30 Mar 2020

جمعیت علمائے ہندکے سو سال…… قدم بہ قدم 1919ء پہلا سال

جمعیت علمائے ہندکے سو سال…… قدم بہ قدم
1919ء پہلا سال
منظر، پس منظر، تاسیس اور تنظیم جمعیت علمائے ہند
بیسویں صدی کے آوائل میں بھارت اور مسلمان
انگریزوں نے  بھارت پر، سیاسی اور اقتصادی طور پر مکمل جابرانہ قبضہ کے ساتھ ساتھ مذہبی تسلط قائم کرنے اور مختلف مذاہب کو ختم کرکے عیسائیت کے فروغ کے لیے باقاعدہ انگلینڈ سے تربیت یافتہ پادریوں کو بلایا،جنھوں نے گلی چوراہوں سے لے کر اندرون خانہ تک عیسائیت کی تبلیغ کی انتھک کوشش کی۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیں: تاریخ جمعیت علمائے ہند)
ادھر دوسری طرف علما کے باہمی مسلکی اختلافات سے ملت اسلامیہ کو عظیم نقصان پہنچ رہا تھا۔ علمائے کرام فروعی مسائل میں آپسی اختلافات سے اس قدر دور ہوگئے تھے کہ بقول صاحب تحریک خلافت:
”بعض بعض کی تکفیر بھی کرنے لگے تھے اور گروہ بندی اور مناظروں کے اکھاڑے روز مرہ کی زندگی بن گئے تھے؛ حتیٰ کہ مسجدوں میں لوگوں سے مارپیٹ اور کہیں کہیں کشت و خون کی بھی نوبت آئی“۔ (تحریک خلافت، ص/40)
جمعیت علما کی فکری تخم ریزی
بیرونی سازش اور اندرونی اختلافات کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ کئی لوگوں کے دلوں میں یہ خیالپیدا ہوا ہو کہ مختلف العقائد و مسالک کے علماکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ؒ خطبہ صدارت میں تحریر فرماتے ہیں کہ
”1911ء سے لے کر آج تک یہ مقصد میرے دل کی تمنّاؤں اور آرزوؤں کا مطلوب اور میری روح کی عشق و شیفتگی کا محبوب رہا ہے۔ خدا کی کوئی صبح مجھ پر ایسی طلوع نہیں ہوئی جب اس مقصد کی طلب سے میرا دل خالی ہوا ہو، اور کوئی شام مجھ پر ایسی نہیں گزری، جب میں نے اس کی تمنّا میں اپنے بستر غم واندوہ پر بیقراری کی کروٹیں نہ بدلی ہوں۔ میں نے اپنی آزادی کی تمام فرصت اسی کے عشق میں بسر کی، اور نظر بندی و قید کے چار سال بھی اسی کے فراق میں کاٹے:
یذکرنی طلوع الشمس صخرا
واذکرہ بکل غروب شمس!
            پس اے بزرگانِ ملّت! اگر آج علمائے اُمت کی یہ نہضتہ مبارکہ جمعیت علما کی شکل میں طالع و نظر افروز ہوئی ہے، تو مجھے کہنے دیجیے کہ یہ میرے دہ سالہ سوالوں کا جواب ہے، میری تمنّاؤں اور آرزوؤں کا ظہور ہے، میری فریادوں اور التجاؤں کی قبولیت ہے، میرے لیے ماتشتہیہ الانفس و تلذ الاعینہے، اور یقینا میری امیدوں کے خواب قدیم کی تعبیر ہے: ہذا تاویل رؤیای من قبل، قد جعلہا ربی حقا!۔“ (خطبہ صدارت، تیسرا اجلاس عام، منعقدہ: 19-20-21/نومبر1921ء، بمقام: لاہور)
 قاضی محمد عدیل عباسی صاحبلکھتے ہیں کہ
”علمائے کرام کے باہمی افتراق سے ملت کو جو عظیم نقصان پہنچ رہا تھا اور دنیا میں امت مسلمہ کی حالت اس درجہ نازک تھی کہ یہ بہت ممکن ہے کہ ہرطبقہ خیال کے علما کو یک جا کرنے کا خیال بہت سے اصحاب فہم و بصیرت کے دماغ میں آیا ہو؛ لیکن سب سے پہلے مولانا عبدالباریؒ  نے1919ء میں دلی کی ایک مشہور درسگاہ سید حسن رسولنما میں چند علما کو جمع کرکے وقت کی نزاکت و ضرورت کے پیش نظراتفاق و اتحاد کی اہم ضرورت بتلائی۔ (تحریک خلافت، ص/ 39)
 اور مولانا حفیظ الرحمان واصف صاحب کے بقول
”آپ (مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ) جب 1918ء میں رسالہ ”شیخ الہند“ کی تالیف فرمارہے تھے، اس وقت سے آپ کی یہ خواہش تھی کہ شیخ الہندؒ کی رہائی کے لیے جو کوشش کی جائے، وہ ایسے پلیٹ فارم سے کی جائے، جو تمام علمائے ہندستان کا مشترکہ پلیٹ فارم ہو“۔ (مختصر تاریخ مدرسہ امینیہ اسلامیہ شہر دلی، ص/44)۔
یہاں محاسن التذکرہ کا ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے، جس میں دو اور شخصیات کے حوالے سے جمعیت علمائے ہند کے بانی ہونے کا حوالہ ملتا ہے۔
”فرنگی محل حلقہ سے مولانا عنایت اللہ فرنگی محلی ؒتلمیذ رشید حضرت مولانا عبد الباری گرنگی محلیؒ اور مولانا قطب الدین  عبد الوالی فرنگی محلیؒ کا (بھی تقریبا) دعویٰ یہ ہے کہ
’حضرت مولانا عبد الباری ؒ نے خدام کعبہ، خلافت کمیٹی اور جمعیت علما کا سنگ بنیاد رکھا اور یہ ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ جمعیۃ العلما اور خدام کعبہ کے بانی وموسس حضرت استاذ ہی تھے۔“ (جمعیت العلما پر تاریخی تبصرہ، ص/52، 72، بحوالہ تذکرہ علمائے فرنگی محل، ص/111)
نیز حسرۃ الآفاق میں لکھتے ہیں: ’امرتسر پہنچ کر مولانا موصوف(حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ) نے ان علما سے جو تمام ہندستان سے وہاں جمع ہوئے تھے، مشورہ کیا،اور پہلے پہل علما کی سیاسی انجمن جمعیت علما قائم ہوئی۔‘(حسرۃ الآفاق بوفاۃ مجمع الاخلاق (سوانح حیات حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلؒ) ص/26، مولفہ جناب عنایت اللہ فرنگی محلیؒ، شائع کردہ: اشاعت العلوم برقی پریس فرنگی محل لکھنو، سن تصنیف1929۔)
حلقہ اہل حدیث مولانا حلقہ اہل حدیث مولاناابوالوفاثناء اللہ امرتسری ؒ کی ایک تحریرکی بنیادپرمولانا امرتسری کواس کابانی تصورکرتاہے،مولاناثناء اللہ امرتسری صاحب ؒ کا ایک مضمون اخباراہل حدیث میں شائع ہواتھا،اس میں وہ لکھتے ہیں: ’دہلی میں ایک تبلیغی جلسہ ہواجس میں میں بھی شریک تھا،بعدفراغت خاص احباب کی مجلس میں میں نے یہ تحریک کی کہ ہمیشہ کے لیے علماکی ایک جماعت منظم ہونی چاہیے،اس جلسہ میں مولاناابراہیم سیالکوٹی کے علاوہ اورکئی اصحاب میرے ہم رائے شریک تھے، انھوں نے میری تائیدکی، جس کانتیجہ یہ ہواکہ جمعیۃ العلماء کاایک خام ساڈھانچہ تیارہوگیا،جس  کے صدر مولانا کفایت اللہ صاحب اورناظم مولوی احمدسعیدصاحب مقررہوئے)……یہ تھی جمعیۃالعلماء کی پہلی میٹنگ اورپہلاریزولیشن جودراصل آئندہ کے لیے ایک بنیادی پتھرتھا۔“  (جمعیۃ علماء پرتاریخی تبصرہ ص 35 بحوالہ اخباراہل حدیث امرتسرمورخہ26/محرم الحرام 1361ھ مطابق 13/فروری1942۔بحوالہ حیات ابوالمحاسن (محاسن التذکرہ) ص/ 379-380)
 لیکن تاریخی شواہد گواہ ہیں کہ عملی طور پر اولیت کا یہ فخر ابو المحاسن حضرت مولانا محمد سجاد علیہ الرحمہ کو حاصل ہوا۔تفصیلات پیش ہیں:
مولانا مفتی اختر امام عادل قاسمی صاحب نے جمعیت علمائے ہند کے زیر اہتمام بسلسلہ تقریبات صد سالہ جمعیت علمائے ہند،بتاریخ 15، و16/ دسمبر2018ء، منعقد سیمینار بر مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد علیہ الرحمہ میں پیش کردہ مقالات کا مجموعہ ”تذکرہ ابوالمحاسن“ میں اپنا مقالہ ”مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن سید محمد سجاد صاحب اور جمعیت علمائے ہندمیں لکھتے ہیں کہ:
”مولانا سجاد صاحب غیر اسلامی ہندستان میں نصب امیر کو مسلمانوں کا ملی فریضہ تصور کرتے تھے، مگر اس کے لیے علما کا اتحاد ضروری تھا،چنانچہ1917ء سے بہت قبل ہی مولانا نے جمعیت علمائے ہند کی تاسیس کا پروگرام بنایا، علما کو خطوط لکھے اور ملک کے مختلف حصوں کے دورے کیے، اور اس تعلق سے پیدا ہونے والے شبہات کے جوابات دیے۔ ان مراسلات و اسفار کے اخراجات آپ کے خصوصی مسترشد اور شہر گیا (بہار) کی متمول شخصیت مولانا قاضی احمد حسین صاحبؒ نے برداشت کیے۔ مگر علما کے مسلکی اور نظریاتی اختلافات کی بنا پر کافی دشواریوں کا سامنا ہوا۔ مختلف الخیال اور مختلف المشرب علماکو ایک جگہ جمع کرنا آسان نہیں تھا۔ علاوہ اکثر علما کو سیاست سے دلچسپی نہیں تھی۔ بعض کے نزدیک تو یہ شجر ممنوعہ تھا اور علما کی شان کے منافی تصور کیا جاتا تھا۔ (ص/433)
اس کی تائید و توثیق کے لیے مفتی صاحب نے درج ذیل تین حوالے پیش کیے ہیں:
(1)  ایک اقتباس از: حسن حیات، ص/ 44، مرتبہ شاہ محمد عثمانی۔
(2) ایک اقتباس از: حیات سجاد، ص/68، 69، مضمون حضرت امیر شریعت ثانی مولانا شاہ محی الدین پھلواری۔
(3) حیات سجاد، ص/2، تا/5، تصنیف: مولانا عظمت اللہ صاحب ملیح آبادی۔
 جمعیت علمائے بہار کی تاسیس
اس عنوان کے تحت مفتی اختر امام عادل صاحب رقم طراز ہیں کہ:
”آخر ایک روز مولانا محمد سجاد صاحبؒ نے قاضی احمد حسین صاحبؒ سے کہا کہ ”علمائے ہند کو جمعیت علماکے قیام پر انشراح نہیں ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ گیا میں علمائے بہار کا جلسہ بلاؤں“۔ قاضی صاحب نے اتفاق کیا اور اجلاس کے انعقاد میں اپنا پورا تعاون پیش کیا۔ چنانچہ 30/ صفر المظفر1336ھ، مطابق 15/ دسمبر 1917ء کو مدرسہ انوارالعلوم گیا کے سالانہ اجلاس کے موقع پر جمعیت علمائے بہار کی بنیاد پڑی۔ اور اس کا صدر مقام مدرسہ انوارالعلوم قرار پایا۔ اس کا ابتدائی نام ”انجمن علمائے بہار“ رکھا گیا۔ (کتاب الفسخ والتفریق، ص/43، مصنفہ مولانا عبد الصمد رحمانیؒ۔ تاریخ امارت شرعیہ، ص/41، مصنفہ مولانا عبد الصمد رحمانی۔ حسن حیات، ص/45، مرتبہ شاہ محمد عثمانی ؒ۔ حیات سجاد، ص/68،مضمون حضرت امیر شریعت ثانی مولانا شاہ محی الدین پھلواریؒ، بحوالہ:تذکرہ ابو المحاسن، ص/434)
درج بالا حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ 1911ء سے ہی علما کی جمعیت کی ضرورت محسوس کر رہے تھے، لیکن عمل کی طرف قدم نہیں بڑھایا۔ مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ کے ذہن میں کل ہند سطح پر ایک مشترک پلیٹ فارم بنانے کا خیال1918ء میں آیا۔ اور مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ کے دماغ میں 1919ء میں آیا، جب کہ حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد علیہ الرحمہ نے پہلے کل ہند سطح پر جمعیت علمائے ہند کو قائم کرنے کی کوشش کی، جن کے لیے انھوں نے بقول حضرت مولانا شاہ محی الدین پھلواری: ”جمعیت علمائے ہند کے قیام کے لیے اکثر صوبوں میں سفر کرکے علما میں اس کی تبلیغ کی اور لوگوں کو آمادہ کیا“۔ (حیات سجاد، ص/ 68، 69)
لیکن علما نے مولانا کی باتوں پر توجہ نہیں دی۔ مولانا شاہ محمد عثمانی لکھتے ہیں کہ
”مولانا سجادؒ کی کوششوں اور افہام و تفہیم سے ضرورت تو بہت سے علما محسوس کرنے لگے تھے؛ لیکن قابل عمل نہیں سمجھتے تھے۔ (حسن حیات، ص/ 44)۔
جب کل ہند سطح پر جمعیت علما کی تنظیم قائم کرنے پر مولانا سجاد ؒ کا کسی نے ساتھ نہیں دیا، تو انھوں نے ریاستی سطح پر سب سے پہلے بہار میں 15/ دسمبر1917ء کو ”جمعیت علمائے بہار“ کی داغ بیل ڈالی۔ مولانا مناظر احسن گیلانی رقم طراز ہیں کہ
”ابھی (مونگیرمیں) چند مہینے ہوئے تھے کہ وہی استھاواں کا الکن خطیب مونگیر اسی غرض سے آیا ہوا تھا کہ علما کی منتشر اور پراگندہ جماعت کو ایک نقطہ پر خاص سیاسی حالات کے ساتھ جمع کیا جائے، اس وقت تک دلی کی جمعیۃ العلماء کا خواب بھی نہ دیکھا گیا تھا۔ طے ہوا کہ صوبہ بہار کے علما کو پہلے ایک نقطہ پر متحد کیا جائے، پھر بتدریج اس کا دائرہ بڑھایا جائے۔“ (حیات سجاد، ص/ 51۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد، ص/63، مرتبہ: مولانا طلحہ نعمت ندوی۔ مفکر حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد ؒ اور جمعیۃ علماء ہند، ص/5، تذکرہ ابوالمحاسن، ص435)
مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
”بیسویں صدی عیسوی کا بیسواں سال(1919ء) ہمیشہ آزاد ہندستان کی تاریخ میں ”صبح صادق“ تسلیم کیا جائے گا؛ کیوں کہ اسی 1919ء کے مارچ میں ستیہ گرہ کی تجویز منظور کی گئی۔ اسی سال جمعیت علمائے ہند کے نظام جدید کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔“ (الجمعیۃ،مجاہد ملت نمبر، ص/41، مطبوعہ26/فروروی1963ء، مطابق یکم شوال المکرم 1362ھ)۔
ظاہر سی بات ہے کہ نظام جدید اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ اس کا سلسلہ پہلے سے جاری ہو، تو گویا جمعیت علمائے ہند، جمعیت علمائے بہار کا جدیداور توسیعی نظام ہے۔ حیات سجاد میں ہے کہ
”پہلا اجلاس ہندستان میں جمعیت کا بنام انجمن علمائے بہار شہر بہار میں بزمانہ عرس حضرت مخدوم الملکؒ منعقد ہوا۔ اس کے بعد جمعیت علمائے ہند قائم ہوئی اور اس کے بعد مختلف صوبوں میں شاخیں قائم ہوئیں۔ اور پھر علما نے مستعد ہوکر کام شروع کردیا۔ اور الحمد للہ کہ آج ہندستان کے ہر صوبہ میں جمعیت علما قائم ہے۔“ (ص/69۔ مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد، ص/ 55، تذکرہ ابوالمحاسن، ص435)
یہ تمام شواہد گواہ ہیں کہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ ہی وہ پہلی شخصیت تھی، جنھوں نے سب سے پہلے جمعیت علمائے ہند کے نظریہ کی تخم ریزی کی اور بہار کی سرزمین سے عملی طور پر اس کا آغاز کیا۔
جمعیت علمائے بہار سے جمعیت علمائے ہند کی طرف
چوں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سمیت پورا عرب ترکوں کے زیر حکومت تھا، اس لیے عالم اسلام کی نگاہوں میں ترکی حکومت کو ’حکومت اسلامیہ‘ اور اس کے خلیفہ کو ’خلیفۃ المسلمین‘ کہاجاتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم (28/ جولائی 1914ء، 11/ نومبر1918ء)میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ترکی کے جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں کو تشویش ہوئی کہ اگر برطانیہ کامیاب ہو گیا، تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ بھارتی مسلمانوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی؛ لیکن برطانیہ نے فتح ملنے کے بعد وعدہ خلافی کرتے ہوئے عربوں کو ترکی کے خلاف جنگ پر اکسایا، جس کے نتیجے میں بہت سے عرب مقبوضات ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے، جس پر بعد میں انگریزوں نے قبضہ کرلیا اور پھر ترکی کو تقسیم کرکے خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کردیا۔ انگریزوں کی اس بد عہدی نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو غم و غصہ سے بھر دیا،جس کے نتیجے میں ’تحریک خلافت‘ رونما ہوئی۔ اسی تحریک کا پہلا اجلاس”آل انڈیا خلافت کانفرنس“ کے نام سے بروز اتوار، پیر،23/24/ نومبر1919ء مطابق 29/ صفر و یکم ربیع الاول 1338ھ کرشنا تھیٹر، پتھر والا کنواں دہلی میں ہورہا تھا، جس میں بھارت کے کونے کونے سے مختلف مسلک و مشرب کے علمائے کرام شریک تھے۔
علمائے کرام کے باہمی مسلکی اختلاف،عالمی منظر نامے اور خود غلام بھارت کے پر آشوب حالات نے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر ہم یوں ہی عقیدہ و فرقہ کا کھیل کھیلتے رہے، اورایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوئے، تووہ دن دور نہیں، جب ہمارا وجود بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے22/ نومبر1919ء بروز سنیچرحضرت مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی ہدایت کے مطابق مولانا احمد سعید اور مولانا آزاد سبحانی صاحبان نے خلافت کانفرنس میں تشریف لائے علمائے کرام کی قیام گاہوں پر جاکر فردا فردا ملاقات کی اوربڑی راز داری کے ساتھ انھیں ایک تنظیم کی نیو رکھنے کی دعوت دی۔ حکومت برطانیہ چوں کہ علما پر بہت گہری نظر رکھے ہوئے تھی، اس لیے خطرہ تھا کہ اگر کہیں انگریزوں کو بھنک بھی پڑ گئی تو علما پر حکومت کے قہر و جبر کی قیامت ٹوٹ پڑے گی، اس لیے 23/ نومبر1919 بروز اتوار بعد نماز فجرپچ کوئیاں روڈ دہلی میں واقع سید حسن رسول نما کے مزار پرحاضر ہوکر سب نے رازداری کا حلف لیتے ہوئے یہ عہد لیا کہ
”ہم سب دہلی کے مشہور ومقدس بزرگ کے مزار کے سامنے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کرتے ہیں کہ مشترک قومی و ملی مسائل میں ہم سب آپس میں متحد ومتفق رہیں گے اور فروعی و اختلافی مسائل کی وجہ سے اپنے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں کریں گے، نیز قومی و ملکی جدوجہد کے سلسلے میں گورنمنٹ کی طرف سے جو سختی اور تشدد ہوگا، اس کو صبرو رضا کے ساتھ برداشت کریں گے اور ثابت قدم رہیں گے۔ جماعت کے معاملہ میں پوری پوری رازداری اورامانت سے کام لیں گے۔ (تحریک خلافت، ص/40: قاضی محمد عدیل عباسی)
مولانا حفیظ الرحمان  واصف صاحب اس خفیہ اجتماع کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”اس میں بہار سے صوبائی ذمہ دار کی حیثیت سے حضرت مولانا محمد سجادؒ بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس کے اختتام پر چند مخصوص علما کا خفیہ اجتماع بوقت صبح دہلی کے مشہور بزرگ سید حسن رسول نماؒ کی درگاہ پر مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ کے زیر قیادت منعقد ہوا۔ تمام حاضرین نے جن کی تعداد دس بارہ (12) سے زائد نہ تھی، جمعیت کے قیام سے اتفاق کیا۔ جلسہ کا آغاز مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسریؒ کی تحریک اور مولانا منیر الزماں اسلام آبادی وغیرہ کی تائید سے ہوا۔“ (جمعیت علمائے ہند پر ایک تاریخی تبصرہ، ص/44)
جو علمائے کرام فروعی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے سے اس قدر دور ہوگئے تھے کہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے نہیں تھکتے تھے اور ایک دوسرے کو سلام تک کرنا گوارا نہیں کرتے تھے؛ حلف راز داری کے بعد اسی روز، یعنی23/ نومبر1919ء مطابق یکم ربیع الاول بروز پیر بعد نماز عشا مسجد درگاہ سید حسن رسول نما میں ایک ساتھ ایک دل اور ایک جان ہوکر بیٹھے اور پوری قوت کے ساتھ میدان عمل تیار کرنے کے لیے درج ذیل پانچ  فیصلے کیے:
(1) جشن صلح کے مقاطعہ کا فیصلہ کیا اور اس میں شرکت کے عدم جواز پر ایک فتویٰ بھی دیا گیا۔
(2) جمعیت علمائے ہند کے قیام پر کافی بحث و مباحثہ ہوا اور بالآخر اس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔
(3) تمام حاضرین جمعیت کے رکن بنے اور آواخر دسمبر میں امرتسر میں جلسہ کرنے کی تجویز پاس کی۔
(4)  حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب کوعارضی صدر اور حافظ احمد سعید صاحب کو عارضی ناظم بنایا گیا۔
(5) جمعیت کے مقاصد و ضوابط کا مسودہ تیار کرنے کا فیصلہ لیا اور مفتی محمد کفایت اللہ صاحب اور مولانا محمد اکرام خاں صاحب ایڈیٹر اخبار محمدی کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی۔
 اس تاسیسی اجلاس میں مختلف العقائد کے درج ذیل25/علمائے کرام شریک تھے:
(1) حضرات مولانا عبد الباری،(2) مولانا سلامت اللہ، (3)مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ، (4) پیر محمد امام سندھی،(5) مولانا اسد اللہ سندھی،(6) مولانا سید محمد فاخر، (7) مولانا محمد انیس، (8)مولانا خواجہ غلام نظام الدین،(9) مولانا محمد کفایت اللہ، (10) مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، (11) مولانا احمد سعیددہلوی،(12) مولانا سید کمال الدین،(13) مولانا قدیر بخش، (14)مولانا تاج محمود،(15)مولانا محمد ابراہیم دربھنگوی،(16) مولانا خدا بخش مظفر پوری، (17)مولانا مولا بخش امرتسری،(18) مولانا عبد الحکیم گیاوی،(19) مولانا محمد اکرام،(20) مولانا محمد منیرالزماں،(21) مولانا محمد صادق،(22) مولانا سید محمد داؤد،(23) مولانا سید محمد اسماعیل،(24) مولانا محمد عبداللہ،(25) مولانا آزاد سبحانی۔(مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند، از ص/2، تا5)۔
اس فہرست میں گرچہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ کا نام نہیں ہے؛ لیکن اس میٹنگ میں شریک مولانا احمد سعید صاحبؒ کی شہادت یہ ہے کہ وہ سید حسن رسول نما کے مزار پر حلف راز داری کی اس خفیہ میٹنگ میں شریک تھے اور انھوں نے ایک دل پذیر تقریر بھی فرمائی۔ (حیات سجاد، ص/ 101)۔ اور بعد عشا کی میٹنگ میں مولانا عبد الحکیم گیاوی کو اپنا نمائندہ بناکر بھیجا۔ (تذکرہ ابو المحاسن،ص/424، مطبوعہ جمعیت علمائے ہند)
جمعیت علمائے ہند کا پہلا اجلاس اور تجاویز
جمعیت علمائے ہند کے قیام کے محض 35/ دن بعد،28، 31/ دسمبر1919ء اور یکم جنوری 1920ء کی الگ الگ تاریخوں میں تین نشستوں پر مشتمل اسلامیہ مسلم ہائی اسکول امرتسر میں اس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔28/ دسمبر1919ء بعد نمازعصر کی پہلی نشست میں باون علمائے کرام شریک ہوئے اور جمعیت علمائے ہند کے قیام کی ضرورت و اہمیت پر بحث و گفتگو ہوئی۔
(1) مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے انعقاد جمعیت اور جلسہ دہلی کی مختصر کیفیت بیان کی۔
(2) مولانا ابو تراب محمد عبد الحق صاحب نے سیاست و مذہب کی یگانگت پر تقریر کی۔
(3) مولانا عبد الرزاق صاحب نے انعقاد جمعیت کی ضرورت پر زور دیا۔
(4)جناب سید جالب صاحب ایڈیٹر اخبار ہمدم نے اپنے خطاب میں کہا کہ مختلف صوبائی انجمنوں کی طرح آل انڈیا جمعیت علما کا قیام ضروری ہے۔
(5) مفتی محمد کفایت اللہ صاحبؒ نے جمعیت علمائے ہند کے قیام کی ضرورت پر خطاب کیا۔اور اس کے اغراض و مقاصد کا اجمالی خاکہ بھی پیش کیا۔ 
(6) جناب غازی محمود صاحب نے مفتی صاحب کی باتوں سے مکمل اتفاق کا اعلان کیا۔
(7) حاذق الملک حکیم حافظ محمد اجمل خاں صاحب نے جمعیت کے انعقاد پر اپنے دلی اتفاق کا اظہار کیا۔ (مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند، ص/ از 6، تا /11)۔
اس میں گرچہ مولانا محمد سجاد صاحبؒ کا نام نہیں ہے؛ لیکن مولانا احمد سعید صاحب ناظم اول جمعیت علمائے ہند لکھتے ہیں کہ
”جمعیت علمائے ہند کے اس پہلے اجلاس میں بھی حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد مرحوم شریک ہوئے اور انھوں نے اپنے خیالات کا پھر اعادہ فرمایا۔“ (حیات سجاد، ص/102)
ظاہر سی بات ہے کہ یہ خیالات وہی تھے، جن کے لیے پہلے مولانا مرحوم نے بھارت کے اکثر صوبوں میں سفر کیا، لیکن علما نے ضرورت سمجھنے کے باوجود عمل کی طرف قدم نہیں اٹھایا، اور بالآخر انھوں نے ریاست بہار سے اس کی شروعات کردی۔
یہاں اس بات کا تذکرہ فائدہ سے خالی نہیں ہوگا کہ علمائے ہند کی جمعیت کی پہلی کوششحضرت ابو المحاسنؒ نے کی ہے؛ لیکن جمعیت علمائے ہند کی تاسیسی میٹنگ میں شریک تھے یا نہیں؛ اس حوالے سے مورخین دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ مولانا ابوالمحاسنؒ تاسیس کی میٹنگ میں شریک رہے ہیں۔ اس نظریہ پر سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شریک تھے، تو جمعیت کی ابتدائی دو سالہ رپورٹ پر مبنی بنیادی کتاب ”مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند“ میں مولانا کا نام کیوں نہیں ہے۔ تو اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اسے مورخین کی تعصب پرستی کہنا تو خلاف واقعہ ہوگا؛ بات دراصل یہ ہے کہ وہ نام و نمود سے بہت دور بھاگتے تھے اور پس پردہ رہ کر ہر کام کو انجام دیا کرتے تھے، جیسا کہ15، 16/ دسمبر2018ء میں مولانا مرحوم پر ہوئے سیمینار کے تقریبا اکثر مقالہ نگاروں نے اس خصوصیت کا تذکرہ کیا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جمعیت علمائے ہند کا دماغ ہونے اور کہلانے کے باوجود انھوں نے کسی بھی تاریخ میں اپنے نام کو لکھنا یا لکھوانا گنوارا نہیں فرمایا۔ ہمارے اکابرکا یہی اخلاص ان کی دوامی شہرت اورانھیں عقیدت و محبت کا مرکز بنانے پر مجبور کرتا ہے۔ مولانا عطاء الرحمان قاسمی مشہور مورخ اور ادیب محمد اسحاق بٹھی کی کتاب: بزم ارجمنداں کا ایک اقتباس نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
”محمد اسحاق بٹھی ایک محقق عالم اور دیانت دار صاحب قلم ہیں۔ انھوں نے جمعیت علمائے ہند کے ابتدائی قیام میں شریک بعض قابل ذکر علما کا ذکر ضرور کیا ہے۔ لیکن اس تاسیسی اجلاس  جمعیت دہلی میں شریک بعض اہم علما کا نام ان کے قلم سے غیر شعوری طور پر رہ گیا ہے، ان میں ایک اہم نام ابوالمحاسن محمد سجاد بانی امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کا ہے، جو کہ 23/ نومبر1919ء کو قیام جمعیت علمائے ہند میں شریک ہوئے تھے۔“ (تذکرہ ابو المحاسن، ص/ 527)
محقق عصر مفتی اختر امام عادل قاسمی صاحب نے اپنی کتاب ’حیات ابوالمحاسن (محاسن التذکرہ) میں از صفحات 378تا 390، میں مختلف ثبوت و شواہد سے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مولانا ابوالمحاسن ہی جمعیت علمائے ہند کے اولین بانی اور موسس اول ہیں۔
اجلاس عام اول کی دوسری نشست
31/ دسمبر1919 کو دوسری نشست ہوئی، جس میں تیس علمائے کرام نے شرکت کی۔ اس میں درج ذیل تین تجویزیں منظور ہوئیں:
تجویز نمبر1: جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ کامل ارادت مندی اور خلوص کے ساتھ اظہار کرتا ہے کہ حضرت سلطان المعظم مسلمانوں کے مسلم خلیفہ اور امیر المؤمنین ہیں، اس لیے آپ کے نام کا خطبہ پڑھا جائے۔ محرک مولانا محمد اکرم خاں صاحب مؤید مولانا پیر تراب علی صاحب سندھی۔ یہ تجویز بالاتفاق منظور ہوئی۔
تجویز نمبر2: جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ ملک معظم سے استدعا کرتا ہے کہ خلافت و مسائل متعلقہ ٹرکی کا تصفیہ کرنے کے لیے مسٹر لائڈ جارج کے ہمراہ صاحب وزیر ہندو مسلم نمائندے مسٹر اصفہانی و مسٹر بھرگری، مشیر حسین صاحب قدوائی لازمی طور پر صلح کا نفرنس میں بھیجے جائیں؛ ورنہ ہم کو اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملات مذکورہ کا فیصلہ مسلمانوں کے متفقہ مذہبی مطالبات کے خلاف ہوجائے اور ملک معظم کی کروڑوں رعایائے ہند کی سخت بے چینی کا باعث ہو۔ محرک مولوی عبد الرزاق صاحب، مؤید مولوی محمد مبین صاحب۔ یہ تجویز بھی باتفاق منظور ہوئی۔
تجویز نمبر۳: جمعیت علمائے ہند کا یہ جلسہ تجویز کرتا ہے کہ یہ تجویز نمبر2، بذریعہ تار ملک معظم کی خدمت میں روانہ کی جائے۔ اور جلسہ کی کاروائی اخبارات میں بھیجی جائے۔ محرک مولوی محمد منیر الزماں صاحب، مؤید مولوی احمد سعید صاحب۔ بالاتفاق منظور ہوئی اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا۔“ (مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند، ص/12)
تجاویز پر ایک نظر
31/ دسمبر1919ء کی دوسری نشست کی پہلی تجویز میں ’سلطان المعظم‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے مراد سلطان محمد وحید الدین ہیں۔ ان کے متعلق مختصر معلومات درج ذیل ہیں:
”محمد سادس یا محمد وحید الدین (پیدائش: 14 جنوری 1861ء – انتقال: 16 مئی 1926ء) سلطنت عثمانیہ کے 36 ویں اور آخری فرماں روا تھے جو اپنے بھائی محمد پنجم کے بعد 1918ء سے 1922ء تک تخت سلطانی پر متمکن رہے۔ انھیں 4 جولائی 1918ء کو سلطنت کے بانی عثمان اول کی تلوار سے نواز کر 36/ ویں سلطان کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں۔ ان کے دور حکومت کا سب سے اہم اور بڑا واقعہ جنگ عظیم اول تھا جو سلطنت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ جنگ میں شکست کے نتیجے میں برطانوی افواج نے بغداد اور فلسطین پر قبضہ کر لیا اور سلطنت کا بیشتر حصہ اتحادی قوتوں کے زیر قبضہ آ گیا۔ اپریل 1920ء کی سان ریمو کانفرنس کے نتیجے میں شام پر فرانس اور فلسطین اور مابین النہرین پر برطانیہ کا اختیار تسلیم کر لیا گیا۔ 10 اگست 1920ء کو سلطان کے نمائندوں نے معاہدہ سیورے پر دستخط کیے، جس کے نتیجے میں اناطولیہ اور ازمیر سلطنت عثمانیہ کے قبضے سے نکل گئے اور ترکی کا حلقہ اثر مزید سکڑ گیا، جب کہ معاہدے کے نتیجے میں انھیں حجاز میں آزاد ریاست کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ ترک قوم پرست سلطان کی جانب سے معاہدے کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر سخت ناراض تھے اور انھوں نے 23/ اپریل 1920ء کو انقرہ میں مصطفٰی کمال اتاترک کی زیر قیادت ترک ملت مجلس عالی (ترکی زبان: ترک بیوک ملت مجلسی) کا اعلان کیا۔ سلطان محمد سادس کو تخت سلطانی سے اتار دیا گیا اور عارضی آئین نافذ کیا گیا۔ قوم پرستوں نے جنگ آزادی میں کامیابی کے بعد یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کیا اور سلطان کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک بدر کر دیا گیا جو 17/ نومبر کو بذریعہ برطانوی بحری جہاز مالٹا روانہ ہو گئے اور بعد ازاں انھوں نے زندگی کے آخری ایام اطالیہ میں گزارے۔ 19 نومبر 1922ء کو اُن کے قریبی عزیز عبد المجید آفندی (عبد المجید ثانی) کو نیا خلیفہ چنا گیا جو 1924ء میں خلافت کے خاتمے تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ محمد سادس کا انتقال 16 مئی 1926ء کو سان ریمو، اٹلی میں ہوا اور انھیں دمشق کی سلطان سلیم اول مسجد میں سپرد خاک کیا گیا۔“(ویکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف، محمد وحید الدین)
تجویز نمبر2میں ملک معظم سے مراد جارج پنجم ہے۔
”جارج پنجم (George V) کا مکمل نام جارج فریڈرک ارنسٹ البرٹ (George Frederick Ernest Albert) ہے۔ مئی 1910 سے اپنی وفات20جنوری 1936 تک برطانیہ اور برطانوی دولت مشترکہ کا بادشاہ اور شہنشاہ ہندستان تھا۔ اس کا پیش رو ایڈورڈ ہفتم اور جانشیں ایڈورڈ ہشتم تھا۔“ (ویکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف، جارج پنجم)
 اسی تجویز میں ’صلح کانفرنس‘ کا لفظ آیا ہے، جس سے مراد معاہدہ سیورے (Treaty of Sevray) ہے، جو10/ اگست 1919 ء کو سیورے کے مقام پر کیا گیا تھا۔ اس معاہدہ سے متعلق مرتضیٰ احمد خاں لکھتے ہیں کہ
”فاتح اقوام کے نمائندوں نے جو معاہدہ تیار کیا تھا، ترکی کے نمائندے کو بلاکر بزور شمشیر اس پر دستخط حاصل کرلیے۔ اس عہد کے نام کی رو سے ترکی پر بھاری تاوان جنگ ڈال دیا گیا۔ اور اس کی وصولی کے لیے ترکی کے ذرائع آمدنی کو اپنے قبضے میں لینا طے کرلیا گیا تھا۔ اور ترکی کے علاقوں پر اس طرح قبضہ طے کیا گیا کہ عراق، فلسطین اور شرق اردن برطانیہ کی عمل داری میں چلے گئے۔ شام و لبنان پر فرانس کا قبضہ مان لیا گیا۔ شریف مکہ حسین کو جس نے ترکوں کے خلاف بغاوت کرکے اتحادیوں کی مدد کی تھی، یہ انعام دیا گیا کہ اسے حجاز کا بادشاہ تسلیم کرلیا گیا۔ اس کے بیٹے امیر فیصل کو عراق کا کٹھ پتلی حکمراں بنا دیا گیا۔ ترکی سے تاوان جنگ وصول کرنے کے لیے برطانیہ، فرانس اور اٹلی کی فوجوں نے قسطنطنیہ پر اپنا قبضہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔“ (تاریخ اقوام عالم، بحوالہ سیاسی ڈائری، ج/2، ص/78)
ہندو مسلم نمائندہ مسٹر اصفہانی سے مراد غالبا ابوالحسن اصفہانی ہے۔
”ابو الحسن اصفہانی (انگریزی: Abul Hassan Isphani) ایک پاکستانی قانون ساز اور سفارت کار تھے۔ ان کا تعلق اصفہانی خاندان سے تھا اور وہ سینٹ جانز کالج، کیمبرج سے تعلیم یافتہ تھے۔ ان کا شمار تحریک پاکستان کے اہم رہنماوں میں کیا جاتا ہے۔ ستمبر 1947ء سے فروری 1952ء تک ریاستہائے متحدہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔“(آزاد دائرۃ المعارف ویکی پیڈیا، ابوالحسن اصفہانی)
مسٹر بھرگری اور مشیر حسن قدوائی کے بار میں معلومات نہیں مل سکیں۔
جمعیۃ العلماء ہندیا جمعیت علمائے ہند
جمعیت علمائے ہند کے قدیم و جدید مورخین نے کہیں پر اس کا نام جمعیۃ العلماء لکھا ہے اور کہیں پر جمعیۃ علماء ہند۔ اور بعض حضرات کی تحریروں میں جمعیۃ العلماء ہند بھی لکھا ملتا ہے۔ مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب سابق ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء ہند نے اس کی تاریخ پر لکھی کتاب کا نام”جمعیۃ العلماء کیا ہے“  رکھا ہے۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر لوکیشن نام کا حصہ نہیں ہے، تو جمعیۃ العلماء اصل نام ہوگا۔ اور ہند لوکیشن ہوگا۔ لیکن ہند نام کا حصہ ہے، اس لیے یہ ترکیب کسی بھی صورت درست نہیں ہوگی۔ کیوں کہ اگر اسے عربی جملہ مان لیا جائے، تو مبتدا خبر کی ترکیب ہوگی، جو بالکل بھی بے معنی جملہ ہوگا۔ اور اگر فارسی ترکیب تسلیم کیا جائے، تو ایسی ترکیب فارسی زبان و ادب میں ندارد ہے؛ اس لیے بہر صورت جمعیۃ العلماء ہند لکھنا خلاف قاعدہ ہے۔
تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کا اصل اور پورا نام جمعیت علمائے ہندہے؛ کیوں کہ جمعیت کی تاریخ پر سب سے پہلی اور مستند کتاب  ”مختصر حالات انعقاد جمعیت علمائے ہند“ میں ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ صدر اول جمعیت علمائے ہند نے اس کے پہلے اجلاس میں قواعد و ضوابط کا جو مسودہ پیش کیا ہے۔ اس میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ
”دفعہ نمبر۔۱: اس انجمن کا نام جمعیۃ علمائے ہند ہوگا۔“ (ص/۶۱)
جمعیت علمائے ہند کا صحیح املا کیا ہونا چاہیے
جمعیۃ: عربی لفظ ہے، اس لیے عربی زبان و تحریر میں بالیقین اسے تائے مدورہ سے لکھا جائے گا، لیکن اس کی تہنید کردینے کے بعد لمبی تا سے لکھنا ضروری ہوجاتا ہے، جیسے کہ ہم محبت، خدمت، قدرت، رحمت اور ان جیسے ہزاروں الفاظ کو لکھتے ہیں؛ اس لیے ناچیز کی رائے یہی ہے کہ اسے جمعیۃ کے بجائے ”جمعیت“ لکھنا زیادہ موزوں ہے۔
اسی طرح ”علماء“ کی اضافت میں بعض جگہ ایسے ہی لکھا گیا ہے، جب کہ کہیں کہیں ”علمائے“ لکھا ملتا ہے۔ چوں کہ اس کے تینوں الفاظ  فارسی ترکیب اضافی پر مشتمل ہیں، اور اضافت کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر اسم کے آخر میں الف ہو، تو اس کی اضافت ”ہمزہ اور ے“ سے ہوگی، اس لیے قاعدہ  کے مطابق”علمائے“لکھا جانا چاہیے۔جمعیت کی تاریخ کی بنیادی کتاب کا نام بھی  ”جمعیت علمائے ہند“ کے املا کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح دستور اساسی کے مسودہ کی دفعہ نمبر ایک میں بھی ”علمائے“ ہی لکھا ہوا ہے؛ اس لیے جمعیت کو مکمل نام اور صحیح املا کے ساتھ ”جمعیت علمائے ہند“ لکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
جمعیت علمائے ہند کا پہلادفتر
حضرت مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نو راللہ مرقدہ چوں کہ صدر منتخب کیے گئے تھے اور آپ اس وقت مدرسہ امینیہ اسلامیہ کشمیری گیٹ سے وابستہ تھے، اس لیے”اس کا سب سے پہلا دفتر مدرسہ امینیہ کے ایک کمرے میں قائم ہوا۔“ (مختصر تاریخ مدرسہ امینیہ اسلامیہ، ص46)۔ 
یہ کمرہ آج تک موجود ہے، جس میں سردست مدرسہ کا دفتر اہتمام ہے۔
 خلاصہ کلام
انگریزوں نے بھارت پر جابرانہ قبضہ کرکے، یہاں کی عوام بالخصوص مسلمانوں کو سیاسی، اقتصادی اور مذہبی طور پر تباہ کرنے کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ ادھر دوسری طرف علمائے امت کے مسلکی اختلافوں نے انھیں اور بھی بے جان کردیا تھا۔ ایسے پرآشوب حالات میں مفکر قوم و ملت حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمۃ اٹھے اور بھارت کے اکثر صوبوں میں دورہ کرکے علمائے کرام کو ایک متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دینے کی دعوت دی، لیکن کسی نے بھی ان کی آواز پر لبیک نہیں کہا؛ بالآخر مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے آل انڈیا کے بجائے ریاستی سطح پر15/ دسمبر 1917ء میں ”جمعیت علمائے بہار“ کی داغ بیل ڈالی۔بعد ازاں آل انڈیا خلافت کانفرنس کے موقع پر بھارت کے کونے کونے سے علمائے کرام دہلی میں جمع ہوئے تھے، اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے، مختلف مسالک کے علما سید حسن رسول نما کے مزار پر حاضر ہوکر پہلے رازداری کا حلفیہ لیا۔ پھر اسی روز23/ نومبر1919ء بعد نماز عشا مسجد درگاہ سید حسن رسول نما میں ایک میٹنگ کی اور ”جمعیت علمائے ہند ”کی تشکیل کی۔ یہ تشکیل ”جمعیت علمائے بہار“ کا نظام جدید اور توسیعی نظام کا حصہ تھا۔ اس کا پہلا اجلاس 28،31/ دسمبر 1919ء و یکم جنوری 1920ء امرتسر میں کیا گیا، جس میں  خلافت اسلامیہ کے خلیفہ محمد وحید الدین خاں کے نام کا خطبہ پڑھنے، صلح کانفرنس میں بھارتی مسلمانوں کے وفد کے بھیجنے اور اس تجویز کو برطانوی بھارتی بادشاہ جارج پنجمکوبھیجنے کی تجاویزمنظور کی گئیں اور پہلی مجلس منتظمہ بنائی گئی۔ اس کا پہلا دفتر مدرسہ امینیہ اسلامیہ کشمیری گیٹ دہلی میں قائم کیا گیا۔ املا کے قاعدہ کی رو سے ”جمعیت علمائے ہند“ لکھنا چاہیے۔

13 Feb 2020

محمد یاسین جہازی

محمد یاسین جہازی
محمد یاسین نام ہے، جہازی وطنی نسبت ہے ، مقام پیدائش کا نام جہاز قطعہ ہے  جو بھارت کے مشرقی کنارے ضلع گڈا جھارکھنڈ میں واقع ۔    8 جنوری 1984بروز اتور بوقت صبح صادق اصلی تاریخ پیدائش ہےَوالد محترم کا نام محمد مظفر ابن نصیر الدین ابن تاج علی ابن شیخ پھیکو ابن شیخ لوری ہے۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب محفوظ نہیں ہے۔
پرورش و پرداخت
دادا نصیر الدین کے مرحوم ہونے کے وقت والد محترم کی عمر بمشکل بارہ چودہ سال تھی۔ دادا نے اپنی وراثت میں بینک کا بھاری قرض، تقریبا چار سالہ ایک  بہن محمودہ خاتون اور سال ایک  مہینے کا بھائی فیروزچھوڑ گئے تھے۔ اس لیے تعلیم کی تکمیل نہیں کرپائے۔ یتیمی  ، بینک کا بھاری قرض، قرض کی وجہ سے گرفتاری کا بار بار وارنٹ ،27 ستمبر 1995 میں ہلاکت خیز سیلاب کی وجہ سے کچے آبائی مکان کا انہدام  اور پھر دوبارہ 19 اکتوبر 1999 کے بھیانک سیلاب میں چھپر یل  گھر کی مکمل تباہی کے علاوہ پانچ لڑکے اور ایک لڑکی کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے گھریلو حالت غربت کی سطح سے  بھی نیچے پہنچ گئی تھی، سرچھپانے کے ساتھ ساتھ روزینہ کے بھی لالے پڑتے تھے،  اس کے باوجود والد محترم نے اپنے دوبیٹوں کو مکمل عالم  دین بنانے  اور بقیہ تینوں بیٹوں کی تعلیم کی حتیٰ الامکان کوشش کی۔
تعلیمی سفر
لاشعوری عمر میں گائے اور بکری کی نگہبانی کے ساتھ ، دروازے پر چل رہا مکتب میں جناب اختر صاحب سے  اردو، عربی، ہندی اور انگریزی کے الف ب ، ت سیکھے۔ ایک ڈیڑھ سال کے بعد گھر سے قریب مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد جہاز قطعہ  اور پھر مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں یکے بعد دیگرے ناظرہ قرآن اور ابتدائی دینیات کی تعلیم حاصل کی۔ اساتذہ میں مولانا حضرت علی صاحب، پنڈت صاحب اور دیگر تھے، جن کے نام بالکل بھی یاد نہیں آرہے ہیں۔یہ سلسلہ 1993 تک چلا۔ بعد ازاں 1994 میں مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر بھاگلپور میں داخلہ لیا اور مولانا نعمان صاحب جہازی دامت برکاتہم کے زیر سایہ عاطفت ناظرہ قرآن کی تکمیل اور فارسی کی بنیادی کتاب پڑھی۔ 1995 میں مدرسہ اعزاز العلوم ویٹ غازی آباد میں درس نظامی کا پہلا درجہ ، درجہ فارسی میں داخلہ لیا۔ یہاں ایک محترم استاذ کے تشدد آمیز سزا کی وجہ سے ناچیز تعلیمی سال کی تکمیل سے پہلے ہی مدرسہ سے بھاگ گیا۔ فارسی کے اساتذہ میں سے مولانا مرغوب الرحمان صاحب، مولانا اعزاز صاحب، مولانا کلیم صاحب، مولانا شہادت صاحب اور دیگر حضرات کرام تھے۔  1996 میں مولانا مجیب الحق صاحب قاسمی موکل چک کی سرپرستی میں مدرسہ مظہر العلوم دادا میاں چوراہا بیگم گنج کانپور پہنچا اور عربی اول میں داخلہ لیا۔ اساتذہ میں سے مولانا شفیع الدین صاحب، مولانا ابوبکر صاحب، مولانا قمر الحسن صاحب، مفتی اقبال صاحب اور دیگر حضرات تھے۔1997 میں مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ روڑکی ہریدوار پہنچا اورعربی دوم کے درجہ کا طالب علم بنا ۔ اساتذہ کرام میں مولانا اظہر الحق جہازی صاحب، مولانا محمد ارشد صاحب، مولانا محبوب الحق صاحب، مولانا اسحق صاحب، مفتی سلیم الدین صاحب اور دیگر حضرات تھے۔1998 میں دارالعلوم آگرہ پیر جیلانی آگرہ آگرہ کا رخ کیا۔ اور داخلہ امتحان کے بعد سوم مطلوب کے بجائے عربی دوم میں داخلہ منظور ہوا۔اور اس طرح عربی دوم کو دوبار پڑھا۔ اساتذہ میں مفتی عبدالقدوس صاحب، مولانا صلاح الدین صاحب، مفتی عبدالمجید صاحب، مولانا علی صاحب، مولانا کاتب مظفر حسین صاحب، مولانا بسم اللہ صاحب و دیگر صاحبان تھے۔ 
دارالعلوم دیوبند میں
علوم نبویہ کے طالب علموں کی سب سے بڑی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اس کی آخری تعلیمی منزل دارالعلوم دیوبند ہو۔ یہی تمنا مجھے بھی دارالعلوم دیوبند لے آئی اور داخلہ امتحان دیا۔الحمد للہ اس میں کامیابی ملی اور 1999ء میں درجہ عربی سوم میں داخلہ ہوگیا۔اس درجے کی درسیات میں،شرح شذور الذہب اور شرح تہذیب مولانا مزمل صاحب مظفر نگری، ترجمہ قرآن کریم اورنفحۃ الادب مولانا مصلح الدین صاحب سدھارتھ نگری، القراۃ الواضحہ مولانا سعد حصیری اور دیگر کتابیں دیگر موقر اساتذہ کرام سے متعلق تھیں۔ درجہ چہارم میں شرح وقایہ مولانا بلال اصغر صاحب، قطبی مولانا محمد سلمان بجنوری صاحب، دوروس البلاغۃ مولانا خضر کشمیری صاحب، ترجمہ قرآن مولانا مزمل صاحب مظفر نگری اور اصول الشاشی مولانا جمال صاحب سے پڑھی۔ پنجم میں نور الانوار امام المنطق والفلسفہ مولانا عبدالرحیم صاحب، سلم العلوم مولانا عثمان صاحب، مختصر المعانی مولانا خضر کشمیری صاحب، مقامات مولانا محمد جمال صاحب، ہدایہ مولانا نسیم صاحب بارہ بنکوی پڑھاتے تھے۔ عربی ششم میں جلالین مولانا شوکت صاحب بستوی، دیوان متنبی مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب سے وابستہ تھی۔ ہفتم میں ہدایہ مولانا محمد احمد صاحب و مولانا مجیب الحق گوونڈی صاحب، مشکوۃ مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری سے پڑھی۔ دورہ حدیث میں بخاری اول مولانا نصیر احمد خاں صاحبؒ ، بخاری ثانی مولانا عبدالحق صاحبؒ ، مسلم مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی (جلد اول) و مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری (جلد ثانی) ،طحاوی و ترمذی مولانا سعید صاحب پالنپوری (جلد اول) و مولانا سید ارشد مدنی صاحب (جلد ثانی)، سنن ابی داود مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی و مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی،سنن ابن ماجہ مولانا ریاست علی ظفر صاحب بجنوریؒ ،موطا امام مالک مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری،موطا امام محمد مفتی محمد امین صاحب پالن پوری، شمائل ترمذی مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی ، سنن نسائی مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری سے پڑھی۔ 
فراغت و تدریس
2005ء میں دورہ حدیث شریف سے فراغت ہوئی اور2006ء میں تکمیل ادب عربی میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں 2007ء میں تکمیل علوم کیا۔ اور پھر دیوبند کو الوداع کہتے ہوئے اسی سال اور 2008ء کے آواخر تک مکمل دو سال جامعہ عربیہ بیت العلوم جعفرآباد دہلی میں تدریسی خدمات سے وابستہ رہا۔
جمعیت علمائے ہند سے عملی وابستگی
2009ء سے جمعیت علمائے ہند  کے  شعبہ میڈیا سے عملی وابستگی کا آغاز ہوا۔ بعد ازاں ادارہ مباحث فقیہ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ سردست شعبہ دعوت اسلام  میرے متعلق کیا گیا ہے ، جس کا  سلسلہ تادم تحریر(2020) جاری ہے۔
فاصلاتی تعلیمات
2005 میں  بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ  بہار سے وسطانیہ۔
2007 میں بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ  بہارسےفوقانیہ۔
2010 میں بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ  بہارسے مولویت۔
2010 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی  سے بی اے (اردو آنرس)۔
2012 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے ایم اے (اردو آنرس) ۔
2014 میں  مولانا مظہر الحق عربک اینڈ پرشین یونی ورسیٹی پٹنہ بہار سے بی اے (اردو آنرس)
2016 میں مولانا مظہر الحق عربک اینڈ پرشین یونی ورسیٹی پٹنہ بہار سے  ایم اے۔ (اردو آنرس)
2017 میں دہلی یونی ورسیٹی دہلی سے ٹرانسلیشن اینڈ ماس میڈیا۔
2018 میں ڈسٹرکٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پنڈراجورا  سے پی ٹی ٹی۔
تالیفات
 (1) رہ نمائے اردو ادب: اس میں اردو ادب کی مختلف اصناف کا تعارف پیش کیا گیا ہے اور تحریر کے مختلف اسلوب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں مشہور اسلامی اہل قلم حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ 
(2) رہ نمائے خطابت: یہ کتاب تقریر کے اسرار و رموز اور فن خطابت کے مضامین پر مشتمل ہے اور شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ 
(3) نظامت ، خطابت اور مکالمہ نگاری: اس کتاب میں ان تینوں موضوعات پر معلومات پیش کی گئی ہیں۔ سردست یہ کتاب اشاعت کے مراحل میں ہے۔
(4) آسان عربی قواعد: یہ کتاب تدریسی تجربات کا ماحصل ہے، جس میں مبتدی طلبہ کو ان کے نفسیات کے مطابق انتہائی آسان انداز میں عربی زبان سکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ 
(5)آسان انگریزی قواعد: اردو اور عربک بیک گراونڈ والے طلبہ کے لیے اردو قواعد کے طرز پر آسان انداز میں انگریزی گرامر کو پیش کیا گیا ہے۔ 
(6) حق اطلاعات: آر ٹی آئی کے متن کا ترجمہ اور اس ایکٹ سے فائدہ اٹھانے کے طریقوں پر یہ کتاب مشتمل ہے۔ اسے جمعیت علمائے ہند نے اپنے شعبہ سے شائع کیا ہے۔
(7)  مقالات جہازی جلد اول و دوم : ناچیز کے مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ سب وہ مضامین ہیں، جو کسی ضرورت، یا کسی کی طلب پر لکھے گئے ہیں اور سبھی مضامین روزنامہ، سہ روزہ، ہفت روزہ ،ماہانہ جرائد و رسائل اور ویب پر شائع ہوچکے ہیں۔ مقالات کا سلسلہ جاری ہے۔ 
(8) فلسفہ اسلام: مسائل و احکام کے اسرار و رموز پر یہ کتاب مشتمل ہے، جو ابھی زیر ترتیب ہے۔ 
(9) تاریخ جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ: سنتھال پرگنہ کی کمشنری میں واقع: دیوگھر، دمکا، گڈا، صاحب گنج، پاکوڑ اور جامتاڑا کی ضلعی جمعیت کی تاریخ پیش کی گئی ہے۔ اس میں ناچیز نے مختلف دستیاب دستاویزات کو مرتب کرنے کا کام کیا ہے۔
(10) تاریخ جہاز قطعہ: مادری گاوں کی تاریخ  اور علاقائی تہذیب و ثقافت پر  تاریخ و حقائق پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ابھی زیر ترتیب ہے۔
(11) جمعیت علمائے ہند کے سو سال -- - قدم بہ قدم :  اس میں اختصار کے ساتھ جمعیت علمائے ہند کی سوسالہ تاریخ کو احاطہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،  اس کی پہلی جلد تکمیل کے قریب ہے۔  بیس بیس سالہ تاریخ پر مشتمل پانچ جلدوں میں ترتیب دینے کا ارادہ ہے۔
ازداوجی زندگی
27 جون 2012 میں پھوپھا کی صاحبزادی نصرت خاتون سے مسنون عقد ہوا، جس میں رسموں کومکمل طور پر ترک کیا گیا۔  تقریبا ڈیڑ  سال بعد ایک لڑکے کی ولادت ہوئی۔ ولادت میں جسم تو مکمل تھا، لیکن روح ہی نہیں تھی۔ بعد ازاں 4؍ جنوری 2016 رات گیارہ بج کر 35 منٹ پر ایک لڑکی کی نعمت سے سرفراز ہوا، جس کا نام اپنے نام کے ہم نام یاسمین رکھا گیا۔ کچھ سال بعد ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے ایک لڑکے سے نوازا ۔ اس کا نام یامین محمد رکھا گیا۔ اس کی پیدائش 9 ؍ مارچ 2019 بروز سنیچر صبح پونے سات بجے ہوئی۔ پھریکم اپریل 2021 بوقت رات دس بج کر پینتالیس منٹ پر جاسمین کی پیدائش ہوئی۔ثلیث و تربیع حیات کے بعد بھی نئی زندگیوں کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔
حالیہ سرگرمیاں
جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے ملی خدمات کے ساتھ ساتھ ذاتی ذوق و شوق کی بنیاد پر جہازی میڈیا کا چیف ایڈیٹر ہے۔ یہ خبروں کا نہیں؛ بلکہ نظریوں کا نیٹ ورک ہے۔ اس میں نیوز سے زیادہ ویوز کی اشاعت کو ترجیح دی ہے جاتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد،آج گوگلنگ کے مزاج کی وجہ سے اکابرین امت اور مستند اسلام کو یونی کوڈ فارمیٹ میں پوری دنیا میں عام کرنا ہے، جس سے ابھی تک نیٹ کی دنیا محروم ہے۔




15 Nov 2019

بابری مسجد! بچ سکتی تھی اگر ہم یہ غلطی نہیں کرتے

محمد یاسین جہازی
یمن کے قبیلہ حمیر کے ایک مشرک بادشاہ ذو نواس نے اپنے زمانے کے مسلمان بیس ہزار عیسائیوں کو خندق کھودواکر زندہ جلا دیا۔ اس میں صرف دوس ذو ثعلبان نامی شخص کسی طرح زندہ بچ کر نکل گیا اور ملک شام پہنچ کر فریاد رسی چاہی۔ یہ نصرانی بادشاہ تھا، اس نے شاہ حبشہ سے فوجی مدد طلب کی۔ چنانچہ شاہ حبشہ نے ارباط اور ابرہہ کی سرداری میں ایک بڑا لشکر بھیج دیا۔یہ لشکر یمن پہنچا اور یمنیوں کو تاخت و تاراج کردیا۔ ذونواس جان بچانے کے لیے بھاگا، لیکن دریا میں ڈوب کر مرگیا۔ جس کے بعد ان دونوں سرداروں نے یمن پر قبضہ کرلیااور دونوں یہیں رہنے لگے۔ کچھ دنوں بعد ان دونوں میں ناچاقی ہوگئی اور اختلاف اتنا بڑھا کہ دونوں اپنی اپنی فوج لے کر لڑنے نکل گئے۔ پھر اس بات پر فیصلہ ہوا کہ فوج کو لڑانے کے بجائے، ہم دونوں آپس میں مقابلہ کریں گے، جو جیتے گا وہی یمن کا حاکم ہوگا۔دونوں میں سخت مقابلہ ہوا، بالآخر ابرہہ نے اپنے غلام عتودہ کے پیٹھ پیچھے وار سے ارباط کو قتل کردیا اور یمن کا بادشاہ بن گیا۔
 شاہ حبشہ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ ابرہہ سے سخت ناراض ہوئے اور لعنت ملامت کرتے ہوئے کہا کہ میں تمھارے شہر کو پامال کردوں گا۔ شاہ حبشہ نجاشی کا سخت رویہ دیکھ کر ابرہہ نے معافی مانگ لی، جس پر بادشاہ نے معاف کردیا اور یمن کا سردار بنادیا۔
ابرہہ نے نجاشی کو مزید خوش کرنے کے لیے خط لکھا کہ میں یمن میں آپ کے لیے ایک بے مثال گرجا تعمیر کروں گا۔ چنانچہ ابرہہ نے عالی شان گرجا گھر تعمیر کردی اور لوگوں کو دعوت دی کہ وہ کعبۃ اللہ کے بجائے اسی گرجا کا طواف و حج کیا کریں۔ یہ بات عربوں اور قریشیوں کو بہت ناگوار گذری۔ کچھ دنوں بعد ایسا ہوا کہ کسی شخص نے اس گھر میں پاخانہ کردیا، جس کا الزام قریشیوں پر لگا۔ بادشاہ اس بے حرمتی سے بہت ناراض ہوا اور قسم کھالی کہ میں کعبتہ اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا۔ چنانچہ وہ بیس ہزار لشکر لے کر مکہ پہنچا۔ مکہ کے میدان میں اہل مکہ کے جو اونٹ چر رہے تھے، ابرہہ کی فوج نے سب کو اپنے قبضے میں کرلیا، جس میں دو سو اونٹ عبد المطلب کے تھے۔ ابرہہ نے سردار قریش کو طلب کیا، تو عبد المطلب پہنچے اور گفت و شنید میں کہا کہ میرے دوسو اونٹ مجھے واپس کردو اور خانہ کعبہ خدا کا گھر ہے، وہ خود اس کو بچالے گا۔ عبد المطلب اپنے اونٹ واپس لے کر آئے اور چنندہ افراد کو لے کر خانہ کعبہ پہنچے، اور اس کے دروازے کا کنڈا پکڑ  کر خوب گڑگڑا کر دعائیں کیں کہ ائے بار ی تعالیٰ! ابرہہ اور اس کے خون خوار لشکر سے اپنے پاک اور ذی عزت گھر کو بچالے۔
 دعا کے بعد عبد المطلب نے قریشیوں کو حکم دیا کہ وہ آبادی کو چھوڑ کر آس پاس کے پہاڑوں میں پناہ لے لیں اور خود چند سرداروں کے ہمراہ چوٹیوں پر چڑھ گیا تاکہ خدائی حفاظت کا بچشم خود مشاہدہ کرسکے۔ اگلی صبح جب ابرہہ نے حملہ کا اعلان کیا، اور بیت اللہ کی طرف بڑھنے ہی والا تھا کہ کیا دیکھتا ہے کہ گھٹا ٹوپ پرندوں کا جھرمٹ بادلوں کی طرح امڈا چلا آرہا ہے۔ اور ابھی پوری طرح معاملہ کو سمجھ بھی نہیں پایا تھا کہ وہ پرندے سر پر آگئے اور کنکریاں برسانے لگے۔ یہ کنکری جس کے جسم پر جہاں لگتی تھی، اسے چیر کر رکھ دیتی تھی۔ چنانچہ اس پرندے کی فوج نے پوری لشکر کو تباہ و برباد کردیا۔ خود ابرہہ بھی بری طرح زخمی ہوچکا تھا، وہ کسی طرح میدان جنگ سے بھاگنے میں کامیاب رہا، لیکن صنعا پہنچتے پہنچتے اس کے جسم کاسارا گوشت کٹ کر گرچکا تھا اور بالآخر تڑپتا تڑپتا مرگیا۔
اس واقعہ پر موجودہ حالات کے تناظر میں غور کیجیے، تو شاید یہ نتیجہ خلاف حقیقت نہیں کہلائے گا کہ ہم بابری مسجد کواس لیے نہیں بچا پائے، کیوں کہ ہم نے اس کے تحفظ کے لیے عبد المطلب اور قریشیوں کا کردار ادا نہیں کیا۔خانہ کعبہ کے تحفظ کے لیے انھوں نے سب سے پہلے جو کردار پیش کیا، وہ یہ کیا کہ اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کیا۔ بیت اللہ کے الٰہی تحفظ پر اس قدر توکل و یقین پیدا کیا کہ   ”جب وہ خدا کا گھر ہے، تو اس کا تحفظ وہ خود ہی کرے گا“۔ دوسرا کردار یہ پیش کیا کہ اس اعتقاد کے باوجود رجوع الیٰ اللہ کا دامن نہیں چھوڑا اور بیت اللہ کے دروازے سے چپٹ کر خوب روروکر تحفظ کی دعائیں کیں۔
جب بابری مسجد شہید ہوئی، تب بھی ہم نے مساجد کو آباد کرنے والا کردار پیش نہیں کیا۔ اور 9/ نومبر2019کو جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے والا تھا، تب بھی ہم نے نہ تو دعا کی اور نہ ہی عملی کردار پیش کرتے ہوئے اپنی مساجد کو آباد کی۔ جب تحفظ کے لیے ہم نے نہ باطنی اسباب کو ترجیح دی اور نہ ہی مساجد کی اصلی آبادی والا کردار پیش کیا، تو کہاں سے خدائی مدد آتی اور مسجد کے تحفظ کے لیے غیبی مدد اترتی۔
یقین مانیے کہ اگر ہم- بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے عبرت حاصل کرنے کے بعد ہی سہی- توکل علیٰ اللہ اور رجوع الیٰ اللہ کے فارمولہ پر عمل کرتے ہوئے نماز و تلاوت سے مساجد کو آباد کرنے کے عملی نمونے پیش کرتے ہیں، اور سبھی مسجدوں کو پنج وقتہ نمازوں سے آباد کرنا شروع کرتے ہیں، تو اس کی جگہ رام مندر بنانے والے پھر کبھی کسی مسجد کی طرف غلط نگاہ نہیں ڈال سکیں گے۔ لیکن اگر ہم اتنے بڑے حادثہ کے باوجود کوئی عبرت نہیں پکڑتے اور ہماری زندگی کے اعمال میں کوئی انقلاب نہیں آتا اور پہلے ہی کی طرح ہماری مسجدیں ویران نظر آتی ہیں، تو ایک بابری مسجد کیا، ہماری ہزاروں مسجدیں ہم سے چھینی جاسکتی ہیں اور پھر کوئی خدائی مدد ہمارے لیے نہیں آئے گی۔ فافہم و تدبر۔ 

31 Oct 2019

جمعیت: ملی و قومی اتحاد کا مرکزی پلیٹ فارم ہے جمعیت کا ممبربننے کا مطلب:ملی وقومی اتحادکا دوسرا نام ہے


محمد یاسین جہازی

کفار مکہ کی چیرہ دستیوں سے گلو خلاصی کے لیے مدینہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت؛ درحقیقت اسلام کے لیے ایک نقطہ انقلاب ہے۔ صحابہ کرام ؓ کے بعد جب سالار قافلہ اسلامی فداہ امی و ابی سرور کونین محمد عربی ﷺ بھی مدینہ پہنچ گئے، تو گرچہ اہل مدینہ، مکہ والوں کی طرح، اسلام کے تعلق سے اتنی شدید نفرت نہیں رکھتے تھے، اس کے باوجود سرور کائنات ﷺ نے اسلام کے تحفظ اور مسلمانوں کے فاتحانہ دور کے آغاز کے لیے بڑی حکمت کے عملی مظاہر پیش کیے۔ 
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے والدجناب مالک کے مکان پر ایک میٹنگ رکھی گئی، جس میں مسلمانوں کے علاوہ مدینہ کے دس بڑے قبیلوں کے سرداروں نے شرکت کی اور یہودیوں کے تین بڑے قبیلوں کے سرداروں کو بھی مدعوین خصوصی کے طور پر شریک کیا گیا۔اور پھر مشترکہ طور پر کچھ تجاویز منظور کی گئیں، جو تاریخ میں میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔
محققین اور تاریخ نگاروں کے مطابق اس میں پچاس کے قریب یا اس سے زائد دفعات ہیں؛  دفعات کے تناظر میں حالات کے پس منظر کا تجزیہ کیا جائے، تو آپ اسی سچائی پر پہنچیں گے کہ مدینہ میں اجتماعی نظام کا جو قدیم سلسلہ موجود تھا، آپ نے اس کو توڑنے کے بجائے، تقویت پہنچانے اور سرداروں کی لیڈر شپ میں قبیلہ وار اجتماعیت کے نظریے کو برقرار رکھا۔ اور یہی وہ حکمت عملی تھی، جس نے دنیا میں سب سے پہلے قومیت اور ملت کی بنیاد پر وطنیت کا تصور پیش کیا۔ سرور کائنات ﷺ کا یہ دانش مندانہ عمل بالیقین ان ممالک کے مسلم باشندگان کے لیے فلاح و نجات کا ضامن ہے، جہاں جمہوریت میں قائدانہ رول ادا کرنا چاہتے ہیں، یا مذاہب کی رنگا رنگی میں اپنے وجود کو امتیازی تشخص بخشنا مقصود ہے۔ 
موجودہ حالات کے تناظر میں بھارتی مسلمانوں کے لیے اپنے ماضی کے وقار اور لیڈر شپ کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے اس نبوی فارمولہ سے بہتر کوئی اور فارمولہ نہیں ہوسکتا کہ مذاہب کی کثرت کے باوجود اپنی اسلامی شان و شوکت کو برقرار رکھنے کے لیے ملی اتحاد کا عملی ثبوت بہم پہنچاتے ہوئے اہل وطن کے ساتھ مذہبی آزادی اور رواداری کے مظاہر دکھلائیں۔ 
یہاں تک پہنچنے کے بعد اب آپ کا اگلا سوال یہی ہوگا کہ آخر اس کی عملی شکل کیا ہوگی؟ ظاہر ہے کہ یہ سوال جتنا زیادہ آسان ہے، عملی اعتبار سے اس کا جواب اتنا ہی مشکل ہے؛ کیوں کہ بھارت کا مسلمان جس طرح عقیدے کے اعتبار سے مختلف النوع ہیں، اسی طرح اپنی مسلکی تاریخ میں اتنا ہی دست و گریباں؛ چنانچہ شیعہ سنی کی تاریخ میں، سنی شیعہ کی نظر میں، دیوبندی بریلوی کے عقیدے میں، بریلوی دیوبندی کی تحقیق میں، اہل حدیث دیگر فرقوں کے علمی تجزیے میں اور دیگر فرقے اہل حدیث کے نظریے میں اتنا ہی بڑا کافر یا گمراہ ہے، جتنا کہ ایک بت پرست حقیقی معنی میں مشرک و نجس ہے۔ ان تمام اختلافات کے باوجود میثاق مدینہ کی روشنی میں محض اسلام یا پھر وطنیت کی بنیاد پرملی یا قومی اتحاد کی نیو رکھ سکتے ہیں۔ اور ہر چند کہ ہر ایک مسلک کے پاس اپنی اپنی تنظیمیں اور پلیٹ فارم ہیں، اس کے باوجود سب کے لیے ”جمعیت علمائے ہند“ کے پلیٹ فارم سے بڑھ کر اور بہتر شاید کوئی اور مرکز اتحاد نہیں ہوسکتا؛ کیوں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس تنظیم کی نیو میں کسی ایک فرقہ و مسلک کی نہیں؛ بالعموم سبھی مسلکوں کی فکر شامل ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں زمینی سطح سے مربوط اور دائرہ کار کے اعتبار سے اتنی وسیع کوئی اور تنظیم نہیں ہے؛ لہذا اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے، اپنے اپنے مسلک و مشرب کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی چھوٹی بڑی تحریکوں و تنظیموں میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے، جمعیت کا مقامی/ شہری/ ضلعی/ ریاستی / مرکزی نمائندہ کے حیثیت سے اپنا وجود تسلیم کراسکتے ہیں۔
مدینہ میں چوں کہ قبائلی طور پر اتحاد کا سسٹم موجود تھا، لہذا اسے بروئے کار لایا گیا۔ بھارت میں مرکزی اتحاد کے لیے نہ تو قبائلی معاشرہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی اور سسٹم موجود ہے، سوائے اس کے کہ ماضی کی طرح آج بھی جمعیت کو مرکز بناکر ملی و قومی اتحاد قائم کیا جائے۔ 
یکم ستمبر سے 31/ دسمبر 2019تک جمعیت کی ممبر سازی مہم جاری ہے۔اور یہی وہ سنہری موقع ہے، جہاں ہم خود بھی اور احباب و متعلقین کو بھی ممبر بناکر جمعیت کے جھنڈے تلے اتحاد و اتفاق کا حسین مرکز قائم کرسکتے ہیں۔ تو دیر کس کی بات کی ہے، آپ اپنے علاقے کے مقامی ذمہ داران جمعیت سے ملاقات کیجیے اور ان سے ممبر شپ حاصل کرکے جمعیت کے وسیع نیٹ ورک کا حصہ بن جائیے، تاکہ اتحاد کے قیام اور ملت مسلمہ کو تقویت پہنچانے میں آپ کے کردار کو سنہرے حروف میں لکھا جاسکے۔ 

20 Sept 2019

عملی اسلام کہاں ہے……؟

 عملی اسلام کہاں ہے……؟
محمد یاسین جہازی، خادم جمعیت علمائے ہند
اسلام میں جہاں  نظریات کی بنیادی اہمیت ہے، وہیں عملیات بھی اس سے کم اہمیت نہیں رکھتے؛ البتہ یہ تفریق ضرور ہے کہ حقوق اللہ میں نظریات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ حقوق العباد میں عمل کی اہمیت زیادہ ہے۔ آئیے ان دونوں پہلووں پر ایک زمینی تجزیہ کرتے ہیں کہ دونوں حقوق میں دونوں پہلوں پر کھرے اترنے والے مسلمانکتنے  ہیں۔
نظریاتی مسلمان
اعتقادو نظریات کے اعتبار سے تجزیہ کیا جائے تو اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ 
(۱) مدارس کے تعلیم یافتہ افراد: بنیادی اعتقاد کے بالکل پختہ ہوتے ہیں۔ 
(۲) عصری تعلیم یافتہ طبقہ: اس کی دو کٹیگری ہیں: 
(الف) جن کو گھریلو ماحول میں اسلامی نظریات کی تربیت ملی ہے۔ 
(ب) جن کا گھریلو ماحول اسلامیات سے ناآشنا ہے۔
اول الذکر افراد نظریاتی اعتبار سے بسا غنیمت ہیں، جب کہ آخر الذکر افراد محض نام کے مسلمان ہوتے ہیں، تاہم یہ نام بھی ان کی دائمی بخشش کے لیے سہارا بن سکتا ہے۔ 
ایک دوسری حیثیت سے غور کیا جائے تو یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ جو عصری تعلیم یافتہ  حضرات علما کی رہنمائی و استفسار کے بغیر صرف اپنے مطالعہ سے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو چوں کہ ان کی زبان بالعموم انگریزی ہوتی ہے، عربی یا اردو نہیں ہوتی۔ اور انگریزی زبان میں اسلامیات یا تو ندارد ہیں۔ اور اگر کچھ ہیں بھی، تو بالعموم راہ حق و اعتدال سے بھٹکے ہوئے قلم کاروں کی کاوش ہے، جنھوں نے اسلام علما سے نہیں؛ بلکہ انھوں نے بھی محض اپنے انگریزی مطالعہ سے سیکھا ہوا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ایسی تحریروں میں اسلامیات کم اور گمراہیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ جب گمراہی سے لت پت لٹریچر پڑھ کر نئی نسل اسلام کو سمجھنا چاہتی ہے، تو اس کا ریزلٹ یہ سامنے آرہا ہے کہ ایسا طبقہ از خود گمراہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ 
(۲) ناخواندہ افراد: ان کی دو قسمیں ہیں: 
(الف) مسلمانوں کے محلہ و معاشرے میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے مسجد کی اذان سنتے ہیں، جلسے جلوس میں شرکت کا موقع مل جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں کسی نہ کسی حد تک اسلامی ماحول مل جاتا ہے۔ ایسے افراد تفصیلی عقائد سے تو انجان ہوتے ہیں؛ البتہ یہ ضرور مانتے ہیں کہ خدا  ایک ہے۔ آخری نبی محمد ﷺ ہیں۔ اس قسم کے جو ضروری عقائد ہیں، انھیں نہ جاننے کے باوجودانھیں تسلیم کرتے ہیں۔ 
(ب) جو غیر مسلم آبادیوں میں رہتے ہیں، جہاں نہ مسجد ہے اور نہ ہی کوئی دوسرے اسلامی ادارے۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ ہمارا نام مسلمان ہے؛ لیکن اسلام کیا ہے؟ اسے نہ تو جانتے ہیں اور نہ جاننے سے کوئی سروکار رکھتے ہیں۔ ایسے افراد کے پاس جس مذہب کا بھی رہنما پہنچ جاتا ہے، وہ اس کے پیغام کو قبول کرلیتے ہیں۔اب ان کی قسمت کی بات ہوتی ہے پیغامبر حق و صداقت پہنچ گیا، تو اپنا ایمان بچانے میں کامیاب رہتے ہیں، بصورت دیگر ارتداد ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ 
 عملیاتی مسلمان
عملیات کے دو میدان ہیں: حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ 
نماز، روزہ، حج اور زکوۃ؛ یہ اہم حقوق اللہ ہیں۔ ان کے زمینی عملیات کی رپورٹ کچھ اس طرح ہے: 
(۱) علما و تبلیغی طبقہ: بالعموم حقوق اللہ ادا کرتے ہیں۔لیکن معاشرے میں ان کی تعداد دو سے چار پرسینٹ ہے۔ 
(۲) عصری تعلیم یافتہ طبقہ: بالعموم حقوق اللہ ادا نہیں کرتے؛ البتہ کچھ حضرات جنھیں گھریلو دینی ماحول مل جاتا ہے، یا پھر علما کی صحبت میسر آجاتی ہے، تو پھر یہ بھی حقوق اللہ کی ادائیگی پر مکمل توجہ دیتے ہیں، لیکن ان کی تعداد ایک پرسینٹ ہے
 (۳) ناخواندہ طبقہ: یہ طبقہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں بالکل صفر ہے۔ ہزاروں میں  کچھ افراد اگر نماز روزہ کرلیتے ہوں، تو کرلیتے ہوں گے، بالعموم انھیں حقوق اللہ اور شعائر اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ یہ طبقہ صرف اپنے اسلامی نام ہی مسلمان ہونے کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ایک ایسی مسلم بستی آبادی میں چلے جائیے، جہاں ایک ہزار کی آبادی ہے، تو اس میں سے بمشکل تمام دس سے بیس افراد ہی نمازی ملیں گے۔ 
اب ائیے ایک نظر حقوق العباد پر ڈالتے ہیں: 
جتنے بھی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی معاملات ہیں، ان سب کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ جیسے شادی بیاہ، سماجی مسئلہ ہے، تجارت اور نوکری اقتصادی پہلو ہے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور حسن کلام کے ساتھ معاملہ کرنا اخلاقیات سے تعلق رکھتا ہے۔حقوق اللہ کے ان سارے پہلووں پر عمل کے اعتبار سے زمینی رپورٹ اسی نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ یہاں مسلمان مکمل طور پر بے عملی؛ بلکہ بد عملی کے شکار ہیں۔ چنانچہ غیر مسلم سماج اور مسلم سماج کا تجزیہ کرلیجیے،تو مسلمانوں کا سماج ہر اعتبار سے غیر مسلم سماج سے کم تر نظر آئے گا۔اور اس حوالے سے کیا علما اور کیا خواص؛ سب ایک ہی رنگ میں نظر آتے ہیں۔ طوالت سے بچنے کے لیے صرف ایک ہی مثال لے لیجیے کہ مسلم شادی اور غیر مسلم شادی کی رسوم و رواج، محفل نکاح کے علاوہ کوئی اور فرق نظر نہیں آئے گا۔ بھارت میں مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری کیا ہے اور جو لوگ سیاست میں براہ راست شریک ہیں، ان کا مسلمانوں کے تعلق سے کیا کارنامے ہیں، سب جگ ظاہر ہے۔ اسی طرح اخلاقی اعتبار سے جج کرلیجیے،تو معلم اخلاق کی امت ہونے کے باوجود بد اخلاقی میں مسلمان اول نمبر پر ہیں۔قصہ مختصر یہ ہے کہ حقوق العباد میں مسلمان عملی اعتبار سے بالکل صفر ہیں؛ زیادہ سے زیادہ مبالغے کے ساتھ ایک فی صد کو مستثنیٰ کیا جاسکتا ہے۔
اس رپورٹ کے تناظر میں فطری طور پر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ہر طقبے اور نظریاتی و عملی اعتبار سے حقو ق اللہ اور حقو ق العباد میں بھی اس درجہ بے عملی اور بد عملی کے شکار ہوچکے ہیں، تو آخر عملی اسلام ہے کہاں ……؟ 
یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب ملت مسلمہ کے ہر مبلغ اور دین اسلام کے ہر داعی کو ڈھونڈھنا ضروری ہے؛ خواہ وہ تبلیغی سلسلے سے وابستہ ہوں، یا مدارس و مکاتب کے ذمہ دار ہوں، یا پھر کسی اور ذرائع سے دعوت اسلام کے فرائض انجام دے رہے ہوں؛ اس کے بغیر یہ پیش قیاسی شاید خلاف واقعہ نہ ہو کہ وہ دن زیادہ دور نہیں رہے گا، جب بھارت بھی مسلمانوں کے لیے اسپین بن جائے گا۔ 

19 Jul 2019

وعدے تو وفا کرنے کے لیے ہی ہوتے ہیں محترم




محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند

عبداﷲ بن ابی الحمساء ؓنے بعثت سے پہلے سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم سے خریدوفروخت کا کوئی معاملہ کیا ،جس میں کچھ ادائیگی باقی رہ گئی تو انھوں نے کہ آپ یہیں رہیں، میں لے کر آتا ہوں۔ لیکن جب یہ گھر گئے تو تین دن کے بعد یاد آیا ۔ چنانچہ یہ مقام عہد پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم اسی جگہ ابھی  تک محو انتظار ہیں۔ اتنی بڑی وعدہ خلافی پر آپ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ تم نے مجھے مشکل میں ڈالا اور زحمت دی ، تین دن سے میں اسی مقام پر موجود ہوں‘‘۔(ابوداؤد)
یہ  توعہد مجسم فخر دو عالم ﷺ کا ذاتی معاملہ تھا ، یہاں تو بے وفائی کا شائبہ تک نہیں گذر سکتا۔ کمال تو یہ ہے کہ ایک طرف موت ہو اور دوسری طرف زندگی کا سنہرا دور۔ اورپھر صرف وعدہ وفا کی خاطر موت کی طرف قدم بڑھانا پڑے تو تصور کیجیے کہ یہ کتنا دشوار گذار لمحہ ہوگا، لیکن قربان جائیے سرور کائنات ﷺ کے اس جذبہ پر  کہ آپ نے وعدے کی تکمیل میں اپنے جاں نثار کو موت کی طرف بڑھنے سے نہیں روکا ۔ شاید آپ اشارہ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم عہد حدیبیہ کی بات کر رہے ہیں ۔ واقعہ یہ ہوا کہ سرور کائنات ﷺصلح حدیبیہ کی شرائط و ضوابط تقریبا مکمل فرما چکے تھے؛ لیکن  نافذ العمل ہونے کے لیے فریقین کے دسخط ضروری ہیں ، جو ابھی باقی تھے کہ عین اسی وقت  حضرت ابوجندلؓ خون میں غلطاں و پیچاں  اور پاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی بھاگتے ہوئے  آکر مسلمانوں سے عرض  کرتے ہیں  کہ مجھے ان کافروں سے بچالو، مجھے مدینہ لے چلو ۔ حضرت موصوف کی حالت زار کو دیکھ کر  آپﷺنے اہل مکہ سے بات کی اور کہا کہ ابھی تو دستخط نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن کافر نہ  مانے ، تو آپ ﷺ نے  عہد  کی پابندی کرتے ہوئے حضرت ابوجندلؓ کو واپس بھیج دیا ۔
وعدے کی تکمیل کے سرفروشانہ جذبہ کی یہ مثال ایفائے عہد کی سرشت والے افراد کے لیے شاید کچھ کمتر ہو؛ لیکن گھبرائیے نہیں، سرور کائنات ﷺ کی سیرت طیبہ و طاہرہ میں وعدہ وفا کرنے کی ایسی بھی مثال موجود ہے، جس سے اعلیٰ و ارفع کردار نہ تو آج تک کسی نے پیش کیا ہے اور نہ شاید یہ ممکن ہے۔
آپ تاریخ سے واقف ہیں کہ  تیرو تفنگ اور شمشیرو سنان سے لیس کفار کے ایک ہزار لشکر جرار کے بالمقابل  ہتھیارو تلوار سے محروم بے خانما نو مسلموں  کے تین سو تیرہ افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا قافلہ میدان کارزار میں خیمہ زن ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جہاں ایک آدمی کی معیت بھی ڈوبتے کو تنکے کے سہارے سے کم نہیں ۔ حق وباطل کے فیصلہ کن اس معرکے میں ایک ایک شخص کی شدید ضرورت ہے۔ ایسے میں حضرت حذیفہ اور ان کے والد محترم حضرت یمان رضی اللہ عنہما میدان بدر میں آتے ہیں ، مسلمانوں کے حوصلوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ ہوئے واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہ   یا رسول اللہ ﷺ ! راستے میں ہمیں ابو جہل کے لشکر نے گرفتار کرلیا تھا اور اسی شرط پر رہا کیا ہے کہ ہم کافروں کے اس لڑائی میں آپ کا ساتھ نہ دیں۔  اتنے سنگین حالات کے باوجود سرور کائنات  صلی اﷲ علیہ وسلم نے معاہدے کی خلاف ورزی کو برداشت نہ کیا اور ارشاد فرمایاکہ ’’ہم اُ ن کے عہد کو پورا کریں گے اور کفار کے خلاف اﷲ عزوجل سے مد د مانگیں گے ‘‘(صحیح مسلم )
آپ تصور کیجیے کہ جنگ بدر کوئی معمولی لڑائی نہیں ہے، یہ ایسی لڑائی ہے کہ خود زبان رسالت مآب ﷺ کے الفاظ میں ، اس میں شکست تاقیامت اسلام کی شکست کا عندیہ ہے، اور ہمیشہ ہمیش کے لیے اسلام کے دفن ہوجانے کا معرکہ ہے۔ اتنے سخت جان دشوار ترین حالات کے باوجود سرور کائنات ﷺ نے ایفائے عہد کو مقدم رکھا۔ آخر کیوں--- کیوں کہ اسلام کے حقیقت پسندانہ کردار اور منافقت کے ڈرامائی  روپ میں یہی فرق ہے۔ اسلام میں ریا اور ڈرامے کی کوئی گنجائش نہیں ، جب کہ دوسرے مذاہب میں بھگوان بھی روپ بدل کر مختلف لیلا کرتے نظر آتے ہیں۔ ---- یہاں پر ذرا رکیے اور خود کا جائزہ لیجیے کہ کیا واقعی ہمارے اندر سچے اسلام کا خون گردش کر رہا ہے، یا پھر بھگوان جیسا ڈراما کے ہیرو بن گئے ہیں ۔ --- ہمارا کردار تو آخر الذکر پہلو کا مجسمہ  بن چکا ہے--- کیوں کہ
ہم نے وحدانیت کو ماننے کا عہد لیا، تو کیا ہمارے عقیدے شرک کی آلائش سے پاک ہیں۔۔۔؟
ہم نے فرمان رسول ﷺ پر دل و جان سے عمل کرنے کا عندیہ دیا، لیکن ہم نے ایسا کیا۔۔؟
ہم نے اسلامی معاملات کے تمام ابواب ازبر کرلیے، لیکن کبھی ایک  بھی معاشرتی معاملہ کو سنت کے مطابق کرنے کرانے کا عملی منظر پیش کیا۔
ہم نے عہد لیا کہ گفتگو، معاشرت، لین دین اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے، لیکن کیا ہم نے مکمل طور پر ایسا کیا، جھوٹ ہم بولتے ہیں، معاشرہ میں ہمارا غلط کردار ضرب المثل ( مثلا مولوی جو کہے وہ کرو، جو وہ کرے وہ نہ کرو)بن گیا ہے ۔ ہر شعبہ ہائے حیات میں ہمارے  رویے کو پس خوردگی سے تعبیر کی جارہی ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہوا۔۔۔ کیوں کہ ہم نے جن تعلیمات پر چلنے کا زمانہ الست میں وعدہ دیا  تھا اور پھر اس زندگی میں اس وعدے کے پابند ہونے کا اعلان کیا تھا اس وعدے کو ہم پورا نہیں کر رہے ہیں ، جب کہ وعدہ وفا کرنے کے لیے ہی کیا جاتا ہے!۔



6 Jul 2019

اگر آپ ماب لنچنگ میں پھنس جائیں تو کیا کریں


حضرت خبیب ابن عدی کا ماب لنچینگ

تاریخ اسلام کا پہلا لنچگ موجودہ حالات کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے
محمد یاسین جہازی

سلیم الفطرت انسانوں کا نظریہ ہے کہ جب ان کا معاشرہ، یا ملک دشمنوں سے محفوظ ہوجائے، تو امن و امان کی فضا قائم کرلیتے ہیں؛ لیکن بد فطرت انسان نما مخلوق کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنے حریف کی خاموشی کو اپنی بے چینی اور چیرہ دستی کا سبب بنالیتے ہیں؛ یہی کچھ آج کل ہمارے بھارت میں ہورہا ہے۔ مسلمان دستور و آئین اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جمہوری طریق عمل اور عدم تشدد کی راہ پر گامزن ہے، تو ملک کی اکثریت اپنے اقتدار و کثرت کے زعم میں اقلیت پر ظلم و تشددکا بازار گرم کرتی جارہی ہے۔ اب تک بھیڑیے نما بھیڑ نے جن اللہ کی وحدانیت کی گواہی دینے والوں کو تنہا پاکر شہید کیا ہے، یہ دراصل اسی بد فطرتی کا مظاہرہ اور بزدلی کی بد ترین مثال ہے۔ ایسی صورت حال میں بھی مسلمانوں کا ازلی تعلیم اسے یہ سکھاتی ہے کہ جان کی امان مانگنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ جاں بازی سے مقابلہ کرکے جان جاں آفریں کے سپرد کردینا ہی نجات ابدی کا ذریعہ ہے۔ آئیے ایسی ہی ایک مثال کے لیے اسلامی تاریخ کے پننے کو پلٹتے ہیں۔ 
قبیلہ عضل و قارہ نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عریضہ پیش کیا کہ اسلام کی تعلیم و تبلیغ کے لیے کچھ افراد کو ہمارے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے سات معلم صحابہ کو اس کے ساتھ بھیج دیا۔ جب یہ تبلیغی وفد ایک گھاٹی سے گذر رہا تھا، تو پہلے سے منصوبہ بند طریقے سے چھپے دو سو مسلح نوجوانوں نے اچانک حملہ کردیا۔ پانچ صحابہ ؓنے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جان جاں آفریں کے سپردکردیں، جب کہ تین صحابہ کرام: حضرات خبیب، زیدو عبداللہ کو گرفتار کرلیا اور قریش مکہ کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ 
حضرت خبیب ابن عدی کو حارث ابن عامر کے گھر میں قید رکھا گیا اور کھانی پانی بند کردیا اور فاقہ کشی سے مرنے کا انتظار کرنے لگے، لیکن جب اس طرح سے آپ کی موت نہیں ہوئی، تو  مآب لنچنگ کی تاریخ کا اعلان کردیا۔ چنانچہ جب مقررہ تاریخ پر بے شمار لوگ تیر و تلوار اور آلہ قتل لے کر لنچنگ کرنے کے لیے تنعیم میں اکٹھا ہوگئے، تو حضرت خبیب ؓ کو پابہ زنجیر لایا گیا اور صلیب کے نیچے کھڑا کرکے ہاتھ پاوں باندھ دیے۔ مجمع سے ایک شخص نکل کر آیا اور کہنے لگا کہ ائے خبیب تمھارے دکھ سے ہم درد مند ہیں، تمھاری جان اب بھی بخشی جاسکتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ تم اسلام چھوڑ دو۔ حضر ت خبیب نے ڈرنے گھبرانے کے بجائے جواب دیا کہ جب اسلام ہی باقی نہیں رہے گا، تو جان بچاکر کیا کریں گے……؟۔یہ جواب سن کر مجمع دم بخود رہ گیا۔ اتنے میں ایک دوسرے آدمی نے پوچھا کہ کوئی آخری خواہش……؟ حضرت خبیب نے کہا کہ بس دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ مجمع نے اجازت دے دی تو آپ نے نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ دوگانہ ادا کیا۔ سلام پھیرنے کے بعد مجمع نے پھر آپ کو ستون سے جکڑ دیا اور تیر و تلوار کو ایمانی حرارت کا امتحان لینے کے لیے دعوت دی گئی۔ ایک شخص آگے آیا اور نیزے کی انی سے جسم پر کئی چرکے لگائے، جس سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے۔ ایک اور شخص آیا اورحضرت خبیب کے جگر پر نیزہ رکھ کر اس زور سے دبایا کہ کمر سے پار ہوگیا۔ اس جاں کنی کے عالم میں حملہ آور نے حضرت خبیب سے کہا کہ کیا اب بھی تم پسند کروگے کہ تمھاری اس مصیبت کی جگہ پر محمد ﷺ کو کھڑا کردیا جائے، گویا محبت نبوی کو پرکھنے کی کوشش کی گئی۔ پیکر صبر حضرت خبیب جو تیر و سنان کے زخموں کو حوصلہ مندی سے برداشت کر رہے تھے، لیکن عشق نبوی پر قدغن لگانے والے اس جملہ کو برداشت نہ کرسکے اور گرج کر جواب دیا کہ ائے ظالم! خدا جانتا ہے کہ مجھے جان دینا پسند ہے، لیکن یہ بالکل پسند نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پیر میں ایک کانٹا بھی چبھے۔ مجمع یہ جواب سن کر تمازت کفر سے ابلنے لگا اور چاروں طرف سے تیرو تلوار کی بارش کردی۔
”پیکر صبر خبیب رضی اللہ عنہ کے دردناک مصائب کا تصور کیجیے: آپ ستون کے ساتھ جکڑے ہوئے ہیں، کبھی ایک تیر آتا ہے اور دل کے پار ہوجاتا ہے، کبھی نیزہ لگتا ہے اور سینے کو چیر دیتا ہے۔ ان کی آنکھیں آتے ہوئے تیروں کو دیکھ رہی ہیں۔ ان کے عضو عضو سے خون بہہ رہا ہے۔ درد و تکلیف کی اس قیامت میں بھی ان کا دل اسلام سے نہیں ٹلتا۔“ (انسانیت موت کے دروز پر، ص/145)
     میڈیا کے توسط سے آئے دن کہیں نہ کہیں اس طرح کے مناظر کا مکروہ منظر دیکھنا پڑرہا ہے کہ ایک خوں خوار بھیڑ کے بیچ عقیدہ وحدانیت کی شناخت رکھنے والا بے قصور کے ہاتھ پیر جکڑ ہوئے ہیں۔ ایک مخصوص مذہبی شناخت رکھنے والا مجمع ”جے شری رام“ کا نعرہ پلید لگانے کے لیے مجبور کر رہا ہے۔ گرچہ جان کی اماں کی خاطر وہ مغلظات بک بھی دیتا ہے، اس کے باوجود گرگ جاں گسل بھیڑ انتہائی بے دردی سے اس کے پیر کے ٹکڑے کردیتا ہے، پھر ہاتھ کو بھی جسم سے الگ کردیتا ہے۔وہ تڑپ تڑپ کر زندگی کی بھیک مانگتا ہے، لیکن بھیڑ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود درندوں کی ہوس نہیں بجھتی ہے تو بدن پر چھری سے چرکے لگاتا ہے اور بوٹی بوٹی کرڈالتا ہے۔ پھر تیز دھار دار ہتھیار سے سر کو تن سے جدا کردیتا ہے۔ 
چوں کہ یہ زیادہ تر مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے، اس لیے اگر آپ کہیں ایسے حالات میں گھر جاتے ہیں، تو گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی جان بچانے کے لیے مغلظات کفر بکنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ ایسے موقع پر حضرت خبیب ؓ کی سیرت کو یاد رکھ کر جواں حوصلگی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جمہوری دستور میں دفاع نفس کا حق استعمال کرتے ہوئے نعرہ کفر پر مجبور کرنے کی جگہ نعرہ تکبیر لگائیں۔ امان مانگنے کے بجائے عشق خبیب کا مظاہرہ کریں اور مرتے مرتے مارنے والوں کو شوق شہادت کا جذبہ سکھا کر جائیں، کیوں کہ ایک مسلمان سب کچھ کرسکتا ہے، لیکن وہ ایمان کا سودا نہیں کرسکتا۔ ایک مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے، لیکن بزدل اور ڈرپوک نہیں ہوسکتا۔ اور جب بزدل نہیں ہوسکتا تو جب یہ ثابت کرنے کا موقع آئے تو خوں خوار درندے کو بتا دیجیے کہ مسلمان سر تو کٹا تو سکتا ہے، لیکن وہ جھک نہیں سکتا ہے۔ 
تو کیاضرورت پڑنے پر آپ سیرت خبیب پر عمل کرنے کے لیے تیارہیں ……؟  

21 Jun 2019

شیطان کے گھر کا ایڈریس یہ ہے

شیطان کے گھر کا ایڈریس یہ ہے
محمد یاسین جہازی، جمعیت علماء ے ہند
واٹس ایپ 9871552408


خیبر مدینہ سے تقریباً سو میل کے فاصلے پر ہے، بنو نضیر کے یہودی جب مدینہ سے جلا وطن کیے گئے، تو خیبر جا بسے اور پھر خیبر یہودیوں کی سازشوں کا مرکز بن گیا؛ لہٰذا اسلام کی حفاظت کے لیے ضروری ہو گیا کہ ان کے اس شر انگیز اڈے کو توڑ دیا جائے؛چنانچہ سات ہجری میں تقریباً سولہ سو مسلمان مجاہدین کا لشکر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں خیبر روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا گیا۔ یہ محاصرہ تقریباً دس روز تک جاری رہا؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور خیبر کے تمام قلعوں پر قبضہ ہو گیا۔
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ (جب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غنودگی طاری ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام کرنے کے لیے آخر رات میں ایک جگہ اتر گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارا خیال رکھنا (یعنی صبح ہو جائے تو ہمیں جگا دینا) یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو سو گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تہجد کی نماز میں لگ گئے۔ جب صبح صادق ہونے کو ہوئی، تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے کجاوے سے تکیہ لگا کر مشرق کی جانب منہ کر کے بیٹھ گئے۔ لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ انھیں بھی نیند آگئی۔ جب صبح صادق ہو گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی بھی آنکھ نہ کھلی، یہاں تک کہ جب ان کے اوپر دھوپ آگئی اور اس کی گرمی پہنچی، تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر فرمایا کہ بلال یہ کیا ہوا؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے بھی نیند آگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس جگہ سے چلے چلو۔ چنانچہ سب لوگ تھوڑی دور تک اپنی اپنی سواریاں لے کر چلے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ چنانچہ انھوں نے نماز کے لیے تکبیر کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا: جو آدمی (نیند وغیرہ کی بنا پر) نماز پڑھنی بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً اسے پڑھ لے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ 
 وَاَ قِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (20۔طہ: 14)۔
یعنی میرے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لو۔ 
شوافعی علما کے نزدیک چوں کہ طلوع آفتاب کے وقت قضا نماز پڑھنا جائز ہے، اس لیے وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے قضا نماز پڑھے بغیر فوراً اس لیے روانہ ہوگئے، کیوں کہ وہاں شیطان آگیا تھا،جیسا کہ دوسری روایتوں میں اس کی تصریح موجود ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم کی ایک روایت کے  الفاظ ہیں کہ”اس لیے کہ اس جگہ ہمارے پاس شیطان آگیا ہے۔“(۲)
اس حدیث سے صاف صاف شیطان کے گھر کا ایڈریس معلوم ہوگیا کہ جس جگہ رہتے ہوئے نماز قضا ہوجائے، تودراصل وہاں شیطان ہوتا ہے، جس کی نحوست سے نماز تک قضا ہوجاتی ہے۔ اور اگر کبھی کسی جگہ رہتے ہوئے نماز قضا ہوجائے، تو اس جگہ کو تبدیل کردینا چاہیے۔ آج اپنے گھر اور جائے رہائش پر رہتے ہوئے ہماری نمازیں قضا ہوتی رہتی ہیں، یا پھر اس سے بھی بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ ہمیں نماز پڑھنے کی ہی توفیق نہیں ہوتی، تو دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے گھر کو شیطان کا گھر بنا رکھا ہے۔ ہم اپنے گھروں کو کیڑوں مکوڑوں سے صاف رکھنے کے لیے دوائی تو استعمال کرتے ہیں، لیکن شیطان کو بھگانے کے لیے اور شیطان کا بسیرا نہ بننے دینے کے لیے کچھ نہیں کرتے، حتیٰ کہ بسم اللہ تک پڑھ کر گھر میں داخل نہیں ہوتے اور نہ ہی داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کرتے ہیں، جس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارا گھر شیطان کا اڈا بن جاتا ہے، جس سے گھر کا سکون، برکت اور اہل خانہ کے درمیان الفت و محبت؛ سب ختم ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ شیطان ہمارے گھر اے سی، کولر اور پنکھا میں بیٹھنے نہیں آتا؛ بلکہ اپنی ڈیوٹی کرنے آتا ہے اور اس کی ڈیوٹی یہی ہے کہ گھر کا سکون برباد کردو، وہاں بے برکتی پھیلادو، افراد خانہ کے درمیان دشمنی اور لڑائی کرادواور گھر کو جہنم کدہ بنادو۔ 
اگر آپ کے گھر میں ایسا ہی ہوتا ہے،بھائی بھائی، میاں بیوی، اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ لڑائی ہوتی رہتی ہے، تو سمجھ لیجیے کہ یہاں شیطان موجود ہے۔ اس لیے گھر کو نعمت کدہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کا ہر فرد نماز کا اہتمام کرے اور جب بھی گھر آئے تو اہل خانہ کو سلام کرے اور بسم اللہ پڑھ کر دروازہ بند کرے۔ اگر آپ ایسا کریں گے، تو پھر شیطان آپ کے گھر کو اپنا اڈا نہیں بناسکے گا اور پھر آپ کا گھر جہنم کدہ سے نعمت کدہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مردود شیطان سے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔ 
مآخذ و مصادر
(۱) عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حِےْنَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَۃِ خَےْبَرَ سَارَ لَےْلَۃً حَتّٰی اِذَا اَدْرَکَہُ الْکَرٰی عَرَّسَ وَقَالَ لِبِلَالٍ اِکْلَأ لَنَا اللَّےْلَ فَصَلّٰی بِلَالٌ مَّا قُدِّرَ لَہُ وَنَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَصْحَابُہُ فَلَمَّا تَقَارَبَ الْفَجْرُ اسْتَنَدَ بِلَالٌ اِلٰی رَاحِلَتِہٖ مُوَجِّہَ الْفَجْرِ فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَےْنَاہُ وَھُوَ مُسْتَنِدٌ اِلٰی رَاحِلَتِہٖ فَلَمْ ےَسْتَےْقِظْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلَا بِلاَل ٌوَلَا اَحَدٌ مِّنْ اَصْحَابِہٖ حَتّٰی ضَرَبَتْھُمُ الشَّمْسُ فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَوَّلَھُمُ اسْتَےْقَاظًا فَفَزِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَیْ بِلَالُ فَقَالَ بِلَالٌ اَخَذَ بِنَفْسِی الَّذِیْ اَخَذَ بِنَفْسِکَ قَالَ اقْتَادُوْا فَاَقْتَادَوْا رَوَاحِلَھُمْ شَےْءًا ثُمَّ تَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَمَرَ بِلَالًا فَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ فَصَلّٰی بِہِمُ الصُّبْحَ فَلَمَّا قَضَی الصَّلٰوَۃَ قَالَ مَنْ نَسِیَ الصَّلٰوۃَ فَلْےُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ۔(طہ، آیت ۴۱) (صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ،باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ)
(۲) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: عَرَّسْنَا مَعَ نَبِیِّ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ نَسْتَیْقِظْ حَتَّی طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: «لِیَأْخُذْ کُلُّ رَجُلٍ بِرَأْسِ رَاحِلَتِہِ، فَإِنَّ ہَذَا مَنْزِلٌ حَضَرَنَا فِیہِ الشَّیْطَانُ»، قَالَ: فَفَعَلْنَا، ثُمَّ دَعَا بِالْمَاءِ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ، وَقَالَ یَعْقُوبُ: ثُمَّ صَلَّی سَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ أُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ فَصَلَّی الْغَدَاۃَ۔  (صحیح مسلم، کِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاۃَ، بَابُ قَضَاءِ الصَّلَاۃِ الْفَاءِتَۃِ، وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِیلِ قَضَاءِہَا)

4 Jun 2019

عید کی رات کچھ خاص کرنے کی رات


عید کی رات کچھ خاص کرنے کی رات
محمد یاسین جہازی،جمعیت علمائے ہند


عید کا چاند مسرت کا دوسرا نام ہے۔ چاند نظر آتے ہی رمضان کے شیڈول لائف سے آزادی کا احساس، بسا اوقات ہمیں غفلت میں مبتلا کردیتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فرائض و نوافل اور ذکرو تلاوت کے اہتمام کی جگہ عید کی مصروفیات ہمیں گھیر لیتی ہیں اور اس طرح سے ہم عید کی رات میں عبادات الٰہی سے غفلت کے شکار ہوجاتے ہیں۔ عید کی خوشی اپنی جگہ مسلم ہے؛ لیکن چاند نظر آنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ عید کی رات قدرو فضیلت سے بالکل محروم ہوجاتی ہے؛ بلکہ اس رات میں بھی عنایات الٰہی کی بارش ہوتی ہے۔ چنانچہ سرور کائنات ﷺ کا گرامی قدر ارشاد ہے کہ جو شخص عید کی رات کو ذکر خداوندی میں گذارے گا، اس کا دل قیامت کے ہولناک مناظر کے سامنے بھی زندہ رہے گا، جہاں ہر ایک کے دل پر موت کی حکمرانی قائم ہوجائے گی۔مَنْ قَامَ لَیْلَتَیِ الْعِیدَیْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّہِ لَمْ یَمُتْ قَلْبُہُ یَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ (سنن ابن ماجہ، کتاب الصیام،بَابٌ فِیمَنْ قَامَ فِی لَیْلَتَیِ الْعِیدَیْنِ)حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عید کی رات، دعا کی قبولیت کی رات ہے۔وقال الإمام الشافعی رضی اللہ عنہ: ”بلغنا أنہ کان یقال: إن الدعاء یُستجاب فی خمس لیال: فی لیلۃ الجمعۃ، ولیلۃ الأضحی، ولیلۃ الفطر، وأول لیلۃ من رجب، ولیلۃ النصف من شعبان… وأنا أستحب کل ما حکیت فی ہذہ اللیالی من غیر أن یکون فرضاً” ”الأم” (1/ 264)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ عید الفطر کی رات درحقیقت ’انعام و اکرام کی رات‘ ہوتی ہے۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب نوازتا ہے اور کسی سائل کو بھی محروم نہیں کرتا۔فَإِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ الْفِطْرِ سُمِّیَتْ تِلْکَ اللَّیْلَۃُ لَیْلَۃَ الْجَاءِزَۃِ، شعب الایمان للبیھقی، الصیام، باب جزاء الاجیر، التماس لیلۃ القدر آہ)لہذا ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس رات کو صرف عید کی تیاری میں نہیں؛ بلکہ نماز اور ذکرو دعا میں گذاریں۔ نبی اکرم ﷺ جہاں عید کی رات کو جاگنے کا اہتمام فرماتے تھے، وہیں آپ ﷺ اس رات کو غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو بھی عید کی خوشی میں شامل کرنے کے لیے سامان بہم پہنچایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ عید کا چاند نظر آنے کے بعد گھر آکر ازواج مطہرات کے حال احوال پوچھتے، پھر عشا کے بعد ضرورت مندوں میں فطرہ تقسیم فرمایا کرتے تھے۔ روزہ داری، بندگی، فطرہ، زکاۃاصل میں ہیں یہ حقیقت عید کیمفلسوں کو وقت پر دے دو زکاۃوہ کریں پوری ضرورت عید کی ان ارشادات گرامی اور خود اسوہ نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے آئیے عہد کرتے ہیں کہ اس عید کی رات کو ایک خاص رات بنائیں گے: قیام رات کرکے، اللہ کے حضور گڑگڑا کے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلائے اور اس عید کی رات کا خصوصی اہتمام کرنے کی توفیق ارزانی کرے، آمین۔

2 Jun 2019

آئیے عید مناتے ہیں، تہوار نہیں

آئیے عید مناتے ہیں، تہوار نہیں 
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند


خوشی کا دوسرا نام عید ہے۔ عید عربی کا لفظ ہے، اس کے معنی لوٹنے کے ہیں، چوں کہ یہ ہرسال لوٹ کر آتی رہتی ہے، اس لیے خوشی کو عید کہا جاتا ہے۔ اس کے ایک معنی فائدہ کے بھی ہیں، چوں کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نوازشیں بندوں پر ہوتی ہیں، اس لیے بھی اسے عید کہاجاتا ہے۔ 
انسانی سماج میں عید کا تصور بہت قدیم ہے۔ کہاجاتا ہے کہ نسل انسانی کی اولیں شخصیت حضرت آدم علیہ السلام کی جب توبہ قبول ہوئی، تو عید منائی گئی۔ بعض روایتوں کے مطابق حضرت آدم کے بیٹے ہابیل و قابیل کی لڑائی میں جب صلح ہوئی، تو روئے زمین پر پہلی عید منائی گئی۔ کچھ مورخین کا ماننا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس دن بت پرستی سے دور رہنے کی تلقین کی، وہی دن عید کی ابتدا کا دن ہے۔ اسلامی ملتوں کے علاوہ دیگر قوموں میں بھی خوشی اور تہوار منانے کا رواج پایا جاتا ہے، جن میں ان کی تہذیب و ثقافت اور عقیدوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ایرانی مجوسی دو تہوار مناتے ہیں:ایک نو روز، جس کے معنی نیا دن کے ہیں۔ نوروز شمالی نصف کرہ میں بہار کے آغاز کی علامت ہے۔ یہ ایرانی تقویم کے پہلے مہینے فروردین کا پہلا دن ہوتا ہے۔ یہ عموماً 21 مارچ یا اس سے پچھلے یا اگلے دن اس وقت منایا جاتا ہے، جب سورج کے خط استوا سماوی کو عبور کرتے وقت دن اور رات برابر ہوجاتے ہیں۔ اور دوسرا مہرجان، جسے ۲۲/ ستمبر سے ۲۲/ اکتوبر تک منایا جاتا ہے۔ قدیم یونانیوں میں عید منانے کا طریقہ یہ تھا کہ مرد و عورت مکمل طور پر ننگے ہوکر بتوں کے سامنے جنسی عمل کیا کرتے تھے۔ اور جو شریف النفس ایسا کرنے سے انکار کرتے، مذہب کے ٹھیکدار انھیں دو ردراز غاروں میں زندہ دفن کردیتے تھے۔  ۵۲/ دسمبرکو عیسائی حضرات ولادت مسیح کے نام سے تہوار مناتے ہیں۔ بھارت میں ہندوں کے یہاں تقریبا ہر ایک مہینے میں کوئی نہ کوئی تہوار ضرور ہوتا ہے، جس میں ہولی، دیوالی، دشہرہ، بسنت پنچمی وغیرہ بڑے تہوار مانے جاتے ہیں۔ 
 سن ۲/ ہجری، مطابق ۵۲۶ ء میں نبی کریم ﷺ نے انصاری صحابیوں کو جاہلیت کے طرز پرخوشی مناتے دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم جاہلیت سے مناتے آرہے ہیں، اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر تمھیں دو دن عطا کیے ہیں: ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحی۔ 
عَنْ أنَسٍ قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ ﷺ الْمَدِیْنَۃَ وَلَھُمْ یَوْمَانِ یَلْعَبُوْنَ فِیْھِمَا فَقَالَ: مَا ھٰذانِ الْیَوْمَانِ؟ قَالُوْا: کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بھِمَا خَیْراً مِنْھُمَا یَوْمَ الأضْحیٰ وَیَوْمَ الْفِطْرِ۔(أبو داود: کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ العیدین)
عید اور تہوار کا فرق
ہر مذاہب کے نام ان کی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہیں ہندو مت سے وطنیت (ہندستان) کا مفہوم نکلتا ہے۔ عیسائیت سے ہادی اعظم (حضرت عیسیٰؑ) کی شخصیت سامنے آتی ہے۔ یہودیت سے ایک قوم کا تصور ابھرتا ہے۔ پارسیت سے ایک ملک کا دھیان دلوں میں جمتا ہے؛ لیکن اسلام کے لفظ سے نہ ملک، نہ قوم اور نہ شخصیت جھلکتی ہے؛ بلکہ صرف اطاعت حق میں فنائیت اور مالک الملک میں محویت کے جذبات کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جب عیدگاہ کے لیے چلتے ہیں، تو نہ رنگ پھینکتے ہیں، نہ گردو غبار اڑاتے ہیں اور نہ ہی شخصیت یا قومیت کے نعرہ لگاتے ہوئے چلتے ہیں؛ بلکہ مسلمانوں کا کا یہ ترانہ زبان زد ہوتا ہے کہ اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اور یہی چیز عید کو تہوار سے الگ کرتی ہے۔ علاوہ ازیں اسلام نے ماضی کی کسی تاریخ پر عید مقرر نہیں کی، کیوں کہ وہ واقعہ ایک مرتبہ ہوکر فنا ہوگیا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ کارنامے خود اس تہوار منانے والوں کے نہیں ہوتے۔ اسلام نے ایسا واقعہ عید کی اصل قرار دیا، جو ہر سال نیا ہوتا ہے اور انسان خود اسے اپنے عمل سے تیار کرتا ہے۔ اور یہ سب چیزیں تہوار میں نہیں ہوتیں۔
عید اور تہوار کے یہ سب فرق بتاتے ہیں کہ عید کی خوشی دراصل اسی کو میسر ہوتی ہے، جو خود روزہ رکھ کر یا قربانی کرکے عید کی فضا بناتے ہیں،اور اس کی کامیاب تکمیل پر بارگاہ ایزدی میں دوگانہ سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو کسی شرعی معذوری کے بغیر بھی روزہ نہ رکھے، یا وجوب کے باوجود قربانی نہ کرے، تو اس کے لیے عید کی خوشی ہو ہی نہیں سکتی، وہ جس چیز پر خوش ہوتے ہیں، وہ محض تہوار ہے۔ اور تہوار سے دل خوش تو ہوسکتا ہے، لیکن اس میں عید کی مسرت حاصل نہیں ہوسکتی۔ تو آئیے، اس یکم شوال کو ہم تہوار کی خوشی نہیں، بلکہ خوشی کی عید منائیں۔