6 Jun 2017

لمحہ مسرت میں افسردگی

لمحہ مسرت میں افسردگی
(زمانہ طالب علمی کی کچھ لاشعوری کاوشیں)
محمد یاسین قاسمی جمعیۃ علماء ہند
میری فکر پریشاں اور تصور حیراں کے فیصلے کا عجیب حال ہے کہ جو لمحہ دنیا کے لیے مسرت افگن اور سرور آمیز ہوتا ہے، وہی لمحہ میرے لیے باعث الم ہوتا ہے۔ دنیا جس گھڑی میں اپنی خوشیوں کے پھریرے اڑاتی ہے، وہی گھڑی میرے لیے اندوہ و غم کا سامان ڈھونڈھتی ہے ۔ جو وقت دنیا کو پیغام جاں فزا اورمژدہ روح افزا سناتا ہے، وہی وقت میرے لیے داستان بے ستون ، حکایت کوہ کن اور قصہ برق و خرمن کی سمع خراشی کرتا ہے؛ لیکن یہ کوئی اچمبھے کی بات نہیں ، کیوں کہ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ مثلا کوئی تلخ شراب پینے کا رسیا ہوتا ہے تو اس کو اس تلخی ہی میں اتنا لطف آتا ہے کہ جیسے اس کے لیے پوری کائنات کی لذتیں اس میں سماگئی ہیں۔
عید ہو یا بقرعید، چاند نظر آتے ہی لوگوں کی خوشیوں کی انتہا نہیں رہتی اور وہ مسرتوں سے پھولے نہیں سماتے۔ خوشی کے ایک ایک راگ کو چھیڑ کر مسرت کے ترانے گاتے ہیں ، غرض اتنا مسرور ہوتے ہیں کہ سرور میں چور چور ہوجاتے ہیں ؛ لیکن میرے دل کی کیفیت اس بیوہ کی سی ہوتی ہے ، جس کا شوہر عین عید کے دن زبردستی قتل کردیا گیا ہواور اس یتیم کی سی ہوتی ہے ، جس کے لیے عید ، عید نہیں ؛ بلکہ ایک وعید ہوتی ہے ۔ اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جب لوگ اپنی خوشیوں کی تیاریوں میں منہمک ہوجاتے ہیں اور زرق و برق لباس پہنے اور مٹھائیاں لیے پھرتے ہیں ، تو مجھے ایک یتیم کی ہچکیاں اور بیوہ کی آہیں سنائی دینے لگتی ہیں اور ان کی وہ کیفیت سامنے آجاتی ہے کہ مسرت کے اس حسین موقع پر بھی ان کے چہرے پر خوشی کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کی حالت کو دیکھ کر میں بھی تار غم کو چھیڑتا ہوں تاکہ زہر غم کا وہ پیالہ ہمیں بھی نصیب ہو جس کی لذت سے قہقہ عیش لگانے والے اور عید میں خوشیوں کے پھریرے اڑانے والے ناآشنا و بے خبر ہیں ۔
ششماہی امتحان کا اعلان ہوا تو میرے دل نے خوشیوں کا بگل بجادیا ، ذہن نے فرحت اور دماغ نے مسرت کا احساس کیا کہ عنقریب چھ گھنٹے کے پابند سلاسل، ہوائے حریت سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والے ہیں ۔ وقت کے چھ قفس میں مقید تن کو آزادی ملنے والی ہے اور میں خود کو اب آزاد پاوں گا، لیکن میں نے دیکھا کہ اس اعلان سے دوسروں کے چہرے اتر گئے، ان کے ہونٹوں کی ہنسی چھن گئی ، مسرتوں سے وہ نا آشنا ہوگئے، ان کا دل غم سے لبریز ہوگیا، ان کے سینے فکر امتحان سے پھٹنے لگے، وہ سراپا غم و حسرت کا علم بردار بن گیا، ایسا لگنے لگا کہ گویا آسمان ان کے سروں پر گر پڑا ہے ، یا ان کی زندگی کی تمام عیش پامال کردیا گیا ہے یا پھر ان کے خاندان کو جڑو بن سے اکھاڑ دیا گیا ہے ۔ پھر جب امتحان کے بعد کچھ دنوں کے لیے چھٹی ہوئی ، تو سب کے چہرے کھل اٹھے، سب خوشیوں کے پھریرے اڑانے لگے اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے موسم خزاں میں یکایک پھول کھل اٹھے ہوں ۔ مجھے بھی چھٹی ملی ۔ میں بھی اپنی خوشی کا متلاشی ہوا، لیکن پتہ چلا کہ جس کی تقدیر نے ایسے پرمسرت لمحوں میں افسردگی رقم کی ہو، حصول فرحت کے لیے چاہے وہ لاکھ ہاتھ پیر مارے، خوشی اس پر مہربان نہیں ہوسکتی ۔ سب نے اس چھٹی سے خوط لطف اندوزی کی، لیکن میرے نصیب میں جو دارالعلوم کی چہار دیواری مقدر تھی وہی رہی۔ بے بسی نے ہاتھ پیر مضبوط رسیوں سے یوں جکڑدیا کہ اس عقدہ مشکل کی کشود میں تمام قوتیں صرف کردیں؛ لیکن تمام کوششیں لاحاصل و بے سود ثابت ہوئیں۔ میں خوشی کی تلاش کے لیے حیران و سرگرداں رہا، لیکن دور دور تک نہیں ملی، اسے ہر سمت تلاش کیا ، لیکن کہیں نظر نہیں آئی ۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کہ اب دنیا سے مسرت ہی اٹھالی گئی ہو۔ جب انتہائی کوششوں کے بعد بھی خوشی میسر نہیں آئی تو بالآخر غذائے روح یعنی غم کا متلاشی ہوا اور تقدیر کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے افسردگی کا پرتپاک استقبال کیا اور پژمردگی کو رفیق حیات ٹھہرالیا۔
غم تو غذائے روح ہے اس سے گریز کیا
جس کو ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے
اس لیے دارالعلوم کی چہار دیواری کو اختیار کرکے دنیا کی تمام رنگینیوں سے منھ موڑلیا، تالمحہ فرصت اسی کی گود میں پھلنے پھولنے کا عزم کرلیا ، اب مجھ کو مادر علمی سے کوئی جدا نہیں کرسکتااور نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت اس ماں کی محبت سے مجھے روک سکتی ہے۔ اور نہ ہی مجھے کبھی مادر علمی بھول سکتی ہے ، کیوں کہ ایسے کیسے ہوسکتا ہے اور آج تک ایسا ہوا ہی نہیں ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے کو بھول جائے ۔ گو کہ گردش ایام کی وجہ سے یہ طالبان علوم مجھے پہچاننے سے انکار کردیں ، لیکن یہ حسین درودیوار، یہ گنبد بیضا اور قال اللہ و قال الرسول کا حسین نغمہ ان شاء اللہ کبھی بھی نہیں بھولے گا، بلکہ مجھے ہمیشہ یاد رکھے گا۔ 

صدر جمعیۃ اور سکریٹری جمعیۃ کا بھاگلپور و گڈا کا تعزیتی و اصلاحی دورہ


تحریر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
۱۳؍ ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۶؍ ستمبر ۲۰۱۶ء بروز جمعہ امیر الہند رابع و صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند ، ضلع بھاگلپور بہار میں واقع کروڈیہہ تشریف لائے۔ یہ وہی گاوں ہے جو ۱۹۸۹ء کے بھاگلپور فساد میں جمعیۃ علماء ہند کا امدادی مرکز تھا اور فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ بارہا حالات کے جائزہ کے لیے تشریف لائے اور حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی تقریبا تین مہینے تک یہاں رہ کر ریلیف اور باز آباد کاری کا کام انجام دیتے رہے۔حضرت فدائے ملت ؒ کے میزبان حضرت قاری صالح صاحب نور اللہ مرقدہ ہوا کرتے تھے، جو حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے خلیفہ تھے۔جن کا گذشتہ ۵ ؍ اگست ۲۰۱۶ بروز جمعرات انتقال ہوگیا تھا۔ حضرات اکابرین کا یہ سفرحضرت قاری صالح صاحب نور اللہ مرقدہ کی تعزیت اور ان کے صاحب زادہ حضرت مولانا مصلح الدین صاحب استاذ مدرسہ حسینیہ لال دروازہ جونپور یوپی کی صاحب زادی کا نکاح پڑھانے کے لیے تھا۔حضرات اکابر کے یہاں قدم رنجہ فرماتے ہی اس سفر کے اصل میزبان حضرت قاری صاحب ؒ کے صاحب زادگان ؛ بطور خاص حضرت مولانا مصلح الدین صاحب دامت برکاتہم، حضرات مولانا فہیم الدین، مولانا بہا ء الدین، عظیم الدین اور حافظ حارث صاحبان نے ان کی شایان شان استقبال کیا۔
بندہ ناچیز کو جب اس علاقے میں ان حضرات کی آمد کی خبر معلوم ہوئی ، تو مسرت کی انتہا نہ رہی اور یہ طے کیا گیا کہ ان کی مبارک آمد کو یادگار بنایا جائے۔ چنانچہ اس کے لیے کوشش کی گئی اور راقم کے گاوں جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ میں ایک عظیم الشان استقبالیہ اجلاس عام کا اعلان کردیا گیا۔ اور اس کے لیے زور شور سے تیاری شروع کردی گئی ۔ جس میں علاقے کے سبھی مدارس کے ذمہ داران، ائمہ کرام اور موذنین حضرات کو خصوصی دعوت دی گئی ۔
ان دونوں معزز مہمانوں کی کروڈیہہ پہنچے کی اطلاع ملتے ہی دارالعلوم دیوبند کے صدر شعبہ خطاطی حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی، شاگرد شیخ الاسلام حضرت مولانا مظہر الحق صاحب قاسمی اور یہ ناچیز ان حضرات کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ نماز جمعہ کے فورا بعد کروڈیہہ کی جامع مسجد میں نکاح ہوا ۔ اس کے بعد ظہرانہ اور تھوڑی دیر کا قیلولہ ۔ بعد ازاں حضرت صدر محترم اور سکریٹری صاحبان سے اجلاس میں تشریف آوری کی درخواست پیش کی گئی ؛ لیکن حضرت صدر محترم کے ضعف و علالت کی بنیاد پر یہ طے پایا کہ حضرت یہی آرام کریں گے اور حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی جلسہ کی زینت میں اضافہ فرمائیں گے۔ 
چنانچہ حسب مشورہ حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی کے ہمراہ استقبالیان کا وفد بعد نماز عصر جلسہ کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ہاٹ میں استقبالیہ جلوس رکھا گیا تھا، جو تاخیر کے سبب ملتوی کردیا گیا ، البتہ مدرسے میں حضرت کا کچھ دیر کا دعائیہ قیام ہوا۔ یہاں پر حضرت مفتی محمد اسامہ اور حضرت مفتی خلیل صاحبان نے پرتپاک استقبال کیا ۔ یہاں سے فراغت کے بعد قافلہ آگے کے لیے روانہ ہوا اور دس کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع کرما میں دوسرے استقبالیہ جلوس سے استقبال کیا گیا ۔ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں افراد قطار در قطار کھڑے تھے اور جمعیۃ زندہ باد ، دارالعلوم دیوبند زندہ باد ، صدر محترم زندہ باد اور مولانا حکیم الدین قاسمی زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کر رہے تھے۔ یہاں سے جلسہ گاہ دس کیلو میٹر کے فاصلہ پر تھا، اس پورے دس کیلومیٹر کی سڑک پر بائک سواروں کا دو رویہ قطار اور مہمان مکرم کی گاڑی کے آگے پیچھے افراد ہاتھ میں جمعیۃ کا جھنڈا لہراتے نعرہ تحسین و آفرین بلند کرتے رہے۔ جب قافلہ استقبالیان گاوں پہنچا تو پھولوں کی بارش کی گئی ۔ گاڑی کے آگے سڑکے کے دونوں کنارے بچوں اور جوانوں کی صف بستہ دیوار بنائی گئی اور نعرہ ہائے استقبال بلند کرتے ہوئے قیام گاہ تک پہنچے۔
رات جلسے میں مہمان مکرم کی آمد پر اظہار مسرت کے لیے استقبالیہ کلمات پیش کیے گئے اور ایک نظم بھی پڑھی گئی ، جس کا ایک شعر یہ تھا کہ 
زہے نصیب کہ آئے ہیں جو حکیم الدین 
عوام ان پہ ہیں شیدا جہاز قطعہ میں
بعد ازاں مہمان گرامی قدر کا پرمغز خطاب ہوا۔جس میں انھوں نے علاقے میں رائج غیر اسلامی رسوم و رواج پرگفتگو فرمائی ۔ جمعیۃ کی خدمات کا تذکرہ کیا اور اس کی حالیہ سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اجمیر میں۱۳؍ نومبر کو ہورہے ۳۳ویں اجلاس عام میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ جلسہ تا اذان فجر جاری رہا ۔ قرب و جوار کے عوام الناس کا جم غفیر جلسہ کی کامیابی کی ضمانت دے رہا تھا ۔
۱۷؍ ستمبر بعد نماز فجر مہمان شفیق حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی کا پروگرام جامع مسجد جہاز قطعہ میں تھا، جہاں انھوں نے نماز بعد مختصر مگر حکمت و معرفت سے لبریز خطاب کیا۔ پھر اس ناچیز کے غربت کدہ پر تشریف لاکر ہماری عزت افزائی فرمائی۔ یہاں سے فراغت کے بعد پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق علاقے کے مختلف مقامات پر دورہ کے لیے نکل پڑے ۔ سب سے پہلے جہاز قطعہ سے آٹھ کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع جامعہ خدیجۃ الکبریٰ پہنچے اور دعائیہ مجلس سے فراغت کے بعد آگے کے لیے روانہ ہوگئے۔ بسنترائے ہوتے ہوئے بیلڈھیہ پہنچے۔ آج کا بڑا پروگرام نرینی میں تھا، لیکن اس راستے میں آنے والے اہل مدارس نے مہمان کے اعزاز و استقبال کے لیے چھوٹا موٹا پروگرام طے کیا ہوا تھا ۔ ان کے طے کردہ پروگرام کے مطابق اسی جگہ سے ہاتھ میں جھنڈا اور زبان پر نعرہ جمعیۃ لگاتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں بائک سوار افراد استقبالیہ جذبات پیش کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ۔ یہاں سے دس کیلو میٹر پر واقع کیتھہ ٹیکر کے مدرسے میں ایک مختصر پروگرام ہوا اور دعا کے فورا بعد آگے کے لیے نکل پڑے۔ یہاں سے تین کیلو میٹر کی دوری پر واقع ایک بڑا مدرسہ ہے جامعہ حسینیہ ملکی ۔ اس کے مہتمم مولانا عبدالعزیز صاحب منتظر راہ تھے ۔ انھوں نے اپنے طلبہ و اساتذہ اور معززین شہر کے ساتھ حضرت مہمان کا استقبال کیا اور جم کر نعرہ تحسین لگائے گئے۔ یہاں سے فراغت کے بعد نرینی کے لیے قافلہ نکل پڑا ۔ یہ قافلہ جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا استقبالیوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی ، یہاں تک کہ نرینی پہنچتے پہنتے آدمیوں کا میلہ لگ گیا ۔ یہاں کا منظر ہی کچھ عجیب نظر آیا۔ گاوں کے چھپروں پر، معصوم بچوں کے ہاتھوں میں اور نوجوانان کی گاڑیوں میں ہر جگہ جمعیۃ ہی کا جھنڈا نظر آرہا تھا ۔المختصر یہاں پہنچتے ہی معززین شہر کے ساتھ ساتھ وہاں کے ودھایک بھی استقبالیہ قطار میں تھے ۔ یہاں سب سے پہلے مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی نے مدرسہ نورالعلوم کے نام سے ایک مدرسے کا سنگ بنیاد رکھا ، بعد ازاں مختصر تلاوت و نعت کے بعد ودھایک کی مختصر تقریر ہوئی ۔پھر مہمان مکرم کی پندرہ بیس منٹ کا خطاب ہوا ۔ پروگرام ختم ہوتے ہی قافلہ بدلو چک کے لیے نکل پڑا، جہاں حضرت صدر محترم مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری دامت برکاتہم موجود تھے اور شادی کا ایک پروگرام تھا۔یہاں حضرت صدر محترم نے مولانا ابو طلحہ صاحب قاسمی کا نکاح پڑھایااور ظہرانہ تناول کرنے کے بعد حضرت صدر محترم اور سکریٹری صاحبان کے ہمراہ تقریبا بیس آدمیوں کا قافلہ مولانا داود صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ جو حضرت فدائے ملت نور اللہ مرقدہ کے مجاز بیعت تھے کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے سنہولی آیا۔ یہاں ان کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے جانشین فدائے ملت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کا مکتوب تعزیت نامہ دیا گیا اور حمدو نعت کے بعد حضرت صدر محترم کا پر مغز خطاب ہوا۔ اس میں انھوں نے روح کی حقیقت ، موت کی صداقت اور اعمال کے حسن و قبح کی بنیاد پر مردگان کے ساتھ معاملہ پر جامع و سیر حاصل کلام کیا۔ حضرت کی تقریر کے دوران شاید ہی کوئی ایسی آنکھ ہو جس سے آنسو نہ چھلکے ہوں اور شاید ہی کوئی ایسا دل ہو جس پر بے قراری کی کیفیت طاری نہ ہوئی ہو۔ پھر یہاں سے یہ قافلہ چمپانگر بھاگلپورپہنچا ، جہاں حضرت صدر محترم کے ساتھی حضرت مولانا ظہیر صاحب کے یہاں قیام و طعام ہوا۔اگلے دن صبح یعنی ۱۸؍ ستمبر کو وکرم شلا سے دہلی کے لیے واپسی ہوگئی ۔اس پورے سفر میں رہبری و رہنمائی کا فریضہ مولانا فرید الدین اور مولانا بہاء الدین صاحب استاذ مدرسہ تعلیم الدین گجرات نے مشترکہ طور پر انجام دیا۔ گڈا کے سفر کے دوران مفتی نظام الدین صاحب قاسمی استاذ مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد ، مفتی زاہد صاحب قاسمی استاذ جامعہ خدیجۃ الکبریٰ اور یہ ناچیز مہمان مکرم کے ہم رکاب رہا۔
ہم اہل علاقہ ان دونوں بزرگوار کے ممنون و مشکور ہیں اور ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ ان حضرات اکابر کا سایہ دیر ہمارے سروں پر قائم و دائم فرما اور ان کی نیک توجہات و برکات سے اہل علاقہ شاداب رہیں ، آباد رہیں ۔ اللہم آمین ۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی مبارک


تحریر:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
رابطہ: 9871552408
مسلمانوں کے ایک طبقہ کا عقیدہ یہ ہے کہ محرم الحرام غم کا مہینہ ہے ، کیوں کہ نواسہ رسول سردار نوجوانان جنت حضرت حسینؓ کو اسی مہینے کے عاشورہ کے دن بے دردی سے شہید کردیا گیا تھا۔ اس واقعہ کی بنیاد پر اس مہینے میں خوشی و مسرت پیدا کرنے والی کوئی بھی تقریب یا جشن منعقد کرنا اس کی حرمت کی پامالی تصور کرتے ہیں ؛ بالخصوص شادی بیاہ کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہیں ۔ حالاں کہ اسلام کی تعلیمات اور نبی اکرم ﷺ کا عمل اس عقیدے کی تردید کرتا ہے ؛ کیوں کہ خود سرکار دوجہاں ﷺ کے دو دو نکاح خود اسی مہینے میں ہوئے ہیں ۔ امہات المومنین حضرت ام سلمہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما کی شادی ماہ محرم الحرام میں ہی ہوئی ہے۔اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے اپنی سب سے چہیتی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ الزھرا کا نکاح بھی اسی مہینے کے سن ۲ ہجری میں کیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے جگر کے ٹکڑے کا نکاح کس طرح فرمایا ہے۔
آں حضور ﷺ کے سامنے حضرت فاطمہؓ کے لیے کئی پیغامات آئے ؛ لیکن ہر پیغام پر آپ ﷺ نے خاموشی اختیار فرمائی۔سب سے حضرت ابوبکر ،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے اس سعادت کے حصول کی تمنا کی، لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انھیں دونوں صاحبان نے حضرت علی کو مشورہ دیا کہ وہ پیغام بھیجیں ۔ حضرت ام ایمن نے بھی اس کی تائید کی ۔ چنانچہ حضرت علی تیار ہوگئے اور شرماتے ہوئے کاشانہ نبوی پر حاضر ہوکراپنا مدعا عرض کیا ۔ حضور نے سن کر ارشاد فرمایا کہ اھلا و سھلا۔ لیکن ساتھ ہی حضور نے پوچھا کہ آپ کے پاس مہر میں دینے کے لیے کچھ ہے؟ حضرت علی نے عرض کیا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ سرکار دو عالم نے پھر پوچھا کہ جنگ بدر میں جو زرہ ملی تھی وہ کہاں ہے؟ اس پر انھوں نے کہا کہ وہ تو موجود ہے۔ پھر سرکار نے فرمایا کہ وہی زرہ فاطمہ کو مہر میں دے دینا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ زرہ لے کر بازار گئے اور مدینہ نبوی کے مشہور و امین تاجر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ۔ انھوں نے بازار میں آنے کی وجہ پوچھی ، تو حضرت علی نے جواب دیا کہ زرہ بیچنے آیا ہوں۔ حضرت عثمان غنیؓ نے پوچھا کتنے میں ؟ حضرت علی نے کہا ۴۸۰ درہم ۔ چنانچہ حضرت عثمان نے زرہ خرید لیا اور پیسہ ادا کردیے اور زرہ کو بھی شادی کے تحفہ کے طور پر حضرت علیؓکو واپس کردیا ۔ حضرت علیؓ پیسہ اور زرہ لے کر کاشانہ نبوت پر حاضر ہوئے اور دونوں چیزیں سرکار کی خدمت میں پیش کردیں۔اور حضرت عثمان کے اس حسن سلوک بھی تذکرہ کیا ۔ سرکار دو عالم ﷺ نے حضرت عثمانؓ کو دعا دی اور رقم حضرت ابوبکرؓ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ اور شادی کے سامان لے آؤ۔حضرت ابوبکرؓ نے ایک لحاف، ایک کھجور کی چھال بھرا ہوا گدا، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور دو مٹی کے گھڑے لے آئے۔ جب تیاریاں مکمل ہوگئیں ، تو حضور ﷺ نے اپنے خادم حضرت انسؓ کو حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کے فلاں فلاں حضرات کو بلا لائیں۔ چنانچہ کچھ ہی دیر میں حضرات ابوبکر، عمر فاروق، عثمان غنی، سعد اور دیگر حضرات کو بلا لائے۔
مجلس نکاح منعقد ہوئی ۔ خود سرور کائنات نے بصیروت افروز خطبہ نکاح پڑھا اور ارشاد فرمایا کہ ائے علی! میں نے تمھارا نکاح فاطمہ بنت محمد سے چار سو مثقال حق مہر کے عوض کردیا ہے ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ مجھے منظور ہے۔پھر حضور ﷺ نے حضرات شیخین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ 
انی اشھدکم انی زوجت فاطمۃ بعلی (کشف الغمہ ، ؍۱۵۴)
پھر زوجین کو دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ 
جمع اللہ شملکما و بارک علیکما و اخرج منکما کنزا طیبا (اصابہ)۔
ایجاب و قبول کے بعد کھجور سے بھری ایک پلیٹ منگوائی گئی اور مجلس میں تقسیم کردی گئی ۔
جب رخصتی کا وقت آیا تو حضرت علیؓ نے ایک مکان کرایہ پر لیا ۔ ادھر حضرت ام ایمن سیدہ کو لینے کے لیے آئیں۔ حضور نے امہات المومنین کو رخصتی کی تیاری کا حکم دیا ۔ رخصتی کی اس فرحت و غم کی ملی جلی کیفیت میں حضرت ام سلمہؓ نے کہا کہ ائے کاش اپنی بیٹی کی رخصتی کے وقت خدیجہ زندہ ہوتیں، یہ سننا تھا کہ فرط جذبہ محبت آنکھوں سے بہہ پڑا اور ارشاد فرمایا کہ خدیجۃ و این مثل خدیجہ صدقتنی وارزقتنی علی دین اللہ و اعانتنی علیہ بمالھا۔
ماں کی یاد نے حضرت سیدہ کو بھی بے چین کردیا اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ۔ حضور نے تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یا فاطمۃ اللہ غنی و انتم الفقراء۔ پھر ارشاد فرمایا کہ فاطمۃ بضعۃ منی ۔ پھر پانی کا ایک پیالہ منگوایا ، اس میں اپنی کلی کا پانی ملاکر سیدہ کے جسم اطہر پر چھڑکا اور یہ دعا ارشاد فرمائی کہ 
انی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطان الرجیم
حضرت سیدہ یہ دعا لے کر حضرت علی کے گھر رخصت ہوگئیں۔ یہ کرایہ کا مکان تھا ، جس پر حضرت فاطمہؓ نے اپنے شوہر کو مشورہ دیا کہ آپ حارثہ بن نعمان سے مکان مانگ لیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ مجھے مانگنے میں عار محسوس ہورہی ہے۔ بعد میں جب یہ خبر حضرت حارثہ کو پہنچی ، تو وہ فورا خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور مکان کی پیش کش کی چنانچہ حضور نے برکت دعا دی اور پھر یہ دونوں اسی مکان میں منتقل ہوگئے۔

دیوبند، جمعیۃ، اجمیر شریف اور مزارات اولیا


تحریر:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد یاسین قاسمی گڈاوی دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند
گذشتہ کچھ دنوں پہلے، حالیہ سرکارکی مسلکی تفرقہ بازی کی سیاست کے دام فریب میں گرفتار مسلمانوں کے کچھ افراد نے مسلک و صوفیت کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی ایک گھناونی سازش شروع کردی تھی۔ جس سے ہندستان کی فضا کچھ اس طرح سے بننے لگی گویا کہ مسلمانوں کا موجودہ رہی سہی اتحاد بھی پارہ پارہ ہوکر رہ جائے گا۔ایسے پریشان کن حالات میں جمعیۃ علماء ہند نے حالات کے دھارے کو موڑنے اور مسلمانوں کی مسلکی یک جہتی برقرار رکھنے کے لیے ۱۴؍ فروری ۲۰۱۶ ء کو میرٹھ میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کی ، جس کے اسٹیج سے اس کے جنرل سکریٹری قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب نے تمام مسلکوں کو دعوت اتحاد دیتے ہوئے کہا کہ ہم مسلمانوں کو مسلک کے نام پر بانٹنے کو برداشت نہیں کریں گے ۔ اگر کوئی دیوبندی اور بریلوی کے نام پر اس ملک کے لوگوں کو لڑائے گا، ہم اس سے ٹکر لیں گے اور کسی قیمت پر ہم آپس میں لڑائی نہیں کریں گے۔ سارے مسلک کے افراد ہمارے اپنے ہیں، البتہ کسی کو اگر ہم سے غلط فہمی ہے ، تو ہم اس کی صفائی دینے کو تیار ہیں، ہمارے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ اگر وہ قیادت چاہتے ہیں، تو ہم ان کی قیادت میں ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہیں ۔ اس دعوت اتحاد کا مثبت جواب یہ ملا کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے جناب مولانا توقیر رضا صاحب نے تمام اختلافات کو بھلاتے ہوئے ۹؍ مئی ۲۰۱۶ کو دارالعلوم دیوبند کا دورہ کیا ۔ ادھر مسلکی اتحاد اور مذہبی منافرت کو ختم کرنے کے لیے کوشاں جمعیۃ علماء ہند نے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے دوسرا مضبوط قدم یہ اٹھایا کہ اپنا تینتیسواں اجلاس عام خواجہ کی نگری کو خواجہ غریب نواز نگر کا نام دیتے ہوئے بتاریخ ۱۲، ۱۳؍ نومبر ۲۰۱۶ ء اجمیر شریف میں کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند کا ترجمان ہفت روزہ الجمعیۃ کا ایک خصوصی نمبر شائع کیا ، جس کا عنوان ’’خواجہ غریب نوازؒ و مشائخ چشت نمبر ‘‘ رکھا گیا۔ 
امت مسلمہ میں تفرقہ بازی اور فرقہ بندی کے لیے عوام الناس میں یہ غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ علمائے دیوبند اور دیوبندی مکتب فکر کے افراد اولیا اللہ کو نہیں مانتے اور معاذ اللہ نیک بندگان الٰہی کے مزارات کی زیارت کو کفر خیال کرتے ہیں ۔ حالاں کہ تاریخ شاہد عدل ہے کہ یہ مکتب فکر جس قدر بزرگان دین کے تقدس و احترام کا قائل ہے ، اس قدر شاید ہی کوئی اور ہو۔ جمعیۃ علماء ہند کے یہ دونوں عمل: اجمیرشریف میں تینتیسواں اجلاس عام اور الجمعیۃ کا خواجہ غریب نواز نمبر اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے تیر بہدف ثابت ہوگی اور لوگوں کے سامنے یہ تاریخ آئے گی کہ علمائے دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کاحضرت خواجہؒ اور ان کی نگری اجمیر شریف سے دیرینہ تعلق رہا ہے۔ تعلق ظاہری اور تعلق باطنی دونوں تعلقات کی کڑیاں بہت مضبوط اور مستحکم رہی ہیں ۔ ایک طرف جہاں علمائے دیوبند نے اپنی روحانی تشنگی کو تسکین دینے کے لیے حضرت خواجہ ؒ کے سلسلہ چشتیہ کو گلے لگایا اور اس کو آگے بڑھایا ہے ، وہیں دربار خواجہ ؒ کی زیارت اور وہاں کے تقدس و احترام کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن جدوجہد کی ہے ۔ حضرات علماء دیوبند کی سلسلہ چشتیہ سے وابستگی کے متعلق یہ تاریخی شہادت ملاحظہ فرمائیے ۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ سابق صدر جمعیۃ علماء ہند و استاذ دارالعلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں کہ 
’’حضرت اقدس قدس سرہ العزیز (مولانا گنگوہیؒ ) نے جب مجھے بیعت فرمایا، تو چاروں خانوادوں : چشتیہ، نقشبندیہ، قادریہ،سہروردیہ میں بیعت فرمایا۔ پھر مجھ سے فرمایا: میں نے چاروں میں بیعت اس لیے کیا ہے کہ لوگ جس طریقے میں بیعت ہوئے ہیں ، اسی کی تفصیل(بڑائی) اور ترجیح ؛ بلکہ غلو (زیادتی ) میں پڑجاتے ہیں اور دوسرے طریقے کو مجروح اور غیر اہم قرار دیتے اور گرانے میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یہ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (مکتوبات شیخ الاسلام ج؍ ۳ ، ص؍۶۲) 
حضرت شیخ الاسلام ؒ اپنے مکتوب میں دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ 
’’واقعہ یہ ہے کہ حضرات چشتیہ رحمہم اللہ تعالیٰ جن کا طریقہ ہی ہمارے حضرات مشائخ حضرت حاجی امدادا للہ صاحب ؒ ، حضرت گنگوہیؒ ، حضرت نانوتویؒ ، حضرت شیخ الہند (حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ ) کا طریقہ اور اصلی اسلوب ہے ۔‘‘ (مکتوبات شیخ الاسلام ج؍۳، ص؍ ۱۵۸)
دارالعلوم دیوبند کے اولین صدر المدرسین حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۔جو عارف باللہ اور صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے اور کبھی کبھار ان پرمجذوبیت کی کیفیت کا غلبہ ہوجاتا تھا۔ ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میری روحانی تکمیل ابھی نہیں ہوپائی ہے ، اس لیے یہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ بانی دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ سے بار بار کہتے کہ میری تکمیل کراو، میری تکمیل کراو۔ ان حضرات کا جواب ہوتا کہ آپ ناقص نہیں رہ گئے ہیں۔ آپ دارالعلوم دیوبند میں حدیث کا درس دیتے ہیں ، اگر کچھ کمی بھی رہ گئی ہوگی تو اسی درس سے تکمیل ہوجائے گی ، لیکن مولانا کی متجسس طبیعت اور تلاش و جستجو کے شوق کو تسکین نہ ہوئی اور ایک دن اچانک اجمیر کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔ اس واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند تحریرفرماتے ہیں کہ 
’’اس لیے منصوبہ بنایا کہ میں اجمیرشریف حاضر ہوکر حضرت خواجہ قدس سرہٗ سے اپنی تکمیل کراؤں اور ان سے باطنی اکتساب کرکے حدِکمال کو پہنچوں۔ اس منصوبے کے تحت اسی مجذوبانہ انداز سے ایک شب میں بلااطلاع اور بلاکسی کو خبر کیے ہوئے اجمیرشریف کی راہ لی۔ دیوبند میں جب صبح کو مولانا کا کہیں پتہ نہ ملا تو لوگوں نے پریشان ہوکر گنگوہ اور نانوتہ آدمی دوڑائے کہ شاید وہاں چلے گئے ہوں، مگر کہیں پتہ نہ ملا۔ لوگ اِدھر پریشان تھے اور اُدھر مولانا نے روضۂ خواجہ کے قریب کی ایک پہاڑی پر ایک کٹی لگا کر اپنی جائے رہائش بنائی۔ درس سے دامن جھاڑ چکے تھے۔ ذکر و مراقبہ مشغلہ تھا۔ مزار شریف پر حاضر ہوکر بہت بہت دیر تک مراقب رہتے۔ اسی مراقبہ میں انکشاف ہوا، حضرت خواجہؒ کی طرف سے ارشاد ہورہا ہے کہ آپ کی تکمیل مدرسہ دیوبند میں حدیث پڑھانے ہی سے ہوگی۔ آپ وہیں جائیں اور ساتھ ہی حضرت خواجہؒ کا یہ مقولہ بھی منکشف ہوا کہ آپ کی عمر کے دس سال رہ گئے ہیں، اس میں یہ تکمیل ہوجائے گی۔اس لیے اگلے ہی دن اجمیر سے واپس ہوئے۔ ‘‘ (روزنامہ الجمعیۃ ، خواجہ نمبر ۲۵؍ اگست ۱۹۷۰ء، ص؍ ۵)
دیوبندی مشائخ میں نہایت ممتاز اور بلند مقام رکھنے والے نابغہ روزگار حضرت شیخ الاسلام ؒ بذات خود سلطان المشائخ ، خواجگان خواجہ حضرت معین الدین سنجری چشتی نور اللہ مرقدہ سے بہت گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ حضرت خواجہ سے ان کی عشق و شیفتگی کو بیان کرتے ہوئے مولانا اخلاق حسین قاسمی ؒ رقم طراز ہیں کہ 
’’ دیوبندی مسلک کے اسی مرد جلیل (حضرت مدنی) کو حضرت خواجہ بزرگ سے ایسی عقیدت تھی کہ مولانا حضرت خواجہ ؒ کے آستانہ عالیہ پر گھر سے نیت و اراد�ۂ زیارت کرکے تشریف لایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ حضرت سلطان الہند کی زیارت ضمنی طور پر کرنا ان کے مرتبہ عالیہ کی شایان شان نہیں ۔ آپ ؒ کی زیارت کے لیے مستقل سفر کرتا ہوں۔‘‘ ( روزنامہ الجمعیۃ ، خواجہ نمبر ۲۵؍ اگست ۱۹۷۰ء، ص؍ ۳۸)
سلسلہ چشت ہی کے ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں حضرت خواجہ صابر کلیری ؒ ،جن کا مزار روڑکی سے تقریبا دس کیلومیٹر شمال میں واقع ہے اور آج بھی وہ مرجع خلائق بنا ہوا ہے حضرت شیخ الاسلام ؒ نے ان سے تعلق و ربط اور روحانی فیض کے حصول کا ذکر کرتے ہوئے اپنی خود نوشت سوانح میں لکھا ہے کہ 
’’یک بارگی یہ کیفیت پیش آئی کہ نماز میں بھی اور باہر بھی یہ تمام فضا بین السموت مجھے تنگ معلوم ہونے لگی ، حضرت رحمہ اللہ ( حضرت گنگوہی ؒ ) سے عرض کیا تو فرمایا کلیر شریف ہوآؤ۔حضرت قطب عالم حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ کو بھی جب قبض پیش آتا تھا تو ایسے مقامات پر تشریف لے جاتے تھے ، چنانچہ ہم دونوں کلیر شریف گئے (نقش حیات جلد؍ ۱، ص؍ ۱۳۲، مطبوعہ مکتبہ دینیہ دیوبند ) 
تبلیغی جماعت کے روح رواں شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کے بارے میں آتا ہے کہ وہ کلیر شریف کے مزار پر اکثرو بیشتر جایا کرتے تھے اور وہ جب بھی مرکز نظام الدین دہلی تشریف لاتے تھے تو بنگلہ والی مسجد سے پیدل ننگے پاوں حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دیتے تھے اور مزار کے چبوترے کے نیچے بیٹھ کر گھنٹوں گھنٹوں مراقب رہتے تھے ۔ ایک مرتبہ واقعہ یہ ہوا کہ پاکستان سے بڑی تعداد میں علمائے کرام پر مشتمل ایک جماعت آئی ۔ وہ سب حضرت شیخ کے ہمراہ مزار پر حاضری کے لیے حاضر ہوئے ۔ حسب معمول حضرت شیخ چبوترے کے نیچے ہی بیٹھ گئے ۔ وہاں کے متولی نے اصرار کیا کہ حضرت آپ چبوترے کے اوپر تشریف رکھیں اور وہیں بیٹھ کر مراقبہ فرمائیں ، لیکن حضرت نے منع کیا ۔ جب متولی نے تیسری مرتبہ اصرار کیا ، تو حضرت شیخ نے اپنا رومال ان کے سر پر اوڑھا دیا ۔ رومال اوڑھنا تھا کہ وہ ایک دوسری ہی دنیا میں پہنچ گئے اور جس ظاہری آنکھ سے وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ چبوترا خالی ہے حضرت شیخ کو وہاں بیٹھنا چاہیے ، اب ان کو یہ نظر آرہا تھا کہ وہاں خلق خدا کی اتنی بھیڑ ہے کہ تل رکھنے کی جگہ نہیں ہے ۔ ( یہ واقعہ ایک زبانی روایت پر مبنی ہے ،اس کو حاجی اصغر صاحب ساکن بستی نظام الدین صاحب نے راقم کو سنایا )۔
سابق صدر جمعیۃ علماء ہند فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ بھی خواجہ غریب نواز کے گہرے عقیدت مندوں میں سے تھے ۔ انھوں نے الجمعیۃ کے خواجہ نمبر کی اشاعت کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ 
’’ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ، اسوہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے انھیں سلاسل طیبہ میں ہیں، جن کے نقش قدم کے فیوض و انوار سے زندگی میں تابندگی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ‘‘ (۲۵؍ اگست ۱۹۷۰ء ، ص؍ ۴) 
علمائے دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے اولیا اللہ اور ان کے مزارات کی زیارت و حاضری کا تذکرہ بس یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا ، اکثر اکابرین کے متعلق اس قسم کے شہادات موجود ہیں کہ مردگان اہل اللہ سے کسب فیض اورروحانی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے مزارات پر آیا جایا کرتے تھے ؛، لیکن یہاں اختصار کے پیش نظر اب موضوع تحریر کو ظاہری تعلق کی طرف موڑتے ہیں۔ اس حوالے سے علمائے دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کی خدمات کا تاریخی سلسلہ جمعیۃ کے روز تاسیس سے جاملتا ہے ۔ چنانچہ تاریخ کی گواہی کے مطابق ۳،۴،۵؍ مارچ ۱۹۲۲ ء کو اجمیر شریف میں جمعیۃ علماء ہند کے خصوصی اجلاس کا انعقا د کیا گیا اور حالات حاضرہ پر مختلف اہم تجاویز منظوری کی گئیں ۔ (تفصیل کے لیے مطالعہ کریں: جمعیۃ العلما کیا ہے، ج ؍ دوم ، ص؍ ۵۲)۔ ۲۰، ۲۱؍ ستمبر ۱۹۲۳ کو اجمیر کے برطانوی حکام نے ہندو مسلم کے درمیان فرقہ وارانہ منافرت پید اکرنے کے لیے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی درگاہ پر گولیاں چلائیں ، جس کی جمعیۃ علماء ہند نے سخت مذمت کی اور مسلمانان ہند سے خصوصی اپیل کی کہ پورے ہندستان کے مسلمان بیک آواز اس کے خلاف زبردست مظاہرہ کریں۔ چنانچہ اس احتجاج کا اثر یہ ہوا کہ انگریز مزارات کی طرف بری نظر سے دیکھنے میں خوف محسوس کرنے لگے اور پھر اس کے بعد اس طرح کی اوچھی حرکت کرنے کی انگریزوں کو جرات نہیں ہوئی ۔(مزید معلومات کے لیے پڑھیں: جمعیۃ العلما کیا ہے، ج؍ دوم، ص؍ ۶۶)۔ پھر جب ۱۹۴۹ء میں تقسیم وطن کے نتیجے میں حالات پرتشویش ہوئے اور پاکستان کے شرنارتھیوں نے قبضہ کرنے اور مقامی بدبخت لوگوں نے درگاہ کو بیچنے کی کوشش کی، تو جمعیۃ علماء ہند نے اس کے تحفظ کے اقدامات کرتے ہوئے حکومت ہند سے یہ مطالبہ کیا کہ اجمیر شریف درگاہ کی کمیٹی میں ارکان کی نصف تعداد جمعیۃ علماء ہند کے مقرر و منتخب کردہ افراد ہونے چاہیں۔ ( تفصیلات کے لیے دیکھیں : کاروائی مجلس عاملہ بمقام لکھنو ، ۵ تا ۸؍ اپریل ۱۹۴۹ء۔ اور ہفت روزہ الجمعیۃ ، جمعیۃ علماء نمبر، جلد نمبر ۸، شمارہ ۴۳، ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۹۵ء) ۔ ۲۵؍ اگست ۱۹۷۰ء میں روزنامہ الجمعیۃ نے ’’ خواجہ غریب نواز ؒ نمبر‘‘ شائع کیا تھا۔ اسے علمائے دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کی خواجۂ خواجگان ، سلطان الہند ، غریب نواز حضرت معین الدین چشتی سنجریؒ سے پرخلوص وابستگی اور خصوصی تعلق کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل ، جب ۱۹۴۷ میں تقسیم وطن کا دل خراش و جگر سوز واقعہ پیش آیا تو پاکستان کے پناہ گزینوں نے یہاں کے مزارات، خانقاہوں اور مدارس و مساجد میں اپنا ڈیرہ ڈالنا شروع کردیا ، جس کی زد میں جہاں بڑے بڑے اسلامی ادارے آگئے، وہیں سرہند میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کا مزار اور ان کی خانقاہ، دہلی میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کی قبراور اس کے متصل عمارتیں اور سلطان المشائخ حضرت حضرت خواجہ معین الدین صاحب اجمیری نور اللہ مرقدہ کا مزار مقدس بھی ان کے ناپاک اور جابرانہ قبضے سے محفوظ نہیں رہ سکے۔اس بات پر تاریخ گواہ ہے کہ تقسیم وطن کے بعد پھوٹ پڑنے والے خونی فسادات میں جہاں انسان اپنے سایہ سے خوف کھا رہا تھا اور ہر طرف دہشت و خوف کی مہیب، زہریلی، طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں ، ایسے پرخطر حالات میں اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر جمعیۃ علماء ہند اٹھی اور انسانیت کے تحفظ اور ان اسلامی ادارے کے تقدس کو برقرار کھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔ جمعیۃ علماء ہندکی فسادات میں انسانیت کی خدمت کا موضوع اتنا وسعت رکھتا ہے کہ کئی ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں، لیکن سردست اس عنوان کی مناسبت سے اس کی خدمات پر ایک نظر دوڑائی جائے ، تو یہاں بھی بہت سے تاریخی حوالے موجود ہیں چنانچہ سید المت حضرت مولانا محمد میاں صاحب مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی نور اللہ مرقدہ سابق ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے’’ قطب صاحب خواجہ غریب نوازاور حضرت مجد د صاحب کی درگاہیں‘‘ کے عنوان کے تحت جمعیۃ علماء ہند کے کارناموں کو بیان فرماتے ہیں کہ
’’اس سلسلہ کی کڑی وہ عظیم الشان خدمت ہے، جو ہندستان کی مرکزی خانقا ہوں اور درگاہوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انجام پذیر ہوئی۔عرس کے متعلق علمائے دیو بند کا مسلک کچھ بھی ہو، مگر اکابر اولیاء اللہ سے اُن کی عقیدت کسی سے کم نہیں ہے ؛بلکہ اُن کا دعویٰ یہ ہے کہ صحیح عقیدت علمائے دیوبند ہی کو ہے۔ بہر حال یہاں اس بحث کا موقع نہیں ہے۔ یہاں تو یہ عرض کرنا ہے کہ یہ تین درگاہیں(درگاہ خواجہ حضرت سرہندیؒ ، درگاہ خواجہ حضرت غریب نواز ؒ اور درگاہ حضرت خواجہ قطب الدین کاکیؒ )، جو نہ صرف ہندستان ؛بلکہ پوری دنیائے اسلام کی نظر میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں، اس دورِ پُر آشوب کی تباہ کاریوں کی زد میں آچکی تھیں۔(روزنامہ الجمعیۃ ،۲۶؍فروروی ۱۹۶۳ء ، مجاہد ملت نمبر ، ص؍ ۱۲۹)
اسی تحریر میں آگے رقم طراز ہیں کہ 
’’پھر اگر چہ سر ہند اور بسی سے کلی طور پر مسلمانوں کا تخلیہ ہوگیا اور اجمیر شریف کے تمام مسلمان حالات کی شدت سے مجبور ہوکر منتشر ہوگئے۔ البتہ وہاں خدام صاحب نے فی الواقع بڑی ہمّت و جرأت کا ثبوت دیا کہ خطرات کے بے پناہ ہجوم کے وقت بھی ان حضرات نے حضرت خواجہ غریب نواز کے آستانہ کو نہیں چھوڑا اور یہ بھی درست ہے کہ حضرت مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کے اثرور سوخ نے کافی دست گیری کی ، لیکن عوامی لیڈر کی حیثیت سے جس نے سجادہ نشین اور خدام صاحبان کی خبر گیری کی اور ہمتیں بندھائیں، وہ مجاہد ملّت ہی تھے۔ رحمہ‘ اللہ۔ سر ہند شریف تو حضرت مجاہد ملت اس دور میں تشریف نہیں لے گئے، وہاں کی حاضری تو احقر(سید الملت حضرت مولانا محمد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ سابق ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند) سے متعلق فرمائی تھی۔ مگر اجمیر شریف بار بار خود تشریف لے گئے۔ پھر درگاہ حضرت بل وغیرہ میں حضرات خدام کی کافی تر جمانی کی ۔بلکہ ایک عرصہ تک ایسا رہا کہ نظم کے ذمہ دار گویا مجاہد ملتؒ ہی تھے۔ اجمیر کے حضرات ‘مجاہد ملت ہی سے مطمئن تھے۔ ہرموقع پر مجاہد ملت سے مشورہ لیتے۔ ہدایت حاصل کرتے اور انھی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کو کامیابی کا ذریعہ سمجھتے تھے‘‘۔ (روزنامہ الجمعیۃ ، ۲۶؍فروروی ۱۹۶۳ء ،مجاہد ملت نمبر ، ص؍ ۱۲۹)
پھر آگے حضرت خواجہ قطب الدین صاحب کی درگاہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ 
’’ان تینوں درگاہوں میں قطب صاحب (یعنی درگاہ شریف حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی رحمۃ اللہ علیہ ) کی بارگاہ معلی کا معاملہ سب سے زیادہ پیچیدہ اور دشوار تھا۔ کیوں کہ خاص اس دور میں کہ پناہ گزینوں کا ٹڈی دل دہلی کی طرف بڑھ رہا تھا ،اس کو محفوظ رکھنے کا انتظام نہیں کیا گیا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہواکہ پوراقصبہ مہرولی۔ جہاں یہ درگاہ ہے۔ شرنارتھیوں کا شہر بن گیا تھا ۔کوئی ایک گھر بھی مسلمان کا نہیں رہا تھا۔ خانقاہ شریف کا کونا کوناشرنارتھیوں سے بھرا ہوا تھا ۔تقریباً ایک ہزار افراد خانقاہ میں رہتے تھے۔درگاہ کو خالی کرانے کی کوشش گویامہرولی میں بسنے والے ایک لاکھ شرنارتھیوں سے ٹکر لینی تھی۔سردار پٹیل کی ڈیوڑھی پرباربارحاضری دی گئی۔چیف کمشزاور ڈپٹی کمشز (رندھاوا)سے باربار التجائیں کی گئیں ۔مگر سب بے سود رہیں۔بالآخر مہاتماگاندھی کا دامن پکڑاگیا۔ غیر مناسب نہ ہوگا اگر کہا جائے کہ ان کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کی گئی اوراحقر کواس شہادت کے قلم بند کرنے میں بھی تأمل نہیں ہے کہ اس موقع پر سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ ( سابق ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند )کی شیریں کلامی نے بڑا کام کیا۔ یہ پہلے گزر چکا ہے کہ گاندھی جی کے یہاں روزانہ صبح کو جاناان حضرات کا معمول تھا۔حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ اس حاضری کے وقت حضرت قطب صاحب کی کچھ باتیں ایسے انداز سے دیش کے باپو سے فرماتے تھے کہ مہاتماگاندھی کے دل میں اتر جاتی تھیں۔ چنانچہ گاندھی جی اتنے متأثر ہوچکے تھے کہ جب۹؍جنوری ۱۹۴۸ء ؁ سے گاندھی جی نے مرن برت رکھا، توبرت کھولنے کی آٹھ شرطوں میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ قطب صاحب رحمہ‘ اللہ کی خانقاہ مکمل طورپر خالی کرائی جائے۔ جب گاندھی جی کی شرط کامیاب ہوگئی اور خانقاہ خالی ہوگئی ۔‘‘ (روزنامہ الجمعیۃ ، ۲۶؍فروروی ۱۹۶۳ء ،مجاہد ملت نمبر ، ص؍۱۳۰)
اسی طرح جمعیۃ علماء ہند نے صرف مزارات کے تحفظ پر ہی زور نہیں دیا ؛ بلکہ خواجہ کی نگری میں واقع مدرسہ معینیہ کو بھی بحال کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، یہ مدرسہ خواجگان خواجہ ؒ کی یادگار اور انھیں کے نام گرامی پر اس کا نام معینیہ رکھا گیا ہے ۔ اس کے تعلق سے جمعیۃ کی کاردگی کا یہ تاریخی حوالہ ملاحظہ فرمائیے:
’’اجمیر کی بربادی کے بعد جہاں درگاہ معلّٰی حضرت خواجہ اجمیریؒ کے تحفظ اور اس کے انتظامات کی اصلاح کے لیے مولانا مرحوم (مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی ؒ سابق ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند)نے بھرپور کوششیں کیں، وہاں مدرسہ معینیہ اجمیر کی نشأۃ ثانیہ بھی حضرت مرحوم کی مساعی جمیلہ کے سہارے عمل میں آئی۔ اس مدرسہ کا افتتاح بھی خود حضرت مولاناؒ نے ۲۱؍ مارچ ۱۹۵۲ء ؁ کو اپنے دست مبارک سے فرمایا اور پھر زندگی بھر اس کے معاملات و مسائل میں مدد فرماتے رہے۔(روزنامہ الجمعیۃ ،۲۶؍فروروی ۱۹۶۳ء ، مجاہد ملت نمبر ، ص؍ ۱۹۳)
تاریخ کے یہ حوالے اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ علمائے دیوبند اورجمعیۃ علماء ہند کی اجمیر شریف اور مزارات اولیا سے گہری عقیدت و محبت رہی ہے اوران کے مابین کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا ہے ۔ اگر کوئی مسلک و مشرب اس کے خلاف کوئی بات کہتا ہے ، تو وہ یقیناًتاریخ کے ان شواہدکو جھٹلانے کی جسارت کر رہا ہے ۔ اوراس کا مقصد تفرقہ بازی اور مسلکی تنافر کو ہوا دینے کی ایک مذموم کوشش ہے، جس کی بالکل بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

دہلی کی قدیم تاریخی مساجد کی موجودہ صورت حال


محمد یاسین قاسمی انچارج شعبہ مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند،
الحمد لاھلہ والصلاۃ لاھلھا اما بعد
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ، بسم اللہ الرحمان الرحیم
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہُ وَ سَعَ فِیْ خَرَابِھَا (البقرۃ، آیۃ: ۱۱۴)
ترجمہ: اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگاجو خدا تعالیٰ کی مسجدوں میں ان کا ذکر کیے جانے سے بندش کرے اور ان کے ویران ہونے میں کوشش کرے۔
مساجد شعائر اللہ ہیں، ان کا تحفظ و احترام ہمارا دینی و اسلامی فریضہ ہے۔ اسی فریضے کے پیش نظر جمعیۃ علماء ہندروز اول سے ہی کوشاں رہی ہے کہ اوقاف کے تحفظ کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل متعین کیا جائے ، چنانچہ ایک تاریخی سلسلے پر نظر ڈالیں تو خلاصہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ ۵؍ دسمبر ۱۹۲۷ء کے اجلاس عام میں تحفظ اوقاف کی تجویز منظور کی۔۱۹۳۱ء میں صوبہ سرحد کے متولیان وقف کو اس جانب متوجہ کیا کہ اس کی حفاظت کے لیے مدارس دینیہ قائم کریں۔ ۱۹۳۲ء میں اوقاف کے تحفظ اور ان کی آمدنی کے جائز تصرفات پر زور دیا۔ ۱۹۳۴ کے ۱۴،۱۵،۱۶ مارچ کوبہادر وقف بل اور بمبئی وقف بل شرعی احکام کے خلاف ہونے کی وجہ سے ان کی سخت مخالفت کی۔اسی سال ۱۸،۱۹؍ اپریل کو نگینہ بجنور میں منعقد جلسہ مجلس مشاورت جمعیۃ علماء ہند میں یوپی اسمبلی میں پیش کردہ وقف بل میں شرعی مسائل کے تناظر میں ترمیمات کے بعدایک مسودہ پیش کیا گیا۔۱۹۵۲ میں زمین داری سسٹم ختم ہونے کے بعد محمد احمد کاظمی کے بنائے وقف بل کی مکمل حمایت و تائید کی۔ پھر ۱۹۵۳ء میں اس محمد احمد کاظمی کے مسودہ وقف بل کوپارلیمنٹ میں پاس کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ ۔ ۱۹۴۶ میں ۱۵،۱۶؍ اپریل کو جمعیۃ علماء ہندنے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ آزادیِ ملک، آزادیِ مذہب، کلچر، زبان، رسم الخط،مذہبی تعلیم و تبلیغ، مذہبی عقائد واعمال، عبادت گاہیں اور اوقاف جیسے مسلم پرسنل لاء کو بطور فنڈا منٹل رائٹس منظور کرے۔ ۱؍تا۳؍ فروری ۱۹۵۵ء کو کلکتہ میں اٹھارواں اجلاس عام میں اور لینڈ ایکوزیشن بل کو اوقاف اورمذہبی حقوق کے خلاف ہونے کے باعث اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ۱۹۶۸ء میں اس وقت کے اوقاف کے قانون پر بے اطمینانی کا اظہار کیا اور اس قانون میں ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا۔۱۹۶۹ء میں اوقاف میں مداخلت کے باعث پبلک ٹرسٹ بل مسودہ کی زبردست مخالفت کی۔ ۱۹۷۳ میں ٹیکس لاء ترمیمی بل میں مسلم خیراتی اوقاف اور تعلیمی اداروں کو متثنیٰ قرار دینے والی ترمیم کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔فروری ۱۹۷۹ ء میں کل ہند اوقاف کانفرنس کا انعقادکیا۔۱۹۸۴ میں وقف ترمیمی بل ۱۹۸۴ء میں بہت ساری دفعات مضر ہونے کی وجہ سے اس میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔ ۲۰۱۱ میں دو روزہ حج و اوقاف کانفرنس کیا اور اوقاف کے مسائل پر بحث و گفتگو کی گئی۔ اس سے قبل مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی نور اللہ مرقدہ نے اوقاف کی بحالی، درستگی اور اصلاح کے لیے قانونی اقدامات کو آگے بڑھایااور پارلیامنٹ میںآواز اٹھائی ۔ حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ نے باربار اس مسئلے کو شدت کے ساتھ آگے بڑھایا، چنانچہ ایک مرتبہ شاعر ملت جناب قاری اسحاق صاحب سہارنپوری ہریانہ، پنجاب اور ہماچل کے وقف بورڈ کے کچھ ذمہ داران کے ساتھ فدائے ملت ؒ کے پاس آئے۔ فدائے ملتؒ نے وفد کے ساتھ محکمہ فلاح و بہبود کی وزیر راجندری کماری واجبپائی سے ملاقات کی ، جنھوں نے وفد کے مطالبات کو منظور کرتے ہوئے ضروری کاروائی کی۔ اسی طرح فدائے ملتؒ نے قبضہ مخالفانہ کے قانون سے اوقاف کو مستثنیٰ قرار دینے ، اوقاف کی جائداد کو رینٹ کنٹرول ایکٹ سے مستثنیٰ کرانے ، لمیٹیشن ایکٹ (Limitation Act) کے تحت قبضہ مخالفانہ ایکٹ کی میعاد کو ۳۰؍ سال تک کرنے، کسٹوڈین اویکیوی پراپرٹی (Custodian Evacuee Property) کے قبضہ میں اوقاف کی جائدادوں کو وقف بورڈ کو منتقل کرنے اور اوقاف کے معاملات کے نپٹارے کے لیے ٹریبونل(Tribunal) قائم کرنے جیسے اہم مسائل کو لے کر اس وقت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی سے بار بار ملاقاتیں کیں۔(تفصیلات کے لیے دیکھیں: ہفت روزہ الجمعیۃجمعیۃ علماء ہند نمبر ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۹۵، مرتب مولانا سالم صاحب جامعی)۔ اور پھرامیر الہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری صدر جمعیۃ علماء ہند اور قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے اوقاف کے مسائل کو حل کرانے میں گہری دل چسپی دکھائی، چنانچہ ۱۶؍ مئی ۲۰۱۵ء کومنعقد ہونے والے اپنے بتیسویں اجلاس میں تحفظ اوقاف کے تعلق سے ایک تجویز پاس کی گئی، جس پر عمل درآمد کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، کمیٹی کے افراد نے خود جاجاکر دہلی کی قدیم تاریخی مساجد کا معائنہ کیا ، معائنہ میں جو کچھ سامنے آیا،وہ حوالۂ قلم کیا جارہا ہے۔
(۱)مسجد و مدرسہ : خیر المنازل
کمیٹی کے افراد نے اپنے سفر کا آغاز اکبر کی دائی کی تعمیر کردہ مسجد و مدرسہ :’’ خیر المنازل‘‘ سے کیا، جو چڑیا گھرسے پچھم میں واقع ہے۔ اس میں وقف بورڈ کی جانب سے مولانا محمد الیاس صاحب میواتی امام اور ان کے صاحب زادے جناب محمد احمد صاحب مؤذن ہیں ۔ پرائیوٹ کمپنی کی طرف سے ایک گارڈ بھی مقرر ہے ، اس کا نام سیتا رام کمارہے۔یہاں شرکائے وفد نے جماعت کے ساتھ نماز ظہر ادا کی اور نمازیوں، مؤذن صاحب اور گارڈ سے گفتگو کے دوران جو حالات اور پوائنٹس سامنے آئے ، وہ یہ تھے کہ :
(الف) اس مسجد میں صرف تین وقت: ظہر، عصر اور مغرب کی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ عشا اور فجر میں تالا لگادیا جاتا ہے۔
(ب) ماہ مقدس: رمضان جیسے مہینے میں تراویح پڑھنے کی اجازت نہیں، مجبورا گیٹ کے باہر ہی چٹائی وغیرہ بچھا کر عشا اور تراویح ادا کی جاتی ہے۔اور یہ آج کل کا نہیں؛ بلکہ ۳۷؍ سالوں سے یہی معاملہ ہے۔
(ج) بجلی کنکشن کی اجازت نہیں ہے، جس کے نتیجے میں گرمی اور اندھیرے میں ہی نماز ادا کرنی پڑتی ہے۔
(د) پانی کے انتظام کے لیے ایک قدیم کنواں ہے ، جس سے پانی نکالنا جوئے شیر لانے کے مرادف ہے ، پانی کا موٹر لگانے کی اجازت نہیں ہے، جس کے باعث پانی کی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
(ہ) قدیم زمانے کا ایک حوض ہے ، لیکن نہ تو اس میں پانی بھرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اس کی صاف صفائی کرنے دی جاتی ہے ، نتیجۃ بارش وغیرہ کا پانی جمع ہونے کی وجہ سے بیماریاں پیدا ہورہی ہیں اور گندگی مزید پھیل رہی ہے۔
(و)یہاں چھوٹا بڑا کسی استنجا کا انتظام نہیں ہے، جس سے نمازیوں ، گیٹ کیپر اور سیاح افراد کو بھی بہت دقت ہوتی ہے اور یہ افراد اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے آس پاس کی جگہوں پر جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
(ز)عمارت کافی بڑی ہے ، اس اعتبار سے نگرانی کے لیے کئی افراد کی ضرورت ہے ۔ مناسب تعداد میں نگراں افراد نہ ہونے کی وجہ سے کونوں اور کنارے کنارے بنے کمروں میں نئی نسل کے جوڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ جواری اور جرائم پیشہ افراد بھی اپنے مشاغل انجام دیتے ہیں۔ اور حیرت کی انتہا تو یہ ہے کہ ان کمروں میں بول و براز بھی کردیتے ہیں۔ایک کمرہ کے کنارے تو باقاعدہ بول کے لیے قدمچہ بناہوا پایا گیا ، جس سے اس کے آس پاس کے حصے کافی متعفن ہوچکے ہیں۔
(ح) عمارت کافی بوسیدہ ہوچکی ہے۔مؤذن صاحب کے بیان کے مطابق پچاس سے زائد کمرے تھے، لیکن اب ٹوٹ کر بیس سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ اس لیے مرمت کی سخت ضرورت ہے۔
(ط) گیٹ مین کی مناسب تعداد نہ ہونے کی وجہ سے سیاح جوتے اور چپل پہن کر ہی مسجد میں گھس آتے ہیں اور اس کی بے حرمتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
(۲) مسجد قلعۂ کہنہ پرانا قلعہ میں جمعیۃ کے وفدسے چوکیدار کی جھڑپ ۔کیمرہ اور موبائل چھیننے کی کوشش 
یہاں کے مکمل معائنے کے بعد یہ قافلہ’’ مسجد قلعۂ کہنہ‘‘ پہنچا جوپرانے قلعہ کے اندر شیر منڈل کے شمال پرگتی میدان کی جانب میں واقع ہے ۔ وہاں کا منظر کچھ اس طرح کا تھا کہ مردچوکیدار بے خبر تمباکو کھانے میں مشغول تھا اور کچھ عمر دراز عورتیں مسجد میں چٹائی بچھا کر لیٹی ہوئی تھیں۔ گھومنے پھرنے والے لوگ بلا روک ٹوک جوتے چپل پہن کر بے حرمتی میں مصروف تھے۔ سیلفی اور ویڈیو گرافی کا کام جاری تھا۔ ان سب ناجائز اور حرام کاموں پر کوئی ٹوک نہیں تھی، لیکن جو ں ہی قافلہ کے افراد نے اپنے رومال بچھا کر مسجد میں بیٹھنے کی کوشش کی ، تولیٹی ہوئی پژمردہ بڑھیا میں بلا کی جان پیدا ہوگئی اور بڑی تیزی سے ہم تک پہنچ کر بیٹھنے سے بھی روکنے لگی اور کہا کہ یہاں نہ نماز کی اجازت ہے اور نہ ہی بیٹھنے کی ۔ حالات کو وفد میں شریک جناب رہبر صاحب کیمرے میں قید کررہے تھے کہ ایک گارڈ نے آکر ہاتھا پائی شروع کردی اور کیمرہ چھیننے کی کوشش کرنے لگے ، جس کے نتیجے میں کافی شور شرابہ ہونے لگا ۔ سربراہ وفد نے وہاں تعینات گارڈ کو بلوایا اور اس سے کہا کہ جب آپ کی ڈیوٹی ہی یہی ہے کہ آپ کسی کو مسجد میں جوتے چپل پہن کر نہ آنے دیں ، تو پھر آپ روکتے کیوں نہیں، اس کا کہنا تھا کہ سبھی لوگ یہاں اسی طرح آتے ہیں، ان کو اس طرح آنے سے منع بھی کیا جاتا ہے ، لیکن لوگ بات ہی نہیں مانتے ، ہم کیا کریں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ہم دو رکعت نماز ادا کرسکتے ہیں ، تو اس نے سختی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے آ پ کو ہمارے آفیسر سے بات کرنی پڑے گی، اس پر جناب مولانا نیاز احمد فاروقی صاحب رکن عاملہ جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ چلو آفیسر سے ملاقات کرتے ہیں، تو وہ لے جانے سے کتراتے نظر آئے اور تعصبانہ نظریے کا عملی طور پر اظہار کیا ، جس پر مولانا موصوف نے کہا کہ: ہم نے آج دیکھ لیا کہ اور لوگوں کے ساتھ آپ لوگوں کا کیا برتاؤ ہوتا ہے اور ایک داڑھی ٹوپی والے کے ساتھ کس طرح سے پیش آتے ہو اور یہ بات آگے تک جائے گی۔ یہ سننا تھا کہ ان افراد کے چودہ طبق روشن ہوتے نظر آئے اور خاموش تماشائی بن گئے۔
اسی دوران اراکین وفد نے بیرون ملک سے آئی ایک خاتون سیاح کو جب جوتے چپل پہن کر مسجد کے اندر جاتے دیکھا تو اسے مسجد کی حرمت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے جوتے اتار کر جانے کے لیے کہا ، تو اس خاتون نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگی اور جوتا ااتار کر اندر داخل ہوئی۔راقم کا تاثر یہ ہے کہ بیرونی لوگ تو اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتے ہیں لیکن اپنے ہی ملک کے لوگ غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے لڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ مسجد کے اندر کی گندگی دیکھنے کے بعد ایسا معلوم ہورہا تھا کہ اس کی صاف صفائی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔ظلم تو یہ ہے کہ محکمۂ آثار قدیمہ کی طرف سے اس میں نماز پر سخت پابندی ہے ، اس میں کوئی مسلم سیاح بھی نماز نہیں پڑھ سکتا ہے لیکن غیر شرعی اور غیر اخلاقی حرکت کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے
یہاں پر وفد نے جو چیز یں نوٹ کیں ، وہ یہ ہیں کہ :
(الف) مسجد کی عمارتیں رفتہ رفتہ مخدوش ہوتی جارہی ہیں، مرمت کی سخت ضرورت ہے۔
(ب)سارے گندے کاموں کی اجازت ہے ۔ اگر اجازت نہیں ہے ، تو صرف نماز کی نہیں ہے۔
(ج) سیکورٹی کے افراد بھی تعصب پسند ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اوپر سے خاموش ہدایت ہے کہ کسی بھی صورت میں نماز پڑھنے نہیں دینا ہے۔
(د) سکورٹی والے سیاح اورعام لوگوں کو جوتے چپل پہن کر آنے سے منع نہیں کرتے اور بے حرمتی والے کسی بھی کام پر روک ٹوک نہیں کرتے۔ 
(۳) محمدی مسجد سری فورٹ پراچیر
یہ مسجد لودھی دور 1451-1526کی تعمیر ہے، جو ایک لمبی دیوار کے باہری حصے میں واقع ہے۔ دیوار کے تعمیری ڈھانچے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ قلعے کا باہری حصہ ہوگا ۔ وہاں لگائے گئے کتبے میں تین مساجد کا تذکرہ ہے ، جن کے نام تحفہ والا گنبد، مخدوم صاحب مسجد اور محمد والی مسجد ہیں، لیکن دیوار کے آخری حصے تک پہنچ کر ان کے جائے وقوع تلاش کرنے کی کوشش کے باوجود نہیں ملی،ابھی صرف محمدوالی مسجد ہی موجود ہے ، جس کا نام سرکاری دستاویزوں میں محمدی مسجد ہے۔
یہ مسجد انتہائی خوب صورت ہے اور ابھی صحیح سالم موجود ہے۔ جناب مولانا ہارون رشید صاحب مہتم مدرسہ امہات المومنین للبنات مہرولی کے بیان کے مطابق کچھ دنوں پہلے انھوں نے جمعہ کی نماز شروع کی تھی، لیکن اس پر شرپسندوں نے تالا لگادیا اور نماز سے روک دیا ۔ غیور مسلمانوں نے تالا توڑ کر دوبارہ نماز شروع کردی، اس پر شرپسندوں نے مقدمہ قائم کردیا اور سیاسی اثرورسوخ کا استعمال کرکے پولیس اور فورس کا سہارا لے کر دوبارہ مسجد کو بند کروادیا۔ اور دباو ڈلواکر کیس بھی واپس لینے پر مجبور کردیا۔
فی الحال یہ مسجد آغا خان فاونڈیشن کی زیر نگرانی ہے ، اس کے متصل واقع پارک وغیرہ کی دیکھ ریکھ کے لیے پننے لال اور محمد اقبال بارہ بنکی ملازم کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ ان دونوں سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا یہاں نماز پڑھنے کی اجازت ہے، تو ان کا جواب تھا کہ تنہا تنہا پڑھ سکتے ہیں ،جماعت کے ساتھ نماز کی بالکل اجازت نہیں ہے۔چنانچہ اتنی ہی سہی ؛ اس اجازت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وفد نے تحیۃ المسجد کی نماز ادا کی اور آباد ہونے کے تعلق سے دعا پر آمین کی آواز بلند کی۔اس مسجد کے حوالے سے اہم پوائنٹس یہ ہیں کہ:
(الف) مسجدکو آبادکرنے اور خرد برد سے بچانے کے لیے پنج وقتہ نماز کی اجازت کی ضرورت ہے۔
(ب) اس میں باہر پارک میں پانی کا انتظام ہے ، لیکن مسجد کے احاطہ میں نہ پانی ہے اور نہ ہی بجلی۔ ان دونوں کا انتظام ضروری ہے۔
(ج) سیاحوں کی بے حرمتی سے بچانے کے لیے مسجد کے لیے مخصوص گارڈ کی ضرورت ہے۔
(۴)درویش شاہ کی مسجد، گل مہر پارک
یہ مسجد لودھی دور کی یاد گار ہے، جب وفد یہاں پہنچا تو یہ معلوم ہوا کہ یہ مسجد ہر وقت تالابند رہتی ہے۔ وہاں پر سیکورٹی پر تعینات شخص سے جب اسے کھولنے کی بات چیت کی گئی ، انھوں نے اپنی ایجنسی کے مالک سے فون پر بات کرائی ۔مسٹر اشوک(موبائل نمبر:9958062392) مالک کا کہنا تھا کہ محکمۂ آثار قدیمہ کی طرف سے اسے چوبیس گھنٹے بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں وقف بورڈ کی طرف سے ایک امام بھی مقرر ہے۔ امام مسجد جناب قاری محمد شریف(موبائل: 9811996614) سے جب بات کی گئی ، تو انھوں نے صورت حال سے آگاہ کراتے ہوئے بتایا کہ اس مسجد کے تعلق سے ایک عرضی قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین وجاہت اللہ حبیب کو دی تھی ، انھوں نے معاملہ کا جائزہ لینے کے بعد نماز پڑھنے کی اجازت دے دی تھی، لیکن قبل اس کے کہ وہاں نماز ہوتی ، ڈی ڈی اے اور حق اطلاع قانون سے اطلاع مانگی گئی، جس پر اس محکمہ نے ۲۴؍ مارچ ۲۰۰۹ کو یہ اطلاع دی کہ یہ مسجد ہے اور جو کوئی اس میں نماز پڑھنا چاہے، اسے نماز پڑھنے سے نہ روکا جائے، اس کے بعد کافی دنوں تک یہاں نماز ہوتی رہی، لیکن پھر یہ ہوا کہ ایک دن ڈی ڈی اے والے آئے اور انھوں نے کہا کہ اس مسجد کی مرمت کا کام ہونا ہے ، یہ کہہ کر انھوں نے تالا لگا دیا ۔ مرمت کا کام تو آج تک شروع نہیں ہوا، البتہ جو نماز شروع ہوئی تھی وہ رک گئی اور آج تک اس پر پابندی ہے اور پابندی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ کوئی ٹوپی کرتا والے شخص کو اس کے سایے میں بھی کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا۔امام مسجد نے مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی اس پر کیس چل رہا ہے اورہم لوگ تین وقت کی نماز باہر ہی ادا کرتے ہیں۔نماز عصر کا وقت ہورہا تھا ، لیکن امام صاحب وہاں موجود نہ تھے ، اس لیے یہ طے کیا گیا کہ کل اس مسجد کا دوبارہ دورہ کیا جائے گا اور یہاں نماز ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔اس مسجد کو قناتی مسجد بھی کہاجاتا ہے۔
فیصلے کے مطابق وفد دوبارہ یہاں پہنچا اور نماز ظہر ادا کرنے کی کوشش کی گئی؛ لیکن پہلے دن کے دورے کے نتیجے میں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آج لوگ مزاحمت اور لڑائی کی نیت سے پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہیں۔ چنانچہ وفد جب مسجد کی دیوار کے سایہ میں آکر کھڑا ہوا، تو سونو نامی گارڈ نے سختی سے منع کیا کہ آپ لوگ یہاں نہیں بیٹھ سکتے ۔ اگر بیٹھنا ہی ہے ، تو پارک میں جاکر بیٹھیے۔ اس پر راقم نے کہا کہ بھائی ہم لوگ دھوپ سے آئے ہیں ، تھوڑی دیر سایہ تو لینے دو، اس پر وہاں موجود ایک حوض خاص اپارٹمنٹس ویلفیر سوسائٹی کی ممبر خاتون نے سو نمبر پر فون لگا کر پولیس کو بلا لیا ۔ پولیس نے بھی انھیں لوگوں کا ساتھ دیا اور نماز ادا کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔ مجبورا وفد نے باہر ہی پارک میں نماز ادا کی ۔ قابل غور باتیں یہ ہیں کہ:
(الف) کسی ٹوپی کرتے والے کو اس کے سایہ میں بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتے ، جب کہ عاشق جوڑے کی مسجد کے بنے حجرے نما جگہوں میں حرام کاری پر اف بھی نہیں کرتے۔
(ب) مسجد کافی پرانی ہوچکی ہے ، جگہ جگہ سے دیواریں مخدوش ہوچکی ہیں۔
(ج) فرقہ پرستی کی تنگ نظری کی گہری چھاپ پڑچکی ہے ، اس لیے اس کے خلاف قانونی کارروائی ضروری ہے۔
(۵) نیلی مسجد حوض خاص
یہ مسجد وقف بورڈ کے زیر اہتمام ہے ۔ جناب مولانا خالد صاحب امام ہیں ، ان کا موبائل نمبر : 9999134818ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کافی جدوجہد اور مسلسل کوششوں کے بعد یہ مسجد کھولی گئی ہے۔ سترہ سال تک صرف جمعہ کی نماز ہوتی رہی۔ ابھی الحمدللہ پانچوں وقت کی نماز ہورہی ہے ، لیکن غیر مسلم برابر شرارت کرتے رہتے ہیں۔ یہاں مسجد کی دائیں طرف ایک بہت بڑا پیپل کا درخت ہے ، جس پر مورتیاں رکھ دیتے ہیں اور فساد برپاکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت کوششوں کے بعد بجلی ملی ہے ، لیکن پانی کے انتظام کی اب بھی اجازت نہیں ہے۔
(۶)مخدوم شاہ مسجد ،مئے فیر حوض خاص
ایک بڑے پارک کے بیچوں بیچ یہ مسجد واقع ہے۔ عصرکے وقت وفد اس مسجد میں پہنچا ،اندر داخل ہوتے ہی گارڈ ملا، ان کا نام جگدیش ہے۔مسجد کافی گندی تھی، حالات معلوم کرتے ہوئے جب ا ن سے یہ کہاگیا کہ جولوگ جوتا چپل پہن کر مسجد آجاتے ہیں ، آپ انھیں روکتے کیوں نہیں؟ ان کا جواب تھا کہ یہ پبلک پلیس ہے ، ہم کسی کو منع نہیں کرتے ۔ اس پر جب نماز پڑھنے کی بات کی گئی ، تو ان کا کہنا تھا کہ جی جناب یہ ہمارے پیٹ کا سوال ہے ، ہم قطعی نماز پڑھنے نہیں دیں گے۔ وفد نے بھی اصرار نہیں کیا ۔ وفد کے افراد نے چاروں طرف معائنہ شروع کیا، کئی اہم چیزوں کا انکشاف ہوا، لیکن یہ دیکھ کر تو وفد کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی کہ مسجد کے کنارے واقع ایک درخت کے پاس بت نصب کردیا گیا ہے اور جس کو پوجنے کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس پر جب گارڈ کو ٹوکا گیا ، تو وہ بغلیں جھانکنے لگا اور وفد کے دباو میں آکر بادل ناخواستہ اسے خود باہر پھینکا۔ صرف اتنا ہی نہیں ؛ بلکہ اس مسجد کو رہائش گاہ اور منبر کو حمام کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ وفد نے جو پوائنٹس نوٹ کیے ، وہ درج ذیل ہیں:
(الف) مسجد بہت گندی ہے صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
(ب) جگہ جگہ لکھے اللہ اور قرآنی آیتوں کو کھرچ کر مٹانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ 
(ج) عمارت کافی خستہ ہوچکی ہے ، فرش ٹوٹا پڑا ہے، پلاستر جھڑ رہے ہیں۔مرمت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
(د) مسجد کے پوربی حصے میں قبریں ہیں۔ ان کی آڑ میں بت پوجا کی کوشش کی جارہی ہے۔
(ھ) سر شام ہی گارڈ کی غیر موجودگی میں مسجد کے صحن کو کرکیٹ کا میدان بنالیاجاتاہے۔
(و) اس مسجد کی پیشانی پر اٹھارہ گول دائرے ہیں، جن میں سے بارہ میں لفظ اللہ اور چھ میں پھول بنے ہوئے ہیں، لیکن جن میں اللہ لکھا ہوا ہے ، انھیں مٹانے کی مذموم کوششیں کی گئی ہیں۔
مولانا غیور صاحب قاسمی کے بیان کے مطابق اس مسجد کے متولی مدرسہ باب العلوم جعفرآباد کے مہتمم مولانا داود صاحب ہیں۔ نا تو وقف بورڈ والے ہی اس مسجد پر کوئی توجہ دے رہے ہیں اور نہ متولی۔ حیرت کی بات ہے کہ مسجد جیسی مقدس جگہ میں ہر ناجائز کام کی تو اجازت ہے ؛ لیکن بھائی آپ سجدہ نہیں کرسکتے!!!۔
(۷) مسجد موٹھ، موٹھ ولیج ساؤتھ ایکسٹینشن پارٹ ۲۔ نئی دہلی۔ عدالت کے فیصلے کے باوجود نماز پر پابندی
یہ لب سڑک واقع ہے اور بہت بڑی مسجد ہے۔ اس کے آس پاس پاکستانی غیر مسلم شرنارتھی آباد ہیں۔ ۱۹۹۲ء سے پہلے نماز وغیرہ ہوتی تھی، لیکن ۱۹۹۲ء کے فساد کے نتیجے میں اس پر شرپسندوں نے تالا لگادیا۔ اس سے پہلے ۳؍ جولائی ۱۹۸۵ء میں مسلم سماج سدھار کمیٹی کی طرف سے کیس کیا گیا۔ ہائی کورٹ کے جج بھولا دت فرسٹ کلاس نے ۲۶؍ اگست ۱۹۸۵ کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے نماز کی اجازت دی، لیکن جب بھی مسلمان نماز پڑھنے آتے ہیں ، تو مقامی لوگ پتھراو شروع کردیتے ہیں اور نماز پڑھنے نہیں دیتے، جس کے نتیجے میں فی الحال مسجد بند ہے ۔ صبح گیارہ بجے سے پانچ بجے شام تک کھلی رہتی ہے۔ اس دوران سیاحوں اور مقامی افراد اس کی بے حرمتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور تعینات گارڈ کچھ بھی نہیں کہتا ۔ 
جب یہاں وفد پہنچا ، تو تقریبا چھے بج چکے تھے اور گارڈ تالا لگا کر جاچکا تھا، لیکن جب دروازے کے سوراخ سے جھانکنے کی کوشش کی گئی ، تو صحن میں غیر مسلم بچے کھیلتے کودتے نظر آئے۔ یہ بچے سیڑھیاں لگاکر دیوار پار کرتے ہیں اور پھر شام ہوتے ہی ناپاک حرکتوں میں لگ جاتے ہیں۔ 
مسجد کی وسعت اور جائے مقام کی اہمیت کی پیش نظر ضروری ہے کہ اس مسجد کو جلد از جلد واگزار کرائی جائے اور صدائے توحید بلند کی جائے۔
چوں کہ پہلے دن کے دورے میں مسجد بند پائی گئی تھی، اس لیے اگلے دن دوبارہ یہاں کا دورہ کیا گیا اور حالات کا جائزہ لیا گیا ، جس میں یہ پایا گیا کہ :
(الف) نماز شروع کرنے سے ہی اس کی صفائی ستھرائی قائم رہ سکتی ہے۔
(۲) مسجد کے اس کے مقاصد کے کاموں میں استعمال کیا جائے گا، جبھی خرد برد سے محفوظ رہ پائے گی۔
(۳) ہائی کورٹ سے اجازت کے باوجود پتھراؤ ہوتا ہے، اس لیے مذہبی اعمال کی انجام دہی کے وقت پولیس پروڈیکشن کی سخت ضروت ہے۔
(۸) بیگم پوری مسجد
بیگم پور گاوں سے ملحق مالویہ نگر میں واقع مسجد بیگم پور ہے،جب وفد یہاں پہنچا تو مسجد کی ایسی صورت حال دیکھنے کو ملی کہ جس کے بارے میں شاید کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ مسجد کے صدر دروازہ سے داخل ہوکر وفد نے جائزہ لینا شروع کیا تو یہ پایا کہ داہنی سمت محراب کو بیت الخلا بنالیا گیا ہے، اس کے تھوڑے فاصلے پر جگہ جگہ تاش کے پتے بکھریے ہوئے تھے۔وفد جب اوپری منزل پر پہنچا تو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا ، پوری بالائی منزل قضائے حاجت کا میدان بنی ہوئی تھی ، جس سے ہوش ربا تعفن پیدا ہورہا تھا۔ بدبو کا یہ عالم تھا کہ ایک منٹ ٹھہرنا بھی دشوار ہوگیا۔حوض کا معائنہ کیا گیا تو وہ کچروں اور شراب کی بوتلوں سے اٹا پڑا تھا۔ یہ سب دیکھ کر وہاں تعینات سکوریٹی گارڈ سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان چیزوں پر روک ٹوک کیوں نہیں کرتے ہو، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ سب سرشام ہوتا ہے ، اس وقت میری ڈیوٹی ختم ہوجاتی ہے۔ وہاں پر موجود ایک مقامی شخص جے ویندر سے وفد نے حالات پر افسوس کا اظہار کیا تو، تو ان کا کہنا تھا کہ دن ڈھلتے ہی عیاشی و فحاشی شروع ہوجاتی ہے، جس میں پولیس والے بھی شریک ہوتے ہیں۔ مذہبی مقام کی یہ بے حرمتی دیکھ کرہمارا بھی دل بہت دکھتا ہے ، لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں۔وفد نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو دیکھا کہ مسجد میں ایک کتا بڑے اطمینان سے سورہا ہے ، جیسے اسے یہ پتہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے ، اسے یہاں سے کوئی نہیں بھگائے گا۔انسانوں کی طرح کتا بھی پیشاب و پاخانہ کرکے مسجد کو ناپاک کر رہا تھا۔ غورطلب بات یہ ہے کہ مسجد کے ٹھیک سامنے مقامی کونسلرستیش اپادھیائے کا گھر ہے، جنھیں اپنے گھر کے سامنے موجود ایک مذہبی مقام پر ہورہے غیر قانونی و غیر شرعی کام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس کے کئی حصوں پر مقامی لوگوں نے قبضہ کرکے انھیں رہائش میں تبدیل کرلیا ہے۔حالات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے نشانات مٹاکر اس کی شناخت کو ختم کردیا جائے۔اسی لیے مسجد کی حفاظت اور بے حرمتی سے بچانے کے لیے کوئی معقول و غیر معقول انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ باقی ماندہ حصوں کی دیواریں اور چھت انتہائی مخدوش حالت میں ہیں۔ اس کی شناخت اور تحفظ کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔
(۹)مسجد کالو سرائے، حوض خاص۔ یہ مسجد پوری طرح سے رہائش گاہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ مسجد میں پلے خطرناک کتوں کا وفد پر حملہ
سیکڑوں سال قدیم مسجد کالوسرائے اس وقت پوری طرح سے رہائش گاہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ محکمۂ آثار قدیمہ کی بے توجہی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے مسجد پر تقریباً نصف درجن سے زائد لوگوں کے گھر آباد ہو چکے ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ یہاں کئی برسوں سے رہ رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مسجد ہی نہیں ہے۔ جب ہماراوفد کالو سرائے مسجد کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کالو سرائے پہنچا تو باہر سے مسجد کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا ۔ چنانچہ معلوم کرتے کرتے ایک پتلی گلی سے ہوتے ہوئے وفد جب اندر داخل ہوا تو اسے نہایت بوسیدہ اور خستہ حالت میں مسجدکالو سرائے نظر آئی جس میں رہائش کے لئے کچھ غیر قانونی طور پر تعمیراتی کام نظر آیا۔حالانکہ کچھ سال پہلے تک یہاں اس قسم کی تعمیرات نہیں تھی لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی بے توجہی کے سبب ایسا ہوا ہے ۔مسجد کی خستہ حالی پر جمعیۃعلماء ہند کے وفدکے منہ سے بے ساختہ اللہ اکبر نکلا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جہاں ایک طرف اس میں نصف درجن لوگ آباد ہیں وہیں مسجد کے اندر ہی کچھ خطرنا ک قسم کے کتے بھی پلے ہوئے ہیں جو مسجد کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں ۔جب جمعیۃکا وفد مسجد کے قریب پہنچا تو ان کتوں نے وفد پر حملہ کر دیا۔وہاں موجود لوگوں نے کتوں کو پکڑا اور زنجیر سے باندھ دیا لیکن ان کے بھونکنے سے دہشت پیدا ہو رہی تھی ۔غور طلب ہے کہ مسجد کے احاطے میں ہی سابق ایم پی رمیشور سنگھ نے اپنا گھر بنا رکھا ہے اور اسی نے مسجد کے آس پاس لوگوں کو آباد کیا ہے ۔وفد جب مسجد کے اندر داخل ہوا تواس کی ملاقات مسجد میں رہائش پذیر روپ چندر نامی شخص سے ہوئی جس نے بتایا کہ وہ اور اس کے چار بھائی یہاں کئی برسوں سے رہ رہے ہیں اوراب تک انہیں کسی نے یہاں رہنے سے نہیں روکا۔ روپ چند ر نے بتایا کہ اس سے پہلے ایک سکھ فیملی یہاں رہتی تھی جس کے سرپرست کا نام گروچرن سنگھ تھا ۔ وفد نے دیکھاکہ مسجد کے اندر روپ چندر نے فرنیچر کا کاروبار شروع کر رکھا ہے ۔ آثار قدیمہ ہونے کے باوجود مسجد کی حالت بدل دی گئی ہے لیکن اس کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے ۔وفد نے جب مسجد کو اندر سے دیکھنے کا مطالبہ کیا تو روپ چندر نے اندر نہیں جانے دیا۔علاقائی لوگوں سے وفد نے اس علاقے میں ہوئے تعمیراتی کام کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہاں جتنے بھی تعمیراتی کام ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر تین سے چار سال کے درمیان ہوئے ہیں۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر حکومت اور محکمۂ آثار قدیمہ نے وقت رہتے اقدامات نہیں کیے تو اس مسجد کا وجود پوری طرح سے ختم ہو جائے گا۔
اس کی شناخت ایک مسجد کے طور پر صرف اس کی پتھریلی دیوار سے ہوتی ہے، باقی کوئی علامت ایسی باقی نہیں بچی ہے، جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ کبھی یہاں نماز روزہ کیا جاتا تھا؛ علاوہ ازیں
(۱) محراب کو گھرکے دورازے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
(۲) استنجا خانہ مسجد کے اندرونی حصے میں تعمیرہے۔
(۳)مسجد کے دوسرے حصے کو لکڑیاں اور کوڑا کرکٹ رکھنے کا گودام بنالیا ہے۔
(۴)مسجد کے ایک دوسرے راستے کو کتوں کے’’کُھڑرا‘‘ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ 
(۵) کچھ ایسے حصے بھی ہیں، جہاں چھت نہیں ہیں، تاہم وہ بھی انھیں لوگوں کے استعمال میں ہیں۔
مختصر یہ کہ پوری مسجد قبضے میں آچکی ہے ، جووقف بورڈ اور مسلمانوں کی غیرت ایمانی پر ایک سوالیہ نشان ہے!!!۔
(۱۰)رضیہ سلطانہ مسجد، مہرولی
اس مسجد کے احاطے میں راجاؤں کی باولی موجود ہے ۔ منبرو محراب صحیح سالم حالت میں ہیں۔ دیواروں پر عجیب و غریب فن کاری کے نقشے اور قرآنی آیات تحریر ہیں۔ یہاں پہنچنے پر وفد نے پایا کہ :
(الف) لوگ مسجد کے اندرونی حصے میں تاش کھیل رہے ہیں۔
(ب) جواری، شرابی سوئے پڑے ہیں۔
(د) تقریبا پندرہ بیس سال پہلے اس میں آگ لگ گئی تھی، جس کے بنا پر کالی کالی ہوگئی ہے۔
(ہ)فقہا وغیرہ کی کندہ عربی عبارتوں کو رگڑ کر مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔
بنارس کے رہنے والے بہادر سنگھ واچ مین ہے ۔ ان کو ہدایت ہے کہ مذکورہ بالا کسی کام پر منع کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، لیکن چوکنا رہنا کہ کہیں کوئی خالق حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ نہ کرلے۔ 
(۱۱)جمالی کمالی مسجد مہرولی۔یہ مسجد ساجدین کی راہ تک رہی ہے
جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے قدیم اور تاریخی مسجد جمالی کمالی کا دورہ کیا ۔ اس مسجد کی تعمیر شیخ فضل اللہ عرف جلال خاں نے ۹۳۵ ؁ھ مطابق ۱۵۲۸ ؁ء میں کرائی تھی جو اپنی آرائش و زیبائش ،شان و شوکت، لطافت و نفاست کے لحاظ سے فن تعمیر کا اعلی نمونہ ہے ۔جمعیۃ کے وفدنے مسجد کا جائزہ لینا شروع کیا تو مسجد میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس سے مسجد کا تقدس پامال ہو رہا ہو۔مسجد میں صفائی ستھرائی کے نظام سے جمعیۃ علماء ہند کا وفد مطمئن نظر آیا ۔ وفدنے مسجد میں نماز ادا کرنی چاہی تو محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے تعینات چوکیدار نے نماز ادا کرنے سے روک دیا ۔ چوکیدار نے کہا کہ آپ اس مسجد کا جائزہ تو لے سکتے ہیں لیکن نماز نہیں ادا کر سکتے ۔وہاں پر موجود ایک سیاح نے بتایا کہ جب میں یہاں آیا تو نماز کا وقت ہو گیا تھا اور میں نے چاہا کہ نماز ادا کروں تومجھے یہ کہ کر روک دیا گیا کہ یہاں نماز ادا کرنا ممنوع ہے ۔ یہ یقیناًمحکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے مساجداور مسلمانوں پر ایک ظلم اور زیادتی ہے اور افسوس کی بات ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی زیادتی کی بنا پر نہ صرف جمالی کمالی مسجد بلکہ اس جیسی دیگر تاریخی اور قدیمی مساجد غیر آباد ہیں اور ساجدین کی منتظرہیں۔
اس مسجد کے ارد گرد بہت بڑی جگہ ہے ، جو تقریبا ویران اور خراب ہے ۔ پچھلے سال کچھ غیور مسلمانوں نے قانونی کارروائی کے بغیر کھول کر نماز پڑھنے کی کوشش کی، لیکن گورنمنٹ نے اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر اسے قفل بند کردیا ۔ ابھی اس میں نماز اذان کچھ بھی نہیں ہوتی۔ یہ مسجد مسلمانوں کے غیرت ایمانی کو للکار رہی ہے اور پکار رہی ہے کہ ہے کوئی ! جو مجھے آباد کرے اور ماضی کی طرح ذکر اللہ اور تذکرۂ رسول اللہ کی انجمن آراستہ کرے، ہے کوئی ، ارے بھائی ہے کوئی!!!۔
(۱۲) ماضی مسجد مہرولی
جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے مسجد جمالی کمالی سے نصف کلومیٹر جنوب میں واقع ماضی مسجد المعروف بہ جناتی مسجد کا دورہ کیا۔مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے مقرر کردہ چوکیدار موجود تھا ۔ وفدنے اس سے دریافت کیا کہ یہاں نماز ہوتی ہے تو اس چوکیدار نے جواب دیا کہ یہاں محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے نماز ادا کرنے کی پابندی ہے ۔ جمعیۃ کے وفدنے مسجد کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینا شروع کیا تودیکھا کہ مسجد کی ایک مینار محکمہ آثار قدیمہ کی بے اعتنائی کے سبب اپنا وجود کھو چکی ہے ۔ جمعیۃ علماء ضلع مہرولی کے سکریٹری مولانا ہارون رشید قاسمی نے بتایا کہ کچھ برس پہلے جب وہ اس مسجد کا دورہ کرنے آئے تھے تو یہ مینار خستہ حالت میں موجود تھی اگر اس وقت محکمہ آثار قدیمہ اس کی جانب ذرا سی بھی توجہ دیتا تو شاید اس مینار کا وجود باقی رہ سکتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اس مسجد میں پہلے عیدین کی نماز ہوتی تھیں لیکن اب وہ بھی نہیں ہوتی ۔نمازیوں سے مسجد آباد نہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ گندی اور مخدوش ہوتی جارہی ہے۔ صحن کے تہہ خانہ میں کوڑا کباڑ اور شراب کی بوتلیں ملیں۔ سیاح بے روک ٹوک جوتے چپل پہن کر ہی گھومتے پھرتے ہیں۔ راجیش کمار نامی گارڈ تعینات ہے ، لیکن یہ کسی کو بھی مسجد کی بے حرمتی سے منع نہیں کرتا، لیکن نماز سے ضرور روکتا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کو چاہیے کہ اس نے تحفظ کے نام پرجو نماز کی پابندی عائد کر رکھی ہے، اسے ختم کرکے فوری طور پر مسجد مسلمانوں کو حوالے کرے۔
(۱۳)افسر نامہ گنبد والی مسجد، ہمایوں کا مقبرہ بستی حضرت نظام الدین
یہ مسجد ۱۵۶۶ء کی یادگار ہے ۔یہاں حفاظتی بندوبست پر مامور راجپال سے گفتگو کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں صرف جمعہ کی نماز ہوتی ہے کسی اور نماز کی اجازت نہیں ہے۔ پوائنٹس کی باتیں درج ذیل ہیں:
(الف) عمارت کافی بوسیدہ ہوچکی ہے۔ مرمت کی سخت ضرورت ہے۔
(ب)اس کی بائیں جانب مقبرہ ہے، جس کا گارڈ اپنی ڈیوٹی سے غافل سویا ہوا ملا۔
(ج) مسجد کے پارک کی چہاردیواری کے اندر ناجائز جوڑے عشق فرمائی میں مصروف نظر آئے۔
(۱۴)عیسیٰ خان کا مقبرہ والی مسجد، ہمایوں کا مقبرہ بستی حضرت نظام الدین محکمہ آثار قدیمہ کی پابندی سے مسجدویران
وفد نے ہمایوں کے مقبرہ سے متصل مسجد عیسیٰ خاں کا دورہ کیا ۔ اس مسجد کی تعمیر عیسیٰ خاں نے ۹۵۴ ؁ھ مطابق ۱۵۴۷ ؁ء میں کرائی تھی ۔ اس مسجد میں بھی محکمہ آثار قدیمہ نے تحفظ کے نام پر نمازادا کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے ۔ مسجد کی حالت بیحد خستہ ہے ۔ مسجد کے باہر ایک کنواں ہے جس میں گندگی بھری پڑی ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ وہ کھلا ہے اور ایک بڑے حادثہ کو دعوت دے رہا ہے۔ اسی سے متصل عیسیٰ خان کی قبر ہے عیسیٰ خان شیر شاہ سوری کے کورٹ کا آدمی تھا، جن کے لیے زندگی میں ہی یہ مقبرہ اور مسجد تعمیر کرادی گئی تھی۔ تاریخ تعمیر ۱۵۴۷ ء ہے۔مسجد کے لیے کوئی گارڈ نہیں ہے؛ البتہ مقبرہ پر جتیندر یادونامی آدمی مقرر ہے۔ وفد نے دوگانہ نماز ادا کی۔یہ مسجد 
(الف) غیر آباد ہے۔ نماز پر پابندی ہے۔
(ب) مسجد انتہائی خوب صورت ہے، تاہم زمانے کے خرد برد کی شکار ہورہی ہے۔
(ج) صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
(د) اس کے لیے مخصوص سکورٹی فرد نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں اور گھومنے پھرنے والوں کی بے حرمتی کی شکار ہورہی ہے۔
(۱۵) مسجد عرب سرا جمعہ کی اجازت اور پنجہ وقت کی عدم اجازت کی وجہ پوچھ رہی ہے
وفد نے مقبرہ سے متصل ایک اور مسجد عرب سرا کا دورہ کیا۔ یہ مسجد بھی محکمہ آثار قدیمہ کے زیر نگرانی ہے ۔اس مسجد کی بھی حالت بہتر نہیں ہے ۔ مسجد کی حفاظت کے لئے تعینات چوکیدار نے بتایا کہ یہاں صرف نماز جمعہ ہوتی ہے، نماز پنج گانہ کی اجازت نہیں ہے ۔وفد کوبیحد تعجب ہوا کہ مقبرہ سے متصل ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت تو ہے لیکن دوسری میں اجازت نہیں ہے یہ بھی تعجب خیز بات ہے کہ جب مسجد عرب سرا میں نماز جمعہ ہو سکتی ہے تونماز پنج گانہ کیوں نہیں ہوسکتی ۔ نمازیوں سے آباد نہ ہونے کہ وجہ سے عمارت مخدوش ہوتی جارہی ہے ، فوری توجہ کی سخت ضرورت ہے۔
(۱۶) مدرسہ صفدر جنگ 
یہاں نواب شجاع الدولہ نے اپنے والد محترم مرزامقیم عبدالمنصور خاں کی یاد میں بہت بڑی عمارت تعمیر کرائی تھی، جو آج کل تماشا گاہ عالم بنی ہوئی ہے۔ اسی کے احاطے میں پوربی دروازے سے متصل اوپری منزل پر ایک پرشکوہ مسجد ہے ۔وہاں موجود افراد سے گفتگو کرنے پر معلوم ہوا کہ :
(الف) اس میں صرف جمعہ کی نماز کی اجازت ہے۔ اسی دن کھولی جاتی ہے باقی دنوں میں اسے دیکھنے پر بھی پابندی ہے۔
(ب) پوربی مین گیٹ بند کردیا گیا ہے، جمعہ کے نمازی چھوٹے دروازے سے ہی آمدو رفت کرپاتے ہیں۔
(ج) اس پر پنجوقتہ نماز کی اجازت کے لیے مقدمہ چل رہا ہے۔ مولانا نقش بندی صاحب اس کے امام ہیں۔ 
(د) مقبرہ صفدر جنگ میں سیاحت کے نام پرتمام غیر اخلاقی حرکتیں جاری ہیں، ان پر کسی کی توجہ نہیں ہے ۔
(ھ)مسجد کے باہر غیر قانونی طور پر مند ر تعمیر کیا گیا ہے اور محکمہ آثار قدیمہ خاموش ہے ۔
(۱۷) شیخ یوسف قتال کا مقبرہ و مسجد، مالویہ نگر
محکمۂ آثار قدیمہ کی بے اعتنائی کے سبب قدیم اور نایاب مساجد کا وجود خطرے میں ہے ۔ مساجد میں نماز پڑھنے پر تو پابندی عائد کر دی گئی ہے؛ لیکن دیگر غیر قانونی اور غیر شرعی امور محکمۂ آثار قدیمہ اور حکومت کو نظر نہیں آرہے ہیں۔ایسا ہی کچھ منظر جمعیۃ علماء ہند کے وفد کو کھڑکی گاؤں مالویہ نگر میں واقع مقبرہ و مسجدشیخ یوسف قتال میں دیکھنے کو ملا۔ وفدجب مسجد شیخ یوسف قتال پہنچا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ مسجد اور مقبرہ کے احاطے میں باقاعدہ طور پر ایک چھوٹا سا مندر بن چکا ہے، جس پر پھول وغیرہ چڑھائے گئے ہیں۔مسجد کے اندر مندر دیکھ کر وفد کا دل بیٹھ گیااورسا تھ ہی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ جب لوگ مسجد کے باہر قبضہ کرنے کے لیے مندر بنالیتے ہیں تو اندر بھی قبضہ کرنا کیا مشکل ہے ۔ جائزہ کے دوران پایا گیا کہ ہر جگہ شراب کی بوتلیں نظر آرہی تھیں۔جب یہ وفد مسجد کے اندر داخل ہوا تو اندر سے چرس گانجے کی بدبو آرہی تھی کہ جیسے کوئی تھوڑی دیر پہلے یہاں پی کے گیا ہو۔ مسجد کے چاروں کونوں کو پان مسالے کی پیک سے رنگین کر دیا گیاتھا اور مسجدکے قریب میں ہی لوگوں نے پیشاب پاخانہ کر رکھا تھا جس کے تعفن سے وہاں ایک لمحہ بھی ٹھہرنا دشوار ہو رہا تھا ۔ وفد نے دیکھاکہ مسجد کی حفاظت کے لئے محکمۂ آثار قدیمہ کی طرف سے کوئی چوکیدار مقرر نہیں کیا گیا۔ اس مسجد میں وقف بورڈ کی جانب سے مولانا محمد الیاس کو امام مقرر کیا گیا تھا لیکن انہیںیہاں نماز پڑھنے او رپڑھانے کی اجازت نہیں ہے ۔ گو کہ مسجد میں تمام غیر شرعی اور غیر قانونی کام تو انجام دیئے جا سکتے ہیں لیکن نمازنہیں پڑھی جا سکتی ۔مسجدکی زمین پر قرب وجوار کے لوگوں نے قبضہ کر رکھاہے ۔ و اضح رہے کہ اس مسجد کی تعمیر ۹۰۳ ؁ھ مطابق ۱۴۹۷ ؁ء میں بعہد سلطان سکندر شاہ بن سلطان بہلول لودھی ہو ئی ہے اور اس مسجد کو حضرت فرید شکرگنج کے نواسے شیخ علاء الدین نے بنوایاتھا ۔ حضرت شیخ یوسف قتال حضرت قاضی جلال الدین لاہوری کے مرید خاص اور صاحب نسبت بزرگوں میں سے تھے۔ 
(۱۸) ۸۲ گنبد اور ۱۰۰۰ ستون والی مسجد کھڑکی گاؤں بے توجہی کا شکار
مساجد کے تئیں حکومت اور محکمۂ آثار قدیمہ کی بے توجہی ہندوستان کی تاریخی اور غیر معمولی اہمیت کی حامل مساجد کے وجود کو ختم کرنے پر آمادہ ہے ۔ ان مساجد میں سے ایک ساکیت روڈ سے ملحق کھڑکی گاؤں میں واقع ۸۲گنبد اور ۱۰۰۰ ستون والی مسجد کھڑکی گاؤں ہے جو عہد فیروزشاہی کی نشانی اور استحکام و مضبوطی میں لاثانی ہے ۔جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے دیکھا کہ مسجد کی اطراف میں لوگوں نے قبضہ کر رکھاہے اور مسجد کی چہاردیواری سے سٹا کر اپنے گھر تعمیرکرلیے ہیں جب کہ آثار قدیمہ کی کسی بھی عمارت کے سو میٹر کے دائرے میں کوئی تعمیراتی کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔ مسجد کے باہر ہی ایک مندر بنا ہوا ہے جس میں قدیم مندر لکھا ہوا ہے ۔ جب وفد نے مسجد کے قریب رہنے والے قاضی عبدالباسط سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ مسجد کے باہر جو مندرہے اس کی تعمیر ابھی تین چار سال پہلے ہی ہوئی ہے اس سے پہلے یہاں ایک مورتی رکھ دی گئی تھی اور دیکھتے دیکھتے یہاں مکمل مندر کھڑا ہو گیا۔ عبدا لباسط نے بتایا کہ مسجد کے اندر شرابیوں،جواریوں ،اور چرسیوں کی محفلیں سجتی ہیں ،چوکیدار بھی اس میں شامل رہتا ہے ۔ عبدالباسط نے بتایاکہ یہاں تقریباً بیس سال پہلے بہار سے ایک جماعت آئی تھی جس نے یہاں نماز قائم کی تھی لیکن حوض رانی والوں نے اس کی مخالفت کی جس کی وجہ سے مسجد میں نماز بند ہو گئی اور اس کے بعد نماز پڑھنے کی کوشش کی گئی تو محکمہ آثار قدیمہ نے نماز پر روک لگا دی۔ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ یہاں نماز پڑھنا چاہتے ہیں لیکن نماز پڑھنے نہیں دی جاتی ۔قاضی عبدالباسط نے مسجد کی خصوصیت بتاتے ہوئے کہا کہ اس مسجد کی محراب میں کھڑے ہو کر جب نماز پڑھی جاتی تھی تواس کی آواز پورے بیاسی گنبدوں تک صاف سنائی دیتی تھی ۔مسجدمیں آئے ایک اور علاقائی شخص نے بتایا کہ اس مسجد میں تقریبا سات سال پہلے مرمت کا کام شروع ہوا تھا لیکن وہ بند کر دیا گیا ۔ تب سے آج تک نہ تو یہاں ہم نے صاف صفائی دیکھی اور نہ ہی مرمت کا کام۔جب یہ وفد مسجد میں داخل ہوا تو مسجد کے اندر کتے سو رہے تھے۔ مسجد میں بیحد گندگی تھی جیسے سالوں سے یہاں صفائی نہ کی گئی ہو ۔ واضح رہے کہ اس مسجد کی تعمیر ۷۸۹ ؁ھ مطابق ۱۳۸۷ ؁ء میں اعظم خان جہاں جونانشہ نے کرائی تھی جو چونے اور پتھروں کی بنی ہوئی ہے ۔مسجدکھڑکی کی نمایا ں خصوصیت یہ ہے کہ یہ جتنی لمبی ہے اتنی ہی چوڑی بھی ہے ۔ اب یہ مسجد نہایت ہی مخدوش حالت میں ہے مشرقی دروازہ کے شمال میں چھت شہید ہو گئی ہے اور اس حصے کے نو گنبدوں میں سے پانچ گنبد بھی شہید ہو گئے ہیں اور چار گنبد نیم شکستہ حالت میں ہیں۔وفداس عالیشان مسجد کی ایسی حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوا اور اپنے ضمیر سے سوال کیا کہ کیا اسی طرح مسجد کا تحفظ کیا جاتا ہے کہ مسجد میں نماز کی پابندی لگا دی جائے اور نہ تو اس کی صاف صفائی پہ دھیان دیا جائے اور نہ ہی اس کی مرمت پر ۔ مسجد کے اندراور باہر غیر قانونی اورغیر شرعی امور انجام دیے جا رہے ہیں اور حکومت و محکمۂ آثار قدیمہ ان سب باتوں سے بے خبر ہے ۔ مسجد کی حفاظت کے لئے سیکورٹی گارڈ اپنی ڈیوٹی صحیح طریقے سے نہیں بجالاتا اور وہ غیر حاضر رہتا ہے ، علاوہ ازیں:
(الف) پوری مسجد پرندوں اور جانوروں کی گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہے۔
(ب)جگہ جگہ گانجہ، چرس اور افیم کی تھیلیاں پڑی ہوئی ہیں۔
(ج) مسجد میں بنے کچھ کمروں پرقبضہ کرلیا گیا ہے، جب کہ دوسرے کچھ کمرے بول وبراز کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ کچھ کمروں کو کوڑا گھر بنالیا گیا ہے۔
(د) شرافت سے گری ہوئی حرکتوں کے لیے بھی اس مسجد کو اڈے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
(ہ) شام ہوتے ہی ناجائز عناصر کی پناہ گاہ بن جاتی ہے۔
(و) وفد کو وہاں کوئی گارڈ تعینات نہیں ملا۔
حالات کے مطابق اگر فی الفور اس مسجد پر کوئی توجہ اور قانونی کارروائی نہیں کی گئی ،تو جس طرح راستے میں مندر بنادیا گیا ہے، اس سے یہ خدشہ بیجا نہیں ہے کہ کہیں اس کا حال بابری مسجد جیسا نہ ہوجائے ۔ 
(۱۹) شاہ عالم کا مقبرہ والی مسجد ، وزیرآباد
یہاں فیروز شاہ تغلق نے ۱۳۸۸۔۱۳۵۱ء میں ایک پل تعمیر کرایا تھا ، اسی پل سے متصل بائیں جناب شاہ عالم کا مقبرہ اور ایک مسجد ہے۔ سیکورٹی گارڈ کا نام نظام الدین ہے۔ اب تک کے دورے میں یہ پہلا مسلمان گارڈ ملا۔ ان کے بیان کے مطابق ۱۹۸۱ء میں مسلمانوں نے نماز پڑھنے کی کوشش کی، تو شرپسند عناصر اپنے مذہبی جھنڈوں کو لے کر ہنگامہ کرتے ہوئے مسجد کی چھت اور گنبد پر چڑھ گئے اور مسلمان بھی نماز کی ادائیگی پر بضد ہوگئے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول پیدا ہوگیا۔ پولیس نے اپنی کارروئی کرتے ہوئے پہلے ہندووں کو نیچے اتارا اور مسلمانوں کو کہا کہ آج وضو کرکے نماز پڑھ لو اور یہاں سے نکل جاؤ ۔آئندہ پھر کبھی ادھر نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھنا۔ اس دن سے لے کر آج تک یہ مسجد تالا بند ہے۔نظام الدین صاحب کے بیان کے مطابق حالیہ کچھ سالوں پہلے مصطفی آباد کے مسلمانوں نے اشتہار چھپوا کر نماز جمعہ ادا کرنے کی کوشش کی، لیکن میرے سمجھانے پر وہ لوگ باز آگئے اور حالات خراب نہیں ہوئے۔ نیک مشورہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے آباد کرنے کی فکر کو لے کر کئی لوگ آئے ، سب کو جو مشورہ میں نے دیا وہی مشورہ میں آپ لوگوں کو دینا چاہتا ہوں کہ جب بھی ہاتھ ڈالیں، تو مضبوط ہاتھ ڈالیں ، اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا ۔ نظام الدین بھائی نے اپنا موبائل نمبر : 9560740503دیتے ہوئے کہا کہ ہماری دلی تمنا ہے کہ یہ مسجد آباد ہو اور پھر اس کی بہاریں لوٹ آئیں، جس کے لیے بندہ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار رہے گا۔ مشاہدے سے جو چیزیں نوٹ کرنے کی قابل نظر آئیں ، وہ درج ذیل ہیں:
(الف) مسلمان گارڈ ہونے کی وجہ سے مسجد میں صفائی ستھرائی ہے، لہذا ہر مسجد میں مسجد کا احترام جاننے والا مسلمان گارڈ ہی ہوناچاہیے۔
(ب)مسجد لب سڑک ہے۔ اگر نماز کی اجازت ہوجائے گی تو علاقے کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسافروں کے لیے بھی آسانی ہوگی۔
(ج) گارڈ کے تجربے کے مطابق کوئی بھی مسجد صرف قانونی کارروائی ہی کے ذریعے آباد کرائی جاسکتی ہے۔
(د) گارڈ نے مسجد میں غیر شرعی عمل کو روکنے کے لیے پولیس میں بھی اپلی کیشن دے رکھا ہے۔
(ہ) مرمت کا کام انتہائی سست ہے، جس کے باعث مسجد کے اندرونی حصے میں رکھے کنسٹرکشن کے سامان بھی مرمت کے محتاج ہوگئے ہیں۔
(۲۰) سلطان غاری مسجد، مہی پال پور وسنت کنج دہلی
اس مسجد کے چاروں طرف وسیع و عریض میدان ہے ۔ آبادی یہاں سے کافی دور ہے۔ کافی بڑی مسجد ہے۔ پرتاپ سنگھ واچ مین کا نام ہے۔ اس کے امام مولانا نصرالدین امینی ہیں، جو وقف بورڈ کی جانب سے ۱۹۹۷ سے تنخواہ یاب امام ہیں۔جمیلہ خاتون نام کی ایک خاتون بھی یہاں آتی جاتی ہے، جو مسجد کو صاف صفائی کرتی ہے۔ یہ مسجد شمس الدین التمش کی تعمیر ہے ۔ اس کے صحن میں التمش کے بیٹے سلطان ناصر الدین محمود کا مقبرہ ہے ۔یہاں پہنچنے پر درج ذیل حالات معلوم ہوئے:
(الف) واچ مین کا کہنا ہے کہ یہاں نماز پر پابندی ہے۔ باقی سب حرکتیں کرسکتے ہیں۔
(ب) مقبرہ کی دیوار پر ہندوانہ علامت بنائی ہوئی ملی اور اندر قبر کے پاس شیو لنک کا پتھر ملا، ان چیزوں پر واچ مین کو ٹوکنے پر ان کا کہنا تھا کہ یہاں ہر مذہب اور فرقے کے لوگ عقیدت کی بنیاد پر آتے ہیں، اسی لیے ہم کسی کو منع نہیں کرتے، اس پر جب یہ پوچھا گیا کہ پھر نماز کی کیوں اجازت نہیں ہے، تو بد تمیزی پر اتر آیا اور کہا کہ یہاں کتنے آئے اور چلے گئے ، آپ لوگ کیا کرلیں گے وغیرہ وغیرہ۔
واضح ہو کہ یہاں کی قبروں کی پوجا بریلوی طرز کے بجائے ہندوانہ رسم و رواج کے مطابق کی جارہی ہے، جس سے وفد کا یہ ماننا ہے کہ یہ اس مقبرے اور مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی تدریجی کوشش کا ایک حصہ ہے۔
(ج) امام صاحب کے بیان کے مطابق تین وقتوں کی نماز کی اجازت ہے، لیکن جب ہم نماز پڑھانے گئے ، تو پولیس نے ہمیں روک دیا۔ حتیٰ کہ جمعہ کی نماز بھی ادا کرنے نہیں دی جارہی ہے ۔
(د) امام صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم چٹائی وغیرہ رکھتے ہیں، تو وہاں موجود واچ مین غائب کروا دیتا ہے۔ حتی کہ پانی کی صراحی تک پھینک دیتا ہے۔
(ہ) اس میں داخل ہونے کے لیے پانچ روپیے کا ٹکٹ لگتا ہے، لیکن جمعرات کو ٹکٹ نہیں لگتا ۔اس دن کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ اور قبر کے اندر جانے کے لیے نذرانہ دینا ضروری ہے۔ یہ نذرانہ واچ مین اصول کرتا ہے۔ ایک جمعرات کا نذرانہ تقریبا چھ سات ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسجد میں کسی کو آنے دینا نہیں چاہتا تاکہ اس کا دھندہ کہیں ختم نہ ہوجائے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نذرانہ کی کچھ رقم محکمہ آثار قدیمہ کے افسران تک بھی جاتی ہے، جس کی وجہ سے گارڈ کے حوصلے اتنے بلند ہیں۔امام صاحب کا کہنا ہے کہ واچ مین غیر مسلموں سے تو ٹکٹ نہیں مانگتا ، لیکن مسلمانوں کو بغیر ٹکٹ کے اور کبھی کبھار مجھے بھی بغیر ٹکٹ کے اندر داخل ہونے نہیں دیتا، حالاں کہ میں اسی مسجد کا امام ہوں۔ جمعرات کو لگنے والے زائرین کی بھیڑ اور ان لوگوں کے غیر اسلامی رسوم کا جائزہ یہی اشارہ دیتا ہے کہ عبادت کے بجائے پوجا کا طریقہ رائج کرکے اسے مندر بنانے کی مہم جاری ہے۔
مزید کسی بھی معلومات کے لیے امام صاحب نے اپنا نمبر دیا نمبر ہے: 9999048492

(۲۱) مسجد۔۔۔
مسجد سالار غاری سے تھوڑے فاصلے پر پورب کی جانب جھاڑی میں ایک اور مسجد ہے، جس کی صرف دیواریں باقی رہ گئی ہیں اور وہ بھی آدھی ادھوری ہی بچی ہیں۔ وہاں لگا بورڈ سے صرف اتنا پتہ چل پایا کہ یہ مسجد فیروز شاہ تغلق کی تعمیر ہے، جو ۸۸۔۱۳۵۱ء مین بنائی گئی ہے۔ اس کی دیوار سے متصل بیت الخلا کے قدمچے بنے ہوئے ملے اور جگہ جگہ گندگی کے انبار نظر آئے۔ اس کے لیے کوئی گارڈ متعین نہیں ہے اور نہ ہی حفاظت کے لیے کوئی اور انتظام کیا گیا ہے۔
ان دونوں مسجدوں کے اطراف کی لمبی چوڑی زمینوں پر آہستہ آہستہ قبضہ کیا جارہا ہے۔ اور مسجد کے راستے میں ایک بہت بڑے حصے پر گاو شالہ بنالیا گیا ہے۔
(۲۲) تین برجی مسجد محمد پور دہلی
یہ بہت بڑی مسجد ہے۔ اس کے چاروں طرف بڑی بڑی عمارتیں بنالی گئی ہیں، یہاں تک کہ مسجد کی دیوارکو ہی لوگوں نے اپنے مکان کا حصہ بنالیا ہے، جو کہ محکمہ آثار قدیمہ کے قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔یہ مسجد لودھی عہد ۱۵۲۶۔۱۴۵۱ء کی یادگار ہے۔اس میں لگے کتبے پر یہ وضاحت ہے کہ یہ دراصل قبر ہے ، لیکن اس کی بناوٹ سے لگتا ہے کہ یہ مسجد کے مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہوگا۔ لیکن وفد کا ماننا ہے کہ یہ مسجد ہی ہے، کیوں کہ اس کی درودیوار مسجد کی خصوصیات کا ہی اعلان کرتی نظر آتی ہے۔ وفد کا جائزہ کہتا ہے کہ :
(الف) اس میں نقلی قبریں بنوادی گئی ہیں، اور نقلیت کی شہادت خود ان کی جدید تعمیر ہے۔اور یہ اس مسجد کی شناخت کو مٹانے کی مذموم کوشش کا حصہ ہے۔
(ب) مسجد کے گیٹ پر ہمہ وقت تالا لگا رہتا ہے۔
(ج) وہاں پر موجود بگڑے قسم کے نوجوان سے پوچھ گچھ کرنے سے معلوم ہوا کہ یہاں ایک سکورٹی گارڈ بھی تعینات ہے، لیکن فی الحال گاؤں گیا ہوا ہے۔
(د)جگہ جگہ مسجد کی دیواروں پر پمفلیٹ اور پوسٹر لگے ہوئے ہیں جو کہ آثار قدیمہ کے قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔مسجد کے قریب رہنے والے ایک شخص نے بتایا کہ شام کو نشہ کرنے والے مسجد میں دروازہ پھاند کر داخل ہو جاتے ہیں اور شراب و دیگر نشہ کرتے ہیں۔
(۲۳) محمد پور اندر گلی کی ایک مکمل مقبوضہ مسجد
وفد کے مقامی رہبر مولانا نصرالدین امینی صاحب نے بتایا کہ کچھ عمارتیں آبادی کے اندر بھی ہیں۔ چنانچہ ان کی رہ نمائی میں وفد انھیں دیکھنے کے لیے گیا۔ تنگ اور پتلی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک جگہ پر پہنچے جہاں صرف گنبد کا ہی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ اس کے چاروں طرف بڑے بڑے مکانات تعمیر ہوچکے ہیں۔ حتی کہ راستہ بھی اتنا تنگ ہوگیا ہے کہ بمشکل تمام صرف ایک آدمی ہی آواگون کرسکتا ہے۔ وفد نے دیکھا کہ یہاں محکمہ آثار قدیمہ کا بورڈ لگا ہوا ہے ، جس میں اس کا قانون درج ہے کہ اس کے اطراف میں دو سو میٹر تک کوئی عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی ۔ اس کے باوجود معاملہ یہ ہے کہ دو گز زمین بھی راستہ تک کے لیے باقی نہیں رکھی گئی ہے۔ اس کے ہر چہار سو غیر مسلم کی آبادی ہے۔ مقامی لوگ اسلامی شان و وضع کے افراد کو دیکھ کرگھبراہٹ کے شکار نظر آئے اور انھیں خدشہ ہوا کہ ہم لوگ قبضہ کی غرض سے آئے ہیں، اس لیے ہمیں دیکھ کر انھوں نے گالم گلوچ اور نازیبا الفاظ کہے۔ اور جتنی بری سے بری باتیں ہوسکتی تھیں، سب سناڈالا؛ حتی کہ یہ بھی کہا کہ اگر تم لوگ یہاں سے نہیں گئے تو تمہاری لاشیں یہاں سے جائیں گی. لیکن قائد وفد کی ہدایت پر کسی نے بھی جواب دینا مصلحت کے خلاف جانا اور خاموشی کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کی مکی زندگی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔
(۲۴)شاہی مسجدقدسیہ باغ، نزد کشمیری گیٹ بس اڈہ
مسجد کی تعمیر نماز پڑھنے کے لیے ہوتی ہے اس لیے اگر یہاں کوئی نماز پڑھتا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ قائم کرنا غلط ہے ۔یہاں کے امام مولانا سید شکیل صاحب ہیں، ان کی عدم موجودگی میں نائب امام سے ملاقات ہوئی انھوں نے بتایا کہ ابھی اس میں پانچوں وقتوں کی نماز ہورہی ہے ، لیکن محکمہ نے نماز پر پابندی لگانے کے لیے مقدمہ کردیا ہے ،قدسیہ باغ مسجد پر چل رہے مقدمہ کو غلط قرار دیتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے کہا کہ محکمہ آثار قدیمہ کو جن کے خلاف مقدمہ کرنا چاہئے ان کے تئیں خاموش ہے اور جن کو تحفظ دینا چاہئے ان کے خلاف مقدمہ بازی کر رہا ہے ۔یہاں جس وقت وفد پہنچا ، اس وقت مسجد میں محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے صفائی ستھرائی کا کام جاری تھا ۔جمعیۃ کے وفد کو اس بات پر خوشی حاصل ہوئی کہ مسجد کے باہر گیٹ پر لکھا گیا تھا کہ یہ عام راستہ نہیں ہے ، یہ مسجد کا راستہ ہے ۔علاوہ ازیں جمعیۃ علماء ہند نے مسجدکے گرد و پیش کا بھی جائزہ لیا جس میں پایا کی مسجد کے بالکل سامنے رنگ روڈ پر مسجد سے متصل ایک جدید ہنومان مندر کی تعمیر کی گئی ہے ۔مندر دیکھ کر جمعیۃ کے وفد کو اس لیے کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اکثر قدیم مسجدوں کے سامنے مندروں کی تعمیر کی گئی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی مہربانی سے مسجدیں ویران ہیں اور جدید مندر پوری طرح سے آباد ہو رہے ہیں ۔ آثار قدیمہ قانون کے مطابق ۱۰۰؍ میٹر تک کوئی جدید تعمیراتی کام نہیں ہو سکتا ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ قدیم مسجد میں عبادت کے لیے پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ قانونی اعتبار سے مسجد میں نماز کی پابندی نہیں ہو سکتی لیکن جدید مندر میں پوجا پاٹھ کا کام زور و شور سے ہو رہا ہے اور محکمہ آثار قدیمہ آنکھ بند کیے ہوئے ہے۔اسے محکمہ آثار قدیمہ کے اس رویہ کے سوااور کیا کہاجاسکتا ہے کہ وہ تعصب سے کام لے رہا ہے ۔ واضح رہے کہ مسجد قدسیہ مغل فن تعمیر کاشاہکار نمونہ ہے ۔مسجد کافی خوبصورت تھی لیکن اس وقت یہ کافی خستہ حال ہے ۔دلی گزٹ ۱۹۷۰؍ میں مسجد قدسیہ باغ کا انداراج ہے ۔ریکارڈ کے مطابق دلی گزٹ میں عام طور پر تاریخ غلط درج کی گئی ہے پھر بھی یہی گزٹ حکومت کی نظر میں معتبر اور مستند ہوتا ہے اور سرکاری عدالتوں میں اسی کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔گزٹ کے مطابق ۱۷۴۸؍ میں حاکم محمد شاہ کی اہلیہ نواب قدسیہ بیگم نے مسجد قدسیہ باغ کو وقف کیاتھا ۔مزید معلومات کے لیے امام صاحب کا رابطہ نمبر حاضر ہے: 9810355762. 9873039918۔
(۲۵) چوبرجی مسجد ، جھولا پارک،کملا نہرو ریج
یہ مسجد جھولا پارک میں واقع ہے۔ آس پاس صفائی ستھرائی ہے۔ وفد کے پہنچنے پر مسجد بند ملی، وہاں موجود دوسرے حضرات سے پوچھ گچھ پر معلوم ہوا کہ نماز کی اجازت نہیں ہے۔غلط حرکتوں سے مسجد کو پاک رکھنے کے لیے اس میں تالا لگا دیا گیا ہے۔ باہر سے دیکھنے پر اندازہ ہوا کہ اندرونی حصے میں بندروں نے اپنا رین بسیرا بنا رکھا ہے ۔ مسجد کے پوربی دیوار پر ناریل پھوڑنے او راگربتی کے آثار نظرآئے، جس سے وفد کا ماننا ہے کہ اس مسجد کو بھگواکرن کرنے کی ایک سازش ہوسکتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر سلطان فیروز شاہ نے کرائی تھی ۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کے چار برج اور اتنے ہی گنبد تھے، لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی بے توجہی کی وجہ سے صرف ایک گنبد باقی رہ گیا ہے ، مسجد کے سبھی چھوٹے بڑے مینارے بھی منہدم ہوگئے ہیں۔لاپرواہی کا یہی عالم رہا تو وہ دن دور نہیں ، جب اس مسجد کا نام و نشان بھی اس عالم سے ختم ہوجائے گا۔
(۲۶)مسجد پیٹھان والی، مال روڈ چوک
یہ مسجد جھولا پارک کی دوسری سمت میں کافی اونچائی پر واقع ہے۔ یہاں کے امام مولانا حبیب الرحمان صاحب ہیں ۔ ان کی تفصیلات فراہم کرنے کے مطابق :
(الف) یہ مسجد پہلے اسمیک مسجد کے نام سے مشہور تھی، جس پر گانجہ ،افیم اور چرس وغیرہ کا دھندہ کرنے والے مسلمانوں ہی کا قبضہ تھا۔ سولہ سال تک کیس لڑنے کے بعد اسے آزاد کرایا گیا ہے۔
(ب) اگرچہ وقف بورڈ کی جانب سے امام کی تنخواہ مقرر نہیں ہے، تاہم وقف بورڈ نے نماز کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہاں سبھی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔
مزید کسی معلومات کے لیے امام صاحب کا نمبر ہے: 9868425315. 9871446513۔
(۲۷)بڑا لاو کا گنبداور مسجد بارادری، وسنت کنج دہلی
یہاں کا واچ مین رام راج یادو ہے۔ ان کے بیان کے مطابق اس گنبد پر ایک ہندو جاٹ نے قبضہ کرلیا تھا، جو ابھی آزاد ہے۔ یہ جگہ دہلی سرکار کے قبضے میں ہے، جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی وقفی حیثیت کو ختم کردیا گیا ہے۔ اس سے متصل ایک اور چھوٹی مسجد ہے ، جس کی چھت گرچکی ہے اور دہلی سرکار مرمت کرارہی ہے۔ چاروں طرف پارک ہے۔ صاف صفائی ہے۔ غیر شرعی عناصرکی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔نماز پر مکمل پابندی ہے۔
(۲۸)عید گاہ مسجد یامسجد وال، آرکے پورم، سیکٹر۵
یہ مسجد لودھی زمانے کی تعمیر ہے۔ جامعہ محمدیہ آر کے پورم سیکٹر ۴ کے بانی و مہتمم جناب مولانا عبدالرشید صاحب کے بیان کے مطابق یہ قبرستان ہے، جب کہ مولانا نصرالدین امین صاحب کے قول کے مطابق یہ عیدگاہ ہے۔ بہر کیف اس کے پچھم میں اس کے دیوار سے متصل گردوارا اور پورب دیوار سے متصل ایک بڑا مندر بنادیا گیا ہے۔ پورب کا ایک گنبد رہاشی گھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ دکھن کی طرف ایک بڑی جگہ پر قبضہ کرکے ایک اسکول قائم کردیا گیا ہے۔ مہتمم صاحب کے بیان کے مطابق مولانا قاسم صاحب نے اس میں نماز شروع کرانے کی کوشش کی تھی، لیکن پولیس نے روک لگادی ۔ اس کے گنبدوں میں چڑیوں اور انسانی چمگادڑوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔یہاں ایک گارڈ بھی تعینات ہے ، لیکن وفد کے پہنچنے کے وقت وہ ندارد تھا۔
(۲۹) بجری خان کا مقبرہ آر۔کے۔ پورم سیکٹر ۳
یہاں بجری خان کے مقبرے پر گنبد نما بہت بڑی عمارت ہے اور اس کے دکھن کنارے ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ بناوٹ سے اندازہ لگایا جائے تو چلہ کشی کے لیے ا س کی تعمیر ہوئی ہوگی۔ اس کے پوربی حصے پر قبضہ کرکے ایک مندر بنا لیا گیا ہے۔ اگر فی الفور توجہ نہیں دی گئی، تو ہوسکتا ہے کہ بچی کھچی جگہ بھی ہاتھ سے چلی جائے گی۔ یہاں مقرر واچ مین کا نام دنیش ہے۔
(۳۰)مسجد بھول بھلیاں پر غیر قانونی طور پر قبضہ
جمعیۃ کے وفد نے مسجد بھول بھلیاں کا دورہ کیا ۔ یہ بھول بھلیاں بادشاہ اکبر کے رضاعی بھائی اوہم خاں اور رضاعی ماں ماہم بیگم کا مقبرہ ہے ۔اس مقبرہ کے احاطے میں تقریباً 200 فٹ کے فاصلے پر جنوب میں سڑک کے دوسری طرف ایک پتلی گلی ہے اسی گلی سے ہوکر جانے پر مسجد میں جانے کا راستہ ہے ۔ اسی راستے میں ایک ٹائپنگ سینٹرہے اور اس سے متصل مسجد میں جانے کے لئے در ہے ۔اس درسے صرف وہ لوگ ہی اندر جا سکتے ہیں جن کا قبضہ مسجد پر ہے ۔مسجد کو چاروں طرف سے قبضہ کر لیا گیا ہے اور اس میں کئی لوگوں کی رہائش ہے ۔ جمعیۃ کے وفد نے جب مسجد کی موجودہ صورتحال جاننے کے لئے اندر جانے کی کوشش کی تو ٹائپنگ سینٹر کے مالک اور دیگر افراد آ گئے جنہوں نے جمعیۃ کے وفدسے چلے جانے کے لئے کہا اوردوبارہ نہ آنے کی ہدایت بھی کر دی ۔مسجد پر قابض افراد نے جمعیۃ کے وفد سے کہا کہ یہ مسجد نہیں ہے یہ ہمارا گھر ہے اور ہمارے گھر میں ہماری اجازت کے بغیر آپ نہیں آ سکتے ۔
آخر کا ر وفدکے ایک رکن نے بھول بھلیاں کی دیوارپر چڑھ کر مسجد کی صورتحال دیکھنے کی کوشش کی ۔ وہاں سے مسجد کا گنبد صاف طور سے نظر آ رہا تھا جو مقبوضہ افراد کی قول کی تردید کر رہاتھا ۔ بھول بھلیاں کے چوکیدار نے وفد کو بتایا کہ اس مسجد کی زمین کے لئے مقدمہ چل رہاہے اور مقبوضہ افراد یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ مسجد نہیں ہے جبکہ مسجد کا گنبد صاف طور پر مسجد کے وجود پر دلالت کرر ہا ہے ۔ اگر حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ نے آثار قدیمہ کی حفاظت کے لئے اقدامات کئے ہوتے توآج اس مسجد پر قبضہ نہ ہوا ہوتا۔
(۳۱)مسجد حوض خاص گاؤں پوری طرح سے رہائش گاہ میں تبدیل 
حوض خاص گاؤں میں واقع مسجد و مدرسہ حوض خاص کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے وفد نے یہاں کا دورہ کیا ۔مسجد کے اندر داخل ہوتے ہی جو منظر وفد کے اراکین نے دیکھا وہ بے حد حیرت انگیز تھا ۔ مسجد کو پوری طرح سے رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔ مسجد کے محراب میں لوگ چارپائی اور بستر لگائے ہوئے سو رہے تھے ۔ مسجد میں اتنی گندگی پھیلی ہوئی تھی جسے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ جمعیۃ کا وفد مسجد کا جائزہ لے ہی رہا تھاکہ محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے متعین چوکیدار یہ کہتے ہوئے داخل ہوا کہ یہاں تعمیراتی کام چل رہا ہے جبکہ وہاں پرکوئی بھی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا تھا۔جمعیۃ کے وفد نے جب ان لوگوں سے بات کرنی چاہی تو چوکیدار نے وہ بھی نہیں کرنے دیایہاں تک کہ جب وفد کے ایک رکن نے مسجد کی تصویر لینے کی کوشش کی تو تصویر بھی نہیں لینے دی گئی ۔ انل نامی اس چوکیدار نے کہا کہ یہاں تصویر لینا منع ہے ۔ جمعیۃ کا وفد جو تصویر لے چکا تھا اسے چوکیدار نے فوری طور پر ڈلیٹ کرنے کو کہا ۔ جمعیۃ کے وفد کو اس بات سے بے حد حیرت ہوئی کے صرف مسجد کی تصویر لینے پر پابندی ہے اور مسجد کے باہر مقبرہ اور اس کے احاطے سیاحت کے نام پر جو لڑکے اور لڑکیاں عیاشی کر رہے ہیں اس پر پابندی نہیں ہے ۔ مسجد کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے اس پر روک نہیں لگائی جا رہی ہے ۔ مسجد کی موجودہ صورتحال بے حد تشویشناک ہے اور اس کا وجود ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مسجد کے تقدس کو باقی رکھنے کے لیے مسجد کو رہائش گاہ بنانے والے افراد کو بے دخل نہیں کیا گیاتو اس مسجد کا حال بھی کالو سرائے کی مسجد سے مختلف نہیں ہوگا۔
(۳۲) مسجد جہاز محل
مہرولی میں حوض شمسی کے کنارے ایک انتہائی شاندار اور خوبصورت مسجد ہے، اس کا نام مسجد جہاز محل ہے۔ ایک زمانہ بیت گیا ہے اس کے باجود اس کی بناوٹ و سجاوٹ اور آرائش و زیبائش کی دل کشی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، لیکن مسجد کی جو اصل تاج ہے ، اس سے دیگر تاریخی مساجد کی طرح یہ مسجد بھی محروم ہے۔ یہاں بھی نماز پر پابندی ہے۔ وفدنے مکمل معائنہ کے بعد یہ محسوس کیا کہ رفتہ رفتہ لوگ اس مسجد کو بھی عیاشی و فحاشی کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔ مسجدکے مختلف کونوں میں پڑی ملی شراب کی بوتلیں اس کی بے حرمتی کی داستان جان کاہ بیان کر رہی تھیں۔اگر وقت رہتے اس پر توجہ نہیں دی گئی ، تو اس کی آبرو کے ساتھ ساتھ وجود بھی ختم ہوجائے گا۔
(۳۳)مسجد نیل گو کی حالت زار کا ذمہ دار کون ؟ 
جہاز محل کے بالکل سامنے ایک اور مسجد انتہائی مخدوش حالت میں ہے، جس کو وہا ں کے لوگ مسجد نیل گو کے نام سے جانتے ہیں ۔ مسجد کی موجودہ صوورتحال کو دیکھ کر ہر صاحب ایمان کی روح کانپ اٹھے گی ۔ مسجد اور مسجد کے باہر نجاست ہی نجاست پھیلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کے قریب بھی کھڑا ہونا مشکل تھا ۔ مسجد کے اندر نجس جانورپناہ لئے ہوئے تھے اور باقی کی زمین پر علاقائی لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ مسجد کا وجود ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔مسجد کی حالت کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اگر وقت رہتے اس کی جانب توجہ نہ دی گئی تو اس کا نام و نشا ن تک مٹا دیا جائے گا ۔ محکمہ آثار قدیمہ جس طریقے سے قدیم مساجد کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے وہ قابل مذمت ہے ۔
(۳۴) مسجد راجوں کی بائیں بھی شرابیوں اور جواریوں کا اڈا بنی
محکمۂ آثار قدیمہ اور حکومت کی عدم توجہی کے سبب مساجد کے تقدس کی پامالی کی فہرست میں ایک اور اہم ترین اور خوب صورت مسجد کانام شامل ہے جس کا نام مسجدراجوں کی بائیں ہے ۔ مسجد کے اندر کھلے عام شراب پی جارہی تھی اور کھلے عام جوا کھیلا جارہا تھااور باہر کھڑا چوکیدار تماشائی بنا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ وفد نے دیویندر اوردیپیندرنامی چوکیداروں سے جب یہ کہاکہ تمہارے ہوتے ہوئے ایسا کیسے ہو رہا ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے ان لوگوں کو کئی بار روکنے کی کوشش کی لیکن یہ لوگ نہیں مانتے اور ہمیں جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اگر حکومت توجہ دے تو یہاں اس طرح کا کام نہیں ہو سکتا۔وفدنے مسجد میں جب نماز پڑھنے کی بات کی تو چوکیداروں نے نماز پڑھنے سے روک دیا اور کہا کہ یہاں نماز پڑھنا ممنوع ہے ۔اراکین وفد نے محکمۂ آثار قدیمہ کی اس زیادتی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں تحفظ کے نام پر نمازپر پابندی لگائی گئی ہے جو کہ قانوناً غلط ہے اور جن امور پر پابندی لگانی چاہیئے وہ سرعام ہو رہے ہیں۔ مسجد کے اندر باؤلی ہے جس میں گندگی کا انبار لگا ہوا ہے ۔باؤلی کے اندر گند ہ پانی بھرا ہوا ہے اور اس میں پلاسٹک کی بوتلیں اور دیگر اشیاء پڑی ہوئی ہیں۔واضح رہے کہ یہ مسجد مہرولی بس ٹرمینل سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے ۔ اس مسجد کی تعمیر ۹۱۲ ؁ھ مطابق ۱۵۰۶ ؁ء میں دولت خاں نے بڑے خلوص و محبت کے ساتھ سرخ پتھر سے کرائی تھی جو سکندرشاہ لودھی کے عہد حکومت کا امیر تھا ۔المختصر محکمۂ آثار قدیمہ کی بے توجہی کے سبب مسجد کے تقدس کو سر عام پامال کیا جا رہا ہے ۔ ان شرابیوں اور جواریوں کو کوئی روکنے والا نہیں ہے ۔ 
(۳۵) قطب الدین بختیار کاکی کے آستانہ سے ملحق موتی مسجد ویران
محکمہ آثار قدیمہ کی بے اعتنائی کے سبب دہلی کی تاریخی اور قدیمی مساجد کا وجود خطرہ میں ہے ۔ مساجد میں نماز کی پابندی عائد کر کے محکمہ آثار قدیمہ یہ حوالہ دیتا ہے کہ ہم مسجد کے تحفظ کے لئے ایسا کر رہے ہیں لیکن مساجد کی صورتحال اس کے بر عکس ہے ۔ مساجد کا نہ تو تحفظ کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ا س پر کو ئی توجہ دی جارہی ہے ۔جمعیۃ علماء ہندکے وفدنے جب حضرت قطب الدین بختیار کاکی کے آستانہ سے ملحق موتی مسجد کا دورہ کیا تو دیکھا کہ سنگ مرمر سے بنی ایک خوبصورت اور عالیشان مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی بے توجہی کے نذر ہو چکی ہے۔مسجد میں صفائی ستھرائی نہ ہونے کے سبب گندگی پھیلی ہے جس کی وجہ سے موتی نما یہ مسجد پیلی ہوتی جا رہی ہے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت ہند کی جانب سے آثار قدیمہ کے تحفظ کے لئے بڑے پیمانے پر بجٹ جاری کیا جاتا ہے تاکہ ان کی تزئین کاری کی جا سکے لیکن دوسری جانب محکمہ آثار قدیمہ کی لاپرواہی سے موتی مسجد جیسے آثار قدیمہ دن بہ دن اپنی خوبصورتی کھوتے جا رہے ہیں ۔ مسجد میں نماز ادا کرنے کی ممانعت کی وجہ سے ہی مسجد کی حالت تشویشناک ہے ۔ صرف موتی مسجدہی نہیں جتنی بھی بند مساجد ہیں اگر ان میں نماز کی اجازت دے دی جائے تو مساجد صاف بھی رہیں گی اور ان کا تقدس بھی باقی رہے گا ۔واضح رہے کہ اس مسجد کی تعمیرمحمد معظم شاہ عالم بہادر شاہ اول نے ۱۱۲۱ ؁ھ مطابق ۱۷۰۹ ؁ ء میں کرائی تھی۔ یقیناًمحکمہ آثار قدیمہ ہی مسجد کی اس تشویشناک حالت کے لئے ذمہ دارہے اور محکمہ کو عملی طور پر مساجد کے تحفظ کے لئے قدم اٹھانا چاہیئے اور بند مساجدکو کھول کر نمازیوں کو نماز ادا کر نے کی اجازت دینی چاہیئے 
(۳۶)عظیم الشان مسجد قوۃ الاسلام کی تباہی کا ذمہ دار کون ؟
قومی راجدھانی دہلی میں سیکڑوں مسجدیں ایسی ہیں جن کا نام و نشان اب باقی نہیں رہا لیکن کچھ عظیم الشان تاریخی مساجد اب بھی موجود ہیں جو اپنی تباہی اور بربادی کی داستان خود بیاں کر رہی ہیں ۔ ایسے میں محکمہ آثار قدیمہ حکومت ہند سے یہ سوال لازمی ہو جاتا ہے کہ آخر ان تاریخی عبادت گاہوں کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے ؟ مہرولی میں واقع عظیم الشان مسجد قوۃ الاسلام میں لکھی قرآنی آیات آج بھی اپنی جاہ و جلال و شان وشوکت کی گواہ بنی ہوئی ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ اس سے بے فکر ہے ۔جمعیۃ علماء ہند کا وفد جب مہرولی میں واقع مسجد قوۃ الاسلام پہنچا تو دیکھا کہ محکمہ آثار قدیمہ کی بے اعتنائی کے سبب ایک عظیم الشان مسجد کاوجودآہستہ آہستہ مٹتا جا رہا ہے ۔ اب صرف اس مسجد کے آثار بچے ہیں جن پر خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔ وہ مساجد جو عبادت گاہ تھیں وہ آج سیاح گاہ میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ مساجد میں سیاحوں کو اجازت ہے لیکن فرزندان توحید کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔دیگر مساجد کی طرح اس مسجد کا وجود بھی خطرہ میں ہے ۔ 
(۳۷) مسجد حنفیہ کوڑا گھر میں تبدیل
یہ مسجد نبی کریم کی اندرونی گلی میں واقع ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اس مسجد کے صحن میں سفید قبریں تھیں اسی وجہ سے یہ مسجد سفید قبر والی مسجد کے نام سے بھی مشہور ہے، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ تمام قبروں کو ملبہ اور کوڑا سے دباکر غیر قانونی قبضہ کرکے مکانات تعمیر کر لیے گئے ہیں اور جو حصے باقی رہ گئے ہیں، ان کو کوڑا دان کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔جمعیۃ کے وفد کو یہ سب دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی ۔ مسجد کے قریب میں رہنے والے بھائی اسلام الدین نے بتایا کہ دو سال پہلے اس مسجد میں نماز ہوتی تھی ، لیکن علاقے کے شرپسند عناصر نے پولیس کی مدد سے اس مسجد کو بند کرادیا ، ان لوگوں کی غنڈہ گردی کی انتہایہ ہے کہ اس سے متصل ایک چھوٹا مدرسہ جس کا رنگ ہرا تھا، ان فسطائیوں نے پولیس والوں سے کہہ کر رنگ بدلنے پر مجبور کیا۔جمعیۃ کا وفد مسجد میں پڑے قد آدم سے بھی زیادہ کوڑے کے ڈھیر پر چڑھ کر تصویریں اور ویڈیو بنا رہا تھا ، گرچہ مقامی تعصب پسند غیر مسلموں نے کچھ نہیں کہا تاہم ان کی آڑی ترچھی نگاہیں، ان کے دل کے حسد کو بخوبی ظاہر کررہا تھا ۔ اسلام الدین صاحب نے مزید بتایا کہ آے دن شرپسند عناصر یہاں آکر گالی گلوچ کرتے رہتے ہیں تاکہ کوئی فرقہ وارانہ جھگڑا ہوجائے اور ملک کے فضائے امن و امان کو مکدر کرنے کا موقع ہاتھ آجائے، لیکن مسلمان دفع شر کی بنیاد پر خاموش رہتے ہیں۔بہر کیف مسجد کی بے حرمتی کی انتہا اور کیا ہوگی کہ جس مقدس و پر عظمت جگہ پر انسان اپنی پیشانی کوخاک آلود کرنا باعث تقدیس روح و حیات سمجھتا ہے آج اسی مطہر و پاک جگہ کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے اور تعفن کا یہ عالم ہے کہ وہاں ایک منٹ ٹھہرنا بھی دشوار ہے۔
(۳۸) مسجد بڑا گنبد لودھی گارڈن
آثار قدیمہ کے تحفظ کے نام پر جہاں یہ محکمہ فرزندان توحید کی عبادت پر پابندی لگا رہا ہے ، وہیں دن بدن اس کے تقدس کو پامال کرنے میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ جو لوگ مسجد کی حفاطت پرمامور کیے گئے ہیں، بے حرمتی و پامالی میں سب سے زیادہ پیش پیش یہی لوگ رہتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ منظر جمعیۃ علماء ہند کے وفد کو اس وقت دیکھنے کو ملا، جب یہ وفد لودھی گارڈن میں واقع مسجد بڑا گنبد میں پہنچا، جہاں خود گارڈ جوتا پہنے ہوئے مسجد کی بے حرمتی میں مصروف تھا ، لیکن جوں ہی وفد مسجد میں داخل ہوا اور دوگانہ کے لیے رومال پھیلانے کی کوشش کرنے لگا تو امیش کمار نامی چوکیدار نے سختی سے منع کیا اور یہ کہا کہ یہاں نماز پڑھنے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ وفد نے جب اس کے خود جوتا پہن کر مسجد میں گھومنے پر اعتراض کیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک قدیم عمارت ہے اور کچھ نہیں۔ باتوں باتوں میں وہ بد تمیزی پر اتر آیا ، یہاں تک کہ فوٹو لینے سے بھی منع کرنے لگا۔ 
یہ مسجد انتہائی خوب صورت ہے، لیکن کوئی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے بے رونق ہوتی جارہی ہے ، جگہ جگہ سے پلستر جھڑ رہے ہیں، اس کے گنبد کے کچھ حصے شہید ہوگئے ہیں۔ اگر معاملہ یوں ہی بے التفاتی کا رہا ، تو رفتہ رفتہ اس کا وجود بھی مٹ جائے گا۔
(۳۹)چھوٹی مسجد 
لودھی گارڈن میں ہی اس مسجد کے تھوڑے فاصلہ پر ایک اور مسجد ہے ، جس کا تاریخی نام تو معلوم نہ ہوسکا ، البتہ لوگ اسے چھوٹی مسجد کہتے ہیں۔ وفد جب اس کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ پارک کے سبھی چوکیدار اس کے باہری حصے میں بیٹھے ہیں اور اندر ان کی سائکلیں کھڑی ہیں۔ اور وہاں صاف صفائی کا کوئی انتظام بھی نہیں ہے۔مسجد انتہائی خوب صورت ہے اور اب بھی صحیح سالم موجود ہے، لیکن اگر فوری توجہ نہیں دی گئی، تو اس کا حشر بھی دیگر مساجد سے مختلف نہیں ہوگا۔ 
(۴۰)مسجد محمد تغلق شاہ، جس میں گدھے چر رہے ہیں
یہ تغلق آباد میں واقع کھنڈرو ویران قلعے میں واقع ہے۔ جس طرح پورا قلعہ خستہ و خجستہ ہوچکا ہے،اسی طرح اس میں موجود مساجد بھی منہدم ہوچکے ہیں اور صرف ظاہری امتیازات کی بناپر ہی یہ نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ یہ کبھی ایسی پاک جگہ تھی، جہاں انسان اپنی جبین نیاز خم کیا کرتے تھے۔
تحقیق و معائنے سے انکشاف ہوا کہ یہاں چھوٹی بڑی تین مساجد تھیں اور اب تینوں ویران و کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ وفد نے یہ بھی دیکھا کہ چوکیدار وہاں پر موجود ہے، اس کے باوجود مسجد کے حصے میں گدھے چر رہے ہیں۔گویا یہ گدھے زبان حال سے مسلمانوں کی غیرت ایمانی کی عملی پیمانہ پیش کر رہے تھے۔
(۴۱) موتی مسجد لال قلعہ
یہ مسجد احاطہ لال قلعہ کے اندر واقع ہے۔ مسجد انتہائی خوب صورت ہے، اس کی زیب وزینت کے لیے سفید سنگ مرمرکا استعمال کیا گیا ہے، لیکن روحانی رونق سے یہ مسجد بھی محروم ہے۔ جب وفد یہاں پہنچا تو دیکھا کہ تالا بند ہے۔ وفد نے متعین چوکیدار سے کھولنے کے لیے کہا تو اس کا جواب تھا کہ یہاں کی دوسری درودیوار کو دیکھنے کی اجازت ہے ، مسجد کی نہیں۔ المختصر وفد حسرت و مایوسی کی آخری نگاہ ڈالتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگیا۔
(۴۲) کوٹلہ فیروز شاہ مسجد
یہ مسجد دہلی گیٹ سے متصل خونی دروازے سے مشرق میں واقع ہے۔ وفد نے یہاں کے حالات کے جائزے کے بعد پایا کہ فی الحال ظہر ، عصر اور مغرب کی نماز کی اجازت ہے اور عشا و فجر کی اجازت نہیں ہے۔ مسجد کافی بڑے رقبے میں پھیلی ہوئی ہے، تعمیراتی مرمت پر عدم توجہ کی بنیاد پر پوری چھت اور گنبد منہدم ہوگئی ہے، صرف صحن ہی باقی ہے۔ اس کے گرد ا گرد پارکوں میں روشنی بجلی کا انتظام ہے جب کہ مسجد میں لالٹین جلانے پر بھی پابندی ہے۔ یہاں کے موذن مولانا عبدالصمد صاحب گڈاوی کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق دیگر مساجد کی طرح یہاں بھی ناجائز عناصر گھومتے رہتے ہیں اور تہہ خانہ میں بنے کمروں کی حرمت پامال کرتے رہتے ہیں، لیکن چوکیدار ان تمام چیزوں سے باخبر ہونے کے باجود کچھ نہیں کہتا۔ جمعرات کے علاوہ سبھی دنوں میں دس روپیے کا ٹکٹ لگتا ہے، اس کے بغیر نمازی کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے ان مساجد کے علاوہ بھی جیسے کلاں مسجد، مسجد شیر شاہ ، مسجد کھجور وغیرہ کا دورہ کیا ، تمام جگہوں پر مساجد کی موجودہ صورت حال کم و بیش یکساں ہے، ہر جگہ محکمہ آثار قدیمہ نے تحفظ کے نام پر نماز پر پابندی لگائی ہوئی ہے ، البتہ نماز کے علاوہ ہر غیر شرعی و غیر قانونی عمل کی کھلی اجازت ہے۔یہ مساجد منتظر ہیں کہ کوئی غیرت مند صاحب ایمان اٹھے اور انھیں بے حرمتی و پامالی سے تحفظ فراہم کرے۔
یہاں صرف انھیں مساجد کا تذکرہ کیا گیا ہے، جہاں پر راقم اور جمعیۃ علماء ہند کا وفد خود پہنچا اورمعائنہ کیا ہے۔ ورنہ دہلی اور نئی دہلی میں وقف بورڈ اور محکمہ آثار قدیمہ کے زیر نگرانی مساجد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس حوالے سے مولانا عطاء الرحمان قاسمی’’پارلیمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق دہلی میں مقبوضہ مساجد کی تعداد‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ 
’’۱۹۹۲ء کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق دہلی میں دو ہزار مساجد ہیں، جن میں سے ۵۳؍ مساجد محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہیں اور پانچ سو مساجد دلی وقف بورڈ کے زیر انتظام ہیں اور بانوے مساجد پر ناجائز قبضہ ہے اور باقی مساجد مسلمانوں کے زیر اہتمام ہیں۔‘‘ (دلی کی تاریخی مساجد، ج؍اول،ص؍۳۱۸)
آگے انھوں نے بانوے مقبوضہ مساجد کی کی فہرست بھی دی ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ کے کردار پر ایک نظر
تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے لیے انگریزوں نے محکمہ آثار قدیمہ قائم کیا تھا۔ گرچہ اس محکمہ سے کافی عمارتوں کو تحفظ ملا ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ حالیہ دور میں محکمہ اپنے فرائض سے بالکل غافل ہے۔ بقول مولانا قاسمی کہ آج
’’ اس محکمہ کا سب سے بڑا کارنامہ کسی تاریخی عمارت کے دروازے پر ایک مخصوص قسم کا ہدایتی بورڈ لگانا ہے، جس پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ عمارت محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہے‘‘۔(دلی کی تاریخی مساجد،ج؍۱،ص؍۲۳)
جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ جو مساجد مسلمانوں کے سجدوں اور اذان کی صداوں سے آباد ہونی چاہیے وہ شرابیوں ، جواریوں اور عیاشوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔حفاظت و نگہہ داشت کے نام پر ان کو برباد کرنے کی خاموش حکمت عملی جاری ہے۔اور مساجد کی حرمت و تقدس سے ناآشنا تعصب آمیز ذہنیت کے حامل چوکیداروں کا رویہ اس کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سیمینار ان حالات کے پیش نظر ایسی حکمت عملی اپنائے اور ایسا لائحہ عمل تیار کرے ، جس سے ان مساجد کی عظمت رفتہ، سابقہ تقدس و حرمت اور روحانیت واپس آجائے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے گھر کو مقدس و مطہر بنانے اور تحفظ فراہم کرانے میں کامیابی عطا فرمائے ۔ آمین ۔ثم آمین۔
اظہار تشکر
آخر میں اظہار تشکر کے طور پر ان حضرات کے نام پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو اس معائنے میں ساتھ رہے، ان میں پہلا نام مولانا نیاز احمد فاروقی صاحب رکن عاملہ جمعیۃ علماء ہندکا ہے، جنھوں نے اکثر و بیشتر وفد کی قیادت کی۔ اسی طرح مولانا غیور احمد قاسمی آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، حافظ بشیر احمد آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند،مفتی انیس احمدپرتاپ گڑھی،، مولانا ضیاء اللہ صاحب قاسمی، مولانا ہارون رشید صاحب مہرولی، مولانا محمد عرفان صاحب آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند، مولانا کلیم الدین قاسمی صاحب آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند،قاری نوشاد عادل صاحب،مولانامحمد جمال قاسمی صاحب ، جناب حاجی اسعد میاں دہلی صاحب اورجناب حاجی محمد عارف صاحب شریک وفد رہے۔ کیمرہ مین کے طور پر جناب رہبر حسنین رضوی صاحب ساتھ رہے۔بعض بعض موقعوں پر علاقائی افراد نے بھی وفد کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ بندہ خاکسار ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اجر جزیل عطا فرمائے آمین۔