محمد یاسین جہازی
صلاح عمل کا صحیح طریقہ
صحابہ کی مقدس محفل سے مسجد نبوی گلزار بنی ہوئی ہے۔ نبی اکرم صلٰی اللہ علیہ وسلم کا ووجود باجود اس محفل کی رونق میں دوبالگی پیدا کررہا ہے ۔ نورانیت کی یہی فضا چھائی ہوئی ہے کہ اچانک ایک ایسا شخص اس بیچ آجاتے ہیں ، جن کے بال بہت کالے اور جن کا کپڑا انتہائی سفید ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ لمبے سفر سے نہیں آئے ہیں، لیکن وہ وہاں کا رہنے والابھی نہیں ہے ، کیوں کہ حاضرین میں سے کوئی بھی ان سے آشنا نہیں ہے ۔ اس کے باوجود ایک بے تکلف آشنا دوست کی طرح محفل میں آتے ہیں اور سرکاردوجہاں ﷺ کے سامنے دو زانو اس طرح بیٹھ جاتے ہیں کہ اپنے گھٹنے آں حضرت ﷺ کے گھٹنے سے ملادیتے ہیں ۔ اور اپنے ہاتھ حضور اکرم ﷺ کی رانوں پر رکھ دیتے ہیں ۔ پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع کرتے ہیں ۔ پانچ سوال کرتے ہیں ؛ لیکن سوالوں کے جواب پانے کے بعد وہ اجنبی ایک ایسا جملہ بول دیتے ہیں کہ حاضرین محو حیرت ہوجاتے ہیں کہ آخر یہ کون ہیں ، کس قسم کا آدمی ہیں کہ سوال بھی کررہے ہیں اورجواب کے صحیح ہونے پر مہر تصدیق بھی ثبت کررہے ہیں ۔ان کا پہلا سوال ہوتا ہے: یا محمد اخبرنی عن الاسلام ائے محمد ﷺ مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔نبی اکرم صلٰی اللہ علیہ و سلم جواب دیتے ہیں : اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی ذات عبادت و بندگی کے لائق نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور ماہ رمضان کے روزے رکھواور اگر حج بیت اللہ کی استطاعت رکھتے ہو تو حج کرو۔ اس جواب کی تصدیق و تصویب کے بعد دوسرا سوال کرتے ہیں کہ اخبرنی عن الایمان مجھے بتائیے کہ ایمان کیا چیز ہے؟۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کو حق جانواور ہر خیر وشر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو۔ اس جواب کی بھی تصدیق و تصویب کرتے ہیں اور تیسرا سوال پوچھتے ہیں کہ اخبرنی عن الاحسان مجھے بتائیے کہ احسان کسے کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہوتا ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، پس اگر یہ مقام (مشاہدۂ حق ) تمھیں حاصل نہ ہوتو پھر عبادت کرو اس طرح اور اس تصور کے ساتھ کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ اجنبی سلسلہ سوالات جاری رکھتے ہوئے قیامت اور اس کی نشانیوں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں اور جواب پاکر واپس ہوجاتے ہیں ۔ کچھ لمحات یوں ہی گذرجاتے ہیں ، پھر کائنات دوعالم ﷺحضرت عمرؓ سے پوچھتے ہیں کہ تمھیں پتہ ہے کہ سوال کرنے والا کون تھا۔ صحابہ کا اپنے معمول کے مطابق وہی جواب ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ حضرت جبرئیل تھے تمھاری مجلس میں اس لیے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمھارا دین سکھادیں۔
ان سوالات و جوابات میں ہمارا روئے سخن تیسرے سوال وجواب کی طرف ہے۔ اس میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جس چیز کی تعلیم دی ہے ، وہ ہماری زندگی کے لیے سب سے اہم تعلیم ہے ۔ اگر ہماری زندگی ، ہماری عبادتیں ، ہماری نمازیں، ہمارا یقین، ہمارا ایمان ، غرض ہمارا ہر ہر عمل اس تصور و فکر سے خالی ہے ، تو یقین مانیے کہ ہمارا کوئی بھی عمل بامعنی نہیں ہوسکتا، ہماری کوئی بھی عبادت لائق تحسین نہیں ہوسکتی، ہماری کوئی بھی دین کے سلسلے کی جدو جہد باوزن نہیں ہوسکتی، ہمارے کسی بھی اعمال پر ان کے برکات و ثمرات مرتب نہیں ہوسکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ نماز پڑھتے پڑھتے ہماری پیشانیاں نشان آلود ہوجاتی ہیں ؛لیکن نماز کا کوئی بھی فائدہ و ثمرہ ہماری زندگی میں نظر نہیں آتا ۔ نماز کی شان امتیازی ہے کہ ان الصلاۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر کہ نماز بیشک ہر قسم کی برائیوں اور بے حیائیوں کے لیے روکاوٹ ہے ؛ مگر ہمارا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ ہماری زندگی نماز پڑھتے پڑھتے آخری منزل میں پہنچ چکی ہے، لیکن ہماری ایک بھی نمازبرائی کے لیے مانع نہیں بنی ۔ آخر کیا وجہ ہے ؟ دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں : یا تو اعمال کے وہ برکات و ثمرات حقیقت میں ہے ہی نہیں ، جو بیان کیا گیا ہے ، صرف شوق و ذوق پیدا کرنے لیے ترغیبی و ترہیبی کلمات ہیں، یا پھر ہماری نماز اور ہمارے اعمال ،وہ اعمال اور وہ نماز ہے نہیں ، جن کے بارے میں یہ ارشادات فرمائے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اول الذکر بات اسی طرح درست نہیں ہوسکتی، جس طرح یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ دودو مل کر چار کے بجائے پانچ ہوجاتے ہیں۔ موخر الذکر بات ہی صحیح ہے کہ درحقیقت ہمارے اعمال اس درجے کے ہوتے ہی نہیں کہ وہ اعمال ہماری زندگی میں اپنے اثرات و نقوش چھوڑ جائیں۔ ان کے فوائد و ثمرات تبھی مرتب ہوسکتے ہیں، جب ہماری نماز میں ، ہمارے تمام اعمال میں احسان کی کیفیت پیدا ہوجائے ۔
احسان کے دو درجے ہیں:ایک درجہ تو یہ ہے کہ عابد عبادت اس تصور کے ساتھ کرے کہ میں اللہ کے سامنے ہوں اور اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ مقام درجۂ دوم کے عابدوں اور عارفوں کا ہے ۔ اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ عابد اس یقین کے ساتھ عبادت کرے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں ۔ یہ مشاہدۂ حق کا درجہ ہے ، جو عرفائے کاملین کا مقام ہے۔اگر ہماری عبادتیں اور ہمارے تمام معاملات احسان کی ان کیفیات سے عاری ہیں ، تو سمجھ لیجیے کہ ہمارے کسی بھی اعمال پر ان کا کوئی بھی فائدہ و ثمرہ مرتب ہونے والا نہیں ہے۔
صحابہ کی مقدس محفل سے مسجد نبوی گلزار بنی ہوئی ہے۔ نبی اکرم صلٰی اللہ علیہ وسلم کا ووجود باجود اس محفل کی رونق میں دوبالگی پیدا کررہا ہے ۔ نورانیت کی یہی فضا چھائی ہوئی ہے کہ اچانک ایک ایسا شخص اس بیچ آجاتے ہیں ، جن کے بال بہت کالے اور جن کا کپڑا انتہائی سفید ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ لمبے سفر سے نہیں آئے ہیں، لیکن وہ وہاں کا رہنے والابھی نہیں ہے ، کیوں کہ حاضرین میں سے کوئی بھی ان سے آشنا نہیں ہے ۔ اس کے باوجود ایک بے تکلف آشنا دوست کی طرح محفل میں آتے ہیں اور سرکاردوجہاں ﷺ کے سامنے دو زانو اس طرح بیٹھ جاتے ہیں کہ اپنے گھٹنے آں حضرت ﷺ کے گھٹنے سے ملادیتے ہیں ۔ اور اپنے ہاتھ حضور اکرم ﷺ کی رانوں پر رکھ دیتے ہیں ۔ پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع کرتے ہیں ۔ پانچ سوال کرتے ہیں ؛ لیکن سوالوں کے جواب پانے کے بعد وہ اجنبی ایک ایسا جملہ بول دیتے ہیں کہ حاضرین محو حیرت ہوجاتے ہیں کہ آخر یہ کون ہیں ، کس قسم کا آدمی ہیں کہ سوال بھی کررہے ہیں اورجواب کے صحیح ہونے پر مہر تصدیق بھی ثبت کررہے ہیں ۔ان کا پہلا سوال ہوتا ہے: یا محمد اخبرنی عن الاسلام ائے محمد ﷺ مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔نبی اکرم صلٰی اللہ علیہ و سلم جواب دیتے ہیں : اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی ذات عبادت و بندگی کے لائق نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور ماہ رمضان کے روزے رکھواور اگر حج بیت اللہ کی استطاعت رکھتے ہو تو حج کرو۔ اس جواب کی تصدیق و تصویب کے بعد دوسرا سوال کرتے ہیں کہ اخبرنی عن الایمان مجھے بتائیے کہ ایمان کیا چیز ہے؟۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کو حق جانواور ہر خیر وشر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو۔ اس جواب کی بھی تصدیق و تصویب کرتے ہیں اور تیسرا سوال پوچھتے ہیں کہ اخبرنی عن الاحسان مجھے بتائیے کہ احسان کسے کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہوتا ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، پس اگر یہ مقام (مشاہدۂ حق ) تمھیں حاصل نہ ہوتو پھر عبادت کرو اس طرح اور اس تصور کے ساتھ کہ وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ اجنبی سلسلہ سوالات جاری رکھتے ہوئے قیامت اور اس کی نشانیوں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں اور جواب پاکر واپس ہوجاتے ہیں ۔ کچھ لمحات یوں ہی گذرجاتے ہیں ، پھر کائنات دوعالم ﷺحضرت عمرؓ سے پوچھتے ہیں کہ تمھیں پتہ ہے کہ سوال کرنے والا کون تھا۔ صحابہ کا اپنے معمول کے مطابق وہی جواب ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ حضرت جبرئیل تھے تمھاری مجلس میں اس لیے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمھارا دین سکھادیں۔
ان سوالات و جوابات میں ہمارا روئے سخن تیسرے سوال وجواب کی طرف ہے۔ اس میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جس چیز کی تعلیم دی ہے ، وہ ہماری زندگی کے لیے سب سے اہم تعلیم ہے ۔ اگر ہماری زندگی ، ہماری عبادتیں ، ہماری نمازیں، ہمارا یقین، ہمارا ایمان ، غرض ہمارا ہر ہر عمل اس تصور و فکر سے خالی ہے ، تو یقین مانیے کہ ہمارا کوئی بھی عمل بامعنی نہیں ہوسکتا، ہماری کوئی بھی عبادت لائق تحسین نہیں ہوسکتی، ہماری کوئی بھی دین کے سلسلے کی جدو جہد باوزن نہیں ہوسکتی، ہمارے کسی بھی اعمال پر ان کے برکات و ثمرات مرتب نہیں ہوسکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ نماز پڑھتے پڑھتے ہماری پیشانیاں نشان آلود ہوجاتی ہیں ؛لیکن نماز کا کوئی بھی فائدہ و ثمرہ ہماری زندگی میں نظر نہیں آتا ۔ نماز کی شان امتیازی ہے کہ ان الصلاۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر کہ نماز بیشک ہر قسم کی برائیوں اور بے حیائیوں کے لیے روکاوٹ ہے ؛ مگر ہمارا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ ہماری زندگی نماز پڑھتے پڑھتے آخری منزل میں پہنچ چکی ہے، لیکن ہماری ایک بھی نمازبرائی کے لیے مانع نہیں بنی ۔ آخر کیا وجہ ہے ؟ دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں : یا تو اعمال کے وہ برکات و ثمرات حقیقت میں ہے ہی نہیں ، جو بیان کیا گیا ہے ، صرف شوق و ذوق پیدا کرنے لیے ترغیبی و ترہیبی کلمات ہیں، یا پھر ہماری نماز اور ہمارے اعمال ،وہ اعمال اور وہ نماز ہے نہیں ، جن کے بارے میں یہ ارشادات فرمائے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اول الذکر بات اسی طرح درست نہیں ہوسکتی، جس طرح یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ دودو مل کر چار کے بجائے پانچ ہوجاتے ہیں۔ موخر الذکر بات ہی صحیح ہے کہ درحقیقت ہمارے اعمال اس درجے کے ہوتے ہی نہیں کہ وہ اعمال ہماری زندگی میں اپنے اثرات و نقوش چھوڑ جائیں۔ ان کے فوائد و ثمرات تبھی مرتب ہوسکتے ہیں، جب ہماری نماز میں ، ہمارے تمام اعمال میں احسان کی کیفیت پیدا ہوجائے ۔
احسان کے دو درجے ہیں:ایک درجہ تو یہ ہے کہ عابد عبادت اس تصور کے ساتھ کرے کہ میں اللہ کے سامنے ہوں اور اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ مقام درجۂ دوم کے عابدوں اور عارفوں کا ہے ۔ اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ عابد اس یقین کے ساتھ عبادت کرے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں ۔ یہ مشاہدۂ حق کا درجہ ہے ، جو عرفائے کاملین کا مقام ہے۔اگر ہماری عبادتیں اور ہمارے تمام معاملات احسان کی ان کیفیات سے عاری ہیں ، تو سمجھ لیجیے کہ ہمارے کسی بھی اعمال پر ان کا کوئی بھی فائدہ و ثمرہ مرتب ہونے والا نہیں ہے۔