میں مکمل ایک سورت :سورہ القدر موجود ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ رات ہزار مہینے سے بہتر ہے ۔ حضرت جبرئیل فرشتوں کی جماعت کے جلو میں دنیا میں تشریف لاتے ہیں ۔ اس رات کو فرشتے ہر امر خیر کو لے کر زمین پر آتے ہیں ۔ یہ رات سراپا سلامتی ہوتی ہے ، اس میں شیطان کوئی شرارت نہیں کرپاتا۔ اور پوری رات خیروسلامتی کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔ دوسری جگہ پچیسویں پارہ میں سورہ الدخان کی چوتھی آیت ہے۔اس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ طے کیا جاتا ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس رات سے اگلے سال کی اس رات تک جتنے بھی معاملات ہیں، ان تمام کا فیصلہ اسی رات کو کیا جاتا ہے ۔ کون مرے گا، کس کی موت نہیں آئے گی ، کس کی شادی ہوگی ، کس کے یہاں اولاد ہوگی ، کس کو کتنا رزق ملے گااور ان جیسے تمام تقدیرات کے فیصلے کی یہ رات ہوتی ہے۔ المختصرفضیلت میں قرآن کریم کا اترنا، فرشتوں کا نزول، حضرت جبرئیل کی آمد ، عبادت گذار کے لیے دعائے رحمت، پوری رات خیرو سلامتی کا برقرار رہنااورہر انسان کے پورے سال کی تمام چیزوں کا فیصلہ ہونا شامل ہیں۔
متعدد احادیث میں اس کی رات کی فضلیتیں بیان گئی ہیں۔ ایک روایت میں ہے:
من قام لیلۃ القدر ایمانا و احتسابا، غفرلہ ما تقدم من ذنبہ (بخاری، باب فضل من قام رمضان)
ترجمہ: جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ یعنی ثواب کا یقین کرتے ہوئے اور احتساب یعنی ریا وغیرہ کسی بد نیتی کے بغیر عبادت کرے گا، تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
ایک دوسری روایت میں آیا ہے: 
عن انسؓ قال دخل رمضان، فقال رسول اللہ ﷺ ان ھذا الشھر قد حضرکم و فیہ لیلۃ خیر من الف شھر ، من حرمھا ، فقد حرم الخیر کلہ، ولا یحرم خیرھا الا محروم (سنن ابن ماجہ، باب ماجاء فی فضل شھر رمضان)
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا ، تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے، جس میں ایک رات ہے ، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا سارے ہی خیر سے محروم رہ گیا۔ اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا ؛مگر وہ شخص جو حقیقۃ محروم ہی ہے۔
ان کے علاوہ بھی کئی ایک حدیثیں ہیں ، جن میں اس رات کی فضیلت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
شب قدر کے اسرار و وحکم
اس رات کے اسرار وحکم میں کئی باتیں شامل ہیں : ایک تو یہ کہ یہ رات دیگر راتوں سے الگ کیوں ہے۔ دوسری یہ کہ ایک ہی رات میں تراسی سال چارہ ماہ سے بھی زیادہ عبادت کا ثواب کیوں مل جاتا ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ شب قدر کی ضرورت کیا تھی؟۔ ان باتوں کی وضاحت کے لیے پہلے ہمیںیہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ کے مقررکردہ بارہ مہینے میں سے رمضان میں کچھ ایسی تبدیلیاں کردی جاتی ہیں ، جو غیر رمضان میں نہیں ہوتیں۔ وہ تبدیلیاں تین طرح کی ہوتی ہیں:
(۱) تکوینی نظام میں تبدیلیاں
رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتے ہی کائنات کے نظام کا جو سسٹم ہے، اس میں قدرت الٰہی تھوڑی بہت تبدیلی کردیتی ہے۔ پوری تبدیلی نہیں کرتی، مثلا عام دنوں کا تکوینی نظام یہ ہے کہ سورج مشرق سے نکل کرمغرب میں غروب ہوتا ہے ، تو رمضان میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جو جزوی تغیر ہوتا ہے ، وہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے ، جس کا اشارہ درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ :
اذا دخل شھر رمضان ، غلقت ابواب جھنم ، و فتحت ابواب الرحمۃ، و سلسلت الشیاطین (مسند عبد بن حمید، باب اذا دخل) 
ترجمہ: جب رمضان کا مہینہ آجاتا ہے تو جہنم کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں۔ رحمت و جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف رمضان میں ہوتی ہے ۔ دوسرے مہینوں میں ایسا نہیں کیا جاتا؛لیکن لیلۃ القدر میں اس تکوینی نظام میں مزید تبدیلیاں کردی جاتی ہیں، جو کچھ درج ذیل ہیں:
(الف) یہ رات کھلی ہوئی اور چمک دار ہوتی ہے۔
(ب) نہ زیادہ گرم ہوتی ہے اور نہ زیادہ سرد ، معتدل رہتی ہے۔ 
(ج) اس رات صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے۔
(د) اس صبح کا آفتاب شعاع کی تیزی کے بغیر چودھویں چاند کی طرح نکلتا ہے۔
(ہ) عبدۃ ابن لبابہؓ کہتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو سمندر کا پانی چکھا تو وہ بالکل میٹھا تھا۔
(و) ایوب بن خالد کہتے ہیں کہ مجھے نہانے کی ضرورت ہوئی ۔ میں نے سمندر کے پانی سے غسل کیا تو وہ بالکل میٹھا تھا۔
(ز) آسمان تھوڑا بہت ابر آلود ہوتا ہے ۔ درخت وغیرہ جھکے جھکے سے نظر آتے ہیں گویا وہ بھی سجدہ زیری کی کوشش کر رہا ہو۔
(ک) حضرت جبرئیل فرشتوں کی ایک جماعت لے کر دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔ 
(ل) پوری رات عام راتوں کے بالمقابل شیاطین کی ضرر رسانی سے محفوظ و مامون رہتی ہے۔
(۲ ) اعمال کے ثواب میں کئی گنا کا اضافہ
رمضان میں تیسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ اعمال کا ثواب عام دنوں کے مقابلے کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے ۔ حدیث میں ارشاد ہے کہ:
کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر امثالھا الیٰ سبع ماءۃ ضعف، الا الصوم ، فانہ لی و انا اجزی بہ، یدعو شھوتہ و طعامہ من اجلی (مسلم ، باب فضل الصیام) 
انسان کے ہر عمل کا ثواب بڑھا دیاجاتا ہے۔ ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک کردیا جاتا ہے۔ (آگے حدیث قدسی ہے ۔ اللہ فرماتا ہے کہ )مگر روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ ددں گا، کیوں کہ اس نے کھانا پینا اور خواہشات کو میری خاطر چھوڑا۔ایک دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ رمضان کی عبادتوں کا اجر باقی گیارہ مہینے کی عبادتوں سے ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ملتا ہے۔ گویا ثواب ملنے کا نظام یہ ہے کہ بندہ ایک نیکی کرتا ہے ، تو اللہ اس پر دس گنا ثواب لکھتے ہیں ۔ اور دس ہی تک محدود نہیں رہتا ؛ بلکہ رمضان کی وجہ سے اس سے بڑھا کر ستر اور ستر سے بھی اضافہ کرکے سات سو گنا تک کردیا جاتا ہے۔لیکن روزہ کی جزا اس سے بھی زیادہ ہے۔ 
(۳) روز مرہ کی عبادات اور معمولات میں تبدیلیاں
عبادات میں تبدیلیاں
(الف) تراویح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔
(ب)نماز وتر جماعت سے ادا کی جاتی ہے۔
(ج) آخر عشرے کا اعتکاف کیا جاتا ہے۔
(د) تراویح میں پورا قرآن سننے اور سنانے کا بہت زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔
معمولات میں تبدیلیاں
(الف) دن میں کھانے، پینے اور جماع کرنے سے رکا جاتا ہے۔
(ب) بطور خاص رمضان میں فحش باتوں اور لایعنی چیزوں سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
(ج) افطاری کی جاتی ہے۔
(د) سحری کا کھانا کھایا جاتا ہے۔
فضائل کی باتوں کو پیش نظر رکھیں ، تو یہ بات خود بخود واضح ہوجائے گی کہ یہ رات دیگر راتوں سے الگ کیوں ہے ؛ کیوں کہ جس رات میں قرآن کریم کا نزول اجلال ہواہو، جس رات میں فرشتے جوق در جوق زمین پر اتریں ، جو رات سراپا خیرو سلامتی والی ہواور جس رات میں انسان کے تمام تقدیرات کے فیصلے کیے جائیں، اگر وہ رات ایک خاص رات ہوتی ہے ، تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ ایسا ہونا خود انسانی فطرت کے مقتضیات میں سے ہے ؛ کیوں کہ اس کی فطرت میں یہ چیز شامل ہے کہ جب اس کی زندگی کی کوئی تقریب ہوتی ہے تو وہ اس وقت کو خاص بنانے اور اس کو سلیبریٹ کرنے کے لیے عام دنوں سے کچھ الگ کرنا چاہتا ہے، تو بھلا بتائیے جس رات میں انسان کے ایک سال کی زندگی کا فیصلہ ہورہا ہو تو کیا اس رات کو دیگر راتوں سے بالکل الگ اور خاص نہیں ہوناچاہیے۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو اور راتوں سے ممتاز اور الگ رات بنائی ہے۔ اور جہاں تک یہ بات ہے کہ اس ایک رات کی عبادت سے تراسی سال چارہ ماہ سے بھی زیادہ عبادت کرنے کا ثواب کیوں مل جاتا ہے ۔ تواس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ رمضان اور شب قدر کی رات میں تکوینی نظام میں جو تبدیلیاں کی جاتی ہیں ، ان کا لازمی تقاضا ہے کہ ان لمحات میں کیے جانے اعمال کے اثرات اور نتیجے بھی الگ ہوں ؛ ورنہ تکوینات میں تبدیلی بے معنی ہوجائے گی ، اس لیے صرف اس ایک رات کی عبادتوں کا ثواب ہزار مہینے سے متجاوز ہوجاتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو یہ انعام اس لیے مرحمت فرمایا ؛ کیوں کہ یا تو (الف) سابقہ امتوں کی عمریں بہت لمبی ہوتی تھیں اور امت محمدیہ کی بہت تھوڑی ، اس لیے ان کے بدلے امت مسلمہ کو یہ فضیلت بھری رات عطا کی گئی۔یا پھر (ب)ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے بنی اسرائیل کے چار افراد : حضرت ایوب، حضرت زکریا، حضرت حزقیل اور حضرت یوشع کے اسی اسی سال تک عبادت کرنے اور پل جھپکنے کے برابر بھی نافرنانی نہ کرنے کا تذکرہ کیا ، تو صحابہ کوحیرت ہوئی ، اس پر اللہ نے یہ رات عنایت فرمائی۔یا پھر اس وجہ سے کہ (ج)بنی اسرائیل کا ایک شخص ایک ہزار مہینے تک اللہ کے راستے میں جہاد کرتا رہا ، اس تذکرہ سے صحابہ کو رشک آیا اور یہ رات عطا ہوئی۔المختصر سبب جو بھی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس بے نہایت انعام کی قدر کرنی چاہیے ۔ بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو اس رات کی عبادت نصیب ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شب قدر پالینے اور عبادت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ، آمین۔

روزے کا احترام

محمد یاسین جہازی 
بتاریخ: ۱۲؍ رمضان المبارک ۱۴۳۵ھ مطابق ۱۱؍ جولائی ۲۰۱۴ء
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ : من لم یدع قول الزور والعمل بہ ، فلیس للہ حاجۃ ان یدع طعامہ و شرابہ (بخاری، باب من لم یدع قول الزور)
و عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال : الصیام جنۃ ، فاذا کان احدکم صائما، فلا یرفث ولا یجھل فان امرء قاتلہ او شاتمہ، فلیقل : انی صائم، انی صائم (موطا امام مالک، باب جامع الصیام)
سامعین کرام! جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ ماہ رمضان میں غیر رمضان کی بنسبت تین طرح کی تبدیلیاں کی جاتی ہیں: (۱) تکوینی نظام میں تبدیلی۔ (۲) اعمال کے ثواب میں اضافہ۔ (۳) روزہ مرہ کے معمولات اور عبادات میں تبدیلیاں۔ پہلی دونوں باتوں کے حوالے سے گذشتہ جمعہ میں بات ہوچکی ہے۔ آئیے آج تیسری تبدیلی کے تعلق سے گفتگو کرتے ہیں۔ 
محترم حضرات! عام دنوں کے مقابلے میں رمضان کے روز مرہ کی عبادات میں بھی تغیر وتبدل ہوتا ہے اور معمولات میں بھی فرق آتا ہے۔ اسی طرح عام دنوں کے مقابلے میں ماہ رمضان میں افعال و اقوال کے تعلق سے بھی ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ عبادات میں تبدیلیاں یہ ہوتی ہیں:کہ(الف) تراویح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔(ب)نماز وتر جماعت سے ادا کی جاتی ہے۔(ج) آخر عشرے کا اعتکاف کیا جاتا ہے۔(د) تراویح میں پورا قرآن سننے اور سنانے کا بہت زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔اور معمولات میں تبدیلیاںیہ ہوتی ہیں کہ(الف) دن میں کھانے، پینے اور جماع کرنے سے رکا جاتا ہے۔(ب) افطاری کی جاتی ہے۔(ج) سحری کا کھانا کھایا جاتا ہے۔(د) سونے جاگنے کا شیڈول بھی بدل جاتا ہے۔یہ وہ باتیں ہیں ، جو ہمارے لیے ایک گونہ غیر اختیاری ہیں ، یعنی ہم چاہیں یا نہ چاہیں ، ان تبدیلیوں سے ہم کو گزرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر دن میں کھانے پینے سے روکنا ضروری ہے، اس کے بغیر ہمارا روزہ ہی صحیح نہیں ہوگا؛ لہذا یہ ہمارے لیے غیر اختیاری ہے ؛ لیکن اگر آپ افطاری نہ کریں اورسحری نہ کھائیں ، تو بھی آپ کا روزہ ہوجائے گا ، آپ کے لیے یہ دونوں کام واجب نہیں ہیں ؛ لیکن پورا مہینہ آپ سحری نہ کھائیں اور افطاری نہ کریں، ایسا کرنا دشوار ہوگا؛ لہذایہ افعال ہمارے لیے ایک حد تک غیر اختیاری ہیں۔ 
عبادات و معمولات کے علاوہ دو اور چیزیں ہیں، جو سراسر اختیاری ہیں ، جن کا کرنا نہ کرنا مکمل ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ اور روزہ کی تکمیل اور اس میں کمال پیدا کرنے کے لیے ان سے بچنا نہایت ضروری ہیں۔ اگر ان سے نہیں بچتے ، تو مسئلے کی رو سے اور شکل کے اعتبارسے آپ کا روزہ تو ہوجائے گا ، لیکن صحیح معنی میں ثواب و نتیجہ مرتب ہونے کے اعتبار سے وہ روزہ نہیں ہوگا۔ ان میں سے پہلی چیز ہے کہ: روزوں کو شہوانی، شیطانی اور درندگی والے اقوال و افعال سے پاک رکھا جائے؛ کیوں کہ یہ چیزیں نفس انسانی کو اخلاق رذیلہ پر ابھارتی ہیں اور اسے بہیمیت کی طرف لے جاتی ہیں ، یہ روزوں کے بنیادی مقصد کے خلاف ہے ، کیوں کہ روزہ کا بنیادی مقصد تقویٰ و پرہیز گاری پیدا کرنا اور نفس کے اندر موجود قوت شہویہ کو زیر کرنا ہے اور یہ چیزیں قوت شہویہ کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : من لم یدع قول الزور والعمل بہ ، فلیس للہ حاجۃ ان یدع طعامہ و شرابہ کہ جو شخص جھوٹ بولنااور جھوٹی باتوں پر عمل کرنا نہ چھوڑے ، تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی قدر نہیں ہے۔ یاد رکھیے ایک طرف حدیث قدسی ہے کہ روزہ میرے لیے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا کہ ، کیوں کہ اس نے کھاناپینا اور خواہشات کو میری خاطر چھوڑا اور دوسری طرف یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اس کی بھوک اور پیاس سے کوئی سروکار نہیں، معلوم ہوا کہ روزہ میں لایعنی باتوں سے بچنا، جھوٹ، غیبت، چغل خوری ، لڑائی جھگڑااور ہر برے اعمال سے بچنا ضروری ہے ، ورنہ پھر روزہ کا کوئی فائدہ ہی حاصل نہیں ہوگا۔
اور اگر ایسا ہوتا ہے کہ آپ ان برائیوں سے بچنا چاہتے ہیں ، لیکن آپ کا ساتھی ان باتوں پر مجبور کرتا ہے ، تو ایسے وقت میں نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کو سینے سے لگالیجیے کہ الصیام جنۃ ، فاذا کان احدکم صائما، فلا یرفث ولا یجھل فان امرء قاتلہ او شاتمہ، فلیقل : انی صائم، انی صائم 
روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کوئی روزہ سے ہو، تو بے حیائی کی باتیں نہ کرے اور نہ ہی جہالت کی باتیں کرے ۔ اگر کوئی شخصے لڑے یا گالی دے ، تو ایسا نہ کرے کہ جواب میں لڑنے اور گالی دینے لگے ؛ بلکہ اس کے بجائے یہ کہہ دے کہ دیکھو بھائی ، میرا روزہ ہے ، میں روزے سے ہوں۔ 
دوسری چیز ہے :ایسی چیزوں سے بھی بچنا ضروری ہے ، جو روزہ توڑنے کی دعوت دیتی ہے، چنانچہ بلا ضرورت کسی چیز کو چبانا، منہ میں تھوک جمع کرکے نگلنا، ٹوتھ پیسٹ اور منجن وغیرہ سے دانت صاف کرنا، تمام دن حالت جنابت میں گذاردینا، بیوی سے دل لگی کی باتیں کرنا، جس سے جماع یا انزال کا خوف ہو، عورت کا ہونٹوں پر اس طرح سرخی لگانا کہ پیٹ میں جانے کا اندیشہ ہواور اس طرح کے تمام کام مکروہ ہیں۔ ان سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ ارشاد نبوی ہے : افطر الحاجم والمحجوم (بخاری، باب الحجامۃ والقئی للصائم) پچھنا لگانے والے اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا، یعنی ٹوٹنے کے قریب ہوگیا ، کیوں کہ ممکن ہے کہ خون چوستے وقت پیٹ میں چلایائے یا خون نکلنے کی وجہ سے کمزوری لاحق ہوجائے اور روزہ توڑنے کی نوبت آجائے۔ روزے کو اس کے تقاضے کے ساتھ پورا کرنے کے لیے ان باتوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔

5 Apr 2018

ملی تشخصات و امتیازات کے تحفظ کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے اقدامات

ملی تشخصات و امتیازات کے تحفظ کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے اقدامات

#محمد یاسین جہازی


جب ملک آزادہوا اور تقسیم ہوکر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ’پاکستان‘ چلی گئی،اورہندستان کے لیے کثیر لسانی وکثیر مذہبی ملک ہونے کے پیش نظر ڈیموکریسی نظام حکومت کو بطور آئین تسلیم کیا گیا اور سیکولرزم ، یعنی مذہبی غیر جانب داری کو اس نظام حکومت کی بنیاد قرار دیا گیا ، تو اس وقت کے رہ نمایانِ ملت اسلامیہ ہند کے سامنے دو مسئلے چیلنج بن کر سامنے آئے:
(الف) ایک یہ کہ مسلمان اس ملک میں کس طرح کا کردار پیش کرے کہ جس سے وہ بیک وقت مسلمان بھی رہے اور ایک سچا پکا ہندستانی بھی کہلائے۔ (ب)اور دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ملک کے فرقہ وارانہ ماحول میں، ایک مسلمان اسلامی تہذیب و ثقافت، دینی تعلیم و ہدایات اور ملی تشخصات و امتیازات کو کس طرح محفوظ رکھے۔ 
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے ، تو اس حوالے سے مسلم مجاہدین آزادی کی سرگرمیاں، قربانیاں اوراکابرین ملت اسلامیہ کی ذاتی زندگیاں رہ نمائی کے لیے کافی ہیں۔ان نفوس قدسی صفات نے جنگ آزادی میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، وہ مسلمانوں کو پکا ہندستانی ثابت کرنے کے لیے سب سے بڑی دلیل ہے۔علاوہ ازیں جمعیۃ علماء ہند کی مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم کی مخالفت اور متحدہ قومیت کی پالیسی ہندستانی مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار ہے۔
اور جہاں تک دوسرے مسئلے کی بات ہے ، تو اس حوالے سے رہبران ملت اسلامیہ ہند اور بالخصوص اکابر جمعیۃ علماء ہندکی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ چنانچہ جمعیۃ علماء ہند نے روز اول ہی سے مسلمانوں کی قومی اور ملی امتیازات و تشخصات کی حفاظت کا کام انجام دیا ہے۔اور آزادی کے سال۱۹۴۷ ء میں ۲۷،۲۸؍ دسمبر کولکھنو میں منعقد آزاد کانفرنس کے ذریعے پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کرتے ہوئے باضابطہ اپنے دائرۂ عمل کو مذہبی اور تمدنی حقوق و فرائض تک محدود کر لینے کا فیصلہ کیا۔ یوں تو جمعیۃ علماء ہند کی خدمات ہمہ جہت ہیں، لیکن موضوع گفتگو کی مناسبت سے صرف اس کی ملی تشخصات اور مذہبی روایات و افکارکی خدمات کا جائزہ لیں ، توان کا نقشہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ ۱۹۲۳ء میں ہندو مسلمانوں کے مثالی اتحاد کو توڑنے اور آزادی کے جذبے کو ختم کرنے کے لیے جب انگریزوں نے شدھی سنگٹھن کی تحریکیں شروع کرائیں، توان سے جہاں ارتدادی فتنوں نے جنم لیا، وہیں پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔جمعیۃ نے ان کی روک تھام کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ فتنۂ ارتداد کو روکنے کے لیے ’’شعبۂ تبلیغ و دعوت ‘‘ کے نام سے ایک مستقل شعبہ کا قیام عمل میں آیا۔اورقادیانی فتنے کے مقابلے کے لیے ’’انسداد فتنۂ قادیانی کمیٹی‘‘ کی تشکیل کی۔۱۹۲۴ء میں حکومت برطانیہ کی طرف سے بار بار توہین و انہدام مساجد کے خلاف سخت جدوجہدکی۔۱۹۲۶ء میں اصلاح معاشرہ ،تبلیغ دین اور انگریزی میں قرآن کریم کی تفسیر کی اشاعت کے فرائض انجام دیے۔ ۱۹۲۹ء میں کمسنی کی شادی کو قانونا جرم قراردینے والا قانون :’’ شاردا ایکٹ‘‘ کی مسلم پر سنل لاء میں مداخلت کی وجہ سے مخالفت کی۔۱۹۳۲ء میں سول میرج ایکٹ( مسلم و غیر مسلم کی باہمی شادی) قانون پر تنقید اور اس کو واپس لینے کے لیے ملک گیر احتجاج کیا۔۱۹۳۶ء میں مسودہ قانون فسخ نکاح کو تیار کرایا اور اسے اسمبلی میں پاس کرانے کے لیے جدوجہدکی۔۱۹۳۷ء میں صوبہ سرحد کی اسمبلی میں شریعت بل کا مسودہ پاس کرانے کی کوشش میں کامیابی حاصل کی ۔۱۹۳۹ء میں لکھنو میں شیعوں کی طرف سے تبرا ایجی ٹیشن کی پرزور مذمت اور مدح صحابہ کو مسلمانوں کا مذہبی حق قرار دیتے ہوئے اس میں حکومت سے مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔۱۹۴۴ء میں فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حکومت سے انتظامات کرنے کی اپیل کی۔۱۹۴۵ء میں آں حضور ﷺ اور حضرت جبرئیل امین ؑ کی فرضی تصویریں شائع کرنے والی کرنل پی ایم سائیکس کی کتاب ’’اے ہسٹری آف پرشیا‘‘ سے ان تصویروں کو خارج کرنے کے لیے احتجاج کیا۔۱۹۴۶ ء میں آزادیِ ملک، آزادیِ مذہب، کلچر، زبان، رسم الخط،مذہبی تعلیم و تبلیغ، مذہبی عقائد واعمال، عبادت گاہیں اور اوقاف سے جیسے مسلم پرسنل لاء بطور فنڈا منٹل رائٹس(مذہبی آزادی) منظور کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا۔۱۹۴۸ء میں پرائمری اسکولوں کے لیے چار نکاتی پروگرام پیش کیے: (۱)مسلمان مذہبی تعلیم کے ساتھ سرکاری اسکولوں کے نصاب پر مشتمل ابتدائی مدارس قائم کریں اور حکومت ان مدارس کی تعلیم کو مستند قرار دے اور امداد کرے۔ (۲)حکومت ابتدائی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم لازمی قراردے۔ (۳) پرائمری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو خارجی اوقات میں مذہبی تعلیم دینے کے لیے پرائیوٹ مکاتب کا قیام۔ (۴)لڑکوں کے لیے لازمی تعلیم کی ابتدائی عمر آٹھ سال قراردے تاکہ اس عمر کے بچوں کو مذہبی تعلیم دی جاسکے۔ ۱۹۵۰ء میں بابری مسجد کے مسئلے پر اظہار تشویش اور فرقہ وارانہ رویے پر یوپی حکومت کی مذمت کی۔ بعض اسکولوں ، کالجوں اور سرکاری اداروں میں جمعہ کے دن چھٹی کی سابقہ روایت کو ختم کرنے پر احتجاج کیا۔ غیر مسلموں کے قبضے سے مساجد کی وا گذاری ، مسلمانوں کے نقصانات کی تلافی اور کسٹوڈین سے متعلق مسائل کو حل کرانے کی جدوجہد کی ۔ ۱۹۵۵ء میں ممبئی میں بتاریخ ۸، ۹؍ جنوری کل ہند دینی تعلیمی کنونشن کا انعقادکیااور پورے ملک میں مکاتب و مدارس قائم کرنے کے لیے مرکزی دینی تعلیمی بورڈ کی تشکیل کی۔۱۹۶۰ء میں مسلمانوں سے تعلیم کی طرف توجہ دینے اور مدارس و مکاتب قائم کرنے کی تحریک شروع کی۔اور مسلمانوں سے اپنے اپنے علاقوں میں شرعی پنچایت قائم کرنے کی مخلصانہ اپیل کی۔ ۱۹۶۶ء میں تعلیمات اسلام، سیرت رسول ﷺ اور قرآن مجید کے ترجمے ومضامین ہندی میں شائع کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔۱۹۷۰ء میں ہندستانی مسلمانوں کے دینی مسائل کی رہ نمائی کے لیے ادارۃ المباحث الفقہیہ قائم کیا۔۱۹۷۱ء میں پورے ملک سے منتخب علمائے کرام کا اجتماع کیا اور رویت ہلال کمیٹی کی تشکیل کی اور اس کا ضابطۂ عمل تیار کیا۔۱۹۷۲ء میں متبنیٰ بل سے مسلمانوں کو مستثنیٰ کرنے کا مطالبہ کیا۔۱۹۷۵ء میں حضور ﷺ کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم کے خلاف سخت احتجاج کیا۔۱۹۷۸ ء میں شادی لازمی رجسٹریشن بل کی شدید مخالفت کی۔ اور مساجدو مقابر کے ایکوائر سے متعلق الٰہ باد ہائی کورٹ کے فیصلے میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔۱۹۸۴ء میں مسلم پر سنل لاء کے تعلق سے کورٹ فیس ایکٹ میں دعویٰ مہر کے لیے کورٹ فیس کو ختم کرنے، قانون خاتمہ زمین داری اتر پردیش کی دفعات : ۱۲۹ ؍ اور ۱۷۵؍ میں وراثت، وصیت، ہبہ وغیرہ حقوق شرعی کو مستثنیٰ کرنے ، نکاح کے لیے رجسٹریشن کو لازم قرار نہ دینے ، بنارس کی قبور کی منتقلی کو روکنے، ضابطہ دیوانی کی دفعہ ۱۲۵؍ اور ۱۲۷؍ میں مہر و عدت کے نان و نفقہ کی ادائیگی کے بعد تا نکاح ثانی پہلے شوہر پر نان و نفقہ کو لازم نہ ٹھہرانے اور یکساں سول کوڈ کا دفعہ ۴۴؍ کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا۔۱۹۹۷ء میں عیسائی مشنریز کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے موثر اقدامات کیے ۔اوروندے ماترم گانے اور بھارت ماتا کی تصویر پر پھول چڑھانے کی پرزور مذمت کی۔۱۹۹۸ء میں دینی مدارس و مساجد کے خلاف افسران اور اخبارات کی شر انگیز مہم پر تشویش کا اظہارکیا۔۲۰۰۰ء میں یوپی حکومت کے عبادت گاہ بل کے خلاف بڑے پیمانے پر پروگرام کا انعقاد کیا ۔۲۰۰۳ء میں دینی مدارس و مساجد میں سرکاری مداخلت کی راہ ہموار کرنے والے بل کی شدید مخالفت کی۔۲۰۰۹ء میں سرکاری ملازموں کی جبری داڑھی کٹوانے کے مسئلے پر قانونی کاروائی کی۔۲۰۱۳ء میں ملک کے مختلف حصوں میں تبلیغی جماعت پر شرپسندوں کے حملوں کی شدید مذمت کی۔سوشل نیٹ ورک : گوگل کے یوٹیوب سے اہانت آمیز مواد ہٹانے کے لیے کیس کیا، وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب بھی جس طرح کا موقع آیا، جمعیۃ علماء ہند نے ملت اسلامیہ کی حفاظت اور اس کی شناخت و امتیازات کو باقی رکھنے کی ہر ممکن جدوجہد کی ہے اور آئندہ بھی اپنے اسلاف کے لائحۂ عمل پر عمل کرتے ہوئے برابر جدوجہد کرتی رہے گی۔ جمعیۃ کی یہی وہ خصوصیات و امتیازات ہیں ، جن کی بنا پر ہر ایک حقیقت پسند مورخ کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارۂ کار نہیں کہ آج ہندستان میں جتنی بھی اور جس نوعیت سے بھی اسلامی رنگارنگی، تہذیب و روایات اوراقدارو افکار کی جھلکیاں پائی جاتی ہیں، ان تمام میں اکابر جمعیۃ علماء ہند کے بے انتہا خلوص، بے لوث جذبۂ خدمت اسلامی اور بے پناہ ایمانی غیرت وحمیت کا عنصر ضرور شامل ہے۔

مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی

مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی
#محمدیاسین جہازی


شاعر مشرق علامہ اقبال نے ایک میر کارواں کے لیے ضروری اوصاف بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ؂
نگہ بلند ،سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی رخت سفر میر کارواں کے لیے
جنگ آزادی میں فعال کردارادا کرنے والی ،متحدہ قومیت کا نظریہ پیش کرنے والی،تقسیم ہند کی مخالف اور اسلامیان ہند کی سب سے بڑی نمائندہ اور فعال تنظیم’’ جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے موجودہ قائم مقام ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی اس شعر کے مجسم نمونے ہیں۔ مولانا قاسمی جہاں دور رس نگاہ کے حامل ہیں، وہیں دل نواز گفتگو اورپُرسوز جاں کے صفات بھی بدرجۂ اتم ان کے اند ر موجود ہیں۔
صوبہ اترپردیش کے ضلع پرتاپ گڑھ میں کھرگ پور ایک گاوں ہے۔ آپ اسی گاوں میں جناب حاجی ذاکر (مرحوم) کے گھر پیدا ہوئے ۔ تاریخ پیدائش ۱۹۶۷ء ہے۔نام حکیم الدین تجویز کیا گیا۔ نشوونما گھریلو روایات کے مطابق انجام پاتی رہی۔ کھیلنے کودنے کی عمر میں ہی گاوں کے مکتب میں بسم اللہ کرائی گئی ۔حفظِ قرآن اور ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم کے لیے گاوں سے باہر قدم رکھا اور مدرسہ نورالعلوم ہرہرپور پرتاپ گڑھ میں داخلہ لیا۔پھر جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا مرحلہ آیا تو ایشیا کی سب سے بڑی دینی یونی ورسٹی دارلعلوم دیوبند کا رخ کیااور ۱۹۸۹ء میں سند فضیلت لے کر ہی نکلے۔ دارالعلوم کے جن اساتذہ سے آپ نے فیض حاصل کیا، ان میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی، حضرت علامہ محمد حسین بہاری، حضرت مولانا محمود حسن ، حضرت مولانا نصیر احمد خان، حضرت مولانا عبدالحق ، حضرت مولانا نعمت اللہ ، حضرت مولانا قمر الدین ، مفتی سعید پالن پوری، مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری اور مولانا عبدالخالق مدراسی کے نام قابل ذکر ہیں۔
زمان�ۂ طالب علمی ہی سے امیر الہند ،فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ سے اصلاحی تعلق قائم ہوگیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سالانہ رخصت کی مناسبت سے اکثر طلبہ جہاں اپنے گھروں کو لوٹ جایا کرتے ہیں، وہاں مولانا ہر سال پورے رمضان میں دارالعلوم دیوبند کی جامع رشید میں حضرت فدائے ملت ؒ کے واردین و صادرین کی خدمت اور میزبانی کے لیے خود کو وقف کردیتے تھے اور اس میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتے تھے۔ حضرت سے اس تعلق و خدمت نے آپ کو کندن بنادیا تھا ، یہی وجہ تھی کہ جب مدرسہ و خانقاہ کی چہاردیوار ی سے نکل کر میدان میں انسانیت کی خدمت کا موقع آیا ، تو فدائے ملت ؒ کی نگاہِ دوربیں نے آپ ہی کو موزوں پایا ۔ چنانچہ جب ۱۹۸۹ء کے اکتوبر میں بھاگل پور بہار میں بھیانک فرقہ وارانہ فساد کا شعلہ بھڑکا،تو اس موقع پر ریلیف اور باز آباد کاری کے لیے آپ کو ہی منتخب کیا گیا۔ مولانا موصوف نے آگ و خون کے اس ماحول میں اپنی جان کی پراہ کیے بغیر مسلسل چار ماہ تک انسانیت کی جو خدمت کی، وہ ایک تاریخ بن گئی، حالاں کہ یہ آپ کے عملی زندگی کے آغاز کا سال تھا ۔ 
ان خدمات کو سراہتے ہوئے ۱۰؍ جون ۱۹۹۰ء کو بحیثیت آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند میں آپ کی تقرری عمل میں آئی اور آپ باضابطہ جمعیۃ کے فرد بن گئے۔فدائے ملت ؒ سے قلبی تعلق تو پہلے ہی سے تھا، لیکن جمعیۃ میں آجانے کے بعد یہ رشتہ اور مضبوط ہوگیا اور اس کی شکل یہ ہوئی کہ فدائے ملت ؒ نے اپنے سفر و حضر کا ساتھی بنالیا، چنانچہ حضرت جہاں بھی رہتے،کہیں بھی تشریف لے جاتے، مولانا موصوف سایہ کی طرح ہم رکاب رہتے۔اور یہ سلسلہ کوئی ایک دو سال نہیں ؛بلکہ متواتر سترہ سال تک جاری رہا۔ 
جمعیۃ علماء ہند کے ایک خادم ہونے کی حیثیت سے جس میدان میں آپ کی شناخت قائم ہوئی ، وہ انسانی خدمات کا بے پناہ جذبہ اورذات و مذہب کے امتیاز سے اوپر اٹھ کر مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی ہے، چنانچہ پورے ملک میں جہاں کہیں بھی فسادات کے شعلے بھڑکتے ہیں، لوگ سماوی آفات سے متاثر ہوتے ہیں، تو آپ بے چین ہواٹھتے ہیں، ان کی تکلیف اپنی تکلیف بنالیتے ہیں اور جب تک حالات کا جائزہ اور ان کی ریلیف و باز آباد کاری کے کام انجام نہیں دے لیتے ، آپ چین سے نہیں بیٹھتے ۔ اگر ۱۹۹۰ ء سے لے کر ۲۰۱۵ء تک اور اس سال کی شروعات سے لے کر تا دم تحریرجمعیۃ علماء ہند کی خدمات کا جائزہ لیا جائے، تو کوئی بھی موقع ایسا نہیں ملے گا ، جہاں آپ کا نام اور آپ کا واضح کردار شامل نہ ہو۔
۲۶؍ جنوری ۲۰۰۱ء میں کچھ کے بھانک زلزلے اور ۲۰۰۲ ء کے گجرات فساد اور مسلمانوں کی منظم نسل کشی کے موقع پر جب آپ گجرات پہنچے، تو وہاں اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر سینکڑوں لوگوں کو موت کے منھ سے باہر نکالا، بے شمار خانما برباد لوگوں اور موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا انسانوں کو ایک نئی زندگی عطا کی۔ مصیبت زدگان کو دلاسہ دیا اور ان کے مرجھائے چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرنے کی جاں توڑ محنت کی۔یہی نہیں کہ ان کے چند وقت کھانے پینے اور رہنے سہنے کا انتظام کرادیا ، بلکہ ان کے اور ان کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ،تعلیمی و اقتصادی بدحالی کو دور کرنے کے لیے مستقل سامان بہم پہنچا دیا ۔ پی ۔ ٹی۔ سی کالج، شاہ حاجی پیر زکریا کالج، جمعیۃ چلڈرن ولیج، آئی ۔ ٹی۔ آئی سینٹرس اور دیگر ادارے قائم کرکے جو خدمات انجام دی ہیں اور تا ہنوز دے رہے ہیں ، وہ ناقابل فراموش ہیں۔
مولانا کے ان بلند حوصلے کا یہ صلہ تھا کہ ۲۰۰۳ء میں جمعیۃ علماء ہند کے ناظم بنائے گئے۔ ۲۰۰۵ء میں قائم مقام ناظم عمومی کا عہدہ تفویض کیاگیا۔۲۰۰۸ء کے قضیہ نامرضیہ کے موقع پر ۔جب کہ جمعیۃ ایک بحرانی دور سے گذر رہی تھی ، ایسی سخت اور آزمائش کی گھڑی میں۔ آپ کو باضابطہ طور پر ناظم عمومی کے جلیل القدر عہدے سے سرفراز کیاگیا۔سردست مولانا موصوف قائم مقام جنرل سکریڑی کے عہدے پر فائز ہیں۔
نرم گفتاری، خاکساری، فروتنی، سبھی سے خندہ پیشانی سے ملنااور چھوٹے بڑے ہر ایک کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آنامولانا قاسمی کا جہاں طرۂ امتیاز ہے، وہیں آپ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے کبھی کسی عہدے کی خواہش نہیں کی،اور نہ ہی کبھی خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کی؛ بلکہ آپ کی جمعیۃ سے وابستگی قوم و ملت کی خدمت اور مدنی خاندان سے الفت و محبت اور عقیدت کی بنیاد پر تھی۔ مہمان نوازی اور مہمانوں کا اعزاز و اکرام بھی آپ کا ایک نمایاں وصف ہے۔ضلع پرتاپ گڑھ میں جمعیۃ علماء یوپی کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں مہمانوں کی تعظیم و توقیر کی خاظر آپ نے اپنی پوری تنخواہ پیش کردی تھی۔ ملک کے طول و عرض میں ہونے والے بڑے بڑے اجلاس کے انتظام اور ان کو کامیاب بنانے کا مسئلہ ہو یا قدرتی و سماوی آفات سے متاثرین کی باز آباد کاری درپیش ہو، ہرجگہ آپ ایک نمایاں رول میں نظر آتے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں خواہ وہ مظفر نگر کا فسا دہو، یا آسام کا تشدد یا پھر کشمیر، گجرات، مغربی بنگال اور منی پورمیں سیلاب متاثرین کی راحت رسانی ہر جگہ آپ کا چہرہ نظر آتا ہے۔ 
آج جب کہ مولانا قائم مقام ناظم عمومی کے عہدے پر فائز ہیں، امیر الہند رابع جناب حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند اور قائد ملت جناب حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی جنرل سکریڑی جمعیۃ علماء ہند کی ہدایت میں بحسن و خوبی اپنے فرائض کو انجام دے رہے ہیں ۔ مولائے کریم سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا موصوف کو مزید ترقیات سے نوازے اور ان کی زندگی امت مسلمہ کے لیے حیات بخش بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔