6 Nov 2018

Dunia se Raten Ghaeb Ho rahi hin

دنیا سے راتیں غائب ہورہی ہیں!!
مختلف قسم کی کثافتوں کی وجہ سے عالمی ماحولیات کو درپیش خطرات ایک چیلنج بنتا جارہا ہے 
محمد یاسین جہازی
9871552408

آج دہلی سمیت متعدد بڑے شہر و اطراف زہریلی ہوا کی زد میں ہے۔ ایک طرف آسمان میں (اسموگ)دھنواں کی چادریں تنی ہوئی ہیں،تو وہی دوسری طرف ہمہ وقت دوڑتی پھرتی گاڑیوں اور سامان تعیش فراہم کرنے والے مختلف قسم کے کارخانوں سے خارج ہونے والے مضر مواد اور فضلات نے طبعی آب وہوا، فطری حیاتیاتی نظاموں اور عوامل کو بری طرح متاثر کردیا ہے،گویا زمین اور فضا دونوں خطرناک حد تک پولیوٹیڈ ہوچکے ہیں، جس سے سانس، دمہ اور آنکھ میں جلن جیسی بیماریاں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں، اور گلابی پھیپھڑے دھیرے دھیرے کالے ہوتے جارہے ہیں۔ 
ہوا میں انسان کے ایک بال کے تین فی صد کے برابر(Particulate Matter) یعنی (P.M.2.5) ہوتا ہے، جس کی پیمائش کو (Air quality index) ایر کوالٹی انڈیکس کہاجاتا ہے۔ اگر (P.M.2.5) زیرو سے سو تک ہے ، تو اسے ٹھیک کہاجاتا ہے۔ ایک سو ایک سے دو سو تک نارمل سمجھا جاتا ہے، اس سے زیادہ تین سو تک خراب کے زمرہ میں آتا ہے، چار سو تک پہنچ جائے تو بہت خراب ہوتاہے، لیکن جب چار سوسے اوپر ہوجائے تو وہ خطرناک سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ 
آج کل دہلی و اطراف کے بعض مقامات پر (P.M.2.5) سات سو سے آٹھ سوتک درج کیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق زہریلی ہوا کی وجہ سے دہلی گیس چیمبر میں تبدیل ہوچکی ہے، یہاں سانس لینا اتنا ہی نقصان دہ ثابت ہورہا ہے، جتنا ایک دن میں بیس سگریٹ پینے کا نقصان ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں فضائی کثافت کی وجہ سے ایک سال میں دس لاکھ لوگ موت کے منھ میں جارہے ہیں،اس سے آپ بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں کہ دہلی و اطراف کی آب و ہوا کس قدر کثافت سے لبریز ہوچکی ہے۔ یہ عام دنوں کی بات ہے؛ لیکن تصور کیجیے کہ آنے والی اس دیوالی کو دہلی کی فضا کا کیا حال ہوگا، جب کہ ہر گھر میں اور ہر گلی چوراہے پر بارود، پٹاخے اور دھنواں خارج کرنے والے تفریحی سامان جلائے جائیں گے۔ پچھلے سال کا ریکارڈ دیکھیں تو آئی ٹی او پر نصب فضائی کثافت کو ناپنے والی مشین ، پیمائش کی آخری حد پر پہنچ کر جام ہوگئی تھی۔ اور اتفاق سے راقم اسی رات کو دہلی واپس آرہا تھا تو کھلے علاقے کا یہ عالم تھا کہ دھنواں کی وجہ سے کار کے باہر کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی اور سڑک کی کشادگی کے باوجود پندرہ بیس کی رفتار سے ہم آگے نہیں بڑھ پا رہے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء کو سپریم کورٹ کے جج اے کے سیکری کی صدارت والی بنچ نے پٹاخوں میں مضر کیمیکل کا استعمال نہ کرنے، زیادہ شدت اور زیادہ آلودگی پھیلانے والے پٹاخوں پر پابندی کے ساتھ دیوالی پر صرف دو گھنٹے پٹاخے جلانے اور کرسمس اور نئے سال کیجشن پر 11 بجکر 55 منٹ سے رات 12 بجکر 30،منٹ تک ہی پٹاخے چھوڑے جانے کی اجازت دی ہے۔
فضائی آلودگی کے علاوہ ’’روشنی کی آلودگی ‘‘ بھی گلوبل کے لیے چیلنج بنتی جارہی ہے۔ آج میٹرو لائف کی وجہ سے راتوں میں ضرورت سے زائد روشنی کا اخراج کیا جارہا ہے۔ شہروں میں رات بھر جلتی اسٹریٹ لائٹس، شادی اور دیگر فنکشن کی آرائش و زیبائش میں بے تحاشا قمقموں کا استعمال اور فلک بوس عمارتوں کو جگمگ جگمگ دکھانے کے لیے بڑے بڑے بھیپر کی تیز کرنیں نیچرل لائف کے لیے خطرہ بن رہی ہیں، جس سے نہ صرف انسان؛ بلکہ چرند پرند اور دیگر مخلوقات بھی بری طرح متاثر ہور ہی ہیں۔ اندھیرے میں سکون کی نیند کا محتاج انسان،رات میں زندگی کے لیے جدوجہد کرنے والے چمگادڑ ،تاریکی میں پھلنے پھولنے والے پیڑ پودے اور سمندری مخلوقات بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ کروڑوں ٹن تیز روشنیوں کے بے جا اور غیرضروری استعمال کے باعث دنیا سے راتیں ناپید ہوتی جارہی ہیں ، جس سے دنیا تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
بھارت میں دیوالی کے موقع پر ۔ جو مہابھارت کے مطابق پانڈو ۱۲؍ سال بن باس اور ایک سال اگیات واس سے واپس ہونے پر اظہار خوشی کے لیے دیپ جلائے تھے۔ گھر گھر، کونے کونے اور گلی محلوں میں جگہ جگہ تیل کے دیے اور موم بتیوں کے فلیتے بڑی تعداد میں جلائے جاتے ہیں، جس سے اٹھنے والے دھنواں اور ضرورت سے زائد روشنیاں ماحولیاتی آلودگیوں میں اضافہ کی باعث بنتی ہیں۔ راقم کسی کے مذہب کے خلاف نہیں ہے، بالخصوص تاریکی پر روشنی کی جیت کے طور پر منائے جانے والی اس تہوار’دیوالی‘ کے تو بالکل خلاف نہیں ہے، لیکن ہم اپنے جذبات کے اظہار میں جانے یا انجانے میں ماحولیاتی کثافت پیدا کرنے والی جو حرکتیں کر جاتے ہیں، جس سے نہ صرف انسان؛ بلکہ کائنات کی دیگر مخلوقات بھی تکلیف محسوس کرتی ہیں، اس سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی شدید ضرورت ہے، تاکہ یہ دنیا جان دار اور غیر جان دار دونوں مخلوقوں کے لیے سانس لینے اور زندہ رہنے کی پرامن جگہ رہ سکے۔ 

3 Nov 2018

Najasate Haqeeqia se paki hasil karne ka bayan

نجاست حقیقیہ سے پاکی حاصل کرنے کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط  ( 32) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
نجاست حکمیہ تو صرف پانی سے پاک ہوتی ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی نہ ملنے پر تیمم کا حکم دیا ہے ؛ لیکن نجاست حقیقیہ پانی سے بھی پاک ہوتی ہے اور ان چیزوں سے بھی پاک ہوتی ہے جو بہنے والی نجاست کو دور کرنے والی ہوں، جیسے کہ سرکہ، عرق گلاب، درخت اور پھل پانی وغیرہ۔ تیل، گھی، دودھ سے پاک نہیں ہوتی ہے ، اس لیے کہ وہ بہنے والی تو ہے، مگر نجاست دور کرنے والی نہیں ہے۔ 
عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت: ماکانت لاحدانا الا ثوب واحد تحیض فیہ فاذا اصابہ شئی من دم قالت: (ای فعلت) بریقھا فمصعتعہ بظفرھا و یرویٰ فقصعتہ۔ (رواہ البخاری فی باب ھل تصلی المرأۃ فی ثوب حاضت فیہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہم میں سے بعض عورتیں ایسی ہوتیں ، جس کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہوتا ، جس میں اس کو حیض آتا، پس جب اس کپڑے میں خون لگ جاتا تو اس میں تھوک ڈالتی اور اس کو ناخن سے ملتی اور صاف کرتی ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نجاست تھوک سے بھی پاک ہوتی ہے ، حالاں کہ تھوک پانی نہیں ہے ، اسی لیے فقہا نے فرمایا: ہر بہنے اور نجاست دور کرنے والی چیز سے نجاست حقیقیہ دور ہوسکتی ہے۔ 
اگر نجاست حقیقیہ مرئیہ ہو، یعنی دیکھنے میں آتی ہو، تو اس کو اتنا دھوئے کہ نجاست دور ہوجائے ، خواہ ایک ہی مرتبہ میں دور ہو یا دوچار مرتبہ میں ۔ جب نجاست دور ہوگئی تو وہ چیز پاک ہوگئی ۔ 
اگر نجاست کا داغ لگ جائے تو داغ کا دور کرنا ضروری نہیں ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت خولہ نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! اگر خون کا اثر نہ جائے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم کو پانی سے دھو دینا کافی ہے ، اس کا اثر رہ جائے تو اس سے تجھ کو کوئی نقصان نہیں ہے ۔ (ترمذی) 
اگر نجاست غیر مرئیہ ہو یعنی دیکھنے میں نہیں آتی ہو جیسے کہ پیشاب تو اس کے پاک کرنے کی صورت یہ ہے کہ اس کو تین مرتبہ دھوئے اور ہر مرتبہ نچوڑے۔ اور اخیر مرتبہ میں پوری طاقت سے نچوڑے۔ اگر ایسی چیز ہو جو نچوڑی نہیں جاسکتی ہے تو دھوکر اس کو چھوڑ دے ، یہاں تک کہ قطرہ ٹپکنا بند ہوجائے ، پھر دھوئے اور چھوڑے اسی طرح تین مرتبہ کرے، وہ چیز پاک ہوجائے گی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اذا استیقظ احدکم من نومہ فلایغمس یدہ فی الاناء حتّٰی یغسلھا ثلاثا فانہ لایدری این باتت یدہ۔ (رواہ مسلم) 
جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوتو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے یہاں تک کہ اس کو تین مرتبہ دھو ڈالے، اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ رات اس کے ہاتھ نے کہاں گذاری۔ 
عرب لوگ عموما پاخانہ کے بعد ڈھیلے سے صفائی پر اکتفا کرتے تھے اور اسی حالت میں سوتے تھے ، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ممکن ہے کہ بے خبری کی حالت میں رات کو مقعد کھجلایا ہو اور ہاتھ میں نجاست لگ گئی ہو، لہذا پانی میں ہاتھ نہ ڈالے، پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھولے ، تب پانی میں ہاتھ ڈالے، تاکہ پانی نجس نہ ہوجائے۔ معلوم ہوا نجاست کے احتمال کو دور کرنے کے لیے تین مرتبہ کا دھونا کافی ہے ۔ جس برتن میں کتے نے منھ ڈالا، وہ برتن بھی تین مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاتا ہے ، چنانچہ حضرت عطا کی روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 
اذا ولغ الکلب فی الاناء فاھرقہ ثم اغسلہ ثلاث مرات۔ (رواہ الدار قطنی موقوفا ، و فی نصب الرایۃ قال الشیخ تقی الدین فی الامام و ھذا سند صحیح) 
یہی ابو ہریرہؓ ہیں جن کی روایت ہے کہ جس برتن میں کتا منھ ڈالے تو اس کو سات مرتبہ دھوئے اور ایک مرتبہ مٹی سے مانجھے اور یہی فرماتے ہیں کہ اس کو تین مرتبہ دھوئے ۔
معلوم ہوتا ہے کہ سات مرتبہ دھونے کا حکم اس وقت تھا جب کہ کتے کے بارے میں آپ ﷺ کا سخت حکم تھا۔ 
اگر موزہ جوتا وغیرہ چمڑے کی کوئی چیز ہو اور اس پر نجاست دلدارلگ جائے تو اس کو زمین پر رگڑنے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
اذا وطی احدکم بنعلہ الاذیٰ فان التراب لہ طھور۔ (رواہ ابوداؤد باسناد صحیح)
جب تم میں سے کوئی اپنے جوتے سے گندی چیز کو روندے تو اس کو مٹی پاک کرنے والی ہے ۔ 
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
فان رأی فی نعلہ اذیٰ او قذرا فلیمسہ و لیصل فیھما۔ (ابو داؤد)
پس اگر دیکھے اپنے جوتے میں نجاست تو اس کو پوچھ ڈالے اور ان دونوں جوتوں میں نماز پڑھے۔ 
لیکن اگر نجاست دلدار نہ ہوجیسے پیشاب ، تو پھر جوتے وغیرہ سے پوچھنے سے پاک نہ ہوں گے؛ بلکہ اس کو دھونا ہوگا، کیوں کہ وہ پوچھنے میں نہیں آئے گا۔
اگر کپڑے وغیرہ میں منی لگ جائے اور وہ اتنی غلیظ ہو کہ سوکھنے پر کھرچنے اور رگڑنے سے دور ہوسکتی ہے تو خشک منی بغیر دھوئے صرف کھرچنے اور رگڑنے سے پاک ہوجائے گی۔ لیکن اگر منی پتلی ہو اور سوکھنے پر کھرچنے سے دور نہیں ہوتی ہو، یا منی تر ہو تو ان دونوں صورتوں میں دھونا پڑے گا۔ بغیر دھوئے کپڑا وغیرہ پاک نہ ہوگا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ 
کنت افرک المنی من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ اذا کان یابسا واغسلہ اذا کان رطبا۔ (رواہ الدار قطنی و البیھقی والطحاوی و ابو عوانۃ فی صحیحہ، و قال النیموی اسنادہ صحیح ) 
میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی کو رگڑتی تھی جب کہ خشک ہوتی اور میں دھوتی تھی جب کہ تر ہوتی ۔ 
اگر نجاست ایسی چیز کو لگے جو ٹھوس ہو اورنجاست کا اثر اندر نہ پہنچتا ہو جیسے چھری، چاقو وغیرہ اور کھردری اور منقش نہ ہو، پوچھنے سے صاف ہوتی ہو تو زمین پر رگڑنے یا کپڑے وغیرہ سے پوچھنے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ 
اگر کھردری یا منقش ہے پوچھنے پر گہری جگہ سے نجاست نہیں نکل سکتی ہے تو اس صورت میں دھونے ہی سے پاک ہوگا۔ 
نجس زمین اور زمین پر لگے ہوئے پودے اور درخت، بچھی ہوئی اینٹیں بغیر دھوئے ہوئے محض سوکھنے اور نجاست کے اثر دور ہوجانے سے پاک ہوجاتی ہیں۔ 
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں رات گذارا کرتا تھا اور میں جوان بے شادی شدہ تھا ، کتے مسجد میں پیشاب کرتے اور آتے جاتے تھے اور اس میں سے کوئی چیز دھوئی نہیں جاتی تھی۔ (ابو داؤد) امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ زمین سوکھنے سے پاک ہوجاتی ہے۔ 
کٹی ہوئی گھاس، یا درخت یا پودے، اکھڑی ہوئی اینٹیں وغیرہ بغیر دھوئے پاک نہ ہوں گی، اس کو زمین کا حکم نہیں دیا جاسکتا ، اس لیے کہ یہ زمین سے الگ ہیں۔ 
سور کے سوا باقی تمام مردار جانوروں کی کھال جو دباغت قبول کرتی ہے ، دباغت دینے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
ایما اھاب دبغ فقد طھر۔ (رواہ الاربعۃ) 
جونسی کچی کھال پکائی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے ۔
یعنی ہر قسم کے جانور کی کچی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے۔ کھال سے نجاست دور کرنے کو دباغت کہتے ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
استمتعوا بجلود المیتۃ اذا ھی دبغت ترابا کان او رمادا او ملحا او ماکان بعد ان یظھر صلاحہ۔ (رواہ الدار قطنی)
فائدہ اٹھاؤ مردار کی کھال سے جب کہ وہ دباغت دی جائے مٹی سے یا راکھ سے یا نمک سے یا کسی اور چیز سے ، اس کے بعد اس کا ٹھیک ہونا ظاہر ہوجائے۔
یعنی اس کی بدبو دور ہوجائے اور وہ قابل استعمال ہوجائے ، خواہ صرف دھوپ میں سکھانے سے ہو یا مٹی ڈالنے یا راکھ ڈالنے سے ہو یا نمک سے، یا مسالہ کے ذریعہ سے ہو۔ 
مسلم کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
اذا دبغ الاھاب فقد طھر۔ 
جب کچی کھال دباغت دی جائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے ۔ 
ابو داؤد میں لکھا ہے کہ نضر بن شمیل نے فرمایا: اھاب اسی وقت تک بولتے ہیں جب تک دباغت نہ دیا گیا ہو۔ جب دباغت دیا جائے تو اس کو اھاب نہیں بولتے ، اس کو شَنَّ اور قِرْبہ بولتے ہیں۔ 
مردار کی کچی کھال اور اس کا پٹھا نجس ہے ، اس سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے۔ حضرت عبد اللہ بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ 
ان لا تنتفعوا من المیتۃ باھاب و لاعصب۔ (رواہ الترمذی وابو داؤد والنسائی وابن ماجۃ والطحاوی) 
یعنی مردار کی کچی کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔ 
امام بیہقی نے فرمایا کہ اس میں دلیل ہے کہ مردار کی کھال سے دباغت سے پہلے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے۔ ؛ لیکن دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا درست ہے ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی ایک باندی کو صدقہ میں ایک بکری ملی ، پس وہ مرگئی، اس طرف سے رسول اللہ ﷺ کا گذر ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
ھلا اخذتم باھابھا فدبغتموہ فانتفعتم بہ، فقالوا انھا میتۃ فقال انما حرم اکلھا۔ (بخاری و مسلم) 
تم نے اس کی کھال کیوں نہ چھڑالی، پھر تم اس کو دباغت دیتے اور اس سے نفع اٹھاتے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : وہ تو مری ہوئی ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: مرے ہوئے جانور کا صرف کھانا حرام ہے۔ 
یعنی گوشت تو نجس اور حرام ہے ، لیکن اس کی کھال دباغت کے بعد استعمال کرنا درست ہے۔ 
نجاست جل کر راکھ ہونے سے پاک ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح حقیقت بدلنے سے پاک ہوجاتی ہے ، جیسے شراب سرکہ بن جائے ، نمک میں گر کر چوہا وغیرہ نمک بن جائے۔

2 Nov 2018

Kia Nikah Mahaz Ek Samaji Moahada hi?

کیا نکاح محض ایک سماجی معاہدہ ہے؟
محمد یاسین جہازی( جہاز قطعہ، گڈا)
واٹس ایپ:9871152408



مغربی تہذیب و ثقافت کے ذہنی و عملی مریض مساوات انسانی کے تصور سے اس قدر خیرہ چشمی میں مبتلا ہیں کہ جنس کے قدرتی اور طبعی فرق کی نزاکت کو ملحوظ رکھے بغیر ہر چیز میں مساوات کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ نظریہ انھیں اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ نکاح سماجیزندگی گذارنے کا صرف آپسی سمجھوتہ ہے، جس کا حقدار تنہا شوہر کو بنانا سماج دشمنی اور عورت کی آزادی کے خلاف ہے۔
حقیقیت یہ ہے کہ اسلام نے مرد و عورت کے درمیان مساوات انسانی اور انسانی عظمت و تکریم کی جس قدر رعایت کی ہے، اس قدر مساوات و توازن نہ تو دوسرے کسی مذاہب میں موجود ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی قانون میں پایا جاتا ہے۔ 
دوسرے مذاہب و معاشرے میں نکاح کا جو بھی تصور ہو ، لیکن اسلام کے نقطہ نظر سے نکاح اور سمجھوتہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ فرق کیا ہے، ذیل کی سطروں میں پیش خدمت ہے: 
(۱) نوعی فرق: سمجھوتہ ایک خالص تمدنی اور معاشرتی معاملہ ہے، جب کہ نکاح ایک خالص دینی معاملہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ 
اذا تزوج العبد فقد کمُل نصف الدین فلیتق اللّٰہ فی نصف الباقی۔ (شعب الایمان، فصل فی الترغیب فی النکاح)
(۲) مقصدی فرق: سمجھوتوں کے بنیادی مقاصد معاشی مفادات ہوتے ہیں، جب کہ نکاح کا مقصد دینی و اخروی مفادات ہیں۔ 
تنکح المرأۃ لاربع: لمالھا و لحسبھا و لجمالھا و لدینھا، فاظفر بذات الدین۔ (بخاری، کتاب النکاح،باب الاکفاء فی الدین)
(۳) سزا کا فرق: سمجھوتوں پر عمل نہ کرنے پر وعید نہیں ہے ، جب کہ بوقت ضرورت نکاح نہ کرنے پر وعید آئی ہے۔ 
النکاح من سنتی، فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی۔ (ابن ماجہ، کتاب النکاح،باب ماجاء فی فضل النکاح)
(۴) اخلاقی فرق: سمجھوتوں پر عمل محض مطلب بر آری اور فریقین اپنا وقار برقرار رکھنے کے لیے ہوتا ہے، جب کہ نکاح مدارات و موانست اور الفت و محبت پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ 
من اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا و الطفھم باھلہ۔ (المستدرک علیٰ الصحیحین، کتاب الایمان، باب من اکمل الایمان۔۔۔)
(۵)طرز عمل کا فرق: سمجھوتوں میں ساری تگ و دو محض مفادات حاصل کرنے لیے ہوتی ہے، جب کہ نکاح کی ساری کوششیں آپس میں عشق و شیفتگی پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں پیار سے ایک لقمہ بھی ڈالتا ہے تو اس کا ثواب ملتا ہے۔ 
و جعل بینکم مودۃ و رحمۃ۔ (الروم، ۲۱)
وانک لن تنفق نفقۃ تبتغی بھا وھہ اللّہ الا اجرت بھا حتیٰ ما تجعل فی فی امرأتک۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب رثاء النبی ﷺ سعد ابن خولۃ)
(۶) مفادات کا فرق: سمجھوتوں میں صرف مادی مفادات پیش نظر ہوتے ہیں، جب کہ نکاح تصفیہ قلب اور اصلاح باطن کے لیے کیا جاتا ہے۔
و من آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنو الیھا۔ (الروم، ۲۱)
(۷)ہیئت کا فرق: سمجھوتوں میں کوئی بھی فیصلہ فریقین کے باہمی رضامندی سے ہی ہوسکتا ہے، جب کہ نکاح میں پورا معاملہ شوہر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ 
بیدہ عقدۃ النکاح۔ (البقرۃ، ۲۳۷)
(۸) اختیار کا فرق: سمجھوتوں کو ختم کرنے کے لیے فریقین کی صلاح و مشورہ ضروری ہے، جب کہ نکاح کو ختم کرنے کے لیے شوہر کو مکمل اختیار دیا گیا ہے۔ 
و ان عزموا الطلاقَ۔ (البقرۃ، ۲۲۷)
(۹) شرائط کا فرق: سمجھوتوں میں معاملات و حقوق اور شرائط طے کرنے پڑتے ہیں، جب کہ نکاح ایک خدائی اصطلاح ہے، جس کے احکام و مسائل قرآن و احادیث میں طے کردیے گئے ہیں، جن میں کوئی تبدیلی و ترمیم کی نہیں جاسکتی ہے۔ سورہ الطلاق اور دیگر آیات و احادیث میں تفصیلات موجود ہیں۔ 
(۱۰) انداز قبول کا فرق: مترادف الفاظ ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال کرنا غیر موزوں نہیں ہوتا۔ چنانچہ گفتگو کی جگہ بات چیت بولا جاسکتا ہے، لیکن سمجھوتے کے لیے استعمال ہونے والے کسی بھی لفظ کو نکاح کے کسی بھی لفظ کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اگر دو ملکوں میں سمجھوتہ ہوتا ہے، تو یہ کبھی نہیں کہاجاتا کہ دو ملکوں میں نکاح ہوگیا ہے۔ اسی طرح سمجھوتہ ختم ہونے پر یہ نہیں بولا جاتا کہ دونوں میں طلاق ہوگئی ہے۔ 
(۱۱) ذمہ داریوں کا فرق: سمجھوتوں میں معاملات کے ذمہ دار دونوں فریق ہوتے ہیں، جب کہ نکاح میں صرف مرد عورت کی ذات کی ملکیت حاصل کرلیتا ہے، کیوں کہ عورت مرد کو اپنی جان حوالے کردی ہے، جس کے عوض نان، نفقہ اور سکنیٰ وغیرہ کی حقدار ہوتی ہے۔ 
(۱۲) غلبہ کا فرق: سمجھوتوں میں دونوں فریق برابر ہوتے ہیں، کسی کو غلبہ و تسلط حاصل نہیں ہوتا، جب کہ نکاح میں مرد کو قوامیت اور غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ 
الرجال قوامون علیٰ النساء۔ (النساء، ۳۴)
(۱۳)تصرفات کا فرق: سمجھوتوں میں فریقین ایک دوسرے کی جان و مال میں تصرف کا حق نہیں رکھتے، جب کہ نکاح میں مرد عورت کے نفس اور بعض اوقات مال میں بھی تصرف کا حق رکھتا ہے۔ 
نساؤکم حرث لکم، فأتوا حرثکم انیٰ شئتم۔ (البقرۃ، ۲۲۳)
(۱۴) قول و قرار کا فرق: سمجھوتوں میں قول و قرار دینا پڑتا ہے اور بسااوقات محض زبانی اقرار سے کام نہیں چلتا؛ بلکہ اس کو حیطہ تحریر میں لانا بھی ضروری ہوتا ہے، جب کہ نکاح میں محض زبانی اقرار و قبول ہی کافی ہوتا ہے؛ بلکہ شرمیلی عورت کا سکوت بھی رضامندی کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ 
(۱۵) انتفاعات کا فرق: سمجھوتوں میں صرف مال و متاع سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، ذات سے نہیں؛ جب کہ نکاح میں مال و متاع کے ساتھ ساتھ ذات و نفس سے بھی انتفاع مقصود ہوتا ہے۔ 
(۱۶) لفظی تاثیرکا فرق: سمجھوتوں کے انعقاد کے لیے فریقین کے درمیان سنجیدہ بحث و گفتگو ضروری ہے، جب کہ نکاح کا معاملہ اس سے برعکس ہے۔ مزاح اور دل دلگی میں بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ 
ثلاث جدھن جد و ھزلھن جد: النکاح والطلاق والرجعۃ۔ (ابوداؤد، کتاب الطلاق، باب فی الطلاق علیٰ الھزل)
(۱۷) احکام کا فرق: سمجھوتوں میں کسی کی ذات حلال وحرام نہیں ہوتی ، لیکن نکاح و طلاق سے حلال حرام اور حرام حلال ہوجاتا ہے ۔ 
حرمت علیکم امھاتکم الاٰیۃ۔ (النساء، ۲۳)
(۱۸) شرکت کی نوعیت میں فرق: سمجھوتوں میں دو سے زائد افراد بھی شرکت کرسکتے ہیں اور برابر کے حق دار ہوسکتے ہیں، جب کہ نکاح محض دو شخصوں کے درمیان ہی ہوسکتا ہے۔ 
(۱۹) صنفی فرق: سمجھوتوں میں مرد و عورت کا ہونا ضروری نہیں ہے؛ سب مرد ہوسکتے ہیں یا سب عورتیں ہوسکتی ہیں، جب کہ نکاح میں ایک مرد اور ایک عورت کا ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ یہی فطرت کا اصول ہے اور جو لوگ اس کے خلاف عملی اقدام کر رہے ہیں، در اصل وہ فطرت سے بغاوت کی انتہا کر رہے ہیں، جو انسان اور انسانیت کی ہلاکت کا پیش خیمہ ہے۔ 
(۲۰) قرب و قرابت کا فرق: سمجھوتوں سے کوئی حقیقی رشتہ وجود میں نہیں آتا؛ جب کہ نکاح حقیقی رشتہ کی تولید کا تسلسل پیدا کرتا ہے۔بیٹا سے باپ اور پھر دادا وغیرہ وغیرہ۔ 
فجعلہ نسبا و صھراً۔ (الفرقان، ۵۴)
(۲۱) میعاد کا فرق: ہر ایک سمجھوتہ محدود وقت کا پابند ہوتا ہے۔ وقت پورا ہوتے ہی سمجھوتہ بھی ختم ہوجاتا ہے؛ لیکن نکاح ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے۔ کوئی مدت گذرنے سے نکاح کی میعاد پوری نہیں ہوتی۔ 
(۲۲) لوازم کا فرق: سمجھوتہ ختم ہوتے ہی کلی طور پر کالعدم ہوجاتا ہے، جب کہ نکاح ٹوٹنے کے بعد بھی علیٰ الفور رشتہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ اس کے بعد عدت گذارنی ہوتی ہے۔ 
(۲۳) نتائج کا فرق: سمجھوتوں سے اشیا کی صنعت کاری مقصود ہوتی ہے، جب کہ نکاح سے نسل انسانی کی افزائش ہوتی ہے۔
درج بالا سطور سے واضح ہوگیا کہ سمجھوتہ الگ چیز ہے، جب کہ نکاح ایک دوسری چیز ہے۔ ان تمام فرقوں کے ساتھ نکاح کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نسل انسانی کی افزائش کے ساتھ سلسلہ نسب کا تحفظ بھی بڑا مقصد ہے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ ایک عورت صرف ایک ہی مردکے نکاح میں رہے اور صرف اپنے ہی مرد سے جنسی تعلقات بنائے۔ اگربیک وقت ایک سے زائد مرد کے نکاح میں رہے گی یا شوہر کے علاوہ بھی کسی سے جنسی تعلقات بنائے گی، تو ایک طرف جہاں نکاح کے حقیقی مقصد کے خلاف ہوگا، وہیں دوسری طرف جانور کی طرح انسان کا سلسلہ نسب بھی منقطع ہوجائے گا۔ 
مورخہ ۲۷؍ ستمبر۲۰۱۸، جمعرات کوسپریم کورٹ نے تعزیرات ہند کی دفعہ 497 (ایڈلٹری) کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس دیپک مشرا کی زیر صدارت پانچ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا کہ غیر ازدواجی تعلقات قائم کرنا اب جرم نہیں ہے۔ ایڈلٹری کو شادی سے الگ ہونے کی بنیاد تو بنائی جا سکتی ہے؛ لیکن اسے جرم نہیں مانا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے فیصلہ پڑھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’جمہوریت کی خوبصورتی ہے میں، تم اور ہم‘‘۔اس فیصلہ کے جواز پر دلیل دیتے ہوئے کہا کہ’’تعزیرات ہند کی دفعہ 497 ؍خواتین کے احترام کے خلاف ہے جبکہ انھیں ہمیشہ مساوی حقوق ملنے چاہییں‘‘۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس تناظر میں تھا کہ ’’ کیا عورت ایک وستو(چیز) ہے؟ جس طرح ایک چیز جس کی ملکیت ہوجاتی ہے، تو اس کے مالک کی اجازت کے بغیر اسے کوئی دوسرا استعمال نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر ایک عورت کسی مرد سے شادی کرلے تو کیا وہ عورت اس مرد کے لیے چیز کی طرح ہوجاتی ہے کہ اس کے بعد اسے کوئی دوسرا مرد استعمال نہیں کرسکتا ہے؟ سپریم کورٹ نے اس کا تصفیہ کرتے ہوئے کہا کہ عورت کوئی وستو نہیں ہے کہ شادی سے صرف شوہر کا قبضہ رہے گا۔سپریم کورٹ کی دلیل ہے کہ ایک لڑکی، خواہ کسی کی بیٹی ہو یا بیوی ،یا پھر ماں ہو یا بہن ، جب تک اس میں ، میں، تم اور ہم سب شرکت نہ کریں ، تب تک جمہوریت کی خوب صورتی کہاں برقرار رہ سکتی ہے۔ اتنا ہی نہیں؛ بلکہ خواتین کے لیے اپنے باپ، بھائی اور شوہر کو تحفظ کا حصار بنانا عورت کی توہین ہے۔آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک خوب صورت عورت صرف ایک ہی مرد کو خوش رکھے! پورے محلے والوں کا بھی تو کچھ حق ہے۔ 
یہ نظریہ کسی جاہل ، ان پڑھ اور گنوار شخص کا نہیں؛ بلکہ بھارت کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے اعلیٰ ذہن و فکر رکھنے والے جج صاحبان کا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ایسے اعلیٰ دماغ اس طرح سے فیصلے کرنے لگیں توسمجھ لیجیے کہ وہ نکاح کی حقیقیت و مقاصد سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک نکاح محض ایک سماجی معاہدہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ 
نوٹ: اس مضمون کی ترتیب میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کی کتاب :’ نکاح و طلاق عقل کی روشنی میں ‘ سے خصوصی استفادہ کیا گیا ہے۔ 

1 Nov 2018

Najasae Ghaleeza aur Khafeefa ka Bayan

نجاست غلیظہ اور خفیفہ کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (31) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
نجاست حقیقہ کی دو قسمیں ہیں: غلیظہ اور خفیفہ۔ 
جس کی نجاست آیت یا حدیث وغیرہ سے ثابت ہو اور کوئی دوسری آیت یا حدیث اس کے مخالف نہ ہو،تو اس کو نجاست غلیظہ کہتے ہیں ۔ اور جس چیز کو یہ نجاست لگ جائے وہ نجس غلیظہ کہلاتی ہے ۔ اور جس کے نجاست ہونے میں آیت یا حدیث وغیرہ کا ٹکراؤ ہو ۔ اگر ایک آیت یا حدیث سے اس کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہو، تو دوسری آیت یا حدیث سے اس کا نجس ہونا معلوم ہوتا ہو، لیکن نجاست کا ثبوت راجح ہوتو اس کو نجاست خفیفہ کہتے ہیں۔ (زیلعی)
نجاست غلیظہ میں یہ چیزیں داخل ہیں: شراب انگوری۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس ۔ (المائدہ،۹۰)
بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر؛ یہ سب گندی چیزیں ہیں۔ 
مردار جانور کا گوشت۔ چربی پٹھا اور اس کی کچی کھال۔ سور۔ مچھلی، مچھر، پسو اور کھٹمل کے سوا ہر قسم کے جانوروں کا بہتا ہوا خون۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
الا ان تکون میتۃ او دما مسفوحا او لحم خنزیر فانہ رجس۔ (الانعام،۱۴۵) 
مگر یہ کہ مردار جانور یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت ہو، کیوں کہ وہ بالکل ناپاک ہے۔
معلوم ہوا یہ تینوں چیزیں نجس العین ہیں اور نجاست غلیظہ میں داخل ہیں ، لیکن سور کے علاوہ باقی مردار جانوروں کی ہڈی، بال، سینگ اور کھر پاک ہیں، جب کہ اس میں چکنائی کا اثر نہ ہو۔ یعنی جس کے اندر روح اور خون سرایت نہ کرے، وہ پاک ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے ۔ 
عن عبد اللّٰہ بن عباس قال سمعت رسولَ اللّٰہ ﷺ قال: قل لا اجد فیما اوحی الیَّ محرما علیٰ طاعم یطعمہ الا کل شئی من المیتۃ حلال الا ما اکل منھا ، فاما الجلد والقرون والشعر والصوف والسن والعظم فکلہ حلال لانہ یذکی۔ (رواہ الدار قطنی)
آں حضرت ﷺ نے فرمایا: کہہ دیجیے کہ جو کچھ تیری طرف وحی کی گئی ہے ، اس میں نہیں پاتا ہوں کہ کھانے والے پر اس کا کھانا حرام کیا گیا ہو، خبردار ہو! مردے میں سے ہر چیز حلال ہے، مگر سوائے اس چیز کے کہ کھائی جاتی ہے ، پس کھال (دباغت دیا ہوا) اور سینگ اور بال اور اون اور دانت اور ہڈی؛ پس کل کے کل حلال ہیں اس لیے کہ وہ ذبح نہیں کیے جاتے ہیں، یعنی اس میں روح نہیں ہوتی ہے۔ 
اسی طرح جن چوپاؤں کا گوشت کھانا حرام ہے ، ان کا پیشاب اور آدمی کا پیشاب ، خواہ دودھ پیتا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے پیشاب کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
اذا مسکم شئی فاغسلوہ فانی اظن ان منہ عذاب القبر۔ (رواہ البزار و قال فی التلخیص اسنادہ حسن، آثار السنن) 
جب کچھ پیشاب تم کو لگ جائے تو اس کو دھو ڈالو، اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں کہ پیشاب (کے لگنے ) سے عذاب قبر ہوتا ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
استنزھوا من البول فان عامۃ عذاب القبر منہ۔ (رواہ الحاکم و قال صحیح علیٰ شرطھما) 
پیشاب سے بچو، اس لیے کہ عذاب قبر زیادہ تر اسی سے ہوتا ہے۔
ایک صحابی کو دفن کیا، دفن سے فراغت کے بعد عذاب قبر میں مبتلا ہوا، تو ان کی عورت کے پاس آپﷺ تشریف لائے اور ان کے عمل کے بارے میں پوچھا تو بولی کہ وہ بکریاں چرایا کرتے تھے اور ان کے پیشاب سے نہیں بچتے تھے، اس وقت آپ ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ حلال گوشت والے جانور کا پیشاب بھی نجاست میں داخل ہے۔ 
معلوم ہوا پیشاب نجس ہے اور اس نجاست سے نہ بچنے کی وجہ سے عذاب قبر ہوتا ہے، مگر حلال گوشت چوپائے کا پیشاب نجاست غلیظہ میں اس لیے داخل نہیں ہے کہ اس کے بارے میں آں حضرت ﷺ نے فرمایا ہے : 
لابأس ببول ما یؤکل لحمہ ، (احمد، دار قطنی)
جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ، اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں ہے ۔
اس دلیل کے ٹکراؤ کی وجہ سے اس کا پیشاب نجاست خفیفہ میں داخل ہے۔ مرغی، بطخ اور مرغابی کی بیٹ اور آدمی کا پاخانہ اور تمام چوپاؤں کا گوبر، لید نجاست غلیظہ میں داخل ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو استنجے کے لیے پتھر لانے کو کہا تو انھوں نے دو پتھر لائے اور تیسرا پتھر نہ ملنے پر ایک لید کا ٹکڑا اٹھالائے۔ آپ ﷺ نے دونوں پتھر کو لیا اور لیدکو پھینک دیا اور فرمایا: 
ھذا رکس ۔ (بخاری)
یہ نجس ہے۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
لاتستنجوا بالروث۔ (نسائی) 
لید سے استنجا نہ کرو۔
معلوم ہوا : گو، گوبر، لید؛ سب نجس ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث بھی نہیں ہے۔ 
جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے، ان چوپاؤں کا گوشت اور لعاب اور پسینہ نجاست غلیظہ میں داخل ہے ۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
طھور اناء احدکم اذا ولغ فیہ الکلب ان یغسلہ سبع مرات اولھن بالتراب۔ (مسلم)
جب برتن میں کتا منھ ڈالے تو برتن کو اس طرح پاک کرے کہ اس کو سات مربتہ دھوئے اور پہلی مرتبہ اس کو مٹی سے مانجھے۔ 
معلوم ہوا کتا کا لعاب ایسا نجس ہے کہ اس کی نجاست کو دور کرنے کے لیے مٹی سے مانجھنے کی ضرورت ہے ۔ اور کتا حرام ہے، تو باقی حرام گوشت جانور کا یہی حکم ہوگا۔ اور لعاب کی نجاست گوشت کی نجاست اور گوشت کی نجاست پسینہ کی نجاست پر دلالت کرتی ہے، اس لیے ان جانوروں کا پسینہ بھی نجس ہوگا ، مگر گدھے اور خچر کا پسینہ پاک ہے ، چوں کہ وہ سواری کا جانور ہے ، اس لیے دفع حرج کے لیے پاک فرمایا، جس طرح بلی کا جھوٹا دفع حرج کی وجہ سے پاک ہوا۔ 
ہر وہ چیز جو ناقض وضو یا موجب غسل ہو، وہ بھی نجاست غلیظہ میں داخل ہے ، جیسے منھ بھر قے، زخم کا بہتا ہوا خون، پیپ، منی ، مذی وغیرہ۔ مگر ہوا پاک ہے۔
عن عمار بن یاسرقال: اتیٰ علیَّ رسول اللّٰہ ﷺ و انا علیٰ بئر ادلو ماء فی رکوۃ قال: یا عمار! ما تصنع، قلت: یا رسول اللّٰہ ﷺ بابی انت و امی اغسلُ ثوبی من نخامۃ اصابتہ، فقال: یا عمار! انما یغسل الثوب من خمس من الغائط والبول والقئی والدم والمنی، یا عمار ما نخامتک و دموع عینک والماء الذی فی رکوتک الا سواء۔ (رواہ الدار قطنی)
اور یہ چیزیں نجاست خفیفہ میں داخل ہیں: حلال گوشت چوپائے کا پیشاب، گھوڑے کا پیشاب۔ اور حرام گوشت پرندوں کی بیٹ۔ مرغی ، بطخ، مرغابی کے علاوہ باقی حلال گوشت پرندوں کی بیٹ پاک ہے۔ اسی طرح حلال گوشت چوپاؤں کا لعاب اور پسینہ پاک ہے ۔ حضرت عمرو بن خارجہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منی میں خطبہ دیا اور آپ ﷺ اونٹ پر سوار تھے اور اس کا لعاب میرے مونڈھے پر بہتاتھا ۔ (احمد، ترمذی، ترمذی نے اس کی تصحیح کی)
نجاست غلیظہ اگر گاڑھی ہو، تو ساڑھے چار ماشہ وزن تک معاف ہے اور اگر پتلی ہو تو ہتھیلی کی گہرائی کی مقدار معاف ہے ، یعنی اگر اس کے رہتے ہوئے نماز پڑھے گا ، تو نماز ہوجائے گی، لیکن مکروہ تحریمی ہوگی، اس لیے اس کا دھونا واجب ہوگا۔ اور اگر اس سے کم ہے تو نماز مکروہ تنزیہی ہوگی، اس لیے اس کا دھونا مسنون ہوگا۔ اور اگر مقدار عضو سے زائد ہو یعنی ساڑھے چار ماشہ وزن سے زائد یا مقدار ہتھیلی سے زائد ہو تو نماز نہیں ہوگی اور اس کا دھونا فرض ہے ۔ (در مختار)۔
اور نجاست خفیفہ اگر کسی عضو پر ہو تو چوتھائی عضو سے کم اور کپڑے پر ہو تو اس کپڑے کی چوتھائی سے کم اور اگر کسی چیز پر ہو تو اس چیز کی چوتھائی سے کم ہو تو معاف ہے ، یعنی اس کے رہتے ہوئے نماز پڑھ لے تو نماز ہوجائے گی۔ چوتھائی اور اس سے زیادہ معاف نہیں ہے ۔ اس کا دھونا فرض ہے۔ نجاست خفیفہ اگر پانی میں پڑجائے تو پانی نجس ہوجائے گا، اگرچہ قلیل پڑے۔ پیشاب کی چھینٹ سوئی کی نوک کے برابر بدن یا کپڑے میں پڑے تو معاف ہے ، اس لیے کہ ایسی چھینٹوں سے بچنا مشکل ہے۔

31 Oct 2018

Mostahaza aur maazooreen ke ahkam

مستحاضہ اور معذورین کے احکام
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (30) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
مستحاضہ سے صحبت کرنا جائز ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: 
لاباس ان یجامعھا زوجھا۔ (عبد الرزاق) 
کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کا شوہر اس سے صحبت کرے۔ 
ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ حمنہ بنت جحشؓ مستحاضہ ہوتی اور ان کا شوہر ان سے صحبت کرتا۔ نوویؒ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔ (زجاجۃ المصابیح، ص۱۵۹)
مستحاضہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔ استحاضہ کی حالت میں نماز روزہ معاف نہیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت کا خون بہتا تھا ،تو حضرت ام سلمہ نے نبی کریم ﷺ سے اس عورت کے بارے میں پوچھا، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا: یہ عارضہ جو انھیں پیش آیا ، اس سے پہلے مہینے میں کتنے رات دن ان کو حیض آتا تھا، اس کو دیکھے ، پھر مہینے میں اتنے دن کی نماز چھوڑ دے۔ جب وہ دن گذرجائے تو غسل کرے اور کسی کپڑے کی گدی لگائے ، پھر نماز پڑھے۔ اس کو ابو داؤد وغیرہ نے کئی سندوں کے ساتھ بیان کیا۔ اور امام نوویؒ نے فرمایا کہ ابو داؤد کی سند بخاری مسلم کی شرطوں کے مطابق صحیح ہے۔ (زجاجۃ المصابیح) اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
تدع الصلاۃ ایام اقواءھا التی کانت تحیض فیھا ثم تغتسل و تتوضأ عند کل صلاۃ و تصوم و تصلی ۔ (رواہ الترمذی و ابو داؤد)
مہینے میں جتنے دن حیض آتا تھا، اتنے دنوں کی نماز چھوڑ دے ، پھر نہائے اور ہر نماز کے وقت وضو کرے اور روزہ رکھے اور نماز پڑھے۔ 
مستحاضہ حیض سے فارغ ہونے کے بعد بس ایک مرتبہ غسل کرے ، پھر ہر نماز کے لیے وقت پر وضو کرے ۔ اور اس وضو سے جس قدر فرض ، واجب، سنت اور نفل چاہے پڑھے۔ جب تک وقت ہے استحاضہ کے خون کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ وضو وقت نکلنے ہی سے ٹوٹے گا، البتہ دوسرے نواقض وضو سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ 
عن عائشۃ قالت: سئل رسول اللّٰہ ﷺ عن المستحاضۃ قال: تدع الصلاۃ ایامھا ثم تغتسل غسلا واحدا ثم تتوضأ عند کل صلاۃ۔ (رواہ ابن حبان فی صحیحہ باسناد صحیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ سے مستحاضہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے ، پھر ایک مرتبہ نہائے ، پھر ہر نماز کے وقت وضو کرے۔ 
بخاری کی روایت میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا: 
ثم توضأ لکل صلاۃ حتیٰ یجئی ذالک الوقت۔ 
پھر وضو کر ہر نماز کے لیے ، یہاں تک کہ یہ وقت گذر جائے ۔ 
یعنی وقت میں صرف ایک وضو کافی ہے ، جب تک وقت ہے وضو باقی ہے۔ 
مستحاضہ پر باقی معذورین کو خیال کرنا چاہیے ، خواہ برابر پیشاب کے قطرے آنے، یا زخم سے خون یا پیپ، ریح، بہنے، یا دست جاری رہنے ، یا ہوا خارج ہونے کا مرض ہو ، یا کوئی دوسری بات ہو جس سے وضو نہیں ٹھہرتا ہے ، کیوں کہ عذر ایک طرح کا ہے ، یعنی وضو کے ساتھ نواقض وضو پیش آجاتا ہے، جس سے وضو صحیح نہیں ہوتا ہے ، یا باقی نہیں رہتا ہے ، مگر شریعت نے مجبوری کی وجہ سے اس کے وضو کو صحیح اور باقی مانا اور اس کو وقت کے اندر نماز پڑھنے کی اجازت دی تو سب معذورین کے لیے اجازت سمجھی جائے گی۔ لہذا معذورین اپنے عذر کی وجہ سے نماز نہ چھوڑے؛ بلکہ وضو کرکے نماز پڑھے ۔ ایک وضو سے پورے وقت میں جس قدر چاہے فرض نفل پڑھ سکتا ہے ۔ دوسرے وقت کے لیے دوسرا وضو کرے۔ 
لیکن معذور اس وقت ہوگا جب کہ ایک نماز کا پورا وقت اس طرح گذرے کہ اس میں باوضو فرض ادا کرنے کا موقع نہ ملے ۔ اس کے بعد اس وقت تک معذور رہے گا جب تک نماز کا کوئی وقت عذر سے خالی نہ گذرے ، یعنی ہر نماز کے پورے وقت میں کم از کم ایک مرتبہ وہ عذر پیش آجائے ، جس میں وہ معذور سمجھا گیا ہے ۔ جب ایک نماز کاپورا وقت اس طرح گذر جائے کہ اس میں ایک مرتبہ بھی وہ عذر پیش نہ آئے تو اب معذور نہ رہے گا اور وہ چیز اس کے حق میں ناقض وضو ٹھہرے گی۔

29 Oct 2018

Haiz wa Nifaas aur Janabat ke ahkam ka bayan

حیض و نفاس اور جنابت کے احکام کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (29) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
حیض و نفاس کی وجہ سے آٹھ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں : 
اول: نماز۔ دوسرا: روزہ۔ جب عورتوں نے آں حضرت ﷺ سے اپنے دین کے نقصان کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
الیس اذا حاضت المرأۃ لم تصل ولم تصم۔ (بخاری و مسلم)
کیا یہ بات نہیں ہے کہ جب عورت کو حیض آتا ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے ، تو عورتوں نے کہا : ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمھارے دین کا نقصان ہے۔ 
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ 
کانت النفساء تقعد علیٰ عھد رسول اللّٰہ ﷺ بعد نفاسھا اربعین یوما۔ (رواہ الخمسۃ الا النسائی واللفظ لابی داؤد و فی لفظ لہ : ولم یامرھا النبی ﷺ بقضاء صلوٰۃ النفاس، و صححہ الحاکم، بلوغ المرام، ص؍۲۸) 
بچہ جننے والی عورتیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بچہ جننے کے بعد چالیس دن بیٹھتی تھیں۔ اور ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو نفاس کی نماز کے قضا کا حکم نہیں کیا ہے ۔ 
یعنی حالت نفاس میں جو نماز چھوڑنی پڑتی ہے ، اس نماز کی پیچھے بھی قضا نہیں ہے ، وہ نماز بالکل معاف ہے ، البتہ روزہ کی قضا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : حائضہ کا کیا حال ہے کہ روزہ کی تو قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی ؟ حضرت عائشہؓ نے پوچھا: کیا تو حروریہ ہے؟ جواب دیا کہ نہیں، لیکن میں پوچھتی ہوں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: زمانہ نبوت میں یہ بات پیش آتی تھی تو روزہ کی قضا کا حکم ہوتا تھا ، لیکن نماز کی قضا کا حکم نہ ہوتا تھا۔ (بخاری ومسلم)
تیسرا: قرآن پڑھنااگرچہ ایک آیت ہو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ 
لاتقرأ الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن ۔ (ترمذی و ابن ماجہ)
حیض والی عورتیں اور جنابت والے قرآن کا کوئی جزو نہ پڑھے۔ 
یعنی تلاوت کی نیت سے قرآن کا پڑھنا درست نہیں ہے۔ اگر نعمت کے شکریہ میں الحمد للہ رب العالمین کہے، یا بری خبر پر انا للہ و انا الیہ راجعون کہے تو درست ہے ۔ اسی طرح بسم اللہ کا پڑھنا درست ہے۔ 
چوتھا: قرآن کا چھونا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
لایمسہ الا المطھرون۔ (الواقعۃ، آیۃ)
نہ چھوئے قرآن کو مگر پوری طہارت والا۔ 
یعنی جس کے لیے نماز پڑھنا درست ہے ، اس کے لیے قرآن چھونا درست ہے ۔ اس سے کم پاکی والوں کے لیے قرآن کا چھونا درست نہیں ، لہذا حائض نہ چھوئے ، نہ جنب اور نہ بے وضو ؛ البتہ رومال وغیرہ کے ذریعہ سے پکڑ کر اٹھا سکتا ہے۔ 
پانچواں : مسجد میں داخل ہونا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
انی لا احل المسجد لحائض ولا جنب (ابو داؤد)
میں حیض اور جنابت والے کے لیے مسجد کو حلال نہیں کرتا ہوں۔ 
یعنی ناپاک کو مسجد میں گھسنا درست نہیں ، خواہ ناپاکی جنابت کی ہو یا حیض و نفاس کی۔ 
چھٹا: خانہ کعبہ کا طواف کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 
افعلی مایفعل الحاج غیر ان لاتطوفی بالبیت حتّٰی تطھری (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آں حضرت ﷺ نے فرمایا: جو حاجی کرتے ہیں وہ تمام کام کر، مگر یہ کہ بیت اللہ کا طواف تو نہ کرے ،یہاں تک کہ تو پاک ہوجائے ۔
یعنی حیض کی حالت میں کعبہ کا طواف درست نہیں ہے، باقی تمام افعال حج کرسکتی ہے۔ 
ساتواں: جماع کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ (البقرۃ،۲۲۲)
حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔ 
یعنی اس سے صحبت درست نہیں ہے۔ 
آٹھواں : ناف کے نیچے سے گھٹنے تک کے عضو سے فائدہ اٹھانا بھی درست نہیں ہے۔ 
ایک شخص نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: 
لک فوق الازار۔ (ابو داؤد)
تیرے لیے ازار کے اوپر جائز ہے۔
ازار تہہ بند کو کہتے ہیں ۔ ناف گھٹنے تک کا عضو تہہ بند کے نیچے کا حصہ ہے اور اس کے علاوہ مافوق الازار ہے ۔ مطلب ہوا ناف سے گھٹنے تک تیرے لیے حلال نہیں، باقی حلال ہے۔
اور جنابت کی وجہ سے پانچ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں: 
اول: نماز۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
لاتقبل صلاۃ بغیر طھور۔ (مسلم)
پاکی کے بغیر نماز مقبول نہیں۔ 
یعنی ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا درست نہیں، خواہ ناپاکی حدث اصغر کی ہو یا حدث اکبر کی، یعنی بغیر وضو غسل کے نماز صحیح نہیں ہوتی۔ 
دوسرا: قرآن کا پڑھنا، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ 
تیسرا: قرآن کا چھونا، اگرچہ ایک آیت ہو، جیسا کہ حیض میں بیان ہوا۔ 
چوتھا: مسجد میں داخل ہونا۔
پانچواں : خانہ کعبہ کا طواف کرنا۔اس کا تذکرہ حیض میں ہوچکاہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: 
الطواف حول البیت مثل الصلاۃ ۔ (ترمذی وغیرہ)
بیت اللہ کا طواف نماز کی طرح ہے ۔
اور نماز کے لیے طہارت شرط ہے ، لہذا طواف کے لیے بھی طہارت شرط ہوگی، اسی لیے جب حضرت عائشہؓ کو حیض آیا تو آپﷺ نے طواف سے منع فرمایا۔ 
اور وضو نہ رہنے کی وجہ سے تین چیزیں حرام ہیں: 
اول: نماز پڑھنا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
لاتقبل صلاۃ من احدث حتیٰ یتوضأ۔ (بخاری و مسلم)
جس نے ہوا خارج کی اس کی نماز صحیح نہیں ، یہاں تک کہ وضو کرلے۔ 
یعنی ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور وضو ٹوٹنے پر نماز نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
یاایھا الذین اٰمنوا اذا قمتم الیٰ الصلاۃ فاغسلوا، الخ(المائدہ، ۶)
ائے ایمان والو! جب نماز کا ارادہ کرو توو ضو کرو۔ (اپنے منھ، ہاتھ کو دھوؤ، سر کا مسح کرو، پاؤں کو دھوؤ۔
دوسرا: قرآن کا چھونا۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
لاتمس القرآن الا و انت طاھر۔ (رواہ الحاکم فی المستدرک و قال صحیح الاسناد)
قرآن بغیر طہارت مت چھوؤ۔
یعنی وضو ہو تو قرآن چھوئے ، ورنہ نہ چھوئے۔آں حضرت ﷺ نے عمرع بن حزم کو لکھا: 
الَّا یمس القرآن الا طاھر۔ (مالک، ص۷۵)
قرآن کو پاک ہی آدمی چھوئے ۔
یعنی پوری طہارت والا جس کو وضو و غسل ہو وہی چھوئے۔ 
تیسرا: طواف کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 
الطواف حول البیت مثل الصلاۃ۔ (ترمذی) 
کعبہ کا طواف جیسے کہ نماز۔
نماز بغیر وضو درست نہیں، اسی طرح طواف بے وضو درست نہیں۔ طواف کے لیے وضو کرنا واجب ہے ۔ نماز کے لیے وضو کی فرضیت قرآن سے ثابت ہے اور طواف کے لیے وضو کا ثبوت خبر آحاد سے ہے ، اس لیے فرض کے بجائے واجب ہوا۔

27 Oct 2018

Nifas Istihaza

نفاس

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (28) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی (04-مئی-1919_00-جون-1976) نور اللہ مرقدہ
بچہ کے پیدا ہونے کے بعد جو خون رحم سے نکلتا ہے، اس کو نفاس کہتے ہیں۔ نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے اور کم کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بالکل خون نہ آئے ، یا دو ایک منٹ آکر بند ہوجائے۔ 
عن انسؓ ان النبی ﷺ وقت للنفساء اربعین یوما الا ان تریٰ الطھر قبل ذالک۔ (رواہ الدار قطنی و ابن ماجہ)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے نفاس والیوں کے لیے چالیس دن مقرر کیا ہے ، مگر یہ کہ اس سے پہلے پاکی دیکھے۔
یعنی چالیس دن پہلے پاک ہوسکتی ہے ، مگر اکثر مدت چالیس دن ہے ۔ اگر چالیس دن پورے ہونے پر بھی خون بند نہ ہوتو چالیس سے زائد استحاضہ کا خون ہوگا۔ چنانچہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: 
فان بلغت اربعین یوما ولم تر الطھر فلتغتسل وھی بمنزلۃ المستحاضۃ۔ (رواہ ابن عدی وا بن عساکر)
اگر چالیس روز پورے ہونے پر بھی خون بند نہ ہو تو عورت کو نہالینا چاہیے ، وہ استحاضہ والی سمجھی جائے گی۔ 
استحاضہ
وہ بیماری کا خون ہے جو رگ کے پھٹنے سے نکلتا ہے۔ حیض کے دنوں میں جو خون تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ آئے، یا ایام نفاس میں چالیس روز سے زیادہ آئے ، یا حالت حمل میں خون آئے ، وہ سب استحاضہ کا خون ہوگا۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: 
لاحیض دون ثلاثۃ ایام ولا حیض فوق عشرۃ ایام۔ (رواہ ابن عدی)
تین دن سے کم حیض نہیں اور دس دن سے اوپر حیض نہیں۔ 
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: 
ان اللّٰہ رفع الحیض عن الحبلیٰ و جعل الدم بما تغیض الارحام (ابن شاہین) 
اللہ تعالیٰ نے حاملہ عورت سے حیض اٹھالیا اور خون کو ایسا کردیا کہ رحم اس کو چوسنے لگا۔ 
اور حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: 
ان اللّٰہ رفع الدم عن الحبلیٰ و جعلہ رزقا للولد۔ (ابن شاہین)
اللہ نے حاملہ سے خون اٹھالیا اور اس کو پیٹ کے بچے کے خوراک بنادیا ۔ 
اور معتادہ کے لیے عادت سے زیادہ استحاضہ ہے ، جب کہ اکثر مدت سے زائد حیض یا نفاس ہو۔ اگر اکثر مدت پر رکا یا اس سے کم پر تو وہ حیض و نفاس ہے ، یوں سمجھا جائے گا کہ عادت بدل گئی ہے۔

26 Oct 2018

Natural and Unnatural

نیچرل اور ان نیچرل۔۔۔؟
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
محمد یاسین جہازی
871552408



خالق کائنات نے مخلوقات کے توالد و افزائش کے لیے ایک ہی مخلوق کودو الگ الگ صنفوں میں تخلیق کیا ہے۔ ایک کو مذکر اور دوسری کو مونث کہاجاتا ہے۔توالد کے تسلسل کے لیے فطری سسٹم یہ ہے کہ مذکر و مونث ان اعضا کے باہمی ملاپ سے جنسی عمل کو انجام دے، جو ان دونوں کے درمیان جنسیت کی تفریق کرتے ہیں۔ اسے Heterosexualیعنی مرد اور عورت کا آپس میں ہمبستری کرنا کہاجاتا ہے۔ توالد و تناسل کے لیے یہی واحد طریقہ ہے اور اسی طریقے کو انجام دینے کے لیے خالق فطرت نے ایک ہی مخلوق کو دو الگ الگ صنفوں میں تقسیم کیا ہے۔اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے انسانوں کے تمام مذاہب میں شادی کا حکم یا رواج ہے۔ 
کائنات کی تمام مخلوقات اپنی صنفیت کے مقاصد کو حاصل کرنے لیے درج بالا طریقے سے ہی جنسی عمل کو انجام دیتی ہیں؛ البتہ انسان چوں کہ صاحب عقل و شعور ہے، اس لیے اس نے تسکین جنس کے لیے کئی اور ممکنہ طریقے بھی ایجاد کرلیے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
(۱) Masturbate، یعنی تنہا مرد کا ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ خود سے جنسی کام کرنا۔ اسے جلق لگانا، مشت زنی کرنا کہا جاتا ہے۔ 
(۲)Solo، یعنی انگشت زنی: یعنی تنہا عورت کا ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ جنسی کام کرنا۔ 
(۱) Homosexuality یعنی ہم جنسی ۔ اس کی دو صورتیں ہیں: 
(الف) Gayیعنی اجتماع متحرکین: دو مردوں کا آپس میں جنسی عمل انجام دینا۔
(ب) Lesbianیعنی اجتماع ساکنین: دو عورتوں کا آپس میں جنسی عمل کرنا۔
(۳) Analیعنی عورت کے فرج کے بجائے دبر میں جنسی عمل کرنا۔ 
(۴) Oral، یعنی منھ میں ، یا منھ سے سیکس کرنا۔ 
اگر آپ ابھی تک سلیم الفطرت ہیں اور یقیناًآپ ہیں، تو درج بالا تمام صورتوں کو پڑھ کر خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یہ طریقے کتنے فطری اور کتنے غیر فطری ہیں۔ البتہ ان طریقوں میں کم از کم اتنی انسانیت تو باقی ہے کہ انسان خود اپنی ہی صنف سے جنسی ضرورت کی تکمیل کرتا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ طریقے فطرت سے متصادم ہیں؛ لیکن ایک طریقہ اور ہے جہاں انسان کی انسانیت تو کجا، حیوانیت بھی شرمسار ہوجاتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انسان، خواہ مرد ہو یا عورت اپنی خواہشات کی تکمیل جانور، مثلا کتے گھوڑے سے کرے کرائے ۔ اسے Animal Sexکہاجاتا ہے۔
شاید ہمارے سماج کی اسی ذہنیت کو دیکھتے ہوئے ۶؍ ستمبر ۲۰۱۸ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس روہنگٹن ایف نریمن اور جسٹس اندو ملہوترا کی آئینی بنچ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 377 کے التزام کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کا مشترکہ طور پر تصفیہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئی کہ ایل جی بی ٹی طبقہ(LGBT) یعنی وہ مرد، عورتیں اور ہجڑے جو ہم جنس ہیں، کو ہر وہ حق حاصل ہے، جو ملک میں کسی عام شہری کو حاصل ہے۔ عدالت کا کہنا تھا، دفعہ 377 کے کچھ التزام غیر منطقی اور من مانے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔ ملک میں سب کو برابری کا حق ہے ، سماج کو سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تعزیرات ہند کی یہ دفعہ ۱۵۸؍ سال پرانی تھی، جسے اس نئے فیصلے نے کالعدم کردیا۔
اس فیصلے سے پہلے درج بالا سبھی ساتوں صورتیں غیر فطری جنسی عمل شمار کی جاتی تھیں،کیوں کہ اس وقت کے لوگ اور سماج فطرت پسند تھے، جس کی وجہ سے وہ بہ خوبی واقف تھے کہ فطرت کیا چاہتی ہے اور فطری ہوتاکیا ہے؛ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر انسان سائنسی اعتبارے سے ترقی کرتا جارہا ہے ، اسی قدر اس کی زندگی فطرت سے دور ہوکر آرٹی فیشیل بنتی جارہی ہے ۔ چلو ہم اسے یہ سوچ کر تسلیم کرلیتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ہم میں بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہے جسے نیچرل اور ان نیچرل کا فرق معلوم نہیں ہے، کیوں کہ جہالت و ضلالت کے ہاتھوں وہ مجبور ہیں؛ لیکن جب سپریم کورٹ کے اعلیٰ فکر و دانش والے جج ایسا فیصلہ صادر کریں اور ہمیں یہ باور کرائیں کہ فطری جنسی عمل ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کے خلاف ہے۔ فطری جنسی عمل برابری کے حقوق کے منافی ہے اور ہمیں اپنی بیمار ذہنیت کو بدلنے کے بجائے فطرت کے اصول پر قائم سماج کی سوچ کو بدلنا ضروری ہے کہ وہ فطرت کو فطرت کیوں کہتا اور مانتا ہے، تو میرے عندیہ میں ایسی اعلیٰ فکری اور دانش مندی ، حماقت و بیوقوفی کا نیا جلی عنوان ہوگا؛ بلکہ ایسی سوچ انسان کے صاحب عقل و بصیرت ہونے کی صفت پر سوالیہ نشان ہوگی؛ کیوں کہ ایک سلیم الفطرت مؤرخ جب ان حالات کا تجزیہ کرے گا تو وہ بالیقین کنفیوژ ہوجائے گا کہ صاحب ادراک و شعور انسان ہے یا پھر جانور۔۔۔ ؟ اگر وہ خود کو انسان کے زمرہ میں سمجھ کر انسان کی حمایت کرے گا، تو اگلے سوال کا جواب اسے شاید نہ مل سکے کہ انسان خود اپنے وجود میں نیچرل ہے یا پھر ان نیچرل۔۔۔!!!!!؟؟؟؟۔