طلاق:لیگل ریفارم نہیں؛ سوشل ریفارم کی ضرورت ہے
شریعت کے مطابق بارہ مصالحتی مراحل سے گذرنے کے بعد ہی تین طلاق تک معاملہ پہنچتا ہے
محمد یاسین جہازی
9871552408پارلیمنٹ میں طلاق پر ہوئی حالیہ بحث برائے نتیجہ خیز قانون بنانے کے لیے اس تحریر میں مکمل ہدایت موجود ہے
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاسلام سے پہلے کے نکاح کے طریقے
دین فطرت آنے سے پہلے لوگوں میں پانچ قسم کے نکاح رائج تھے:
(۱) شرعی اسلامی طریقہ۔
(۲) نکاح ’ استبضاع‘ یعنی موجودہ نیوگ ۔
(۳) ایک عورت سے گروپ سیکس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچہ کا نسب مقرر کرنے کی مجلس منعقد کرکے۔
(۴)موجودہ دورکی طوائف کی طرح (بخاری، کتاب النکاح،باب من قال لا نکاح الا بولی)
(۵) متعہ۔ ( موجودہ دور کی لیونگ ان ریلیشن شپ کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے)
اسلام نے درج بالا تمام شرمناک طریقوں پر پابندی لگادی اور صرف پہلا طریقہ جائز و برقرار رکھا۔(بخاری، کتاب النکاح،باب نھی رسول اللہ ﷺ عن نکاح المتعۃ اخیرا)
اسلام سے پہلے طلاق
کچھمذاہب میں نکاح اٹوٹ بندھن ہوتا ہے، اس لیے جب ایک لڑکی کو دان میں دے کر اس کا کنیہ دان کردیا جاتا ہے، تو پھر اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔البتہ کچھ لوگوں میں طلاق رائج تھی۔تفسیر عثمانی میں ہے کہ
’’اسلام سے پہلے دستور تھا کہ دس بیس جتنی بار چاہتے، زوجہ کو طلاق دیتے، مگرعدت کے ختم ہونے سے پہلے رجعت کرلیتے۔ پھر جب چاہتے طلاق دیتے اوررجعت کرلیتے۔ اور اس صورت سے بعض شخص عورتوں کو اسی طرح بہت ستاتے ، اس واسطے یہ آیت اتری ۔۔۔ (البقرۃ،آیت نمبر: ۲۲۹)
اسلامی ہدایت
طلاق و عدت کے بارے میں اصولی ہدایت یہ ہے کہ مرد و عورت کے درمیان جو رشتہ قائم ہوگیا ہے، اسے ہمیشہ برقرار رکھے اور اس رشتہ محبت پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دے۔ لیکن اگر بتقاضائے بشریت ، یہ رشتہ نفرت و تلخی میں بدل جائے تو اس کی اصلاح کے لیے تین پروسیس ہیں:
پہلا پروسیس
(۱) سب سے پہلے ، میاں بیوی خود مل کر اپنے تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کریں اور آپس میں کچھ ٹرم اینڈ کنڈیشن طے کرکے رشتہ کو دوبارہ بحال کریں۔
دوسرا پروسیس
(۲) لیکن اگر یہ نہ ہوپائے اور دونوں کسی مشترک اور متحدہ پوائنٹ پر جمع نہ ہوسکیں، تو پھر لڑکے کے لیے تین صورتیں ہیں:
(۱) سب سے پہلے عورت کو سمجھائے بجھائے۔ اگر اس سے معاملہ ٹھیک ہوجاتا ہے تو بہت بہتر ہے۔ اگر نہیں ہوتا ہے تو پھر دوسرا طریقہ یہ اختیار کرے کہ
(۲) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ یہ عورت کے لیے انتہائی دشوار مرحلہ ہوتا ہے اور بالعموم عورتیں نافرمانی سے باز آجاتی ہیں، لیکن اگر معاملہ اس سے بھی زیادہ بگڑ چکا ہے، تو تیسرا طریقہ یہ ہے کہ
(۳) عورت کی ہلکی سرزنش کرے۔ یہ اصلاح کا آخری حربہ ہے ۔ اگر سرزنش کے خوف سے معاملہ ٹھیک ٹھاک ہوجاتا ہے، تو بہت اچھا ہے، لیکن معاملہ یہاں بھی نہیں سدھرتا ہے تو پھر آگے دو صورتیں ہیں:
(الف) یا تو یہ معاملہ زوجین کے بجائے ان کے سرپرست حضرات حل کریں اور صلح کی مکمل کوشش کریں۔ اگر سرپرستوں سے معاملہ حل ہوجاتا ہے اور میاں بیوی کے درمیان تعلقات استوار ہوجاتے ہیں، تو بہت بہتر ہے۔ لیکن اگر سرپرستوں سے بھی معاملہ حل نہیں ہوتا تو
(ب) دوسری صورت یہ ہے کہ مرد عورت دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم مقرر کردیا جائے۔ اور ان دونوں حکموں کو فیصلہ کا مکمل اختیار دے دیا جائے۔
قرآن کا اعلان ہے کہ اگریہ حکم زوجین کے درمیان اصلاح کی کوشش کریں گے، تو اللہ ان کی پرخلوص نیت اور اچھی کوشش سے ضرور موافقت پیدا کردیں گے۔(النساء، آیت ۳۵)
تیسرا پروسیس
(۳) اگر بالفرض درج بالا چھ شکلیں(۱۔ زوجین کی آپسی مصالحت۔ ۲۔ عورت کو نصیحت۔ ۳۔عورت کے بستر سے علاحدگی۔ ۴۔ عورت کی ہلکی سرزنش۔ ۵۔ سرپرستوں کی مصالحت۔ ۶۔ حکمین کی مصالحت) بھی کار گر نہیں ہوتی ہیں۔ تو یہاں سے تیسرا پروسیس شروع ہوتا ہے ۔ اس کی دو شکلیں ہیں:
(الف)ایک شکل تو یہ ہے کہ اگر یہ ساری پریشانی شوہر کے لیے بیوی کی طرف سے ہے، تو شوہر بیوی کی اصلاح حال کے لیے اس وقت ایک طلاق دے جب وہ پاکی کی حالت میں ہو اور اس پاکی کی حالت میں اس سے ہمبستری نہ کی ہو۔ اور تین مہینے کے اندر اندر بیوی کے سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ میری وجہ سے میرا شوہر پریشان ہے ، مجھے اپنی عادتوں سے باز آجانا چاہیے۔ یا شوہر کو یہ احساس ہوجائے کہ شاید غلطی ہماری ہی ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، تو عدت کے اندر رجوع کرلے اور ایک خوشگوار محبت بھری زندگی گذارے۔
پھر کبھی پانچ دس سال گذرنے کے بعد دونوں میں اختلافات ہوتے ہیں ، تو پھراسی طرح درج بالا چھ طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے صلح و مصالحت کی کوشش کی جائے گی ۔ لیکن بالفرض ان سے معاملہ ٹھیک نہیں ہوتا ہے ، تو پھر شوہر اپنی بیوی کو اس پاکی کی حالت میں ، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے، ایک طلاق دے گا۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے گا۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں دوبارہ مصالحت کرکے محبت آمیز زندگی کی شروعات کرنی چاہیے، تو عدت کے اندر شوہر رجوع کرلے ۔ اور محبت بھری زندگی کی نئی شروعات کرے۔
زندگی یوں ہی ہنسی خوشی گذرتے گذرتے بالفرض اگر پھر اختلاف ہوجاتا ہے ، تو اصلاح حال کے لیے پھر درج بالا چھ صورتوں کو اپنایا جائے گا۔ مان لیجیے کہ اگر ان سے بھی مصالحت نہیں ہوپاتی ہے اور مصالحت کے لیے کوئی راہ نہیں بچتی،تو چوں کہ اس سے پہلے دو دو بار یہ سارے طریقے ناکام ہوچکے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ مصالحت کی بارہ کوششیں ناکام ہوچکی ہیں،اس لیے فطری طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ شاید ان دونوں کی زندگی ایک ساتھ نہیں گذر سکتی، اس لییایسی زندگی کو الجھنوں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے لڑکا تیسری طلاق دیدے۔
تین طلاق پورے ہونے کے بعد نہ اب لڑکے کو اختیار رہے گا کہ عدت کے اندر پھر رجوع کرکے عورت کو زندگی کو جہنم بنائے ۔ اور نہ لڑکی کے لیے گنجائش ہے کہ جس مرد نے اس کو دو دو مرتبہ اسے زندگی سے نکالنے کی کوشش کی، پھر تہ بارہ اسی کی زندگی کی زینت بنے ۔ اب لڑکا بھی کسی دوسری عورت سے شادی کرکے اپنی زندگی کی دوسری شروعات کرے اور لڑکی بھی کسی دوسرے شریک سفر کو اپنا ہم سفر بناکر خوشگوار زندگی گذارے۔
(ب)دوسری شکل یہ ہے کہ اگر معاملہ الٹا ہو، یعنی شوہر بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن بیوی ہی شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، تو ایسا نہیں ہے کہ عورت مرد کی زندگی سے بالکل بھی آزاد نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خلع کی پیشکش کرے، یعنی شوہر سے کچھ مال کے عوض میں طلاق طلب کرے۔ اگر شوہر منظور کرلے گا، تو بذریعہ خلع طلاق واقع ہوجائے گی۔ (البقرہ، ۲۲۰)
حلالہ کی حقیقت
تیسری طلاق دینے کے بعد مرد کو تو بالکل اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لائے، کیوں کہ اگر وہ کسی اور کی بیوی بن چکی ہے، پھرتو مردبالکل نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگرطلاق کے بعد کسی کی زوجیت میں نہیں گئی ہے، تو بھی مرد نکاح نہیں کرسکتا، کیوں جس مرد کو قانون فطرت نے طلاق کے مرحلے سے پہلے پہلے اٹھارہ مرتبہ موقع دیا اور اس کے باوجود بھی اس عورت کی قدر نہیں کی، تو اب تین طلاق دینے کے بعد یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مرد ہی اس عورت کے قابل نہیں ہے۔
لیکن اگر عورت ہی کی یہ خواہش ہے کہ چلو جیسا بھی تھا، ہم نے زندگی کی شروعات اس کے ساتھ کی تھی ، تو اختتام بھی اسی کے ساتھ کریں گے، تو صرف عورت کے لیے شریعت نے یہ گنجائش رکھی ہے کہ تم پہلے کسی دوسرے شخص سے شادی کرو، پھر اس کے ساتھ زندگی اتنی دوبھر ہوجائے کہ مذکورہ بالا تینوں پروسیس سے گذرنے پر مجبور ہوکر تیسری طلاق تک نوبت آجائے ۔ اور تیسری طلاق دیدے، تو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہو۔ اسی کو شریعت میں حلالہ کہاجاتا ہے۔ تو گویا حلالہ کوئی نکاح نہیں، بلکہ معاملہ کو سلجھانے کے ایک پروسیس کا نام ہے، جو صرف اور صرف عورت کا حق و اختیار ہے۔ (البقرہ ۲۳۰)
صحیح راستہ کیا ہے
آپ نے اسلام سے پہلے اور دیگر مذاہب کے نکاح و طلاق دونوں کا مطالعہ کرلیا۔ اور پھر اسلام نے ان میں کیا کیا اصلاحات کیں، وہ بھی آپ نے پڑھ لیا ، اور یہ بھی آپ نے پڑھ لیا کہ اسلام میں میاں بیوی کے درمیان تفریق تک پہنچنے تک کے لیے تقریبا بارہ مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، پھر تینوں طلاق کی نوبت آتی ہے۔اگر اسلام کے بتائے اس طریقے کے مطابق طلاق دی جائے تو راقم کا عندیہ ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی طلاق واقع ہوگی۔ کیوں کہ ناچیز کی معلومات کے مطابق آج تک کوئی ایک کیس بھی دیکھنے سننے یا پڑھنے کو نہیں ملا کہ جس نے شریعت کے صحیح طریقے کے مطابق طلاق دی ہو اور پھر وہ تفریق کے مرحلے تک پہنچ گیاہو؛ اس کی وجہ یہی ہے کہ تفریق کا یہ اسلامک لیگل سسٹم اتنا فطری اور انسانی نفسیات سے ہم آہنگ ہے کہ یہاں تک مرد و عورت اسی وقت پہنچ سکتے ہیں کہ جب دونوں کی مشترکہ زندگی ناقابل برداشت ہوجائے۔ برداشت اور مصالحت کی ذرا بھی گنجائش باقی رہے گی تو تینوں طلاق کی نوبت نہیں آسکتی۔
لیکن۔۔۔ چوں کہ ہمارا طریقہ شرعی طریقہ سے مختلف ہوگیا ہے، اس لیے آج معاشرہ میں دھڑا دھڑ طلاقیں ہور ہیں اور مرد و عورت دونوں کی زندگیاں جہنم کدہ بن رہی ہیں، ایسی صورت حال میں کسی لیگل ریفارم کی نہیں، کیوں کہ لیگل ریفارم کی جتنی ضرورت تھی، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام کرچکا ہے؛ بلکہ سوشل کی ریفارم کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر زندگی عذاب بن جائے تو اسلام اسے کس طرح حل کرنے کا فارمولہ پیش کرتا ہے ،اس فارمولہ پر عمل کیا جائے، تبھی عورتوں کے ساتھ مکمل انصاف ہوگا۔
لیکن اس کے بجائے اگر لیگل ریفارم کی کوشش کی جائے گی تو یہ فطری قانون سے ٹکرانے کے مترادف ہوگی، جس میں کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکتی۔