ملی تشخصات و امتیازات کے تحفظ کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے اقدامات
#محمد یاسین جہازی
جب ملک آزادہوا اور تقسیم ہوکر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ’پاکستان‘ چلی گئی،اورہندستان کے لیے کثیر لسانی وکثیر مذہبی ملک ہونے کے پیش نظر ڈیموکریسی نظام حکومت کو بطور آئین تسلیم کیا گیا اور سیکولرزم ، یعنی مذہبی غیر جانب داری کو اس نظام حکومت کی بنیاد قرار دیا گیا ، تو اس وقت کے رہ نمایانِ ملت اسلامیہ ہند کے سامنے دو مسئلے چیلنج بن کر سامنے آئے:
(الف) ایک یہ کہ مسلمان اس ملک میں کس طرح کا کردار پیش کرے کہ جس سے وہ بیک وقت مسلمان بھی رہے اور ایک سچا پکا ہندستانی بھی کہلائے۔ (ب)اور دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ملک کے فرقہ وارانہ ماحول میں، ایک مسلمان اسلامی تہذیب و ثقافت، دینی تعلیم و ہدایات اور ملی تشخصات و امتیازات کو کس طرح محفوظ رکھے۔
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے ، تو اس حوالے سے مسلم مجاہدین آزادی کی سرگرمیاں، قربانیاں اوراکابرین ملت اسلامیہ کی ذاتی زندگیاں رہ نمائی کے لیے کافی ہیں۔ان نفوس قدسی صفات نے جنگ آزادی میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، وہ مسلمانوں کو پکا ہندستانی ثابت کرنے کے لیے سب سے بڑی دلیل ہے۔علاوہ ازیں جمعیۃ علماء ہند کی مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم کی مخالفت اور متحدہ قومیت کی پالیسی ہندستانی مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار ہے۔
اور جہاں تک دوسرے مسئلے کی بات ہے ، تو اس حوالے سے رہبران ملت اسلامیہ ہند اور بالخصوص اکابر جمعیۃ علماء ہندکی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ چنانچہ جمعیۃ علماء ہند نے روز اول ہی سے مسلمانوں کی قومی اور ملی امتیازات و تشخصات کی حفاظت کا کام انجام دیا ہے۔اور آزادی کے سال۱۹۴۷ ء میں ۲۷،۲۸؍ دسمبر کولکھنو میں منعقد آزاد کانفرنس کے ذریعے پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کرتے ہوئے باضابطہ اپنے دائرۂ عمل کو مذہبی اور تمدنی حقوق و فرائض تک محدود کر لینے کا فیصلہ کیا۔ یوں تو جمعیۃ علماء ہند کی خدمات ہمہ جہت ہیں، لیکن موضوع گفتگو کی مناسبت سے صرف اس کی ملی تشخصات اور مذہبی روایات و افکارکی خدمات کا جائزہ لیں ، توان کا نقشہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ ۱۹۲۳ء میں ہندو مسلمانوں کے مثالی اتحاد کو توڑنے اور آزادی کے جذبے کو ختم کرنے کے لیے جب انگریزوں نے شدھی سنگٹھن کی تحریکیں شروع کرائیں، توان سے جہاں ارتدادی فتنوں نے جنم لیا، وہیں پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔جمعیۃ نے ان کی روک تھام کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ فتنۂ ارتداد کو روکنے کے لیے ’’شعبۂ تبلیغ و دعوت ‘‘ کے نام سے ایک مستقل شعبہ کا قیام عمل میں آیا۔اورقادیانی فتنے کے مقابلے کے لیے ’’انسداد فتنۂ قادیانی کمیٹی‘‘ کی تشکیل کی۔۱۹۲۴ء میں حکومت برطانیہ کی طرف سے بار بار توہین و انہدام مساجد کے خلاف سخت جدوجہدکی۔۱۹۲۶ء میں اصلاح معاشرہ ،تبلیغ دین اور انگریزی میں قرآن کریم کی تفسیر کی اشاعت کے فرائض انجام دیے۔ ۱۹۲۹ء میں کمسنی کی شادی کو قانونا جرم قراردینے والا قانون :’’ شاردا ایکٹ‘‘ کی مسلم پر سنل لاء میں مداخلت کی وجہ سے مخالفت کی۔۱۹۳۲ء میں سول میرج ایکٹ( مسلم و غیر مسلم کی باہمی شادی) قانون پر تنقید اور اس کو واپس لینے کے لیے ملک گیر احتجاج کیا۔۱۹۳۶ء میں مسودہ قانون فسخ نکاح کو تیار کرایا اور اسے اسمبلی میں پاس کرانے کے لیے جدوجہدکی۔۱۹۳۷ء میں صوبہ سرحد کی اسمبلی میں شریعت بل کا مسودہ پاس کرانے کی کوشش میں کامیابی حاصل کی ۔۱۹۳۹ء میں لکھنو میں شیعوں کی طرف سے تبرا ایجی ٹیشن کی پرزور مذمت اور مدح صحابہ کو مسلمانوں کا مذہبی حق قرار دیتے ہوئے اس میں حکومت سے مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔۱۹۴۴ء میں فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حکومت سے انتظامات کرنے کی اپیل کی۔۱۹۴۵ء میں آں حضور ﷺ اور حضرت جبرئیل امین ؑ کی فرضی تصویریں شائع کرنے والی کرنل پی ایم سائیکس کی کتاب ’’اے ہسٹری آف پرشیا‘‘ سے ان تصویروں کو خارج کرنے کے لیے احتجاج کیا۔۱۹۴۶ ء میں آزادیِ ملک، آزادیِ مذہب، کلچر، زبان، رسم الخط،مذہبی تعلیم و تبلیغ، مذہبی عقائد واعمال، عبادت گاہیں اور اوقاف سے جیسے مسلم پرسنل لاء بطور فنڈا منٹل رائٹس(مذہبی آزادی) منظور کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا۔۱۹۴۸ء میں پرائمری اسکولوں کے لیے چار نکاتی پروگرام پیش کیے: (۱)مسلمان مذہبی تعلیم کے ساتھ سرکاری اسکولوں کے نصاب پر مشتمل ابتدائی مدارس قائم کریں اور حکومت ان مدارس کی تعلیم کو مستند قرار دے اور امداد کرے۔ (۲)حکومت ابتدائی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم لازمی قراردے۔ (۳) پرائمری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو خارجی اوقات میں مذہبی تعلیم دینے کے لیے پرائیوٹ مکاتب کا قیام۔ (۴)لڑکوں کے لیے لازمی تعلیم کی ابتدائی عمر آٹھ سال قراردے تاکہ اس عمر کے بچوں کو مذہبی تعلیم دی جاسکے۔ ۱۹۵۰ء میں بابری مسجد کے مسئلے پر اظہار تشویش اور فرقہ وارانہ رویے پر یوپی حکومت کی مذمت کی۔ بعض اسکولوں ، کالجوں اور سرکاری اداروں میں جمعہ کے دن چھٹی کی سابقہ روایت کو ختم کرنے پر احتجاج کیا۔ غیر مسلموں کے قبضے سے مساجد کی وا گذاری ، مسلمانوں کے نقصانات کی تلافی اور کسٹوڈین سے متعلق مسائل کو حل کرانے کی جدوجہد کی ۔ ۱۹۵۵ء میں ممبئی میں بتاریخ ۸، ۹؍ جنوری کل ہند دینی تعلیمی کنونشن کا انعقادکیااور پورے ملک میں مکاتب و مدارس قائم کرنے کے لیے مرکزی دینی تعلیمی بورڈ کی تشکیل کی۔۱۹۶۰ء میں مسلمانوں سے تعلیم کی طرف توجہ دینے اور مدارس و مکاتب قائم کرنے کی تحریک شروع کی۔اور مسلمانوں سے اپنے اپنے علاقوں میں شرعی پنچایت قائم کرنے کی مخلصانہ اپیل کی۔ ۱۹۶۶ء میں تعلیمات اسلام، سیرت رسول ﷺ اور قرآن مجید کے ترجمے ومضامین ہندی میں شائع کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔۱۹۷۰ء میں ہندستانی مسلمانوں کے دینی مسائل کی رہ نمائی کے لیے ادارۃ المباحث الفقہیہ قائم کیا۔۱۹۷۱ء میں پورے ملک سے منتخب علمائے کرام کا اجتماع کیا اور رویت ہلال کمیٹی کی تشکیل کی اور اس کا ضابطۂ عمل تیار کیا۔۱۹۷۲ء میں متبنیٰ بل سے مسلمانوں کو مستثنیٰ کرنے کا مطالبہ کیا۔۱۹۷۵ء میں حضور ﷺ کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم کے خلاف سخت احتجاج کیا۔۱۹۷۸ ء میں شادی لازمی رجسٹریشن بل کی شدید مخالفت کی۔ اور مساجدو مقابر کے ایکوائر سے متعلق الٰہ باد ہائی کورٹ کے فیصلے میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔۱۹۸۴ء میں مسلم پر سنل لاء کے تعلق سے کورٹ فیس ایکٹ میں دعویٰ مہر کے لیے کورٹ فیس کو ختم کرنے، قانون خاتمہ زمین داری اتر پردیش کی دفعات : ۱۲۹ ؍ اور ۱۷۵؍ میں وراثت، وصیت، ہبہ وغیرہ حقوق شرعی کو مستثنیٰ کرنے ، نکاح کے لیے رجسٹریشن کو لازم قرار نہ دینے ، بنارس کی قبور کی منتقلی کو روکنے، ضابطہ دیوانی کی دفعہ ۱۲۵؍ اور ۱۲۷؍ میں مہر و عدت کے نان و نفقہ کی ادائیگی کے بعد تا نکاح ثانی پہلے شوہر پر نان و نفقہ کو لازم نہ ٹھہرانے اور یکساں سول کوڈ کا دفعہ ۴۴؍ کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا۔۱۹۹۷ء میں عیسائی مشنریز کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے موثر اقدامات کیے ۔اوروندے ماترم گانے اور بھارت ماتا کی تصویر پر پھول چڑھانے کی پرزور مذمت کی۔۱۹۹۸ء میں دینی مدارس و مساجد کے خلاف افسران اور اخبارات کی شر انگیز مہم پر تشویش کا اظہارکیا۔۲۰۰۰ء میں یوپی حکومت کے عبادت گاہ بل کے خلاف بڑے پیمانے پر پروگرام کا انعقاد کیا ۔۲۰۰۳ء میں دینی مدارس و مساجد میں سرکاری مداخلت کی راہ ہموار کرنے والے بل کی شدید مخالفت کی۔۲۰۰۹ء میں سرکاری ملازموں کی جبری داڑھی کٹوانے کے مسئلے پر قانونی کاروائی کی۔۲۰۱۳ء میں ملک کے مختلف حصوں میں تبلیغی جماعت پر شرپسندوں کے حملوں کی شدید مذمت کی۔سوشل نیٹ ورک : گوگل کے یوٹیوب سے اہانت آمیز مواد ہٹانے کے لیے کیس کیا، وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب بھی جس طرح کا موقع آیا، جمعیۃ علماء ہند نے ملت اسلامیہ کی حفاظت اور اس کی شناخت و امتیازات کو باقی رکھنے کی ہر ممکن جدوجہد کی ہے اور آئندہ بھی اپنے اسلاف کے لائحۂ عمل پر عمل کرتے ہوئے برابر جدوجہد کرتی رہے گی۔ جمعیۃ کی یہی وہ خصوصیات و امتیازات ہیں ، جن کی بنا پر ہر ایک حقیقت پسند مورخ کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارۂ کار نہیں کہ آج ہندستان میں جتنی بھی اور جس نوعیت سے بھی اسلامی رنگارنگی، تہذیب و روایات اوراقدارو افکار کی جھلکیاں پائی جاتی ہیں، ان تمام میں اکابر جمعیۃ علماء ہند کے بے انتہا خلوص، بے لوث جذبۂ خدمت اسلامی اور بے پناہ ایمانی غیرت وحمیت کا عنصر ضرور شامل ہے۔
