محمد یاسین جہازی
تراویح کی روایت
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن آدھی رات کو آپ ﷺ مسجد تشریف لے گئے اور نماز پڑھی ۔ صحابہؓ نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح اس بات کا چرچا ہوا، تو دوسرے دن کافی لوگ مسجد میں آگئے۔ آپ ﷺ نے ان سب کو نماز پڑھائی۔ تیسرے دن اور صحابہؓ کو معلوم ہوا تو وہ سب آگئے ، اس دن بھی آپ ﷺ نے ان سب کو نماز پڑھائی ۔ چوتھے دن اور زیادہ چرچا ہوا اور شوق نماز میں اتنے صحابہ مسجد نبوی میں جمع ہوگئے ، مسجد کھچاکھچ بھر گئی۔ اس دن آپ ﷺ مسجدمیں تشریف نہیں لائے۔ جب فجر کی نماز کے لیے تشریف لے گئے اور فجر کی نماز پڑھادی، تو آپ ﷺ نے ایک تقریر فرمائی۔ حمدو صلاۃ کے بعد ارشاد فرمایا کہ :مجھ سے تم لوگوں کی موجودگی پوشیدہ نہیں تھی، لیکن مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہوجائے اور پھرتم اس نمازکو ادا نہ کرسکو۔آپ ﷺ کی تا وفات معاملہ یوں ہی رہا۔ یعنی پھر کبھی آپ ﷺ نے نماز نہیں پڑھائی اور لوگ اپنے اپنے طور پر پڑھتے رہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں:
ان رسول اللہ ﷺ خرج لیلۃ من جوف اللیل، فصلی فی المسجد، و صلٰی رجال بصلاتہ، فاصبح الناس، فتحدثوا، فاجتمع اکثر منھم، فصلیٰ فصلوا معہ، فاصبح الناس فتحدثوا، فکثر اھل المسجد من اللیلۃ الثالثۃ، فخرج رسول اللہ ﷺ فصلیٰ فصلوا بصلاتہ، فلما کانت اللیلۃ الرابعۃِ عجز المسجد عن اھلہ، حتٰی خرج لصلاۃ الصبح، فلما قضٰی الفجر، اقبل علیٰ الناس، فتشھد، ثم قال اما بعد! فانہ لم یخف علی مکانکم، ولٰکن خشیت ان تفترض علیکم، فعجزوا عنھا،فتوفی رسول اللہ ﷺ والامر علیٰ ذالک (بخاری، کتاب صلاۃ التراویح ، باب فضل من قام رمضان)
آپ ﷺ کے بعد
آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں بھی معاملہ یوں ہی رہا۔ صحابہ انفرادی طور پر یہ نماز پڑھتے رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا دور فتنوں اور ارتداد کا دور ہونے کی وجہ سے دیگر کاموں میں مصروف رہے اور اس کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ پھر جب حضرت عمر فاروقؓ کا دور خلافت آیا ، تو انھوں نے جہاں بہت سے سیاسی و ملکی مسائل پر توجہ دی، وہیں صحابہ میں بعض مختلف فیہ مسائل کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور ان اختلاف آراء کو یک جا کرتے ہوئے کبار صحابہ سے مشورے سے کسی ایک رائے پر اجماع کیا، جیسے جماع کے بعد غسل واجب ہونے پر صحابہ کے آرا الگ الگ تھے۔ حضرت عمرؓ نے غسل واجب پر اجماع کیا۔(دیکھیں :مشکل الآثار للطحاوی ، باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللہ ﷺ مما تعلق بہ امامۃ الصبیان الذین لم یبلغوا فی الفرائض من الصلوات ، اذا جاوز الختان الختان، فقد وجب الغسل )اسی طرح اس نماز کے تعلق سے حضرت عمرؓ نے اجماع کیا۔ اجماع کی ضرورت کیوں پیش آئی ، ذیل کی سطروں میں ملاحظہ فرمائیے:
حضرت عمرؓ کا اجماع
حضرت عبد الرحمانؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ نے کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا۔ وہاں لوگوں کو دیکھا کہ کوئی الگ (تنہا) نماز پڑھ رہا ہے۔ اور کہیں ایک شخص نماز پڑھا رہا ہے اور اس کے ساتھ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ (یہ منظر دیکھ کر) حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرا خیا ل ہے کہ ان سب کو ایک قاری پر جمع کردوں، (تنہا یا مختلف الگ الگ جماعتوں سے پڑھنے کے بجائے ایک ہی جماعت میں سب لوگ شریک ہوکر یہ نماز پڑھیں)تو بہتر ہوگا۔حضرت عمرؓ نے پختہ ارادہ کرکے حضرت ابی ابن کعبؓ کو امام بناکر سب کو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ پھر میں ان کے ساتھ دوسری رات کو نکلا ۔ لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ ( یہ دیکھ کر ) حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ اچھی بدعت ہے ۔ سونے والی گھڑی:، یعنی: رات کے آخری حصے سے ، رات کا شروع والا حصہ بہتر ہے، جس میں وہ لوگ نماز پڑھتے تھے۔ (یعنی صحابہ یہ نماز تہجد کے وقت کے بجائے عشا کے بعد ہی یہ نماز پڑھ لیا کرتے تھے)۔ حدیث کے الفاظ میں :
عن عبدالرحمان بن عبد القاری انہ قال خرجت مع عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ لیلۃ فی رمضان الیٰ المسجد ، فاذا الناس اوزاع متفرقون ، یصلی الرجل لنفسہ، و یصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط۔ فقال عمر: انی اریٰ لو جمعتُ ھولاء علیٰ قاری واحد، لکان امثل، ثم عزم ، فجمعھم علیٰ ابی ابن کعبؓ ، ثم خرجت معہ لیلۃ اخریٰ ، والناس یصلون بصلاۃ قارءھم۔ قال عمر : نعم البدعۃ ھذہ۔ والتی ینامون عنھاافضل من التی یقومون ، یرید آخر اللیل۔ وکان الناس یقومون اولہ۔ (بخاری، فضل من قام رمضان)
اس طرح امت مسلمہ میں تراویح کی روایت شروع ہوئی ، جس کا سلسلہ تا ہنوز جاری ہے اور تا قیامت ان شاء اللہ تعالیٰ۔
رکعات کی تعداد
نبی اکرم ﷺ سے نماز تراویح کی رکعات کی کوئی تعدادثابت نہیں ہے۔ اس تعلق سے نہ کوئی قولی روایت ہے اور نہ ہی فعلی روایت ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ نے مجموع فتاوی ٰابن تیمیۃ، ج؍ ۵ فصل صلاۃ الخوف صلاھا الرسول مرۃ علیٰ وجہ و مرۃ علیٰ وجہ میں ،علامہ شوکانی نے نیل الاوطار ، جلد ۳ میں ، مولانا وحید الزماں اہل حدیث نے نزل الابرار ، جلد ؍ ۱ میں اور دیگر علما نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔لیکن حضرات صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبع تابعین، ائمۂ مجتہدین،سلف صالحین اور علمائے راسخین کا تواتر کے ساتھ بیس رکعات پڑھنے کا عمل ثابت ہے۔بارھویں صدی تک امت کا توارث و تعامل بھی بیس ہی رکعات پڑھنے کا رہا ہے، ان تمام استشہادات سے ثابت ہوتا ہے کہ تروایح کی نماز بیس رکعات ہیں۔
بارھویں صدی کے اختتام میں اہل حدیث نامی فرقہ کا کہنا ہے کہ تراویح کی نماز بیس رکعات نہیں ؛ بلکہ آٹھ رکعات ہیں، اس کے اثبات کے لیے دو دعوے کرتے ہیں ۔
اہل حدیث کے دو دعوے
پہلا دعویٰ : آٹھ رکعات آں حضرت ﷺ سے ثابت ہے ۔اس پر تین حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں:
پہلی حدیث:
انہ سال کیف کانت صلاۃ رسول اللہ ﷺ فی رمضان؟ فقالت: ماکان رسول اللہ ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علیٰ احدیٰ عشرۃ رکعۃ ،یصلی اربعا ، فلا تسئل عن حسنھن و طولھن، ثم یصلی اربعا ، فلا تسئل عن حسنھن و طولھن، ثم یصلی ثلاثا، قالت عائشۃؓ فقلت : یا رسول اللہ ﷺ اتنام قبل ان توتر؟ فقال : یا عائشہ ان عینی تنامان ولاینام قلبی (بخاری باب قیام النبی ﷺ فی رمضان و غیرہ)
جوابات
(۱) غیر رمضان کا لفظ قرینہ ہے کہ سائل نے تراویح کے بارے میں نہیں؛ بلکہ تہجدکے بارے میں سوال کیا تھا؛ ورنہ غیر رمضان میں بھی آٹھ رکعات تراویح کا ثبوت ماننا پڑے گا، جو کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
(۲) حضرت عائشہ سے تیرہ رکعات بھی مروی ہے، حدیث میں ہے کہ و عن عائشۃ قالت: کان النبی ﷺ یصلی من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ، منھا الوتر و رکعتا الفجر۔ رواہ مسلم۔ ( مشکوٰ ۃ المصابیح، باب صلاۃ اللیل)، لہذا آٹھ ہی رکعات کی تعیین صحیح نہیں ہوگی۔
(۳) اس میں چار چار رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے اور تراویح دو دو رکعات پڑھی جاتی ہیں، لہذا یہ حدیث تراویح سے متعلق نہیں ہوسکتی۔
(۴) وتر سے پہلے سونے کا بھی تذکرہ ہے، حالاں کہ کسی بھی دیگر روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ آٹھ رکعات پڑھا کر سوجاتے تھے اور صحابہ انتظار میں رہتے تھے پھر آپ ﷺ بیدار ہوکر آتے اور وتر کی نماز پڑھاتے تھے۔
(۵) کسی بھی محدث نے اس روایت کو قیام رمضان کے تحت ذکر نہیں کیا ہے ، اکثر نے قیام اللیل یعنی تہجد کے باب میں ذکر کیا ہے۔
(۶) علامہ قرطبی نے تعداد کے تعلق سے حدیث عائشہ کو مضطرب قرار دیا ہے۔
لہذا انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ حدیث تراویح کی نہیں، بلکہ تہجد کی کیفیت کا بیان ہے ، لہذا تراویح کی آٹھ رکعات کے ثبوت میں اس سے استدلال کسی طرح بھی درست نہیں۔اور تہجد و تراویح دوالگ الگ نمازیں ہیں ؛کیوں کہ
(۱) تہجد کی مشروعیت مکہ میں ہوئی ہے جب کہ تراویح کی مدینہ میں۔
(۲) تہجد کا ثبوت کلام پاک فتہجد بہ نافلۃ لک اور قم اللیل الا قلیلا سے اور تراویح کا ثبوت حدیث سے ہے ۔ ابن ماجہ میں ہے سننت لکم قیامہ (باب ما جاء فی قیام رمضان)
(۳) تہجد کی رکعات بالاتفاق متعین ہیں :کم ازکم سات مع الوتر اور زیادہ سے زیادہ تیرہ مع الوترہیں اورتراویح کی تعداد آپ ﷺ سے منقول نہیں ۔
(۴) تہجد کا وقت سونے کے بعدہے اور تراویح کا عشا کے بعد ہوتا ہے۔
دوسری حدیث
حدثنا محمد بن حمید الرازی، حدثنا یعقوب ابن عبداللہ حدثنا عیسیٰ ابن جاریہ عن جابر قال: صلٰی رسول اللہ ﷺ فی رمضان لیلۃ ثمان رکعات والوتر ، فلما کان من القابلۃ، اجتمعنا فی المسجد ورجونا ان یخرج الینا ، فلم نزل فیہ حتیٰ اصبحنا، قال کرھت او خشیت ان یکتب علیکم الوتر (صحیح ابن خزیمہ، باب ذکر الاخبار)
عیسیٰ بن جاریہ کو حافظ ذہبی نے میزن الاعتدال میں علامہ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں اور امام فن جرح و تعدیل یحیٰ ابن معین کہا ہے کہ لیس بذالک یعنی قوی نہیں ہے ، امام نسائی اور ابو داود نے منکر الحدیث کہا ہے۔ اور محمد ابن حمید الرازی کو بھی ضعیف کہا گیا ہے ، لہذا یہ حدیث قابل حجت نہیں۔
تیسری حدیث
حدثنا محمد بن حمید الرازی، حدثنا یعقوب ابن عبداللہ حدثنا عیسیٰ ابن جاریہ عن جابر جاء ابی ابن کعب فی رمضان ۔ فقال یا رسول اللہ ﷺ کان منی لیلۃ شئی ، قال وما ذالک یا ابی قال نسوۃ داری قلن انا لا نقرا القرآن ، فنصلی خلفک بصلاتک ، فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر، فسکت عنہ النبی ﷺ (قیام اللیل ، )
عیسیٰ بن جاریہ مجروح ہیں۔
دوسرا دعویٰ
آٹھ رکعات تراویح کا حکم حضرت عمرؓ نے دیا تھا ۔
مالک عن محمد بن یوسف عن سائب بن یزید انہ قال امر عمر ابن الخطاب ابی ابن کعب و تمیما الدارمی ان یقوما للناس باحدیٰ عشرۃ رکعۃ (موطا امام مالک، ماجاء فی قیام رمضان)
اس سند میں موجود محمد بن یوسف کے پانچ شاگرد ہیں
امام مالک کی روایت میں حکم، دونوں صحابہ اور تعداد کا تذکرہ ہے ، رمضان کا نہیں۔
یحیٰ ابن قطان کی روایت میں لوگوں کو جمع کرنے اور گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے ، حکم، رمضان کا ذکر نہیں ہے۔
عبدالعزیز ابن محمد کی روایت میں زمانہ عمر میں گیارہ رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے ، حکم صحابہ اور رمضان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
ابن اسحاق کی روایت میں حضرت عمر کے زمانے میں بماہ رمضان تیرہ رکعات کا تذکرہ ہے۔
عبدالرزاق کی روایت میں حضرت عمر کا حکم اکیس رکعت مذکور ہے۔
لہذا تعداد میں مضطرب ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔
محمد ابن یوسف کے ساتھی یزید بن خصیفہ سے بیس رکعات کی روایت مروی ہے سنن کبریٰ للبیھقی جلد ۲ میں۔ اس سند کو امام نووی ، امام عراقی اورامام سیوطی نے صحیح قرار دیا ہے۔لہذ اس حدیث پر عمل ہی انصاف اور عقل کا تقاضا ہوگا۔
تراویح کی روایت
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن آدھی رات کو آپ ﷺ مسجد تشریف لے گئے اور نماز پڑھی ۔ صحابہؓ نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح اس بات کا چرچا ہوا، تو دوسرے دن کافی لوگ مسجد میں آگئے۔ آپ ﷺ نے ان سب کو نماز پڑھائی۔ تیسرے دن اور صحابہؓ کو معلوم ہوا تو وہ سب آگئے ، اس دن بھی آپ ﷺ نے ان سب کو نماز پڑھائی ۔ چوتھے دن اور زیادہ چرچا ہوا اور شوق نماز میں اتنے صحابہ مسجد نبوی میں جمع ہوگئے ، مسجد کھچاکھچ بھر گئی۔ اس دن آپ ﷺ مسجدمیں تشریف نہیں لائے۔ جب فجر کی نماز کے لیے تشریف لے گئے اور فجر کی نماز پڑھادی، تو آپ ﷺ نے ایک تقریر فرمائی۔ حمدو صلاۃ کے بعد ارشاد فرمایا کہ :مجھ سے تم لوگوں کی موجودگی پوشیدہ نہیں تھی، لیکن مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہوجائے اور پھرتم اس نمازکو ادا نہ کرسکو۔آپ ﷺ کی تا وفات معاملہ یوں ہی رہا۔ یعنی پھر کبھی آپ ﷺ نے نماز نہیں پڑھائی اور لوگ اپنے اپنے طور پر پڑھتے رہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں:
ان رسول اللہ ﷺ خرج لیلۃ من جوف اللیل، فصلی فی المسجد، و صلٰی رجال بصلاتہ، فاصبح الناس، فتحدثوا، فاجتمع اکثر منھم، فصلیٰ فصلوا معہ، فاصبح الناس فتحدثوا، فکثر اھل المسجد من اللیلۃ الثالثۃ، فخرج رسول اللہ ﷺ فصلیٰ فصلوا بصلاتہ، فلما کانت اللیلۃ الرابعۃِ عجز المسجد عن اھلہ، حتٰی خرج لصلاۃ الصبح، فلما قضٰی الفجر، اقبل علیٰ الناس، فتشھد، ثم قال اما بعد! فانہ لم یخف علی مکانکم، ولٰکن خشیت ان تفترض علیکم، فعجزوا عنھا،فتوفی رسول اللہ ﷺ والامر علیٰ ذالک (بخاری، کتاب صلاۃ التراویح ، باب فضل من قام رمضان)
آپ ﷺ کے بعد
آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں بھی معاملہ یوں ہی رہا۔ صحابہ انفرادی طور پر یہ نماز پڑھتے رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا دور فتنوں اور ارتداد کا دور ہونے کی وجہ سے دیگر کاموں میں مصروف رہے اور اس کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ پھر جب حضرت عمر فاروقؓ کا دور خلافت آیا ، تو انھوں نے جہاں بہت سے سیاسی و ملکی مسائل پر توجہ دی، وہیں صحابہ میں بعض مختلف فیہ مسائل کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور ان اختلاف آراء کو یک جا کرتے ہوئے کبار صحابہ سے مشورے سے کسی ایک رائے پر اجماع کیا، جیسے جماع کے بعد غسل واجب ہونے پر صحابہ کے آرا الگ الگ تھے۔ حضرت عمرؓ نے غسل واجب پر اجماع کیا۔(دیکھیں :مشکل الآثار للطحاوی ، باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللہ ﷺ مما تعلق بہ امامۃ الصبیان الذین لم یبلغوا فی الفرائض من الصلوات ، اذا جاوز الختان الختان، فقد وجب الغسل )اسی طرح اس نماز کے تعلق سے حضرت عمرؓ نے اجماع کیا۔ اجماع کی ضرورت کیوں پیش آئی ، ذیل کی سطروں میں ملاحظہ فرمائیے:
حضرت عمرؓ کا اجماع
حضرت عبد الرحمانؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ نے کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا۔ وہاں لوگوں کو دیکھا کہ کوئی الگ (تنہا) نماز پڑھ رہا ہے۔ اور کہیں ایک شخص نماز پڑھا رہا ہے اور اس کے ساتھ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ (یہ منظر دیکھ کر) حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرا خیا ل ہے کہ ان سب کو ایک قاری پر جمع کردوں، (تنہا یا مختلف الگ الگ جماعتوں سے پڑھنے کے بجائے ایک ہی جماعت میں سب لوگ شریک ہوکر یہ نماز پڑھیں)تو بہتر ہوگا۔حضرت عمرؓ نے پختہ ارادہ کرکے حضرت ابی ابن کعبؓ کو امام بناکر سب کو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ پھر میں ان کے ساتھ دوسری رات کو نکلا ۔ لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ ( یہ دیکھ کر ) حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ اچھی بدعت ہے ۔ سونے والی گھڑی:، یعنی: رات کے آخری حصے سے ، رات کا شروع والا حصہ بہتر ہے، جس میں وہ لوگ نماز پڑھتے تھے۔ (یعنی صحابہ یہ نماز تہجد کے وقت کے بجائے عشا کے بعد ہی یہ نماز پڑھ لیا کرتے تھے)۔ حدیث کے الفاظ میں :
عن عبدالرحمان بن عبد القاری انہ قال خرجت مع عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ لیلۃ فی رمضان الیٰ المسجد ، فاذا الناس اوزاع متفرقون ، یصلی الرجل لنفسہ، و یصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط۔ فقال عمر: انی اریٰ لو جمعتُ ھولاء علیٰ قاری واحد، لکان امثل، ثم عزم ، فجمعھم علیٰ ابی ابن کعبؓ ، ثم خرجت معہ لیلۃ اخریٰ ، والناس یصلون بصلاۃ قارءھم۔ قال عمر : نعم البدعۃ ھذہ۔ والتی ینامون عنھاافضل من التی یقومون ، یرید آخر اللیل۔ وکان الناس یقومون اولہ۔ (بخاری، فضل من قام رمضان)
اس طرح امت مسلمہ میں تراویح کی روایت شروع ہوئی ، جس کا سلسلہ تا ہنوز جاری ہے اور تا قیامت ان شاء اللہ تعالیٰ۔
رکعات کی تعداد
نبی اکرم ﷺ سے نماز تراویح کی رکعات کی کوئی تعدادثابت نہیں ہے۔ اس تعلق سے نہ کوئی قولی روایت ہے اور نہ ہی فعلی روایت ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ نے مجموع فتاوی ٰابن تیمیۃ، ج؍ ۵ فصل صلاۃ الخوف صلاھا الرسول مرۃ علیٰ وجہ و مرۃ علیٰ وجہ میں ،علامہ شوکانی نے نیل الاوطار ، جلد ۳ میں ، مولانا وحید الزماں اہل حدیث نے نزل الابرار ، جلد ؍ ۱ میں اور دیگر علما نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔لیکن حضرات صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبع تابعین، ائمۂ مجتہدین،سلف صالحین اور علمائے راسخین کا تواتر کے ساتھ بیس رکعات پڑھنے کا عمل ثابت ہے۔بارھویں صدی تک امت کا توارث و تعامل بھی بیس ہی رکعات پڑھنے کا رہا ہے، ان تمام استشہادات سے ثابت ہوتا ہے کہ تروایح کی نماز بیس رکعات ہیں۔
بارھویں صدی کے اختتام میں اہل حدیث نامی فرقہ کا کہنا ہے کہ تراویح کی نماز بیس رکعات نہیں ؛ بلکہ آٹھ رکعات ہیں، اس کے اثبات کے لیے دو دعوے کرتے ہیں ۔
اہل حدیث کے دو دعوے
پہلا دعویٰ : آٹھ رکعات آں حضرت ﷺ سے ثابت ہے ۔اس پر تین حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں:
پہلی حدیث:
انہ سال کیف کانت صلاۃ رسول اللہ ﷺ فی رمضان؟ فقالت: ماکان رسول اللہ ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علیٰ احدیٰ عشرۃ رکعۃ ،یصلی اربعا ، فلا تسئل عن حسنھن و طولھن، ثم یصلی اربعا ، فلا تسئل عن حسنھن و طولھن، ثم یصلی ثلاثا، قالت عائشۃؓ فقلت : یا رسول اللہ ﷺ اتنام قبل ان توتر؟ فقال : یا عائشہ ان عینی تنامان ولاینام قلبی (بخاری باب قیام النبی ﷺ فی رمضان و غیرہ)
جوابات
(۱) غیر رمضان کا لفظ قرینہ ہے کہ سائل نے تراویح کے بارے میں نہیں؛ بلکہ تہجدکے بارے میں سوال کیا تھا؛ ورنہ غیر رمضان میں بھی آٹھ رکعات تراویح کا ثبوت ماننا پڑے گا، جو کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
(۲) حضرت عائشہ سے تیرہ رکعات بھی مروی ہے، حدیث میں ہے کہ و عن عائشۃ قالت: کان النبی ﷺ یصلی من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ، منھا الوتر و رکعتا الفجر۔ رواہ مسلم۔ ( مشکوٰ ۃ المصابیح، باب صلاۃ اللیل)، لہذا آٹھ ہی رکعات کی تعیین صحیح نہیں ہوگی۔
(۳) اس میں چار چار رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے اور تراویح دو دو رکعات پڑھی جاتی ہیں، لہذا یہ حدیث تراویح سے متعلق نہیں ہوسکتی۔
(۴) وتر سے پہلے سونے کا بھی تذکرہ ہے، حالاں کہ کسی بھی دیگر روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ آٹھ رکعات پڑھا کر سوجاتے تھے اور صحابہ انتظار میں رہتے تھے پھر آپ ﷺ بیدار ہوکر آتے اور وتر کی نماز پڑھاتے تھے۔
(۵) کسی بھی محدث نے اس روایت کو قیام رمضان کے تحت ذکر نہیں کیا ہے ، اکثر نے قیام اللیل یعنی تہجد کے باب میں ذکر کیا ہے۔
(۶) علامہ قرطبی نے تعداد کے تعلق سے حدیث عائشہ کو مضطرب قرار دیا ہے۔
لہذا انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ حدیث تراویح کی نہیں، بلکہ تہجد کی کیفیت کا بیان ہے ، لہذا تراویح کی آٹھ رکعات کے ثبوت میں اس سے استدلال کسی طرح بھی درست نہیں۔اور تہجد و تراویح دوالگ الگ نمازیں ہیں ؛کیوں کہ
(۱) تہجد کی مشروعیت مکہ میں ہوئی ہے جب کہ تراویح کی مدینہ میں۔
(۲) تہجد کا ثبوت کلام پاک فتہجد بہ نافلۃ لک اور قم اللیل الا قلیلا سے اور تراویح کا ثبوت حدیث سے ہے ۔ ابن ماجہ میں ہے سننت لکم قیامہ (باب ما جاء فی قیام رمضان)
(۳) تہجد کی رکعات بالاتفاق متعین ہیں :کم ازکم سات مع الوتر اور زیادہ سے زیادہ تیرہ مع الوترہیں اورتراویح کی تعداد آپ ﷺ سے منقول نہیں ۔
(۴) تہجد کا وقت سونے کے بعدہے اور تراویح کا عشا کے بعد ہوتا ہے۔
دوسری حدیث
حدثنا محمد بن حمید الرازی، حدثنا یعقوب ابن عبداللہ حدثنا عیسیٰ ابن جاریہ عن جابر قال: صلٰی رسول اللہ ﷺ فی رمضان لیلۃ ثمان رکعات والوتر ، فلما کان من القابلۃ، اجتمعنا فی المسجد ورجونا ان یخرج الینا ، فلم نزل فیہ حتیٰ اصبحنا، قال کرھت او خشیت ان یکتب علیکم الوتر (صحیح ابن خزیمہ، باب ذکر الاخبار)
عیسیٰ بن جاریہ کو حافظ ذہبی نے میزن الاعتدال میں علامہ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں اور امام فن جرح و تعدیل یحیٰ ابن معین کہا ہے کہ لیس بذالک یعنی قوی نہیں ہے ، امام نسائی اور ابو داود نے منکر الحدیث کہا ہے۔ اور محمد ابن حمید الرازی کو بھی ضعیف کہا گیا ہے ، لہذا یہ حدیث قابل حجت نہیں۔
تیسری حدیث
حدثنا محمد بن حمید الرازی، حدثنا یعقوب ابن عبداللہ حدثنا عیسیٰ ابن جاریہ عن جابر جاء ابی ابن کعب فی رمضان ۔ فقال یا رسول اللہ ﷺ کان منی لیلۃ شئی ، قال وما ذالک یا ابی قال نسوۃ داری قلن انا لا نقرا القرآن ، فنصلی خلفک بصلاتک ، فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر، فسکت عنہ النبی ﷺ (قیام اللیل ، )
عیسیٰ بن جاریہ مجروح ہیں۔
دوسرا دعویٰ
آٹھ رکعات تراویح کا حکم حضرت عمرؓ نے دیا تھا ۔
مالک عن محمد بن یوسف عن سائب بن یزید انہ قال امر عمر ابن الخطاب ابی ابن کعب و تمیما الدارمی ان یقوما للناس باحدیٰ عشرۃ رکعۃ (موطا امام مالک، ماجاء فی قیام رمضان)
اس سند میں موجود محمد بن یوسف کے پانچ شاگرد ہیں
امام مالک کی روایت میں حکم، دونوں صحابہ اور تعداد کا تذکرہ ہے ، رمضان کا نہیں۔
یحیٰ ابن قطان کی روایت میں لوگوں کو جمع کرنے اور گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے ، حکم، رمضان کا ذکر نہیں ہے۔
عبدالعزیز ابن محمد کی روایت میں زمانہ عمر میں گیارہ رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے ، حکم صحابہ اور رمضان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
ابن اسحاق کی روایت میں حضرت عمر کے زمانے میں بماہ رمضان تیرہ رکعات کا تذکرہ ہے۔
عبدالرزاق کی روایت میں حضرت عمر کا حکم اکیس رکعت مذکور ہے۔
لہذا تعداد میں مضطرب ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔
محمد ابن یوسف کے ساتھی یزید بن خصیفہ سے بیس رکعات کی روایت مروی ہے سنن کبریٰ للبیھقی جلد ۲ میں۔ اس سند کو امام نووی ، امام عراقی اورامام سیوطی نے صحیح قرار دیا ہے۔لہذ اس حدیث پر عمل ہی انصاف اور عقل کا تقاضا ہوگا۔