مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی
#محمدیاسین جہازی
شاعر مشرق علامہ اقبال نے ایک میر کارواں کے لیے ضروری اوصاف بتاتے ہوئے کہا تھا کہ
نگہ بلند ،سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی رخت سفر میر کارواں کے لیے
جنگ آزادی میں فعال کردارادا کرنے والی ،متحدہ قومیت کا نظریہ پیش کرنے والی،تقسیم ہند کی مخالف اور اسلامیان ہند کی سب سے بڑی نمائندہ اور فعال تنظیم’’ جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے موجودہ قائم مقام ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی اس شعر کے مجسم نمونے ہیں۔ مولانا قاسمی جہاں دور رس نگاہ کے حامل ہیں، وہیں دل نواز گفتگو اورپُرسوز جاں کے صفات بھی بدرجۂ اتم ان کے اند ر موجود ہیں۔
صوبہ اترپردیش کے ضلع پرتاپ گڑھ میں کھرگ پور ایک گاوں ہے۔ آپ اسی گاوں میں جناب حاجی ذاکر (مرحوم) کے گھر پیدا ہوئے ۔ تاریخ پیدائش ۱۹۶۷ء ہے۔نام حکیم الدین تجویز کیا گیا۔ نشوونما گھریلو روایات کے مطابق انجام پاتی رہی۔ کھیلنے کودنے کی عمر میں ہی گاوں کے مکتب میں بسم اللہ کرائی گئی ۔حفظِ قرآن اور ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم کے لیے گاوں سے باہر قدم رکھا اور مدرسہ نورالعلوم ہرہرپور پرتاپ گڑھ میں داخلہ لیا۔پھر جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا مرحلہ آیا تو ایشیا کی سب سے بڑی دینی یونی ورسٹی دارلعلوم دیوبند کا رخ کیااور ۱۹۸۹ء میں سند فضیلت لے کر ہی نکلے۔ دارالعلوم کے جن اساتذہ سے آپ نے فیض حاصل کیا، ان میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی، حضرت علامہ محمد حسین بہاری، حضرت مولانا محمود حسن ، حضرت مولانا نصیر احمد خان، حضرت مولانا عبدالحق ، حضرت مولانا نعمت اللہ ، حضرت مولانا قمر الدین ، مفتی سعید پالن پوری، مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری اور مولانا عبدالخالق مدراسی کے نام قابل ذکر ہیں۔
زمان�ۂ طالب علمی ہی سے امیر الہند ،فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ سے اصلاحی تعلق قائم ہوگیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سالانہ رخصت کی مناسبت سے اکثر طلبہ جہاں اپنے گھروں کو لوٹ جایا کرتے ہیں، وہاں مولانا ہر سال پورے رمضان میں دارالعلوم دیوبند کی جامع رشید میں حضرت فدائے ملت ؒ کے واردین و صادرین کی خدمت اور میزبانی کے لیے خود کو وقف کردیتے تھے اور اس میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتے تھے۔ حضرت سے اس تعلق و خدمت نے آپ کو کندن بنادیا تھا ، یہی وجہ تھی کہ جب مدرسہ و خانقاہ کی چہاردیوار ی سے نکل کر میدان میں انسانیت کی خدمت کا موقع آیا ، تو فدائے ملت ؒ کی نگاہِ دوربیں نے آپ ہی کو موزوں پایا ۔ چنانچہ جب ۱۹۸۹ء کے اکتوبر میں بھاگل پور بہار میں بھیانک فرقہ وارانہ فساد کا شعلہ بھڑکا،تو اس موقع پر ریلیف اور باز آباد کاری کے لیے آپ کو ہی منتخب کیا گیا۔ مولانا موصوف نے آگ و خون کے اس ماحول میں اپنی جان کی پراہ کیے بغیر مسلسل چار ماہ تک انسانیت کی جو خدمت کی، وہ ایک تاریخ بن گئی، حالاں کہ یہ آپ کے عملی زندگی کے آغاز کا سال تھا ۔
ان خدمات کو سراہتے ہوئے ۱۰؍ جون ۱۹۹۰ء کو بحیثیت آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند میں آپ کی تقرری عمل میں آئی اور آپ باضابطہ جمعیۃ کے فرد بن گئے۔فدائے ملت ؒ سے قلبی تعلق تو پہلے ہی سے تھا، لیکن جمعیۃ میں آجانے کے بعد یہ رشتہ اور مضبوط ہوگیا اور اس کی شکل یہ ہوئی کہ فدائے ملت ؒ نے اپنے سفر و حضر کا ساتھی بنالیا، چنانچہ حضرت جہاں بھی رہتے،کہیں بھی تشریف لے جاتے، مولانا موصوف سایہ کی طرح ہم رکاب رہتے۔اور یہ سلسلہ کوئی ایک دو سال نہیں ؛بلکہ متواتر سترہ سال تک جاری رہا۔
جمعیۃ علماء ہند کے ایک خادم ہونے کی حیثیت سے جس میدان میں آپ کی شناخت قائم ہوئی ، وہ انسانی خدمات کا بے پناہ جذبہ اورذات و مذہب کے امتیاز سے اوپر اٹھ کر مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی ہے، چنانچہ پورے ملک میں جہاں کہیں بھی فسادات کے شعلے بھڑکتے ہیں، لوگ سماوی آفات سے متاثر ہوتے ہیں، تو آپ بے چین ہواٹھتے ہیں، ان کی تکلیف اپنی تکلیف بنالیتے ہیں اور جب تک حالات کا جائزہ اور ان کی ریلیف و باز آباد کاری کے کام انجام نہیں دے لیتے ، آپ چین سے نہیں بیٹھتے ۔ اگر ۱۹۹۰ ء سے لے کر ۲۰۱۵ء تک اور اس سال کی شروعات سے لے کر تا دم تحریرجمعیۃ علماء ہند کی خدمات کا جائزہ لیا جائے، تو کوئی بھی موقع ایسا نہیں ملے گا ، جہاں آپ کا نام اور آپ کا واضح کردار شامل نہ ہو۔
۲۶؍ جنوری ۲۰۰۱ء میں کچھ کے بھانک زلزلے اور ۲۰۰۲ ء کے گجرات فساد اور مسلمانوں کی منظم نسل کشی کے موقع پر جب آپ گجرات پہنچے، تو وہاں اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر سینکڑوں لوگوں کو موت کے منھ سے باہر نکالا، بے شمار خانما برباد لوگوں اور موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا انسانوں کو ایک نئی زندگی عطا کی۔ مصیبت زدگان کو دلاسہ دیا اور ان کے مرجھائے چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرنے کی جاں توڑ محنت کی۔یہی نہیں کہ ان کے چند وقت کھانے پینے اور رہنے سہنے کا انتظام کرادیا ، بلکہ ان کے اور ان کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ،تعلیمی و اقتصادی بدحالی کو دور کرنے کے لیے مستقل سامان بہم پہنچا دیا ۔ پی ۔ ٹی۔ سی کالج، شاہ حاجی پیر زکریا کالج، جمعیۃ چلڈرن ولیج، آئی ۔ ٹی۔ آئی سینٹرس اور دیگر ادارے قائم کرکے جو خدمات انجام دی ہیں اور تا ہنوز دے رہے ہیں ، وہ ناقابل فراموش ہیں۔
مولانا کے ان بلند حوصلے کا یہ صلہ تھا کہ ۲۰۰۳ء میں جمعیۃ علماء ہند کے ناظم بنائے گئے۔ ۲۰۰۵ء میں قائم مقام ناظم عمومی کا عہدہ تفویض کیاگیا۔۲۰۰۸ء کے قضیہ نامرضیہ کے موقع پر ۔جب کہ جمعیۃ ایک بحرانی دور سے گذر رہی تھی ، ایسی سخت اور آزمائش کی گھڑی میں۔ آپ کو باضابطہ طور پر ناظم عمومی کے جلیل القدر عہدے سے سرفراز کیاگیا۔سردست مولانا موصوف قائم مقام جنرل سکریڑی کے عہدے پر فائز ہیں۔
نرم گفتاری، خاکساری، فروتنی، سبھی سے خندہ پیشانی سے ملنااور چھوٹے بڑے ہر ایک کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آنامولانا قاسمی کا جہاں طرۂ امتیاز ہے، وہیں آپ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے کبھی کسی عہدے کی خواہش نہیں کی،اور نہ ہی کبھی خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کی؛ بلکہ آپ کی جمعیۃ سے وابستگی قوم و ملت کی خدمت اور مدنی خاندان سے الفت و محبت اور عقیدت کی بنیاد پر تھی۔ مہمان نوازی اور مہمانوں کا اعزاز و اکرام بھی آپ کا ایک نمایاں وصف ہے۔ضلع پرتاپ گڑھ میں جمعیۃ علماء یوپی کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں مہمانوں کی تعظیم و توقیر کی خاظر آپ نے اپنی پوری تنخواہ پیش کردی تھی۔ ملک کے طول و عرض میں ہونے والے بڑے بڑے اجلاس کے انتظام اور ان کو کامیاب بنانے کا مسئلہ ہو یا قدرتی و سماوی آفات سے متاثرین کی باز آباد کاری درپیش ہو، ہرجگہ آپ ایک نمایاں رول میں نظر آتے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں خواہ وہ مظفر نگر کا فسا دہو، یا آسام کا تشدد یا پھر کشمیر، گجرات، مغربی بنگال اور منی پورمیں سیلاب متاثرین کی راحت رسانی ہر جگہ آپ کا چہرہ نظر آتا ہے۔
آج جب کہ مولانا قائم مقام ناظم عمومی کے عہدے پر فائز ہیں، امیر الہند رابع جناب حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند اور قائد ملت جناب حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی جنرل سکریڑی جمعیۃ علماء ہند کی ہدایت میں بحسن و خوبی اپنے فرائض کو انجام دے رہے ہیں ۔ مولائے کریم سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا موصوف کو مزید ترقیات سے نوازے اور ان کی زندگی امت مسلمہ کے لیے حیات بخش بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔