کیا تراویح میں آپ تھک جاتے ہیں؟ تو اس نبوی فارمولہ پر عمل کیجیے تھکاوٹ ختم ہوجائے گی
محمد یاسین جہازی
9871152408
یہ قدرتی نظام ہے کہ عقائد و نظریات ہمت و حوصلے بھی بخشتے ہیں اور پست ہمتی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ہاتھی کے بچے کو مضبوط زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے، تاکہ وہ اسے توڑ کر بھٹک نہ سکے۔ بیسار کوششوں کے باوجود جب وہ نہیں توڑپاتا، تو اس کا نظریہ یہ بن جاتا ہے کہ اسے توڑنا مشکل ہے۔ پھر بڑا اور مزید طاقت ور ہونے کے باوجود اسے معمولی رسی میں بھی باندھ دیا جاتا ہے، تو وہ اس توڑنے کی کوشش نہیں کرتا، کیوں کہ نظریہ اسے توڑنے کا حوصلہ نہیں دیتا۔ انسان کا نظریہ بھی اس اصول کو تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ پتھروں کو بھگوان ماننے والے یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ جوخود پر بیٹھی مکھی بھی نہیں بھگاسکتے، وہ بالآخر کائنات کا سوپر پاور کیسے ہوسکتا ہے، کیوں کہ وہ عقائد و نظریات کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ اسی طرح خدائے واحد لم یزل کا عقیدہ رکھنے والے دنیا کے بڑے سے بڑے سوپر پاور کے سامنے اپنی پیشانی نہیں جھکاسکتے، کیوں کہ ان کا نظریہ انھیں تعلیم دیتا ہے کہ جو پیشانی صرف خالق کائنات کے سامنے جھکنے کے لیے بنی ہے، اسے مخلوق کے سامنے جھکاکر رسوا نہیں کی جاسکتی۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے رمضان کی آمد سے ایک دن پہلے خطاب فرمایا ، جس میں انھوں نے بارہ باتوں کا تذکرہ کیا۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ رمضان صبر کا مہینہ ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ رمضان ہمیں کس طرح گذارنی چاہیے۔ اور اس کا بنیادی فارمولہ یہ ہے کہ ہمیں صبرو ضبط کے ساتھ رمضان کے دنوں کو گذارنا چاہیے۔ پیاس لگے، صبر کرنا چاہیے۔ بھوک ستائے، صبر کیجیے۔ تراویح میں تھکاوٹ ہو، صبر کیجیے۔ تراویح میں زیادہ رکعات کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو، تو فورا یہ سوچیے کہ یہ مہینہ تو صبر کا ہے، لہذا ہمیں اس پر صبر کرنا ہے۔ خود نبی اکرم ﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل شاہد عدل ہے کہ وہ نمازوں میں اتنی دیر تک کھڑے رہتے تھے کہ پیروں میں ورم آجاتا تھا۔ خون جمنے کی وجہ سے ان کے پیر پھول جاتے تھے۔ ان کا طریقہ ہم کو بتلاتا ہے کہ ہمیں کس طرح صبر کرنا ہے۔ کیا ہماری جان نبی اکرم ﷺ کی جان سے زیادہ قیمتی ہے، جوہم ذرا سی دیر کی وجہ سے تراویح میں کھڑے نہیں ہوتے اور انتہائی بے اعتنائی کے ساتھ تراویح پڑھتے ہیں؟ ۔ اگر آپ حوصلہ نہیں کرپاتے ہیں ،تو غور کیجیے کہ جب نبی اکرم ﷺ نے اسے صبر کا مہینہ قرار دیا ہے، تو ہمیں صبر وسکون کے ساتھ تراویح اور دیگر عبادت کو انجام دینا ہے اور کبھی مشقت محسوس ہو، تو صبر کے ساتھ اسے انجام دینا ہے۔ اس تصور کے ساتھ اور سیرت نبوی ﷺ کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ رمضان کے اعمال انجام دیں گے تو آپ کو کبھی بھی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوگی اور آپ ہر اعمال شوق و رغبت سے انجام دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی قدر کرنے والا بنائے اور اسوہ نبی پر چلنے کی توفیق دے، آمین۔
نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ رمضان ہمیں کس طرح گذارنی چاہیے۔ اور اس کا بنیادی فارمولہ یہ ہے کہ ہمیں صبرو ضبط کے ساتھ رمضان کے دنوں کو گذارنا چاہیے۔ پیاس لگے، صبر کرنا چاہیے۔ بھوک ستائے، صبر کیجیے۔ تراویح میں تھکاوٹ ہو، صبر کیجیے۔ تراویح میں زیادہ رکعات کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو، تو فورا یہ سوچیے کہ یہ مہینہ تو صبر کا ہے، لہذا ہمیں اس پر صبر کرنا ہے۔ خود نبی اکرم ﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل شاہد عدل ہے کہ وہ نمازوں میں اتنی دیر تک کھڑے رہتے تھے کہ پیروں میں ورم آجاتا تھا۔ خون جمنے کی وجہ سے ان کے پیر پھول جاتے تھے۔ ان کا طریقہ ہم کو بتلاتا ہے کہ ہمیں کس طرح صبر کرنا ہے۔ کیا ہماری جان نبی اکرم ﷺ کی جان سے زیادہ قیمتی ہے، جوہم ذرا سی دیر کی وجہ سے تراویح میں کھڑے نہیں ہوتے اور انتہائی بے اعتنائی کے ساتھ تراویح پڑھتے ہیں؟ ۔ اگر آپ حوصلہ نہیں کرپاتے ہیں ،تو غور کیجیے کہ جب نبی اکرم ﷺ نے اسے صبر کا مہینہ قرار دیا ہے، تو ہمیں صبر وسکون کے ساتھ تراویح اور دیگر عبادت کو انجام دینا ہے اور کبھی مشقت محسوس ہو، تو صبر کے ساتھ اسے انجام دینا ہے۔ اس تصور کے ساتھ اور سیرت نبوی ﷺ کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ رمضان کے اعمال انجام دیں گے تو آپ کو کبھی بھی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوگی اور آپ ہر اعمال شوق و رغبت سے انجام دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی قدر کرنے والا بنائے اور اسوہ نبی پر چلنے کی توفیق دے، آمین۔