(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
اولاد کی تربیت کا بیان
دودھ پلانے کا بیان
جب بچہ پیدا ہو تو اس کو دو سال تک ماں کا دودھ پلائے۔ بچہ کے حق میں ماں کا دودھ سب سے زیادہ مفید ہے ۔ اگر کسی وجہ سے ماں دودھ نہ پلاسکے، تو کسی نیک مزاج صحت مند شریف عورت کا دودھ پلائے ۔ دو سال سے زیادہ دودھ پلانا درست نہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلینِ کامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن یُتِمَّ الرَّضَاعَۃَ (سورۃ البقر، آیۃ: ۲۳۳)
جن کو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنی ہو، وہ مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
لَا رِضَاعَ ا8لَّا مَا کانَ فی الحَوْلَیْنِ (رواہ دار قطنی)
دودھ پلانا تو بس دو سال ہے۔
یعنی دو سال سے زیادہ دودھ پلانا درست نہیں ۔ اس درمیان میں اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا، پینا ، اٹھنا ، بیٹھنا، پیشاب پاخانہ کرنا اپنے ہاتھ سے کپڑے پہننا سکھائے۔ اور دوسری اخلاق و عادات کی تعلیم دے ۔ اور جب لڑکا بولنے اور باتیں کرنے لگے، تو اس کو
لَا ا8لٰہَ ا8لَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اور آیت کریمہ
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ شَرِیکٌ فِي الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً (سورۃ الا8سراء آیۃ: ۱۱۱)
سکھائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ عبد المطلب کی اولاد میں جب کوئی لڑکا بولنے لگتا، تو حضور اکرم ﷺ اس کو کلمہ توحید اور پچھلی آیت بنی اسرائیل کی
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ شَرِیکٌ فِي الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً (سورۃ الا8سراء آیۃ: ۱۱۱)
سکھاتے ۔ (حصن حصین)
تعلیم کا بیان
جب لڑکا پڑھنے کے لائق ہو تو اس کو علم دین کی تعلیم دے، اس لیے کہ اشرف العلوم ہے ۔ اور اس کا سیکھنا سکھانا بقدر ضرورت ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ اس لیے اپنی اولاد کو سب سے پہلے علم دین سکھائے ۔ علم دین کی بڑی فضیلت ہے اور اس میں بڑی برکت ہے۔
حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ علم دین حاصل کرو۔ علم کا سیکھنا خدا سے ڈرنے کا موجب ہے ۔ اس کا طلب کرنا عبادت ہے ۔ علم کا تذکرہ کرنا خدا کی پاکی بیان کرنے کے ہم معنی ہے۔ علم سے بحث کرنا جہاد ہے ۔ علم کو سکھانا ایسے شخص کو جو نہ جانتا ہو، صدقہ ہے۔ علم کا ضرورت کے موقع پر خرچ کرنا ثواب ہے ۔ علم حلال اور حرام کو پہچاننے کی علامت ہے ۔ علم اہل جنت اور نیک لوگوں کے راستہ کا نشان ہے۔ علم تنہائی میں ایک بات کرنے والا رفیق ہے ۔ راحت اور مصیبت دونوں حالتوں میں رہنما ہے۔ دشمنوں کے مقابلہ کے لیے علم ایک مضبوط ہتھیارہے۔ دوستوں کے سامنے علم زینت ہے ۔ علم کی بدولت اللہ تعالیٰ پست اقوام کو بلند کرتا ہے ۔ ان کو پیشوا اور مقتدیٰ بناتا ہے ۔ لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں پست اقوام کو علم کی بدولت یہ مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے کہ ان کی رائے ہر معاملہ میں آخری رائے سمجھی جاتی ہے ۔ ملائکہ ان کے دوست بننے کی تمنا کرتے ہیں اور اپنے پیروں کو عاجزی کے ساتھ مس کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کے لیے عالم کی ہر تر و خشک چیز استغفار کرتی ہے ؛ یہاں تک کہ دریاؤں کی مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، جنگل کے درندے اور چوپائے بھی ان لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ علم دلوں کو جہالت کی موت سے نکال کر عزت کی زندگی بخشتا ہے۔ علم تاریکی میں روشنی اور چراغ کا کام دیتا ہے ۔ علم انسان کو بہترین حضرات کے مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے اور دنیا و آخرت کے بلند سے بلند مراتب پر انسان کو پہنچا دیتا ہے ۔علم کی بات میں فکر کرنا، روزہ رکھنے کے ثواب کے مانندہے ۔ اور علم کو پڑھنا پڑھانا رات کی عبادت کے مثل ہے۔ علم سے آدمی کو صلہ رحمی کا سلیقہ آجاتا ہے ۔ اور حلال و حرام کو پہچان جاتا ہے ۔ عمل علم کے تابع ہے اور علم عمل کا امام ہے۔ علم سعید اور نیک لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے ۔ بد بخت اور اشقیاء اس سے محروم رہتے ہیں ۔ (ابن عبد البر عزی)
اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں ، جو علم دین کی بزرگی اور اس کے اشرف ہونے پر روشنی ڈالتی ہیں۔ لیکن اس زمانہ میں دنہا کے حریص اپنے بچوں کو علم دین سے محروم رکھتے ہیں اور ایسے علوم میں ان کو منہمک رکھتے ہیں، جس سے دین اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں۔اس تجربہ کے بعد اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے کہا ہے کہ
یوں قتل کی اولاد سے بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
علم دین کے ساتھ اپنے بچوں کو اس پر عمل بھی کراتے جاؤ ۔ جب بچہ سات برس کی عمر کا ہوجائے، تو اس کو نماز پڑھنے کے لیے کہے۔ اور اس سے نماز پڑھائے۔ اور جب دس برس کا ہوجائے تو اس کو تاکید کے ساتھ نماز پڑھائے۔ اگر نماز پڑھنے میں سستی کرے، تو اس کو مارے ، تنبیہہ کرے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب تمھارے لڑکے سات برس کی عمر کو پہنچیں، تو ان کو نماز پڑھنے کا حکم کرو اور جب دس برس کا ہوجائے تو مار کر نماز پڑھاؤ۔ (ابو داود)
مقصد یہ ہے کہ نری تعلیم نہ ہو؛ بلکہ اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی ہونی چاہیے ۔ کالجوں کے لڑکے کے بگڑنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اچھی تربیت کے بجائے بری تربیت ہوتی ہے ؛ ورنہ نفس تعلیم میں اتنی خامی نہیں ہے۔ رفاہ المسلمین میں لکھا ہے کہ جب اولاد پیدا ہو تو اولاد کی پرورش اور اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانا ، کپڑے پہنانا اور قضائے حوائج یعنی پاخانہ پیشاب کروانہ اور شفقت و محبت سے تا حد بلوغ پالنا ماں کے ذمہ ہے۔ اور دودھ پلانا بھی ماں کا حق ہے۔ اگر وہ قبول نہ کرے تو باپ کو چاہیے کہ کسی اور عورت مسلمان نیک بخت پاک دامن سے دودھ پلوائے؛ لیکن ان سب چیزوں کا یعنی کھلانے پلانے کا اور دوا، لباس و پوشاک اور دودھ پلانے کا خرچ اور اسباب موجود کردینا باپ کے ذمہ ہے۔ اور اولاد کا اچھا نام رکھنا اور عقیقہ اور ختنہ کرانا اور کلام اللہ وغیرہ دینی علوم پڑھانا اور تربیت و تادیب اور نماز و روزوں کی تاکید کرنا اور کتاب اللہ اور تیر اندازی اور شناوری (پانی میں تیرنا) سکھانا اور جس کتاب میں عشق کی باتیں ہوں یا عورتوں کے حسن و خوبی و جوانی کے قصے ہوں ، اس کے پڑھنے سے روکنا اور جو استاد ادیب کہ ان کو شعرو شاعری سکھائے ، اس کی صحبت سے بچانا، آخرش جب سولہ سترہ برس کا ہو تو کسی نیک بخت بھلی مانس سے نکاح کرادینا ؛ یہ سب باتیں باپ پر واجب ہیں ۔ باپ نہ ہوتو دادا پر۔ وہ بھی نہ ہوتوبموجب ترتیب عصبات کے اور وارثوں پر واجب ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
من وُلِدَ لہ ولدٌ فلیُحسن اسمَہ وأدبَہ فإذا بلغ فلیُزوجہ فإن بلغ ولم یزوجہ فأصاب إثما فإنما إثمہ علیٰ أبیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب الولی فی النکاح استئذان المرأۃ الفصل الأول)
جس کو اولاد ہو اس کو چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے ۔ اس کی اچھی تربیت کرے۔ پھر جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کرادے، پس اگر وہ بالغ ہوا اور اس کا نکاح نہیں کردیا اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا ، تو اس کا گناہ اس کے باپ کے اوپر ہے۔
ختنہ کا بیان
ختنہ کرنا امام اعظم، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک سنت ہے اور شعار اسلام سے ہے ، یہاں تک کہ اگر کسی شہر کے تمام لوگ متفق ہوکر ختنہ چھوڑ دیں، تو حاکم وقت کو ان کے خلاف جہاد کرنا چاہیے ، جیسا کہ دوسری سنتوں کے ترک کرنے پر کرتا ہے۔
مسند امام احمد ابن حنبل میں لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ ختنہ کرنا مردوں کے لیے سنت ہے اور عورتوں کے لیے موجب کرامت۔ خزانۃ الفتاویٰ میں شرعۃ الاسلام سے منقول ہے کہ مردوں کا ختنہ کرنا مسنون ہے۔ اور عورتوں کے ختنہ کرنے میں اختلاف ہے۔ ادب القاضی میں مکروہ اور بعض علماء نے واجب اور بعض نے فرض لکھا ہے ۔ اور عین العلم میں لکھا ہے کہ عورتوں کا ختنہ کرنا مسنون ہے ، جیسا کہ حدیث میں آیا کہ عورتوں کا ختنہ کرنا موجب کرامت ہے کہ ختنہ کرنے سے ان کے چہرے میں تازگی اور خوب صورتی آتی ہے ۔ اور شہوت سست ہوتی ہے اور مجامعت میں زیادہ لذت آتی ہے ۔ اور خاوند اس کو بہت چاہتا ہے۔
ختنہ کا وقت
ختنہ کے لیے کوئی وقت متعین نہیں؛ البتہ بلوغ سے پہلے ختنہ ہوجانا چاہیے، اس لیے کہ بلوغت کے بعد کشف عورت جائز نہیں ۔ اور سنت کے ادا کرنے کے لیے فرض کا ترک کرنا کسی طرح درست نہیں ۔ چنانچہ قاضی خاں میں لکھا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ کو اس کے وقت کے تقرر کا کوئی علم نہیں۔ اور نہ کوئی دلیل قطعی اس کے تعیین پر قائم ہے۔ اور اس بارے میں صاحبین سے بھی کچھ پایہ ثبوت تو نہیں پہنچتا۔ اور شمس الائمہ حلوائی فرماتے ہیں کہ بالغ ہونے تک جس وقت لڑکے کو سختی اور درد کے برداشت کی طاقت حاصل ہو ، اس وقت اس کا ختنہ کردینا چاہیے۔
اور مجمع البرکات میں کنز العباد سے نقل کیا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ختنہ کرنے کا کوئی وقت متعین نہیں ، لیکن لڑکے کا حال دریافت کرے۔ اگر اس میں دکھ تکلیف اٹھانے کی طاقت ہے، تو تاخیر نہ کرے ۔ اور اگر کمزور ہے تو طاقت آنے تک انتظار کرے اور یہی بات سب سے بہتر ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ختنہ کا اتفاق اسی برس کی عمر میں ہوا۔ (بخاری و مسلم)
اور تفسیر زاہدی میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ختنہ اسی برس کی عمر میں ہوا ہے ۔اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے سے ساتویں دن اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تیرہ برس کی عمر میں ہوا۔ پس یہ سنت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ان کی اولاد میں جاری ہے کہ تیرہ برس کی عمر میں ختنہ کرتے ہیں ۔ (شرح السعادۃ)
کتنی کھال کٹنے سے ختنہ ہوتا ہے؟
قاضی خاں می لکھا ہے کہ جس شخص کا ختنہ ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ جس قدر کھال کاٹنی سنت ہے ، اس سے کم کٹی ، پس اگر آدھے سے زیادہ کٹی تو اس کو مختون (ختنہ کیا ہوا) کا حکم دیا جائے گا۔ اور جو آدھے سے کم کٹی تو اس کو مختون کا حکم نہ ہوگا۔ اور جس لڑکے کا ابھی ختنہ نہیں ہوا اور اس کی کھال حشفہ (سپاری) سے اوپر کو چڑھ گئی، جس سے حشفہ نمودار ہے ، یعنی دیکھنے میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ختنہ ہوچکا ہے اور اب اس کا ختنہ کرنا چاہتے ہیں تو بغیر ایذااور تکلیف کے اس کی کھال نیچے نہیں آتی ہے ، تو اس صورت میں اگر ماہر ختان (ختنہ کرنے والا) کہہ دے کہ اس کا ختنہ کرنے میں جس قدر کھال کاٹنا منظور ہے ، اس سے زیادہ کٹ جائے گی، تو اس صورت میں اس کا ختنہ نہ کرنا چاہیے۔ اور ختنہ کی سنت اس سے ساقط ہوجائے گی، جیساکہ حضور اکرم ﷺ دنیا میں مختون تشریف لائے تھے ۔ ایسوں کی پان لپیٹ کر کاٹنا محض لغو حرکت ہے۔
بالغ کا ختنہ
جو شخص ختنہ ہونے سے پہلے بالغ ہوگیا اور ختنہ کی تکلیف سہنے کی طاقت رکھتا ہے ، تو متقدمین حنفیہ اس کے ختنہ کرنے کو منع کرتے ہیں، اس لیے کہ کشف عورت جائز نہیں۔ اور سنت کے ادا کرنے کے لیے حرام کا ارتکاب نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور عالم گیری میں لکھا ہے کہ جو شخص ختنہ ہونے سے پہلے بالغ ہوگیا، تو اس شخص کو اپنا ختنہ آپ کرنا چاہیے، اگر وہ ایسا کرسکتا ہو؛ ورنہ ایک باندی ختنہ کرنے والی خریدے اور اس کا ختنہ کرے، یا ختنہ کرنے والی عورت سے نکاح کرے اور وہ اس کا ختنہ کرے۔
خنثیٰ مشکل کا ختنہ
اسی طرح اگر کوئی خنثیٰ مشکل ہے، یعنی اس میں مرد اور عورت ہونے کی دونوں علامتیں موجود ہیں، اور ختنہ سے پہلے بالغ ہوجائے تو وہ تین بالا صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرے۔ بالغ خنثیٰ مشکل کا ختنہ مرد کو کرنا مکروہ ہے ، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ عورت ہو اور عورت کو کرنا بھی مکروہ ہے ، کیوں کہ ممکن ہے کہ مرد ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ کشف عورت حرام ہے، خواہ مرد کے سامنے مرد ہو یا عورت کے سامنے۔ اور اگر نابالغ ہے تو اس کا ختنہ مرد کو کرنا درست ہے ، اس لیے کہ اگر وہ حقیقت میں لڑکا ہے تو مرد کو لڑکے کا ختنہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور اگر لڑکی ہے تو پھر بھی کچھ قباحت نہیں کہ ابھی غیر مشتہات ہے اور حرمت کا سبب شہوت ہی ہے۔ (مطالب المومنین)
بڈھے کا ختنہ
ایسے بڈھے کا جو ختنہ کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا ہے، علاوہ ازیں کہ وہ ایسی ہی حالت میں اسلام قبول کیا ہو، یا وہ مسلمان بغیر ختنہ کے ایسی حالت میں پہنچ گیا ہو اور ماہر حجام اس کی تصدیق کردے، تو اس کا ختنہ نہ کیا جائے۔
ختنہ کا دن
سوموار کے دن دو پہر کے بعد ختنہ کرنا مسنون ہے اور اتوار کو مکروہ۔ (جواہر الفتاویٰ)
ختنہ کی دعوت
پیغمبر ﷺ کے مبارک زمانہ میں بغیر دعوت ختنہ ہوجاتا تھا۔ چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان ابن ابی العاص کو کسی نے ختنہ میں بلایا ۔ آپؓ نے تشریف لے جانے سے انکار کردیا۔ آپ سے اس کی وجہ دیافت کی گئی ۔ آپؓ نے فرمایا کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہ جاتے تھے اور نہ اس کے لیے بلائے جاتے تھے (مسند احمد) ۔
البتہ اگر ادائے شکر کے طور پر ختنہ کے بعد اسی دن یا اس کے بعد کسی دن دعوت دی جائے یا کھانا یا شیرینی تقسیم کی جائے تو اس کی گنجائش ہے ۔ چنانچہ شیخ عبد الحق ؒ نے مشکوٰۃ کی عربی شرح میں لکھا ہے کہ لڑکوں کے ختنہ کے بعد دعوت کرنا اور کھانا بانٹنا مستحب ہے ۔ تفسیر فتح العزیز میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ سیکھنے کے بعد ادائے شکر نعمت کی نیت سے ایک اونٹ ذبح کیا اور دوستوں یاروں کو کھلایا۔