میت کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا بیان
قسط نمبر (10)
(حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی کتاب : رہ نمائے مسلم سے اقتباس۔ یہ کتاب پیدائش سے لے کر موت تک ایک مکمل اسلامی لائف گائڈ ہے۔)
ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں
پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے
دفن کے بعد تھوڑی دیر قبر پر ٹھہرنا اور میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا، یا قرآن شریف پڑھ کر اس کو ثواب پہنچانا مستحب ہے (شامی، عالمگیری)۔
حضرت عبدالرحمان اپنے باپ علاء سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے باپ لجلاج نے فرمایا
یَا بُنَیَّ اذَا أنَا مِتُّ فَالْحِدْنِیْ ، فَاِذَا وَضَعْتَنِیْ فِیْ لَحْدِی فَقُلْ: بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلَیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہِ، ثُمَّ سَنَّ عَلَیَّ التُّرابَ سَنَّاً ثُمَّ اقْرَأ عِنْدَ رَأسِی بِفَاتِحَۃِ الْبَقْرَۃِ وَ خَاتِمِھَا، فَانِّیْ سَمِعْتُ رَسُولَ الْلّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ ذٰالِکَ۔ (رواہ الطبرانی و اسنادہ صحیح قال الحافظ الھیثمی فی مجمع الزوائد و رجالہ موثوقون)
ائے میرے بیٹے! جب میں مرجاؤں ، تو میرے لیے بغلی قبر کھودو۔ پھر جب مجھے قبر میں رکھو تو کہو بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہ۔ پھرمجھ پر آہستہ سے مٹی ڈالنا۔ پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کا شروع اور اس کا آخری حصہ پڑھنا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے ۔
سورہ بقرہ کا شروع الم سے مفلحون تک اور اس کا آخری آمن الرسول سے ختم سورہ تک ۔ (امداد الفتاویٰ)
حضرت شعبی نے بیان کیا کہ انصار کا قاعدہ تھا کہ جب ان میں سے کسی کا انتقال ہوتا،تو وہ لوگ قبروں کی طرف سے متفرق ہوجاتے اور ان کے لیے قرآن پڑھتے ۔ (شرح الصدور للسیوطی) ۔ ابو محمد سمرقندی نے قل ھو اللہ احد کے فضائل میں حضرت علیؓ سے مرفوعا روایت بیان کی ہے کہ جو شخص قبرستان سے گذرے اور گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھے ، پھر اس کا ثواب مردوں کو بخشے، تو مردوں کی گنتی کے برابر اس کو ثواب عطا ہوگا۔ (شرح الصدور)
ابوالقاسم سعید بن علی زنجانی نے اپنے فوائد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوعا روایت لائے ہیں کہ:
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَاتِحَۃَ الْکِتابِ، وَ قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحَدٌ، وَ ألْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ، ثُمَّ قَالَ: ألْلّٰھُمَّ ا8نِّیْ جَعَلْتُ ثَوَابَ مَا قَرَأتُ مِنْ کََلَامِکَ لَأھْلِ الْمَقابِرِ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ، کَانُوْا شُفَعَاءَ لَہُ ا8لَیٰ الْلّٰہِ تَعَالیٰ (شرح الصدور)
جو شخص قبرستان میں داخل ہو۔ پھر سورہ فاتحہ اور قل ھو اللہ احد اور الھٰکم التکاثر پڑھے اور کہے کہ ائے اللہ! جو کچھ میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب قبرستان کے مسلمان مردوں اور عورتوں کے بخشا، تو وہ مردے اللہ کے حضور سفارشی ہوں گے۔
یعنی وہ تمام مردے جن کوبخشا ہے ، ثواب بخشنے والے کی سفارش کریں گے ۔
اتنا تو رحم کرتا مرے حال زار پر
آتا کبھی تو فاتحہ پڑھنے مزار پر
اور عبد العزیز صاحب خلال نے اپنی سند سے حضرت انس کی روایت بیان کی ہے :
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأ سُوْرَۃَ یٰسٓ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ کَانَ لَہُ بِعَدَدِ مَنْ فِیْھَا حَسَنَاتٌ۔ (شرح الصدور)
جو شخص قبرستان میں آئے ، پھر سورہ یٰسٓ پڑھے ، تو اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کرے گا ۔ اور اس کو اس قبرستان کے مردوں کی گنتی کے مطابق ثواب ملے گا۔
ان احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن مجید پڑھ کر بخشنے سے میت کو ثواب پہنچتا ہے ۔ اور ساتھ ہی پڑھنے والے کو ثواب ملتا ہے۔ اور مردے اس کے لیے خدا کے پاس سفارشی ہوں گے۔ اس لیے قبرستان پہنچ کر وقت ضائع نہ کریں؛ بلکہ تلاوت قرآن کا ثواب پہنچا ئیں اور ا ن کے لیے دعائے مغفرت مانگیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اِسْتَغْفِرُوا لَأخِیْکُمْ وَ سَلُوْا لَہُ التَّثْبِیْتَ، فَا8نَّ الا8نْسَانَ یُسْءَلُ۔
(ابو داود)
اپنے بھائی کے لیے دعائے مغفرت مانگو، اس لیے کہ وہ ابھی پوچھا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
انَّ الْلّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِی الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ!أنّٰی لِیْ ھٰذِہِ؟ فَیَقُوْلُ: بِاِسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ۔
(احمد)
بے شک اللہ جل شانہ جنت میں اپنے نیک بندہ کا درجہ بلند فرمائے گا، تو بندہ کہے گاکہ ائے پروردگار! یہ کہاں سے مجھ کو ملا؟ (اتنی نیکیاں تو میری نہیں تھیں) پروردگار فرمائے گا کہ یہ تیرے لیے تیری اولاد کے استغفار کی وجہ سے ہے۔
یعنی تیرے لیے تیری اولاد نے دعائے مغفرت کی جس کی وجہ سے تیرا یہ درجہ بلند ہوا۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَا الْمَیِّتُ فِي الْقَبَرِ إلَّا کَالْغَرِیْقِ الْمُتَغَوِّثِ، یَنْتَظِرُ دَعْوَۃً تَلْحَقُہُ مِنْ أبٍ، أوْ أمٍ، أوْ أخٍ، أوْ صَدِیْقٍ، فَإذَا لَحِقَتْہُ کَانَ أحَبَّ إلَیْہِ مِنَ الدُّنْیا وَمَا فِیْھَا، وَإنَ الْلّٰہَ تَعَالَیٰ لَیَدْخُلُ عَلَیٰ أھْلِ الْقُبُوْرِ مِنْ دُعَاءِ أھْلِ الأرْضِ أمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإنَّ ھَدْیَۃَ الأحْیَاءِ إلَیٰ الأمْوَاتِ الاسْتِغْفَارُ لَھُمْ ۔
(رواہ البیھقي في شعب الإیمان)
میت قبر میں ڈوبنے والے غوطہ کھانے والے کے مثل ہوتے ہیں ۔ وہ دعا کا انتظار کرتے ہیں کہ اس کا باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچے۔ پھر جب اس کو کوئی دعا پہنچتی ہے ، تو وہ اس کے لیے دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے ۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ قبر والوں کو زمین والوں کی دعا کی وجہ سے پہاڑ کے مانند ثواب پہنچاتا ہے ۔ اور بے شک مردوں کے لیے زندوں کا تحفہ ان کے لیے استغفار کی دعا مانگنا ہے۔
اسی طرح اللہ کی راہ میں روپیہ پیسہ وغیرہ دے کر ثواب پہنچانے سے اس کو ثواب پہنچتا ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ نے جامع البرکات میں جو مشکوٰۃ شریف کی شرح کا منتخب ہے ، شیخ ابن الہمام ؒ کا قول لکھا ہے کہ عبادت مالی کا ثواب اور اس کا فائدہ جو کوئی کسی میت کو پہنچائے تو بالاتفاق پہنچتا ہے ۔ اور عبادت بدنی کے ثواب پہنچنے میں اختلاف ہے ۔ اور قول اصح یہ ہے کہ پہنچتا ہے ، جیسا کہ احادیث سے ثابت کیا جاچکا ہے ۔ اب عبادت مالی کے ثواب پہنچنے کے بارے میں چند حدیثیں درج کرتے ہیں ۔
حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جو شخص مرجاتا ہے اور اس کے بعد اس کے وارث اس کی طرف سے کچھ صدقہ و خیرات کرتے ہیں، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام اس صدقہ کے ثواب کو ایک نور کے طبق میں رکھ کر اس میت کی قبر کے کنارے پر کھڑے ہوکر کہتے ہیں : ائے گہری قبر والے! یہ تحفہ تجھ کو تیرے گھر والوں نے بھیجا ہے، تو اس کو قبول کر۔ پھر وہ ہدیہ اس میت کے پاس پہنچتا ہے ، تو وہ خوش ہوتا ہے اور خوش خبری پاتا ہے ۔ اور وہ مردے جو اس کے ہمسائے ہیں اور ان کے وارثوں نے کچھ ہدیہ تحفہ نہیں بھیجا ہوتا ہے ، وہ مردے اس کو دیکھ کر غم ناک اور دل گیر ہوتے ہیں۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط)۔
ایک شخص نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ میری ماں اچانک مرگئی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کلام کرتی، تو صدقہ کرتی:
فَھَلْ لَھَا أجْرٌ انْ تَصَدَّقْتُ عَنْھَا؟ قَالَ:نَعَمْ۔
(بخاری و مسلم)
اگر میں ماں کی طرف سے صدقہ کروں، تو کیا اس کو ثواب ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔حضرت سعد ابن عبادہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ ام سعد مرگئی ۔
فَأیُّ الصَّدَقَۃِ أفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَاءُ ۔ (ابو داود ، نسائی)
یعنی پس کونسا صدقہ بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پانی، تو انھوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ ام سعد کے لیے ہے ۔
مدینہ میں پانی کی قلت تھی ۔ آپ ﷺ نے اس کو افضل کہا۔ معلوم ہوا کہ صدقہ جاریہ میں اس کو فضیلت رہے گی ، جس کی لوگوں کو زیادہ ضرورت پڑتی ہے ۔ نفلی نمازروزے کا بھی ثواب میت کو پہنچانا درست ہے ۔ چنانچہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ جب میرے ماں باپ زندہ تھے ، تو میں ان کے ساتھ سلوک کیا کرتا تھا۔ اب ان کے مرنے کے بعدان کے ساتھ میرا سلوک کیسے ہوگا؟ ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لیے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزے کے ساتھ ان دونوں کے لیے بھی روزے رکھ (دار قطنی)
یعنی نفلی نماز روزے کا ان دونوں کو ثواب پہنچا۔حضرت مالک بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ !ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کی کوئی خدمت اولاد کے ذمہ ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہاں نماز پڑھنا اور ماں باپ کے لیے استغفار کرنا۔ اگر انھوں نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو، تو اس کو پورا کرنا۔ ماں باپ کے واسطے سے جن لوگوں کی رشتہ داری ہوتی ہو، ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ماں باپ کے دوستوں کی عزت کرنا، یہ سب باتیں ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کی خدمت میں شامل ہیں۔ (ابو داود)
تلقین بعد الموت
موت کے بعد تلقین ظاہر روایت میں منع لکھا ہے ، جیسا کہ عینی شرح ہدایہ میں ہے ۔ اور سراج الدرایہ میں مضمرات سے نقل کیا ہے کہ ہم تو قریب موت کے اور وقت دفن کے دونوں وقت تلقین کیا کرتے ہیں۔ (عالمگیری)
اور شرح برزخ میں نقل کیا ہے کہ نزع کے وقت تلقین کرنا بالاتفاق مسنون ہے۔ اور دفن کے بعد اکثر مشائخ بدلائل احادیث آئندہ کے مستحب کہتے ہیں ۔ اور اسی پر اعتماد ہے۔
حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی مرجائے اور اس کو قبر میں تم دفن کرچکو، تو تم میں سے کوئی اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے : یا فلان ابن فلانہ، یعنی ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے ، تو وہ مردہ سنتا ہے ، لیکن جواب نہیں دے سکتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ کہے : ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے ، تو وہ مردہ سیدھا اٹھ بیٹھتا ہے۔ پھر تیسری مرتبہ کہے : ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے! تو وہ مردہ کہتا ہے :
أیْ شِدْنَا، رَحِمَکَ اللّٰہُ
پھر آں حضرت ﷺ نے فرمایا: اس مردہ کے بولنے کی تم کو خبر نہیں ہوتی۔ پھر اس سے مخاطب ہو کر کہے:
مَا خَرَجْتَ مِنَ الدُّنْیَا شَھَادَۃُ أنْ لَّا ا8لٰہَ ا8لَّا اللّٰہُ وَ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ وَ أنَّکَ رَضِیْتَ بِاللّٰہِ رَبَّاً وَّ بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ نَبِیَّاً وَّ بِالْقُرْاٰنِ ا8مَامَاً ۔
اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے فرمایا : جب وہ کہنے والا یہ تلقین کہہ چکتا ہے ، تو منکر نکیر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ چل ہمارے ساتھ ۔ اب تو کیا کرے گا ، اس شخص سے اس کو تو یاروں نے تلقین کردی ۔ پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! اگر میت کی ماں کا نام معلوم نہ ہو تو کیا کہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: حضرت حوا ؑ کی طرف نسبت کرکے کہیں: ائے فلاں حوا کے بیٹے۔ (طبرانی)۔
اس حدیث کے بارے میں علامہ ابن حجر نے بلوغ المرام میں فرمایا :
و للطبرانی نحوہ من حدیث ابی امامۃ مرفوعا مطولا
حضرت ضمرہ ابن خبیب ؒ جو ایک تابعی ہیں ان سے روایت ہے کہ
کَانُوْا اذَا سُوِّیَ عَلیٰ الْمَیِّتِ قَبْرُہُ وَ انْصَرَفَ النَّاسُ عَنْہُ أنْ یُّقَالَ عِنْدَ قَبْرِہ: یا فُلانُ قُلْ لَا الٰہَ الَّا اللّٰہُ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ، یا فُلانُ قُلْ: رَبِّیَ اللّٰہُ وَ دِیْنِی الاسْلَامُ وَ نَبِیِّ مُحَمَّدٌ۔ (رواہ ابو سعید ابن منصور مرفوعا بحوالہ بلوغ المرام)
جب قبر میت پر ٹھیک کردی جاتی اور لوگ لوٹ جاتے تو صحابہ کرام مستحب سمجھتے تھے کہ اس کی قبر کے پاس کہا جائے : ائے فلاں کہہ: لا الٰہ الا اللہ۔ تین مرتبہ۔ ائے فلاں کہہ: میرا پروردگار اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرا نبی محمد ہے ﷺ ۔
حضرت عثمان غنی ﷺ سے مروی ہے کہ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے، تو رسول اللہ ﷺ ٹھہرجاتے اور فرماتے:
اِسْتَغْفِرُوْ لَأخِیْکُمْ وَ سَلُوْا لَہُ التَّثْبِیْتَ فَانَّہُ الآنَ یُسْءَلُ (رواہ ابو داود و صححہ الحاکم)
یعنی اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا مانگو، اس لیے کہ ابھی اس سے پوچھا جائے گا۔
میت پر رونے کا بیان
کیوں غل ہے مری نعش پہ نوحے کی صدا کا
رونے کا نہیں وقت یہ ہے وقت دعا کا
انسان غور کرے تو کوئی چیز اپنی نظر نہ آئے گی ، خواہ اولاد ہو ، یا مال؛ سب خدا کا انعام ہے، حتیٰ کہ خود اس کی ذات اللہ تعالیٰ کی ایک بخشی ہوئی نعمت ہے ۔ انسان گمان کرتا ہے کہ یہ دولت ہماری ہے اور ہم نے اپنی قوت بازو سے حاصل کیا ہے۔ یہ اس کا غلط گمان ہے ۔اگر دولت قوت بازو سے حاصل ہوتی، تو بڑے بڑے شہزور بڑے دولت مند ہوتے ۔ مگر ان کو دوسرے کی خاطر ہی شہ زوری کرنی پڑتی ہے ۔ اور چند ٹکوں میں ان کی طاقت بک جاتی ہے ۔ طاقت کا دھنی دولت کا دھنی کم ہوتا ہے۔
اگر دولت عقل و ہنر سے حاصل ہوتی، تو بڑے بڑے عقل مند اور دانش مند بڑے دولت مند ہوتے؛ مگر وہاں بھی معاملہ برعکس نظر آتا ہے ۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ
بنا دانا چناں روزی ساند
کہ دانایاں دراں حیران بماند
یعنی اللہ تعالیٰ نادانوں کو اس طرح روزی دیتا ہے کہ دانا اس کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ، اس لیے سب کو اللہ کی دین سمجھیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَیْکَأنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَ یَقْدِرُ۔
(القصص، آیۃ:۸۲)
تیرا برا ہو، اللہ جس کی روزی چاہتا ہے اپنے بندے میں سے فراخ کرتا ہے اور جس کی چاہتا ہے ، تنگ کرتا ہے ۔
یہی حال اولاد کا ہے ۔ خدا جس کو عطا کرتا ہے ، اسے اولاد ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے دولت مند اولاد کے لیے ترستے ہیں اور غربا اولاد کی کثرت سے بھوک سے مرتے ہیں ۔ اس لیے ہم اپنے کو اور اپنے مال اور اولاد کو خدا کی دین سمجھیں۔ اس لیے اگر ہماری کوئی اولاد مرجائے تو اس میت پر نوحہ کرنا ، یعنی زور زور سے ، چیخ چیخ کر رونا ، واویلا کرنا ممنوع اور حرام ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے ، جو مصیبت کے وقت گریبان چاک کرے اور رخسار پیٹے اور زمانہ جاہلیت کا سا نوحہ و ماتم کرے ۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ کرنا ممنوع ہے۔ اور اس کا مرتکب قابل ملامت ہے ۔ اور اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نوحہ و ماتم کرنے سے میت کو عذاب ہوتا ہے ۔ کیوں کہ اگر کسی مرد مومن کا انتقال ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو اکرام کے ساتھ رکھتے ہیں، جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے کہ سچے پکے مومن کے کے لیے قبر سے ہی اللہ کی نعمتیں شروع ہوجاتی ہیں ۔ اور اگر مرنے والا خدا نخواستہ گناہ گار ہے تو جہاں تک ممکن ہو اس کے لیے جلد ایصال ثواب کرے، تاکہ اس کو فائدہ پہنچے ۔ نیز صبر کرنے میں آدمی کا فائدہ ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
الصَّبْرُ عِنْدَ صَدْمَۃِ الْأوْلیٰ
صبر صدمہ کی ابتدا سے ہی ہو، یہی صبر کا اصل مقام ہے، جس پر اللہ تعالیٰ ثواب عطا کرتا ہے۔
میت کی تعریف کرنے کا بیان
کسی بھی ایسے آدمی کی برائی نہیں کرنی چاہیے ، جس کا انتقال ہوچکا ہو۔ چاہے ان کے اعمال کیسے ہی رہے ہوں ، کیوں کہ مردہ انسان کی غیبت کرنا نہایت ہی قابل گرفت جرم ہے ، چوں کہ اگر زندہ انسان کی غیبت کی تو ممکن ہے کہ اس سے معافی تلافی کرالے؛ لیکن مردہ سے تویہ بھی ممکن نہیں۔ اور یہ بھی بات ہے کہ کسی انسان کی کامیابی اور ناکامی اس کے اعمال سے براہ راست نہیں؛ بلکہ رحمت حق بہانہ می جوید ۔ نہ جانے اللہ تبارک و تعالیٰ کو کس انسان کی کون سی ادا پسند آجائے، جس سے خوش ہوکر اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں، اس لیے کسی مردہ انسان پر لعنت کرنا جائز نہیں؛ الا یہ کہ قطعی طور پر یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے۔
اہل میت کے لیے کھانا تیار کرنا
حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفرؓ کی شہادت کی خبر آئی، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، کیوں کہ ان کو وہ رنج و غم پہنچا ہے ، جو ان کو کھانا پکانے سے مشغول رکھے گا۔ اس لیے بہت سے علماء کا یہ قول ہے کہ اہل میت کے لیے ایک دن ایک رات کا کھانا تیار کرنا مستحب ہے ۔ اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ تین دن تک مستحب ہے ، لہذا جس کے گھر موت ہوگی، پڑوسی اور اپنے رشتہ داروں کو کھانا پکواکر بھیجنا چاہیے۔ بہرحال پریشان حال کی دلداری اور غمزدہ انسان کی غمخواری تو ایک فطری چیز ہے ، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ اہل میت کے صدمہ کے پیش نظر ان کی تسلی کی جائے، ان کو دلاسہ دیا جائے اور ان کو صبرو ضبط کی تلقین کی جائے ، ان کے ساتھ نہایت نرمی کا برتاؤ کیا جائے ، تاکہ ان کا غم غلط ہوسکے اور ان کو زندگی میں سکون و اطمینان حاصل ہوسکے۔
حوالہ جات
۱۔ قرآن کریم
۲۔ بخاری
۳۔ مسلم۔
۴۔ نسائی
۵۔ ابن ماجہ
۶۔ مؤطا امام مالک
۷۔ کنز العباد فی شرح الاوراد
۸۔ الجامع الصغیر
۹۔ رفاہ المسلمین فی شرح مسائل الاربعین
۱۰۔ شِرعۃ الاسلام
۱۱۔ سفر السعادۃ وسفیر الافادۃ
۱۲۔ رزین العرب
۱۳۔ جامع شتیٰ
۱۴۔ اشرف الوسائل الیٰ فہم الشمائل
۱۵۔ الجامع الکبیر
۱۶۔ الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی
۱۷۔ احیاء علوم الدین
۱۸۔ الحصن الحصین فی کلام سید المرسلین
۱۹۔ جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر
۲۰۔ مسند احمد ابن حنبل
۲۱۔ خزانۃ الفتاویٰ
۲۲۔ ادب القاضی
۲۳۔ عین العلم و زین الحلم
۲۴۔ فتاویٰ قاضی خاں
۲۵۔ مجمع البرکات لابی البرکات بن حسام الدین الدمنوی
۲۶۔ تفسیر الزاہدی
۲۷۔ شرح السعادۃ
۲۸۔ فتاویٰ عالم گیری
۲۹۔ مطالب المومنین
۳۰۔ جواہر الفتاویٰ
۳۱۔ تفسیر فتح العزیز المعروف بہ تفسیر عزیزی
۳۲۔ فتاویٰ حمادیہ
۳۳۔ تنبیہ الانام
۳۴۔ فتاویٰ سراجیہ
۳۵۔ مالابد منہ
۳۶۔ انیس الواعظین
۳۷۔ تفسیر الخازن
۳۸۔ کنز الدقائق
۳۹۔ مواھب الرحمان فی تفسیر القرآن
۴۰۔ تحفۃ الملوک
۴۱۔ عینی (ہدایہ
۴۲۔ سراج الہدایہ
۴۳۔ ہدایہ
۴۴۔ شرح برزخ
۴۵۔ بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام
۴۶۔ حق السماع
۴۷۔ الدیلمی
۴۸۔ رسالہ نصیحت
۴۹۔ مبسوط
۵۰۔ رسالہ ابطال
۵۱۔ بوارق
۵۲۔ المواھب اللدنیہ
۵۳۔ نور الہدایہ
۵۴۔ وصایا
۵۵۔ رد محتار
۵۶۔ در مختار
۵۷۔ فتاویٰ تاتارخانیہ
۵۸۔ الکفایہ للشعبی
۵۹۔ خزانہ جلالی
۶۰۔ رحمۃ الامہ فی اختلاف الائمہ
۶۱۔ بنایہ شرح ہدایہ
۶۲۔ شرح وقایہ
۶۳۔الملتقط فی الفتاویٰ الحنفیہ
۶۴۔ تحفۃ الزوجین
۶۵۔ مشکوٰۃ المصابیح
دفن کے بعد تھوڑی دیر قبر پر ٹھہرنا اور میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا، یا قرآن شریف پڑھ کر اس کو ثواب پہنچانا مستحب ہے (شامی، عالمگیری)۔
حضرت عبدالرحمان اپنے باپ علاء سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے باپ لجلاج نے فرمایا
یَا بُنَیَّ اذَا أنَا مِتُّ فَالْحِدْنِیْ ، فَاِذَا وَضَعْتَنِیْ فِیْ لَحْدِی فَقُلْ: بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلَیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہِ، ثُمَّ سَنَّ عَلَیَّ التُّرابَ سَنَّاً ثُمَّ اقْرَأ عِنْدَ رَأسِی بِفَاتِحَۃِ الْبَقْرَۃِ وَ خَاتِمِھَا، فَانِّیْ سَمِعْتُ رَسُولَ الْلّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ ذٰالِکَ۔ (رواہ الطبرانی و اسنادہ صحیح قال الحافظ الھیثمی فی مجمع الزوائد و رجالہ موثوقون)
ائے میرے بیٹے! جب میں مرجاؤں ، تو میرے لیے بغلی قبر کھودو۔ پھر جب مجھے قبر میں رکھو تو کہو بِسْمِ الْلّٰہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ الْلّٰہ۔ پھرمجھ پر آہستہ سے مٹی ڈالنا۔ پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کا شروع اور اس کا آخری حصہ پڑھنا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے ۔
سورہ بقرہ کا شروع الم سے مفلحون تک اور اس کا آخری آمن الرسول سے ختم سورہ تک ۔ (امداد الفتاویٰ)
حضرت شعبی نے بیان کیا کہ انصار کا قاعدہ تھا کہ جب ان میں سے کسی کا انتقال ہوتا،تو وہ لوگ قبروں کی طرف سے متفرق ہوجاتے اور ان کے لیے قرآن پڑھتے ۔ (شرح الصدور للسیوطی) ۔ ابو محمد سمرقندی نے قل ھو اللہ احد کے فضائل میں حضرت علیؓ سے مرفوعا روایت بیان کی ہے کہ جو شخص قبرستان سے گذرے اور گیارہ مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھے ، پھر اس کا ثواب مردوں کو بخشے، تو مردوں کی گنتی کے برابر اس کو ثواب عطا ہوگا۔ (شرح الصدور)
ابوالقاسم سعید بن علی زنجانی نے اپنے فوائد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوعا روایت لائے ہیں کہ:
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَاتِحَۃَ الْکِتابِ، وَ قُلْ ھُوَاللّٰہُ أحَدٌ، وَ ألْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ، ثُمَّ قَالَ: ألْلّٰھُمَّ ا8نِّیْ جَعَلْتُ ثَوَابَ مَا قَرَأتُ مِنْ کََلَامِکَ لَأھْلِ الْمَقابِرِ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ، کَانُوْا شُفَعَاءَ لَہُ ا8لَیٰ الْلّٰہِ تَعَالیٰ (شرح الصدور)
جو شخص قبرستان میں داخل ہو۔ پھر سورہ فاتحہ اور قل ھو اللہ احد اور الھٰکم التکاثر پڑھے اور کہے کہ ائے اللہ! جو کچھ میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب قبرستان کے مسلمان مردوں اور عورتوں کے بخشا، تو وہ مردے اللہ کے حضور سفارشی ہوں گے۔
یعنی وہ تمام مردے جن کوبخشا ہے ، ثواب بخشنے والے کی سفارش کریں گے ۔
اتنا تو رحم کرتا مرے حال زار پر
آتا کبھی تو فاتحہ پڑھنے مزار پر
اور عبد العزیز صاحب خلال نے اپنی سند سے حضرت انس کی روایت بیان کی ہے :
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأ سُوْرَۃَ یٰسٓ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ کَانَ لَہُ بِعَدَدِ مَنْ فِیْھَا حَسَنَاتٌ۔ (شرح الصدور)
جو شخص قبرستان میں آئے ، پھر سورہ یٰسٓ پڑھے ، تو اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کرے گا ۔ اور اس کو اس قبرستان کے مردوں کی گنتی کے مطابق ثواب ملے گا۔
ان احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن مجید پڑھ کر بخشنے سے میت کو ثواب پہنچتا ہے ۔ اور ساتھ ہی پڑھنے والے کو ثواب ملتا ہے۔ اور مردے اس کے لیے خدا کے پاس سفارشی ہوں گے۔ اس لیے قبرستان پہنچ کر وقت ضائع نہ کریں؛ بلکہ تلاوت قرآن کا ثواب پہنچا ئیں اور ا ن کے لیے دعائے مغفرت مانگیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اِسْتَغْفِرُوا لَأخِیْکُمْ وَ سَلُوْا لَہُ التَّثْبِیْتَ، فَا8نَّ الا8نْسَانَ یُسْءَلُ۔
(ابو داود)
اپنے بھائی کے لیے دعائے مغفرت مانگو، اس لیے کہ وہ ابھی پوچھا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
انَّ الْلّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِی الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ!أنّٰی لِیْ ھٰذِہِ؟ فَیَقُوْلُ: بِاِسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ۔
(احمد)
بے شک اللہ جل شانہ جنت میں اپنے نیک بندہ کا درجہ بلند فرمائے گا، تو بندہ کہے گاکہ ائے پروردگار! یہ کہاں سے مجھ کو ملا؟ (اتنی نیکیاں تو میری نہیں تھیں) پروردگار فرمائے گا کہ یہ تیرے لیے تیری اولاد کے استغفار کی وجہ سے ہے۔
یعنی تیرے لیے تیری اولاد نے دعائے مغفرت کی جس کی وجہ سے تیرا یہ درجہ بلند ہوا۔ حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَا الْمَیِّتُ فِي الْقَبَرِ إلَّا کَالْغَرِیْقِ الْمُتَغَوِّثِ، یَنْتَظِرُ دَعْوَۃً تَلْحَقُہُ مِنْ أبٍ، أوْ أمٍ، أوْ أخٍ، أوْ صَدِیْقٍ، فَإذَا لَحِقَتْہُ کَانَ أحَبَّ إلَیْہِ مِنَ الدُّنْیا وَمَا فِیْھَا، وَإنَ الْلّٰہَ تَعَالَیٰ لَیَدْخُلُ عَلَیٰ أھْلِ الْقُبُوْرِ مِنْ دُعَاءِ أھْلِ الأرْضِ أمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإنَّ ھَدْیَۃَ الأحْیَاءِ إلَیٰ الأمْوَاتِ الاسْتِغْفَارُ لَھُمْ ۔
(رواہ البیھقي في شعب الإیمان)
میت قبر میں ڈوبنے والے غوطہ کھانے والے کے مثل ہوتے ہیں ۔ وہ دعا کا انتظار کرتے ہیں کہ اس کا باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچے۔ پھر جب اس کو کوئی دعا پہنچتی ہے ، تو وہ اس کے لیے دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے ۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ قبر والوں کو زمین والوں کی دعا کی وجہ سے پہاڑ کے مانند ثواب پہنچاتا ہے ۔ اور بے شک مردوں کے لیے زندوں کا تحفہ ان کے لیے استغفار کی دعا مانگنا ہے۔
اسی طرح اللہ کی راہ میں روپیہ پیسہ وغیرہ دے کر ثواب پہنچانے سے اس کو ثواب پہنچتا ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ نے جامع البرکات میں جو مشکوٰۃ شریف کی شرح کا منتخب ہے ، شیخ ابن الہمام ؒ کا قول لکھا ہے کہ عبادت مالی کا ثواب اور اس کا فائدہ جو کوئی کسی میت کو پہنچائے تو بالاتفاق پہنچتا ہے ۔ اور عبادت بدنی کے ثواب پہنچنے میں اختلاف ہے ۔ اور قول اصح یہ ہے کہ پہنچتا ہے ، جیسا کہ احادیث سے ثابت کیا جاچکا ہے ۔ اب عبادت مالی کے ثواب پہنچنے کے بارے میں چند حدیثیں درج کرتے ہیں ۔
حضرت انسؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جو شخص مرجاتا ہے اور اس کے بعد اس کے وارث اس کی طرف سے کچھ صدقہ و خیرات کرتے ہیں، تو حضرت جبرئیل علیہ السلام اس صدقہ کے ثواب کو ایک نور کے طبق میں رکھ کر اس میت کی قبر کے کنارے پر کھڑے ہوکر کہتے ہیں : ائے گہری قبر والے! یہ تحفہ تجھ کو تیرے گھر والوں نے بھیجا ہے، تو اس کو قبول کر۔ پھر وہ ہدیہ اس میت کے پاس پہنچتا ہے ، تو وہ خوش ہوتا ہے اور خوش خبری پاتا ہے ۔ اور وہ مردے جو اس کے ہمسائے ہیں اور ان کے وارثوں نے کچھ ہدیہ تحفہ نہیں بھیجا ہوتا ہے ، وہ مردے اس کو دیکھ کر غم ناک اور دل گیر ہوتے ہیں۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط)۔
ایک شخص نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ میری ماں اچانک مرگئی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ کلام کرتی، تو صدقہ کرتی:
فَھَلْ لَھَا أجْرٌ انْ تَصَدَّقْتُ عَنْھَا؟ قَالَ:نَعَمْ۔
(بخاری و مسلم)
اگر میں ماں کی طرف سے صدقہ کروں، تو کیا اس کو ثواب ملے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔حضرت سعد ابن عبادہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ ام سعد مرگئی ۔
فَأیُّ الصَّدَقَۃِ أفْضَلُ؟ قَالَ: الْمَاءُ ۔ (ابو داود ، نسائی)
یعنی پس کونسا صدقہ بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پانی، تو انھوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ ام سعد کے لیے ہے ۔
مدینہ میں پانی کی قلت تھی ۔ آپ ﷺ نے اس کو افضل کہا۔ معلوم ہوا کہ صدقہ جاریہ میں اس کو فضیلت رہے گی ، جس کی لوگوں کو زیادہ ضرورت پڑتی ہے ۔ نفلی نمازروزے کا بھی ثواب میت کو پہنچانا درست ہے ۔ چنانچہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ جب میرے ماں باپ زندہ تھے ، تو میں ان کے ساتھ سلوک کیا کرتا تھا۔ اب ان کے مرنے کے بعدان کے ساتھ میرا سلوک کیسے ہوگا؟ ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لیے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزے کے ساتھ ان دونوں کے لیے بھی روزے رکھ (دار قطنی)
یعنی نفلی نماز روزے کا ان دونوں کو ثواب پہنچا۔حضرت مالک بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ !ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کی کوئی خدمت اولاد کے ذمہ ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہاں نماز پڑھنا اور ماں باپ کے لیے استغفار کرنا۔ اگر انھوں نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو، تو اس کو پورا کرنا۔ ماں باپ کے واسطے سے جن لوگوں کی رشتہ داری ہوتی ہو، ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ماں باپ کے دوستوں کی عزت کرنا، یہ سب باتیں ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کی خدمت میں شامل ہیں۔ (ابو داود)
تلقین بعد الموت
موت کے بعد تلقین ظاہر روایت میں منع لکھا ہے ، جیسا کہ عینی شرح ہدایہ میں ہے ۔ اور سراج الدرایہ میں مضمرات سے نقل کیا ہے کہ ہم تو قریب موت کے اور وقت دفن کے دونوں وقت تلقین کیا کرتے ہیں۔ (عالمگیری)
اور شرح برزخ میں نقل کیا ہے کہ نزع کے وقت تلقین کرنا بالاتفاق مسنون ہے۔ اور دفن کے بعد اکثر مشائخ بدلائل احادیث آئندہ کے مستحب کہتے ہیں ۔ اور اسی پر اعتماد ہے۔
حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی مرجائے اور اس کو قبر میں تم دفن کرچکو، تو تم میں سے کوئی اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے : یا فلان ابن فلانہ، یعنی ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے ، تو وہ مردہ سنتا ہے ، لیکن جواب نہیں دے سکتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ کہے : ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے ، تو وہ مردہ سیدھا اٹھ بیٹھتا ہے۔ پھر تیسری مرتبہ کہے : ائے فلاں فلانی عورت کے بیٹے! تو وہ مردہ کہتا ہے :
أیْ شِدْنَا، رَحِمَکَ اللّٰہُ
پھر آں حضرت ﷺ نے فرمایا: اس مردہ کے بولنے کی تم کو خبر نہیں ہوتی۔ پھر اس سے مخاطب ہو کر کہے:
مَا خَرَجْتَ مِنَ الدُّنْیَا شَھَادَۃُ أنْ لَّا ا8لٰہَ ا8لَّا اللّٰہُ وَ أنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ وَ أنَّکَ رَضِیْتَ بِاللّٰہِ رَبَّاً وَّ بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ نَبِیَّاً وَّ بِالْقُرْاٰنِ ا8مَامَاً ۔
اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے فرمایا : جب وہ کہنے والا یہ تلقین کہہ چکتا ہے ، تو منکر نکیر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ چل ہمارے ساتھ ۔ اب تو کیا کرے گا ، اس شخص سے اس کو تو یاروں نے تلقین کردی ۔ پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! اگر میت کی ماں کا نام معلوم نہ ہو تو کیا کہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: حضرت حوا ؑ کی طرف نسبت کرکے کہیں: ائے فلاں حوا کے بیٹے۔ (طبرانی)۔
اس حدیث کے بارے میں علامہ ابن حجر نے بلوغ المرام میں فرمایا :
و للطبرانی نحوہ من حدیث ابی امامۃ مرفوعا مطولا
حضرت ضمرہ ابن خبیب ؒ جو ایک تابعی ہیں ان سے روایت ہے کہ
کَانُوْا اذَا سُوِّیَ عَلیٰ الْمَیِّتِ قَبْرُہُ وَ انْصَرَفَ النَّاسُ عَنْہُ أنْ یُّقَالَ عِنْدَ قَبْرِہ: یا فُلانُ قُلْ لَا الٰہَ الَّا اللّٰہُ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ، یا فُلانُ قُلْ: رَبِّیَ اللّٰہُ وَ دِیْنِی الاسْلَامُ وَ نَبِیِّ مُحَمَّدٌ۔ (رواہ ابو سعید ابن منصور مرفوعا بحوالہ بلوغ المرام)
جب قبر میت پر ٹھیک کردی جاتی اور لوگ لوٹ جاتے تو صحابہ کرام مستحب سمجھتے تھے کہ اس کی قبر کے پاس کہا جائے : ائے فلاں کہہ: لا الٰہ الا اللہ۔ تین مرتبہ۔ ائے فلاں کہہ: میرا پروردگار اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرا نبی محمد ہے ﷺ ۔
حضرت عثمان غنی ﷺ سے مروی ہے کہ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے، تو رسول اللہ ﷺ ٹھہرجاتے اور فرماتے:
اِسْتَغْفِرُوْ لَأخِیْکُمْ وَ سَلُوْا لَہُ التَّثْبِیْتَ فَانَّہُ الآنَ یُسْءَلُ (رواہ ابو داود و صححہ الحاکم)
یعنی اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا مانگو، اس لیے کہ ابھی اس سے پوچھا جائے گا۔
میت پر رونے کا بیان
کیوں غل ہے مری نعش پہ نوحے کی صدا کا
رونے کا نہیں وقت یہ ہے وقت دعا کا
انسان غور کرے تو کوئی چیز اپنی نظر نہ آئے گی ، خواہ اولاد ہو ، یا مال؛ سب خدا کا انعام ہے، حتیٰ کہ خود اس کی ذات اللہ تعالیٰ کی ایک بخشی ہوئی نعمت ہے ۔ انسان گمان کرتا ہے کہ یہ دولت ہماری ہے اور ہم نے اپنی قوت بازو سے حاصل کیا ہے۔ یہ اس کا غلط گمان ہے ۔اگر دولت قوت بازو سے حاصل ہوتی، تو بڑے بڑے شہزور بڑے دولت مند ہوتے ۔ مگر ان کو دوسرے کی خاطر ہی شہ زوری کرنی پڑتی ہے ۔ اور چند ٹکوں میں ان کی طاقت بک جاتی ہے ۔ طاقت کا دھنی دولت کا دھنی کم ہوتا ہے۔
اگر دولت عقل و ہنر سے حاصل ہوتی، تو بڑے بڑے عقل مند اور دانش مند بڑے دولت مند ہوتے؛ مگر وہاں بھی معاملہ برعکس نظر آتا ہے ۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ
بنا دانا چناں روزی ساند
کہ دانایاں دراں حیران بماند
یعنی اللہ تعالیٰ نادانوں کو اس طرح روزی دیتا ہے کہ دانا اس کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ، اس لیے سب کو اللہ کی دین سمجھیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَیْکَأنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَ یَقْدِرُ۔
(القصص، آیۃ:۸۲)
تیرا برا ہو، اللہ جس کی روزی چاہتا ہے اپنے بندے میں سے فراخ کرتا ہے اور جس کی چاہتا ہے ، تنگ کرتا ہے ۔
یہی حال اولاد کا ہے ۔ خدا جس کو عطا کرتا ہے ، اسے اولاد ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے دولت مند اولاد کے لیے ترستے ہیں اور غربا اولاد کی کثرت سے بھوک سے مرتے ہیں ۔ اس لیے ہم اپنے کو اور اپنے مال اور اولاد کو خدا کی دین سمجھیں۔ اس لیے اگر ہماری کوئی اولاد مرجائے تو اس میت پر نوحہ کرنا ، یعنی زور زور سے ، چیخ چیخ کر رونا ، واویلا کرنا ممنوع اور حرام ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے ، جو مصیبت کے وقت گریبان چاک کرے اور رخسار پیٹے اور زمانہ جاہلیت کا سا نوحہ و ماتم کرے ۔ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوحہ کرنا ممنوع ہے۔ اور اس کا مرتکب قابل ملامت ہے ۔ اور اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نوحہ و ماتم کرنے سے میت کو عذاب ہوتا ہے ۔ کیوں کہ اگر کسی مرد مومن کا انتقال ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو اکرام کے ساتھ رکھتے ہیں، جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے کہ سچے پکے مومن کے کے لیے قبر سے ہی اللہ کی نعمتیں شروع ہوجاتی ہیں ۔ اور اگر مرنے والا خدا نخواستہ گناہ گار ہے تو جہاں تک ممکن ہو اس کے لیے جلد ایصال ثواب کرے، تاکہ اس کو فائدہ پہنچے ۔ نیز صبر کرنے میں آدمی کا فائدہ ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
الصَّبْرُ عِنْدَ صَدْمَۃِ الْأوْلیٰ
صبر صدمہ کی ابتدا سے ہی ہو، یہی صبر کا اصل مقام ہے، جس پر اللہ تعالیٰ ثواب عطا کرتا ہے۔
میت کی تعریف کرنے کا بیان
کسی بھی ایسے آدمی کی برائی نہیں کرنی چاہیے ، جس کا انتقال ہوچکا ہو۔ چاہے ان کے اعمال کیسے ہی رہے ہوں ، کیوں کہ مردہ انسان کی غیبت کرنا نہایت ہی قابل گرفت جرم ہے ، چوں کہ اگر زندہ انسان کی غیبت کی تو ممکن ہے کہ اس سے معافی تلافی کرالے؛ لیکن مردہ سے تویہ بھی ممکن نہیں۔ اور یہ بھی بات ہے کہ کسی انسان کی کامیابی اور ناکامی اس کے اعمال سے براہ راست نہیں؛ بلکہ رحمت حق بہانہ می جوید ۔ نہ جانے اللہ تبارک و تعالیٰ کو کس انسان کی کون سی ادا پسند آجائے، جس سے خوش ہوکر اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرمادیں، اس لیے کسی مردہ انسان پر لعنت کرنا جائز نہیں؛ الا یہ کہ قطعی طور پر یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے۔
اہل میت کے لیے کھانا تیار کرنا
حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفرؓ کی شہادت کی خبر آئی، تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، کیوں کہ ان کو وہ رنج و غم پہنچا ہے ، جو ان کو کھانا پکانے سے مشغول رکھے گا۔ اس لیے بہت سے علماء کا یہ قول ہے کہ اہل میت کے لیے ایک دن ایک رات کا کھانا تیار کرنا مستحب ہے ۔ اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ تین دن تک مستحب ہے ، لہذا جس کے گھر موت ہوگی، پڑوسی اور اپنے رشتہ داروں کو کھانا پکواکر بھیجنا چاہیے۔ بہرحال پریشان حال کی دلداری اور غمزدہ انسان کی غمخواری تو ایک فطری چیز ہے ، اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ اہل میت کے صدمہ کے پیش نظر ان کی تسلی کی جائے، ان کو دلاسہ دیا جائے اور ان کو صبرو ضبط کی تلقین کی جائے ، ان کے ساتھ نہایت نرمی کا برتاؤ کیا جائے ، تاکہ ان کا غم غلط ہوسکے اور ان کو زندگی میں سکون و اطمینان حاصل ہوسکے۔
حوالہ جات
۱۔ قرآن کریم
۲۔ بخاری
۳۔ مسلم۔
۴۔ نسائی
۵۔ ابن ماجہ
۶۔ مؤطا امام مالک
۷۔ کنز العباد فی شرح الاوراد
۸۔ الجامع الصغیر
۹۔ رفاہ المسلمین فی شرح مسائل الاربعین
۱۰۔ شِرعۃ الاسلام
۱۱۔ سفر السعادۃ وسفیر الافادۃ
۱۲۔ رزین العرب
۱۳۔ جامع شتیٰ
۱۴۔ اشرف الوسائل الیٰ فہم الشمائل
۱۵۔ الجامع الکبیر
۱۶۔ الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی
۱۷۔ احیاء علوم الدین
۱۸۔ الحصن الحصین فی کلام سید المرسلین
۱۹۔ جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر
۲۰۔ مسند احمد ابن حنبل
۲۱۔ خزانۃ الفتاویٰ
۲۲۔ ادب القاضی
۲۳۔ عین العلم و زین الحلم
۲۴۔ فتاویٰ قاضی خاں
۲۵۔ مجمع البرکات لابی البرکات بن حسام الدین الدمنوی
۲۶۔ تفسیر الزاہدی
۲۷۔ شرح السعادۃ
۲۸۔ فتاویٰ عالم گیری
۲۹۔ مطالب المومنین
۳۰۔ جواہر الفتاویٰ
۳۱۔ تفسیر فتح العزیز المعروف بہ تفسیر عزیزی
۳۲۔ فتاویٰ حمادیہ
۳۳۔ تنبیہ الانام
۳۴۔ فتاویٰ سراجیہ
۳۵۔ مالابد منہ
۳۶۔ انیس الواعظین
۳۷۔ تفسیر الخازن
۳۸۔ کنز الدقائق
۳۹۔ مواھب الرحمان فی تفسیر القرآن
۴۰۔ تحفۃ الملوک
۴۱۔ عینی (ہدایہ
۴۲۔ سراج الہدایہ
۴۳۔ ہدایہ
۴۴۔ شرح برزخ
۴۵۔ بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام
۴۶۔ حق السماع
۴۷۔ الدیلمی
۴۸۔ رسالہ نصیحت
۴۹۔ مبسوط
۵۰۔ رسالہ ابطال
۵۱۔ بوارق
۵۲۔ المواھب اللدنیہ
۵۳۔ نور الہدایہ
۵۴۔ وصایا
۵۵۔ رد محتار
۵۶۔ در مختار
۵۷۔ فتاویٰ تاتارخانیہ
۵۸۔ الکفایہ للشعبی
۵۹۔ خزانہ جلالی
۶۰۔ رحمۃ الامہ فی اختلاف الائمہ
۶۱۔ بنایہ شرح ہدایہ
۶۲۔ شرح وقایہ
۶۳۔الملتقط فی الفتاویٰ الحنفیہ
۶۴۔ تحفۃ الزوجین
۶۵۔ مشکوٰۃ المصابیح