31 Mar 2018

پریزنر؟ ویکیشنر؟لرنر؟۔۔۔کیا ہیں آپ؟


محمد یاسین قاسمی جہازی

پریزنر؟ ویکیشنر؟لرنر؟۔۔۔کیا ہیں آپ؟
انسانی زندگی کا کوئی بھی عمل مقصدیت سے عاری نہیں ہوتا، کیوں کہ ایسا کرنا صاحب عقل و شعور مخلوق کے لیے ننگ و عار کا باعث ہوتا ہے۔ 
مشاہدہ ہے کہ ہم چھوٹا سے چھوٹا کام بھی مقصد کے بغیر نہیں کرتے۔ حصول رزق کے لیے تگ و دو ، آفس کے لیے بھاگ دوڑ،دنیا یا آخرت کو بنانے کے لیے کوئی بھی جدوجہد ؛ سب کے سب بامقصد ہوتے ہیں؛ لیکن ہماری زندگی کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ اس حوالے سے کیا ہم نے کبھی غور کیا ؟ یہ تحریر اسی پہلو پر غور و فکر کی دعوت کا اشاریہ ہے۔ 
اس دنیائے رنگ و بو میں آنکھیں کھولنے والوں کے لیے زندگی ، بحیثت زندگی تین مقاصد میں سے کسی ایک مقصدکے لیے ذریعہ ہوتی ہے۔ ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ ہماری اپنی زندگی کے وجود میں چوں کہ ہمارا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے۔ بس فطرت کے قانون کے تحت ہم دنیا میں بلا اختیار آگئے ہیں۔ جب آگئے ہیں اور زندگی ہمارے اوپر مسلط کردی گئی ہے،تو ہمیں ایک قیدی کی طرح زندگی کو ڈھونا ہی پڑے گا۔ اور اس لیے ہم ڈھو رہے ہیں۔ شکیل بدایونی کہتے ہیں کہ ؂
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا
گویا ہم اس زندگی کے ہاتھوں زندہ رہنے کے لیے مجبور ہیں۔ ہم زندگی کی قید میں قیدی ہیں۔ جب تک قید کا زمانہ چلتا رہے گا، ہم بھی ایک پریزنر (قیدی) کی طرح زندگی گذارتے رہیں گے۔ اور یہ آپ بھلی بھانتی جانتے ہیں کہ ایک قیدی کا قیدی زندگی گذارنا کوئی بامقصد زندگی نہیں ہوتا۔اس لیے قید کی ساری زندگی برباد زندگی ہوتی ہے ۔اور زندگی کی عمر میں اس کا شمار ایک ضائع زندگی کے طور پر ہوتا ہے۔ 
زندگی کے تعلق سے بعض لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ یہ زندگی ایک ویکیشن ہے، موقع ہے۔ ایک آخری موقع ، جس کے بعد زندگی کی شکل میں دوبارہ موقع نہیں ملے گا، اس لیے اس زندگی میں جتنا ممکن ہو، موج مستی کرلو۔ ایسے لوگوں کے معراج فکر بس عیش کوشی تک محدود رہتا ہے۔اور محض اسی کا حصول ان کی زندگی کا آخری مقصد ۔ 
تیسری قسم کے لوگ بھی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں، جن کا نظریہ حیات ، درج بالا دونوں نظریوں سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ماننا ہے کہ زندگی منزل نہیں؛ بلکہ ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ ہماری حیات اس جہان رنگ و بو تک ہی محدود نہیں؛ بلکہ یہ صرف خاص مقصد کیتکمیل کے لیے مقدمہ ہے۔ اس مقصد کی تحصیل و تعیین کے لیے یہ کائنات اور کائنات کی تمام بوقلمونیاں رچائی گئیں ہیں۔اونچے پربت، نیلے ساگر،بہتے بادل، گرتے جھرنے، رنگ برنگے پھولوں کی وادی،غرض کائنات کے کسی بھی منظر میں غور وفکر کرتے ہیں ، تو ہماری عقل نارسا ان کے تغیرات و تنوعات کو دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھتی ہے کہ سبحانک ربنا ، ماخلقت ھذا باطلا۔ پھر یہی احساس و شعور ہمیں اپنا مقصد حیات بتاتے ہوئے سکھلاتا ہے کہ ہم اس دنیا میں بے کار پید انہیں کیے گئے ہیں؛ بلکہ ہمارا مقصد انتہائی اعلیٰ و ارفع ہے۔ ہماری تخلیق اس لیے ہوئی ہے کہ خالق کائنات کے منشا کو سیکھ ، جان کر اس کی خوشنودی اور رضا کے حصول میں اس زندگی کو وقف کردیں۔ گویا ہمارا وجود ایک متعلم کی حیثیت رکھتا ہے، یہاں ہم ایک لرنر ہیں۔ خالق کائنات کے ثبوت وشواہدات کو دیکھ دیکھ کر ہم سیکھتے ہیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمارا وجود کس چیز کے لیے وقف ہونا چاہیے۔
زندگی کے ان تینوں مقاصد میں آپ کی زندگی کس مقصد کے لیے وقف ہے ، یہ آپ کو طے کرنا ہے۔ اگر آپ قیدی ہیں، تو زندگی آپ کے لیے عذاب کے سوا کچھ اورنہیں ہوسکتی۔ اگر آپ ویکیشنر ہیں، تو آپ کا وجود صرف اسی دنیا کے اندر باعث رشک ہوسکتا ہے ۔ آگے کے مراحل کے لیے آپ کی ناکامی اور خسارہ متعین ہے۔ لیکن اگر آپ لرنر ہیں اوروسعت آفاق میں پھیلی مناظر قدرت سے وحدانیت کا درس لیتے ہیں، تو آپ نے زندگی کے حقیقی مقصد کو پالیا ہے اوردرحقیقت یہی زندگی بامعنی اور کامیاب زندگی ہے۔
آئیے ہم ایک مثال سے خود کا تجزیہ کرتے ہیں کہ ہماری زندگی کس مقصد کے تحت گذر رہی ہے۔
جمعہ کی فضیلت میں یہ آیا ہے کہ جو سب سے پہلے مسجد پہنچتا ہے، اسے ایک اونٹ قربان کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے۔ پھر اس کے بعد میں آنے والے کے لیے گائے، پھر دنبہ، پھر مرغا، پھر انڈے کا ثواب ملتا ہے۔ پھر جب خطبہ شروع ہوجاتا ہے، تو فرشتے ثواب کا رجسٹر بند کرکے خطبہ سننے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ 
اس فضیلت کے پیش نظر جمعہ میں حاضری کا وقت ہماری زندگی کی قسم متعین کردیتا ہے۔ کچھ تو اس طرح آتے ہیں، گویا قیدی کی طرح آئے نہیں؛ بلکہ زبردستی لائے گئے ہیں۔ جماعت تیار ہونے کے بعد آتے ہیں اور سلام پھیرتے ہی بھاگ جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے آفس سے یا اپنے کام سے آزاد ہونے کا بہانہ مل جاتا ہے ۔ اور اس موقع کو ویکیشن سمجھتے ہوئے جمعہ کے ذکرو اذکار میں وقت لگانے کے بجائے دوست و احباب سے ملنے ملانے میں لگ جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اول وقت میں آتے ہیں اور جمعہ کے سارے ذکر و اذکار کی تکمیل کے بعد ہی لوٹتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی زندگی کی حقیقت اور مقصد حیات سے بہ خوبی واقف ہوتے ہیں۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کا اصل کام اور بنیادی کردار کیا ہونا چاہیے، جس کی تکمیل کے لیے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اس میں صرف کرتے ہیں اور یہی دونوں جہان میں کامیابی کا وسیلہ ہے۔
اس اصول و امثال کی روشنی میں خود کا جائزہ لیجیے کہ آپ زندگی کے ہاتھوں کیا ہیں: پریزنر؟۔۔۔ ویکیشنر؟۔۔۔ لرنر؟۔۔۔۔

قسط نمبر (4) اولاد کی تربیت کا بیان


(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
اولاد کی تربیت کا بیان
دودھ پلانے کا بیان
جب بچہ پیدا ہو تو اس کو دو سال تک ماں کا دودھ پلائے۔ بچہ کے حق میں ماں کا دودھ سب سے زیادہ مفید ہے ۔ اگر کسی وجہ سے ماں دودھ نہ پلاسکے، تو کسی نیک مزاج صحت مند شریف عورت کا دودھ پلائے ۔ دو سال سے زیادہ دودھ پلانا درست نہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلینِ کامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن یُتِمَّ الرَّضَاعَۃَ (سورۃ البقر، آیۃ: ۲۳۳)
جن کو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنی ہو، وہ مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
لَا رِضَاعَ ا8لَّا مَا کانَ فی الحَوْلَیْنِ (رواہ دار قطنی)
دودھ پلانا تو بس دو سال ہے۔ 
یعنی دو سال سے زیادہ دودھ پلانا درست نہیں ۔ اس درمیان میں اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا، پینا ، اٹھنا ، بیٹھنا، پیشاب پاخانہ کرنا اپنے ہاتھ سے کپڑے پہننا سکھائے۔ اور دوسری اخلاق و عادات کی تعلیم دے ۔ اور جب لڑکا بولنے اور باتیں کرنے لگے، تو اس کو 
لَا ا8لٰہَ ا8لَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ 
اور آیت کریمہ 
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ شَرِیکٌ فِي الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً (سورۃ الا8سراء آیۃ: ۱۱۱)
سکھائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ عبد المطلب کی اولاد میں جب کوئی لڑکا بولنے لگتا، تو حضور اکرم ﷺ اس کو کلمہ توحید اور پچھلی آیت بنی اسرائیل کی 
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ شَرِیکٌ فِي الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً (سورۃ الا8سراء آیۃ: ۱۱۱)
سکھاتے ۔ (حصن حصین)
تعلیم کا بیان
جب لڑکا پڑھنے کے لائق ہو تو اس کو علم دین کی تعلیم دے، اس لیے کہ اشرف العلوم ہے ۔ اور اس کا سیکھنا سکھانا بقدر ضرورت ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ اس لیے اپنی اولاد کو سب سے پہلے علم دین سکھائے ۔ علم دین کی بڑی فضیلت ہے اور اس میں بڑی برکت ہے۔ 
حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ علم دین حاصل کرو۔ علم کا سیکھنا خدا سے ڈرنے کا موجب ہے ۔ اس کا طلب کرنا عبادت ہے ۔ علم کا تذکرہ کرنا خدا کی پاکی بیان کرنے کے ہم معنی ہے۔ علم سے بحث کرنا جہاد ہے ۔ علم کو سکھانا ایسے شخص کو جو نہ جانتا ہو، صدقہ ہے۔ علم کا ضرورت کے موقع پر خرچ کرنا ثواب ہے ۔ علم حلال اور حرام کو پہچاننے کی علامت ہے ۔ علم اہل جنت اور نیک لوگوں کے راستہ کا نشان ہے۔ علم تنہائی میں ایک بات کرنے والا رفیق ہے ۔ راحت اور مصیبت دونوں حالتوں میں رہنما ہے۔ دشمنوں کے مقابلہ کے لیے علم ایک مضبوط ہتھیارہے۔ دوستوں کے سامنے علم زینت ہے ۔ علم کی بدولت اللہ تعالیٰ پست اقوام کو بلند کرتا ہے ۔ ان کو پیشوا اور مقتدیٰ بناتا ہے ۔ لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں پست اقوام کو علم کی بدولت یہ مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے کہ ان کی رائے ہر معاملہ میں آخری رائے سمجھی جاتی ہے ۔ ملائکہ ان کے دوست بننے کی تمنا کرتے ہیں اور اپنے پیروں کو عاجزی کے ساتھ مس کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کے لیے عالم کی ہر تر و خشک چیز استغفار کرتی ہے ؛ یہاں تک کہ دریاؤں کی مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، جنگل کے درندے اور چوپائے بھی ان لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ علم دلوں کو جہالت کی موت سے نکال کر عزت کی زندگی بخشتا ہے۔ علم تاریکی میں روشنی اور چراغ کا کام دیتا ہے ۔ علم انسان کو بہترین حضرات کے مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے اور دنیا و آخرت کے بلند سے بلند مراتب پر انسان کو پہنچا دیتا ہے ۔علم کی بات میں فکر کرنا، روزہ رکھنے کے ثواب کے مانندہے ۔ اور علم کو پڑھنا پڑھانا رات کی عبادت کے مثل ہے۔ علم سے آدمی کو صلہ رحمی کا سلیقہ آجاتا ہے ۔ اور حلال و حرام کو پہچان جاتا ہے ۔ عمل علم کے تابع ہے اور علم عمل کا امام ہے۔ علم سعید اور نیک لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے ۔ بد بخت اور اشقیاء اس سے محروم رہتے ہیں ۔ (ابن عبد البر عزی)
اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں ، جو علم دین کی بزرگی اور اس کے اشرف ہونے پر روشنی ڈالتی ہیں۔ لیکن اس زمانہ میں دنہا کے حریص اپنے بچوں کو علم دین سے محروم رکھتے ہیں اور ایسے علوم میں ان کو منہمک رکھتے ہیں، جس سے دین اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں۔اس تجربہ کے بعد اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے کہا ہے کہ ؂
یوں قتل کی اولاد سے بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
علم دین کے ساتھ اپنے بچوں کو اس پر عمل بھی کراتے جاؤ ۔ جب بچہ سات برس کی عمر کا ہوجائے، تو اس کو نماز پڑھنے کے لیے کہے۔ اور اس سے نماز پڑھائے۔ اور جب دس برس کا ہوجائے تو اس کو تاکید کے ساتھ نماز پڑھائے۔ اگر نماز پڑھنے میں سستی کرے، تو اس کو مارے ، تنبیہہ کرے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب تمھارے لڑکے سات برس کی عمر کو پہنچیں، تو ان کو نماز پڑھنے کا حکم کرو اور جب دس برس کا ہوجائے تو مار کر نماز پڑھاؤ۔ (ابو داود)
مقصد یہ ہے کہ نری تعلیم نہ ہو؛ بلکہ اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی ہونی چاہیے ۔ کالجوں کے لڑکے کے بگڑنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اچھی تربیت کے بجائے بری تربیت ہوتی ہے ؛ ورنہ نفس تعلیم میں اتنی خامی نہیں ہے۔ رفاہ المسلمین میں لکھا ہے کہ جب اولاد پیدا ہو تو اولاد کی پرورش اور اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانا ، کپڑے پہنانا اور قضائے حوائج یعنی پاخانہ پیشاب کروانہ اور شفقت و محبت سے تا حد بلوغ پالنا ماں کے ذمہ ہے۔ اور دودھ پلانا بھی ماں کا حق ہے۔ اگر وہ قبول نہ کرے تو باپ کو چاہیے کہ کسی اور عورت مسلمان نیک بخت پاک دامن سے دودھ پلوائے؛ لیکن ان سب چیزوں کا یعنی کھلانے پلانے کا اور دوا، لباس و پوشاک اور دودھ پلانے کا خرچ اور اسباب موجود کردینا باپ کے ذمہ ہے۔ اور اولاد کا اچھا نام رکھنا اور عقیقہ اور ختنہ کرانا اور کلام اللہ وغیرہ دینی علوم پڑھانا اور تربیت و تادیب اور نماز و روزوں کی تاکید کرنا اور کتاب اللہ اور تیر اندازی اور شناوری (پانی میں تیرنا) سکھانا اور جس کتاب میں عشق کی باتیں ہوں یا عورتوں کے حسن و خوبی و جوانی کے قصے ہوں ، اس کے پڑھنے سے روکنا اور جو استاد ادیب کہ ان کو شعرو شاعری سکھائے ، اس کی صحبت سے بچانا، آخرش جب سولہ سترہ برس کا ہو تو کسی نیک بخت بھلی مانس سے نکاح کرادینا ؛ یہ سب باتیں باپ پر واجب ہیں ۔ باپ نہ ہوتو دادا پر۔ وہ بھی نہ ہوتوبموجب ترتیب عصبات کے اور وارثوں پر واجب ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ 
من وُلِدَ لہ ولدٌ فلیُحسن اسمَہ وأدبَہ فإذا بلغ فلیُزوجہ فإن بلغ ولم یزوجہ فأصاب إثما فإنما إثمہ علیٰ أبیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب الولی فی النکاح استئذان المرأۃ الفصل الأول) 
جس کو اولاد ہو اس کو چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے ۔ اس کی اچھی تربیت کرے۔ پھر جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کرادے، پس اگر وہ بالغ ہوا اور اس کا نکاح نہیں کردیا اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا ، تو اس کا گناہ اس کے باپ کے اوپر ہے۔
ختنہ کا بیان
ختنہ کرنا امام اعظم، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک سنت ہے اور شعار اسلام سے ہے ، یہاں تک کہ اگر کسی شہر کے تمام لوگ متفق ہوکر ختنہ چھوڑ دیں، تو حاکم وقت کو ان کے خلاف جہاد کرنا چاہیے ، جیسا کہ دوسری سنتوں کے ترک کرنے پر کرتا ہے۔ 
مسند امام احمد ابن حنبل میں لکھا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ ختنہ کرنا مردوں کے لیے سنت ہے اور عورتوں کے لیے موجب کرامت۔ خزانۃ الفتاویٰ میں شرعۃ الاسلام سے منقول ہے کہ مردوں کا ختنہ کرنا مسنون ہے۔ اور عورتوں کے ختنہ کرنے میں اختلاف ہے۔ ادب القاضی میں مکروہ اور بعض علماء نے واجب اور بعض نے فرض لکھا ہے ۔ اور عین العلم میں لکھا ہے کہ عورتوں کا ختنہ کرنا مسنون ہے ، جیسا کہ حدیث میں آیا کہ عورتوں کا ختنہ کرنا موجب کرامت ہے کہ ختنہ کرنے سے ان کے چہرے میں تازگی اور خوب صورتی آتی ہے ۔ اور شہوت سست ہوتی ہے اور مجامعت میں زیادہ لذت آتی ہے ۔ اور خاوند اس کو بہت چاہتا ہے۔
ختنہ کا وقت
ختنہ کے لیے کوئی وقت متعین نہیں؛ البتہ بلوغ سے پہلے ختنہ ہوجانا چاہیے، اس لیے کہ بلوغت کے بعد کشف عورت جائز نہیں ۔ اور سنت کے ادا کرنے کے لیے فرض کا ترک کرنا کسی طرح درست نہیں ۔ چنانچہ قاضی خاں میں لکھا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ کو اس کے وقت کے تقرر کا کوئی علم نہیں۔ اور نہ کوئی دلیل قطعی اس کے تعیین پر قائم ہے۔ اور اس بارے میں صاحبین سے بھی کچھ پایہ ثبوت تو نہیں پہنچتا۔ اور شمس الائمہ حلوائی فرماتے ہیں کہ بالغ ہونے تک جس وقت لڑکے کو سختی اور درد کے برداشت کی طاقت حاصل ہو ، اس وقت اس کا ختنہ کردینا چاہیے۔
اور مجمع البرکات میں کنز العباد سے نقل کیا ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ختنہ کرنے کا کوئی وقت متعین نہیں ، لیکن لڑکے کا حال دریافت کرے۔ اگر اس میں دکھ تکلیف اٹھانے کی طاقت ہے، تو تاخیر نہ کرے ۔ اور اگر کمزور ہے تو طاقت آنے تک انتظار کرے اور یہی بات سب سے بہتر ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ختنہ کا اتفاق اسی برس کی عمر میں ہوا۔ (بخاری و مسلم)
اور تفسیر زاہدی میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ختنہ اسی برس کی عمر میں ہوا ہے ۔اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے سے ساتویں دن اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تیرہ برس کی عمر میں ہوا۔ پس یہ سنت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ان کی اولاد میں جاری ہے کہ تیرہ برس کی عمر میں ختنہ کرتے ہیں ۔ (شرح السعادۃ)
کتنی کھال کٹنے سے ختنہ ہوتا ہے؟
قاضی خاں می لکھا ہے کہ جس شخص کا ختنہ ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ جس قدر کھال کاٹنی سنت ہے ، اس سے کم کٹی ، پس اگر آدھے سے زیادہ کٹی تو اس کو مختون (ختنہ کیا ہوا) کا حکم دیا جائے گا۔ اور جو آدھے سے کم کٹی تو اس کو مختون کا حکم نہ ہوگا۔ اور جس لڑکے کا ابھی ختنہ نہیں ہوا اور اس کی کھال حشفہ (سپاری) سے اوپر کو چڑھ گئی، جس سے حشفہ نمودار ہے ، یعنی دیکھنے میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ختنہ ہوچکا ہے اور اب اس کا ختنہ کرنا چاہتے ہیں تو بغیر ایذااور تکلیف کے اس کی کھال نیچے نہیں آتی ہے ، تو اس صورت میں اگر ماہر ختان (ختنہ کرنے والا) کہہ دے کہ اس کا ختنہ کرنے میں جس قدر کھال کاٹنا منظور ہے ، اس سے زیادہ کٹ جائے گی، تو اس صورت میں اس کا ختنہ نہ کرنا چاہیے۔ اور ختنہ کی سنت اس سے ساقط ہوجائے گی، جیساکہ حضور اکرم ﷺ دنیا میں مختون تشریف لائے تھے ۔ ایسوں کی پان لپیٹ کر کاٹنا محض لغو حرکت ہے۔
بالغ کا ختنہ
جو شخص ختنہ ہونے سے پہلے بالغ ہوگیا اور ختنہ کی تکلیف سہنے کی طاقت رکھتا ہے ، تو متقدمین حنفیہ اس کے ختنہ کرنے کو منع کرتے ہیں، اس لیے کہ کشف عورت جائز نہیں۔ اور سنت کے ادا کرنے کے لیے حرام کا ارتکاب نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور عالم گیری میں لکھا ہے کہ جو شخص ختنہ ہونے سے پہلے بالغ ہوگیا، تو اس شخص کو اپنا ختنہ آپ کرنا چاہیے، اگر وہ ایسا کرسکتا ہو؛ ورنہ ایک باندی ختنہ کرنے والی خریدے اور اس کا ختنہ کرے، یا ختنہ کرنے والی عورت سے نکاح کرے اور وہ اس کا ختنہ کرے۔
خنثیٰ مشکل کا ختنہ
اسی طرح اگر کوئی خنثیٰ مشکل ہے، یعنی اس میں مرد اور عورت ہونے کی دونوں علامتیں موجود ہیں، اور ختنہ سے پہلے بالغ ہوجائے تو وہ تین بالا صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرے۔ بالغ خنثیٰ مشکل کا ختنہ مرد کو کرنا مکروہ ہے ، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ عورت ہو اور عورت کو کرنا بھی مکروہ ہے ، کیوں کہ ممکن ہے کہ مرد ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ کشف عورت حرام ہے، خواہ مرد کے سامنے مرد ہو یا عورت کے سامنے۔ اور اگر نابالغ ہے تو اس کا ختنہ مرد کو کرنا درست ہے ، اس لیے کہ اگر وہ حقیقت میں لڑکا ہے تو مرد کو لڑکے کا ختنہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور اگر لڑکی ہے تو پھر بھی کچھ قباحت نہیں کہ ابھی غیر مشتہات ہے اور حرمت کا سبب شہوت ہی ہے۔ (مطالب المومنین)
بڈھے کا ختنہ
ایسے بڈھے کا جو ختنہ کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا ہے، علاوہ ازیں کہ وہ ایسی ہی حالت میں اسلام قبول کیا ہو، یا وہ مسلمان بغیر ختنہ کے ایسی حالت میں پہنچ گیا ہو اور ماہر حجام اس کی تصدیق کردے، تو اس کا ختنہ نہ کیا جائے۔
ختنہ کا دن
سوموار کے دن دو پہر کے بعد ختنہ کرنا مسنون ہے اور اتوار کو مکروہ۔ (جواہر الفتاویٰ)
ختنہ کی دعوت
پیغمبر ﷺ کے مبارک زمانہ میں بغیر دعوت ختنہ ہوجاتا تھا۔ چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان ابن ابی العاص کو کسی نے ختنہ میں بلایا ۔ آپؓ نے تشریف لے جانے سے انکار کردیا۔ آپ سے اس کی وجہ دیافت کی گئی ۔ آپؓ نے فرمایا کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہ جاتے تھے اور نہ اس کے لیے بلائے جاتے تھے (مسند احمد) ۔ 
البتہ اگر ادائے شکر کے طور پر ختنہ کے بعد اسی دن یا اس کے بعد کسی دن دعوت دی جائے یا کھانا یا شیرینی تقسیم کی جائے تو اس کی گنجائش ہے ۔ چنانچہ شیخ عبد الحق ؒ نے مشکوٰۃ کی عربی شرح میں لکھا ہے کہ لڑکوں کے ختنہ کے بعد دعوت کرنا اور کھانا بانٹنا مستحب ہے ۔ تفسیر فتح العزیز میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ سیکھنے کے بعد ادائے شکر نعمت کی نیت سے ایک اونٹ ذبح کیا اور دوستوں یاروں کو کھلایا۔

30 Mar 2018

جہاد

جہاد
حامدا ومصلیا اما بعد۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
معزز سامعین ،لائق صد احترام حاضرین! جب ہم اپنی تیرہ سوسالہ تاب ناک ماضی کے اوراق کو پلٹتے ہیں ، گذری ہوئی تیرہ صدیوں کے جھرونکوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں اور اس عہدِرفتہ کے شب و روز کا موجودہ صدی کے لیل و نہا رسے موازنہ کرتے ہیں ، تو یہ بات ہمیں خون کے آنسو رلانے لگتی ہے کہ کل تیرہ سو سال تک اس فرش گیتی پر ہماری عظمت و شوکت کا کیا عالم تھا اور آج اپنی ذلت و نکبت کا کیا حال ہے،کل ایک ہزار برس تک اس روئے زمین پر ہمارے رعب و دبدبہ کی کیا شان تھی اور آج اپنے خوف و ہراس کی کیا حالت ہے ، کل تک آفاق کی وسعتوں میں ہماری خلافت و حکمرانی کا کیا جلال تھا اور آج اپنی غلامیت ومحکومیت اور مظلومیت کی کیسی فریاد ہے ، کل تک کفر ذلت کی ناچ ناچنے پرمجبور تھا، عدو رسوائی کے گیت گانے پر مجبور تھا ، باطل پستی و خواری کارونارونے پر مجبور تھا ۔
کہیں فرعونیت لرزہ براندام تھی تو کہیں ۔۔۔ہامانیت
کہیں نمرودیت رعشہ بر اجسام تھی تو کہیں ۔۔۔شدادیت
کہیں یہودیت خوف زدہ تھی تو کہیں۔۔۔ عیسائیت
کہیں قیصریت سہمی ہوئی تھی تو کہیں ۔۔۔کسرائیت
کہیں رافضیت دبکی ہوئی تھی تو کہیں ۔۔۔مرزائیت
غرض کہ ان تیرہ سو سالوں میں آپ کفر و باطل کو جس رنگ وروپ میں دیکھنا چاہیں، جس شکل و صورت میں دیکھنا چاہیں ، جس علاقے میں دیکھنا چاہیں، جس ملک میں دیکھنا چاہیں، وہ آپ کو ڈرا ہوا، سہما ہوا، کپکپاتا ہوا، روتا ہوا، بلبلاتا ہوااور سر پہ خاک اڑاتا ہوا ملے گا۔
یہ صرف ہماری لفاظی اور زبان آوری نہیں ؛ بلکہ ایک ایسی حقیقت اور سچائی ہے کہ 
ہمالیہ کی چوٹیاں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
بحر اٹلانٹک کی طغیانیاں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
دجلہ کی موجیں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
افریقہ کے جنگلات اس کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
بغداد کے باغات اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گواہ ہیں
غرناطہ کی نہریں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
جامع قرطبہ کی میناریں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
سندھ وہند کی سرحدیں اس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گواہ ہیں
ملک شام میں چلنے والی ہوائیں اس کے ۔۔۔ ۔۔۔گواہ ہیں
بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ یہ اجرام فلکیہ ہوں یا اجسام ارضیہ؛ سب کے سب اس کے گواہ ہیں کہ ایک ہزار برس تک چہاردانگ عالم میں مسلمانوں کی شان وشوکت اور ان کی عظمت و سطوت کی ایسی طوطی بولتی تھی کہ باطل کو پرمارنے کی بھی ہمت نہ ملتی تھی ؛ مگر افسوس صد افسوس اسے مسلم قوم کی تیرہ بختی کہیے یا خود ان کی اپنی کردار کشی ، ان کی ا قبال مندی و برو مندی کا وہ سورج جو آج سے چار سوسال پہلے ماضی کی دھندلکیوں میں غروب ہوا تھا ، اب تک حال کے افق پر نمودار نہ ہوسکا، مسلمانوں کی جاہ و جلال کی وہ لیلیٰ جو آج سے چار سوسال پہلے عہدِ رفتہ کی محمل میں غائب ہوئی تھی ، اب تک عہد رواں کے اسٹیج پر جلوہ فگن نہ ہوسکی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان چار سو سالوں میں کفر جری ہوگیا، باطل دلیر بن گیا، دشمن نڈر ہوگئے اور لومڑی شیر بن گئی۔
کبھی آذر کی اولاد نے شرارت کی ۔۔۔تو کبھی عاد کی اولاد نے
کبھی بوجہل کی نسل نے ستم گری کی ۔۔۔تو کبھی بولہب کی اولاد نے
کبھی عتبہ کی ذریت نے ظلم پروری کی ۔۔۔ تو کبھی شیبہ کی اولاد نے
کبھی ابی ابن خلف کے چیلوں نے شقاوت دکھائی ۔۔۔ تو کبھی امیہ ابن خلف کی اولاد نے
کبھی مسیلمہ کذاب کے بیٹوں نے بد تمیزی کی ۔۔۔ تو کبھی اسود عنسی کی اولاد نے
کبھی طلیحہ کے حامیوں نے زبان درازی کی۔۔۔ تو کبھی تسلیمہ نسرین کی اولاد نے
کبھی مرزا قادیانی کے پٹھووں نے سرکشی کی ۔۔۔ تو کبھی سلمان رشدی کی اولاد نے
حضرات! کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ اس کایا پلٹ کی وجہ کیا ہے ؟ اس تغیروتبدل کا باعث کیا ہے؟ اس انقلاب عظیم کا سبب کیا ہے؟ اگر نہیں کیا، تو سنیے اور غور کیجیے کہ کل تک ہمارے پاس ایک عظیم دولت تھی، جو آج نہیں ہے، کل تک ہمارے پاس ایک فولادی قوت و طاقت تھی جو آج نہیں ہے،کل تک ہمارے پاس ایک روحانی زور تھا جو آج نہیں ہے، کل تک ہمارے پاس ایک بے مثال نعمت تھی جو آج نہیں ہے ، کل تک ہمارے پاس محمد رسول اللہ ﷺ کی ایک وراثت تھی جو آج نہیں ہے۔
وہ دولت ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔ ۔۔۔ دولت تھی
وہ نعمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔نعمت تھی
وہ طاقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد کی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔طاقت تھی
وہ قوت ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔جہاد کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوت تھی
وہ وراثت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہادکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وراثت تھی
جب تک ہمارے اندر جذبۂ جہاد موجود رہا، ہم ہر جگہ سربلند و سرفراز رہے ، ہر جگہ باعزت و با اعزاز رہے، لیکن جب سے ہمارے اندر بزدلی آگئی اور جذبۂ جہاد سے دل خالی ہوگیا، تو ہم ہر مقام پر ذلیل و خوار ہوئے اور ہر مقام پر رسوا و پشیمان ہوئے ۔ 
معزز سامعین کرام ! اگر ہمیں پھر سے وہی عہد رفتہ کی عظمت کی تلاش ہے، اگر ہمیں پھر سے اسی عزت و وقار کی تلاش ہے ، اگر ہمیں پھر سے اسی جام خلافت کی تلاش ہے ، تو اس کے لیے قرآن کو سینے سے لگانا ہوگا، ایمان کو مضبوط بنانا ہوگااور جہاد کے لیے ہمہ تن سر بکف اور کفن بردوش رہنا ہوگا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر 
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
اور ؂
شراب کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
کے فلسفے پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر جہاد کا جذبہ پیدا فرمادے آمین،ثم آمین۔
وما علینا الا البلاغ

29 Mar 2018

ایک فقید المثال باوقار عالم کی کچھ یادیں کچھ باتیں


ایک فقید المثال باوقار عالم کی کچھ یادیں کچھ باتیں
۱۹۴۹ ؁ میں سنور میڈل اسکول کے بعد میرے والد صاحب مرحوم و مغفور کی خواہش ہوئی کہ میں پرسہ ہائی اسکول میں پڑھوں؛ لیکن ہمار ے خالو منشی عبدالرحمٰن صاحب لوچنی مرحوم کی رائے ہوئی کہ اس کو مدرسہ میں پڑھاؤ؛ خالو مرحوم فارسی کے بڑے جید عالم تھے۔ ان کا ثانی دور دور میں نہیں تھا۔ ان کی رائے کے مطابق مدرسہ اسلامیہ جہاز قطعہ میں والد صاحب مرحوم و مغفور نے جاکر میرا داخلہ کرادیا، جن کی بنیاد کچھ دنوں قبل حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک ہاتھوں سے پڑ چکی تھی ۔ اجراڑہ سے تشریف لانے کے بعد حضرت نے حضرت شیخ الادب والفقہ نور اللہ مرقدہ کی سرپرستی میں اس مدرسہ کی بنیاد ڈالی تھی اور بڑی قلیل المختصر مدت میں مدرسہ کا ہر چہار جانب شہرہ ہوگیا اور اطراف و جوانب اور ضلع و غیر ضلع طلبہ کثرت سے مدرسہ کے دامن میں جمع ہوکر اپنی تشنگی دور کرنے اور فیضیاب ہونے لگے ۔ حضرت الاستاذ کے علم و عمل کا بھی شہرہ کھلااور ان کی تابندگی و نورانی کرن نے دور دراز کے تاریک خطوں کو بھی روشن کردیا ۔علاقہ کے کچھ قدیم مدرسے اور ان کے علمائے کرام اور کچھ پڑھے لکھے باوقار افراد کے لیے بھی مدرسہ اسلامیہ بھی اور حضرت الاستاذ کی ذات گرامی قدر بھی ایک کھٹک بن گئی اور ان کی رقیبانہ و حاسدانہ نگاہ پڑنے لگی ۔ خدا ان کو معاف فرمائے۔
اللہ رب العزت نے حضرت استاذ مکرم کو بڑی خوبیوں سے نوازا تھا ۔ علوم وفنون کے دریچے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے ان پر کھول دیے تھے۔ فقہ و حدیث پاک، نحو و صرف، ادب و بلاغت، منطق و فلسفہ وغیرہ علوم پر یکساں بصیرت حاصل تھی ۔ علاقہ و دور دراز علماء کی صف میں حضرت استاذ ؒ کی شخصیت منفرد و ممتاز تھی ۔ خدا وندکریم نے ان کی ذات ستودہ صفات کو بڑا نوازا تھا؛ لیکن بایں ہمہ ان کی طبیعت، ان کا مزاج بڑا سادہ تھا۔ نمود و نمائش کی ادنیٰ جھلک بھی ان کی ذات میں نہیں تھی۔ خلوت میں رہیں یا جلوت میں ، ہر ماحول میں سادگی ہی سادگی تھی۔ ان کی ذات گرامی میں اسلاف کی شان نمایاں تھی؛ بالخصوص حضرت شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی نور اللہ مرقدہ کی ان کی ذات گرامی مجسم تصویر تھی۔ ان کی آغوش تعلیم وتربیت میں وہ پلے بڑھے تھے۔ ان کی صحبت میں وہ پروان چڑھے تھے ۔ ان کے فیوض و برکات سے وہ مستفیض ہوتے تھے۔ ان کی شفقت ، ان کا لطف و کرم دارالعلوم دیوبند میں بھی ، اجراڑہ میں بھی اور جہاز قطعہ میں ہمہ دم حضرت استاذ پر سایہ فگن رہا۔دو ڈھائی سال کے بعد جب مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ سے دارالعلوم جانا نصیب ہوا، تو حضرت شیخ الادب والفقہ ؒ کے نام حضرت الاستاذ نے ایک سفارشی مراسلہ ہم لوگوں کے لیے لکھا۔ اور ہم لوگوں کا داخلہ دارالعلوم دیوبند میں بڑی آسانی سے ہوگیا ۔ داخلہ امتحان فارم دارالعلوم دیوبند کے منشی نے حضرت مولانا معراج ؒ کے یہاں پہنچا دیا ۔ ہم لوگوں نے اپنی پیشانی ٹھونک لی کہ ہم لوگ پھنس گئے کہ یہاں امتحان داخلہ بڑا سخت ہوتا ہے ۔ دس سال، بارہ سال شیخ الحدیث کے عہدہ پر دیگر مدرسوں میں رہنے والے اساتذہ، دارالعلوم کی نسبت حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں اور یہاں داخلہ امتحان میں میزان و منشعب مل جاتی ہے ۔ اور دارالعلوم سے نسبت میں وہ شامل نہیں ہوسکتے۔ وہ دارالعلوم سے بیرنگ واپس ہوجاتے ہیں ۔ ابھی داخلہ امتحان ہم لوگوں کا شروع نہیں ہوا تھا کہ حضرت شیخ الادب والفقہ دارالحدیث میں تشریف لے آئے اور منشی جی سے فرمایا کہ ان طلبہ کا داخلہ فارم وہاں سے اٹھا کر لے آؤ اور حضرت شیخ الادب ؒ نے ہم لوگوں کا داخلہ امتحان لیا۔ اور دارالعلوم میں داخلہ ہوا۔ اور جب تک حضرت شیخ الادب والفقہ باحیات رہے، ان کی شفقت و عنایت ہم لوگوں پر سایہ فگن رہی۔ داخلہ کے کچھ ہی دنوں بعد مولانا اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ کو حاسدوں نے اکھاڑہ بنا دیا اور حضرت شیخ الادب ؒ کے نام حضرت الاستاذ کے خلاف کچھ تراشیدہ الزامات کے ساتھ بذریع رجسٹری ملفوف مراسلہ بھیجا۔ اور دلیل و شہادت کے لیے ہم تین لڑکوں کا نام پیش کیا ۔ خط موصول ہونے کے بعد حضرت ؒ نے ہم تینوں طلبہ کو بلاکر تحقیق و تفتیش فرمایا اور حضرت شیخ الادب ؒ کی ذات گرامی قدر کے دل میں حاسدوں کی کوئی بھی بات بیٹھ نہیں پائی ۔ اور حضرت شیخ الادب ؒ کے قلب میں ہم لوگوں کے لیے مزید شفت و محبت جم گئی۔اور گاہ گاہ ہم حضرت شیخ الادب ؒ کے یہاں آنے جانے لگے۔ خاص کر بھاگلپوریوں اور ہم دمکا والوں کے لیے ان کے پاکیزہ دل میں بڑی اہم جگہ تھی۔ حضرت شیخ الادب ؒ کے یہاں مولانا محمد منیر الدین ؒ کی درسی تقریروں کی کچھ کاپیاں : بخاری شریف، ترمذی شریف، مشکوٰۃ شریف، دیوان متنبی ، حماسہ و مقامات وغیرہ کی نظر آئیں۔ مشکوٰۃ شریف کی درسی تقریر کی کاپی ، حضرت مولانا عبدالسمیع صاحب نور اللہ مرقدہ کی کاپی، حضرت مولانا محمد شعیب بھاگلپوریؒ کے ہاتھ میں نظر آئی ۔ ہم نے شیخ الادب ؒ سے عرض کیا کہ حضرت یہ ہمارے استاذ حضرت مولانا منیر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کاپی ہے، ہمیں عنایت کی جائے کہ ہم کو اس کا زیادہ حق ہے۔ مولانا شعیب ؒ کو حکم ہوا کہ یہ کاپی ان کو دیدو اور حضرت ؒ کی شفقت و عنایت سے ہم کو مل گئی۔ ہماری نگاہ حضرت الاستاذ کی مختلف کاپیوں پر تھی، جن کے حاصل کرنے کی تمنا ہمارے دل میں بیٹھی ہوئی تھی، لیکن صد حیف کہ حضرت شیخ الادب ؒ کا وصال ہوگیا اور ہم یاس و حسرت میں ڈوب گئے۔ 
حضرت مولانا منیر الدین نور اللہ مرقدہ شیخ الادبؒ کی ذات گرامی قدر کی آغوش تعلیم وتربیت میں پروان چڑھے تھے ۔ اس قیمتی صحبت و ماحول نے استاذ مکرم کو کندن بنادیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے علوم و ورع اور تقویٰ کا وافر حصہ حضرت مولانا منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کو عطا فرمایا تھا ۔ علوم و تقویٰ ، اعمال و اخلاق ، تہذیب وانسانیت کی ان کی ذات گرامی مجسم تصویر تھی ۔ ائے کاش حضرت استاذ ؒ کچھ اور جیے ہوتے ، تو بڑی قیمتی تصنیف و تالیف منظر عام پر آتی۔ ان کی خواہش بارہا میرے سامنے ظاہر ہوئی ، لیکن قدرت کاملہ کا نظام ہے اور اس میں کسی کو دخل نہیں۔ نورانی آفتاب چمکتا ہے اور شام کو غروب ہوجاتا ہے۔ چاند رات کو روشن کردیتا ہے اور دن کو ماند پڑجاتا ہے۔ بے شمار سورج و چاند و ستارے روپوش ہوگئے ، خدا کا نظام یہی ہے۔ ساری قیمتی ہستیاں حکم الٰہی کے مطابق کام کرگئیں اور اسی نے چمکدار اور روشن راستے بنادیے۔ آج دنیا ان سے منور ہے اور فیض حاصل کر رہی ہے ۔ اور ان کا کردار وعمل زندہ اور تابندہ ہے ۔ اور ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے ۔ ؂
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما۔
(مولانا)محمد خلیل الرحمٰن قاسمی غفرلہ و لوالدیہ
ساکن کیتھ پور، ضلع گڈا جھارکھنڈ
۲۹؍ ربیع الاول ۱۴۲۷ھ، مطابق ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۴ء


حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب ایک نابغۂ روزگار ہستی


حضرت مولانا محمد منیر الدین صاحب ایک نابغۂ روزگار ہستی
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا اظہر الحق صاحب جہازی، استاذ مدرسہ رحمانیہ روڑکی اتراکھنڈ
حامدا و مصلیا و مسلما امابعد
از آدم تا ایں دم، اربوں کھربوں اور خدا معلوم کتنے انسان اس دنیائے ناپید میں آکر یہاں سے جاچکے ہیں۔ اور صبح قیامت تک آمدو رفت کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ لیکن ان مسافروں میں کچھ مخصوص ہستیاں اور شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اپنے ملی کارنامے اور علمی خدمات ، ذہنی تعمیرات اور مردم ساز قابلیتوں ، تخلیقی صلاحتیوں اور اعلیٰ سیرتوں و کردار کی بدولت اپنی راہ نوردی کے کچھ ایسے انمٹ نقوشِ قدم اور آثار سفر چھوڑ جاتی ہیں جو زمانے کی دست و برد کے باوجود محفوظ رہتے ہیں ۔ ؂
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخیِ نقش پا کی
ایسی ہی ایک درویشی خدا پرست، بے نفس، نابغۂ روزگاراور عبقری شخصیت حضرت مولانا محمد منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی گذری ہے ۔
وطن عزیز کی آزادی سے کوئی ایک دہائی قبل مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑہ ضلع میرٹھ سے تدریسی زندگی کا آغاز ہوا، یہاں آپ سے حدیث و فقہ اور مختلف علوم و فنون کی کتابیں متعلق رہیں۔غالباً ۱۹۴۸ ؁ء میں وہاں سے مستعفی ہوکر وطن عزیز کا قصد کیا اور اپنے گاؤں جہاز قطعہ میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے نام سے ایک دینی درس گاہ کی داغ بیل ڈالی۔ قرین قیاس یہی ہے کہ اجراڑہ میں ملازمت ، اور پھر ملازمت سے مستعفی ہوکر خدمت دین کے لیے اپنے علاقہ کو اختیار کرنا بلا مشورہ استاذ و مربی خاص حضرت مولانا اعزاز رحمۃ اللہ علیہ شیخ الادب والفقہ دارالعلوم دیوبند محض حادثاتی و اتفاقی طور پر نہیں ہوا ہوگا؛ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وقفہ وقفہ سے ان بندوں کو جو غفلت کی نیند میں دیر سے سو رہے ہوں، ان کے کانوں میں اذان حق دے کر بیدا ر کرنے کے لیے اور اس امت اور ملت کے بکھرے ہوئے بال و بر کی شیرازہ بندی اور بگڑے ہوئے نظام مے خانہ کو بدلنے کے لیے جن مردان خدا آگاہ اور رندوں کا انتخاب کرتا ہے، ان میں سے ایک حضرت مولانا بھی ہوں۔ اس لیے جو کہ خطہ اور علاقہ علم و فن میں شورہ اور بنجر زمین کی طرح پڑا ہواتھا، اس جگر سوختہ مرد حق کی انتھک کدو کاوش اور جہد مسلسل کے نتیجہ میں ایک لہلہاتا ہوا شاداب چمن بن گیا ۔ اور اس چمن میں نہ جانے کتنے لالہ و گل اگے ۔ میری اس تحریر کے حق میں وہ لوگ شہادت دیں گے، جنھوں نے ماضی کی جہالت دیکھی ہے ، یا علم اور تاریخ کی راہ سے یہ جانا ہے کہ ۱۸۵۷ ؁ء کے انگریزوں نے خاص طور سے مسلمانوں کو اپنا حریف سمجھ کر ہدف بنایا اور ہر میدان میں مات دینے کی ٹھان لی۔ چنانچہ علمی، تمدنی، اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کو ثریا سے پاتال میں پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا ۔ فطری طور پر یہ علاقہ بھی استعماری قوت کی پامالی سے محفوظ نہیں رہ سکا، جب کہ یہ علاقہ پہلے سے ہی جاں بلب تھا۔
مولانا مرحوم نے جس پر آشوب دور اور جہالت و نا خواندگی کے تاریک زمانہ اور مایوس حوصلہ شکن عہد میں ہوا کے رخ پر علم کا چراغ روشن کرنے کی کوشش شروع کی ہے، کون کہہ سکتا تھا کہ اتنی جلدی کایا پلٹ ہوجائے گی۔ لیکن واقعاتی دنیا میں ایسا ہی ہوا ، حالاں کہ جہاز قطعہ کوئی بہت شہرت یافتہ مقام نہیں تھا اور نہ ہی رقبہ و عمارت کے لحاظ سے مدرسہ اسلامیہ ہی اتنا بڑا تھا ؛ لیکن خاص افضال خداوندی سے دیکھتے ہی دیکھتے دور و نزدیک سے جوق در جوق طالبان دین اور جویان حق آتے رہے اور حضرت والا طلبہ کی کھیپ در کھیپ تیار کرکے بڑے بڑے مدارس؛ خصوصا دارالعلوم اور مظاہر علوم روانہ فرماتے رہے ۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں ایک سے بڑھ کر ایک عالم فاضل نظر آنے لگے۔ اسی طرح چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ جہالت اور ناخواندگی کی تاریکی چھٹتی رہی اور علم کی روشنی پھیلتی رہی۔ اور آج ہر قابل ذکر علوم و فنون کے لوگ اس علاقہ میں صرف موجود ہی نہیں؛ بلکہ ملک کے تقریبا ہر حصہ اور دنیا کے بہت سے گوشوں میں علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یقیناًاسی تعلیمی بیداری اور پاکیزہ انقلاب میں حضرت مولانا منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کا بہت بڑا حصہ و دخل ہے، جس کا انھیں اجر وصلہ مل رہا ہوگا۔ حضرت والا جید عالم ، سادہ مزاج، ولی صفت ، خدا ترس اور قوم وملت کے لیے شب و روز بے انتہا مخلصانہ اور صبرو عظیمت کے ساتھ محنت کرنے والے انسان تھے۔
قسام ازل کی طرف سے حضرت مولانا مرحوم کو تعلیمی ، تدریسی اور تدریبی مہارت وملکہ کے ساتھ ذوق تحریر وتالیف بھی عطا ہوا تھا ۔ خیا ل کیا جاتا ہے کہ مولانا نے اپنے پیچھے اچھا خاصا تحریری سرمایہ چھوڑا تھا، لیکن وہ محفوظ نہیں رہ سکا۔ منجملہ تصانیف اور ترکہ علمی میں سے ’’رہنمائے مسلم‘‘ کتاب ہے۔کتاب کے تعارف کے حوالے سے صرف اتنی سی بات عرض ہے کہ کتاب اسم با مسمیٰ ہے۔ ایک مسلمان کو پیدائش سے لے کر موت تک کس طرح زندگی گذارنی چاہیے ، یا یوں کہیے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اپنے نام لیواؤں کے لیے اس خاکدان ارضی پر چلنے کے لیے جو شاہراہ قائم فرمائی ہے، اسی کی بزبان اردو تعبیر وتشریح اور ترجمانی ہے۔ 
حضرت الاستاذ کس قدر کثیر المطالعہ اور وسیع العلم عالم تھے، اس کتاب کے حوالجات کو دیکھنے ہی سے پتہ چلتا ہے۔ اور ایسے دور افتادہ علاقہ میں جہاں نہ بجلی کی سہولت تھی ، نہ دوسری آسانیاں، دن میں سورج اور رات میں لالٹین اور دیا کے سوائے کوئی تیسری روشنی نہیں ہوتی ۔ 

الغرض مولانا مرحوم بہت سی صلاحیتوں اور قابلیتوں ، کمالات اور خوبیوں کے مالک تھے ۔ جن کی گواہی نسلاً بعد نسلٍ لوگ دیتے رہیں گے۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے پیچھے اپنے اوصاف وکمالات اور علوم وفنون کے ہزاروں بلا واسطہ اور بالواسطہ شاگرد اور علمی وارثین چھوڑے ہیں۔ خدا بھلا کرے مولانا مرحوم کے برادرزادہ جناب مولانا قاری عبدالجبار قاسمی کا ، جنھوں نے سالہا سال تک اپنے نامور مورث کے قیمتی ورثہ کی حفاظت کی ۔ اور یہ خاص فضل ربی ہوا کہ مولانا کی یہ قیمتی تصنیف قاری صاحب موصوف کے قدر داں ہاتھوں میں آگئی، ورنہ دیگر تصانیف کی طرح یہ بھی خرد برد ہوکر ضائع ہوجاتی ؛ بلکہ اس کتاب کے مسودوں کے بھی کچھ اجزا ضائع ہوگئے تھے، جس کو قاری صاحب نے اپنی زر بفت تحریر کے ذریعے انتہائی سلیقہ کے ساتھ مخمل میں ایسی پیوند کاری کی ہے کہ پڑھنے والے کو اس پیوند کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ 

عارف باللہ مولانا منیر الدین صاحب جہاز قطعہ


عارف باللہ مولانا منیر الدین صاحب جہاز قطعہ
(۱۹۷۷۔۱۹۱۹ء)
تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا ثمیر الدین صاحب قاسمی چیرمین ہلال کمیٹی لندن
۱۹۶۷ء ؁ کی کسی صبح کو تبلیغی جماعت کے ساتھ یہ کفش بردار جہاز قطعہ پہنچا ۔ مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ کے احاطہ میں قدم رکھا ، تو ایک فرشتہ صفت بزرگ سے ملاقات و مصافحہ ہوا۔میانہ قد، گداز بدن، نورانی چہرہ، متبسم پیشانی، دراز کرتا اور لنگی میں ملبوس عارف باللہ مولانا منیر الدین صاحب جہاز قطعہ تھے۔آپ ۱۹۱۹ء ؁ ، مطابق ۱۳۳۷ھ ؁ میں پہلی مرتبہ دنیائے رنگ و بوسے روشناس ہوئے۔ابتدا میں مدرسہ سلیمانیہ سنہولا ہاٹ میں مولانا خلیل الرحمٰن صاحب سیری چک کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ پھر علمی تشنگی بجھانے کے لیے ۱۳۵۷ھ ؁، مطابق ( ۱۹۳۸ء ؁ ) میں منبع علم و عرفاں دارالعلوم دیوبند کا قصد فرمایا اور ۱۳۶۲ھ ؁، (مطابق۱۹۴۳ء ؁ ) اس کے ماء زلال سے سیراب ہوتے رہے۔ فراغت کے بعد بھی دولت کدہ تشریف نہیں لائے؛ بلکہ اس کی اشاعت کے لیے مدرسہ گلزار حسینیہ اجراڑہ میرٹھ یوپی میں صدر مدرس منتخب ہوئے ۔ اور وہیں نمایاں خدمات انجام دیتے رہے۔مکمل آٹھ سال کی غربت و مسافرت کے بعد گھر تشریف لائے، تو علاقائی ابتری دیکھ کر دل ابلنے لگا۔ لوگوں کو دیکھا کہ وہ علم سے کورے اور تہذیب اسلامی سے نابلد ہیں۔ان کی اصلاح اور راہ راست پر لانے کے لیے کسی مرد کامل سے بھی میدان خالی ہے، اس لیے آپ علم کی ضیا پاشیوں کے لیے کمربستہ ہوگئے اور مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ کی بنیاد ڈالی۔خود ہی منتظم اور خود ہی مدرس تھے۔
خود کوزہ خود کوزہ و خود گل کوزہ
آپ کے درسی لگاؤ اور انہماک کی اتنی شہرت ہوئی کہ مدرسہ مینارہ نور بن گیا، جس سے سیکڑوں پروانوں نے روشنی حاصل کی۔ مولانا خلیل کیتھپورہ،، مولانا غلام رسول اسنہاں، مولانا ابراہیم انجنا اور مولانا عرفان صاحب جہاز قطعہ اور کاتب عبدالجبار جیسے علم و فن نے استفادہ کیا اور علاقے میں آفتاب و مہتاب بن کر چمکے۔
آپ کے دور نارسا میں علاقے میں تصنیفی کام کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اور دیہاتی علماء کی دسترس سے بالاتر چیز سمجھی جاتی تھی، لیکن آپ علاقے میں پہلی شخصیت ہیں، جنھوں نے تصنیفی کام کا آغاز کیا اور لوگوں کو باور کرایا کہ محنت و لگن سے ثریا پر بھی کمندیں ڈالی جاسکتی ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کی اصلاح حال اور سنتوں کی ترویج کے لیے ’رہنمائے مسلم‘ اور ’زجاج المصابیح‘ تصنیف فرمایا۔ دونوں کتابیں زیور طباعت سے آراستہ نہ ہوسکیں۔البتہ آپ کے لائق ترین بھتیجہ قاری و مولانا و کاتب عبدالجبار صاحب اس کو طباعت سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں۔ رہنمائے مسلم اردو میں ۱۶۰؍ صفحہ کی کتاب ہے۔ اس میں پیدائش سے لے کر موت تک کے کس موقع کے لیے کونسا طریقہ سنت نبوی سے ہم آہنگ ہے اور اس وقت کے لیے کونسی دعا دہن مبارک ﷺ سے منقول ہے، اس کی پوری تفصیل ذکر کی گئی ہے۔ اور اس کے مآخذ کے لیے درجنوں کتابوں کا حوالہ درج ہے۔ دیہی علاقہ جہاں موقر کتابیں نایاب یا کمیاب ہیں، معلوم نہیں مصنف نے کس جاں کاہی سے اس کو مہیا کیا ہوگا۔دوسری کتاب زجاج المصابیح عربی زبان میں نور الایضاح کی طرز کی فقہ کی کتاب ہے۔اس میں انھوں نے کافی مسائل جمع کیا ہے۔ انداز بیاں دلنشیں اور شگفتہ ہے۔ زبانی ذہن نشین کرنے کے لیے بہت مفید کتاب ہے۔
آپ خاموش طبع اور عزلت پسند واقع ہوئے تھے۔ رزم و بزم، شور و ہنگامہ سے آپ کی طبع دور تھی۔ آپ دل کی دنیا کو آباد و معمور رکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ راہ سلوک میں بہت سے مرد کامل کے لیے مشعل راہ اور رشک نگاہ بنے ہوئے تھے۔ آپ سالک بے مثال حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے دامن سے وابستہ تھے۔ عمر کے آخیر عشرے میں فالج کا شدید حملہ ہوا، جس سے جاں بر نہ ہوسکے اور آخر اس مخلص خادم نے ۱۹۷۷ء ؁ میں جان جاں آفریں کو سپرد کیا اور ہزاروں سوگواروں کو داغ مفارقت دے کر سفر آخرت کے لیے روانہ ہوگئے۔ ؂
پلٹ کے کہتی ہے آنکھوں کی پتلیاں دم مرگ
چلو یہاں سے کہ دنیا کا اعتبار نہیں

(یاد وطن، صفحہ۲۹؍تا ۳۱)

27 Mar 2018

مولانا محمد اسلام مظاہری جہازی نور اللہ مرقدہ


محمد یاسین جہازی قاسمی

مولانا محمد منیر الدین نور اللہ مرقدہ کے بعد جہازی اکابرین میں دوسرا بڑا نام مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ محمد اسلام نام تھا، ساجدؔ تخلص کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ مظاہر علوم سہارنپور سے سند فراغت حاصل کی تھی، اس لیے اس نسبت سے کبھی مظاہری اور کبھی مظہری لکھا کرتے تھے۔ ان کے والد محترم کا نام جناب عبدالرحمٰن تھا، جو نصیرالدین عرف نسو کے فرزند تھے۔ نسو ابن پھیکو، ابن گھولی ابن دروگی تھے۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب نہ کسی کو معلوم ہے اور نہ ہی محفوظ ہے۔ دستیاب نسب نامہ کی تحریر پر ہر نام کے ساتھ شیخ یا مرڑ کا لاحقہ لگا ہوا ہے، جس سے پوری برادری شیخ کہلاتی ہے۔ گرچہ اس حوالے سے کوئی مستند معلومات نہیں ہیں، تاہم قبائلی روایت کو تسلیم کرتے ہوئے مولانا بھی شیخ برادری میں آتے ہیں۔
مولانا مرحوم کی پیدائش اور بچپن کے حالات کے تعلق سے کوئی بھی معلومات دستیاب نہیں ہیں، تاہم عینی شاہدین سے استفار کے مطابق مولانا مرحوم کی بنیادی تعلیم گاؤں کے مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں ہوئی۔ آپ نے درجہ سوم تک یہاں تعلیم حاصل کی ۔ اور اعلیٰ تعلیم کے لیے مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیااور تقریبا ۱۹۶۲ء ؁ میں درجہ چہارم میں داخلہ لیا۔ اور ۱۹۶۶ ؁ء میں سند فراغت حاصل کی۔ فراغت کے بعدہی حضرت مولانا محمد منیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی طلب پر غالباً ۱۹۶۷ء ؁ میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے استاذ مقرر کیے گئے اور درجہ سوم تک کی کتابوں کی تدریس وابستہ کی گئی۔ نور الایضاح،قدوری،میزان و منشعب، نحومیر، گلستاں اور بوستاں کا درس بہت زیادہ مقبول تھا۔ تقریبا ۶؍ سال تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں ایک استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ناظمدارالاقامہ بھی تھے، جس کے ذریعے بچوں کی تربیت پر خاص نگاہ رکھتے تھے ۔ مطبخ کی ذمہ داری بھی وابستہ تھی، جس سے تہذیبی و سماجی تربیت پر بھی خصوصی توجہ فرماتے تھے۔ان تمام ذمہ داریوں کے ساتھ وہ ایک باکمال خطیب بھی تھے اور جمعہ کے دن جامع مسجد میں خصوصیت کے ساتھ خطاب فرمایا کرتے تھے۔ 
وہ کم گو تھے، لیکن طبیعت میں ظرافت تھی۔ساتھ ہی وہ قابل تقلید اخلاق کے بھی مالک تھے۔نرم خوئی ان کی خاص صفت تھی، اس لیے مدرسے کے بچے آپ سے بہت زیادہ بے تکلف رہا کرتے تھے۔ تدریس سے فراغت کے بعد بالعموم تحریر و کتابت میں مصروف رہتے تھے۔اور ان کی کئی کتابیں ان کی علمی وراثت کی یادگار ہیں۔ 
گاؤں میں دو بڑے سیلاب کے حادثے، وارثین کی نااہلی اور کتابوں کے تعلق سے بے حسی کی وجہ سے مولانا مرحوم کی ذاتی لائبریری فنا کے حوالے ہوگئی، تاہم ان حوادث کے باوجود جو سرمایہ محفوظ رہا ہے، اس میں مولانا کے کتابوں کا مسودہ موجود ہے، جس کا تعارف پیش ہے۔
۱۔ ذکر حبیبﷺ
مولانا مرحوم ؒ کی اس کتاب میں سیرت نبوی ﷺ کے مختلف عنوانات پر بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی تقریریں تھیں۔ اس کا مسودہ اب تک محفوظ تھا، لیکن پچھلے دنوں دیمک لگ جانے کی وجہ سے پورا مسودہ لکڑی کے برادے کی طرح چور چور ہوگیا؛ حتیٰ کہ ایک صفحہ بھی پڑھنے سمجھنے کے قابل نہیں بچا، اس لیے مولانا مرحوم کا یہ قیمتی سرمایہ ضائع ہوگیا۔ 
۲۔ دل کی راہ سے
اس کتاب میں اخباری تراشے ہیں ، تراشوں میں چھپے مضامین اور خبروں پر تبصرے کیے گئے ہیں ، جس میں مولانا ؒ نے حالات حاضرہ پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے ، اپنی قیمتی رائے پیش کی ہے ۔ اپنے وقت کا سب سے مشہور اور معیاری اخبار الجمعیۃ کے مضامین بکثرت موجود ہیں۔ جا بجا منظر کشی کے لیے لائنوں کے خاکے بھی بنے ہوئے ہیں، جس میں اشارے اورطنز و مزاح پائے جاتے ہیں۔ اس کا مسودہ اب تک راقم الحروف کے پاس محفوظ ہے۔
۳۔اشعار برجستہ
اس میں مولانا مرحوم نے اپنی یاد داشت کی بنیاد پر ایک سو تین مختلف عناوین پر بڑے بڑے شاعروں کے شعروں کاانتخاب پیش کیا ہے۔اس کا پورا مسودہ صحیح و سالم ملا۔ الحمد اللہ اس کی کمپوزنگ بھی مکمل ہوگئی ہے اور عن قریب چھپ کر منظر عام پر آجائے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
۴۔ حرف آخر
اس کتاب میں مولانا مرحوم نے مختلف ممالک کا نقشہ پیش کیا ہے ۔ اور قدیم و جدید جغرافیائی حدود پر عالمانہ و محققانہ بحث کی ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جہاں تحقیق و مراجع کا کوئی جدید ذریعہ موجود نہیں تھا، اور معلومات کا کوئی بھی فاسٹ وسائل مہیا نہیں تھے، ایسے بے سروسامانی کے عالم میں اتنا تحقیقی کام کیسے کیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے مسودے میں صرف تین چار صفحات ہی دستیاب ہوسکے۔اور سر دست وہ بھی ناقابل استفادہ ہوچکے ہیں۔ 
۵۔ فیض القدیر لمولانا امیرؒ 
مظاہر علوم سہارنپور کے استاذ حدیث حضرت مولانا امیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ ترمذی کا درس دیا کرتے تھے۔ مولانا محمد اسلام صاحب نے درس کی تقریر قلم بند کی ہے۔ راقم کے پاس جو کاپی موجود ہے، اس میں کتاب السیر کے باب ما جاء فی الطیرۃ تک کی تقریر موجود ہے۔ اور مسودہ پر پانے نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں، لیکن بہ مشکل اسے پڑھا جاسکتا ہے۔ اور اسے شائع بھی کیا جاسکتا ہے۔ 
اسلوب تحریر
مولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ بہت ہی سادہ اور سلیس نثر لکھتے تھے ،جس میں انشا نگاری کا عکس جھلکتا تھا۔ اسلوب میں رنگینی فکر غالب تھی اور کسی بات کو دلچسپ پیرایہ میں بیان کرنے کے ہنر میں کمال رکھتے تھے ۔ ان کے اسلوب کا اندازہ لگانے کے لیے اس اقتباس کو ملاحظہ فرمائیں: 
جمعہ کی رات(شب اول) سہانی، خوشگوار پرفضا چاند کی کوثر تسنیم میں دہلی ہوئی چاندنی اور اس پرہولے ہولے جھکولے کھاتی ہوا، کتنا پرسکون ہوتا ہے اور پھر اس پر سونے پر سہاگہ کیوں نہ ہوجائے، جب کہ ایسی حالت میں دوست اور یار غار آجائے!۔
ا س پر فضا ماحول میں ہم بیٹھے ہوئے تھے، بعد نماز مغرب کے آدھ گھنٹے گفتگو میں گذر جانے کے بعد اچانک دروازے کی جانب سے السلام علیکم کی آواز آئی۔ سر اٹھا کر دیکھا، آواز جانی پہچانی تھی۔ خوشی دوبالا ہوگئی۔ رات گفتگو میں گذری۔
صبح کو بعد ناشتہ جب مہمان اپنے میزبان کے ساتھ تنہا تھے، نہایت سنجیدگی کے ساتھ یہ بات پیش کی: 
’’مولوی اسلام! آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں، اکثر چاہا، مگر بھول جاتا ہوں۔ ابھی پھر خیال آیا، دیکھیے آج ہماری، آپ کی اور نہ جانے کتنے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ نہ وہ گھر کا گنا جاتا ہے اور نہ باہر کا۔ اور ان میں سے اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں، جو مدارس نظامیہ سے تعلیم حاصل کرکے آتے ہیں اور معمولی سی تنخواہ میں بچوں کو تعلیم دینا شروع کردیتے ہیں۔ اول پیسے کی کمی۔ دوئم وقت سے فراغت کم ہونے کی وجہ سے وہ گھر کے کسی اور کام کو انجام دے نہیں پاتا۔ اور گھر سے ایک قسم کی بے تعلقی ہوجاتی ہے۔ اور پھر گھر والے اس کو علاحدہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ’’دھوبی کا کتا نہ گھر کا گھاٹ کا‘‘ والی مثال ہوجاتی ہے۔ ایسے عالم میں وہ جاہل مزدور سے بھی گیا گذرا ہوجاتا ہے، جو روزانہ کم از کم دو سیر مزدوری کرلیتا ہے۔ لوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنستے ہیں اور تماشائی بنتے ہیں۔
آج ہمیں ضرورت ہے کہ ایک ایسی انجمن ہو، جس کی کچھ مالی حیثیت ہو اور وہ ایسے لوگوں نیز اور دوسرے غربا و مفلسوں کی وقتی امداد کرسکے اور جب فراغت ہوجائے، وہ شخص اس قرض حسنہ کو ادا کردے۔ میں اس چیز کی اہمیت کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ تم کیا کہتے ہو؟؟!‘‘۔
اور محمد اسلام نے اپنے دوست کو اپنا دلی ترجمان دیکھ ہاں کہہ کر اپنا وہ منصوبہ پیش کردیا جو ایک مدت سے اپنے دل میں پال رکھا تھا۔ اور۔۔۔ اسی وقت ان دونوں ’’میزبان اور مہمان‘‘ نے ایک انجمن کی داغ بیل ڈال دی! خدا کرے ان دو دوستوں کی دلی تمنا پوری ہو۔ اور دونوں کی کوشش بار آور ہو!!!!۔
ملی کارنامے
تصنیف و تالیف اور خطابت کے علاوہ مولانا ملی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے ۔ اور سماجی مسائل کے حل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا کرتے تھے۔ علاقہ میں بے پناہ غربت کے پیش نظر ملی و سماجی کاموں کو سہارا دینے کے لیے مولانا نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسے ’’تنظیم ملت‘‘ کا نام دیا۔ اس میں لوگوں کو جوڑ کر ملت کے وہ تمام کام انجام دیتے تھے، جو وقت کی ضرورت ہوتی تھی، جو بالیقین مولانا مرحوم کی ملی خدمات پر شاہد عدل ہیں۔ 
مولانا کے شاگرد
مولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ تقریبا آٹھ سال تک مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے استاذ رہے۔ درجہ سوم تک تعلیم تھی، آپ سے سبھی درجات کی کتابیں متعلق تھیں، اس لیے آپ کے بہت سے شاگرد تھے، چند مشہور شاگردوں کے نام یہ ہیں: مولانا محمد یونس صاحب کیتھپورہ، محمد اسلام، فیض الرحمان، محمد عرفان، محمد فاروق رجون، حافظ ظفیر الدین، رحمت علی تلوائی، شوکت علی مرنئی، محمد اکرام الحق صاحبان۔
حادثہ فاجعہ 
مولانا کا شب و روز درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گذر رہا تھا کہ اچانک مولانا مرحوم کو پہلے سردی والا بخار آیا، جو رفتہ رفتہ میعادی بخار میں تبدیل ہوگیا۔گاؤں کے ڈاکٹر جناب ثمیر الدین صاحب نے علاج شروع کیا، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، جس کے پیش نظر جھپنیاں کے ڈاکٹراکرام صاحب سے رجوع کیا گیا، لیکن یہاں بھی کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے کیا گیا کہ حکیمی علاج شروع کیا جائے، چنانچہ گاؤں کے حکیم جناب محمد حسین مرحوم نے علاج شروع کیا، لیکن یہاں بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آیا، بالآخر علاقے کے سب سے مشہور ڈاکٹر جناب شہید پچوا قطعہ سے رابطہ کیا گیا۔ انھوں نے خصوصی توجہ کے ساتھ تقریبا بارہ تیرہ ایام تک علاج کیا اور اپنے گھر پر ہی اپنی نگرانی میں رکھا، لیکن مرضی مولیٰ برہمہ اولیٰ ہوتا ہے، اس لیے اس بیماری سے وہ جاں بر نہ ہوسکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ کر واصل بحق ہوگئے۔والد محترم کی ملی ایک تحریر کے مطابق تاریخ وفات ۱۹؍ اپریل ۱۹۷۲ء ؁ بروز بدھ تقریبا دو بجے دن ہے۔ اس کے اگلے دن آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔ پسماندگان میں ایک لڑکا جناب محمد اطہر اور ایک لڑکی مَسُودہ خاتون ہے ، جو تا دم تحریر با حیات اور صاحب اولاد ہیں۔ مولانا مرحوم کی تاریخ پیدائش کا کوئی رکارڈ موجود نہیں ہے، ہم عصروں کے مطابق ان کا انتقال پینتیس چالیس کی عمر میں ہوگیا تھا۔ ان کے انتقال کے وقت لڑکی ابھی کچھ ہی مہینوں کی تھی اور بڑی اولاد لڑکے کی عمر کچھ سال کی تھی۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردو س میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، آمین۔


16 Mar 2018

میاں اللہ تو دیکھ رہا ہے!

میاں اللہ تو دیکھ رہا ہے!
محمد یاسین جہازی
صحابہ کی محفل جمی ہوئی ہے۔ حضور پر نور محمد عربی ﷺ کی موجودگی اس محفل کی رونق و برکت میں دوبالگی پیدا کر رہی ہے۔ اسی دوران ایک شخص شریک محفل ہوتے ہیں۔ کپڑے انتہائی صاف ستھرے ہیں، بال بہت کالے ہیں۔ محفل میں موجود ہر شخص کے لیے اجنبی ہے ، کیوں کہ وہ وہاں کا رہنے والا نہیں ہے اور کہیں سے سفر کرکے آیا ہے، لیکن سفر کے اثرات اس پر بالکل بھی ظاہر نہیں ہورہے ہیں۔ وہ بلا تکلف اس مجلس میں شریک ہوجاتا ہے اور نبی اکرم ﷺ کے مبارک گھٹنہ سے اپنا گھٹنا ملا کر بیٹھ جاتا ہے ، اتنا ہی نہیں؛ بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں کو نبی اکرم ﷺ کے مبارک رانوں پر رکھ دیتا ہے اور پھر نبی اکرم ﷺ سے کئی سوالات کرتے ہیں ۔ پہلا سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
یا محمد اخبرنی عن الاسلام۔
ائے محمد مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ جواب دیتے ہیں کہ
الاسلام ان تشھد ان لا الٰہ الا اللہ و ان محمد رسول اللہ، و تقیم الصلاۃ و توتی الزکوٰۃ، و تحج البیت ان استطاع الیہ سبیلا۔
یہ جواب سن کر اجنبی کہتا ہے کہ صدقتَ ۔ آپ نے بالکل صحیح جواب دیا۔ حاضرین مجلس کو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسا سائل ہے کہ خود ہی پوچھ رہا ہے اور خود ہی تصدیق بھی کر رہا ہے۔ پھر وہ اجنبی دوسرا سوال کرتا ہے کہ
اخبرنی عن الایمان ۔
مجھے ایمان کے متعلق بتائیے۔ نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
کہ ان تومن باللہ و ملائکتہ، و کتبہ و رسلہ ، والیوم الآخر، و تومن بالقدر خیرہ و شرہ۔ 
اجنبی جواب سن کر تصدیق کرتا ہے اور پھر سوال کرتا ہے کہ
فاخبرنی عن الاحسان۔
مجھے یہ بھی بتایا جائے کہ احسان کیا ہے؟ نبی اکرم ﷺ جواب دیتے ہیں کہ 
ان تعبداللہ کانک تراہ، و ان لم تکن تراہ، فانہ یراک 
کہ تم خدا کی عبادت اس طرح کرو، گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ سکتے، تو خدا تو تم کو دیکھ ہی رہا ہے۔ اجنبی نے پھر سوال کیا کہ
اخبرنی عن الساعۃ
کہ مجھے قیامت کے متعلق بتائیں، تو آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اس کے بارے میں مجھے آپ سے زیادہ معلومات نہیں ہیں ، اس پر اجنبی نے سوال کیا، تو اچھا پھر کم از کم علامت ہی بتادیجیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ
ان تلد الامۃ ربتہا، و ان تریٰ الحفاۃ العراۃ العالۃرعاء الشاء یتطاولون فی البنیان ۔
یعنی اس کی ایک علامت یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالک اور آقا کو جنے گی ۔ ایک اور علامت یہ ہے کہ جن کے پاوں میں جوتا تک نہیں، جن کو تن ڈھکنے کے لیے کپڑا میسر نہیں ، جو بکریاں چراکر گذارا کرتے ہیں، وہ لوگ بھی بڑی بڑی عمارتیں بناکر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔
اس حدیث کے راوی حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اجنبی شخص چلا گیا، تو تھوڑی دیر کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ یا عمر ا تدری من السائل؟ حضرت عمرنے جواب دیا کہ اللہ و رسولہ اعلم، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل تھے جو تمھیں دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔
اس حدیث پاک میں پانچ سوالات و جوابات ہیں۔ (۱) اسلام کیا ہے۔ (۲) ایمان کیا ہے۔(۳) احسان کیا ہے۔ (۴) قیامت کب آئے گی۔ (۵) قیامت کی علامتیں کیا ہیں۔
حدیث کے ان پانچوں جزئیات کی تشریح اس مختصر تحریر میں ناممکن ہے ، اس لیے آج کی معروضات میں تمام جزئیات کو چھوڑ کر صرف ایک جزئیہ: احسان کے متعلق مختصراعرض کیا جائے گا۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اکرم ﷺ سے تیسرا سوال یہ کیا تھا کہ اخبرنی عن الاحسان مجھے بتائیے کہ احسان کیا ہے ؟ اس پر نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا کہ ان تعبدا للہ کانک تراہ و ان لم تکن تراہ فانہ یراک کہ خدائے متعال کی عبادت و بندگی اس طرح کرو ، گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تمھیں دیکھ ہی رہا ہے۔
ہمارے محاورے میں احسان کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو کہا جاتا ہے ، لیکن حدیث شریف اور قرآن پاک میں وارد یہ لفظ کسی اور معنی اور ایک خاص اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ
بلیٰ من اسلم اجھہ للہ وھو محسن فلہ اجرہ عند ربہ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے کہ 
و من احسن دینا ممن اسلم وجھہ للہ وھو محسن 
اس کی وضاحت ایک مثال سے اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ایک ملازم اپنے مالک کے آفس میں کام کرتا ہے ۔ جب مالک سامنے ہوتا ہے تو اس ملازم کے کام کرنے کا انداز اور طرز عمل اس سے مختلف ہوتا ہے جب کہ مالک اس کے سامنے نہیں ہوتا۔ ملازم اپنے باوس کی موجودگی میں جس دھیان ، محنت اور خوب صورتی سے کام کرتا ہے ، وہ مالک کی عدم موجودگی میں نہیں کرتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح احسان کا مطلب یہ ہے کہ بندہ جب خدا تعالیٰ کی عبادت و بندگی بجالائے تو اس تصور و دھیان کے ساتھ بجالائے کہ خدائے بزرگ و برتر حاضر و ناظر ہے اور ہماری ہر حرکت وسکون اس کی نگاہ میں ہے ۔ وہ ہم کوہر لحظہ دیکھ رہا ہے۔ جب اس تصور کے ساتھ کوئی عبادت کی جائے گی تو آپ کے اندر ایک عجیب کیفیت اور خاص شان پیدا ہوگی جو اس صورت میں پیدا نہیں ہوسکتی ، جب اس تصور سے خالی ہوکر کوئی عبادت انجام دی جائے۔
مثال کے طور پر ہم حج کریں، روزہ رکھیں، زکوٰۃ دیں، تو ان تمام اعمال کو انجام دہی کے وقت ہمارا ذہن اس تصور سے خالی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے سامنے اللہ موجود ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ تصور قائم نہ کرسکیں تو یہ حقیقت تو مسلم ہے کہ اللہ تو ہم کودیکھ ہی رہا ہے۔۔ اسی طرح ہم نماز پڑھتے ہیں۔نماز خالص عبادت ہے۔ نماز پڑھنے کی حقیقی لذت اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب کہ ہم احسان کی کیفیت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ادھر نماز کی نیت باندھی اور ادھر دنیا کے تمام تفکرات سامنے آگئے ۔ دن بھر کی جو باتیں ہمیں کسی وقت یاد نہیں آتیں، وہ نماز کی نیت باندھتے ہی ذہنوں میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ ہماری زبانیں تو نماز کے اذکار میں مصروف رہتی ہیں، لیکن ہمارا ذہن و دماغ بالکل بھی نماز میں حاضر نہیں رہتا۔اس کیفیت کے ساتھ نماز پڑھنے سے نماز کی فرضیت تو ساقط ہوجاتی ہے، لیکن نماز کی جو برکات و انوار ہیں، وہ ہمیں حاصل نہیں ہوتے۔ نماز کے فوائد کے حوالے سے قرآن کا اعلان ہے کہ 
ان الصلاۃ تنھیٰ عن الفحشاء والمنکر والبغی (
نماز بے حیائی ، منکرات، ظلم و جبر اور گناہوں سے روک دیتی ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہم زندگی بھر نماز پڑھتے ہیں، اس کے باوجود بھی ہماری نماز کسی برائی کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی۔ آخر وجہ کیا ہے ۔ وجہ یہی ہے کہ ہم نماز کو احسان کی کیفیت کے ساتھ ادا نہیں کرتے ۔ جس دن ہم نماز کو احسان کی کیفیت کے ساتھ ادا کرنے لگیں ، اسی دن ہماری نماز بالیقین تمام گناہوں سے ہمیں روک دے گی۔
اس موقع پر ہم عذر کرتے ہیں کہ اجی کیا کریں ہم کتنی بھی کرشش کریں ، پھر بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہم نماز کو تفکرات سے آزاد ہوکر ادا کرسکیں۔ خدا جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہم نماز میں نہیں ہوتے، تو کوئی چیز یاد کرنے کی کوشش کے باوجود یاد نہیں آتی اور جوں ہی نماز کی نیت باندھتے ہیں، تو زندگی کی تمام بھولی بسری یادوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اور ہمارا ذہن نماز سے نکل کر زمین و آسمان کی سیر کرنے لگتا ہے ۔ 
یہ ناچیز بھی اس مصیبت میں گرفتار تھااور اس سے نجات پانے کے لیے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے خلیفہ و مجاز حضرت مولانا شاہ ابرارالحق نور اللہ مرقدہ کو ایک خط لکھا اور اس کا علاج پوچھا، ان کی طرف سے جو جواب آیا، وہ جواب پیش کیا جارہا ہے تاکہ آپ بھی اسے اختیار کرکے اس مصیبت سے نجات پاسکتے ہیں۔ جواب یہ تھا کہ جب ہم نماز کی نیت باندھ لیں، تو تکبیر تحریمہ کے بعد جو اذکار اور قرآن کی آیتیں پڑھتے ہیں، ان چیزوں کے متعلق سوچنا شروع کردیں۔ اور جس مرحلہ سے گذریں، اس سے آگے کی پڑھنے والی چیزوں کے بارے میں سوچنا شروع کردیں۔ مثال کے طور پر نیت باندھنے کے بعد جس وقت ہم ثنا پڑھیں، تو اس وقت یہ سوچیں کہ آگے ہمیں سورہ فاتحہ پڑھنی ہے۔ جب سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کردیں،تو اس وقت یہ سوچنا شروع کریں کہ اس کے بعد ہمیں کون سی سورۃ کی تلاوت کرنی ہے۔ سورۃ تلاوت کرتے ہوئے رکوع کے بارے میں، رکوع میں سجدہ کے متعلق ، اسی طرح ہر اگلے رکن کے بارے میں سوچنا شروع کریں۔ اس طریقے سے آپ کا ذہن نماز کے ارکان میں گردش کرتا رہے گا اور باہر کے تفکرات شامل نہیں ہوسکیں گے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ اچھی طرح وضو نہ کرنے کے سبب نماز میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے اور انسان کے ذہن کو بھٹکا دیتا ہے ، اس لیے خشو ع و خضوع اور تمام لایعنی فکروں سے آزاد نماز پڑھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اچھی طرح سے وضو کریں اور انتہائی توجہ اور کامل اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرنے کی کوشش کریں اور ذہن بھٹکنے کی صورت میں درج بالا ترکیب پر عمل کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

2 Mar 2018

کیاہم زندہ ہیں؟

کیاہم زندہ ہیں؟
اپنے ضمیر سے ایک سوال: محمد یاسین قاسمی جہازی، جمعیۃ علمائے ہند
اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ زندہ ہیں؟ تو بالیقین اس سوال پر آپ تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے کہ بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ ہم آپ سے محو کلام ہیں، کیا یہ زندہ ہونے کا جیتا جاگتا ثبوت نہیں ہے! ۔ لیکن اس کے جواب میں یہ سوال کرلیا جائے کہ اس زندگی پر انسان و جانورمیں پھر کیا امتیاز ہوگا؟ تو یقیناًسوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کیا واقعی ہم زندہ ہیں؟ اور ہمارا تعلق ایک زندہ قوم سے ہے؟
آئیے ایک فرد اور ایک قوم ہونے کی حیثیت سے زندہ ہونے کی علامات کی روشنی میں اپنے ضمیرسے کچھ سوالات کرتے ہیں۔ اگر ان سوالوں کے جوابات مثبت ہوں گے ، تو ہمیں خود کو اور اپنی قوم کو زندہ ہونے پر فخرکا احساس کرنا چاہیے اور اگر ان کے جوابات میں نفی میں ملتے ہیں، تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں زندہ رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
پہلا سوال
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں، تو اس اعتبار سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ایمان محفوظ بھی ہے یا صرف رسمی مسلمان ہیں۔ اگر ہمارا ایمان محفوظ ہے، تو آئیے تحفظ ایمان کے پیمانے پر اپنے ایمان کو جانچ کردیکھتے ہیں اورمعلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم کتنے حقیقی مسلمان ہیں اور کتنے رسمی مسلمان۔
146146ہمارا ایمان محفوظ ہے145145 اس کو جانچنے کے لیے قرآن و احادیث میں مختلف پیمانے بیان کیے گئے ہیں ، ہم محض ایک دو پیمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
(۱) ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم (الزمر ، آیۃ نمبر ۲۳)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے یہ کہ جب لوگوں کے سامنے کلام الٰہی کی تلاوت کی جاتی ہے، تو کتاب اللہ سن کر اللہ کے خوف اور اس کے کلام کی عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، اور بدن کے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اور بدن اور روح دونوں پر ایک خاص اثر پیدا ہوجاتا ہے۔
اب خود کا جائزہ لیجیے کہ قرآن کی شکل میں ایمان میں اضافہ اور مضبوطی پید اکرنے کے لیے جوکلام الٰہی ہمیں دیا گیا ہے، ہم اس کی کتنی تلاوت کرتے ہیں ۔ اور اگر تلاوت کرتے ہیں، تو کیا ہمارے دل پر اس کلام کی عظمت کا رعب پیدا ہوتا ہے؟ ۔ ہم ہر نماز میں امام صاحب کی قرات کے توسط سے کلام الٰہی سنتے ہیں، اسے سن کر کیا ہمارے دل و ذہن پر کوئی خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے ؟ اگر آپ کا ضمیر اس کا جواب ہاں میں دے، تو آپ کہیے الحمد للہ ، سبحان اللہ کہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم آپ کے ساتھ ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ اس کا جواب146146 نہیں 145145ہے، تو سمجھ لیجیے کہ ہمارا ایمان کمزور ہے، ہم صرف نام کے مسلمان ہیں ، ہمارے اندر ایمان کی کوئی طاقت موجودنہیں ہے۔ ہم ایمان کے اس طاقت سے محروم ہیں، جس کے سامنے پہاڑ کی بلندی اور دریاوں کی طغیانی تھم جایا کرتی تھی اور جسے دیکھ کر شیطان اپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہوجایا کرتا تھا۔
(۲) دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں، یہ سب جانتے ہیں، لیکن ہماری آبادی کے تناسب سے مسجد میں مرد نمازیوں کی اور گھروں میں عورت نمازیوں کی تعداد کتنی ہے؟ ہم صرف اپنے اپنے گھر کا جائزہ لیں، تو یہ کہنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ ایک پرسنٹ بھی نمازی نہیں ہے۔ اس جائزہ میں اگر آپ خود کو اور اپنے گھر کو اس معیار پر پاتے ہیں کہ آپ کے گھر میں سبھی مرد و عورت پنج وقتہ نمازی ہیں، تو آپ کہیے کہ الحمد اللہ، سبحان اللہ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام و اکرام آپ کے ساتھ اور آپ کے اہل خانہ کے ساتھ ہے ۔ اور اس بنیاد پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں بحیثت فرد ابھی ایک زندہ شخصیت کا حامل ہوں، لیکن اگر خدا نخواستہ معاملہ اس کے برعکس ہے ، اور آپ خود اور گھر کے سبھی حضرات نماز کی توفیق سے محروم ہیں،تو یاد رکھیے آپ کو زندہ شخص کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور آپ کا تعلق جس قوم سے ہے، اس قوم کی اکثریت کا یہی حال ہے، تو وہ قوم بھی زندہ کہلانے کا حق نہیں رکھتی۔
دوسرا سوال
ہمیں صاحب ایمان اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہم مذہب اسلام کے فالوور ہیں، لہذا اسی سے دوسرا سوال یہ نکلتا ہے کہ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلام کے لیے کیا کرتے ہیں؟
اس سوال پر اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ ہم اسلام کے لیے کر کیا سکتے ہیں،تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہندستان میں اسلام کے تحفظ کے لیے پانچ بڑے ادارے ہیں: (۱) مدارس و مکاتب۔ (۲) مساجد۔ (۳) خانقاہیں۔ (۴) ملی تنظیمیں۔ (۵) تبلیغی جماعت۔تو ہندستان میں اسلام کے تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ، ان پانچوں اداروں سے اپنی وابستگی اور جان مال اور وقت کی قربانی پیش کریں۔
تو اب آپ اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ آپ ان اداروں سے کس درجہ قلبی لگاو اور تعلق رکھتے ہیں اور ان کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے جانی و مالی اور وقت کی کتنی قربانی پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ الحمد اللہ میں ان سبھی اداروں سے وابستہ ہوں، میں نے خود یا میرے بچے نے مدرسہ میں بھی وقت لگایا ہے، مسجد سے بھی رشتہ مضبوط ہے، جماعت میں بھی وقت لگاتا ہوں اور ملی اداروں کی آواز پر جان مال وقت سب کچھ قربان کرتا رہتا ہوں، کبھی کسی ادارے کو نہ تو چندے سے محروم رکھتا ہوں اور نہ ہی کسی دوسرے تقاضے کے وقت پیچھے ہٹتا ہوں، تو آپ کو کہنا چاہیے کہ الحمد اللہ میں ابھی زندہ ہوں ۔ اور اگر پوری قوم کی یہی حالت ہے تو آپ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ الحمد اللہ میری پوری قوم زندگی کی اس صفت سے متصف ہے، لہذا ہم ایک زندہ قوم ہیں۔
لیکن اگر ضمیر کا جواب یہ ہوتا ہے کہ نہ تو میں خود اور نہ ہی میرے بچے مدارس و مساجد اور خانقاہوں سے جڑے ہیں اور نہ ہی کبھی جماعت میں وقت لگایا ہے، جب بھی جماعت والے کہتے ہیں کہ بھائی رکیں، دین کی بات ہوگی، تو ہم اس جملہ کو سنتے ہیں اچھی جگہ سے شیطان کے بھاگنے کی طرح بھاگتے ہیں، اور کسی ملی تنظیم سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے، تو پھر آپ زندہ کہلانے کا حق نہیں رکھتے۔ اور اگر آپ کی پوری قوم کی یہی کیفیت ہے، تو وہ قوم بھی زندگی کی نعمت سے محروم ہے۔
تیسرا سوال
اللہ تعالیٰ نے سیکڑوں ممالک میں سے ہندستان کو ہمارے لیے منتخب کیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارا یہ ملک گوناگوں خصوصیات و امتیازات سے لبریز ہے۔ ہمیں اس سیکولر ملک میں بہت سے ایسے اختیارات حاصل ہیں، جو بہت سے اسلامی ملکوں میں بھی مسلمانوں کو حاصل نہیں ہے، اس لیے ہمیں اس پر خدائے بررگ و برتر کا بے حد شکر گزار ہونا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ملک میں پیدا فرمایا ہے، جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے، تو اس تعلق سے داعی امت کا فرد ہونے کی بنیاد پر ہمارے اوپر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں، جس میں ایک فرض یہ بھی ہے کہ اس ملک کے تحفظ اور سالمیت کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
یہاں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ جمہوریت میں کسی بھی قوم اور پارٹی کا وقار جماعتی طاقت میں مضمر ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم یا پارٹی اجتماعیت کی طاقت سے محروم ہے، تو اس کا نام ونشان مٹ جانا طے ہے، اس لیے ہندستان میں مسلمانوں کے تحفظ کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ مسلم قوم ہونے کی حیثیت سے کسی متحد و مشترک پلیٹ فارم سے وابستہ ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر ڈیڑھ اینٹ کی عمارت بنانے سے کوئی وجود بننے والا نہیں ہے۔ اس حقیقت کے مد نظر تیسرا سوال یہ ہوگا کہ ہم ہندستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟۔
اگر آپ کا ضمیر یہ جواب دیتا ہے کہ ملی تشخص اور اسلامی امتیازات کو تحفظ فراہم کرنے والی ملی جماعتوں سے میں وابستہ ہوں اور ان کی آواز پر ہمہ وقت پابہ رکاب رہتا ہوں، خواہ وہ جمعیۃ علماء ہند ہو، یا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہو، یا پھر کوئی اور ملی تنظیم ہو، ان کے قائدین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مردانہ وار عملی میدان میں کود پڑتا ہوں، تو آپ کو کہنا چاہیے کہ الحمد اللہ، میں ابھی زندہ ہوں ۔ اور اگر آپ کی پوری قوم کی اجتماعی شعور کا یہی عالم ہے ،تو آپ دعویٰ سے کرسکتے ہیں، الحمد اللہ میری پوری قوم زندہ ہے ۔ لیکن اگر معاملہ اس کا الٹا ہے، آپ کسی بھی جماعت سے وابستہ نہیں ہے، آپ تنہائی کے شکار ہیں ، یعنی آپ کے اندر قومی اتحاد اور ملی اجتماعیت کا شعور نہیں ہے، تو یاد رکھیے کہ پھر آپ بھی زندہ نہیں ہیں اور آپ کی قوم بھی مردہ ہوچکی ہے۔
چوتھا سوال
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پوری امت مسلمہ فرد واحد کی طرح ہے۔ پوری دنیا میں بسنے والی قوم الگ الگ جغرافیائی حدود میں تقسیم ہونے کے باوجود جسم واحد کی طرح ہے، اور یہ اتحاد ہمارے کلمہ کی تلقین ہے، لہذا اگر دنیا کے ایک کونے میں بسنے والے کسی مسلم بھائی کے پیر میں کانٹا چبھے، تو دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والے مسلم بھائی کے دل میں اس کا ٹیس محسوس ہونا ہماری ایمانی نسبت کی روح ہے۔ اس تناظر میں چوتھا سوال یہ ہے کہ آج پورے عالم اسلام میں مسلمان ظلم و زیادتی کے شکار ہیں، ان پر بموں کی برسات ہورہی ہے، ان کے خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں، فلسطین کا قضیہ آپ کے سامنے ہے۔ مصر کے حالات سے بھی آپ بہ خوبی واقف ہیں اور آج شام میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے؟ تو ان ناگفتہ بہ حالات میں مسلم بھائیوں کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ان کے جسم سے نکلنے والے خون کے پھوارے سے آپ کا خون خشک ہوتا ہے؟ کیا معصوم بچوں اورمظلوم عورتوں کی چیخیں آپ کے لیے صدائے درد بنتی ہیں؟ کیا بوڑھوں کی درماندگی آپ کے ذہن و دماغ کی چولیں ہلارہی ہے اور آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ آخر یہ سب کب تک؟ اب آگے کچھ اور نہیں ہونے دوں گا۔ اگر آپ کا ضمیر آپ کو جھنجھوڑتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ لبیک یا فلسطین، لبیک یا سیریا، ائے روئے زمین کے مظلمو! ہم ابھی زندہ ہیں۔ اور میرے جیتے جی ظلم کا سلسلہ اب اور آگے نہیں بڑھ سکتا، تو آپ کو کہنا چاہیے کہ الحمد اللہ ابھی آپ کا ضمیر زندہ ہے، آپ کے اندر انسانیت کی رمق باقی ہے اور آپ ایک زندہ شخص ہیں۔ اور اگر پوری قوم کی یہی کیفیت ہے تو آپ کا یہ دعویٰ حقیقت کا اعلان ہوگا کہ آپ کی قوم بھی زندہ ہے۔ لیکن اگر معاملہ ایسا نہیں ہے، ظلم کی خبریں سن کر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، مظلوموں کی چیخوں سے ہمارے اوپر کوئی اثر نہیں ہوتا، خاک و خون میں غلطاں و پیچاں معصوموں کو دیکھ کر میری آنکھیں نم نہیں ہوتیں۔ خون کے پھوارے چھوڑتے جسموں کا منظر میرے شعور کو دعوت عبرت نہیں دیتا، تو آپ تسلیم کریں یانہ کریں، آپ کے اندر زندگی کی کوئی علامت موجود نہیں ہے۔ اور اگر پوری قوم اسی لاشعوری میں محو خواب ہے، تو وہ قوم بھی مردہ ہوچکی ہے۔
تاریخ شاہد عدل ہے کہ جب کوئی قوم زندہ ہوتی ہے، تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی، وہ جہاں سے گذرتی ہے ،عروج اور اقبال مندی اس کے قدم چومنا فخر سمجھتی ہے۔ایسی قوم کو نہ تو زیر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی غلامی کی زنجیریں اسے روک سکتی ہے،پھر ہوتا یہ ہے کہ وہ ہوائے حریت کی طرح پورے عالم پر چھا جاتی ہے۔ روئے زمین پر بسنے والی سبھی مخلوق اس کے زیر نگیں ہوتی ہے، اس کے حمد و ثنا کے پھریرے اڑتے ہیں اور اس کی ہر ادا کی تقلید شرافت و نجابت کا معیار قرار پاتی ہے۔
لیکن جو قوم مردہ ہوجاتی ہے، تو محکومیت ہی اس کا نصب العین ہوتی ہے، اس کی حیثیت فٹ بال کی مانند ہوتی ہے، جو جب چاہتا ہے لات ماردیتا ہے، اور اسے لات کھانا پڑتی ہے، لیکن زندگی کا حق پھر بھی رکھتی ہے، کیوں کہ وہ صرف جسم کے اعتبار سے غلام ہوتی ہے، لیکن فکری غلامی بھی مسلط ہوجائے، تو پھر اس قوم کو ہلاکت و بربادی سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی، کیوں کہ فکری غلامی اور مایوسیت کا کوئی علاج ہی نہیں ہے۔
اس لیے ہمارے قائدین اور اکابرین بار بار ہمیں تلقین کرتے ہیں کہ حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر چہ زندہ ہونے کے جتنے سوالات ہیں، ان سب کے جوابات نفی میں ہیں، لیکن پھر بھی اگر ہم ہمت نہ ہاریں، ہم قنوطیت کے شکار نہ ہوں، اور مایوسی کو اپنے دل کے اندر جگہ نہ دیں، تو ان شاء اللہ ہمیں کوئی بھی قوم اور پارٹی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ وقتی طور پر حالات آسکتے ہیں، لیکن ہم ہمیشہ کے لیے اپاہج ہوجائیں، یہ نا پہلے ہوا تھا اور نہ ابھی تک ہوا ہے اور ان شاء اللہ نہ ہونے دیں گے۔ ہم عزم و حوصلے سے جینے کا وہ سلیقہ رکھتے ہیں، جسے دیکھ کر مردہ شخص بھی زندہ ہوجاتا ہے ، تو پھر یہ عارضی حالات کچھ بھی نہیں ہیں، ہم اسے ٹھوکروں سے اڑا سکتے ہیں۔ اور پھر ان شاء اللہ وہ صبح ضرور آئے گی، جب ہماری عظمت رفتہ ہماری قدم بوسی کے لیے ہمارے منتظر ہوگی۔