11 Jan 2019

west or invest

ویسٹ یا انویسٹ
محمد یاسین جہازی
واٹس ایپ: 9871552408
وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں نیند مراد نہیں ہے، کیوں کہ سونا خریدا جاسکتا ہیجب کہ وقت بکاؤ نہیں ہوتا؛ زندگی کا جولمحہ نکل گیا،آپ اس کو کبھی واپس نہیں لاسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کی قدرو قیمت پر جب بھی ہم لیکچر دیتے ہیں یا سنتے ہیں، تو اس قول زریں کا اعادہ ضرور کرتے یا سنتے ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وقت انمول ہے۔ 
اپنی زندگی کو وقت پر تقسیم کریں، تو اس کے تین اہم حصے ہوتے ہیں:
(۱) بچپن: اس کے لمحات میں ہم خود نہیں؛ بلکہ ہمارے بڑے ہمارے لیے ایکٹیو کردار ادا کرتے ہیں، اور اس توقع سے کرتے ہیں کہ یہ بچے ہی ہمارے پیسیو لائف ، یعنی بڑھاپے کے سہارے ہیں۔ بذات خود ہمارے لیے نہ تو ایکٹیو لائف ہوتی ہے اور نہ ہی پیسیو لائف۔
(۲) جوانی: اس میں ہم اپنے لیے بھی، اپنے متعلقین کے لیے بھی اور مستقبل کے لیے بھی زندگی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دراصل ہماری زندگی کا یہی حصہ سب سے محبوب ترین حصہ ہوتا ہے اورحسین مستقبل کے لیے پیش خیمہ بھی یہی موقع ہوتا ہے۔کیوں کہ اسی میں حال و مستقبل کی زندگی کے لیے ایکٹیو اور پیسیو دونوں کردار ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 
ہر ایک شخص کے لیے زندگی اور اس کی لوازمات کے لیے دو کردار ہوتے ہیں: ایک کو ایکٹیو کہا جاتا ہے اور دوسرے کو پے سیو۔ ایکٹیو کا مطلب ہوتا ہے کہ جو وہ خود کر رہا ہے ، یا جس سے خود گزر رہا ہے۔ جب کہ پے سیو کا مفہوم یہ ہے کہ بذات خود آپ نہ کر رہے ہوں، البتہ اس کا فائدہ آپ کو ملتا رہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی جگہ ملازمت کر رہے ہیں، تو یہ آپ کا ایکٹیو ورک ہے۔ اس کی تنخواہ آپ کو اسی وقت تک ملتی رہے گی، جب تک آپ ملازمت کرتے رہیں گے۔ ملازمت ختم ہوتے ہی آپ کی تنخواہ بھی بند ہوجائے گی۔ لیکن آپ بزنس شروع کرتے ہیں، اور آپ کے ماتحت بہت سارے اسٹاف کام کرتے ہیں، تو آپ بذات خود کام کریں یا نہ کریں، اس کا فائدہ آپ کو ملتا رہے گا ، اسے پے سیو ارننگ (جاری کمائی) کہا جاتا ہے۔ 
یہ جو جوانی کا وقت ہے ، یہ ایکٹیو اور پے سیو دونوں کردار کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے؛ اگرآپ جوانی کو ان دونوں کردار کے لیے انویسٹ (سرمایہ کاری) کرتے ہیں، تو بالیقین ہمارے سنہری مستقبل کی ضمانت کا اشاریہ ہوگا، لیکن اس کے بجائے ہم جوانی کو ویسٹ( ضائع) کردیں گے، تو زندگی کے تیسرے اور آخری مرحلہ (بوڑھاپے) میں پریشان رہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ 
(۳) بوڑھاپا: زندگی کا یہ حصہ دراصل اپنے کرموں کا پھل پانے،یا بھگتنے کا دور ہوتا ہے۔ اس دور میں طاقت کم اور ضروریات بڑھ جاتی ہیں، اس لیے ہمارے لیے درس عبرت یہی ہے کہ ہم اپنی سابقہ زندگی میں ایکٹیو اور پے سیو دونوں معاشی نظام سے جڑ کر انویسٹ کا کردار ادا کریں۔ بصورت ویسٹ جرم ضعیفی کی سزامحرومی، مجبوری اورمرگ مفاجات ہی ہوگی۔ 
ایک دوسری حیثیت سے غور کیجیے، تو ہماری تخلیق سے آخری منزل تک بھی تین مراحل ہیں: عالم دنیا، عالم برزخ اور عالم آخرت۔ پہلی منزل میں اگر ہم اپنی زندگی کے لمحات کو نیک کاموں میں انویسٹ کریں گے اور خلاق عالم کی مرضیات کو پانے کے لیے ایکٹیو و پے سیو دونوں کردار ادا کریں گے،تو بالیقین دوسری زندگی میں سکون و راحت ملے گی اور آخرت میں جنت ہمارا مقدر ہوگا۔ لیکن اگر ہم اس کے برخلاف زندگی گذاریں گے، تو ہم دوسرے اور تیسرے مرحلے میں بڑے خسارے میں رہیں گے؛ کیوں کہ یہی فلسفہ حیات کی آفاقی سچائی ہے۔ بقول شاعر 
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت سے نہ نوری ہے نہ ناری ہے
درج بالا حقیقتوں کی روشنی میں خود کا جائزہ لیتے ہوئے بتائیے کہ آپ کو خود انویسٹ کر رہے ہیں ؟ ۔۔۔ یاویسٹ۔۔۔؟۔ 

4 Jan 2019

Yasmin bint Md Yasin Jahazi

تثلیث حیات
(4جنوری 2016 یعنی یوم پیدائش یاسیمین بنت محمد یاسین جہازی کے لیے ایک خصوصی تحریر)
محمد ابو یاسمین جہازی

آج مورخہ ۴؍ جنوری ۲۰۱۹ء کو میری بٹیا: یاسمین تین سال کی ہوگئی ہے۔ناچیز کا وطن اصلیضلع گڈا کا ایک مشہور علمی گاوں جہاز قطعہ ہے، لیکن وطن خدمت و معیشت دہلیہے۔ ان دونوں وطنوں میں آمد ورفت کل بھی زندگی کے تسلسل کا حصہتھا اور آج بھی ہے؛ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ کل کی زندگی میں بے شعور زبان جدائی کا احساس نہیں دلاتی تھی ، جب کہ آج ایک ننھی پری، لاشعور عشق اور بے ربط زبان ہمہ وقت تار احساس کو چھیڑتے ہوئے کہتی ہے کہ ابو کہاں ہو۔۔۔، میرے ابو دکھتے کیوں نہیں ہے۔۔۔۔
حالیہ آخری مرتبہ گھر سے آٹو سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا تھا، اس معصوم دل و نگاہ نے اس منظر کو کچھ اس طرح قید کرلیا ہے کہ جب بھی کسی گاڑی کی آواز دیکھتی یا سنتی ہے، تو اس لاشعور کے تحت الشعور میں چھپی ہوئی شیفتگی تتلی زبان کی ترجمان بن کر پکار اٹھتی ہے کہ ۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو ۔۔۔ پھر جب وہ آواز اور منظر غائب ہوجاتا ہے تو اس کی آنکھ انتظار کی پتھراہٹ سے چور ہوکرآنسووں سے سکون حاصل کرلیتی ہے۔
اس کی امی کا موبائل کسی کی یاد آوری کا اعلان کرتا ہے، تو اس سادہ ذہن کی پہلی تخلیق یہی ہوتی ہے کہ ۔۔۔ ابو، ۔۔۔ ابو۔ ایک مرتبہ آنگن میں کھیل رہی تھی ، فون کی گھنٹی بجی، تو امی نے آواز دیتے ہوئے کہا کہ آؤ دیکھو ابو آگئے۔ یہ سننا تھا کہ اس کی بے زبان محبت بے قرار ہوگئی اور کھیل چھوڑ کر دروازے پر چلی گئی اور آواز دینے لگی کہ ۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو۔۔۔ ابو کہاں ہو، ہر چند کہ اس کی امی نے سمجھایا کہ ابو دروازے پر نہیں، فون میں آئے ہیں، لیکن نادان عشق کسی نصیحت سے متاثر ہوتا ہے کیا۔۔۔؛ بالآخر نہیں ہوا۔ جب جب بار بار سمجھایا گیا کہ ابو موبائل میں ہے، تو اگلا ری ایکشن یہ تھا کہ ’ میں بھی موبائل میں داخل ہوں گی۔۔۔ ۔
راقم نہ تو کسی کی پیدائش منانے کا قائل ہے اور نہ ہی وفات پر جشن چراغاں کا معتقد؛ البتہ جب کوئی بے لوث محبت پکارتی ہے، تو عشق کو مچلنے و تڑپنے سے روکنا فطرت کے خلاف بغاوت ہی ہوگی، اس لیے یہ سطریں سیاہ جملے نہیں؛ فطرت کی آواز ہیں، اور آج کی یہ تاریخ اسی کی صدائے بازگشت۔ اور آخر ایسا کیوں کر نہ ہو۔۔۔کیوں کہ ۔۔۔
اولاد والدین کی روح کی بکھری ہوئی بیتابی ہے۔
اولاد نئی رگوں میں خون کی جولانی کا عنوان ہے۔
اولاد خون رگ فردا کی پیکر حال ہے ۔
اولادشوق خستگی کی تازہ دمی ہے۔
اولادخفی تخلیق کی جلی روح ہے۔
اولادحسن و عشق کا جذبہ خود افزائی کیمعصوم پیکر ہے۔
اولادکی جہد نمو جنگ مسلسل کی تفسیر ہے ۔
اولاد:راحت ہم سفری، ہم قدمی کا مجسمہ ہے
اولاد گرہ رشتہ پیمان وفا ہے۔
اور اس کی نشو نما کا انداز سفر ہمیشہ پیش نظر رہتا ہے
اس سفر کا آغاز4 جنوری 2016 رات کے 11 بج کر 33 منٹ پر ہوا ، اور یاسمین موسوم ہوئی۔آج تاریخ کے اسی لمحہ پر خوشی و شادمانی کا جو احساس ہورہا ہے، اس میں آپ کو بھی شرکت کی دعوت دیتے ہوئے پرویز شاہدی کی نظم تثلیث حیات کے چند منتخب بند اس مہمان کے تین سال پورے ہونے پر اس کی نذر کرتے ہیں۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس امانت کی پرورش و پرداخت میں ہمیں کمی و کوتاہی سے محفوظ رکھے اور دین کی داعیہ کا کردار ادا کرنے والی بنے۔ اللھم آمین یا رب العالمین۔
(1)
انگلیاں میری ہیں، لب میرے ہیں، آنکھیں میری
میری پیشانی کا ٹکڑا تری پیشانی ہے
ننھی ننھی یہ بھنویں تیری ہیں یا میری ہیں
تیری رگ رگ میں مرے خون کی جولانی ہے
دست و پا میں جو یہ کیفیت سیمابی ہے
میری ہی روح کی بکھری ہوئی بیتابی ہے
(02)
تجھ کو اپنے ہی خدوخال تری ماں نے دیے
اپنا شاداب چمکتا ہوا چہرہ بخشا
خلوت بطن میں ہر طرح سنوارا تجھ کو 
پیکر حال کو خون رگ فردا بخشا
تجھ کو بخشی ہے تری ماں نے لطافت اپنی
دیکھتی ہے ترے آئینے میں صورت اپنی
(03)
گرہ رشتہ پیمان وفا تیرا وجود
تجھ سے مضبوط ہوا عہد محبت اپنا
ہاتھ میں ہے مرے دل کے دلِ محبوب کا ہاتھ
کتنا بشاش ہے احساس رفاقت اپنا
خستگی شوق کی اب تازہ دمی تک پہنچی
راحتِ ہم سفری ہم قدمی تک پہنچی
(04)
ماں نے موسم کے بدلتے تیور بھانپے
انگلیوں نے مری، کیں نبضِ ہوا سے باتیں
ایک لمحہ بھی نہ چپکے سے گزرنے پایا
دن تو دن آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹی ہیں راتیں
آج کی طرح تمنا کبھی بیدار نہ تھی
اتنی دلچسپ تو کل وقت کی رفتار نہ تھی
(05)
گرچہ ہے سخت بہت معرکہ نشو و نما
مامتا صرف سپر ہی نہیں، تلوار بھی ہے 
میری شفقت بھی تری جہد بقا میں ہے شریک
دل جری ہی نہیں، کچھ واقف پیکار بھی ہے
ذہن میں سلسلہ شام و سحر رہتا ہے
تیرا اندازِ سفر پیش نظر رہتا ہے
(06)
یہ تضاداتِ مسلسل، یہ ستیزِ پیہم
یہ تصادم، یہ ہم آویزی اضداد حیات
ساز سے یہ رم آواز، یہ ربط آواز
زندگی کا یہ تسلسل، یہ تغیر، یہ ثبات
روح تخلیق خفی کو بھی جلی کرتی ہے
ہے یہ ثابت کہ نفی اپنی نفی کرتی ہے
(07)
نفی و اثبات کے تاروں کا مسلسل ٹکراؤ
زندگی کی جدلی زمزمہ پروازی ہے
کائنات اتنی خوش آہنگ جو آتی ہے نظر
عمل و رد عمل ہی کی نوا سازی ہے
حسن معنی ہے یہی، جلوہ صورت ہے یہی
نغمہ ہی نغمہ ہے، ہر شئی کی حقیقت ہے یہی
(08)
حسن اور عشق کا یہ جذبہ خود افزائی ہی 
اک نئے پیکرِ معصوم میں ڈھل جاتا ہے
اسی پیکر سے ابھرتا ہوا نقشِ تثلیث
اپنی وسعت میں جہاں ساز نظر آتا ہے
محفل حسن و محبت اسی تثلیث میں ہے
جلوہ گر شاہدِ فطرت اسی تثلیث میں ہے
(09)
کتنی دلکش ہے خوش امکانی تثلیث حیات
اس کی فطرت ہے خود افراز و خود آرا ہونا
وسعت جلوہ سے ہے حسن کی تکمیلِ شباب
قسمتِ ذرہ ہے آئینہ صحرا ہونا
زندگی مست و غزل خواں ہے خود آرائی ہے
ہر کلی جانِ گلستاں ہے خود آرائی ہے
(10)
باپ، ماں، بچے کی فطری سہ رخی وحدت سے
کنبے انسانوں کی تثلیث کی صورت پھیلے
کثرت آرائی فطرت کا یہی مقصد ہے
حسن دنیا میں پھلے پھولے، محبت پھیلے
اور ابھی روشنی مہر مبیں پھیلے گی
گود میں لے کے ستاروں کو زمیں پھیلے گی
(11)
تیری معصوم صدا سے مترنم ہے شعور
علم و حکمت کو بھی موسیقی جذبات ملی
دھڑکنیں دل کی خوش آوازی افکار بنیں
ذہن کو بربط احساس کی سوغات ملی
سازِ ادراک میں نغموں کا تلاطم ہے آج
عقلِ بے لحن ترنم ہی ترنم ہے آج
(12)
سرو قد مجھ کو نظر آتے ہیں ننھے پودے
بڑھ رہا ہے مرا دل بھی ترے قامت کے ساتھ
سامنے آنکھوں کے رہتے ہیں کروڑوں نغمے
جیسے ہر پھول کھلے گا تری صورت کے ساتھ
تجھ سے اے جانِ پدر! میں نے نظر پائی ہے
ساری دنیا مرے پہلو میں سمٹ آئی ہے
(13)
تیری سانسوں سے پگھل کر مرے اعصاب کا موم
سختی آہن و فولاد کو شرماتا ہے
جب ترے ننھے سے پیکر کو اٹھالیتا ہوں
بار آلام سبک مجھ کو نظر آتا ہے
ہے کھلونا غمِ دنیا، مجھے معلوم نہ تھا
میرے بازو ہیں توانا، مجھے معلوم نہ تھا
(14)
رخِ امروز پہ کیوں ہو غم فردا کا غبار
حال کو میرے مبارک ترا ماضی ہونا
نیستی میرے تصور میں نہیں آسکتی
تری ہستی کو ہے بڑھ کر مری ہستی ہونا
تو مری روح، مرا جسم، مرا دل ہے
تیرے چہرے سے درخشاں مرا مستقبل ہے
(15)
ائے مرے پیکرِ نو! ائے مری روحِ پیکار!
پرچم عزم مرا اب تجھے لہرانا ہے
میری آواز نہیں میرے لبوں تک محدود
تیرے ہی ہونٹوں سے کل مجھ کو رجز گانا ہے
ہے تری جہدِ نمو جنگِ مسلسل میری
تیری تکمیل میں ہے فتح مکمل میری
آئیے دعا کریں کہ اللہ ہر ایک والدین کے لعل کو لمبی عمر عطا فرمائے، آمین۔

3 Jan 2019

teen talaq se pahle atharah mosalahati farmole

تین طلاق سے پہلے اٹھارہ مصالحتی فارمولے
محمد یاسین جہازی
9871552408


(۱) میاں بیوی کی آپسی مصالحت۔ پہلے دونوں خود اپنا مسئلہ حل کریں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۲)بیوی کو نصیحت۔ شوہر بیوی کو سمجھائے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۳) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۴)بیوی کی ہلکی سرزنش کرے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۵)سرپرست حضرات صلح کرائیں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۶) میاں بیوی دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم صلح کرائیں۔
اگر کارگر نہ ہوتو ایک طلاق دے
اگر یہ چھے طریقے بھی کارگر نہ ہوں تو :
بیوی کی اصلاح کے لیے اس پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق دے، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر سدھر جائے، تو رجوع کرلے اور محبت بھری زندگی گذارے۔ 
پھر کبھی دس پانچ سال بعد زندگی میں اختلاف ہوجائے، تو اسی طرح کرے، یعنی: 
(۷) پہلے دونوں خود اپنا مسئلہ حل کریں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۸) شوہر بیوی کو سمجھائے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۹) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۰)بیوی کی ہلکی سرزنش کرے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۱)سرپرست حضرات صلح کرائیں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۲) میاں بیوی دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم صلح کرائیں۔
اگر کارگر نہ ہوتو دوسری طلاق دے۔
اگر یہ چھے طریقے دوسری بار بھی کارگر نہ ہوں توبیوی کی اصلاح کے لیے اس پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق (نمبر دو) دے، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر سدھر جائے، تو رجوع کرلے اور محبت بھری زندگی گذارے۔ 
اگر دس پانچ سال بعد پھر اختلاف ہوجائے، تو اسی طرح کرے، یعنی: 
(۱۳) پہلے دونوں خود اپنا مسئلہ حل کریں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۴)۔ شوہر بیوی کو سمجھائے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۵) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۶)بیوی کی ہلکی سرزنش کرے۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۷)سرپرست حضرات صلح کرائیں۔ اگر کارگر نہ ہوتو
(۱۸) میاں بیوی دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم صلح کرائیں۔
اگر کارگر نہ ہوتو
چوں کہ اٹھارہ مرتبہ مصالحتی کوشش کے باوجود اختلاف تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، اس لیے 
پاکی کی حالت میں تیسری طلاق دیدے۔
تین طلاق پورے ہونے کے بعد نہ اب لڑکے کو اختیار رہے گا کہ عدت کے اندر پھر رجوع کرکے عورت کو زندگی کو جہنم بنائے ۔ اور نہ لڑکی کے لیے گنجائش ہے کہ جس مرد نے اس کو دو دو مرتبہ اسے زندگی سے نکالنے کی کوشش کی، پھر تہ بارہ اسی کی زندگی کی زینت بنے ۔ اب لڑکا بھی کسی دوسری عورت سے شادی کرکے اپنی زندگی کی دوسری شروعات کرے اور لڑکی بھی کسی دوسرے شریک سفر کو اپنا ہم سفر بناکر خوشگوار زندگی گذارے۔ 
حلالہ کی حقیقت
تیسری طلاق دینے کے بعد مرد کو تو بالکل اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لائے، کیوں کہ اگر وہ کسی اور کی بیوی بن چکی ہے، پھرتو مردبالکل نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگرطلاق کے بعد کسی کی زوجیت میں نہیں گئی ہے، تو بھی مرد نکاح نہیں کرسکتا، کیوں جس مرد کو قانون فطرت نے طلاق کے مرحلے سے پہلے پہلے اٹھارہ مرتبہ موقع دیا اور اس کے باوجود بھی اس عورت کی قدر نہیں کی، تو اب تین طلاق دینے کے بعد یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مرد ہی اس عورت کے قابل نہیں ہے۔ 
لیکن اگر عورت ہی کی یہ خواہش ہے کہ چلو جیسا بھی تھا، ہم نے زندگی کی شروعات اس کے ساتھ کی تھی ، تو اختتام بھی اسی کے ساتھ کریں گے، تو صرف عورت کے لیے شریعت نے یہ گنجائش رکھی ہے کہ تم پہلے کسی دوسرے شخص سے شادی کرو، پھر اس کے ساتھ بھی زندگی اتنی دوبھر ہوجائے کہ مذکورہ بالااٹھارہ مصالحتی کوششیں ناکام ہوجائیں اور تیسری طلاق تک نوبت آجائے اور تیسری طلاق دیدے، تو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہو۔ اسی کو شریعت میں حلالہ کہاجاتا ہے۔ تو گویا حلالہ کوئی نکاح نہیں، بلکہ معاملہ کو سلجھانے کے ایک پروسیس کا نام ہے، جو صرف اور صرف عورت کا حق و اختیار ہے۔ 
اگر معاملہ الٹا ہے
درج بالا تمام طریقوں میں مرد کو مخاطب بنایا گیا ہے جو بیوی سے پریشان ہے، لیکن اگر معاملہ الٹا ہو، یعنی شوہر بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن بیوی ہی شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، تو ایسا نہیں ہے کہ عورت مرد کی زندگی سے بالکل بھی آزاد نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خلع کی پیشکش کرے، یعنی شوہر سے کچھ مال کے عوض میں طلاق طلب کرے۔ اگر شوہر منظور کرلے گا، تو بذریعہ خلع طلاق واقع ہوجائے گی۔ 
اب بتائیے اتنے مبنی بر فطرت قانون کے بعد بھی طلا ق پر قانون بنانے کی ضرورت ہے!!!

2 Jan 2019

طلاق:لیگل ریفارم نہیں؛ سوشل ریفارم کی ضرورت ہے
شریعت کے مطابق بارہ مصالحتی مراحل سے گذرنے کے بعد ہی تین طلاق تک معاملہ پہنچتا ہے
محمد یاسین جہازی
9871552408
پارلیمنٹ میں طلاق پر ہوئی حالیہ بحث برائے نتیجہ خیز قانون بنانے کے لیے اس تحریر میں مکمل ہدایت موجود ہے
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاسلام سے پہلے کے نکاح کے طریقے
دین فطرت آنے سے پہلے لوگوں میں پانچ قسم کے نکاح رائج تھے: 
(۱) شرعی اسلامی طریقہ۔ 
(۲) نکاح ’ استبضاع‘ یعنی موجودہ نیوگ ۔ 
(۳) ایک عورت سے گروپ سیکس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچہ کا نسب مقرر کرنے کی مجلس منعقد کرکے۔ 
(۴)موجودہ دورکی طوائف کی طرح (بخاری، کتاب النکاح،باب من قال لا نکاح الا بولی)
(۵) متعہ۔ ( موجودہ دور کی لیونگ ان ریلیشن شپ کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے)
اسلام نے درج بالا تمام شرمناک طریقوں پر پابندی لگادی اور صرف پہلا طریقہ جائز و برقرار رکھا۔(بخاری، کتاب النکاح،باب نھی رسول اللہ ﷺ عن نکاح المتعۃ اخیرا)
اسلام سے پہلے طلاق 
کچھمذاہب میں نکاح اٹوٹ بندھن ہوتا ہے، اس لیے جب ایک لڑکی کو دان میں دے کر اس کا کنیہ دان کردیا جاتا ہے، تو پھر اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔البتہ کچھ لوگوں میں طلاق رائج تھی۔تفسیر عثمانی میں ہے کہ 
’’اسلام سے پہلے دستور تھا کہ دس بیس جتنی بار چاہتے، زوجہ کو طلاق دیتے، مگرعدت کے ختم ہونے سے پہلے رجعت کرلیتے۔ پھر جب چاہتے طلاق دیتے اوررجعت کرلیتے۔ اور اس صورت سے بعض شخص عورتوں کو اسی طرح بہت ستاتے ، اس واسطے یہ آیت اتری ۔۔۔ (البقرۃ،آیت نمبر: ۲۲۹)
اسلامی ہدایت
طلاق و عدت کے بارے میں اصولی ہدایت یہ ہے کہ مرد و عورت کے درمیان جو رشتہ قائم ہوگیا ہے، اسے ہمیشہ برقرار رکھے اور اس رشتہ محبت پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دے۔ لیکن اگر بتقاضائے بشریت ، یہ رشتہ نفرت و تلخی میں بدل جائے تو اس کی اصلاح کے لیے تین پروسیس ہیں:
پہلا پروسیس
(۱) سب سے پہلے ، میاں بیوی خود مل کر اپنے تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کریں اور آپس میں کچھ ٹرم اینڈ کنڈیشن طے کرکے رشتہ کو دوبارہ بحال کریں۔
دوسرا پروسیس 
(۲) لیکن اگر یہ نہ ہوپائے اور دونوں کسی مشترک اور متحدہ پوائنٹ پر جمع نہ ہوسکیں، تو پھر لڑکے کے لیے تین صورتیں ہیں: 
(۱) سب سے پہلے عورت کو سمجھائے بجھائے۔ اگر اس سے معاملہ ٹھیک ہوجاتا ہے تو بہت بہتر ہے۔ اگر نہیں ہوتا ہے تو پھر دوسرا طریقہ یہ اختیار کرے کہ 
(۲) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ یہ عورت کے لیے انتہائی دشوار مرحلہ ہوتا ہے اور بالعموم عورتیں نافرمانی سے باز آجاتی ہیں، لیکن اگر معاملہ اس سے بھی زیادہ بگڑ چکا ہے، تو تیسرا طریقہ یہ ہے کہ 
(۳) عورت کی ہلکی سرزنش کرے۔ یہ اصلاح کا آخری حربہ ہے ۔ اگر سرزنش کے خوف سے معاملہ ٹھیک ٹھاک ہوجاتا ہے، تو بہت اچھا ہے، لیکن معاملہ یہاں بھی نہیں سدھرتا ہے تو پھر آگے دو صورتیں ہیں: 
(الف) یا تو یہ معاملہ زوجین کے بجائے ان کے سرپرست حضرات حل کریں اور صلح کی مکمل کوشش کریں۔ اگر سرپرستوں سے معاملہ حل ہوجاتا ہے اور میاں بیوی کے درمیان تعلقات استوار ہوجاتے ہیں، تو بہت بہتر ہے۔ لیکن اگر سرپرستوں سے بھی معاملہ حل نہیں ہوتا تو
(ب) دوسری صورت یہ ہے کہ مرد عورت دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم مقرر کردیا جائے۔ اور ان دونوں حکموں کو فیصلہ کا مکمل اختیار دے دیا جائے۔ 
قرآن کا اعلان ہے کہ اگریہ حکم زوجین کے درمیان اصلاح کی کوشش کریں گے، تو اللہ ان کی پرخلوص نیت اور اچھی کوشش سے ضرور موافقت پیدا کردیں گے۔(النساء، آیت ۳۵) 
تیسرا پروسیس
(۳) اگر بالفرض درج بالا چھ شکلیں(۱۔ زوجین کی آپسی مصالحت۔ ۲۔ عورت کو نصیحت۔ ۳۔عورت کے بستر سے علاحدگی۔ ۴۔ عورت کی ہلکی سرزنش۔ ۵۔ سرپرستوں کی مصالحت۔ ۶۔ حکمین کی مصالحت) بھی کار گر نہیں ہوتی ہیں۔ تو یہاں سے تیسرا پروسیس شروع ہوتا ہے ۔ اس کی دو شکلیں ہیں: 
(الف)ایک شکل تو یہ ہے کہ اگر یہ ساری پریشانی شوہر کے لیے بیوی کی طرف سے ہے، تو شوہر بیوی کی اصلاح حال کے لیے اس وقت ایک طلاق دے جب وہ پاکی کی حالت میں ہو اور اس پاکی کی حالت میں اس سے ہمبستری نہ کی ہو۔ اور تین مہینے کے اندر اندر بیوی کے سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ میری وجہ سے میرا شوہر پریشان ہے ، مجھے اپنی عادتوں سے باز آجانا چاہیے۔ یا شوہر کو یہ احساس ہوجائے کہ شاید غلطی ہماری ہی ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، تو عدت کے اندر رجوع کرلے اور ایک خوشگوار محبت بھری زندگی گذارے۔ 
پھر کبھی پانچ دس سال گذرنے کے بعد دونوں میں اختلافات ہوتے ہیں ، تو پھراسی طرح درج بالا چھ طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے صلح و مصالحت کی کوشش کی جائے گی ۔ لیکن بالفرض ان سے معاملہ ٹھیک نہیں ہوتا ہے ، تو پھر شوہر اپنی بیوی کو اس پاکی کی حالت میں ، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے، ایک طلاق دے گا۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے گا۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں دوبارہ مصالحت کرکے محبت آمیز زندگی کی شروعات کرنی چاہیے، تو عدت کے اندر شوہر رجوع کرلے ۔ اور محبت بھری زندگی کی نئی شروعات کرے۔ 
زندگی یوں ہی ہنسی خوشی گذرتے گذرتے بالفرض اگر پھر اختلاف ہوجاتا ہے ، تو اصلاح حال کے لیے پھر درج بالا چھ صورتوں کو اپنایا جائے گا۔ مان لیجیے کہ اگر ان سے بھی مصالحت نہیں ہوپاتی ہے اور مصالحت کے لیے کوئی راہ نہیں بچتی،تو چوں کہ اس سے پہلے دو دو بار یہ سارے طریقے ناکام ہوچکے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ مصالحت کی بارہ کوششیں ناکام ہوچکی ہیں،اس لیے فطری طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ شاید ان دونوں کی زندگی ایک ساتھ نہیں گذر سکتی، اس لییایسی زندگی کو الجھنوں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے لڑکا تیسری طلاق دیدے۔ 
تین طلاق پورے ہونے کے بعد نہ اب لڑکے کو اختیار رہے گا کہ عدت کے اندر پھر رجوع کرکے عورت کو زندگی کو جہنم بنائے ۔ اور نہ لڑکی کے لیے گنجائش ہے کہ جس مرد نے اس کو دو دو مرتبہ اسے زندگی سے نکالنے کی کوشش کی، پھر تہ بارہ اسی کی زندگی کی زینت بنے ۔ اب لڑکا بھی کسی دوسری عورت سے شادی کرکے اپنی زندگی کی دوسری شروعات کرے اور لڑکی بھی کسی دوسرے شریک سفر کو اپنا ہم سفر بناکر خوشگوار زندگی گذارے۔ 
(ب)دوسری شکل یہ ہے کہ اگر معاملہ الٹا ہو، یعنی شوہر بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن بیوی ہی شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، تو ایسا نہیں ہے کہ عورت مرد کی زندگی سے بالکل بھی آزاد نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خلع کی پیشکش کرے، یعنی شوہر سے کچھ مال کے عوض میں طلاق طلب کرے۔ اگر شوہر منظور کرلے گا، تو بذریعہ خلع طلاق واقع ہوجائے گی۔ (البقرہ، ۲۲۰) 
حلالہ کی حقیقت
تیسری طلاق دینے کے بعد مرد کو تو بالکل اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لائے، کیوں کہ اگر وہ کسی اور کی بیوی بن چکی ہے، پھرتو مردبالکل نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگرطلاق کے بعد کسی کی زوجیت میں نہیں گئی ہے، تو بھی مرد نکاح نہیں کرسکتا، کیوں جس مرد کو قانون فطرت نے طلاق کے مرحلے سے پہلے پہلے اٹھارہ مرتبہ موقع دیا اور اس کے باوجود بھی اس عورت کی قدر نہیں کی، تو اب تین طلاق دینے کے بعد یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مرد ہی اس عورت کے قابل نہیں ہے۔ 
لیکن اگر عورت ہی کی یہ خواہش ہے کہ چلو جیسا بھی تھا، ہم نے زندگی کی شروعات اس کے ساتھ کی تھی ، تو اختتام بھی اسی کے ساتھ کریں گے، تو صرف عورت کے لیے شریعت نے یہ گنجائش رکھی ہے کہ تم پہلے کسی دوسرے شخص سے شادی کرو، پھر اس کے ساتھ زندگی اتنی دوبھر ہوجائے کہ مذکورہ بالا تینوں پروسیس سے گذرنے پر مجبور ہوکر تیسری طلاق تک نوبت آجائے ۔ اور تیسری طلاق دیدے، تو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہو۔ اسی کو شریعت میں حلالہ کہاجاتا ہے۔ تو گویا حلالہ کوئی نکاح نہیں، بلکہ معاملہ کو سلجھانے کے ایک پروسیس کا نام ہے، جو صرف اور صرف عورت کا حق و اختیار ہے۔ (البقرہ ۲۳۰) 
صحیح راستہ کیا ہے
آپ نے اسلام سے پہلے اور دیگر مذاہب کے نکاح و طلاق دونوں کا مطالعہ کرلیا۔ اور پھر اسلام نے ان میں کیا کیا اصلاحات کیں، وہ بھی آپ نے پڑھ لیا ، اور یہ بھی آپ نے پڑھ لیا کہ اسلام میں میاں بیوی کے درمیان تفریق تک پہنچنے تک کے لیے تقریبا بارہ مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، پھر تینوں طلاق کی نوبت آتی ہے۔اگر اسلام کے بتائے اس طریقے کے مطابق طلاق دی جائے تو راقم کا عندیہ ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی طلاق واقع ہوگی۔ کیوں کہ ناچیز کی معلومات کے مطابق آج تک کوئی ایک کیس بھی دیکھنے سننے یا پڑھنے کو نہیں ملا کہ جس نے شریعت کے صحیح طریقے کے مطابق طلاق دی ہو اور پھر وہ تفریق کے مرحلے تک پہنچ گیاہو؛ اس کی وجہ یہی ہے کہ تفریق کا یہ اسلامک لیگل سسٹم اتنا فطری اور انسانی نفسیات سے ہم آہنگ ہے کہ یہاں تک مرد و عورت اسی وقت پہنچ سکتے ہیں کہ جب دونوں کی مشترکہ زندگی ناقابل برداشت ہوجائے۔ برداشت اور مصالحت کی ذرا بھی گنجائش باقی رہے گی تو تینوں طلاق کی نوبت نہیں آسکتی۔ 
لیکن۔۔۔ چوں کہ ہمارا طریقہ شرعی طریقہ سے مختلف ہوگیا ہے، اس لیے آج معاشرہ میں دھڑا دھڑ طلاقیں ہور ہیں اور مرد و عورت دونوں کی زندگیاں جہنم کدہ بن رہی ہیں، ایسی صورت حال میں کسی لیگل ریفارم کی نہیں، کیوں کہ لیگل ریفارم کی جتنی ضرورت تھی، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام کرچکا ہے؛ بلکہ سوشل کی ریفارم کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر زندگی عذاب بن جائے تو اسلام اسے کس طرح حل کرنے کا فارمولہ پیش کرتا ہے ،اس فارمولہ پر عمل کیا جائے، تبھی عورتوں کے ساتھ مکمل انصاف ہوگا۔ 
لیکن اس کے بجائے اگر لیگل ریفارم کی کوشش کی جائے گی تو یہ فطری قانون سے ٹکرانے کے مترادف ہوگی، جس میں کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکتی۔ 

1 Jan 2019

Meri Namze Juma Howa kia?

میری نماز جمعہ ہوئی کیا۔۔۔؟

محمد یاسین جہازی
قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: لَیَأْتِیَنَّ عَلَی أُمَّتِي مَا أَتَی عَلَی بني إسرائیل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّی إِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَنْ أَتَی أُمّہُ عَلاَنِیَۃً لَکَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ، وَإِنَّ بني إسرائیل تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً، کُلُّھُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّۃً وَاحِدَۃً، قَالُوا: وَمَنْ ھِيَ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَیہِ وَأَصْحَابِي۔(سنن الترمذی،ابواب الایمان، باب ماجاء فیمن یموت، وھو یشھد ان لا الٰہ الا اللہ)

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری امت بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلے گی، یہاں تک کہ اگر بنی اسرائیل کے کسی شخص نے اپنی ماں کے ساتھ کچھ غلط کیا ہوگا، تو میری امت میں بھی ایسا ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئی تھی، جب کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ سب جہنمی ہوں گے، سوائے ایک فرقہ کے ، اور یہ وہ فرقہ ہوگا، جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلیں گے۔ 
امت مسلمہ کی حالیہ فکری و عملی صورت حال کا تجزیہ بتلاتا ہے کہ سرکار دوجہاں ﷺ کی یہ پیش قیاسی پورے طور پر عملی صورت اختیار کرچکی ہے۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، ہم ہر شعبہ میں یہودی ذہنیت سے متاثر اور اسرائیلی طرز عمل کو اختیار کرچکے ہیں۔
اس حدیث کے شارحین نے ایک عجیب نکتے کی بات لکھی ہے کہ اس روئے زمین پر جب سے انسان آباد ہوا ہے، اس وقت سے نبوت کے اختتام تک بہتر فی صد امتی ہیں اور ایک فیصد انبیاء و رسل بھیجے گئے ہیں۔ ہر نبی کی امتی میں سے بہتر فیصد نے ایمان کی دعوت قبول نہیں کی، صرف ایک فی صد ہی مسلمان ہوئی ہے۔ختم نبوت کے تاجدار حضرت محمد ﷺ کی دعوت کو بھی صرف تہترویں فیصد افراد نے قبول کیا ہے، بقیہ بہتر فیصد نے اسلام قبول نہیں کیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، ان میں سے بہتر فی صد عوام ہیں، جب کہ خواص اور علماء کی تعداد محض ایک فی صد ہے۔ اس تجزیہ کو اسی طرح آگے بڑھاتے رہے ، تمام شعبہ ہائے حیات میں یہی تناسب ملے گا۔ فکرو عقیدے کے اعتبار سے تجزیہ کیجیے تو یہاں بھی یہی نظر آئے گا کہ بہتر حصے بد اعتقادی کے شکار ہیں، جب کہ ایک حصہ ہی صحیح الاعتقاد ہے۔ عملی رپورٹ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ عنوان کی مناسبت سے نماز کو ہی لے لیجیے، آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ بہتر فی صد پنج وقتہ نمازوں سے کٹے ہوئے ہیں جب کہ ایک ہی فی صد سے مسجد کی رونق باقی ہے۔ اسی طرح ہفت واری نماز جمعہ کو لے لیجیے کہ اس میں بھی امت مسلمہ کا صرف ایک طبقہ شامل نماز ہوتا ہے، جب کہ بہتر فی صد جمعہ کی نماز کا بھی اہتمام نہیں کرتے۔ 
اس تجزیہ کو ایک دوسرے اینگل سے دیکھیے تو تہتر میں جو ایک طبقہ جمعہ کی نماز میں شامل ہوتاہے، اس میں سے بہتر کی نماز ہی صحیح نہیں ہوتی، صرف ایک فی صد کی نماز درست ہوتی ہے۔ اس بات کی تصدیق کئی باتوں سے ہوتی ہے: 
(۱) ہمارا نماز سے تعلق چوں کہ ہفت واری ہوتا ہے، اس لیے یہ نماز ہم دل سے نہیں، صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ کہیں تین جمعہ مسلسل چھوٹنے کے بعد ہم ایمان سے خارج نہ ہوجائے، تو نماز جمعہ کو اس کے حقیقی مقصد و نیت سے نہیں ادا کی جاتی ہے، علاوہ ازیں اگر ہم جمعہ کو واقعۃ ضروری سمجھ کر پڑھتے، تو اس سے زیادہ ضروری پنج وقتہ نمازیں ہیں، کیوں کہ وہ فرض ہیں اور جمعہ واجب ہے۔ جب فرض کا اہتمام نہیں کررہے ہیں، تو ہم کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ واجب کو صحیح نیت سے پڑھ رہے ہیں۔ 
(۲) فرائض کی تکمیل کے بغیر وہ چیز ادا ہی نہیں ہوگی۔ اور ہماری شریعت و احکام کی جانکاری کا عالم یہ ہے کہ ہمیں سنن و آداب تو دور ، فرائض کا صحیح علم نہیں ہے، تو بھلا بتائیے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وضو اور نماز میں جو کوتاہی ہوئی ہے، اس میں فرض نہیں چھوٹا ہے۔ اور اگر فرض چھوٹ گیا ہے ، تو بالیقین ہماری نماز نہیں ہوئی۔ 
(۳) عام حالات میں بھی اوربالخصوص نماز میں ستر عورت فرض ہے۔ عورت کے لیے دونوں ہتھیلی، چہرہ اور دونوں ٹخنوں کے علاوہ پورا بدن اور مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک ؛ یہ حصے ڈھانکے رکھنا بہرحال فرض ہے۔ اگر نماز میں مقدار فرض کا کوئی حصہ کھلا رہ گیا تو نماز بالکل نہیں ہوگی۔ ہماری بہنیں، بالخصوص وہ بہنیں، جو اسکول کالج یا آفس کی مجبوریوں کی وجہ سے باہر رہتی ہیں اور نما زکا بھی اہتمام کرتی ہیں، ان کو دیکھا گیا ہے کہ ایک تو عورت و مرد کی نماز میں جو فرق ہے، اس فرق کا لحاظ نہیں کرتیں وہ بھی بالعموم مردوں کی طرح ہی نماز پڑھتی ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ عام حالات میں سر کھلا رکھتی ہیں، لیکن نماز میں دوپٹے سے سرتو ڈھانک لیتی ہیں، لیکن ہاتھ کا فرض والا حصہ کھلا ہی رہ جاتا ہے، جس سے بالکل بھی نماز نہیں ہوتی۔ 
اسی طرح مرد کی بات کریں،تو آج کل کے نواجون لوور پہن کر آتے ہیں، اس میں ہوتا یہ ہے کہ جوں ہی رکوع یا سجدہ میں جاتے ہیں ، تو ان کا فرض والا حصہ کھل جاتا ہے اور پیچھے والے کو ان کی پوری ٹی وی دکھنے لگتی ہے، جس سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ 
(۴) سجدے میں دونوں پیروں کی انگلیاں زمین سے ٹچ رہنا ضروری ہے۔ اگر بیک وقت دونوں زمین سے اٹھ گئیں،اور پورے سجدہ میں اٹھی ہی رہیں تونماز نہیں ہوگی۔اور یہ ایسی غلطی ہے، جو بالکل عام ہے۔ 
ایسی صورت حال میں ہمیں تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ ہم جو ہفتہ میں ایک ہی بار صحیح، صرف جمعہ کی نماز ہی پڑھتے ہیں ، تو کیا یہ ایک نماز بھی ہم مکمل فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر آپ فرائض پر مکمل دھیان دیتے ہیں ، تو آپ کواللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہونا چاہیے، اور اگر لوور پہن کر پڑھتے ہیں یا فرائض کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کرتے ہیں، تو پھر یہ محاسبہ کرنا ضروری ہے کہ ۔۔۔ میری نماز جمعہ ہوئی کیا۔۔۔ ؟!!!!۔

28 Dec 2018

مولانامحمد اسرار الحق قاسمیؒ اور جمعیۃ علماء ہند

مولانامحمد اسرار الحق قاسمیؒ اور جمعیۃ علماء ہند
محمد یاسین قاسمی جہازی
جمعیۃ علماء ہند


بڑی نسبت کے حامل اگر بڑے کہلائیں، تو یہ خاندانی روایت ہوتی ہے اور یہاں پر اس تبصرہ کی گنجائش رہتی ہے کہ ’’بڑے باپ کا بیٹا تھا، تو بڑا بن گیا‘‘۔ لیکن خاندان کو بڑائی کی روایت بخشنا؛ یہ سب سے اعلیٰ درجے کا کمال ہوتا ہے۔ مولانا محمد اسرارالحق صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ ایک ایسی ہی شخصیت تھی، جنھوں نے اپنی صلاحیت و صالحیت سے خاندان کو عبقریت، ملت اسلامیہ ہند کو ملی قیادت اور تعلیمی شعور عطا کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ 
جمعیۃ علماء ہند اسلامیان ہند کے لیے حریم و پاسبان کی حیثیت رکھتی ہے ۔ تاریخی شہادت کی روشنی میں یہ کہنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ بھارت کا ہر مسلمان پیدائشی طور پر جمعیتی ہے اور جمعیۃ کا ممنون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے ادنیٰ نسبت بھی ایک بھارتی مسلمان کے لیے فخر کی نسبت اور عظمت کا نشان ہوتی ہے؛ لیکن جنھیں اس کی قیادت ؛ اور وہ بھی اعلیٰ قیادت کا شرف مل جائے، تو بالیقین یہ نقارہ خدا ہے، جنھیں بندگان خدا کے غفلت پروردہ دلوں کو متنبہ کرنے کے لیے اور انھیں اپنے فرائض کے تئیں بیدار کرنے کے لیے وہ عہدہ سپرد کیا جاتا ہے۔ 
حضرت ممدوح مولانا محمد اسرارالحق صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ (۷۔۱۲۔۰۱۸) ایک ایسی ہی شخصیت تھی۔ قاسمی نسبت حاصل کرنے کے بعد بہار کے مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے سے وابستہ ہوئے۔ زبانی روایت کے مطابق غالبا ۱۹۷۵ء میں یہاں ایک پروگرام ہوا، جس میں حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ شریک ہوئے۔ انھوں نے پہلی نگاہ میں ہی مولانا ممدوح کے اندر چھپی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور مدرسہ کے ذمہ دار سے بات کرکے اپنے ہمراہ دہلی لے آئے اور جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی دفتر سے وابستہ کردیا۔ ابتدائی پانچ سالوں تک حضرت فدائے ملتؒ کے زیر سایہ عاطفت تربیت پاتے رہے ، اور جب کندن بن گئے تو اکابرین جمعیۃ نے اپنی صف میں شامل کرتے ہوئے نظامت عمومی کا ذمہ دار عہدہ سپرد کردیا۔ چنانچہمولانا سید احمد ہاشمی ؒ کے بعد ۲۹؍ جنوری ۱۹۸۰ء سے ۹؍ اگست ۱۹۸۱ء تک عارضی ناظم عمومی رہے۔ پھر ۱۰؍ اگست ۱۹۸۱ء کو مستقل طور پر یہ عہدہ آپ کو سپرد کیا گیا، جس پر ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۹۱ء یعنی استعفیٰ پیش کرنے تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ 
اپنی نظامت کے دور میں جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے انھوں نے جوکارہائے نمایاں انجام دیے،ان سب کی رپورٹ کتابچوں کی شکل میں جمعیۃ کی لائبریری میں موجود ہے، ہم طوالت سے بچتے ہوئے یہاں صرف ان کا نام پیش کر رہے ہیں: (۱) میرٹھ فساد کے دل خراش حقائق۔ (۲) ملی کردار۔ (۳) ایران و عراق جنگ۔ (۴) ملی کاوش۔ (۵) آسام سے جائز شہریوں کا غیر قانونی اخراج۔ (۶) آزادی کی لڑائی میں علما کا امتیازی رول۔ (۷) مسلمانوں کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں امتیازی رول۔ (۸) جمعیۃ علماء ہند کا دس نکاتی پروگرام۔ (۹)ریاست آسام کے سیلاب زدہ علاقوں میں جمعیۃ علماء ہند کی امدادی خدمات۔ (۱۰) ملی زندگی کا اہم موڑ۔ (۱۱) لمحات فکر۔ (۱۲) سانحہ حرم۔ (۱۳) فرقہ پرستی کا کھیل خطرناک موڑ پر۔ (۱۴) عازمین حج کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی تجاویز۔ (۱۵) شریعت اسلامی کی بقا و تحفظ اور جمعیۃ علماء ہند کی چھیاسٹھ سال جدوجہد۔ (۱۶) مرادآباد کے فرقہ وارانہ فسادات میں جمعیۃ ریلیف کمیٹی کی امدادی خدمات۔ (۱۷) بابری مسجد اور مسلم خواتین بل۔ (۱۸) امیر الہند اور نائب امیر الہند کا انتخاب۔ (۱۹) تجاویز کل ہند کنونشن برائے علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی۔ (۲۰) آسام کی تاریخ میں سب سے بھیانک سیلاب۔ (۲۱) ملی سفر۔ 
اس فہرست سے آپ مولانا کی خدمات اور کارناموں کا اندازہ لگاسکتے ہیں، جو انھوں نے جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے مختلف محاذوں پر انجام دیا۔ مولانا مرحوم جہاں عمل پیہم اور جہد مسلسل کے عنوان تھے، وہیں فکرو قلم کے بھی عظیم سپہ سالار تھے، ایک اندازہ تو درج بالا کتابوں کے نام سے لگاسکتے ہیں، جو سبھی مولانا مرحوم کے قلم کی وجود ہیں، ان کے علاوہ ۱۹۸۴ء میں جب جمعیۃ علماء ہند کا ترجمان روزنامہ الجمعیۃ بند ہوگیا، تو مساوات کے نام سے ایک ہفت روزہ نکالنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے اول و آخر ایڈیٹر مولانا محمد اسرارالحق قاسمی بنائے گئے۔ یہ اخبار ۲؍ اکتوبر ۱۹۸۷ء سے اگست ۱۹۸۸ء تک نکلتا رہا۔ پھر جب الجمعیۃ کو روزنامہ کے بجائے ہفت روزہ کی شکل میں نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تو،اس کے ایڈیٹر بھی مولانا ہی رہے ۔جمعیۃ علماء ہند کی لائبریری میں موجود ہفت روزہ الجمعیۃ کے مطابق ۱۹؍ اگست ۱۹۸۸ء کا شمارہ آپ کی ادارت میں شائع ہوا۔ آپ مدیر بھی تھے اور طابع و ناشر بھی۔ اور ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۹۱ء تک مدیر رہے۔ ایک ہزار چار سو تریپن شمارے آپ کی ادارت میں نکلے۔ 
پھر واقعہ یہ ہوا کہ آپ کی جمعیتی زندگی میں ایک انقلابی موڑ آیا، جس نے آپ کو جمعیۃ سے اور جمعیۃ نے آپ کو؛ دونوں نے ایک دوسرے کو، ایک دوسرے سے علاحدہ کردیا۔ حضرت مرحوم کی بعد کی زندگی نے ثابت کردیا کہ جمعیۃ سے استعفیٰ در حقیقت آپ کی ایک نئی زندگی کے آغاز کی تمہید تھی ، چنانچہ آپ نے یہاں سے نکل کرایک نئی تنظیم کی نیو رکھی، جس کا نام آل انڈیا تعلیمی و ملی فاونڈیشن رکھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، مولانا مرحوم نے ملت کی تعلیم و تربیت کے لیے خود کو وقف کردیا اور تا دم واپسیں اس تحریک کی آبیاری فرماتے رہے، اور بعد از مرگ کے لیے ایسی راہ عمل چھوڑ گئے، جس پر چلنے والے ہر فرد مولانا مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ کا سبب بنیں گے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مولانا ؒ کے نقش دم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی مغفرت فرماکر اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت کرے، آمین۔

Think Tank or Fish Tank

تھنک ٹینک۔۔۔یا۔۔۔ فش ٹینک 
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408


میڈی ڈیوڈ (Mady David)کو جب استقرار حمل ہوا، تبھی سے وہ اپنی ذہنی تربیت اور جسمانی صحت کا خیال رکھنے لگی، اس کے لیے وہ روز صبح تین گھنٹے ریاض کرتی اور بادام، دودھ اور دیگر مغزیات استعمال کرتی تھی۔ ذہنی سکون کے لیے میوزک سنتی اور پریشاں کن خیالات سے بچتی تھی۔ اس کے شوہر کا رویہ بھی بالکل مثبت رہتا اور کوئی ایسی بات نہیں کہتا، جس سے ڈپریشن یا معمولی جھگڑے کی نوبت آئے۔ بالآخر ۱۷؍ جنوری ۱۹۹۰ء کو ۸؍ پونڈ وزنی ایک بچہ پیدا ہوا، جس کانام جوسف (Joseph) رکھا گیا۔ روز اول سے ہی بہترین غذا اور اعلیٰ درجہ کی نگہداشت میں اس کی پرورش و پرداخت کی گئی۔ جب اس نے عمر کے تیسرے سال میں قدم رکھا تو نشانہ بازی، تیراندازی اور دوڑ کی جسمانی ٹریننگ دی جانے لگی۔ ذہنی تربیت کا بھی خاص خیال رکھا گیا، حتیٰ کہ اس کے سامنے کوئی اونچی آواز سے بات تک نہیں کرتا تھا۔ حفظان صحت کا بھی پورا خیال رکھاجاتا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک دن بھارتی مہمان اس کے گھر میں آیااور سگریٹ پینے لگا، تو اس کے میزبان باپ نے معذرت کرتے ہوئے سگریٹ پینے سے منع کردیا۔ جوسیف کو چاکلیٹ، چپس اور کول ڈرنک کے بجائے کھجور، پستہ اور بادام دیا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ زندگی میں پہلی اور وہی آخری بار اس نے بارہ سال کی عمر میں جنک فوڈ چکھا تھا، حالاں کہ ان چیزوں کی مصنوعات میں اسرائیل کی اسی پرسینٹ کی شراکت ہے۔ 

جوسیف جب چھٹی کلاس میں پہنچا تو اسکول کی طرف سے ۳؍ ہزار ڈالر تجارت کے لیے دے کر دس ہزار ڈالر کمانے کا ٹارگیٹ دیا، لیکن وہ سات ہزار ہی کماپایا۔ اس ناکامی کو دیکھتے ہوئے اسے کاروباری ریاضی کی خارجی کلاسیں دی گئیں اور پھر ۵؍ ہزار ڈالر دے کر بزنس کرنے کے لیے کہاگیا، چنانچہ اس نے اس سے ۱۶؍ ہزار ڈالر کمائے۔ آگے چل کر اس نے فزکس سے تعلیم مکمل کی اور پھر یہودیوں کی نیویارک میں واقع بلاسود قرض فراہم کرنے والی تنظیم سے قرضہ لے کر ہتھیار بنانے کا کام شروع کیا۔ اور آج کی رپورٹ یہ ہے کہ پوری دنیا ہتھیار کی مارکیٹنگ میں اسرائیل سے لین دین کرنے پر مجبور ہے۔ 
۱۸۹۶ء ؁ میں سوئزر لینڈ کے شہر باسیل (Basel) میں ایک صہیونی رہنما تھیوڈور ہزژل کی صدارت میں ایک خفیہ کانفرنس منعقد ہوئی ، جس میں مخلتف شعبہ ہائے زندگی کے ۳۰۰ صہیونی رہنماؤں اور ۳۰ خفیہ اور عوامی یہودی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں پوری دنیا پر اپنی بالادستی مسلط کرنے کے لائحہ عمل پر غور کیا، جس کے لیے Zionist sages protocols کے نام سے ۲۴؍ نکاتی تجاویز منظور کیں۔ اور پھر لونگ ٹرم پالیسی کے تحت نسل در نسل اسے عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ شروع کیا، جو تاہنوز جاری ہے۔ یہودی بچوں کی بنیادی تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنی پیش رو نسل کے منصوبہ کو لے کر آگے بڑھتی ہے اور آبا و اجداد کی حکمت عملی سے کبھی اختلاف نہیں کرتے۔
اسرائیل سے جڑے ان دو واقعوں کو تحریر کرنے کا مقصد اس راز سے پردہ اٹھانا ہے کہ بالآخر یہودی جو عالمی آبادی کے تناظر میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، اس کے باوجود آج پوری دنیا کے ہر بڑے پلیٹ فارم پر اسی کا قبضہ کیوں ہے؟ آپ بہ خوبی واقف ہیں کہ کسی بھی ملک ، تنظیم یا تحریک کو چلانے کے لیے جتنی منظم حکمت عملی ہوگی، وہ اتنی ہی ترقی کے منازل طے کرتا ہے۔اور حکمت عملی و پالیسی ساز جماعت کو تھنک ٹینک کہاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ترقی یافتہ ممالک کے پاس سب سے زیادہ تھنک ٹینک ہیں، جو تمام شعبہ ہائے حیات کے ماہرین پر مشتمل ہوتے ہیں اور اپنے ملک کی تعمیرو ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ عالمی شماریات پر نظر ڈالی جائے ،تو آج سب سے زیادہ تھنک ٹینک یونائٹیڈ اسٹیٹ کے پاس ہے جس کی تعداد ایک ہزار آٹھ سو بہتر ہے۔ اس کے بعد علیٰ الترتیب چین اوریوکے کے پاس ہے۔ انڈیا کے پاس سردست دو سو تیرانوے تھنک ٹینک ہیں۔ جو گلوبل کی شماریات کے تناظر میں محض پانچ تھنک ٹینک ہی موثر کردار ادا کر پارہے ہیں۔ 
آج اسلامیان ہند کے مفکرین، دانشوران، روشن خیال اور علما؛ بلکہ عام مسلمان بھی اس بات کا رونا رہے ہیں کہ ہمارے ادارے ۔ خواہ وہ تحریک کی شکل میں ہو یا اداروں کی شکل میں۔یا پھر قیادتیں؛اپنے مقصد میں ناکام ہوچکی ہیں، ان کے پاس نہ تو حال کے لیے کوئی ایکشن پلان ہے اور نہ ہی مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل، جس کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ ہر کوشش بے سمت ہوچکی ہے ۔ مکاتب سے یہ شکوہ ہے کہ معیار کی تعلیم نہیں ہوتی، مدارس سے گلہ یہ ہے کہ اس کے نصاب عصریات سے اٹیچ نہیں ہیں، اسکول اور کالج ایمان سے ہاتھ دھونے کی فکٹریاں بنتی جارہی ہیں، تحریکوں اور تنظیموں سے بد ظنی یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی گول سیٹ اپ نہیں ہے۔ قیادتوں کے بارے میں تبصرہ کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ ہر ایک شخص ایک دوسرے گروہ سے نالاں اور کردار سے غیر مطمئن ہے۔ 
حالات کا یہ منظر نامہ ہمیں غورو فکر کی دعوت دیتا ہے ، ہمیں سوچنا ہی ہوگا کہ بالآخر ہر چیز میں ناکامی ہی ہماری مقدر کیوں بن چکی ہے اور کیا ہم اس تقدیر کونہیں بدل سکتے ہیں۔۔۔؟ 
راقم کا خیال ہے کہ ہماری ناکامیوں کے کئی اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس کوئی تھنک ٹینک نہیں ہے۔ مثال کے طور زید ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالتا ہے، جس کا مقصد دینی تعلیم کی اشاعت ہوتا ہے، اس کے لیے وہ ایک شوریٰ بناتا ہے، جو مدرسہ کے ہر فیصلے کے لیے کلی اختیار کا مالک ہے ، لیکن شوریٰ کے ممبران میں ایک ممبر بھی ایسا نہیں ہوتا، جو ماہر تعلیم ہو۔ اس کا ممبر وہی بن سکتا ہے، جو رشتہ دار ہو اور جن سے یہ خطرہ نہ ہو کہ کل کہیں مدرسہ پر قبضہ نہ کرلے اور جو زیادہ سے زیادہ مالی تعاون پیش کرسکے۔ جب ایسے افراد پر مشتمل شوریٰ (جو مدرسہ کا تھنک ٹینک ہے) ہو، تو بھلا وہ مدرسہ اپنے مقصد میں کتنا کامیاب ہوگا، آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔ آج ہمارے اکثر اداروں کا یہی حال ہے، ان کے شوریٰ کی فہرست دیکھ لیجیے، اس میں اقربا پروری یا تحفظات فراہم کرنے والے ناموں کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ اسی طرح مسجد کمیٹی کے ممبران کو دیکھ لیجیے ایک بھی ایسا ممبر نہیں ہوگا، جو امام و موذن کی فضیلت و عظمت سے واقف ہو، حتیٰ کہ متولی بھی ایسے شخص کو بنایا جاتا ہے، جو اپنی بیوی کی لڑائی کا غصہ موذن و امام پر نکالنے یا پھر ان میں کیڑے تلاش کرنے کی زیادہ مہارت رکھتا ہے، جب معاملہ ایسا ہے تو امت کی تعمیر وترقی کا کیا حال ہوگا، وہ جگ ظاہر ہے۔ 
اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ امت کے اچھے دن لوٹ کر آئیں، تو اپنی مجلس شوریٰ کو تھنک ٹینک بنائیے۔ آج ہم نے جو بنا رکھا ہے، وہ تھنک ٹینک نہیں؛ بلکہ فش ٹینک ہے ، جس میں چند رنگ برنگی مچھلیاں اس لیے قید کردی جاتی ہیں، تاکہ لوگوں کا دل بہل جائے۔ یاد رکھیے جب تک ہمارا تھنک ٹینک فش ٹینک بنارہے گا، اس سے ہماری تفریح طبع تو ہوسکتی ہے، لیکن۔۔۔لیکن ملت مسلمہ میں نہ تو تعلیمی انقلاب آسکتا ہے، نہ اقتصادی حالات سدھر سکتے ہیں اور نہ ہی قیادتیں ابھر سکتی ہیں!!!!۔

30 Nov 2018

kowe se sekhen gunah chupane ka hunar

کوے سے سکیھیں گناہ چھپانے کا ہنر
محمد یاسین قاسمی جہازی 
9871552408



ہمارے سماج میں گناہوں کے تعلق سے مختلف طبقے اور نظریے کے لوگ پائے جاتے ہیں۔
(۱) ایک طبقہ تو وہ ہے جو گناہ کو گناہ سمجھ کر ظاہری و باطنی ، ہر طرح سے خود بھی بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اہل اللہ اور ولی صفت طبقہ ہے ، جو ہمارے معاشرے میں اتنی ہی تعداد میں رہ گئے ہیں، جتنی کہ آٹے میں نمک کی مقدار ہوتی ہے۔
(۲) دوسرے وہ لوگ ہیں، جو خود تو بچتے ہیں ، لیکن دوسروں کو بچانے کی فکر یا کوشش نہیں کرتے۔ اس کی تعداد پہلے کی تعداد کے ہی برابر ہے، تھوڑی بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔
(۳) تیسرے ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کو گناہ سے بچنے کی تلقین تو کرتے ہیں، لیکن خود نہیں بچتے۔ ایسے لوگ موقع اور وقت کی مناسبت سے اپنا طرز عمل بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ظاہری اعتبار سے بھی اور باطنی اعتبار سے بھی تقویٰ کا مجسمہ بن جاتے ہیں، تو کبھی گناہ کی چلتی پھرتی مشین۔ انھیں جب ذکر و فکر کی مجلس نصیب ہوتی ہے تو متقی بن جاتے ہیں اور جہاں ذرا اس سے ہٹتے ہیں تو اپنی سابقہ فطرت کا رنگ دکھانے سے نہیں چونکتے۔ یا پھر ظاہری طور پر طہارت و تقویٰ کا مرجع نظر آتے ہیں، لیکن جب تنہائی میں ہوتے ہیں، تو معاملہ بالکل الٹا ہوجاتا ہے۔
(۴) چوتھا طبقہ وہ ہے، جس کے لیے گناہ اور ثواب کے کاموں میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ یہ طبقہ اگر کنارہ کشی اختیار کرتا ہے ، تو گناہ اور ثواب کی تفریق کیے بغیر دونوں سے منھ موڑ لیتا ہے ، یا پھر جب کرنے پر آتا ہے، تو بھی کوئی فرق نہیں کرتا، البتہ اس طبقے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ گناہ کو گناہ اور ثواب کو ثواب سمجھتا ہے۔ 
ان چاروں طبقوں کو دیکھا جائے تو ان میں جہاں خرابیاں ہیں ، وہیں کچھ نہ کچھ خوبیوں سے بھی لبریز ہیں، اور اسی وجہ سے ان کو ’’بساغنیمت ‘‘ کے خانے میں رکھا جاسکتا ہے۔ 
(۵)لیکن ان کے علاوہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جس کے لیے ثواب کے کام ، فضول اور بیہودہ کام ہیں ، جب کہ گناہ کے کام عزت، عظمت اور دولت کے لیے سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ثواب سے نفرت اور گناہوں سے محبت ہی ان کی زندگی کا محبوب مشغلہ ہے۔ ایسے لوگ رات کی تاریکی میں جو کچھ کرتے ہیں، اسے دن کے اجالے میں پھیلانا اپنے لیے عزت و افتخار کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔چنانچہ پردہ سیمیں کی حرکتیں اور بادہ رنگیں کے مناظر میں مثالیں آپ ڈھونڈھ سکتے ہیں 
گناہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا؛ بذات خود مہلک اور زہر قاتل ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ستاریت و غفاریت کے پیش نظر ہمارے ساتھ عفو و درگذر کا معاملہ کیا ہوا ہے۔اسلامی تعلیم اور آقا کریم ﷺ کی ہدایت بھی یہی ہے کہ گناہ خواہ کسی کا ہو ؛ اپنا ہو یا کسی اور کا ہو ؛ اسے چھپانا ضروری ہے ۔ اگر دوسروں کا گناہ ہے، تو اسے تو بالکلیہ چھپانا چاہیے ، کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ 
عن ابی ھریرۃؓ قال : قال رسول اللّٰہ ﷺ : إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أکْذَبُ الْحَدیثِ وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَکُونُوا عِبَادَ اللّہِ إِخْوَانًا۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ما ینھی عن التحاشد والتدابر)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بدگمانی سے بچتے رہو ، کیوں کہ بدگمانی سب سے بڑی جھوٹی بات ہے ۔ اور دوسروں کے عیب تلاش نہ کیا کرو، اور نہ ان کی چھپی باتوں کا کھوج لگایا کرو، اور نہ کسی کو بھڑکا کر کسی برائی پر آمادہ کیا کرو۔ نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ آپس میں بغض رکھا کرو۔نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیر کر چلا کرو۔ سب ایک اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ۔
بلکہ جو کوئی اپنے بھائی کے گناہوں کو چھپاتا ہے تو زبان رسالت سے اس کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ 
من ستر مسلما، سترہ اللّہ یوم القیامۃ۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لایظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ)
جو کسی مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کریں گے۔ 
اور اگر خود کا گناہ ہے، تو اس کے بار ے میں بھی اسلامی تعلیمات یہ ہے کہ اسے چھپانا چاہیے۔ اگر خود کے اس گناہ کو نہیں چھپائے گا، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ستاریت کی وجہ سے چھپا رکھا تھااور خود ہی لوگوں کے سامنے ظاہر کرے گا ، تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے گناہوں کو بالکل معاف نہیں کرے گا۔ 
کُلُّ أُمَّتِي مُعَافًی إِلَّا المُجَاھِرینَ، وَإِنَّ مِنَ المُجَاھَرَۃِ أَنْ یَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّیْلِ عَمَلًا، ثُمَّ یُصْبِحَ وَقَدْ سَتَرَہُ اللّہُ عَلَیْہِ، فَیَقُولَ: یَا فُلاَنُ، عَمِلْتُ البَارِحَۃَ کَذَا وکَذَا، وَقَدْ بَاتَ یَسْتُرُہُ رَبّہُ، وَیُصْبِحُ یَکْشِفُ سِتْرَ اللّہِ عَنْہُ۔ (صحیح بخاری،کتاب الادب، باب ستر المؤمن نفسہ)
آج کے لوگ اپنے گناہ کو بھی اور بالخصوص دوسروں کے گناہ کو چھپانے کے بجائے اس کی تشہیر کرنا اپنااخلاق و کردارکا حصہ سمجھتے ہیں، جو سراسر انسانی سیرت اور انسانیت کے تقاضے کے خلاف ہے۔ گناہ تو ایسا جرم ہے جو جانور بھی نہیں چاہتاکہ اس کی تشہیر ہو؛ بلکہ وہ بھی اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ الدر المنثور میں سورہ مائد کی آیت نمبر ۳۱ کی تفسیر میں ہے کہ شادی کے معاملہ کو لے کر قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔ روئے زمین پر چوں کہ پہلا قتل اور پہلی میت تھی، اس لیے قابیل کو سمجھ میں نہیں آیاکہ اس کے ساتھ کیا کریں۔ چنانچہ بہت پریشان ہوا۔ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے یہ منظر دکھایا کہ ایک کوے نے ایک دوسرے کوے سے لڑائی کی اور پھر اسے قتل کردیا۔ کسی کو قتل کرنا گناہ عظیم ہے۔ اس کوے سے جب یہ گناہ عظیم ہوگیا تو اس نے مردہ کوے کی لاش کو دفن کردیا ، تاکہ اس کا یہ گناہ چھپ جائے اور کوئی دوسرا شخص اس کے گناہ سے واقف نہ ہوسکے۔ پرندوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ کوے میں حیا بہت ہوتی ہے، وہ کبھی بھی کھلے میں جنسی تعلقات نہیں بناتا۔ اور جب اس سے کوئی غلط کام ہوجاتا ہے تو اسے فورا چھپاتے ہیں، اس کی تشہیر نہیں کرتے۔ 
ایک پرندہ گناہ کی شناعت و قباحت کو سمجھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کے گناہ سے کوئی واقف نہ ہو؛ لیکن ایک ہم انسان ہیں جو گناہ کی جرات بھی کرتے ہیں، اور پھر جسے اللہ نے اپنی صفت ستاریت سے چھپا دیا تھا، خود ہی اس کی تشہیر کرکے ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔ 
جب ایک صاحب عقل و شعور رکھنے والے انسان کے لیے انسانی کردار کے نمونے عبرت سے خالی ہوجائیں تو سمجھ لیجیے کہ انسان انسانیت کی سطح سے گرچکا ہے ۔ ایسے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ کم از کم کوے کے ہی کردار سے سبق حاصل کرتے ہوئے یہ سبق لے کہ اپنے گناہ کو کیسے چھپایا جاتا ہے۔ 

23 Nov 2018

جمعیۃ : ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبان

جمعیۃ : ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبان
۲۳؍ نومبر۱۹۱۹ مطابق یکم ربیع الاول ۱۳۳۸ھ یوم تاسیس جمعیۃ علماء ہند؛ ملت اسلامیہ ہند کے لیے عظیم تاریخی انقلاب کا دن ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی، شعبہ دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند


چوں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت پورا عرب ترکوں کے زیر حکومت تھا، اس لییعالم اسلام کی نگاہوں میں ترکی حکومت کو ’حکومت اسلامیہ‘ اور اس کے خلیفہ کو ’خلیفۃ المسلمین‘ کہاجاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم (۲۸؍ جولائی ۱۹۱۴ء ، ۱۱؍ نومبر ۱۹۱۸ء)میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ترکی کے جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کو تشویش ہوئی کہ اگر برطانیہ کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی مسلمانوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی؛ لیکن برطانیہ نے فتح ملنے کے بعد وعدہ خلافی کرتے ہوئے عربوں کو ترکی کے خلاف جنگ پر اکسایا ، جس کے نتیجے میں بہت سے عرب مقبوضات ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے ، جس پر بعد میں انگریزوں نے قبضہ کرلیا اور پھر ترکی کو تقسیم کرکے خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کردیا۔ انگریزوں کی اس بد عہدی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو غم و غصہ سے بھر دیا،جس کے نتیجے میں ’تحریک خلافت‘ رونمائی ۔ اسی تحریک کا پہلا اجلاس’’آل انڈیا خلافت کانفرنس‘‘ کے نام سے بروز اتوار، پیر، ۲۳؍ ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۹ء مطابق ۲۹؍ صفر و یکم ربیع الاول ۱۳۳۸ھ کوبمقام کرشنا تھیٹر، پتھر والا کنواں دہلی میں ہورہا تھا ، جس میں بھارت کے کونے کونے سے مختلف مسلک و مشرب کے علمائے کرام شریک تھے۔
علمائے کرام کے باہمی مسلکی اختلاف سے امت مسلمہ کی جو نازک حالت بنی ہوئی تھی، اس نے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر ہم یوں ہی عقیدہ و فرقہ کا کھیل کھیلتے رہے ، تووہ دن دور نہیں، جب خلافت کی طرح ہمارا وجود بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ وقت کی اسی نزاکت و ضرورت کو سمجھتے ہوئے مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محل، یا مفتی اعظم حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نے علماء کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ۲۲؍ نومبر ۱۹۱۹ء بروز سنیچرحضرت مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی ہدایت کے مطابق مولانا احمد سعید اور مولانا آزاد سبحانی صاحبان نے خلافت کانفرنس میں تشریف لائے علمائے کرام کی قیام گاہوں پر جاکر فردا فردا ملاقات کی اور بڑی راز داری کے ساتھ انھیں ایک تنظیم کی نیو رکھنے کی دعوت دی۔ حکومت برطانیہ چوں کہ علماء پر بہت زیادہ نظر رکھے ہوئے تھی ، اس لیے خطرہ تھا کہ اگر کہیں انگریزوں کو بھنک بھی پڑ گئی تو علماء پر حکومت کے قہر و جبر کی قیامت ٹوٹ پڑے گی، اس لیے ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ بروز اتوار بعد نماز فجرپچ کوئیاں روڈ دہلی میں واقع سید حسن رسول نما کے مزار پرحاضر ہوکر سب نے مل کریہ قول و قرار لیا کہ 
’’ہم سب دہلی کے مشہور ومقدس بزرگ کے مزار کے سامنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ مشترک قومی و ملی مسائل میں ہم سب آپس میں متحد ومتفق رہیں گے اور فروعی و اختلافی مسائل کی وجہ سے اپنے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں کریں گے، نیز قومی و ملکی جدوجہد کے سلسلے میں گورنمنٹ کی طرف سے جو سختی اور تشدد ہوگا، اس کو صبرو رضا کے ساتھ برداشت کریں گے اور ثابت قدم رہیں گے۔ جماعت کے معاملہ میں پوری پوری رازداری اورامانت سے کام لیں گے۔ (تحریک خلافت، ص؍۴۰: قاضی عدیل عباسی)
جو علمائے کرام فروعی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے سے اس قدر دور ہوگئے تھے کہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے نہیں تھکتے تھے اور ایک دوسرے کو سلام تک کرنا گوارا نہیں کرتے تھے؛ حلف راز داری کے بعد اسی روز، یعنی ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ء مطابق یکم ربیع الاول بروز پیر بعد نماز عشا مسجد درگاہ سید حسن رسول نما میں ایک ساتھ ایک دل اور ایک جان ہوکر بیٹھے اور پوری قوت کے ساتھ میدان عمل تیار کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم تشکیل دی، جس کو ایک خوبصورت نام دیا ، یعنی جمعیۃ علماء ہند۔ اس کے عارضی صدر حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب کوعارضی ناظم بنایا گیا۔ اس تاسیسی اجلاس میں مختلف العقائد کے درج ذیل ۲۵؍علمائے کرام شریک تھے: 
(۱) حضرات مولانا عبد الباری ،(۲) مولانا سلامت اللہ، (۳)مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ، (۴) پیر محمد امام سندھی،(۵) مولانا اسد اللہ سندھی،(۶) مولانا سید محمد فاخر، (۷) مولانا محمد انیس، (۸)مولانا خواجہ غلام نظام الدین،(۹) مولانا محمد کفایت اللہ، (۱۰) مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، (۱۱) مولانا احمد سعیددہلوی،(۱۲) مولانا سید کمال الدین،(۱۳) مولانا قدیر بخش، (۱۴)مولانا تاج محمود،(۱۵)مولانا محمد ابراہیم دربھنگوی،(۱۶) مولانا خدا بخش مظفر پوری، (۱۷)مولانا مولا بخش امرتسری،(۱۸) مولانا عبد الحکیم گیاوی،(۱۹) مولانا محمد اکرام،(۲۰) مولانا محمد منیرالزماں،(۲۱) مولانا محمد صادق،(۲۲) مولانا سید محمد داؤد،(۲۳) مولانا سید محمد اسماعیل،(۲۴) مولانا محمد عبداللہ ،(۲۵) مولانا آزاد سبحانی۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ (اسیر مالٹا) کو مستقل صدر، اور حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کو نائب صدراور مولانا احمد سعید صاحب کو مستقل ناظم اعلیٰ بنایاگیا ۔اس میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دسمبر میں چوں کہ خلافت کانفرنس امرتسر میں ہونے والی ہے، اس لیے اسی موقع پر جمعیۃ علماء ہند کا بھی اجلاس کرلیا جائے۔ 
جمعیۃ علماء ہند کا پہلا اجلاس
جمعیۃ علماء ہند کے قیام کے محض ۳۵؍ دن بعد،۲۸، ۳۱؍ دسمبر۱۹۱۹ء اور یکم جنوری ۱۹۲۰ء کی الگ الگ تاریخوں میں تین نشستوں پر مشتمل اسلامیہ مسلم ہائی اسکول امرتسر میں جمعیۃ علماء ہند کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ پہلی نشست میں باون علمائے کرام شریک ہوئے اور جمعیۃ علمائے ہند کے قیام کی ضرورت و اہمیت پر بحث و گفتگو ہوئی۔ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۱۹ کو دوسری نشست ہوئی جس میں تیس علمائے کرام نے شرکت کی۔ اس میں کل تین تجویزیں منظور ہوئیں، جن میں خلافت اسلامیہ کے خلیفہ سلطان عبد الحمید کے نام کا خطبہ پڑھنے، صلح کانفرنس میں بھارتی مسلمانوں کے وفد کے بھیجنے اور اس تجویز کو ملک معظم کی خدمت میں بھیجنے کی تجاویز تھیں۔تیسری نشست یکم جنوری ۱۹۲۰ء کو ہوئی ، جس میں چوبیس علمائے کرام شریک ہوئے ۔اس میں بھی کئی تجاویز پاس ہوکر منظور ہوئیں اور سب سے پہلی مجلس منتظمہ کی تشکیل عمل میں آئی، اور تئیس درج ذیل اراکین منتخب کیے گئے: 
(۱) مفتی محمد کفایت اللہ صاحب دہلوی، (۲) مولانا احمد سعید صاحب دہلوی، (۳)حکیم محمد اجمل خان صاحب دہلوی، (۴) مولانا عبد الماجد صاحب بدایونی،(۵) مولانا محمد فاخر صاحب الٰہ آبادی، (۶) مولانا محمد سلامت اللہ صاحب، (۷) مولانا حسرت موہانی صاحب، (۸) مولانا مظہر الدین صاحب، (۹) مولانا محمد اکرام خاں صاحب، (۱۰) مولانا منیر الزماں صاحب، (۱۱)مولانا محمد سجاد صاحب، (۱۲) مولانا رکن الدین صاحب دانا، (۱۳) مولانا خدا بخش صاحب، (۱۴) مولوی پیر تراب صاحب، (۱۵) مولانا عبد اللہ صاحب، (۱۶) مولانا محمد صادق صاحب، (۱۷) مولانا ثناء اللہ صاحب، (۱۸) مولانا سید داؤد صاحب، (۱۹) مولانا محمد ابراہیم صاحب، (۲۰) مولانا عبد اللہ صاحب، (۲۱) مولانا عبدالمنعم صاحب، (۲۲) مولانا سیف الدین صاحب، (۲۳) حکیم ابو یوسف اصفہانی صاحب۔
جمعیۃ علماء ہند کے پہلے دن، پہلی میٹنگ، پہلے اجلاس اور پہلی مجلس منتظمہ کی تفیصلات آ پ نے مطالعہ کرلیا، آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں، اس کے اب تک کی دو اعلیٰ قیادت صدور و نظما کی فہرست پر:
صدور 
(۱) حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب ؒ (پہلے عارضی صدر۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹)
(۲) شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندؒ (پہلے مستقل صدر۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹، تا ۲۰؍ نومبر ۱۹۲۰)
(۳) حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب ۔ (۷؍ ستمبر ۱۹۲۱، تا ۷؍ جون ۱۹۴۰ء)
(۴) شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ (جون ۱۹۴۰)
(۵)حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ (۱۹۵۷)
(۶) حضرت مولانا سید فخر الدین صاحبؒ (۱۹۵۹)
(۷) حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب ؒ (عبوری صدر)(۱۹۷۲)
(۸) حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ (اگست ۱۹۷۳)
(۹) حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب (۲۰۰۶)
(۱۰) حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب (۶؍ مارچ۲۰۰۸، تا حال)
نظما
(۱) حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ (پہلے عارضی ناظم۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ء)
(۲) حضرت مولانا احمد سعید صاحب ؒ (پہلے مستقل ناظم عمومی، نومبر ۱۹۲۰)
(۳) حضرت مولانا سجاد بہاری صاحبؒ (جولائی ۱۹۴۰ء )
(۴) حضرت مولانا حفظ الرحمان صاحبؒ (مارچ ۱۹۴۲)
(۵)حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒ (اگست ۱۹۶۲)
(۶) حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحبؒ (جون ۱۹۶۳ء)
(۷) حضرت مولانا سید احمد ہاشمی صاحبؒ (اگست ۱۹۷۳ء)
(۸) حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب (۱۹۸۱)
(۹) حضرت مفتی عبد الرزاق صاحب (۱۹۹۱)
(۱۰) حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب (اپریل ۱۹۹۵)
(۱۱) حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب (۲۰۰۲)
(۱۲) حضرت مولانا حکیم الدین قاسمی صاحب (۹؍ مئی۲۰۰۸)
(۱۳) حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب (۲۰۱۱ء تاحال) 
اس فہرست سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند کی قیادت ہمیشہ وقت کی بزرگ اور معتبر شخصیات کی ہاتھوں میں رہی ہے، جنھوں نے اپنی ایمانی فراست اور سیاسی بصیرت سے ہمیشہ مسلمانوں کے لیے تعمیری اور مثبت کارنامے انجام دیے ہیں ، جو تاریخ عالم پر ثبت ہے۔ 
جمعیۃ علماء ہند کی خدمات کے جلی عنوانات
آج بتاریخ ۲۳؍ نومبر ۲۰۱۸ء اس جماعت کی تشکیل کو ننانوے سال پورے ہورہے ہیں ، اگر اس قدیم سالہ جماعت کی خدمات کو تفصیلی طورپر شمار کرایا جائے ، تو یہ اب ناممکن ہے ۔ ناممکن اس لیے نہیں ہے کہ کوئی لکھنے والا نہیں ہے؛ بلکہ ماضی میں جمعیۃ کی خدمات کا جتنا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے، اس سے کہیں زیادہ خدمات وہ ہیں جنھیں کبھی لکھا ہی نہیں گیا ہے۔ اور نہ لکھنے کی ایک لمبی کہانی ہے ۔ مختصرا یہ عرض ہے کہ سید الملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کے بقول جمعیۃ علماء ہند پر انگریزجاسوسوں کی گہری نظر رہتی تھی ، اس لیے جو فیصلے اور لائحۂ عمل طے کیے جاتے تھے ، وہ لکھنے کے بجائے زبانی ہوتے تھے اور یہ زبانی فیصلے بھی کوڈ میں ہوا کرتے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ کا بڑا حصہ حیطۂ تحریر میں نہیں لایاجاسکا۔ اب موجودہ وقت میں ان کا ماخذ صرف اس زمانے سے وابستہ جمعیۃ علماء ہند کے خادمین اور مخدومین ہیں اور ان کے پاس بھی جو سرمایہ ملے گا، وہ زبانی روایتیں ہی ہوں گی اورویسے بھی اب ان کو زندوں میں تلاش کریں، تو ان کی تعداد آٹے میں نمککے برابر بھی نہیں ملے گی، اس لیے ہم پوری تفصیلات پیش کرنے سے عاجزی کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے؛تاہم جو خدمات تاریخ کے صفحات میں قید ہیں، اگر ہم ان کے صرف عنوانات کا جائزہ لیتے ہیں، تو وہ کچھ اس طرح ہیں:
(۱) ہندستان کی مکمل آزادی کے لیے بھرپور جدوجہد۔
(۲) تعلیمی اداروں کا قیام اور تمام مکاتب فکر کو ساتھ لے کر مکاتب کا نیٹ ورک پھیلانے کی کوششیں۔
(۳)جمہوری نظام حکومت میں برادران وطن کے ساتھ مل کر کام کرنے اور ان سے کام لینے کی حکمت عملی اپنانے پر زور۔
(۴)مسلمانوں کے شرعی مسائل میں کسی بھی طرح کی مداخلت کے خلاف انقلابی کوشش۔
(۵)مساجد، مدارس ، مکاتب، مقابر،خانقاہوں اور دیگر اسلامی اداروں کے تحفظات کے لیے لازوال جدوجہد۔
(۶) اردو کی بقا کے لیے مناسب اقدامات۔
(۷)مسلمانوں کی صلاح و اصلاح کے لیے اصلاح معاشرہ کے پروگرام۔
(۸)اوقاف کے تحفظ کی کوششیں۔
(۹)فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف سخت جدوجہد۔
(۱۰)مسلمانوں کی ملی شناخت کو مٹانے کی سازشوں کو ناکام بنانے کی بھرپور جدوجہد۔
(۱۱) دستور میں مسلمانوں کو ان کے دینی ، ملی، سیاسی اور تعلیمی حقوق سے محروم کرنے یا نقصان پہچانے کی غرض سے کی جانے والی ترمیموں کے خلاف سخت ایکشن۔ 
(۱۲) پاکستان کے نام سے مسلمانوں کو ایک الگ ملک دینے کی شدید مخالفت اور اس کے بجائے متحدہ قومیت کی وکالت۔
(۱۳) تقسیم ہند کے نتیجے میں آبادی کی تبدیلی کی ہولناک تباہی و بربادی اور فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کی انتھک جدوجہد اور مسلمانوں کو اس ملک میں عزت کے ساتھ رہنے کی حوصلہ افزائی۔
(۱۴) انخلاکنندگان کی جائیدادوں کے سلسلے میں جاری مبہم آرڈی ننس کی وجہ سے مسلمانوں کی جائیدادوں کو درپیش خطرہ اور کسٹوڈین کے من مانی کے خلاف جنگی جدوجہد۔
(۱۵) فرقہ پرست تخریبی طاقتیں اور ایڈمنسٹریشن کے ایک مخصوص طبقہ کا مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت حالات پیدا کردینے کے پیش نظر تمام سنجیدہ اور بااثر حضرات سے مل بیٹھ کر غورو فکر کرنے کی دعوت۔
(۱۶) جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی علی گڑھ کے اقلیتی کردار کی بحالی کی کوشش۔
(۱۷)فلسطین اور پوری دنیا میں انسانیت پرہورہے مظالم کے خلاف سخت احتجاج۔
(۱۸)اکابر کی خدمات سے نئی نسل کو روشناس کرانے کے لیے سیمنار اور پروگراموں کا انعقاد۔
(۱۹)حرمین شریفین کے تحفظ کی کوشش۔
(۲۰) حجاج کرام کی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش۔
(۲۱)ارتداتی سرگرمیوں پر روک لگانے کے لیے حالات کے تقاضے کے مطابق کمیٹیوں کی تشکیل اور عیسائی مشنریز کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے موثر اقدامات
(۲۲)توہین رسالت کے معاملے پر سخت ایکشن۔
(۲۳) مسلمانوں کے شرعی مسائل کے حل کے لیے مباحث فقہیہ اور امارت شرعیہ کا قیام۔
(۲۴)دہشت گردی مخالف کانفرنسوں کا انعقاد۔
(۲۵) قدرتی آفات اور فرقہ وارانہ فسادات میں اجڑے اور برباد ہوئے لوگوں کے لیے وسیع پیمانے پر ریلیف ورک اور باز آباکاری کی انتھک کوششیں۔
(۲۶)جیلوں میں بے قصور بند افراد کی رہائی کے لیے قانونی چارہ جوئی۔
(۲۷) عالم اسلام کے مسائل پر گہری نظر ۔
(۲۸) مسلمانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ۔
(۲۹) مسلمانوں کی ملی وحدت برقرار رکھنے کی کوشش۔
(۳۰) مسلمانوں اور برادران وطن کی سماجی اور اقتصادی خدمات۔
( ۳۱) علمی و اشاعتی کارنامے۔
(۳۲) حالات اور وقت کے تقاضے کے مد نظر کانفرنسوں اور جلسہ ہائے عام کا انعقاد۔
یہ وہ جلی عنوانات ہیں ، جن پر جمعیۃ علماء ہند نے اپنی خدمات سے ایک تاریخ رقم کی ہے۔اور جن سے آپ بہ خوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے لیے جمعیۃ علماء ہند کا وجود کیا حیثیت رکھتا ہے ۔ تاریخ کی شہادت کی روشنی میں یہ دعویٰ کرنا نہ مبالغہ آرائی ہوگی اور نہ ہی خلاف واقعہ حکایت کہ ماضی میں جس قسم کی سیاست ہوئی ہے اور حال میں جس قسم کی سیاست ہورہی ہے، اگر جمعیۃ نہ ہوتی، تو بھارتی مسلمانوں کے لیے یہ ملک برما سے بھی زیادہ بدتر ہوتا ۔ 
موجودہ حالات میں بھی جب کہ ہر طرف خوف و ہراس اور دہشت گردی ناچ رہی ہے، کچھ لوگ بھیڑ کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکر انسانیت کے چہرے کو نوچ رہے ہیں، اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات کو تنگ کرنے کی ہر گھڑی سازشیں ہورہی ہیں، جن سے ہمہ وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ مشترک قومی سماج میں نہ جانے کب ایک پڑوسی دوسرے کے لیے بھیڑیہ بن جائے اور انسان اپنے ہی بھائیوں کے خون کا پیاسا ہوجائے، ایسے حالات میں سیکولرازم اور جمہوریت کی فضا کو قائم رکھنا ،اکثریتی سماج میں اقلیت کی حفاظت کو یقینی بنانا ،ظلم و بربریت کے پہاڑ ٹوٹنے کے باوجود مایوسی سے بچائے رکھنااور حق داری کے دعویٰ کے ساتھ سر اٹھاکر جینے کاحوصلہ بخشنا ؛ یہ صرف اور صرف جمعیۃ علماء ہند کا کارنامہ ہے۔سردست حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری صدر جمعیۃ علماء ہند اور قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کی بصیرت افروز قیادت کے تلے جمعیۃ علماء ہند ، ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبانی کا فریضہ انجام دینے میں پیہم رواں دواں ہے۔