16 Jul 2018

حج کی فرضیت کا بیان

حج کی فرضیت کا بیان 

قسط نمبر (۲)
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

اسلا م کی پانچ بنیادی باتوں میں سے ایک حج بھی ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بنی الاسلام علی خمس شہاد ۃ ان لا الہ الا اللہ وان محمد ا عبدہ و رسولہ و اقام الصلاۃ وایتاء الزکوٰۃ و الحج و صوم رمضان(متفق علیہ )
یعنی اسلا م کی بنیا د پانچ باتوں پر ہے 
(۱) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں او رمحمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ 
(۲) نماز کو پابندی سے ادا کرنا۔ 
(۳) زکوٰۃ دینا ۔
(۴) حج کرنا ۔
(۵) رمضان کے روزے رکھنا ۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور ﷺ سے جب اسلام کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺنے فرمایا:
الاسلام ان تشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ و تقیم الصلاۃ و تؤتی الزکوٰۃ و تصوم رمضان و تحج البیت ان استطعت الیہ سبیل (راوہ مسلم)
یعنی اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گوہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور تو نماز پڑھے اور زکوۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور تو بیت اللہ کا حج کرے اگر تو وہاں تک جانے کے سفر خرچ کی طاقت رکھے ۔
ا س حدیث کے اندر حج کے فرض ہونے کی اہم شر ط کو بھی بیان فرمایا، یعنی سفر خرچ کی قدرت ۔ قرآن کے اندر بھی اللہ تعالی نے اس اہم شرط کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَلِلّٰہِ عَلَیٰ النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلَاً وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ الْلّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۔ ( لن تنا لوا البر رکوع ۱)
اور اس کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا (فرض ) ہے، یعنی اس شخص کے ذمہ جو اس کی طاقت رکھے، وہاں تک سبیل کی اور جوشخص منکر ہو تو اللہ تعالی تمام جہان والوں سے غنی ہے۔ ( ترجمہ تھانوی )
سبیل سے مراد سفر خرچ ہے، چنانچہ دارے قطنی کی روایت ہے کہ کسی شخص نے رسو ل اللہ ﷺ سے پوچھاکہ ( من استطاع الیہ سبیلا میں) سبیل سے کیا مراد ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : الزاد والراحلۃ، یعنی سبیل سے مراد توشہ اور سواری ہے ۔
اس حدیث کو حاکم نے بخاری مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور بھی متعدد طریقوں سے یہ حدیث آئی ہے ایک روایت عبد اللہ ابن عمر کی ہے
قال جاء رجل الی النبی ﷺ فقال یا رسول اللہ ﷺ مایوجب الی الحج قال الزاد والراحلۃ (رواہ الترمذی وابن ماجہ )
فرمایا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اورعرض کیا: یا رسول اللہ! حج کیا چیز واجب کرتی ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: توشہ او رسواری یعنی جس کو سفر خرچ میسر ہو، اس پر حج کرنا فرض ہے۔ 
حج کے فرض ہو نے کے لیے یہی ایک امتیازی شرط ہے باقی اور شروط وہ دوسرے احکاموں کے اند رمشترک ہیں ،جیسے مسلم کا ہونا ،عاقل بالغ کا ہونا، حربی مسلمان کے لیے اس کی فرضیت کا علم ہونا۔ یہ ایسے شرائط ہیں، جو دوسرے احکام کے فرض ہونے کے لیے بھی ضروری ہیں۔ رہی ایک شرط آزادہونا، تو یہ پہلی شرط کے اندر داخل ہے، اس لیے کہ غلام تو اپنی ذات کا بھی مالک نہیں ہوتا ہے تو دوسری چیز کا کیامالک ہوگااور جب مالک ہی نہیں ہوگا تو قدرت سفر خرچ کی کیسے سمجھی جائے گی۔ بہر حال جب حج کے فرض ہونے کی تمام شرطیں پائی جائیں، تو اس کو جلد حج کرلینا چاہیے، کیوں کہ زندگی کا یہ ایک وظیفہ ہے اور ساری زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ کر نا فرض ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ﷺ یا ایھا الناس ان اللہ کتب علیکم الحج فقام الاقرع ابن حابس فقال أفی کل عام یا رسول اللہ ﷺ قال لو قلتھا نعم لووجبت ولوجبت لم تعملوا بھا ولم تستطیعوا والحج مرۃ فمن زا د فتطوع ( رواہ احمد والنسائی ولادارمی ، قال ابن الھمام ورواہ الدار قطنیفی سننہ و الحاکم فی المستدرک وقال صحیح علی شرط الشیخین و قال الشمنی ورواہ ابوداؤد و ابن ماجہ)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو !بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے، تو اقرع ابن حابس کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ کیا ہر سال ؟ آ پﷺ نے فرمایا :اگر میں اس کے جواب میں کہتا: ہاں توہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا، تو تم اس پر عمل نہیں کرسکتے اور اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے ہو۔ حج زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے، جو ا س سے زیادہ ہو وہ نفل ہے (مشکوۃ )اس لیے اس فرض کو ادا کر کے جلد سبکدوش ہوجانا چاہیے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
من اراد الحج فلیعجل (رواہ ابوداؤد والدمی )
جس نے حج کا ارادہ کیا اس کو جلدی کرنا چاہیے۔
دوسری حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ فرض حج میں جلدی کرو، نہ معلوم کیا بات پیش آجائے ۔(ترغیب )
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ حج میں جلدی کیا کرو، کسی کو بعد کی کیاخبر ہے کہ کوئی مرض پیش آجائے یا کوئی اور ضرورت درمیان میں لاحق ہوجائے ۔(کنز العمال)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حج نکاح سے مقدم ہے۔ (کنز)
ایک حدیث میں ہے کہ جس کو حج کرنا ہے، اس کو جلدی کرنا چاہیے۔ کبھی آدمی بیمار ہوجاتاہے اور کبھی سواری کاانتظام نہیں رہتا ہے، کبھی اور ضرورت لاحق ہو جاتی ہے۔ (کنز )
ایک حدیث میں ہے: حج کرنے میں جلدی کرو،نہ معلوم کیا عذر پیش آجائے (کنز )۔
ان احادیث کی بنا پر ائمہ میں سے ایک بڑی جماعت کا مذہب یہ ہے کہ جس شخص پر حج فرض ہوجائے ، تو اس کو فور ا ادا کرناواجب ہے ،تاخیر کرنے سے گناہ گار ہوگا ۔ 
حنفیہ کا مفتیٰ بہ مسلک یہی ہے کہ جب حج فرض ہوگیا، تو اس کو جلد اداکرنا واجب ہے۔ یہی مسلک امام ابو یوسفؒ اور امام مالکؒ کا ہے اور امام ابو حنیفہؒ کی دو صحیح روایتوں میں سے زیادہ صحیح روایت یہی ہے کہ واجب علی الفور ہے۔( محیط)
ممکن ہے ،آگے زندگی یا مال وفا نہ کرے اور حج سے محروم دربارے خداندی میں حاضری دینی پڑے اور عتاب اور عذاب الیم میں مبتلا ہوناپڑے۔ جو قدرت رکھتے ہوئے حج نہ کرے، اس پر سخت وعید ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
عن علی قال: قال رسول اللہ ﷺ: من ملک زادا وراحلۃ تبلغہ الی بیت اللّٰہ ولم یحج فلا علیہ ان یموت یھودیا أو نصرانیا، وذالک ان اللّٰہ تبارک وتعالی یقول: و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا (رواہ الترمذی )
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص اپنے توشے اور سواری کامالک ہو، جو اس کو بیت اللہ تک پہنچا دے اور اس نے حج نہیں کیا تو اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے ،اوریہ ا س لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔
علماء نے لکھاہے کہ حج کی فرضیت کی ابتدا، اسی آیت شریفہ کے نزول سے ہوئی ہے۔ (عینی ) اس آیت شریفہ میں بہت سی تاکیدیں جمع ہوگئیں ہیں: اول: للہ کا لام، ایجاب کے لیے ہے، جیسا کہ علامہ عینی نے لکھا ہے۔ دوسرے: علیٰ الناس کا لفظ، جو نہایت لزوم پر دلالت کرتاہے، یعنی لوگوں کی گردنوں پر یہ حق لازم ہے۔ تیسرے: علیٰ الناس کے بعد، من استطاع کا ذکر فرمایا، جس میں دو طرح کی تاکید ہے، ایک بدل کی، دوسرے اجمال کے بعد تفصیل کی۔ چوتھے: حج نہ کرنے والے کو من کفر سے تعبیر فرمایا۔ پانچویں اس پر اپنے استغناء اور بے پرواہی کا ذکرفرمایا، جو بڑے غصے کی علامت ہے اور اس کی رسوائی پر دلالت کرتاہے۔ چھٹے: اس کے ساتھ سارے جہان سے استغناء کا ذکر فرمایا، جس سے اور بھی زیاہ غصہ کا اظہار ہوتا ہے۔(اتحاف)
اس میں کئی نمبر ایسے ہیں، جو عربی سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرا مقصد ان کے ذکر کرنے سے یہ ہے کہ اسی ایک آیت میں کئی وجہ سے تاکید اور حج نہ کرنے والوں پر عتاب ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ جو شخص تندرست ہو اور اتنا پیسہ والا ہو کہ حج کوجاسکے اور پھر بغیر حج کے مرجائے، توقیامت میں اس کی پیشانی پر لفظ ’کافر‘ لکھا ہوگا۔ اس کے بعد انھوں نے یہ آیت شریف:
من کفر فان اللہ غنی عن العٰلمین
پڑھی(درمنثور)
عن ابی امامۃ قال: قال رسولُ اللّٰہ ﷺ من لم یمنعہ من الحج حاجۃ ظاھرۃ أو سلطان جابر أو مرض حابس فمات ولم یحج فلیمت ان شآء یھودیاأو نصرانیا ( رواہ درقطنی)
حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس شخص کو کسی ضروری حاجت یا ظالم بادشاہ، یا مرض شدید نے حج کرنے سے نہیں روکا اور (پھر بھی) اس نے حج نہیں کیا اور مرگیا، تو وہ چاہے یہودی ہو کر مرے یانصرانی ہوکر مرے۔ (مشکوٰۃ )
حضرت عمرؓ سے یہ منقول ہے کہ جو شخص حج کی طاقت رکھتا ہو اور حج نہ کرے، قسم کھاکر کہدو کہ نصرانی مرا ہے یا یہودی مرا ہے۔ ( کنز العمال )
علمائے کرام کے نزدیک حج نہ کرنے سے کافر تو نہیں ہوتا، لیکن قرآنی آیات اور ان احادیث سے سوئے خاتمہ کا ڈر ضرور ہے، اس لیے جہاں تک ممکن ہو حج جلد کرلینا چاہیے۔
تیسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

14 Jul 2018

حج کی تعریف، قصہ حجۃ الوداع

بِسْمِ الْلّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ، وَ عَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْنَ۔
حج کی تعریف

قسط (۱)
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

مخصوص زمانہ میں مخصوص افعال کے ساتھ خانۂ کعبہ کی زیارت کا نام حج ہے۔ (نور الایضاح)

حج زندگی کا ایک اہم فریضہ ہے ، جو مسلمانوں پر ۹ھ میں فرض ہوا تھا؛ لیکن رسول اللہ ﷺ خود وفود کی کثرت اور غزاوات کے اہتمام کی وجہ سے تشریف نہ لے جاسکے، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر الحاج بناکر مکہ روانہ کیا، تاکہ وہ لوگوں کو اسلامی شریعت کے موافق حج کرائیں۔ اور نقض عہد کے احکام سنانے کے لیے سورہ براء ت آپ کے ساتھ کردی؛ لیکن جب یہ خیال آیا کہ عرب عہد کے متعلق اقارب ہی کا پیغام قبول کرتے ہیں، تو پیچھے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا۔ (نشر الطیب)
حضرت علی رضی اللہ عنہ آں حضرت ﷺ کی اونٹنی عضباء پر سوار ہوکر چلے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب آں حضرت ﷺ کی اونٹنی کی آواز پیچھے سے سنی، تو گمان ہوا کہ خود آں حضرت ﷺ تشریف لارہے ہیں ، ٹھہر گئے، دیکھا تو حضرت علیؓ ہیں۔ پوچھا : آپ امیر بن کرآئے ہیں یا مامور؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: امیر تو آپ ہی ہیں، صرف سورہ براء ت سنانے کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد مکہ پہنچ کر حضرت ابوبکرؓ نے سب کو حج کرایااور حضرت علیؓ نے سورہ براء ت پڑھ کر سنائی اور یہ پیغام دیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور خانہ کعبہ کا طواف کوئی ننگا ہوکر نہ کرے۔ مسلمانوں کے سوا کوئی جنت نہ جائے گا۔ کافروں میں سے جس نے عہد میعادی باندھا ہے، وہ میعاد پوری کرلے۔ اور جس کا عہد بے میعاد ہے، یا مطلق عہد ہی نہیں ہے، اسے چار ماہ کی امان ہے، اس کے بعد اگر مسلمان نہ ہوگا، تو قتل کردیا جائے گا۔ (تواریخ حبیب الہ)
قصہ حجۃ الوداع
۱۰ ؁ میں آپﷺ خود حج کے لیے تشریف لے گئے اور آپﷺ نے ایسے باتیں فرمائیں ،جیسے کوئی کسی کو وداع یعنی رخصت کررہا ہو ،اسی لیے یہ حج حجۃ الوداع کہلایا ،آپﷺ کے حج کی خبر سن کر مسلمان ہر طرف سے جمع ہونے لگے اور ایک لاکھ سے زیادہ مجمع ہوگیا۔اور اسی حج میں جمعہ کے دن نویں ذی الحجہ کو جس دن وقوف عرفہ ہوتاہے اور جو سید الایام ہے آیت :
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسَلَامَ
دِیْنَاً۔
نازل ہوئی۔ (نشر الطب) 
حجۃ الوداع کا قصہ مسلم کی ایک مفصل روایت میں ہے، جس سے حج ادا کرنے کی کیفیت کے ساتھ بہت سے مسائل پر بھی روشنی پڑجاتی ہے ۔وہ یہ ہے:
عَنْ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِ الْلّٰہِ رَضِیَ الْلّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ الْلّٰہِ ﷺ مَکَثَ بالمدینۃ تسع سنین لم یحج ثم اذن فی الناس با لحج فی العاشرۃ ان رسوال اللہ ﷺ حاج فقدم المدینۃ بشر کثیر کلھم یلتمس ان یا تم برسول اللہ ﷺو یعمل مثل عملہ فخرجنا معہ حتی اذا اتینا ذاالحلیفۃ فولد ت اسماء بنت عمیس محمد بن ابی بکر فارسلت الی رسول اللہ ﷺ کیف اصنع قال اغتسلی واستشفری بثوب واحرمی۔
حضرت جابرابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مدینہ میں نو سال تک قیام فرمایا، جس میں حج نہیں کیا ،پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺحج کرنے والے ہیں ۔پھر تو بہت سے لوگ مدینہ میں آگئے ۔ہر ایک کی یہ جستجو تھی کہ ہم رسول اللہ کی اقتدا کریں اور آپﷺ کی طرح ہم بھی عمل کریں۔ پس ہم لوگ آپﷺ کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ جب ہم ذوالحلیفہ پہنچے، تو اسماء بنت عمیس کو محمد ابن ا بی بکر لڑکا پید اہوا ۔
( ذوالحلیفہ مدینہ سے چھ میل کے فاصلہ پر ہے اور یہی مدینہ والوں کے لیے یا جو مدینہ کی طر ف سے آئے، ان کے لیے میقات ہے۔ آج کل اسی کو بئر علی کہتے ہیں)۔یہیں پر حضرت ابو بکرؓ کی بیوی حضرت اسماءؓ کو لڑکا پیدا ہوا، جس کا نا محمد رکھا) حضرت اسماءؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ میں کیسے کروں؟ ( یعنی کس طرح احرا م باندھوں ) آ پﷺ نے فرمایا: تو نہالے اور لنگوٹ کس لے اور احرام باندھ لے( احرام کے لیے غسل کرنا مسنون ہے اگر چہ حائض اور نفسا ہو۔ اور یہ غسل بدن کی صفائی کے لیے ہے، طہارت کے لیے نہیں ؛ ورنہ حیض و نفاس والی کو غسل کاحکم نہ ہوتا؛ کیوں کہ ان کو نہانے کے باوجود طہارت حاصل نہیں ہوتی، البتہ بدن کی صفائی ضرورہوجاتی ہے )
پھر رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں دورکعت نماز پڑھی(احرام کے لیے وضو و غسل کے بعد دورکعت نماز پڑھنا بھی مسنون ہے اور یہ دو رکعت نماز احرامی کپڑے پہن لینے کے بعد پڑھے تاکہ نما زکے متصل احرام باندھ لے؛ مگر یہ نماز سر چھپا کر پڑھے، کیوں کہ احرام سے قبل کی نماز بے سلے ہوئے کپڑے بھی پہن کر پڑھ سکتا ہے، لیکن احرام کے لیے سلے ہوئے کپڑے اتار دے اور اس کے بعد احرام باندھے۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بعد ہی احرام باندھا تھا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی حدیث میں ہے :
فلما صلی فی مسجدہ بذی الحلیفۃ رکعتیہ اوجب فی مجلسہ فاھل بالحج حین فرغ من رکعتیہ (ابو داؤد)
جب آپﷺ نے ذی الحلیفۃکی مسجد میں نما زپڑھی، تو آپ ﷺنے اسی مجلس میں حج واجب کر لیا، پھر آپﷺ نے حج کا تلبیہ پڑھا، جس وقت دورکعت سے فارغ ہوئے اور دوبارہ تلبیہ اس وقت پڑھا جب اونٹنی پر بیٹھے ) 
پھر آپﷺ قصوا ء پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ آپﷺ کو لے کر میدان میں کھڑی ہوئی، تو میں نے نگاہ بھر اپنے سامنے سوار اور پیدل کو دیکھا ۔اسی طرح دائیں اور اسی طرح بائیں اور اسی طرح ان کے پیچھے ۔پھر آپ ﷺنے بلند آواز سے تلبۂ توحید پڑھا :
لَبَّیْکَ اَلْلّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ۔ 
اور لوگوں نے بھی اپنے اپنے طریقے سے تلبیہ پڑھا ( یعنی مذکورہ بالا تلبیہ پر کچھ بڑھاکر تلبیہ پڑھا، چنانچہ مسلم کی روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر مذکورہ بالا تلبیہ پر اضافہ فرماتے اور کہتے: 
لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرَ بِیَدَیْکَ لَبَّیْکَ وَالرَّغْبَاءُ اِلَیْکَ وَالْعَمَلُ
ہدایہ میں ہے کہ حضور ﷺکے تلبیہ میں زیادتی کرنا جائز ہے کم کرنا جائز نہیں۔ 
تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی کچھ تردید نہیں کی اور آ پ ﷺنے تلبیہ لازم کرلیا ۔یعنی برابر پڑھتے رہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ تو صرف حج کی نیت کررہے تھے ،عمرہ کو نہ جانتے تھے ۔( زمانہ جاہلیت میں حج کے موسم میں عمرہ کرنا بدترین گناہ سمجھتے تھے ۔ اسی عقیدے کے موافق حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم صر ف حج کو جانتے تھے اور حج ہی کی نیت رکھتے تھے )یہاں تک کہ ہم لوگ آپ ﷺکے ساتھ خانہ کعبہ پہنچے، تو آپ ﷺنے حجراسود کو بوسہ دیا اور اس کو چھوا۔پھر سات پھیرے کعبہ کا طواف کیا ،تین پھیرے میں اکڑ کر چلے اور باقی چار پھیرے اپنی چال سے چلے ( چوں کہ اس سفر کا مقصد ہی بیت اللہ کی زیارت ہے، اس لیے مکہ آکر سب سے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرے اور طواف کو حجراسود کے استلام سے شروع کرے۔ اگر اس طواف کے بعد صفا مروہ کے درمیان سعی بھی کرنی ہو،تو طواف کے تین پھیروں میں رمل کرے اور پورے طوا ف میں اضطباع کرے اور طواف کے ہر پھیرے کے بعد حجر اسود کاا ستلام کرے ۔یہ طواف مفرد کے لیے طواف قدوم ہوگا اور متمتع اور قارن کے لیے عمرہ ہوگا۔ متمتع کے لیے طواف قدوم نہیں ہے اور قارن عمرہ سے فارغ ہوکر طواف قدوم کرے ۔تو قارن کے لیے دو طواف اور دو سعی ہیں: ایک عمرہ کے لیے اور دوسرا طواف قدوم کے لیے۔ چنانچہ آنحضور ﷺ نے دو طواف اوردو سعی کیے تھے ۔ دار قطنی کی روایت میں ہے:
ان النبی ﷺطافَ طوافَینِ وسَعَیٰ سَعْیَنِ) 
پھر آ پﷺ مقام ابراہیم پر آئے اور پڑھا :
وَاتَّخِذُوْامِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلَّیٰ۔
پھر دورکعت نماز پڑھی۔ (طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اور یہ نماز مقام ابراہیم میں پڑھنا مسنون ہے۔ اگر وہاں موقع میسر نہ ہو تو دوسری جگہ پڑھیں ۔ اگر وقت مکروہ ہو تو اس وقت نہ پڑھیں؛ بلکہ دوسرے وقت میں پڑھیں۔)تو آپﷺ نے مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان میں کیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے دونوں رکعتوں میں قل ھو اللہ احد اور قل یا ایھاالکافرون پڑھا او ر حجر اسود کی طرف لوٹے اوراس کو بوسہ دیا پھر دروازے سے صفا کی طرف نکلے)
جب آپ ﷺصفاکے قریب پہنچے ،توآپﷺنے پڑھا:
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاءِرِالْلّٰہِ 
میں سعی اسی سے شروع کروں گا، جس سے اللہ نے اپنا بیان شروع کیا ہے، یعنی صفا سے( سعی کا صفا سے شروع کرنا واجب ہے اگر مروہ سے شروع کی، تو وہ سعی میں شمار نہ ہوگا)پھر آپﷺ صفا پر چڑھے، یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھ لیا، پھر قبلہ کا اسقتبا ل کیا، پھر اللہ کی توحید بیان کی ،اس کی بڑائی کی اور فرمایا: 
لا الہ اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر لا الہ اللہ وحدہ انجزوعدہ ونصرعبدہ وھزم الحزاب وحدہ
پھر اس کے درمیان دعا کی۔ آپﷺ نے اسی طرح تین مرتبہ فرمایا (مسنون یہی ہے کہ صفا پر اتنا چڑھے کہ دروازہ سے بیت اللہ نظر آنے لگے اور یہ مقصدپہلی دوسری سیڑی پر چڑھنے ہی سے حاصل ہوجاتا ہے۔ جاہلوں کی طرح بالکل پہاڑ پر نہ چڑجائے کہ وہ سنت کے خلاف ہے پھر استقبال قبلہ کرے اور تکبیر تہلیل اور تحمید کے بعد دعا مانگے اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے)پھر آپﷺ صفا سے اترے اور مر وہ کی طرف چلے ،یہاں تک کہ آپ ﷺبطن وادی میں اترگئے۔ پھر آپ ﷺدوڑے یہاں تک کہ آپﷺ بلندی کی طرف چڑ ھنے لگے توآپ ﷺاپنی چال سے چلے یہا ں تک کہ مروہ پر آئے (جہاں سے جہاں تک صفا مروہ کے درمیا ن آپ ﷺنے دوڑلگا ئی ہے، دونوں کے سرے پر سبز پتھر نصب کردیے ہیں، لیکن صفا کی طرف والا میل چھ ہاتھ مسعیٰ کے اندر ہے، اس لیے جب میل چھ ہاتھ کے فاصلہ پر رہ جائے ،تو وہیں سے دوڑلگائے، مسعیٰ کے سرے پر اس کو نصب کرنے کا چوں کہ موقع نہیں تھا، اس لیے چھ ہاتھ اندر مسجد کی دیوار میں نصب کردیا۔پھر آپﷺ نے مروہ پر ویسا ہی کیا، جیسا صفا پر کیا، یعنی مروہ پر اتنا چڑھے کہ بیت اللہ نظر آنے لگے ،پھر تلبیہ، تہلیل ،تحمید کی اور دعا مانگی؛ یہی مسنون طریقہ ہے۔صفا سے مروہ تک یہ ایک شوط یعنی پھیرا ہوا ) 
یہاں تک کہ جب آپ ﷺکا آخری طواف مروہ پر ہوا ( یعنی سات چکر مروہ پر آکر پورے ہوگئے )تو آپ ﷺنے مر وہ پر سے لوگوں کو پکارا اور لوگ نیچے تھے، پس آپﷺ نے فرمایا :جو کچھ مجھے پیچھے معلوم ہو ا،اگر میں اس کو پہلے جا نتا تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لیتا اور میں نے اس کو عمرہ کر لیا (طواف اور سعی کو میں نے عمرہ میں شمار کیا ،تم لوگ بھی اس کو عمرہ کر لو، آگے حج کا عمل ہوگا اور سر منڈاواکر عمرہ کے احرام کو ختم کر دو اور عمرہ سے حلال ہوجاؤ،مگر کسی نے سر نہیں منڈایا، سب آپﷺ کو دیکھنے لگے کہ دیکھیں آپﷺ سر منڈاتے ہیں یا نہیں، تو آپﷺ نے اپنا عذر بیان فرمایا کہ میرے ساتھ چوں کہ قربانی کا جانور ہے ،اس لیے میرے لیے عمرہ سے حلال ہونا درست نہیں ہے۔ اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا کی میری اطاعت نہ کریں گے اور وہ میری عمل کی اقتدا کریں گے، تو میں قربانی کا جانورہی ساتھ نہ لا تا اورمیں سر منڈا کر حلال ہوجاتا، پس تم میں سے جس کے پاس قربانی کا جانور ساتھ نہیں ہے، وہ حلال ہوجائے اور اس کو عمرہ کرلے (جہالت کے عقیدے کو توڑنے کے لیے یہ آپﷺ نے حکم دیا اس لیے کہ وہ ایام حج میں عمرہ کو افجر فجور سمجھتے تھے ورنہ اختیا رہے کہ عمرہ نہ کرے اور ایام حج میں صر ف حج کرے )پھر سراقہ ابن مالک ابن جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کیایا رسول اللہ ﷺ!یہ عمرہ حج میں داخل ہوا اسی سال کے لیے یا ہمیشہ کے لیے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کودوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا اور فرمایا: عمرہ حج میں داخل ہوا ،عمرہ حج میں داخل ہوا ہمیشہ کے لیے ،ہمیشہ کے لیے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے رسول اللہ ﷺ کی قربانی کے اونٹ لے کر آ ئے اور حضورﷺ نے فرمایا: جس وقت تم نے احرام باندھا تھا، اس وقت کیا کہا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں نے کہا: اے اللہ! اسی کا احرام باندھتا ہوں، جس کا احرام تیرے رسول ﷺنے باندھا ہے ۔
حضرتﷺ نے فرمایا: میرے ساتھ قربانی کے جانور ہیں، اسی لیے تو حلال نہ ہوا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جتنے اونٹ حضرت علیؓ یمن سے لائے اور جو کچھ حضور ﷺ اپنے ساتھ لائے، ان تمام اونٹوں کی تعداد سو کی تھی (جو متمتع اپنے ساتھ قربانی کاجانور لائے وہ عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد حلا ل نہیں ہوتا ہے، اس کے لیے جائز نہیں کہ سرمنڈاکر حلال ہوجائے۔ اگر سرمنڈائے گا تو جزا لازم ہوگی اور آٹھویں ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر حج کرنا ہوگا )حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ تمام لوگوں نے احرام اتار دیا اور بال کٹوائے ؛مگر رسول اللہ ﷺ اور وہ لوگ جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے حلال نہیں ہوئے اور نہ بال کٹوائے۔ پھر جب ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ ہوئی تو سب منیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور سب نے حج کا احرام باندھا اور نبی کریم ﷺ سوار ہوئے، تو منیٰ میں ظہر ،عصر ،مغرب ،عشا اور فجر کی نماز پڑھی، پھر تھوڑی دیر ٹھہرے، یہاں تک کہ سورج نکل آیا اور آپﷺ نے خیمہ کو نصب کرنے کا حکم دیا جو سیاہ وسفید دھاری کا تھا۔ (جس کا احرام پہلے سے نہ ہوتو وہ آٹھویں کو حج کا احرام باندھ لے جیسے مکی اور متمتمع۔ اور جس کا احرام پہلے سے ہے، اسے احرام باندھنے کی حاجت نہیں جیسے مفر داور قارن اس سے پہلے ہی احرام باندھ سکتا ہے ،مگر احرام مسجد حرام سے باندھے )پھر رسول اللہ ﷺ نے کوچ فرمایا اور قریش چل کر مشعر حرام ہی کے پاس یعنی مزدلفہ میں قیام کرتے تھے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں قریش کرتے تھے (مزدلفہ ،منیٰ اور عرفات کے بیچ میں ہے، قریش یہیں وقوف کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کی ) پس رسول اللہ ﷺ (مزدلفہ) سے آگے بڑھے یہاں تک کہ عرفہ آئے، تو آپ ﷺنے یہاں دھاری دار خیمہ گاڑا ہوا پایا، آپﷺ اس میں اترپڑے اور جب سورج ڈھل گیا ،تو آپﷺ نے قصوا ء اونٹنی کے کسنے کا حکم دیا تو وہ کس کر لائی گئی توآپ ﷺسوار ہوکر بیچ میدان میں آئے اور لوگوں کو خطبہ دیا اور آپﷺ نے فرمایا: تمھارا خون، تمھارا مال تم پر حرام ہے جیسے کہ آ ج کی حرمت اس مہینہ میں اور اس شہر میں ہے (یعنی جس طرح نویں ذی الحجہ کا دن عرفات کے میدا ن میں سب سے بڑا محترم ہے ،اسی طرح ایک مسلمان کا خون اور اس کا مال محترم ہے۔ نا حق کسی کو نہ مارے اور نہ کسی کا مال لے، اگر ایسا کرے گا تو وہ ایسا ہی گنہگار ہوگا جیسا کہ کوئی عرفات کے میدان میں گناہ کا کام کرے)
خبر دارہو !امر جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے رکھ دی گئی ہے ( یعنی اس کا کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا ) اور خونوں میں سے سب سے پہلا خون جس کو میں ضائع کرتا ہوں وہ ربیعہ ابن حارث کا خون ہے ،بنی سعد میں دودھ پلانے والا تھا، جس کو ہزیل نے قتل کی کیا تھا ۔ اور جاہلیت کا سود بھی ضائع ہے اور میں اپنے سودوں میں سے اول عبا س ابن عبدالمطلب کا سود ضائع کرتاہوں، پس وہ کل کاکل ضائع ہے ۔ ( حضرت ابن عبا سؓ نے سود کی حرمت سے پہلے لوگوں کو سودی قرض دیا تھا اس کو حضورﷺ نے اصل مع سود سب کو چھوڑ دیا، تاکہ کسی کو اعتراض نہ ہو اور اس معاملہ میں سبقت کرنے کا ثواب ملے ) پس عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو ، اس لیے کہ تم نے ان کو اللہ کی امان میں لیا ہے اور اللہ کے کلمے ہی نے اس کی شرمگا ہ کوحلال کیا ہے اور تمھار اان عورتوں پر یہ حق ہے کہ وہ کسی ایسے کو تمھارے بستر پر نہ لائے، جس کو تم نا پسند کرتے ہو،پس اگر وہ عورتیں ایسا کریں، تو ان کو مارو؛ مگر ضرب شدید نہ مارو۔
اور ان عورتوں کا تمھارے اوپر دستور کے مطابق کھانا کپڑا ہے۔
اور میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑی ہے کہ اگر تم اس کو مظبوطی سے تھامے رکھو تو تم ہرگز نہ بہکو۔
اور تم لوگ میرے بارے میں پوچھے جاؤگے، پس تم کیا کہو گے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ہم لوگ گواہی دیتے ہیں کہ آپﷺ نے (احکام )پہنچائے اور اس کا حق ادا کیا اور خوب سمجھایا۔ پس آپﷺ نے شہادت کی انگلی آسماں کی طرف اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہ ،اے اللہ! تو گواہ رہ! تین مرتبہ فرمایا ( عرفات کے میدان میں امیر حج کا خطبہ دینا مسنون ہے، اس میں احکام بیان کرے۔ ) 
پھر حضرت بلالؓ نے اذان دی، پھر اقامت کہی، پس ظہر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی اور عصر کی نماز پڑھی اور ان دونو ں کے درمیان کوئی نماز نہ پڑھی۔ ( جمع بین الصلاتین یہاں بالاتفاق جائز ہے )پھر رسول اللہ ﷺ سوار ہوئے اور موقف پر آئے تواونٹنی کے پیٹ کو صخرات کی طرف کیا اور جبل مشاۃکو اپنے سامنے کیا اور قبلہ کا استقبال کیا، پھر آپﷺ نے برابر وقوف کیا،یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا ۔اور تھوڑی زردی بھی جاتی رہی او رٹکیہ غائب ہوگیا۔ (زول سے غروب تک وقوف کرنا واجب ہے، جیسا کہ آپﷺ نے کیا۔ وقوف کے لیے یوں تو تمام عرفات موقف ہے ،لیکن جبل رحمت کے قریب ذرا اونچے پر جس جگہ بڑے بڑے سیاہ پتھر کا فرش ہے، جناب رسول اللہ ﷺ کا موقف ہے۔ اگر سہولت سے جگہ مل جائے، تو وہاں کھڑارہنا مستحب ہے )اور آں حضرت ﷺ نے حضرت اسامہؓ کو اپنے پیچھے بیٹھایا اور چلے، یہاں تک کہ مزدلفہ آئے توآپﷺ نے وہاں مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور دو اقامت سے پڑھی اور ان دونوں کے درمیان میں کچھ نہ پڑھا ( یہ جمع تاخیر ہے عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی جا تی ہے راستہ میں مغرب کی نماز مغرب کے وقت پڑھنا درست نہیں ہے؛ بلکہ مزدلفہ آکر دونوں نمازیں پڑھے اور ایک اذان اور ایک ہی اقامت سے دونوں نماز پڑھے۔ اگرچہ اس حدیث میں دو اقامت کا تذکرہ ہے لیکن دوسری حدیث میں ایک ہی اقامت آئی ہے۔ چنانچہ مسلم ہی کی ایک روایت سعید ابن جبیر سے ہے:
افضنا مع ابن عمر حتی اتینا جمعا فصلی بنا المغرب و العشاء باقامۃ واحدۃ ثم انصر ف فقال ھکذا صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الھذا لمکان
یعنی ہم ابن عمر کے ساتھ چلے یہاں تک کہ مزدفلہ آئے، تو ہم کو ابن عمر نے مغرب اور عشاء کی نماز ایک اقامت سے پڑھائی ۔ اسی طرح ترمذی نے روایت کی ہے اوراس کو حسن صحیح کہا ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور صاحبین اور سفیان ثوری رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے کہ مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور ایک اقامت سے پڑھی جائے۔ (عقود الجواہر المنیفہ)
پھر رسول اللہ ﷺ لیٹ گئے، یہاں تک کہ صبح صادق ہوئی، پھر آپﷺ نے فجر کی نماز جب کہ صبح ظاہر ہوئی اذان اور اقامت سے پڑھی۔ پھر قصواء پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ مشعر حرام آئے، پھر قبلہ کے رخ ہوئے، دعا مانگی تکبیر تہلیل کہی اور خدا کی وحدانیت بیان کی اور برابر ٹھہرے، یہاں تک کہ خوب صاف ہوگیا (فجر کی نماز ذرا اندھیرے میں پڑھی او راس کے بعد جبل قذح پر یا اس کے قریب ٹھہرے اور دعا مانگے، تکبیر تہلیل اور تحمید و ثنا کرے۔ وقوف مزدلفہ واجب ہے اور اس کا وقت صبح صادق کے اول وقت سے لے کر آخری وقت تک ہے۔ جو شخص نکلنے کے بعد یا صبح صادق سے پہلے وقوف کرے گا، اس کا وقوف صحیح نہیں ہوگا )طلوع آفتاب سے پہلے آپﷺ نے کوچ کیا اور فضل ابن عباسؓ کواپنے پیچھے اونٹنی پر بیٹھا لیا ۔یہاں تک کہ بطن محسر میں آئے تو اونٹنی کو ذرا تیز کیا ،پھر اس بیچ کے راستے پر چلے، جو جمرہ عقبی ٰکی طرف نکلا ہے، یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے ۔ پھر آپﷺ نے سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری کے ساتھ آپﷺ نے تکبیر کہی۔ کنکریاں ٹھیکرے کے مثل تھیں۔ بطن وادی سے آپﷺ نے کنکریاں ماریں۔ (سورج نکلنے میں جب تھوڑی دیر باقی رہے، تو مزدلفہ سے چل پڑے اور چلنے سے پہلے وہیں سے رمی کے لیے سات کنکریاں لے لے، یہ مستحب ہے اور کنکریاں چنے کی گٹھلی کے برابر لے ۔جب بطن محسر پہنچے تو تیز چلے، سواری کو تیز ہانکے۔ بطن محسر وہ وادی ہے جہاں اصحاب فیل پر عذاب آیا تھا۔ یہ منیٰ اور مزدلفہ میں ہے جس کی پیمائش ۵۴۵گز کے قریب ہے۔ وہاں سے گزر کر جمرہ عقبی پر آئے اور وہاں سات کنکریاں مارے اور تکبیر ہر کنکری پر کہے اور پہلی تکبیر پرتلبیہ بند کردے۔ ا س دن صرف جمرہ اخری کی رمی ہے اور اس کا مستحب وقت سورج نکلنے کے بعد سے ہوتا ہے اور یہ رمی واجب ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ قربان گاہ کی طرف لوٹے اور تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر کیا اپنی عمر کے سال کی گنتی کے موافق کہ حضورﷺ کی عمر بھی تریسٹھ ہی سال ہوئی)۔ پھر حضرت علیؓ کو دیا تو انھوں نے باقی اونٹ کا نحر کیا اور آپﷺ نے ان کو قربانی میں شریک کیا۔ پھر آپﷺ نے ہر اونٹ سے تھوڑا گوشت لینے کو فرمایا۔وہ گوشت ہانڈی میں کیا اور پکایا گیا۔ پھر دونوں صاحبوں نے گوشت کھایا اور شوربا پیا۔ ( جمرہ عقبی کی رمی کے بعد دوسرا کام قربانی کرنا ہے۔ قارن اور متمتع پر قربانی واجب ہے اور مفرد کے لیے مستحب ہے ۔قران اور متمتع اور افراد کی قربانی کا گوشت کھانا اور دوسرے کو کھلانا سب جائز ہے )۔اونٹ کا نحر اور دوسرے جانوروں کا ذبح کرنا مستحب ہے اور اپنے ہاتھ سے کرنا اولیٰ ہے۔ اگر نہ جانتا ہو تو دوسرے سے کرادے اور وہاں موجودرہے اور اس کے گوشت میں سے تھوڑا سا کھانا مستحب ہے۔ قربانی کے بعد حجامت کرائے، گو اس حدیث میں اس کا تذکرہ نہیں ہے لیکن دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے سر منڈایا۔ چنانچہ مروی ہے:
عن ابن عمر ان رسوول اللہ ﷺ حلق رأسہ و قصر بعضہم
حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں سر منڈایا اور آ پﷺ کے اصحا ب میں سے بہت سے لوگوں نے بھی منڈایا اور ان میں سے بعض نے بال کٹوائے۔ (بخاری و مسلم)
حجامت کے بعد عورت کے سوا سب چیزیں حلال ہوجاتی ہیں، جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھیں ۔پھر رسول اللہﷺ سوار ہوئے اور (دسویں ہی کو ) بیت اللہ کی طرف (طواف زیارت کے لیے جو کہ فرض ہے ) چلے اور مکہ میں (طواف زیارت کے بعد )ظہر کی نمازپڑھی (بعض حدیث میں آیا ہے کہ آپﷺ نے ظہر کی نماز منیٰ میں آکر پڑھی۔ ملا علی قاری نے مسلم کی حدیث کو ترجیح دی ہے اور فرمایا ہے کہ ظہر کی نماز مکہ میں مسجد حرام میں پڑھ کر منیٰ آئے )پھر بنی عبد المطلب کے پاس آئے جو زمزم کا پانی کنوئیں پر پلا رہے تھے تو آ پﷺ نے فرمایا :اے بنی عبد المطلب! پانی نکالو اگر تمھارے پانی پلانے کی جگہ پر لوگو ں کاہجوم نہ ہوتا، تو میں خود تمھارے سات پانی نکالتا، پھر انھوں نے آپﷺ کو ایک ڈول پانی دیا، آپﷺ نے اس میں سے پیا۔ (مسلم)
(طواف کے بعد زمز م کا پانی پینا مستحب ہے ،خوب سیراب ہوکر پیے اور اپنے اوپر اور کپڑوں پر چھڑکے۔

ننگی زندگی

ننگی زندگی
محمد یاسین جہازی
رابطہ: 9871552408

عریانیت سے عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ آج کل کی لڑکیاں بے لباسی میں آخری حد تک پہنچ گئی ہیں اور جو باقی ہیں وہ بھی وہاں تک پہنچنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ لیکن ایک زمینی تجزیہ بتلاتا ہے کہ اس میں لڑکے بھی پیچھے نہیں رہ گئے ہیں۔ عریانیت اور فحاشی کے مظاہرے میں دونوں کسی سے کم نہیں ہیں۔ 
راقم الحروف کسی خاص مقصد سے تقریبا ایک ہفتہ کے لیے جھارکھنڈ کے آدی واسی علاقوں میں قیام پذیر رہا۔ اس دوران ان کی طرز معاشرت کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ لباس کے حوالے سے ان کے شب و روز کا معمول یہ دیکھا کہ لڑکیاں اور عورتوں کے جو روایتی لباس ہیں، خواہ اس میں پردہ اورستر پوشی ہو یا نہ ہو، وہ چوبیس گھنٹے زیب تن رہتی ہیں۔ لیکن جو مرد ہیں، وہ بالعموم ہاف چڈی یاتولیہ کے چیتھڑے میں نظر آئے۔ اس کی وجہ غربت اور عدم دستیابی کے علاوہ لباس و تہذیب سے ناآشنائی تھی۔ لیکن ایک دو افراد سے استفسار میں ان کا یہ نظریہ معلوم ہوا کہ ’’ہم مردوں کے بدن میں کوئی چیز پرکشش نہیں ہے، اس لیے اس کو چھپانے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ لڑکیوں کو چھپانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ ان کے جسم دوسروں کے لیے آکرست ہیں‘‘۔ 
تہذیب و ثقافت سے ناآشنا افراد اگر یہ وجہ پیش کریں، تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں؛ لیکن تعجب بالائے تعجب تو یہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے ٹھیکے دار معاشرہ، ان آدی واسیوں سے بھی کہیں زیادہ بودے فکر اور لباس کی بے ڈھنگی کے شکار ہیں۔مہذب سماج کی لڑکیوں کے لباس کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہے کہ’’مہذب طوائفیں‘‘ جہاں تک ننگی ہوچکی ہیں، ان کی تقلید میںیہ شریف زادیاں بھی وہاں تک عریاں ہوچکی ہیں ۔ لیکن لڑکوں کے لباس کا جائزہ لیں، تو یہ بھی ننگے پن میں آخری حدوں کو پہنچ چکے ہیں۔ چنانچہ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ جب یہ پہنتے ہیں، تو گلے کے شگاف اور پیر کی ایٹری تک کو چھپاتے ہیں، لیکن ننگے پن پر آتے ہیں، تو چڈیوں اور ہاف پینٹ پہن کر کھلے عام گھومتے نظر آتے ہیں۔ آفس یا کسی فنکشن کے موقع پر پورے لباس میں نظر آتے ہیں، لیکن جوں ہی گھر لوٹتے ہیں ، تو ساری چیزیں اتار کر ایک چڈی ، ایک بنیان پہن کر سرعام گھومتے ہیں، حتیٰ کہ گھر میں اپنی ماں بہنوں اور بیٹیوں کے سامنے بھی اسی لباس میں رہتے ہیں۔اسی طرح بالعموم نوجوانوں میں لوور پہننے کا جنون ہے، جس میں ستر اعظم ہی کھل جاتا ہے اور جس حصہ کو ڈھانکنے کے بنیادی نظریے سے لباس پہنا جاتا ہے، وہی کھلا رہ جاتا ہے۔سماج کے اس منظر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی عریانیت اور ننگے پن کا دوسرا نام ہے۔ 
لباس انسان کے لیے ایک زینت ہے ، آرائش و زیبائش کا فطری سلیقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین فطرت میں اس کے طریقے اور حدود متعین کیے گئے ہیں۔ مرد کے لباس کا شرعی ضروری حد یہ ہے کہ ناف سے لے کر گھٹنے کے نیچے تک چھپایا جائے۔ اور عورتوں کا پورا بدن ضروری حد میں شامل ہے، صرف دونوں ہاتھ گٹوں تک، چہرہ اور ٹخنے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ مردوں کے لیے ٹخنے سے نیچے تک کوئی لباس پہننا ناجائز ہے، اس کے علاوہ زینت کے لیے وہ جتنے بھی چھپائیں یا دکھائیں، سب جائز ہے۔
اسلام کے اس طریقے اور مہذب سماج کے طریقوں کا تقابلی جائزہ لیں، تو یہ کہنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ اسلام نیلباس کا جو شعور دیا ہے، اس میں زیبائش بھی ہے اور پرکشش بھی۔ جو لڑکیاں بالعموم اسکرٹ یا موجودہ چلن والے لباس میں گھومتی ہیں، ہر وقت ہوس کے درندے انھیں تاڑتے رہتے ہیں اور ننگا سماج بھی ان کو بہت زیادہ تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھتا؛ لیکن جو عورتیں شرعی لباس کا اہتمام کرتی ہیں، انھیں ننگا سماج بھی عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ علاوہ ازیں لباس میں ایک عورت جتنی پرکشش نظر آتی ہے ، عریانیت میں وہ حسن مفقود ہوتا ہے۔ اسی طرح جو لڑکے شرعی لباس کا خیال رکھتے ہیں، وہ زیادہ مہذب اور دوسروں کے لیے پرکشش ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ چڈیوں اور ہاف پینٹ پہن کر گھومتے ہیں، ان کے بدن کا مکروہ منظر ہر شخص کو تنفر کی دعوت دیتا ہے؛ بالخصوص جو لوگ بغل کے بالوں کی صفائی کا اہتمام نہیں کرتے اور ہاف بنیان پہن کر گردش کرتے رہتے ہیں، ان کے بدن کی یہ ہیئت کتنا کریہہ منظر ہوجاتی ہے، اسے صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔۔۔ الامان والحفیظ۔ 
لباس کے حوالے سے اگر ایسے سماج کے افراد یہ روش اختیار کریں، جنھیں مذہب کی کوئی رہنمائی حاصل نہیں ہے، تو معقول عذر سمجھا جاسکتا ہے، لیکن افسوس اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان کا معاشرہ بھی اس معاشرہ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج مسلمانوں کی لڑکیاں اور لڑکے بھی دوسرے سماج کے دوش بدوش ہیں اور ننگے پن میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں رہ گئے ہیں۔ اس لیے میرے اسلامی اور دینی بھائیو!دوسروں کی دیکھا دیکھی اس طرح ننگی زندگی کا مظاہرہ سے باز آئیں اور نبی کریم ﷺ کی سیرت اور طریقے کو اپناتے ہوئے شرعی لباس کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مرضیات پر چلنا ہمارے لیے آسان کردے۔ اور اسلامی لباس کا نمونہ بن کر زندگی گذارنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔

7 Jul 2018

تاریخ جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ

تاریخ جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ  

جمعیۃ علماء ہند نے جب صد سالہ تقریب(منعقدہ ۲۲؍ تا ۲۴؍ فروری ۲۰۱۹ء) منانے کا فیصلہ کیا، تو ناچیز کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ ضلعی و ریاستی سطح پر جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ مرتب کی جائے، چنانچہ ا س بات کا تذکرہ کئی ریاستوں اور اضلاع کے ذمہ داران جمعیۃ سے کیا اور مرکزی ذمہ داران سے اس سلسلے میں صلاح و مشورہ کرکے کوئی مناسب فیصلہ لینے کی درخواست کی۔ اور ادھر دوسری طرف اپنے ضلع کی تاریخ مرتب کرنے کی فکر بھی شروع کردی۔ لیکن جب قلم اٹھایا تو چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آیا، بالآخر جمعیۃ علمائسنتھال پرگنہکے بے لوث و فعال خادم جناب ماسٹرمحمد شمس الضحیٰ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی اس فکر کا اظہار کیا، ماسٹر صاحب بہت خوش ہوئے ۔ اور جب راقم نے ان سے تعاون کی درخواست کی، تو ان کے پاس جتنا کچھ تھا سب حوالے کرنے کا عندیہ دیا اور مزید تلاش و جستجو کرنے کا بھی وعدہ کیا، چنانچہ چار مہینے کی مسلسل جدوجہد کے بعد بہت سارے قیمتی اور نایاب دستاویزات راقم کو حوالے کیے، جنھیں مرتب و مدون کرکے آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ 
یہ جمعیۃ علماء سنتھال پرگنہ کی تاریخ پر ابتدائی کوشش ہے، اس لیے ممکن ہے کہ تحقیق میں کمی رہ گئی ہو ، اس لیے اگر کسی صاحب کے پاس کچھ قیمتی اور مستند معلومات یا دستاویز ہو، تو راقم کو عنایت فرمائیں تاکہ اسے شامل کیا جاسکے اور آپ عند اللہ ماجور ہوں۔ 
یہ کوشش کہاں تک کامیاب رہی ہے، اس کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، البتہ کو شش کے پائے تکمیل پر پہنچنے پر بارگاہ الٰہی میں امتنان و تشکر کی سوغات پیش کرتا ہوں اور دعا گو دعا جو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی تاریخ کو پڑھنے اور اس سے سبق لینے کی توفیق ارزانی کرے اور اس کی روشنی میں مستقبل کے لائحہ عمل طے کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو، اللہم آمین یا رب۔
محمد یاسین قاسمی جہازی
جمعیۃ علماء ہند
۱۵؍ مئی ۲۰۱۸ء بروز منگل صبح ۸؍ بجے
یہ کتاب آپ  مولانا نور الہدیٰ صاحب قاسمی  موبائل نمبر 9546787188 اور 9504410009 پر رابطہ حاصل کرکے خرید سکتے ہیں۔ 
اس کا ناشر  مدرسہ اسلامیہ کھٹنئی ضلع  گڈا جھارکھنڈ پن 814133  ہے ۔ اس ایڈریس پر خط بھیج کر بھی کتاب منگوا سکتے ہیں۔ 

6 Jul 2018

سازش ہے؟

سازش ہے؟
محمد یاسین جہازی، جمعیۃ علماء ہند
رابطہ: 9871552408

فرمان الٰہی کے مطابق نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی اقدس سارے جہاں کے لیے رحمت بناکر بھیجی گئی ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو کام بھی رحمۃ اللعالمین کے طریقے اور ہدایت کے خلاف ہوگا، وہ سراسر زحمت اور پرمشقت ہوگا۔آج دنیا سماجی، سیاسی، اقتصادی اور دیگر تمام شعبہ ہائے حیات میں کسمپرسی اور شکست و ریخت کی شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے کہ وہ نبی رحمت کے اسوہ اعلیٰ و بالا سے روشنی حاصل نہیں کررہی ہے ۔ یہ دنیا اور اہل دنیا کا عجیب نظریہ ہے کہ زندگی کے کسی مسئلہ کا حل تلاش کرتے وقت اگر فارمولہ نبوی ﷺ کو پیش کردیا جائے، تو تعصب اور تنگ نظری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جان بوجھ کر اس سے پہلو تہی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ صحیح حل تلاشنے میں ناکام رہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اس ذات گرامی اطہر و مقدس سے اپنی نسبت جوڑنا ہی متاع دین و دنیا سمجھتے ہیں، ان کے عمل اور طرز عمل کا جائزہ لیں، تو اس سے کہیں زیادہ تعجب و حیرانی ہوگی ۔ کیوں کہ ان کے قول و عمل میں زمین و آسمان کا فرق ملے گا۔ اہل نبی رحمت اس دعویٰ سے کبھی دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے کہ اسلام اور دامن رسول ﷺ سے وابستگی میں ہی کائنات کی بھلائی و کامرانی ہے؛ لیکن عمل کا جائزہ بتلاتا ہے کہ یہ محض ان کا زبانی دعویٰ ہے، عملی زندگی کا نمونہ اس سے کوسوں دور ہے۔ 
اگر معاملہ صرف یہی تک رہتا تو بھی قدرے غنیمت ہوتی، لیکن تعجب بالائے تعجب تو یہ ہے کہ اس حوالے سے عملی رکاوٹ پر یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ’’یہ یہود کی سازش ہے‘‘۔ ’’یہ کفر کا فریب ہے‘‘۔ ’’یہ نصاریٰ کا فتنہ ہے‘‘۔ ’’یہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کیا جارہا ہے‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ 
داڑھی پر پابندی کی بات کہی جائے، تو کفر کی سازش نظر آتی ہے، لیکن یہ تلقین کی جائے کہ نبی اکرم ﷺ کا چہرہ ریش مبارک سے منور تھا، تو عمل کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ مائک سے اذان پر حدبندی کی جائے ، تو غیروں کا تعصب جھلکتا ہے؛ لیکن صدائے حی علیٰ الفلاح سے ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ عوامی مقام پر نماز کی پابندی کا فرمان جاری کیا جائے، تو یہ مذہبی پابندی کا اعلان عام ہے؛ لیکن اپنی مسجد میں جمعہ کے علاوہ حاضری کو باعث عار سمجھنا ہمارا شیوہ ہے۔ امریکہ اسرائیل کے لیے رحم دلی دکھائے، تو یہود و نصاریٰ اسلام کی بیخ کنی کے درپے ہیں، لیکن ہم اپنے عمل و فکر سے ہر لمحہ اسلام کی ہدایات کی دھجیاں اڑائیں اور نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ کا منھ چڑائیں، تو کوئی بات نہیں!!!!!! ایں چہ بو العجبی است۔۔۔؟!!!!۔ 
اوپر جتنے بھی حوالے آئے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ راقم السطور ان چیزوں کا حامی ہے؛ راقم صرف آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہے کہ آج اسلام اور صاحب شرع دین متین نبی عربی و امی ﷺ سے ہمارا تعلق محض جذباتی رہ گیا ہے۔ ہماری عملی زندگی اسلام اور شارع اسلام سے بالکل خالی ہوچکی ہے۔ جب جذباتیت کا کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو ہمارا مبلغ فکر فورا پکار اٹھتا ہے کہ یہ ’’یہود، نصاریٰ اور کفر کی سازش ہے‘‘۔ اس کی سچائی پر ہم سوال نہیں اٹھاتے، لیکن اس سوال سے بھی توپہلی تہی نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری زندگی اسوہ رسول اکرم ﷺ سے مختلف کیوں ہے؟ اس میں کس کی سازش ہے۔۔۔؟!!!!!!!!!۔ 

1 Jun 2018

رمضان میں نبوی سخاوت وسعت کے باوجود خرچ نہ کرنے سے خرچ کرنے کی توفیق چھن سکتی ہے

رمضان میں نبوی سخاوت
وسعت کے باوجود خرچ نہ کرنے سے خرچ کرنے کی توفیق چھن سکتی ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی
رابطہ9871552408
حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے۔ اس کے باوجود جب رمضان آتا، تو آپ کی سخاوت تیز ہوا سے بھی زیادہ برق رفتار ہوجاتی۔ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں کہ 
و کان النبی ﷺ اجود الناس، واجود مایکون فی رمضان، یکثر فیہ من الصدقۃ والاحسان و تلاوۃ القرآن والصلاۃ و الذکر والاعتکاف۔ (زاد المعاد،۲؍۳۲)
حضرت ابن عباسؓ سے بخاری میں ایک روایت منقول ہے کہ 
کان رسول اللہ ﷺ اجود الناس، و کان اجود مایکون فی رمضان حین یلقاہ جبرئیل، و کان یلقاہ فی کل لیلۃ من رمضان، فیدارسہ القرآن، فلرسو ل اللہ ﷺ اجود بالخیر من الریح المرسلۃ 
یہ حدیث شاہد عدل ہے کہ رمضان کا کوئی دن ایسا نہیں گذرتا تھا، جس دن نبی اکرم ﷺ سخاوت و فیاضی نہ کرتے ہوں۔ اس لیے نبوی طریقہ پر عمل کرتے ہوئے ہمارا فریضہ اور وطیرہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم بھی روزانہ کچھ نہ کچھ اللہ کے راستے میں خرچ کریں ۔
جن لوگوں کے پاس وسعت ہے اور اس کے باوجود وہ خرچ نہیں کرتے، ایسے لوگوں کے بارے میں خطرہ یہ ہے کہ ان سے خرچ کرنے کی توفیق ہی سلب نہ کر لی جائے اور پھر ہمیشہ ہمیش کے لیے اس کا مال اس کے لیے طوق بن جائے اور کل قیامت کے دن اسی مال کو گنجا سانپ بناکر اس پر مسلط کردیا جائے ۔ 
ولا یحسبن الذین یبخلون بما آتاھم اللہ من فضلہ ھو خیرا لھم بل ھو شر لھم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃ وللہ میراث السماوات والأرض واللہ بما تعملون خبیر 
و في الحديث الصحیح، ''إن البخیل یمثل لہ مالہ یوم القیامۃ شجاعا أقرع، لہ زبیبتان، یأخذ بلھزمتیہ یقول: أنا مالک، أنا کنزک، وتلا رسول اللہ ﷺ مصداق ذلک، ھذہ الآیۃ۔
تاریخ اسلام کا مشہور واقعہ ہے کہ 
ثعلبہ بن حاطب انصاری رضی اللہ عنہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہتعالیٰ سے میرے مال میں فراوانی اور رزق میں فراخی کی دعا فرمادیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: ثعلبہ! اللہ تجھ پر رحم کرے، وہ کم جس کا شکر ادا کرسکو اس زیادہ سے بہتر ہے جس کے تحمل کی تم میں طاقت نہ ہو۔ یہ سن کر اس وقت چلے گئے، لیکن بعد میں یہ دوبارہ آئے اوراپنی بات دہرائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: کیا تمھارے لیے مجھ میں بہترین اسوہ نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں چاہوں کہ پہاڑ سونا اور چاندی بن کر میرے ساتھ ساتھ چلیں تو چلیں گے۔ چنانچہ خاموش ہوگئے۔
کچھ دنوں کے بعد ایک دفعہ پھر آئے اور طلب مال کی وہی پرانی بات دہرائی اور کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے مال عطا کیا تو میں ہر حقدار کو اس کا حق ادا کروں گا۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی۔
راوی کا بیان ہے کہ انھوں نے بکری پالی۔ نبی اکرم ﷺ کی دعا کی برکت سے اس کی کیڑوں کی طرح افزائش ہوئی ، جس کی دیکھ ریکھ کے لیے بہت زیادہ مشغول رہنے لگے۔ اب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ظہر اور عصر پڑھتے تھے، بقیہ نمازیں اپنی بکریوں میں پڑھاکرتے تھے ۔ بکریوں کی تعداد روز بروز بڑھتی رہی ، جس کی دیکھ بھال کے لیے اتنے مصروف ہوگئے کہ جمعہ اور جماعت میں بھی حاضر نہیں ہونے لگے۔ البتہ جب جمعہ کا دن آتا تو لوگوں سے نبی اکرم ﷺ کے حال پوچھ لیا کرتے تھے۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ کا ذکر کیا اور صحابہ سے دریافت کیا، تو انھوں نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! ثعلبہ نے اتنی بکریاں پال لی ہیں کہ ان کے لیے وادیاں تنگ ہورہی ہیں۔ اور وہ مدینہ سے باہر قیام پذیر ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا: ہائے ثعلبہ! ہائے ثعلبہ! ہائے ثعلبہ!۔
جب زکوۃ فرض ہوئی، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم کے ایک اور بنو جہینہ کے ایک (دو آدمیوں) کو زکوۃ کا نصاب لکھ کر ثعلبہ اور بنو سلیم کے ایک شخص کے پاس وصولی کے لیے بھیجا۔چنانچہ وہ دونوں ثعلبہ کے پاس پہنچے۔ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سناکر زکوۃ طلب کی۔ ثعلبہ نے کہا: یہ تو جزیہ ہے۔ یہ تو جزیہ جیسی بات ہے۔ جاؤ دوسروں سے فارغ ہوکے میرے پاس آنا۔ وہ دونوں بنوسلیم کیشخص کے پاس گئے، اس شخص نے قاصد رسول کی آمد کے بارے میں سنا تو اپنے اچھے اچھے اونٹ صدقہ کے لیے الگ کردیے۔اوران دونوں کا استقبال کرتے ہوئے اچھے الگ کیے ہوئے اونٹ پیش کیے۔قاصد رسول نے کہا: یہ آپ پر واجب نہیں (یعنی اوسط سے بڑھ کر اچھے اچھے اونٹ تم پر واجب نہیں)۔ لیکن اس شخص نے کہا یہیں اونٹ قبول کریں میں بہ طیب خاطر دے رہا ہوں۔
وہ دونوں دوسرے لوگوں کے پاس بھی گئے اور ان سے زکوۃ وصول کرکے، دوبارہ ثعلبہ کے پاس آئے تو ثعلبہ نے کہا: مجھے خط دکھاؤ۔ اسے پڑھا پھر کہا: یہ تو جزیہ ہے۔ یہ تو جزیہ جیسی بات ہے۔ آپ دونوں جائیں میں غور کرتا ہوں۔
جب وہ دونوں واپس ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ نے ان کو دیکھ کر گفتگو سے پہلے ہی کہا: ہائے ثعلبہ! پھر بنو سلیم کے آدمی کے لیے خیر وبرکت کی دعا کی۔ اس کے بعد ان دونوں نے آپ کو ثعلبہ کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔ پھر قرآن پاک کی یہ آیات نازل ہوئیں۔
وَمِنْھمْ مَنْ عَاھَدَ اللَہَ لَءِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلہِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِینَ (۷۵) فَلَمَّا آتَاھُمْ مِنْ فَضْلِہِ بَخِلُوا بِہِ وَتَوَلَّوْا وَھُمْ مُعْرِضُونَ (۷۶) فَأَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِھِمْ إِلَی یَوْمِ یَلْقَوْنہُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَہَ مَا وَعَدُوہُ وَبِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ (التوبۃ: ۵۷ ۔ ۷۷) 
ترجمہ: (ان میں بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انھیں اس کی پروا تک نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اللہ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھادیا،جو اللہ کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا)۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثعلبہ کے قرابت داروں میں سے ایک شخص موجود تھا۔ وہ یہ بات سن کے بھاگتا ہوا ثعلبہ کے پاس پہنچا اور کہا: ثعلبہ تم برباد ہوئے۔ تمھارے بارے میں ایسی اور ایسی آیت نازل ہوئی ہے۔ ثعلبہ بہت پچھتائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھارا صدقہ قبول کرنے سے منع کردیا ہے، چنانچہ وہ حسرت وندامت سے اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: یہ تو خود تمھارا عمل ہے۔ میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا لیکن تم نے میری ایک نہ مانی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صدقہ قبول کرنے سے انکار کردیا تو وہ اپنے گھر لوٹ آئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کبھی ان کا صدقہ قبول نہیں کیا ۔بعد ازاں حضرت ابوبکر اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنھما کا دور آیا اور ان دونوں کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو ان دونوں کا یہی جواب تھا کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا، میں کیسے قبول کرلوں؟ پھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا۔ ثعلبہ ان کے پاس بھی اپنا صدقہ لے کر آئے اور قبول کرنے کی درخواست کی۔ انھوں نے جواب دیا: جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا، اور نہ ہی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم نے قبول کیا تومیں کیسے قبول کرسکتا ہوں؟ چنانچہ اسی حالت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ثعلبہ کی وفات ہوئی۔ 
یہ واقعہ ہمارا لیے درس عبرت ہے کہ اگر ہم موقع رہتے ہوئے خرچ نہیں کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ہمارے لیے خرچ کرنے کی توفیق ، حتیٰ کہ راستے تک بند کردیں گے اور ناکامی ہماری مقدر بن جائے گی۔ اس لیے آئیے نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اس واقعہ سے عبرت لیں اور اس مقدس مہینے میں ہر روز کچھ نہ کچھ خرچ کرنے کا معمول بنائیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق ارزانی کرے۔ آمین۔

ہمارا روزہ تین تبدیلیوں کے ذریعہ آسان کردیا گیا ہے

ہمارا روزہ تین تبدیلیوں کے ذریعہ آسان کردیا گیا ہے 
محمد یاسین قاسمی جہازی
واٹس ایپ: 9871552408
روزہ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ گذشتہ امتوں میں بھی روزہ فرض کیا گیا تھا، البتہ اس کی صورت اور وقت بدلتا رہا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کا طرز عمل بھی روزہ کے حوالے سے مختلف رہا ہے۔ چنانچہ(۱) حضرت نوح علیہ السلام: صوم دھر یعنی ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے۔(۲) حضرت داود علیہ السلام:ایک دن روزہ ایک دن افطار کیا کرتے تھے۔(۳) حضرت عیسی علیہ السلام:ایک دن روزہ اور ایک دن یا کئی دن افطار کیا کرتے تھے۔(۴) خاتم المرسلین صلیٰ اللہ علیہ وسلم:کبھی روزہ رکھا کرتے تھے اور کبھی افطار کیا کرتے تھے۔
آج جو ہم روزہ رکھتے ہیں، اس میں تین تبدیلیوں کے بعد اسے آسان بنایا گیا ہے ، جس کی تفصیل تفسیر ابن کثیرجلد ۲؍ میں آیت نمبر ۱۸۲ کے تحتبیان کی گئی ہے کہ نماز کی طرح روزہ میں بھی تین تبدیلیاں ہوئی ہیں:
اول یہ کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو ہر مہینہ میں تین دن اور یوم عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب کتب علیکم الصیام کی آیت نازل ہوئی اور رمضان کا روزہ فرض ہوا تو ابتدائی حکم یہ تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دیدے۔پھر یہ آیت اتری کہ فمن شھد منکم الشھر، فلیصمہ ۔ اس آیت سے من چاہا روزہ کی اجازت ختم ہوگئی اور بغیر شرعی عذر کے روزہ رکھنا ضروری ہوگیا ۔ یہ دوسری تبدیلی تھی اور تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ ابتدا میں کھانا پینا اور عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا، لیکن سونے کے بعد جائز نہیں تھا۔ حضرت صرمہؓ دن بھر کام کرکے تھکے ہارے گھر آئے اور عشا کی نماز ادا کی اور نیند آگئی، کچھ کھانے پینے کا موقع نہیں ملا۔ دوسرے دن بغیر کھائے پیے روزہ رکھا تو حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی۔ ایک دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ حضرت عمرؓ نے سونے کے بعد اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی اور پھر حضور ﷺ کے پاس حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے قصور کا اظہار کیا۔ ان حالات کے پیش نظر یہ آیت اتری کہ احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الیٰ نسائکم ۔ اس آیت میں افطار کے وقت سے سحری ختم ہونے تک کھانے پینے اور جماع کی اجازت دی گئی ۔ اس طرح روزہ میں تین تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ 
محترم بزرگو!
یہ روزہ ہمارے لیے ابتدائی حکم کے مقابلے میں کئی سہولتوں کے ساتھ فرض کیا گیا ہے ۔ یہ روزہ سہولت سے لبریز ہے ۔ تصور کیجیے کہ اگر دوسری تبدیلی نہیں ہوئی ہوتی، تو روزہ کتنا پرمشقت ہوتا۔ اب جب کہ ان تین تبدیلیوں کے بعد روزہ آسان کردیا گیا ہے، اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم پورا روزہ رکھیں اور ہمارا ایک روزہ بھی چھوٹنے نہ پائے ، کیوں کہ رمضان کے ایک دن کے چھٹے ہوئے روزہ کی قضا میں پوری زندگی بھی روزہ رکھا جائے تو بھی رمضان کی خصوصیات و کیفیات اس میں پیدا نہیں ہوں گی۔ اللہ پاک پروردگار ہمیں رمضان کے پورے روزہ رکھنے کی توفیق بخشے ، آمین۔ 

27 May 2018

روزہ پر پانچ خصوصی انعامات

روزہ پر پانچ خصوصی انعامات
محمد یاسین جہازی 
9871552408
اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے روزہ داران کے لیے پانچ خصوصی انعامات رکھے ہیں:
(۱) روزہ داروں کے منھ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
(۲) روزہ داروں کے لیے افطار کرنے تک فرشتے حتی کہ مچھلیاں دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
(۳) روزہ داروں کے لیے روزانہ جنت سجائی جاتی ہے۔
(۴) روزہ داروں کو شیاطین کے مکرو فریب سے محفوظ رکھنے کے لیے انھیں قید میں ڈال دیا جاتا ہے۔
(۵) رمضان کی آخری رات میں سبھی روزہ داروں کی مغفرت عام کردی جاتی ہے۔ 
یہ انعامات صرف امت محمدیہ کے لیے مخصوص ہیں۔ اس سے پہلے کی کسی بھی امت کے لیے یہ انعامات نہیں تھے، اس لیے اس کی قدر کرتے ہوئے ہمیں روزہ کو اس کے آداب کے ساتھ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 
حوالہ
عَنْ أَبِي ھریْرَۃَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلّی اللَّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: '' أُعْطِیَتْ أُمَّتِي خَمْسَ خِصَالٍ فِي رَمَضَانَ لَمْ تُعْطَہُ أُمۃٌ قَبْلَھُمْ: خُلُوفُ فَمِ الصَّاءِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللَّہِ مِنْ رِیحِ الْمِسْکِ، وَتَسْتَغْفِرُ لَھُمُ الْمَلاءِکَۃُ حَتّیَ یُفْطِرُوا، وَتُصَفَّدُ فِیہِ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِینِ، فَلا یَخْلُصُونَ إِلَی مَا کَانُوا یَخْلُصُونَ فِیہِ إِلَی غَیْرہِ، وَیُزَیِّنُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیہِ فِي کُلِّ یَوْمٍ جَنَّتہُ، ثُمَّ یَقُولُ: یُوشِکُ عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ أَنْ یُلْقُوا عَنْھُمُ الْمُؤْنَۃَ وَالأَذَی، وَأَنْ یَصِیرُوا إِلَيَّ، وَیُغْفَرُ لَھُمْ فِي آخِرِ لَیْلَۃٍ، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ صَلیَ اللّہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ! ھِيَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ؟ قَالَ:’’ لا، وَلَکِنْ إِنَّمَا یُوَفّی الْعَامِلُ أَجْرَہُ إِذَا قَضَی عَمَلَہُ۔ (مسند احمد، باقی سند المکثرین، سند ابی ھریرۃؓ) 

25 May 2018

کیا تراویح میں آپ تھک جاتے ہیں؟ تو اس نبوی فارمولہ پر عمل کیجیے تھکاوٹ ختم ہوجائے گی

کیا تراویح میں آپ تھک جاتے ہیں؟ تو اس نبوی فارمولہ پر عمل کیجیے تھکاوٹ ختم ہوجائے گی
محمد یاسین جہازی 
 9871152408
یہ قدرتی نظام ہے کہ عقائد و نظریات ہمت و حوصلے بھی بخشتے ہیں اور پست ہمتی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ہاتھی کے بچے کو مضبوط زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے، تاکہ وہ اسے توڑ کر بھٹک نہ سکے۔ بیسار کوششوں کے باوجود جب وہ نہیں توڑپاتا، تو اس کا نظریہ یہ بن جاتا ہے کہ اسے توڑنا مشکل ہے۔ پھر بڑا اور مزید طاقت ور ہونے کے باوجود اسے معمولی رسی میں بھی باندھ دیا جاتا ہے، تو وہ اس توڑنے کی کوشش نہیں کرتا، کیوں کہ نظریہ اسے توڑنے کا حوصلہ نہیں دیتا۔ انسان کا نظریہ بھی اس اصول کو تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ پتھروں کو بھگوان ماننے والے یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ جوخود پر بیٹھی مکھی بھی نہیں بھگاسکتے، وہ بالآخر کائنات کا سوپر پاور کیسے ہوسکتا ہے، کیوں کہ وہ عقائد و نظریات کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ اسی طرح خدائے واحد لم یزل کا عقیدہ رکھنے والے دنیا کے بڑے سے بڑے سوپر پاور کے سامنے اپنی پیشانی نہیں جھکاسکتے، کیوں کہ ان کا نظریہ انھیں تعلیم دیتا ہے کہ جو پیشانی صرف خالق کائنات کے سامنے جھکنے کے لیے بنی ہے، اسے مخلوق کے سامنے جھکاکر رسوا نہیں کی جاسکتی۔ 
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے رمضان کی آمد سے ایک دن پہلے خطاب فرمایا ، جس میں انھوں نے بارہ باتوں کا تذکرہ کیا۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ رمضان صبر کا مہینہ ہے۔ 
نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ رمضان ہمیں کس طرح گذارنی چاہیے۔ اور اس کا بنیادی فارمولہ یہ ہے کہ ہمیں صبرو ضبط کے ساتھ رمضان کے دنوں کو گذارنا چاہیے۔ پیاس لگے، صبر کرنا چاہیے۔ بھوک ستائے، صبر کیجیے۔ تراویح میں تھکاوٹ ہو، صبر کیجیے۔ تراویح میں زیادہ رکعات کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو، تو فورا یہ سوچیے کہ یہ مہینہ تو صبر کا ہے، لہذا ہمیں اس پر صبر کرنا ہے۔ خود نبی اکرم ﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل شاہد عدل ہے کہ وہ نمازوں میں اتنی دیر تک کھڑے رہتے تھے کہ پیروں میں ورم آجاتا تھا۔ خون جمنے کی وجہ سے ان کے پیر پھول جاتے تھے۔ ان کا طریقہ ہم کو بتلاتا ہے کہ ہمیں کس طرح صبر کرنا ہے۔ کیا ہماری جان نبی اکرم ﷺ کی جان سے زیادہ قیمتی ہے، جوہم ذرا سی دیر کی وجہ سے تراویح میں کھڑے نہیں ہوتے اور انتہائی بے اعتنائی کے ساتھ تراویح پڑھتے ہیں؟ ۔ اگر آپ حوصلہ نہیں کرپاتے ہیں ،تو غور کیجیے کہ جب نبی اکرم ﷺ نے اسے صبر کا مہینہ قرار دیا ہے، تو ہمیں صبر وسکون کے ساتھ تراویح اور دیگر عبادت کو انجام دینا ہے اور کبھی مشقت محسوس ہو، تو صبر کے ساتھ اسے انجام دینا ہے۔ اس تصور کے ساتھ اور سیرت نبوی ﷺ کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ رمضان کے اعمال انجام دیں گے تو آپ کو کبھی بھی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوگی اور آپ ہر اعمال شوق و رغبت سے انجام دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی قدر کرنے والا بنائے اور اسوہ نبی پر چلنے کی توفیق دے، آمین۔

روزہ کے آداب

روزہ کے آداب

پھٹا ہوا روزہ انسان کے کسی کام کا نہیں ہوتا
تحریر: ۔۔۔ محمد یاسین قاسمی جہازی 
رابطہ:9871552408
مشائخ نے روزہ کے چھ آداب تحریر کیے ہیں:
(۱) نگاہ کی حفاظت: کیوں کہ نگاہ ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ 
(۲) زبان کی حفاظت:جھوٹ ، چغلی ، غیبت اور بکواس سے روزہ پھٹ جاتا ہے، جس سے روزہ دار کو روزہ بہت دشوار معلوم ہوتا ہے۔
(۳) کان کی حفاظت: جھوٹ ، چغلی ، غیبت اور بکواس سننا بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے، جتنا کہ انھیں کرنا۔ اس لیے روزہ میں اس سے بچنا ضروری ہے۔
(۴)دیگر اعضائے بدن کی حفاظت: مثلا ہاتھ کو ناجائز پکڑنے سے، پیٹ کو حرام افطار سے ، قدم کو غلط سمت اٹھنے سے، نیت کو غلط ارادے سے، ذہن کو غلیظ سوچ سے وغیرہ۔
(۵) افطار میں احتساب: روزہ کا مقصد قوت شہویہ کو کمزور کرنا ہے، اس لیے افطار میں احتساب کے ساتھ کھائے پیے، کہ کہیں اس سے روزہ کا مقصد تو فوت نہیں ہورہا ہے۔ اسی طرح اس میں یہ پہلو بھی شامل ہے کہ ہمارے دسترخوان پر تو قسم قسم کی نعمتیں ہیں؛ لیکن آس پڑوس میں کوئی ایسا تو نہیں، جس کے افطار کے لیے پانی بھی میسر ہے کہ نہیں۔
(۶) امید وبیم: روزہ مکمل ہونے کے بعد ، اس کے قبول اور رد ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔ رحمت الٰہی سے یہ امید رکھے کہ کوتاہیوں کے باوجود ہمارا روزہ قبول ہوگیا ہوگا۔ لیکن اللہ سے ڈرتا بھی رہے کہ خدانخواستہ اگر قبول نہ ہوا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ان آداب کے ساتھ جو بھی روزہ رکھے گا، اس کا روزہ اس کے لیے خود ڈھال بن کر بھوک پیاس اور پریشانی سے اس کی حفاظت کرے گا۔ اور جو کوئی ان کا خیال نہیں رکھے گا، تو اس کا روزہ پھٹ جائے گا۔ اور یہ روزہ اس کی کسی بھی پریشانی سے تحفظ فراہم نہیں کرسکے گا۔کیوں کہ حدیث شریف میں کہا گیا ہے کہ روزہ خود ڈھال ہے، جب تک کہ اس کو پھاڑ نہ دے۔ پوچھا گیا کہ یہ ڈھال پھٹتا کیسے ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ جھوٹ اور غیبت سے۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں ان آداب کے ساتھ روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔

19 May 2018

قسط نمبر (10) آخری قسط میت کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا بیان

میت کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا بیان
قسط نمبر (10)

(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں 
پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے
دفن کے بعد تھوڑی دیر قبر پر ٹھہرنا اور میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا، یا قرآن شریف پڑھ کر اس کو ثواب پہنچانا مستحب ہے (شامی، عالمگیری)۔
حضرت عبدالرحمان اپنے باپ علاء سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے باپ لجلاج نے فرمایا
یَا بُنَیَّ اذَا أنَا مِتُّ فَالْحِدْنِیْ ، فَاِذَا وَضَعْتَنِیْ فِیْ لَحْدِی فَقُلْ: بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلَیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہِ، ثُمَّ سَنَّ عَلَیَّ التُّرابَ سَنَّاً ثُمَّ اقْرَأ عِنْدَ رَأسِی بِفَاتِحَۃِ الْبَقْرَۃِ وَ خَاتِمِھَا، فَانِّیْ سَمِعْتُ رَسُولَ الْلّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ ذٰالِکَ۔ (رواہ الطبرانی و اسنادہ صحیح قال الحافظ الھیثمی فی مجمع الزوائد و رجالہ موثوقون)
ائے میرے بیٹے! جب میں مرجاؤں ، تو میرے لیے بغلی قبر کھودو۔ پھر جب مجھے قبر میں رکھو تو کہو بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہ۔ پھرمجھ پر آہستہ سے مٹی ڈالنا۔ پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کا شروع اور اس کا آخری حصہ پڑھنا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے ۔
سورہ بقرہ کا شروع الم سے مفلحون تک اور اس کا آخری آمن الرسول سے ختم سورہ تک ۔ (امداد الفتاویٰ)
حضرت شعبی نے بیان کیا کہ انصار کا قاعدہ تھا کہ جب ان میں سے کسی کا انتقال ہوتا،تو وہ لوگ قبروں کی طرف سے متفرق ہوجاتے اور ان کے لیے قرآن پڑھتے ۔ (شرح الصدور للسیوطی) ۔ ابو محمد سمرقندی نے قل ھو اللہ احد کے فضائل میں حضرت علیؓ سے مرفوعا روایت بیان کی ہے کہ جو شخص قبرستان سے گذرے اور گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھے ، پھر اس کا ثواب مردوں کو بخشے، تو مردوں کی گنتی کے برابر اس کو ثواب عطا ہوگا۔ (شرح الصدور)
ابوالقاسم سعید بن علی زنجانی نے اپنے فوائد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوعا روایت لائے ہیں کہ: 
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَاتِحَۃَ الْکِتابِ، وَ قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحَدٌ، وَ ألْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ، ثُمَّ قَالَ: ألْلّٰھُمَّ ا8نِّیْ جَعَلْتُ ثَوَابَ مَا قَرَأتُ مِنْ کََلَامِکَ لَأھْلِ الْمَقابِرِ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ، کَانُوْا شُفَعَاءَ لَہُ ا8لَیٰ الْلّٰہِ تَعَالیٰ (شرح الصدور)
جو شخص قبرستان میں داخل ہو۔ پھر سورہ فاتحہ اور قل ھو اللہ احد اور الھٰکم التکاثر پڑھے اور کہے کہ ائے اللہ! جو کچھ میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب قبرستان کے مسلمان مردوں اور عورتوں کے بخشا، تو وہ مردے اللہ کے حضور سفارشی ہوں گے۔
یعنی وہ تمام مردے جن کوبخشا ہے ، ثواب بخشنے والے کی سفارش کریں گے ۔  
اتنا تو رحم کرتا مرے حال زار پر
آتا کبھی تو فاتحہ پڑھنے مزار پر
اور عبد العزیز صاحب خلال نے اپنی سند سے حضرت انس کی روایت بیان کی ہے :
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأ سُوْرَۃَ یٰسٓ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ کَانَ لَہُ بِعَدَدِ مَنْ فِیْھَا حَسَنَاتٌ۔ (شرح الصدور)
جو شخص قبرستان میں آئے ، پھر سورہ یٰسٓ پڑھے ، تو اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کرے گا ۔ اور اس کو اس قبرستان کے مردوں کی گنتی کے مطابق ثواب ملے گا۔ 
ان احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن مجید پڑھ کر بخشنے سے میت کو ثواب پہنچتا ہے ۔ اور ساتھ ہی پڑھنے والے کو ثواب ملتا ہے۔ اور مردے اس کے لیے خدا کے پاس سفارشی ہوں گے۔ اس لیے قبرستان پہنچ کر وقت ضائع نہ کریں؛ بلکہ تلاوت قرآن کا ثواب پہنچا ئیں اور ا ن کے لیے دعائے مغفرت مانگیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اِسْتَغْفِرُوا لَأخِیْکُمْ وَ سَلُوْا لَہُ التَّثْبِیْتَ، فَا8نَّ الا8نْسَانَ یُسْءَلُ۔
(ابو داود)
اپنے بھائی کے لیے دعائے مغفرت مانگو، اس لیے کہ وہ ابھی پوچھا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
انَّ الْلّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِی الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ!أنّٰی لِیْ ھٰذِہِ؟ فَیَقُوْلُ: بِاِسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ۔
(احمد)
بے شک اللہ جل شانہ جنت میں اپنے نیک بندہ کا درجہ بلند فرمائے گا، تو بندہ کہے گاکہ ائے پروردگار! یہ کہاں سے مجھ کو ملا؟ (اتنی نیکیاں تو میری نہیں تھیں) پروردگار فرمائے گا کہ یہ تیرے لیے تیری اولاد کے استغفار کی وجہ سے ہے۔
یعنی تیرے لیے تیری اولاد نے دعائے مغفرت کی جس کی وجہ سے تیرا یہ درجہ بلند ہوا۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَا الْمَیِّتُ فِي الْقَبَرِ إلَّا کَالْغَرِیْقِ الْمُتَغَوِّثِ، یَنْتَظِرُ دَعْوَۃً تَلْحَقُہُ مِنْ أبٍ، أوْ أمٍ، أوْ أخٍ، أوْ صَدِیْقٍ، فَإذَا لَحِقَتْہُ کَانَ أحَبَّ إلَیْہِ مِنَ الدُّنْیا وَمَا فِیْھَا، وَإنَ الْلّٰہَ تَعَالَیٰ لَیَدْخُلُ عَلَیٰ أھْلِ الْقُبُوْرِ مِنْ دُعَاءِ أھْلِ الأرْضِ أمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإنَّ ھَدْیَۃَ الأحْیَاءِ إلَیٰ الأمْوَاتِ الاسْتِغْفَارُ لَھُمْ ۔
(رواہ البیھقي في شعب الإیمان)
میت قبر میں ڈوبنے والے غوطہ کھانے والے کے مثل ہوتے ہیں ۔ وہ دعا کا انتظار کرتے ہیں کہ اس کا باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچے۔ پھر جب اس کو کوئی دعا پہنچتی ہے ، تو وہ اس کے لیے دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے ۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ قبر والوں کو زمین والوں کی دعا کی وجہ سے پہاڑ کے مانند ثواب پہنچاتا ہے ۔ اور بے شک مردوں کے لیے زندوں کا تحفہ ان کے لیے استغفار کی دعا مانگنا ہے۔
اسی طرح اللہ کی راہ میں روپیہ پیسہ وغیرہ دے کر ثواب پہنچانے سے اس کو ثواب پہنچتا ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ نے جامع البرکات میں جو مشکوٰۃ شریف کی شرح کا منتخب ہے ، شیخ ابن الہمام ؒ کا قول لکھا ہے کہ عبادت مالی کا ثواب اور اس کا فائدہ جو کوئی کسی میت کو پہنچائے تو بالاتفاق پہنچتا ہے ۔ اور عبادت بدنی کے ثواب پہنچنے میں اختلاف ہے ۔ اور قول اصح یہ ہے کہ پہنچتا ہے ، جیسا کہ احادیث سے ثابت کیا جاچکا ہے ۔ اب عبادت مالی کے ثواب پہنچنے کے بارے میں چند حدیثیں درج کرتے ہیں ۔
حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جو شخص مرجاتا ہے اور اس کے بعد اس کے وارث اس کی طرف سے کچھ صدقہ و خیرات کرتے ہیں، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام اس صدقہ کے ثواب کو ایک نور کے طبق میں رکھ کر اس میت کی قبر کے کنارے پر کھڑے ہوکر کہتے ہیں : ائے گہری قبر والے! یہ تحفہ تجھ کو تیرے گھر والوں نے بھیجا ہے، تو اس کو قبول کر۔ پھر وہ ہدیہ اس میت کے پاس پہنچتا ہے ، تو وہ خوش ہوتا ہے اور خوش خبری پاتا ہے ۔ اور وہ مردے جو اس کے ہمسائے ہیں اور ان کے وارثوں نے کچھ ہدیہ تحفہ نہیں بھیجا ہوتا ہے ، وہ مردے اس کو دیکھ کر غم ناک اور دل گیر ہوتے ہیں۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط)۔
ایک شخص نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ میری ماں اچانک مرگئی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کلام کرتی، تو صدقہ کرتی:
فَھَلْ لَھَا أجْرٌ انْ تَصَدَّقْتُ عَنْھَا؟ قَالَ:نَعَمْ۔
(بخاری و مسلم)
اگر میں ماں کی طرف سے صدقہ کروں، تو کیا اس کو ثواب ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔حضرت سعد ابن عبادہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ ام سعد مرگئی ۔
فَأیُّ الصَّدَقَۃِ أفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَاءُ ۔ (ابو داود ، نسائی)
یعنی پس کونسا صدقہ بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پانی، تو انھوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ ام سعد کے لیے ہے ۔ 
مدینہ میں پانی کی قلت تھی ۔ آپ ﷺ نے اس کو افضل کہا۔ معلوم ہوا کہ صدقہ جاریہ میں اس کو فضیلت رہے گی ، جس کی لوگوں کو زیادہ ضرورت پڑتی ہے ۔ نفلی نمازروزے کا بھی ثواب میت کو پہنچانا درست ہے ۔ چنانچہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ جب میرے ماں باپ زندہ تھے ، تو میں ان کے ساتھ سلوک کیا کرتا تھا۔ اب ان کے مرنے کے بعدان کے ساتھ میرا سلوک کیسے ہوگا؟ ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لیے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزے کے ساتھ ان دونوں کے لیے بھی روزے رکھ (دار قطنی)
یعنی نفلی نماز روزے کا ان دونوں کو ثواب پہنچا۔حضرت مالک بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ !ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کی کوئی خدمت اولاد کے ذمہ ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہاں نماز پڑھنا اور ماں باپ کے لیے استغفار کرنا۔ اگر انھوں نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو، تو اس کو پورا کرنا۔ ماں باپ کے واسطے سے جن لوگوں کی رشتہ داری ہوتی ہو، ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ماں باپ کے دوستوں کی عزت کرنا، یہ سب باتیں ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کی خدمت میں شامل ہیں۔ (ابو داود)
تلقین بعد الموت
موت کے بعد تلقین ظاہر روایت میں منع لکھا ہے ، جیسا کہ عینی شرح ہدایہ میں ہے ۔ اور سراج الدرایہ میں مضمرات سے نقل کیا ہے کہ ہم تو قریب موت کے اور وقت دفن کے دونوں وقت تلقین کیا کرتے ہیں۔ (عالمگیری)
اور شرح برزخ میں نقل کیا ہے کہ نزع کے وقت تلقین کرنا بالاتفاق مسنون ہے۔ اور دفن کے بعد اکثر مشائخ بدلائل احادیث آئندہ کے مستحب کہتے ہیں ۔ اور اسی پر اعتماد ہے۔
حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی مرجائے اور اس کو قبر میں تم دفن کرچکو، تو تم میں سے کوئی اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے : یا فلان ابن فلانہ، یعنی ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے ، تو وہ مردہ سنتا ہے ، لیکن جواب نہیں دے سکتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ کہے : ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے ، تو وہ مردہ سیدھا اٹھ بیٹھتا ہے۔ پھر تیسری مرتبہ کہے : ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے! تو وہ مردہ کہتا ہے : 
أیْ شِدْنَا، رَحِمَکَ اللّٰہُ
پھر آں حضرت ﷺ نے فرمایا: اس مردہ کے بولنے کی تم کو خبر نہیں ہوتی۔ پھر اس سے مخاطب ہو کر کہے:
مَا خَرَجْتَ مِنَ الدُّنْیَا شَھَادَۃُ أنْ لَّا ا8لٰہَ ا8لَّا اللّٰہُ وَ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ وَ أنَّکَ رَضِیْتَ بِاللّٰہِ رَبَّاً وَّ بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ نَبِیَّاً وَّ بِالْقُرْاٰنِ ا8مَامَاً ۔ 
اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے فرمایا : جب وہ کہنے والا یہ تلقین کہہ چکتا ہے ، تو منکر نکیر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ چل ہمارے ساتھ ۔ اب تو کیا کرے گا ، اس شخص سے اس کو تو یاروں نے تلقین کردی ۔ پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! اگر میت کی ماں کا نام معلوم نہ ہو تو کیا کہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: حضرت حوا ؑ کی طرف نسبت کرکے کہیں: ائے فلاں حوا کے بیٹے۔ (طبرانی)۔
اس حدیث کے بارے میں علامہ ابن حجر نے بلوغ المرام میں فرمایا :
و للطبرانی نحوہ من حدیث ابی امامۃ مرفوعا مطولا
حضرت ضمرہ ابن خبیب ؒ جو ایک تابعی ہیں ان سے روایت ہے کہ 
کَانُوْا اذَا سُوِّیَ عَلیٰ الْمَیِّتِ قَبْرُہُ وَ انْصَرَفَ النَّاسُ عَنْہُ أنْ یُّقَالَ عِنْدَ قَبْرِہ: یا فُلانُ قُلْ لَا الٰہَ الَّا اللّٰہُ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ، یا فُلانُ قُلْ: رَبِّیَ اللّٰہُ وَ دِیْنِی الاسْلَامُ وَ نَبِیِّ مُحَمَّدٌ۔ (رواہ ابو سعید ابن منصور مرفوعا بحوالہ بلوغ المرام)
جب قبر میت پر ٹھیک کردی جاتی اور لوگ لوٹ جاتے تو صحابہ کرام مستحب سمجھتے تھے کہ اس کی قبر کے پاس کہا جائے : ائے فلاں کہہ: لا الٰہ الا اللہ۔ تین مرتبہ۔ ائے فلاں کہہ: میرا پروردگار اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرا نبی محمد ہے ﷺ ۔ 
حضرت عثمان غنی ﷺ سے مروی ہے کہ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے، تو رسول اللہ ﷺ ٹھہرجاتے اور فرماتے:
اِسْتَغْفِرُوْ لَأخِیْکُمْ وَ سَلُوْا لَہُ التَّثْبِیْتَ فَانَّہُ الآنَ یُسْءَلُ (رواہ ابو داود و صححہ الحاکم)
یعنی اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا مانگو، اس لیے کہ ابھی اس سے پوچھا جائے گا۔ 
میت پر رونے کا بیان
کیوں غل ہے مری نعش پہ نوحے کی صدا کا 
رونے کا نہیں وقت یہ ہے وقت دعا کا 
انسان غور کرے تو کوئی چیز اپنی نظر نہ آئے گی ، خواہ اولاد ہو ، یا مال؛ سب خدا کا انعام ہے، حتیٰ کہ خود اس کی ذات اللہ تعالیٰ کی ایک بخشی ہوئی نعمت ہے ۔ انسان گمان کرتا ہے کہ یہ دولت ہماری ہے اور ہم نے اپنی قوت بازو سے حاصل کیا ہے۔ یہ اس کا غلط گمان ہے ۔اگر دولت قوت بازو سے حاصل ہوتی، تو بڑے بڑے شہزور بڑے دولت مند ہوتے ۔ مگر ان کو دوسرے کی خاطر ہی شہ زوری کرنی پڑتی ہے ۔ اور چند ٹکوں میں ان کی طاقت بک جاتی ہے ۔ طاقت کا دھنی دولت کا دھنی کم ہوتا ہے۔
اگر دولت عقل و ہنر سے حاصل ہوتی، تو بڑے بڑے عقل مند اور دانش مند بڑے دولت مند ہوتے؛ مگر وہاں بھی معاملہ برعکس نظر آتا ہے ۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ؂
بنا دانا چناں روزی ساند
کہ دانایاں دراں حیران بماند
یعنی اللہ تعالیٰ نادانوں کو اس طرح روزی دیتا ہے کہ دانا اس کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ، اس لیے سب کو اللہ کی دین سمجھیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ 
وَیْکَأنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَ یَقْدِرُ۔
(القصص، آیۃ:۸۲)
تیرا برا ہو، اللہ جس کی روزی چاہتا ہے اپنے بندے میں سے فراخ کرتا ہے اور جس کی چاہتا ہے ، تنگ کرتا ہے ۔ 
یہی حال اولاد کا ہے ۔ خدا جس کو عطا کرتا ہے ، اسے اولاد ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے دولت مند اولاد کے لیے ترستے ہیں اور غربا اولاد کی کثرت سے بھوک سے مرتے ہیں ۔ اس لیے ہم اپنے کو اور اپنے مال اور اولاد کو خدا کی دین سمجھیں۔ اس لیے اگر ہماری کوئی اولاد مرجائے تو اس میت پر نوحہ کرنا ، یعنی زور زور سے ، چیخ چیخ کر رونا ، واویلا کرنا ممنوع اور حرام ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے ، جو مصیبت کے وقت گریبان چاک کرے اور رخسار پیٹے اور زمانہ جاہلیت کا سا نوحہ و ماتم کرے ۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ کرنا ممنوع ہے۔ اور اس کا مرتکب قابل ملامت ہے ۔ اور اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نوحہ و ماتم کرنے سے میت کو عذاب ہوتا ہے ۔ کیوں کہ اگر کسی مرد مومن کا انتقال ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو اکرام کے ساتھ رکھتے ہیں، جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے کہ سچے پکے مومن کے کے لیے قبر سے ہی اللہ کی نعمتیں شروع ہوجاتی ہیں ۔ اور اگر مرنے والا خدا نخواستہ گناہ گار ہے تو جہاں تک ممکن ہو اس کے لیے جلد ایصال ثواب کرے، تاکہ اس کو فائدہ پہنچے ۔ نیز صبر کرنے میں آدمی کا فائدہ ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
الصَّبْرُ عِنْدَ صَدْمَۃِ الْأوْلیٰ
صبر صدمہ کی ابتدا سے ہی ہو، یہی صبر کا اصل مقام ہے، جس پر اللہ تعالیٰ ثواب عطا کرتا ہے۔
میت کی تعریف کرنے کا بیان
کسی بھی ایسے آدمی کی برائی نہیں کرنی چاہیے ، جس کا انتقال ہوچکا ہو۔ چاہے ان کے اعمال کیسے ہی رہے ہوں ، کیوں کہ مردہ انسان کی غیبت کرنا نہایت ہی قابل گرفت جرم ہے ، چوں کہ اگر زندہ انسان کی غیبت کی تو ممکن ہے کہ اس سے معافی تلافی کرالے؛ لیکن مردہ سے تویہ بھی ممکن نہیں۔ اور یہ بھی بات ہے کہ کسی انسان کی کامیابی اور ناکامی اس کے اعمال سے براہ راست نہیں؛ بلکہ رحمت حق بہانہ می جوید ۔ نہ جانے اللہ تبارک و تعالیٰ کو کس انسان کی کون سی ادا پسند آجائے، جس سے خوش ہوکر اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں، اس لیے کسی مردہ انسان پر لعنت کرنا جائز نہیں؛ الا یہ کہ قطعی طور پر یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے۔
اہل میت کے لیے کھانا تیار کرنا
حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفرؓ کی شہادت کی خبر آئی، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، کیوں کہ ان کو وہ رنج و غم پہنچا ہے ، جو ان کو کھانا پکانے سے مشغول رکھے گا۔ اس لیے بہت سے علماء کا یہ قول ہے کہ اہل میت کے لیے ایک دن ایک رات کا کھانا تیار کرنا مستحب ہے ۔ اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ تین دن تک مستحب ہے ، لہذا جس کے گھر موت ہوگی، پڑوسی اور اپنے رشتہ داروں کو کھانا پکواکر بھیجنا چاہیے۔ بہرحال پریشان حال کی دلداری اور غمزدہ انسان کی غمخواری تو ایک فطری چیز ہے ، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ اہل میت کے صدمہ کے پیش نظر ان کی تسلی کی جائے، ان کو دلاسہ دیا جائے اور ان کو صبرو ضبط کی تلقین کی جائے ، ان کے ساتھ نہایت نرمی کا برتاؤ کیا جائے ، تاکہ ان کا غم غلط ہوسکے اور ان کو زندگی میں سکون و اطمینان حاصل ہوسکے۔

حوالہ جات
۱۔ قرآن کریم
۲۔ بخاری
۳۔ مسلم۔
۴۔ نسائی
۵۔ ابن ماجہ
۶۔ مؤطا امام مالک
۷۔ کنز العباد فی شرح الاوراد
۸۔ الجامع الصغیر
۹۔ رفاہ المسلمین فی شرح مسائل الاربعین
۱۰۔ شِرعۃ الاسلام
۱۱۔ سفر السعادۃ وسفیر الافادۃ
۱۲۔ رزین العرب
۱۳۔ جامع شتیٰ
۱۴۔ اشرف الوسائل الیٰ فہم الشمائل
۱۵۔ الجامع الکبیر
۱۶۔ الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی
۱۷۔ احیاء علوم الدین
۱۸۔ الحصن الحصین فی کلام سید المرسلین
۱۹۔ جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر
۲۰۔ مسند احمد ابن حنبل
۲۱۔ خزانۃ الفتاویٰ
۲۲۔ ادب القاضی
۲۳۔ عین العلم و زین الحلم
۲۴۔ فتاویٰ قاضی خاں
۲۵۔ مجمع البرکات لابی البرکات بن حسام الدین الدمنوی
۲۶۔ تفسیر الزاہدی
۲۷۔ شرح السعادۃ
۲۸۔ فتاویٰ عالم گیری
۲۹۔ مطالب المومنین
۳۰۔ جواہر الفتاویٰ
۳۱۔ تفسیر فتح العزیز المعروف بہ تفسیر عزیزی
۳۲۔ فتاویٰ حمادیہ
۳۳۔ تنبیہ الانام
۳۴۔ فتاویٰ سراجیہ
۳۵۔ مالابد منہ
۳۶۔ انیس الواعظین
۳۷۔ تفسیر الخازن
۳۸۔ کنز الدقائق
۳۹۔ مواھب الرحمان فی تفسیر القرآن
۴۰۔ تحفۃ الملوک
۴۱۔ عینی (ہدایہ
۴۲۔ سراج الہدایہ
۴۳۔ ہدایہ
۴۴۔ شرح برزخ
۴۵۔ بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام
۴۶۔ حق السماع
۴۷۔ الدیلمی
۴۸۔ رسالہ نصیحت
۴۹۔ مبسوط
۵۰۔ رسالہ ابطال
۵۱۔ بوارق
۵۲۔ المواھب اللدنیہ
۵۳۔ نور الہدایہ
۵۴۔ وصایا
۵۵۔ رد محتار
۵۶۔ در مختار
۵۷۔ فتاویٰ تاتارخانیہ
۵۸۔ الکفایہ للشعبی
۵۹۔ خزانہ جلالی
۶۰۔ رحمۃ الامہ فی اختلاف الائمہ
۶۱۔ بنایہ شرح ہدایہ
۶۲۔ شرح وقایہ
۶۳۔الملتقط فی الفتاویٰ الحنفیہ
۶۴۔ تحفۃ الزوجین
۶۵۔ مشکوٰۃ المصابیح