آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔
محمد یاسین جہازی، خادم جمعیۃ علماء ہند
ایک دوسرے کی دعوت کرتے رہنا ، اسلامی تعلیمات کا ایک اہم باب ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ سے جب دریافت کیا گیا کہ کونسا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے یہی جواب دیا کہ کھانا کھلانا بہترین اسلام ہے۔عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الإِسْلاَمِ خَیْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ۔ (صحیح البخاری،کتاب الایمان، باب اطعام الطعام من الاسلام)ایک مومن کی شان کرم و سخا یہی ہے کہ اپنی ضرورت و خواہش کے باوجود ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتا ہے ۔ اور اس کے بدلے اس کا معاوضہ تو بہت دور کی بات ہے، شکریہ ادا کرنے کی بھی تمنا دل میں نہیں رکھتا ۔وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا ویَتِیمًا وَأَسِیرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیدُ مِنکُمْ جَزَاءً وَلَا شُکُورًا (9)( سورۃ الانسان)کائنات عالم میں سب سے زیادہ سخی خود نبی اکرم ﷺ تھے، بعد ازاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔ اسی طرح ان حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت میں بھی ایک دوسرے کی دعوت کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ یوں تو دعوت کرنے کا کوئی وقت معتین نہیں ہے، آپ کا جب جی چاہے، کسی کی دعوت کرسکتے ہیں، اس کے باوجود زندگی کے کچھ اہم موڑ ایسے ہیں، جہاں اسلام یہ رہنمائی کرتا ہے کہ اپنی خوشی کے اظہار یا بھوکے پیاسوں کو کھلانے کے لیے اپنے دوستوں، رشتوں اور ضرورت مندوں کی دعوت کرنا چاہیے۔ فقہی اصطلاحات کے اعتبار سے دعوت کی تین قسمیں ہیں: مستحب، سنت اور واجب۔ (۱) مستحب دعوت(۱) عقیقہ کی دعوت: بچے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار فطرت کا تقاضا ہے ، اس لیے شریعت کہتی ہے کہ اس خوشی میں اپنے احباب کو بھی شامل کرنا چاہیے اور ساتویں دن ان کی دعوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ عقیقہ عام دعوت کی طرح ہی ایک دعوت ہے، لیکن ہم نے اپنے بے جا رسوم و رواج کی زنجیروں میں قید کرکے اسے مشکل بنادیا ہے۔ہر علاقے میں الگ الگ رسمیں ہیں، بعض علاقے میں دیکھا گیا ہے کہ عقیقہ اسی وقت درست مانا جاتا ہے،جب تک کہ دعوت میں شریک سبھی افراد کو کپڑے اور قیمتی تحفے نہ دے دیے جائیں۔ یہ سب غلط چیزیں ہیں۔ وسعت کے مطابق محض دعوت کردینا کافی ہے۔(۲) افطاری کی دعوت: رمضان المبارک میں افطاری کی دعوت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس لیے ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ روزہ داروں ؛ بالخصوص مسافر روزے داروں کو افطاری کرائیں، اور اس طرح سے روزہ رکھنے کا ڈبل ثواب حاصل کریں۔(۲)سنت دعوتدعوت ولیمہ: ولیمہ کی دعوت کے پیچھے اسلام کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مرد کو عورت پر دو وجہ سے حاکمیت بخشی ہے: (۱) کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے حاکم و محکوم کا رشتہ ضروری ہے، اس لیے ایک کو حاکم اور دوسرے کو محکوم بنادیا گیا ہے۔ (۲) چوں کہ مرد مال خرچ کرتا ہے، اس لیے خرچ کرنے والا خرچ کیے جانے والے سے اونچا مقام رکھتا ہے۔ اخراجات چوں کہ مرد کے ذمہ ہے ، اس لیے ولیمہ کے اخراجات بھی مرد ہی کے ذمہ ہوں گے۔ علاوہ ازیں فرمان نبوی کے بموجب لڑکی رحمت ہے ۔ اور شادی کے بعد جب رحمت لڑکے کے گھر آئی ہے، تو اس کی خوشی کے اظہار کے لیے ولیمہ کرنا مسنون قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے ہمیں ولیمہ کی دعوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ لیکن آج کل ولیمہ کی دعوت ، دعوت کم اور بزنس زیادہ بن چکی ہے، لفافہ کا رواج اور اس میں مقابلہ آرائی کی ذہنیت ، اسی طرح کم لفافہ پیش کرنے والے کو حقیر اور ثانوی حیثیت دینے کے رجحانات سے سنت کے بجائے لعنت کا سبب بنتا جارہا ہے۔ اسی طرح جب ولیمہ کا کھانا بچ جاتا ہے یا خراب ہونے لگتا ہے، توتب ہم مدرسے کے بچوں کو کھلانا ثواب کا کام سمجھتے ہیں؛ ایسارویہ عذاب الٰہی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سے پرہیز ضروری ہے۔ (۳) واجب دعوتدرج بالا تمام دعوتیں اختیاری دعوتیں ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ دعوت کریں گے، تو اس کا ثواب ملے گا ۔ اور اگر نہیں کریں گے، تو کوئی بات نہیں؛ لیکن اسلام نے کچھ لازمی دعوتیں بھی رکھی ہیں،جنھیں انسان کو کرنا ضروری ہے، تاکہ آپسی ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ فروغ پاسکے ، اس کی تفصیلات پیش ہیں: (۱) مہمان کی دعوتفرمان نبوی علیہ السلام کے مطابق ایک دن اور ایک رات مہمان کا اعزازو اکرام اور دعوت کرنا واجب ہے۔ اس کے بعد تین دن تک سنت ہے۔ بعد ازاں مستحب ہے۔ ( بخاری، کتاب الادب،باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ) (۲) روزہ کے کفارہ کی دعوتاگر کوئی اتنا بوڑھا ہوگیا ہے کہ رمضان میں روزہ رکھنے کی قدرت باقی نہیں رہی اور نہ ہی یہ امید ہے کہ آگے قدرت لوٹ پائے گی ، تو ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ ہر روزہ کے بدلہ غریبوں کی دعوت کرے۔ (البقرہ، آیت ۱۸۴) (۳) قسم کے کفارہ کی دعوتکسی نے صحیح قسم کھائی اور اس کو پورا نہیں کرپایا، قسم حانث ہوگیا، تو اس کے کفارہ کے لیے ضروری ہے کہ دس غریبوں کی دعوت کرے۔ (المائدہ، آیت ۸۹) (۳) حالت احرام میں شکار کے کفارہ کی دعوتاگر کوئی شخص حالت احرام میں تھا اور اس نے کوئی جانور شکار کرلیا، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسی جیسا جانور کی قربانی حرم میں کرکے فقیروں کی دعوت کرے۔(المائدہ، آیت ۹۵) (۴) ظہار کے کفارہ کی دعوتکسی نے اپنی بیوی کو کسی محرمات کی عورت سے تشبیہ دے دی، مثلا یہ کہہ دیا کہ تو میری ماں کی طرح ہے، تو شریعت میں اسے ظہار کہا جاتا ہے۔ اس سے بیوی ماں کی طرح حرام ہوجاتی ہے۔ زوجیت کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے اس سے رجوع کرنا ضروری ہے؛ لیکن جب رجوع کریں گے، تو ظہار کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ اور وہ کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کرے۔ آج کل چوں کہ غلام نہیں ہے، اس لیے دوسرا حکم یہ ہے کہ دو مہینے مسلسل روزے رکھے۔ لیکن اگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے، تو دو وقت پیٹ بھر کر ، ساٹھ غریبوں کی دعوت کرنا ضروری ہے۔ (المجادلہ، آیت : ۴) خلاصہ کلام یہ ہے کہ سماجی نفسیات کے تناظر میں اسلام دعوت کرنے کرانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور انسان کے حسب ضرورت مستحب، سنت اور واجب قرار دیتا ہے۔ ان تمام دعوتوں کے پیچھے داعی کا دل اس جذبہ سے لبریز ہونا ضروری ہے کہ وہ محض رضائے الٰہی اور حکم خداوندی کی تعمیل میں دعوت کر رہا ہے۔ اگر دل میں ذرا سا بھی مفاد خوری تو دور ؛شکر طلبی کی تمنا بھی آگئی، تو آپ کی دعوت ، رحمت اور ثواب کے بجائے لعنت اور عذاب کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس لیے آئیے ہم سب اپنے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خالص دل سے ایک دوسرے کے ساتھ یہ کہنے اور کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ: ’’ آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔‘‘۔