8 Apr 2018

نثری اصناف

قسط نمبر (17) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
نثری اصناف
گذشتہ مباحث کے مطالعے سے آپ کے اندر اتنی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے کہ آپ کوئی مقالہ تیار کر سکتے ہیں،اس لیے اب مناسب معلوم ہو تا ہے کہ اردو کی کچھ خاص خاص نثری اصناف کا تعارف کرا دیا جائے ،تا کہ ان اصناف کے درمیان پائے جا نے والے فرق کو محسوس کر سکیں، اور ان کے جدا جدا اسلوب اور طرز نگارش سے واقف ہو کر ہر ایک صنف کو اس کے مطابق لکھ سکیں۔
نثر کی دو قسمیں ہیں:(۱) مسجع (۲) مرسل ۔
مسجع :اس نثر کو کہا جا تا ہے جس میں دو یا دو سے زائد فقرے میں قافیہ کا التزام کیا جاتاہے، جیسے:قسم ہے اس کی جو ارض و سما کا نور ہے،جو عرش وفرش کا ظہور ہے۔
مرسل:اس نثر کا نام ہے، جس میں قافیے کا التزام نہیں کیا جاتا ہے۔ نثرکی مختلف صنفیں ہیں ، جو زمانے کے تقاضے کے ساتھ معرض وجود میں آتی رہی ہیں، ذیل میں کچھ صنفوں کا تعارف پیش کیا جارہا ہے ۔
مضمون 
کسی موضوع کے حوالے سے اپنے احساسات وجذبات اور ذہن میں مرتسم خیالات کو سپرد قرطاس کرنے کا نام ’مضمون ‘ ہے۔
’’مضمون ‘‘ مغربی ادب کی دین ہے۔ اس کو انگریزی میں ایسے (ESSAY)کہا جاتاہے۔مضمون میں ایجاز واختصارکے ساتھ موضوع کا احاطہ نہایت گہرائی وگیرائی سے کیاجاتاہے اور شروع سے آخر تک ربط وتسلسل اور منطقی توازن برقرار رکھا جاتاہے۔عام فہم زبان، دل کش انداز بیان اور سادہ اسلوب اختیار کیا جاتاہے۔ اس میں کسی موضوع کی قید نہیں ہوتی ۔سیاسی، سماجی ، مذہبی، اخلاقی ، تاریخی ، سائنسی غرض ہر ایک موضوع پر مضمون لکھا جاسکتاہے۔ 
مضمون کے عموماً تین حصے ہوتے ہیں : (۱)آغاز (۲)نفس مضمون (۳) اختتام ۔
آغاز میں مضمون کے مقاصد پر روشنی ڈالی جاتی ہے ، اور آگے پیش کی جانے والی نکات اور پہلووں کی طرف اشارہ کیا جاتاہے۔ نفس مضمون میں آغاز میں بیان کردہ نکات وخیالات کی وضاحت مدلل ومرتب انداز میں کی جاتی ہے، اور اس میں اٹھا ئے گئے مسائل کا حل اور سوال کا جواب دیا جاتا ہے۔ اور اختتام میں مضمون میں بیان کردہ خیالات واستد لالات سے نتائج اخذ کر کے انھیں استدلالی طریقے سے بیان کیا جاتاہے ۔ 
مضمون کی اقسام: چوں کہ مضمون کے لیے کسی موضوع کی قید نہیں ہوتی ، اس لیے موضوع کے اعتبار سے اس کی درجنوں قسمیں ہوسکتی ہیں، جیسے: علمی وتحقیقی مضمون ،بیانی مضمون ، اصلاحی مضمون ، سیاسی مضمون،حکائی مضمون، ذہنی مضمون اور مزاحیہ مضمون وغیرہ۔ 
انشا 
’ انشا ‘عربی کا لفظ ہے، اس کے معنی عبارت آرائی کے ہیں ۔اصطلاح میں دل سے کوئی بات پیدا کرنے یا بات سے بات پیدا کرنے کو ’انشا ‘کہا جاتاہے۔اس میں انشا نگار اپنے ذاتی خیالات وتأثرات اور مشاہدات وتجربات بیان کرتاہے، اور اپنے زور قلم سے معمولی سی معمولی بات کو غیر معمولی بنادیتاہے۔ اسی وجہ سے اس کو’ذاتی شبیہ‘ یا’ قلمی تصویر‘ بھی کہا جا تاہے۔ انشا نگار ایسا شگفتہ اور شاعرانہ انداز بیان اختیار کرتاہے جس سے قاری کو لطف آنے لگتا ہے اور اس کی جادو بیانی سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ مضمون کی طرح اس میں بھی شروع سے آخر تک ربط وتسلسل کا پایا جانا ضروری ہے۔ نیز اس میں مواد کم اور عبارت آرائی زیادہ ہوتی ہے ۔
انشائیہ مضمون ہی کی ایک قسم ہے ۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ مضمون میں معلومات کا دخل ہوتاہے ، جب کہ انشا میں تأثرات کی کار فرمائی ہوتی ہے۔مضمون میں خیال انگیزی پائی جاتی ہے او رانشا میں تخیل پرستی ۔ مضمون میں صرف متعلقہ موضوع سے بحث کی جاتی ہے، اور انشا میں انشا نگار کے ذہن میں جو کچھ آتاہے ، اسے آزادانہ طور پر موضوع سے ربط برقرار رکھتے ہوئے بیان کر دیتاہے ۔ 
مضمون کی طرح اس میں بھی کسی موضوع کی قید نہیں ہوتی ، بلکہ یہ انشا نگار کے منشا کا تابع ہوتاہے ۔ اسی وجہ سے ایک ادیب جانسن نے اسے ’ذہن کی آزاد ترنگ‘ کہا ہے ۔
ذیل میں اردو کے مشہور انشا نگار مولانا ابو الکلام آزادؔ کا ایک انشائیہ بطور نمونہ دیا جارہاہے: 
’’ہم نے ایمان کا اعلان کیا ہے، خدا پرستی کا دعویٰ کیا ہے، سرفروشی و جاں ستانی کا نعرہ لگایا ہے، ہم نے قربانی وجاں بازی کا ہزاروں ، لاکھوں مرتبہ نام لیا ہے، ہم نے حق پرستی کے عہد کیے ہیں، اور ملک سے عشق ومحبت کا پیمان وفا باندھا ہے، ہم نے نامردی اور بزدلی کی ہمیشہ حقارت کی ، ہم نے حق سے منھ موڑنے اور خدا کو پیٹھ دکھا نے پر لعنتیں بھیجیں ، ہم ان پر ہنسے، جو تکلیفوں اور مشکلوں سے گھبرا گئے، ہم نے ان کی بدبختی ومحرومی سے پناہ مانگی، جو وقت پر دعووں میں پورے نہ اترے ۔ یہ سب کچھ ہم نے اپنی مرضی اور طلب سے کیا، خدا اور اس کے فرشتے ہماری زبانوں اور ہمارے دلوں پر گواہ ہیں ، پھر اگرآج آزمائش کی گھڑی آگئی ہے اور وہ منزل سامنے ہے ،جس کے لیے ہم اس قدر دعوے کر چکے ہیں ؛ توکیا ہم عین وقت پر اپنے تمام دعوے بھلادیں گے؟ کیا ہمارا دعویٰ دھوکہ ثابت ہوگا ؟ اور ہمارا اعلان محض فریب کا تماشہ ہوگا؟ کیا ہم نے جو کچھ کہا ؛ وہ جھوٹ تھا؟ اور ہم نے اپنے ایمان اور حق کے لیے جو کچھ سمجھا ؛ وہ دھوکہ تھا؟۔ (الجمعیۃ آزاد نمبر ۔بحوالہ تقاریرمولانا آزادؒ ) 
خطوط 
وہ معلومات وکیفیات ، جذبات واحساسات اور حالات وضروریات ،جو ایک شخص دوسرے شخص کو بواسطۂ تحریر ظاہر کرتاہے اسے ’خط‘ کہا جاتاہے ، بہ الفاظ دیگر ایک دوسرے سے بُعد مکانی کے باعث زبان لحم کے بجائے زبان قلم سے گفتگو کرنے کا نام ’مکتوب یا خط‘ ہے۔ اگر چہ یہ ملاقات کا بدل نہیں ہے، تاہم اسے نصف ملاقات کا درجہ دیا جاسکتاہے، چنانچہ خط کے بارے میں بابائے اردو مولوی عبدا لحق صاحب رقمطراز ہیں کہ :
’’خط دلی خیالات اور جذبات کا روز نامچہ اور اسرار حیات کا صحیفہ ہے۔ اس میں وہ صداقت اور خلوص ہے، جو دوسرے کلام میں نظر نہیں آتا۔ خطوط سے انسان کی سیرت کا جیسا انداز ہ ہوتا ہے ، وہ کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں ہوسکتا‘‘ ۔ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر چہ نظم، افسانہ ، ناول اور ڈراما وغیرہ میں بھی انسانی سیرت اور اس کے کیریکٹر کی کچھ جھلکیاں ملتی ہیں؛ لیکن ان سب میں لکھنے والا بناوٹی باتوں کا سہارا لیتا ہے اورمبالغہ آرائی سے کام لیتاہے ، اس لیے ضروری نہیں ہے کہ ان اصناف سخن میں لکھنے والا اپنے دلی جذبات اور صحیح احساسات کا اظہار کریں، لیکن خط میں ، جب کوئی رکاوٹ اوراجنبیت نہ ہو ؛ تو لکھنے والا اپنے دل کی ساری باتوں کو بلا جھجھک لکھ ڈالتاہے، اس لیے انسانی سیرت کا اس سے جس قدر اندازہ لگا یا جا سکتا ہے وہ کسی اور ذرائع سے ممکن نہیں ۔ 
خط لکھتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
(۱)چوں کہ یہ تحریری گفتگو ہے، لہذا گفتگوکی طرح سا دہ انداز تحریر اختیار کرنا چاہیے ۔ 
(۲)القاب وآداب کے الفاظ مرسل الیہ کے مقام ومرتبہ اور اس کے حسب حال ہونا چاہیے۔ 
(۳)لکھنے میں ایجاز سے کام لینا چاہیے،لیکن اتنا بھی ایجاز نہ ہو کہ مطلب بھی واضح نہ ہو سکے اور ہر ہر جملہ فلسفہ بن جاے۔ ؂
گفتگو میں اس قدر توالجھنیں پیدا نہ کر 
ورنہ تیرا جملہ جملہ فلسفہ بن جائے گا 
(۴)اسلوب نگارش مرسل الیہ کے حسب حال ہونا چاہیے۔اگر مرسل الیہ طبقۂ عوام سے تعلق رکھتا ہے، تو اس کے لیے نہایت سادہ اور سلیس انداز میں لکھا جائے گا۔اور اگروہ طبقۂ اہل علم سے تعلق رکھتا ہے،تو اس کے لیے عالمانہ انداز اور ادیبانہ طرز اختیار کیا جا ئے گا۔
(۵)ایسے مشترک اور مشتبہ الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہیے ،جس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہو، نیز تحریر عمدہ اور صاف ستھری ہونی چاہیے،کیوں کہ بسا اوقات خراب تحریر کی وجہ سے لکھا کچھ جا تا ہے ،اور پڑھا کچھ اورجا تا ہے، جس سے غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے،جیسا کہ ایک شاعر نے کہاہے کہ: ؂
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا 
ہم دعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے 
خط میں چار اہم اجزا ہو تے ہیں:(۱)تمہید(۲)افتتاحیہ(۳)نفس مضمون(۴)اختتام۔
(۱)تمہید: اس حصے میں مرسل الیہ کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے مناسب القاب لکھے جاتے ہیں، جیسے: بڑوں اور بزرگوں کے لیے:مخدومی، محترمی، حضوروالا،جناب والا،آں جناب وغیرہ۔دوستوں کے لیے:محبی، مکرمی، برادرم، محب گرامی،جگری دوست، وفادار ساتھی وغیرہ۔اور بچوں کے لیے:عزیز من ،عزیز گرامی،نور نظر، لخت جگر، بابو، پیارے،دلارے، سرور قلب وغیرہ۔
(۲)افتتاحیہ:اس حصے میں ملاقاتی الفاظ اور جملے لکھے جا تے ہیں ،جیسے:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، سلام مسنون،آداب،آداب عرض ہے، تسلیم، تسلیمات، تسلیم و نیاز، آداب و تسلیم، باد نسیم سے زیادہ لطیف اور مشک کی نکہت سے زیادہ معطر سلام قبول کیجیے وغیرہ۔
(۳)نفسِ مضمون: اس حصے میں مرسِل مرسَل الیہ کو اپنی ضروری باتوں اور خط لکھنے کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے۔اس لیے اس میں ایسا اسلوب نگارش اختیار کرنا چاہیے، جس سے مکتوب الیہ متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے،اور پورا خط نہایت توجہ او ر دل جمعی کے ساتھ پڑھنے پر مجبور ہو جائے۔
(۴)اختتام:اس حصے میں مرسَل الیہ کے لیے خیریت و عافیت کے جملے لکھے جاتے ہیں،اور اپنے خلوص و محبت اور نیاز مندی کا اظہار کیا جا تاہے،جیسے:آخر میں میرا دلی سلام قبول کیجیے۔ہمارے دائمی خلوص کو شرف قبولیت سے نوازیے ،اب اجازت دیجیے،خدا حافظ ،خوش رہو، اب زیادہ کیا عرض کروں۔ فقط والسلام۔
خط کی اقسام :نفسِ مضمون اور حالات و ضروریات کے پیشِ نظر خط کی درجنوں قسمیں ہو سکتی ہیں،جیسے:شخصی خطوط،کاروباری خطوط، دفتری خطوط ،اخباری خطوط،تعزیتی خطوط،تہنیتی خطوط وغیرہ۔ 
نمونہ کے لیے ایک دوخط پیش کیا جارہا ہے:
پانی پت 
۲۰ ؍جولائی ۱۹۰۴ء 
جنابِ من 
شمس العلما کا خطاب ملنے پر جس گرم جوشی اور مسرت کے ساتھ آپ نے خاکسار کو مبارک باددی ہے، اس کا شکریہ تہہ دل سے ادا کرتا ہوں، اور اس کو اپنے لیے دستاویز فخر وامتیاز سمجھتاہوں۔
آپ کے فصیح وبلیغ اشعار کو میں فخر یہ کسی اخبار میں چھپواوں گا۔ مجھے ترجمہ کرنے کی اب تک فرصت نہیں ملی ’آج کل‘ میں معہ ترجمہ کے لاہور بھیجوں گا۔ازراہِ عنایت مطلع کیجیے گااورنیز کراچی کی آب وہوا کا حال لکھیے گا کہ اب کیا رنگ ہے۔میں آج کل حد سے زیادہ عدیم الفرت ہوں،کسی تصنیف یا تالیف کے سبب نہیں،بلکہ مکروہاتِ خانگی کی وجہ سے ، ورنہ آپ کا شکر یہ ایسا سرسری طور پر معمولی الفاظ میں ہر گز نہ لکھتا۔
زیادہ نیاز 
آپ کا نیاز مند 
(دستخط)
الطاف حسین حالی 
یہ دوسرا خط بھی ملاحظہ فرمائیے:
بھوپال 
۲۰؍اگست ،۱۹۳۵ء 
مخدومی، السلام علیکم 
آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا ہے ،جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میں بھی یہاں حمید یہ لائبریری اور بعض پرائیوٹ،احباب سے کتابیں منگواکر دیکھتا رہا۔ الحمداللہ کہ بہت سی باتیں مل گئیں۔ اس مطالعے سے مجھے بے انتہا فائدہ ہوا، اور آپ کے خط نے تو اور بھی راہیں کھول دی ہیں۔
میں نے کبھی اپنے آپ کوشاعرنہیں سمجھا۔ اس واسطے کوئی میرارقیب نہیں ہے، اور نہ میں کسی کواپنارقیب تصورکرتا ہوں۔ فنِ شاعری سے کبھی مجھے دل چسپی نہیں رہی۔ ہاں بعض مقاصدِ خاص رکھتا ہوں، جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات وروایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔
مخلص 
(دستخط)
محمد اقبال 

تقریظ 
تقریظ عربی کا لفظ ہے ،جس کے معنی : تعریف کرنے او ر سراہنے کے ہیں۔ کسی کتاب پر تقریظ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر تبصرہ کرنا ۔اس کی خوبیوں کو اجا گر کرنا اور صاحب کتاب کی تعریف وتوصیف کرنا، کبھی تقریظ میں کتاب میں در آنے والی غلطیوں یا مؤلف سے ہوئی لغزشوں کی طرف اشارہ اور ان کی جگہ اپنی رائے کا اظہار کیا جاتاہے۔
لیکن اب تقریظ میں عموماً صرف محاسن بیان کیے جاتے ہیں ، خامیوں اور فرو گذاشتوں سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ اگر صرف معائب ہی لکھے جائیں اور خوبیاں بالکل نظر انداز کردیے جائیں ؛ تو اسے ’تقریظ‘ کے بجائے ’تنقیص‘کہا جاتا ہے۔ کسی کسی تقریظ میں تقریظ نگار مصنف کو کوئی مفید مشورہ بھی دیتاہے،جو کتاب کے موضوع سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور اس کے لیے سود مند بھی، اور آخر میں کتاب اور صاحب کتاب دونوں کے لیے دعائیہ کلمات لکھے جاتے ہیں۔ 
خاکہ 
کسی شخصیت کی انفرادی خصوصیات وامتیازات اور ان کی زندگی کے نمایاں پہلووں کو (خواہ ان کا تعلق خوبیوں سے ہوں یا خامیوں سے) مختصر ، مگر جامع انداز میں پیش کرنے کا نام ’خاکہ ‘ ہے۔
اس کو انگریزی میں اسکیچ (SKETCH)کہا جاتاہے ۔ جس طرح اسکیچ میں کسی کی شکل وصورت یا خصوصیت کو خطوط اور نقوش کے ذریعہ اجاگر کیا جاتا ہے، اسی طرح ’’خاکہ ‘‘ میں اختصاراور اشاروں میں صرف وہ کردار بیان کیا جاتا ہے،جو اس کی حقیقی زندگی کے نقوش کو ابھارسکے۔اس میں عام طور پر خاکہ نگار اپنے ذاتی مشاہدہ، تعلق اور تجربے کی روشنی میں اس کی سیرت کوپیش کرتا ہے اور صرف خاص خاص واقعات کو تحریر کرتا ہے ۔ اس میں سوانح کی طرح مکمل زندگی کا احاطہ نہیں کیا جاتا۔ 
سوانح 
زندگی کے کسی خاص شعبے سے تعلق رکھنے والی کسی مشہور اور ممتازہستی کی پوری زندگی، اس کے واقعات حیات کے تمام گوشوں اور اس کے کارناموں کو قلم بند کرنے کا نام’سوانح ‘ہے ۔
اس میں پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام حالات لکھے جاتے ہیں۔ سوانح نگار تفسیر حیات کے ساتھ ساتھ اپنا تجزیہ بھی پیش کرتاہے۔ اس میں وہی باتیں اور وہی واقعات لکھے جاتے ہیں، جو حقیقی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں جعلی اور فرضی کہانیاں بیان نہیں کی جاتیں۔ 
جب کوئی خود اپنی زندگی کے حالات قلم بندکرتاہے؛ تو اسے’خود نوشت سوانح‘کہا جاتاہے،جیسے: مولانا ابوالکلام آزادؔ کی کتاب : ’تذکرہ‘ ان کی خود نوشت سوانح ہے ۔
سوانح اور خاکہ دونوں عربی اور فارسی ادب کی دین ہیں، اردو میں ان کا باقاعدہ آغاز اس وقت سے ہوا، جب کہ شاعروں اور ادیبوں نے سوانح لکھنا شروع کیا۔ 
ان دونوں صنفوں میں فرق یہ ہے کہ سوانح میں پوری زندگی کا احاطہ کیا جاتا ہے، اور ایک ایک خصوصیت کو پوری طرح نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، جب کہ خاکہ میں زندگی کے صرف اہم اہم واقعات لکھے جاتے ہیں اور تفصیل سے گریز کیا جاتاہے۔ 
تذکرہ 
جس میں شعرا کے احوال وکوائف اور ان کے کلام کے نمونے لکھے جاتے ہیں، اسے’ تذکرہ‘ کہتے ہیں ۔ تذکرہ کی مختلف لوگوں نے مختلف حیثیتوں سے تقسیم کی ہے، بعضوں نے اس کی تقسیم ہےئت اور موضوع کے اعتبار سے کی ہے، اور بعضوں نے خصوصیات کے اعتبار سے اس کی قسمیں نکالیں ہیں ۔ چنانچہ ڈاکٹر زور نے اردو تذکروں کی تین قسمیں کی ہیں: 
(۱)وہ تذکرہ، جو کسی شاعر نے لکھا ہو۔ 
(۲)وہ تذکرہ ،جس کو لکھنے والا کسی بڑے شاعر کا شاگرد ہو یا اس کا مداح ہو۔ 
(۳)وہ تذکرہ، جس کو لکھنے والا نہ تو شاعر ہو اور نہ ہی کسی شاعر کا شاگرد ؛ بلکہ صرف سخن فہم ہو ۔ اس کے برخلاف ڈاکٹر عبداللہ نے خصوصیات کے اعتبار سے اس کی سات قسمیں کی ہیں: 
(۱)وہ تذکرے، جن میں صرف اعلیٰ شاعروں کے مستند حالات اور ان کے کلام کا انتخاب موجودہو۔ 
(۲) وہ تذکرے، جن میں قابل ذکر شعرا کے حالا ت اور نمونۂ کلام جمع کیا گیا ہو اورتذکرہ نگار کا مقصد صرف جامعیت ہو۔ 
(۳)وہ تذکرے، جن میں تمام شعرا کے عمدہ کلام اور ان کا مفصل انتخاب پیش کیا گیاہو ، اور ان میں حالات جمع کرنے کی طرف زیادہ توجہ نہ کی گئی ہو۔ 
(۴)وہ تذکرے ،جن میں اردو شاعری کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہو، اور تذکرے کا مقصد اس کی ارتقائی تاریخ کو قلم بند کرنا ہو۔ 
(۵)وہ تذکرے، جن میں صرف مخصوص دور سے بحث کی گئی ہو۔ 
(۶)وہ تذکرے، جن میں کسی خاص وطنی یا ادبی گروہ کی ترجمانی کی گئی ہو۔ 
(۷)وہ تذکرے، جن کا مقصد تنقید سخن اور اصلاح سخن ہو۔
(مستفاد از ’’اردو ادب ، ص؍ ۹۶و۹۷، بحوالہ ’’شعرائے اردو کے تذکرے‘‘) 
تذکرہ نگاری کے وقت ان باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور ان کی روشنی میں تذکرہ نگاری کرنی چاہیے۔ 
طنزو مزاح 
زندگی کی ناہمواریوں اور مضحکہ خیز پہلووں کو حقیقی روپ دے کر اس میں طنزیہ عنصر شامل کر کے ایسے شیفتہ وشگفتہ انداز میں پیش کرنا کہ پڑھنے اور سننے والے لطف اندوز ہونے لگیں’’طنز ومزاح‘‘کہلاتاہے۔
طنز ومزاح یہ دونوں لفظ عام طور پر ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں ؛ لیکن ان دونوں کے معنی اور طرزبیان میں تھوڑاسا فرق ہے: مزاح میں صرف ہنسی کا سامان ہوتاہے،جب کہ طنز میں اصلاح کا جذبہ بھی پیش نظر رہتاہے۔ مزاح میں زندگی کی ناہم واریوں کو ہو بہ ہو پیش کیا جاتا ہے، جب کہ طنز میں ان ناہم واریوں سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا جاتاہے۔ مزاح سے محض تفریح مقصود ہوتی ہے، جب کہ طنز میں ہنسی ہنسی میں معاشر ہ اور سماج میں پائی جانے والی خرابی پر چوٹ کی جاتی ہے۔
ایک اعلیٰ درجے کی مزاح نگاری کے لیے طنز کا بھی ہونا ضروری ہے؛کیوں کہ مزاح میں اگر طنز نہ ہو ؛ تو اس میں سطحیت آجاتی ہے، اور اس کے بغیر پھکڑپن اور مذاق بن جاتاہے۔ اس لیے طنزو مزاح ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم سمجھے جاتے ہیں، البتہ اتناہوسکتاہے کہ کبھی مزاح کا پہلو غالب رکھا جائے اور طنز کا مغلوب ، اور کبھی طنز کا پہلو غالب رکھا جائے اور مزاح کا مغلوب۔ 
مزاح نگاری دیگر صنف ادب کے مقابلے میں انسانوں کی اصلاح اور معاشرے میں سدھا ر لانے کے لیے ایک بہترین صنف ادب ہے، کیوں کہ ایک واعظ یا ناصح، جب کسی بات کو دو ٹوک انداز میں کہہ دیتاہے ، تو بسااوقات سامعین اس سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس کرنے لگتے ہیں ، لیکن جب وہی بات ایک مزاح نگار اپنے خوشگوار طریقے سے کہتاہے، تو سامعین کو بری نہیں لگتی؛ بلکہ انھیں اصلاح کی فکر ہونے لگتی ہے۔ 
مزاح نگاری کی متعدد قسمیں ہیں: تمسخر، ضلع بھگت ، (بذلہ سنجی و ظرافت)پھبتی،لطیفے، پیروڈی وغیرہ۔ ذیل میں نمونہ کے لیے کنہیا لال کپور کے ایک مزاحیہ مضمون سے ایک اقتباس دیا جارہاہے، جس کا عنوان ہے : 
’’غالبؔ جدید شعرا کی محفل میں ‘‘
۶: م۔ن۔ ارشد: اب مرزا، غزل کا دوسرا شعر فرمائیے۔ 
غالبؔ : میں اب عرض مقطع کروں گا ، کہا ہے: ؂ 
عشق نے غالب نکما کردیا 
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے 
۷: عبد الحی نگاہؔ : گستاخی معاف مرزا! اگر اس شعر کا پہلا مصرعہ اس طرح لکھا جاتا، تو ایک بات پیدا ہوجاتی۔ 
غالبؔ : کس طرح؟ 
عبد الحی نگاہؔ : 
عشق نے، ہاں ہاں تمھارے عشق نے 
عشق نے سمجھے؟ تمھارے عشق نے 
مجھ کو نکما کردیا
اب نہ اٹھ سکتاہوں میں 
اور چل تو سکتا ہی نہیں 
جانے کیا بکتا ہوں میں 
یعنی نکما کردیا
اتنا تمھارے عشق نے 
گر تاہوں اور اٹھتاہوں میں
اٹھتاہوں اور گرتاہوں میں 
یعنی تمھارے عشق نے 
اتنا نکما کردیا 
غالبؔ : (طنز اً )
بہت خوب ، غضب کردیا۔ 
غیظ احمد غیظؔ :
اور دوسرا مصرعہ اس طرح لکھا جا سکتا تھا:

جب تک نہ مجھ کو عشق تھا 

تب تک مجھے کچھ ہوش تھا 

سب کام کر سکتا تھا میں 

اور دل میں میرے جوش تھا 

اس وقت تھا میں آدمی 

اور آدمی تھا کام کا 

لیکن تمھارے عشق نے 

مجھ کو نکما کردیا
۸: غالبؔ : واللہ! کمال ہی تو کردیا ۔ بھئی اب آپ لوگ اپنا کلام سنائیں۔ 
م۔ ن۔ ارشد : کیوں نہ اب ڈاکٹر حسین خالصؔ سے درخواست کی جائے کہ اپنا کلام پڑھیں۔ 
ڈاکٹر خالصؔ : میری نظم کا عنوان ہے: ’’عشق‘‘ عرض کیا ہے کہ: 
عشق کیا ہے؟ 
میں نے اک عاشق سے پوچھا 
اس نے یوں روکر کہا
عشق اک طوفان ہے 
عشق اک سیلاب ہے 
عشق ہے اک زلزلہ 
شعلۂ جوالہ ہے عشق 
عشق ہے پیغام موت 
غالبؔ : بھئی یہ کیا مذاق ہے ۔ نظم پڑھیے ۔ مشاعرے میں نثر کا کیا کام؟ 
ڈاکٹر خالص: (جھنجھلا کر) تو آپ کے خیال میں یہ نثر ہے؟ یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم ؟ اور فرمایا تھا آپ نے : ع 
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں
غالبؔ : میری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ یہ کس قسم کی نظم ہے۔ نہ ترنم، نہ قافیہ ، نہ ردیف ۔ 
ڈاکٹر خالص: مرزا صاحب ! یہی تو جدید شاعری کی خصوصیت ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو قافیہ اور ردیف کی فولادی زنجیروں میں قید کر رکھا تھا۔ ہم نے اس کے خلاف جہاد کر کے اسے آزاد کیا ہے۔ ( اقتباس از: ’’اردو ادب‘‘ ص؍ ۱۰۸) 
پیروڈی
کسی نظم یا نثر کے اصل مضمون میں تصرف کر کے مزاحیہ انداز میں اس طرح پیش کرنا کہ اصل مضمون کی پرچھائیاں باقی رہتے ہوئے اس میں طنز ومزاح پیدا ہوجائے ’پیروڈی‘ کہلاتا ہے۔ 
پیروڈی یونانی لفظ ہے ۔یہ پیروڈیا (PARODIA)ّْ ّْ سے مشتق ہے، اس کے معنی ہیں: جوابی نغمہ۔ اردو میں اس کا کوئی متبادل لفظ وضع نہیں کیا گیا ہے، اس لیے لفظ پیروڈی ہی استعمال ہوتاہے۔ ذیل میں احمد فراز کی ایک شاہ کار غزل اور اس میں مشہور مزاح نگار : دلاور فگار کی پیروڈی سے نمونہ دیا جا رہا ہے۔
احمد فراز کی غزل کے چند اشعار
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں 
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی 
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں 
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے 
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں 
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے اس کے دہن سے گلاب جھڑتے ہیں 
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت 
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے اس کو بھی ہے شعرو شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
دلاورفگار کی پیروڈی 
سیاہ زلف کو جو بن سنور کے دیکھتے ہیں 
سفید بال کہاں اپنے سر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے فیس ہے کچھ اس سے بات کرنے کی 
یہ فیس کیا ہے؟ ابھی بات کر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے لوگ سیہ فام مہ جبینوں کو 
لگا کے دھوپ میں چشمے نظر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے جیب میں مفلس بھی مال رکھتے ہیں 
سو مفلسوں کی بھی جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے شوق ہے ان کو بھی گھوڑ سواری کا 
جو رات کو بھی اجالے سحر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے عشق میں مشکل ہے میٹرک کرنا 
رزلٹ کچھ بھی سہی، فارم بھر کے دیکھتے ہیں 
ادیب و شاعر و فن کار بوتے ہیں جو شجر 
یہ لوگ پھل کہاں اپنے شجر کے دیکھتے ہیں 
سنا ہے مرنے کے بعد ان کی قدر ہوتی ہے 
سو چند دن کے لیے ہم بھی ’’ مر کے دیکھتے ہیں ‘‘ 
افسانہ 
زندگی کا کوئی ایک واقعہ اور کو ئی ایک جھلک، انتہائی اختصارکے ساتھ، مگرجامع انداز میں پیش کرنا ’افسانہ کہلاتا ہے۔ 
افسانے کی تعمیر وتشکیل میں کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے، ماحول (زمان ومکان) ، اسلوب اور نظرےۂ حیات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہرافسانے میں ایک کہانی ہوتی ہے ۔کہانی کے مختلف واقعات کو ترتیب دینے کو ’پلاٹ‘ کہاجاتاہے ۔ان واقعات کو کسی ایکٹر کے ذریعے نمایاں کرنے کا نام: ’کردارہے۔ کردار کے ساتھ ایکٹر کی زندگی کے پہلو وں کو مناسب ’مکالموں‘کے ذریعے نمایاں کیا جاتاہے۔جب کہانی،پلاٹ اور کردار ہوں گے ؛ تو لازمی طور پر ان کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوگا اور یہ تمام عناصر کسی خاص جگہ اور مخصوص زمانے میں وقوع پذیر ہوں گے، جو ’ماحول‘سے عبارت ہے۔اس میں اسلوب نگارش اور افسانہ نگار کا نظرےۂ حیات، دونوں کافی اہم ہو تے ہیں ۔ اسلوب قاری کو متأثر اور مرعوب کرتاہے اور نظرےۂ حیات افسانے میں نئی معنویت پیدا کرتاہے۔
افسانے کی بنیادی شرط اختصارہے۔ مختصر افسانے کو انگریزی میںSHORT STORYکہا جاتاہے ۔ ایک امریکی ادیب اڈا گر الین یو کے نے اس کی تعریف ہی یوں کی ہے کہ ’’وہ نثری قصہ ہے جو ایک نشست میں پڑھا جاسکے‘‘ اور ایک نشست کا وقت آدھے گھنٹے سے لے کر ایک گھنٹہ تک متعین کیا ہے۔ 
افسانے میں شروع سے آخر تک ربط وتسلسل برقرار رکھا جاتاہے، اور غیر ضروری باتوں اور بے جوڑ جزوی واقعوں سے گریز کیا جاتاہے، اور وحدت تأثر (مجموعی اثر) پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 
ناول 
ایسا نثری قصہ، جس میں زندگی میں پیش آنے والے مختلف حقیقی واقعات کو مبسوط اورتفصیلی انداز میں پیش کیا جاتاہے، ’ناول‘ کہلاتاہے۔ 
ناول ایک جدیدصنف ادب ہے، جس کا وجود د استان کے ختم ہونے کے بعد ہواہے۔مختلف حضرات نے اس کی خصوصیات کے مد نظر مختلف تعریفیں کی ہیں۔مثلاً مشہور ناول نگار ہنری جیمس نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے کہ ’’ناول کا زندگی پر راست اور شخصی اثر ہوتاہے‘‘۔ کسی نے کہا ہے کہ ’’یہ زندگی کی شبیہ یا تصویر ہے‘‘۔ 
ناول کی دو بنیادی شرطیں ہیں: جن کا پایا جانا ضروری ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس میں حقیقی زندگی میں درپیش مسائل کو ہی بیان کیا جاتاہے۔اور دوسری شرط یہ ہے کہ اس کے ضمنی واقعات کو مرکزی قصہ اور اس کے کردار سے از عنوان تااختتام مربوط رکھا جاتاہے۔ 
افسانے کی طرح اس کے بھی وہی سات عناصر ترکیبی ہیں،یعنی:کہانی،پلاٹ، کردار، مکالمے، زمان ومکان یا پس منظر، زاویہ نگاہ اور اسلوب۔کہانی،ناول کا بنیادی عنصر ہے۔ کہانی کے واقعات میں ایسا معنوی اور باطنی ربط وتسلسل ہوتا ،جس سے اگلا واقعہ پچھلے واقعے کا منطقی اور لازمی نتیجہ معلوم ہونے لگے:’پلاٹ‘ کہا جاتاہے۔ انسان عملی زندگی میں مختلف حالات و حادثات سے دو چار ہوتا ہے اور انھیں چیزوں کو ناول میں انسانی کردار کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ جذبات واحساسات کا اظہار انسان کے بیان سے ہوتا ہے اسی لیے مکالمے کو ناول کا ضروری جزو قرار دیاگیا ہے۔ مکالمے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فطری اور حقیقی زندگی سے قریب ہو، اس میں جگہ، وقت، طبقات اور جغرافیائی حالات کو پیش نظر رکھا گیا ہو اور واقعے کی اس طرح تصویر کشی کی گئی ہو کہ پڑھنے والے کے سامنے مکمل تصویر نکھر کر آجائے، اور وہ خود کو اس میں شریک محسوس کرے، کیوں کہ ایک کامیاب ناول کے لیے ایسی منظر نگاری ضروری ہے۔ لیکن اگر ان عناصر کے برتنے میں کوئی کمزوری یا جھول واقع ہو جائے ، تو اسے ناول کے دائرے سے خارج قرار نہیں دیا جائے گا، بشرطیکہ اس میں مذکورہ بالا دونوں شرطیں پائی جاتی ہوں۔ اسی وجہ سے انگریزی کے مشہور ناول نگار ورجیناوولف نے کہا ہے کہ: ’’صنف ناول شتر مرغ کی طرح ہر چیز کو ہضم کر جاتی ہے۔ اس میں شاعری، فلسفہ، تہذیب، معاشیات، عمرانیات، نفسیات غرض کہ کوئی علم وفن ایسا نہیں ہے جو بیان نہیں کیا جاسکتا۔گویا ناول ایک وسیع اورلچک دار صنف ادب ہے، جس میں زندگی کو وسیع ترین انداز میں پیش کیا جا سکتاہے ۔ 
ناول اور افسانے میں فرق یہ ہے کہ افسانہ مختصر ہوتاہے جب کہ اس کے مقابلے میں ناول طویل ہوتا ہے۔ افسانے میں زندگی کی کوئی ایک جھلک پیش کی جاتی ہے،جب کہ ناول میں مختلف واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔
داستان 
دستان ایک ایسی صنف ادب ہے جس میں خیالی، فرضی اور محیر العقول قصوں کو چند کرداروں کے ذریعہ دل نشیں پیراے میں بیان کیا جاتاہے۔ داستان انتہائی طویل ہوتی ہے، جس میں کوئی مرکزی پلاٹ نہیں ہوتا۔ اور اس میں ایک مرکزی قصے سے دوسرے ضمنی قصے بھی جوڑدیے جاتے ہیں، جو اپنے طور پر مکمل آزاد ہوتے ہیں۔اس میں عموما ایسی مافوق الفطرت کہانیاں،حسن و عشق کی رنگینیاں اور محیر العقول واقعات بیان کیے جاتے ہیں، جو فطری زندگی میں پائے نہیں جاتے، جیسے: جناتوں اور پریوں کی کہانیاں، جادوگروں اور ان کے محیر العقول کارنامے وغیرہ وغیرہ۔ 
داستان اور ناول میں فرق یہ ہے کہ ناول میں حقیقی زندگی سے مشابہ زندگی پیش کی جاتی ہے، جب کہ داستان میں فرضی کہانی بیان کی جاتی ہے ۔داستان میں شروع سے آخرتک کردار ایک نہیں ہوتا؛ بلکہ کئی کردار (ایکٹرس) ہوتے ہیں، جب کہ ناول میںیہ ایک ہوتاہے۔ 
ڈراما 
جس میں واقعات حیات اورانسانی افعال اداکاروں کے عمل اور مکالموں کے ذریعے پیش کیے جاتے ہیں، وہ ’ڈراما‘ کہلاتا ہے۔
’ڈراما‘ یونانی لفظ ہے اور ’ڈراو‘سے بنا ہے ، اس کے معنی ’عمل‘ کے ہیں۔’ڈراما‘کی مختلف لوگوں نے مختلف تعریفیں کی ہیں، چنانچہ ارسطو کے بقول:’’ڈراماانسانی افعال کی نقل ہے‘‘۔ سسرو کے الفاظ میں : ’’ڈراما زندگی کی نقل، رسم ورواج کا آئینہ اور سچائی کا عکس ہوتاہے‘‘، وکٹر ہیوگو کے مطابق ’’ڈراما ایک آئینہ ہے جس میں فطرت منعکس ہوتی ہے‘‘۔ 
ڈراما میں تین اہم اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں:(۱)کہانی(۲)اداکاری(کردار) (۳)پلاٹ۔ 
ڈراما میں کہانی اداکاروں کے عمل اور مکالموں کے ذریعے بیا ن کی جاتی ہے۔ عمل اور مکالموں کو مخصوص انداز میں ترتیب دینے کو ’پلاٹ‘ کہا جاتاہے۔ ڈرامے کے ’پلاٹ‘کی ابتدا کسی داخلی یا خارجی کشمکش اور تصادم سے کی جاتی ہے ۔ یہ کشمکش اور ٹکراؤ دو اداکاروں کے درمیان ہوتاہے، جس میں ایک انسان دوسرے انسان سے، ایک خاندان دوسرے خاندان سے، ایک طبقہ دوسرے طبقہ سے اور ایک ملک دوسرے ملک سے متصادم ہوتا ہے۔ 
آغاز سے اختتام تک ڈرامائی عمل میں تسلسل پا یا جاتاہے، اسے ’ڈرامائی خط‘ کہا جاتاہے، یہ خط چھ مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے: 
(۱)تمہید: اس میں آگے کی کہانی کو سمجھانے کے لیے گذشتہ واقعے کی طرف اشارہ کیا جاتاہے۔ 
(۲)ابتدائے واقعہ : یہاں سے ڈراما کا آغاز ہو جاتاہے۔ 
(۳)ارتقا: اس مرحلے میں کشمکش اور تصادم ہونے لگتاہے۔
(۴)عروج : اس حصے میں کشمکش عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ 
(۵) زوال : یہاں سے کشمکش دور ہونے لگتی ہے۔ 
(۶)انجام: اس مرحلے میں ’ڈراما‘ گذرے ہوئے واقعات کی روشنی میں کسی انجام تک پہنچ جاتاہے۔ اور اسی پر ڈراما کے اختتام ہو جاتا ہے۔
ڈراما اور اسٹیج
چوں کہ ڈراما اسٹیج پر تماشائیوں کے سامنے پیش کی جانے والی صنف ادب ہے، اس لیے ڈراما کے لیے اسٹیج کا تصور جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے ، لہذا ڈراما نگار کو ڈراما نگاری کے وقت اسٹیج کا تصور اور اس کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ اب ڈرامے کے تماشائی سننے سے زیادہ دیکھنے میں دل چسپی لینے لگے ہیں، اس لیے مکالمے سے زیادہ عملی پیش کش کی اہمیت ہے۔تماشائیوں میں بعض وہ ہوتے ہیں،جو محض تفریح طبع کے خواہش مند ہوتے ہیں، اور بعض باشعور اور اعلیٰ ذوق کے حامل افراد بھی ہوتے ہیں ، اس لیے ڈراما نگار کو لکھتے وقت ہرایک کے تسکین ذوق کا خیال رکھنا ناگزیر ہے۔ 
ڈراما کی اقسام
تأثرکے اعتبار سے ڈراما کی دوقسمیں ہیں: (۱)المیہ (۲)طربیہ۔ 
(۱)المیہ : اس میں رنج والم اور ہمدردی کا تأثر غالب رہتاہے۔ 
(۲)طربیہ : اس میں فرحت وانبساط کا تأثر حاوی رہتاہے، اور طنز ومزاح کے ذریعے مضحکہ خیز پہلووں کو اجاگر کیا جاتاہے۔ 
موضوع کے اعتبار سے اس کی درجنوں قسمیں ہوسکتی ہیں ،جیسے: سیاسی ڈرامے،سماجی ڈرامے، اصلاحی ڈرامے، مزاحیہ ڈرامے وغیرہ ۔ آج کل ریڈیو پربھی ڈراما پیش کیا جا تاہے ، اسے ’ریڈیوڈراما‘ یا ’صوتی ڈراما‘کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں اداکاروں کے عمل اور اسٹیج پر دکھائے جانے والے مناظر کو صدا کاری اور صوتی تأثر کے ذریعہ پیش کیا جاتاہے۔ 
ڈراما اورناول میں فرق یہ ہے کہ ڈراما میں ہر بات عمل اور ایکٹنگ کے ذریعے پیش کی جاتی ہے، جب کہ ناول میں ہر بات بیان کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ناول کو انگریزی میں ’پاکٹ تھیٹر‘ کہا جاتاہے۔
آج کل بعض مدارس میں ڈراما سے مشابہ کچھ اسی طرح کا عمل ’مکالمہ‘ اور محادثہ‘ کے عنوان سے پیش کیا جاتاہے۔ بس فرق یہ ہوتاہے کہ اس میں کردار نہیں ہوتا۔ اور اس کا مقصد صرف حقائق کا اظہار و انکشاف ہوتاہے (تفریح طبع نہیں ہوتا) اس لیے ’مکالمہ نگاری‘کے لیے بھی ’ڈرامانگاری‘ کے اجزائے ترکیبی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ 
ترجمہ 
کسی تحریر اور خیال کو ایک زبان سے بعینہٖ دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام ’ترجمہ‘ ہے۔ ’ترجمہ‘ ایک مستقل اور قدیم فن ہے۔ اسی کے ذریعے ایک زبان کے علوم وفنون کو دوسری زبان میں منتقل کیا جاتاہے، جس سے زبانیں پھلتی پھولتی اور فروغ پاتی ہیں۔ ویسے تو ہر دور میں ’ترجمہ نگاری‘ کی اہمیت مسلم رہی ہے ؛ لیکن عصر حاضر میں ترسیل و ابلاغ کے تمام ذرائع کا اسی پر دار ومدار ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ 
ہر زبان کی کچھ نہ کچھ ایسی امتیازات وخصوصیات ہوتی ہیں،جو دوسری زبانوں میں نہیں ہوتیں۔ اسی طرح ہر زبان کا مزاج اور اسلوب بھی دوسری زبان سے مختلف ہوتاہے، بایں وجہ ترجمہ کا فن قدیم ہونے کے باوجود اس کے کوئی مقررہ اصول وضع نہیں کیے جا سکے ہیں۔ تاہم چند ایسے گُر ہیں جن کا اگر ترجمہ کرتے وقت خیال رکھا جائے؛ تو ترجمہ کرنا آسان ہوسکتا ہے اور وہ درج ذیل ہیں: 
(۱)جس زبان سے ترجمہ کیا جائے ، پہلے اس زبان کا ادب ، ادبی روایات اور روز مرہ استعمال ہونے والے امثال ومحاورات سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرلی جائے۔ 
(۲)جس موضوع اور فن کا ترجمہ کیا جائے، اس موضوع کے حوالے سے مکمل معلومات اور اس فن میں اچھی خاصی مہارت پیدا کرلی جائے۔ 
(۳)ترجمے میں اپنی زبان کی نزاکت اور مزاج کو قائم رکھنا بھی ضروری ہوتاہے، اس لیے مترادفات اور محاورات میں سے وہ الفاظ اور محاورے استعمال کیے جائیں،جو مضمون کے مناسب اور موقع استعمال پر مکمل طور پر فٹ ہوجائیں۔ 
(۴)محاورات واصطلاحات کے ترجمے کے وقت اگردوسری زبان میں ان کا متبادل موجود ہو؛ تو فبہا، ورنہ ان کے لیے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جائے جو سہل اور عام فہم ہوں۔ 
(۵)ترجمہ کرتے وقت سب سے پہلے جملے کی ساخت پر خوب غور وخوض کیا جائے ، اور اس کے اجزائے ترکیبی کو مکمل گرفت میں لے لیا جائے۔ چوں کہ ہر زبان کے جملوں کی بناوٹ مختلف ہوتی ہے، اس لیے اس زبان کے اجزائے کلام کی ترتیب کے مطابق ترجمہ کیا جائے، مثلاً : اردو کے جملوں میں اجزائے ترکیبی اس طرح ہوتے ہیں: (۱)فاعل (۲)مفعول (متعلقات فعل)(۳)فعل (۴)فعل امدادی،جیسے: 
عارف
ایک خط 
گھر
بھیج
دے گا
فاعل
مفعول
متعلقات فعل
فعل
فعل امدادی
جب کہ عربی میں سب سے پہلے فعل ، پھر فاعل ، اس کے بعد مفعول اور متعلقات فعل ہوا کرتے ہیں، جیسے: 
یقرأ
حامدٌ
کتاباً 
منذ یوم الجمعۃ
فعل 
فاعل
مفعول
متعلقات فعل
اسی طرح اردو اور عربی دونوں کے بر خلاف انگریزی میں اجزائے کلام کی ترتیب اس طرح ہوتی ہے: (۱)فاعل (۲)امدادی فعل (۳)فعل (۴)مفعول۔ جیسے: 
ABOOK
READING
IS
KHALID
مفعول
فعل(حال)
امدادی فعل
فاعل
لہذا عربی اور انگریزی کے مذکورہ بالا دونوں جملے کا اردو میں ترجمہ، ان دونوں کے اجزائے کلام کی ترتیب کے مطابق اس طرح نہیں کیا جائے گا کہ پڑھ رہاہے حامد ایک کتاب جمعہ کے دن سے۔ (عربی کا) اور خالد ہے پڑھ رہا ایک کتاب۔ (انگریزی کا)؛ بلکہ ان دونوں جملوں کا اردو کے اجزائے کلام کی ترتیب کے موافق اس طرح ترجمہ کیا جائے گا: حامدجمعے کے دن سے ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ اور خالد ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ اسی طرح اردو کا دوسری زبان میں ترجمہ کرتے وقت اس زبان کے اجزائے کلام کی ترتیب کا لحاظ رکھا جائے گا۔ 
(۶)صلہ جاتوں کا ترجمہ وہیں کیا جائے گا؛ جہاں زبان ان کا متقاضی ہو، اور جہاں زبان ان کا متقاضی نہ ہو؛ وہاں ان کا ترجمہ نہیں کیا جائے گا، جیسے: عربی میں بولا جاتاہے: ذہبتُ الیٰ المحطۃاس میں ’ذہب‘ فعل کا صلہ’الیٰ‘ہے، جس کے معنی: تک، طرف کے ہیں۔چوں کہ اردوزبان یہاں اس کے ترجمے کا متقاضی نہیں ہے، اس لیے’میں اسٹیشن کی طرف گیا‘ ترجمہ نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ یہ کیا جائے گا کہ : ’میں اسٹیشن گیا‘ ۔ 
اسی طرح انگریزی کا ایک جملہ ہے:’’ There was a king‘‘ اس کا اردو زبان کے مزاج سے ہم آہنگ ترجمہ ہوگا: ’’ایک بادشاہ تھا‘‘۔ یہ نہیں ہوگا کہ:’’ یہاں ایک بادشاہ تھا‘‘ ؛ کیوں کہ انگریزی میں یہاں پر thereکا لفظ جملے کی تکمیل کے لیے مبتدا کی ضرورت کے پیش نظر تھا۔ اردو میں اس کی ضرورت نہیں، اس لیے اردو میں ترجمہ کرتے وقت ’’یہاں‘‘ کا لفظ شامل کرنا زائد بھی ہوگا اور بے محل بھی اور کلام کا مفہوم بھی تبدیل ہو جائے گا۔
(۷)ترجمہ کرنے کے دوران مفہوم کی مکمل وضاحت کے لیے بعض جگہ ایک آدھا لفظ کم کرنے یا بڑھا نے کی ضرورت پڑتی ہے؛کیوں کہ ایک زبان کے طرز بیان میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں ، جن کا استعمال اس میں ناگزیر ہوتا ہے ،جب کہ وہ دوسری زبان کے لیے قطعی غیر ضروری؛ اس لیے ایسی صورت میں دونوں زبانوں کے مزاجوں اور جملوں کی ساخت میں مماثلت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے الفاظ کو گھٹانے بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ 
(۸)ترجمے میں وہی اسلوب اور طرز بیان اپنانا ضروری ہے جو اصل زبان میں ہے، مثلا: اخبار کے ترجمے میں اخباری زبان واسلوب اور ادبی مضامین کے ترجمے میں ادیبانہ اسلوب اختیار کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اصل زبان میں پائے جانے والے جذبات کی پوری پوری عکاسی کرنا بھی ناگزیر ہے۔ 
(۹)ترجمے والی زبان میں الفاظ کی ترتیب کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ کبھی ایسا ہوتاہے کہ جملے کے ہر ہر جز کا ترجمہ تو صحیح ہوتاہے، لیکن الفاظ کی ترتیب میں الٹ پھیر ہونے کی وجہ سے جملے کا مفہوم ہی بدل جاتاہے، جیسے: ’حامد پڑھ رہاہے‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے؛ تو ترجمہ ہوگا: Hamid is reading. لیکن اس کی ترتیب بدل دی جائے ، مثلایوں کردیاجائے کہIs Hamid reading? تو اگرچہ اردو جملے کے ہرہر جز کا ترجمہ ہوگیا، لیکن ترتیب بدل دینے کی وجہ سے سادہ جملہ استفہامیہ جملہ میں تبدیل گیا، اور اس کا مفہوم بدل کر یہ ہوگیا کہ ’’کیا حامد پڑھ رہا ہے؟۔ 
(۱۰)کبھی کبھی ترجمے والی زبان سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جملہ اسمیہ کا جملہ فعلیہ سے ، جملہ فعلیہ کا جملہ اسمیہ سے ، فعل لازم کا فعل متعدی سے، فعل متعدی کا فعل لازم سے ، معروف کا مجہول سے ، مجہول کا معروف سے اور صلہ وموصول کا اسم فاعل سے ترجمہ کیا جاتاہے ، جیسے: عربی جملوں کے ترجمے میں :
(۱)انما المرء بأصغریہ: قلبہ ولسانہ:آدمی اپنی دو چھوٹی چیزوں: دل اور زبان سے پہچان لیا جاتاہے۔ (۲)تنقسم الکلمۃ الیٰ ثلاثۃ اقسامٍ:اسم،وفعل، وحرفٍ:کلمے کی تین قسمیں ہیں: اسم، فعل اور حرف ۔ (۳)انتقل الرجل الذی کان ہنا امس ، الیٰ دلہی:کل یہاں موجود شخص دہلی چلا گیا۔ پہلی مثال میں جملہ اسمیہ کا جملہ فعلیہ سے ، دوسری مثال میں جملہ فعلیہ کا جملہ اسمیہ سے اور تیسری مثال میں صلہ موصول کا اسم فاعل سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
(۱۱)ترجمہ مکمل کرنے کے بعد ترجمہ اور اصل مضمون دونوں کو باربار پڑھنا چاہیے، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اصل مدعا ادا ہورہاہے یا نہیں ۔ اگر نہیں ہورہاہے، تو الفاظ کی تراش خراش کر کے اس خامی کو دور کیا جائے، اور اصل کے مطابق بنایاجائے۔ 
(۱۲)ترجمہ میں وہی الفاظ لکھے جائیں ، جن کے معنی ومفہوم سے اچھی طرح واقفیت ہو۔ اگر کسی لفظ کے معنی ومفہوم میں ذرابھی شک وتردد ہو؛ تو فوراً لغت کا سہارا لیا جائے، سستی وکاہلی کی وجہ سے اس کولغت دیکھے بغیر نہ لکھ دیا جائے۔کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں جو معنی ہے ،وہ نہ ہو ،اور ترجمہ کچھ کا کچھ ہوجائے۔ 
ترجمے کی اقسام
یوں تو ترجمے کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں؛ لیکن مجموعی تأثر کے لحاظ سے اس کی تین قسمیں ہیں: لفظی ترجمہ ۔ بامحاورہ ترجمہ۔ آزاد ترجمہ۔ 
لفظی ترجمہ : اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر ہر لفظ کا ترجمہ کیا جائے اور اصل زبان کے الفاظ سے ترجمے کی زبان کے الفاظ کو قریب سے قریب تر رکھا جائے؛ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ جملہ بے ربط اور زبان وبیان کا خون نہ ہونے پائے، بلکہ اس میں دل کشی اور شگفتگی برقرار رہے۔ 
بامحاورہ ترجمہ:اس سے مراد یہ ہے کہ ایک زبان میں مستعمل محاوروں کا دوسری زبان کے محاوروں سے ترجمہ کیا جائے۔ بہ الفاظ مختصر محاورے کا محاورے سے ترجمہ کیا جائے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ محاورے برمحل واقع ہوتے ہوں اور مفہوم میں کسی تبدیلی کے بغیر ترجمہ فصیح اور زبان کا مزاج وانداز دونوں برقرار رہتے ہوں، گویا ایسا معلوم ہوکہ یہ ترجمہ نہیں؛بلکہ خود اسی زبان کامضمون ہے، جیسے: عربی کا ایک محاورہ ہے: ’جعل الحبۃ قبۃً‘ اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہوگا کہ ’اس نے دانے کو گنبد بنادیا‘؛ لیکن اس کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہوگا کہ ’اس نے رائی کے دانے کو پہاڑ بنادیا‘۔ اسی طرح انگریزی کا ایک جملہ ہے:: Mend Your Ways اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہوگا کہ ’’اپنا راستہ درست کرو‘‘ جب کہ اس کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’اپنی چال چلن ٹھیک کرو‘‘ ۔ 
بامحاورہ ترجمہ کرنے میں کبھی یہ مشکل در پیش ہوتی ہے کہ دوسری زبان میں اس کا متبادل محاورہ نہیں ملتا، کیوں کہ ہر محاورے کا اپنا ایک سماجی، تاریخی اور تہذیبی پس منظرہوتا ہے اور اسی کے مشابہ واقعہ میں استعمال ہوتاہے، ہر جگہ استعمال نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اصل مفہوم کو اس طرح بیان کیا جاتاہے کہ وہ محاورے کی پوری لطافت اپنے اندر سمیٹ لے۔ 
آزادترجمہ:اس میں صرف مرکزی خیال اور مفہوم کو منتقل کیا جاتاہے ۔ آزاد ترجمہ نگار متن کے الفاظ کے پیچ وخم میں الجھے بغیر صرف مفہوم کو اپنی زبان اور اپنے الفاظ میں بیان کردیتاہے؛ لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مصنف کے انداز واسلوب کو کسی حدتک برقرار رکھا جائے اور اس کے احساسات وجذ بات کی کما حقہ ترجمانی کی جائے۔ اگر ترجمہ نگاری کے وقت ان تینوں قسموں میں سے کسی قسم میں ترجمہ کرنے کے دوران اس کی شرط پوری کی جائے، تو ان شاء اللہ وہ کامیاب ترجمہ ہوگا۔ 
فیچر 
فیچرمضمون کی ہی ایک قسم ہے ۔ البتہ دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مضمون تازہ اور تحقیقی مواد پر مشتمل ہوتاہے ، جب کہ فیچر میں اس کے مقابلے میں کچھ سطحیت ہوتی ہے ۔نیز یہ مضمون کی بہ نسبت آسان اور مختصر ہوتاہے۔ اس کی کئی قسمیں ہیں، جیسے:تفریحی فیچر،تاریخی فیچر،مقامی فیچر،پریکٹیکل فیچر،سائنسی فیچر،طبی فیچروغیرہ ۔ 
رودادنگاری 
کسی خبر ، کسی واقعہ یا کسی نوعیت کے مشاہدے وتجربے یا حادثات کی رپورٹ پیش کرنے کو ’روداد نگاری‘ کہا جاتاہے۔ اس کے تین طریقے ہیں: 
(۱)مساواتی روداد نگاری: اس میں واقعہ بلا کم وکاست اور من وعن بیا ن کیا جاتاہے۔اس میں تفصیل سے کام لیا جاتاہے اورنہ اختصار سے ۔ 
(۲)مختصر رودادنگاری: اس میں اختصار سے کام لیا جاتاہے ، اور واقعے کی صرف بنیادی اور اہم باتوں کا تذکرہ کیا جاتاہے۔ 
(۳)توضیحی رودادنگاری: اس میں واقعے کی معمولی سی معمولی باتوں کو نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتاہے او ر کبھی واقعے کے پس منظر کی بھی وضاحت کردی جاتی ہے۔ 
روداد نگار موقع اور محل کی مناسبت سے ان تینوں طریقوں میں سے کسی طریقے کے مطابق روداد نگاری کرسکتاہے۔ آج کل پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں میں یہ سب طریقے رائج ہیں۔ 
روداد نگاری کی مختلف قسمیں ہیں، جیسے: جرائم کی روداد نگاری،اجلاس کی روداد نگاری،حادثات کی روداد نگاری، کھیل کود کی روداد نگاری ،سماجی تقاریب کی روداد نگاری،جدیدانکشافات کی روداد نگاری ،تعلمیے روداد نگاری، زرعی روداد نگاری ،قانونی روداد نگاری وغیرہ ۔رودادنگاری میں مہارت پیدا کرنے کے لیے جلسے جلوس میں شرکت اور اخبار کا پابندی سے مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کے انداز واسلوب سے استفادہ کرنا چاہیے۔ 
نثر کی اور بھی اصناف ہیں،جو اردو میں مستعمل ہیں، لیکن طوالت کے خوف سے ان سے صرف نظر کی جاتی ہے، کیو ں کہ ایک مبتدی کے لیے انھیں اصناف سے واقفیت حاصل کرلینا کافی ہے۔

مقالہ نگاری کے چند رہ نما اصول


قسط نمبر (16) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
مقالہ نگاری کے چند رہ نما اصول 
افہام و تفہیم اور اظہار ما فی الضمیرکے دو طریقے ہیں : تحریر اور تقریر ۔ تقریر وقتی اور غیر پائدار ہوتی ہے، جب کہ تحریر دیر پااور ہمیشہ رہنے والی چیز ہے۔ تقریر کا اثر و رسوخ محدود اور مختصر ہوتاہے ، جب کہ تحریر کادائرۂ اثر بہت وسیع اور حلقۂ تاثیر نہایت کشادہ ہے ۔ تقریر میں کم مطالعہ سے بھی کام چل جاتا ہے، جب کہ تحریر مطالعہ میں وسعت چاہتی ہے۔ تقریر کسی جوش و جذبے کی پیداوار ہوتی ہے ، جب کہ تحریر نہایت عرق ریزی سے کیا ہوا مطالعے کا نچوڑ اور عقل وفکر کی کاوش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس لیے تحریر کے لیے مطالعہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، لہذا مطالعے میں جتنی گہرائی و گیرائی ہوگی ، تحریر بھی اتنی ہی عمدہ اور معیاری ہوگی ۔
مطالعے کی اہمیت و افادیت اس درجہ مسلم ہے کہ اس حوالے سے کچھ لکھنے کی چند اں ضرورت نہیں ہے ، کیوں کہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کسی بھی علم و فن کا دارومدارسراسر مطالعے پر ہے ۔اسی وجہ سے کہاگیا ہے کہ’’مطالعہ روح علم کے لیے غذا کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔ 
’’مطالعے کی اہمیت و افادیت ہمیشہ اور ہر دور میں مسلم رہی ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی نقطۂ نظر یا مدرسۂ فکر کو کوئی اختلاف نہیں ، بلکہ مطالعہ ہی سے نقطہ ہائے نظر اور مدارس فکر کی شناخت ہوتی ہے ۔ اور مطالعہ ہی کی مدد سے ان کے روشن یا تاریک پہلو سامنے آتے ہیں ۔سماج یا معاشرہ کی تعمیر و تطہیر میں مطالعہ کا بڑا اہم اور واضح رول ہوتا ہے ۔دنیا کی تمام مخلوقات میں انسان کے شرف و تفوق کی بنیاد علم پر ہے، اور علم صرف مطالعہ ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس صورت میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مطالعہ انسا نی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ، اور مطالعہ کے بغیر انسان اپنی اس منزل کو نہیں پا سکتا ، جس کے لیے خالق کائنات نے اس کی تخلیق فرمائی ہے ۔بعض دانش وروں کے نزدیک جو اہمیت انسانی زندگی کے لیے پانی ، ہوا اور غذا کی ہے ، وہی اہمیت مطالعے کی بھی ہے۔ اس لیے کہ پانی ،ہوا اور غذا سے جسم انسانی کو نشو و نما ملتی ہے، اور مطالعہ سے ذہن و فکر میں گیرائی و بالیدگی اور روح میں تازگی و روشنی پیدا ہوتی ہے ‘‘ 
(میرا مطالعہ،ص؍۷)
’’ بصیرت و استدلال کو جلا دینے کا ایک اہم وسیلہ مطالعہ ہے۔ انسان مطالعہ کرتا ہے ، تو اپنی جستجو کی تسکین بھی کرتا ہے ۔وہ بہتر سے بہتر کی تلاش کرتا ہے ، اور زندگی کے زیادہ روشن راستوں پر گامزن ہوتا ہے ‘‘ ۔ (ایضا،ص؍۱۳۲)
ذیل میں مطالعہ کرنے اور مقالہ لکھنے کے چندزریں اصول لکھے جاتے ہیں ، انھیں بغور پڑھیں ، اور ذہن میں محفوظ کر لیں ۔
(۱)مطالعہ کے لیے سب سے بنیادی چیز کتاب کا انتخاب ہے۔ آج کل طباعت کی سہولت کی وجہ سے بری بھلی اور مفید و مضر ہر طرح کی کتابیں اور رسائل شائع ہو رہے ہیں ، اس لیے کتاب کا انتخاب نہایت نازک مسئلہ بن گیا ہے، لہذا اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ آپ ایسے مربی اور اساتذہ سے مشورہ لیں ، جو مطالعے کا ذوق اور انتخاب کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اور مشیر ومربی کو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ طلبہ کے ذوق اور ان کی دل چسپیوں کو پیش نظر رکھ کر کسی فن یا موضوع کو منتخب کریں ۔
(۲) اگر آپ خود بالغ نظر ہیں اور صحیح غلط اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، تواپنے ذوق و میلان اور ذاتی دل چسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی کتاب کا انتخاب کریں ، جو اچھے اور اچھوتے مضامین پر مشتمل ہو، اور کسی بڑے ادیب کی لکھی ہوئی کوئی ادبی کتاب ہو ۔ یاد رکھیے کہ ہر کتاب قابل مطالعہ اور مقالہ نگاری سیکھنے کے لیے لائق استفادہ نہیں ہوتی ۔ اس لیے اس سلسلے میں کسی قلم کار یااپنے استاذ سے مشورہ لے لینا ہی بہتر ہے، اور ان کے مشورے پر عمل کرناہی زیادہ کا ر آمد ہے۔
’’مطالعہ اتنا آسان نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے بغیر کسی ترتیب کے پڑھنا شروع کر دے۔ یہ دودھاری تلوار ہے۔ اگر اس کا صحیح استعمال نہ ہوا ، تو وہ نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ یہ ایک پل صراط ہے ، اس پر بہت سبک روی اور بہت احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے اپنے اساتذہ سے مشورہ کیجیے‘‘۔ (پاجا سراغ زندگی،ص؍۸۵)۔ 
(۳)مطالعہ کرنے کا مفید طریقہ یہ ہے کہ عبارت کو نہایت توجہ اور دل جمعی کے ساتھ پڑھی جائے ، اور دوران مطالعہ نظر سے گذرنے والے ہر لفظ پر خوب غور و فکر کیا جائے ۔عبارت کو مکمل گرفت میں لینا اور جملے کا پورا پورا مفہوم اخذ کرنا ایک کامیاب اور مفید مطالعے کے لیے ضروری ہے۔
کیفیت کے بجائے کمیت میں مطالعہ چنداں مفید نہیں، یعنی صرف صفحات کی تعداد بڑھانے کو مطالعہ سمجھنا ، اور کیفیتِ مطالعہ کو پیش نظر نہ رکھنا ، مطالعہ کے ساتھ ناانصافی ہے ، کیوں کہ صرف سرسری نگاہ دوڑ انے اور صفحات کی تعداد بڑھانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔اس لیے کمیت میں خواہ ایک ہی صفحہ کیوں نہ ہو، لیکن مطالعہ مذکور ہ بالا کیفیت کے ساتھ ہی ہونا چاہیے ، ورنہ صرف وقت ضائع کرنے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔
(۴) مطالعہ کے دوران جو جو اچھی تعبیرات اور مفید باتیں نظر سے گذریں ،ان سب کو ایک کاپی میں نقل کرتے جائیں ،اور ساتھ ہی انھیں ذہن میں بھی محفوظ کرتے چلیں ۔( اس طرح سے آپ کے پاس الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہو جائے گا )۔ایسا نہ کریں کہ کاپی میں نقل کر لینے کے بعد انھیں طاق نسیان میں رکھ دیں اور نقل بے سود ہو جائے۔
’’کار آمد مطالعہ کے لیے ضروری ہے کہ جو بھی اہم کام کی بات یاد رکھنے کے قابل بات، ہمیں دورانِ مطالعہ معلوم ہو، ا سے کاپی یا کسی کاغذ کے پرزے پر ہی نوٹ کر لیں ، کیوں کہ انسانی حافظے کے چاہے وہ کتنا ہی قوی ہو، اپنے حدود ہوتے ہیں‘‘۔ (میرا مطالعہ،ص؍۱۶۰)۔
(۵) اس خیال سے یادکرناترک نہ کریں کہ یادکیاہوابھول جائیں گے، اس لیے جب ضرورت پڑے گی، کاپی سے نقل کر لیں گے؛ کیوں کہ
’’کہتے ہیں کہ کوئی پڑھی ہوئی چیز خواہ بھلادی جائے ،بے کارو بے اثر نہیں رہتی ، اپنا اچھا بر اثر ضرور کرتی ہے‘۔‘ (میری علمی و مطالعاتی زندگی،ص۱۲)۔
(۶)ان تعبیرات کو اپنی تحریر اور روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کرنے کی کوشش کریں، تاکہ وہ زبانِ قلم اور زبانِ لحم دونوں پر رواں دواں ہو جائیں ، اور ان کو صحیح مقام پر برتنے کا ڈھنگ بھی آ جائے۔
(۷) دورانِ مطالعہ جب کوئی بات اول وہلہ میں سمجھ میں نہ آئے ،تو اس پر باربار غور و فکر کریں۔اگر اس کے باوجود سمجھ میں نہ آئے ، تو اس کو چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں ( تاکہ آپ کا غوروفکر میں مزید وقت ضائع نہ ہو) کیوں کہ کبھی ایسا ہوگا کہ آگے کے مطالعے سے خود بخود سمجھ میں آ جائے گا؛ لیکن اگر خود بخود سمجھ میں نہ آئے، تو پھر کسی اہل علم سے رجوع کریں ، اور اس مسئلے کو سمجھے بغیر نہ چھوڑیں ۔
(۸) جب آپ ایک عنوان مکمل کر لیں ،توکتاب بند کر کے اس کے مفہوم پر غور و فکر کریں ، پھر اسے اپنے الفاظ میں اختصار کے ساتھ دہرائیں۔ اگر یہ اعادہ بہ آ واز بلند ہو، تو زیادہ بہتر ہے ۔
(۹) مذکورہ بالا مراحل طے کر لینے کے بعد اب کاپی اور قلم لے کر بیٹھ جائیں اور ذہن کے نہا خانہ میں محفوظ مواد و میٹر کو اپنی بے تکلف اور سادہ زبان میں صفحۂ کا غذ پر منتقل کریں ،انھیں اپنے الفاظ میں ڈھالیں ۔ اس سلسلے میں تکلف، بناوٹ اور عبارت آرائی سے پر ہیز کریں اور فطری طور پر لکھنے کی کوشش کریں ، اگر ہو سکے تو اس پر ذاتی تأثر اور تبصرہ بھی لکھیں۔
(۱۰)بہتر ہے کہ پہلے مضمون کو اجزا میں تقسیم کر لیں،پھر ہر جز کو مناسب ترتیب کے مطابق لکھیں، مثلاًآپ کسی کی’’شادی کی تقریب‘‘پر لکھنا چاہتے ہیں،تو اس طرح اجزا نکالیں:(۱) تمہید(۲) گھر، سڑک اور شادی ہال کی آرائش وزیبائش(۳)بارات کی آمد(۴)دلہن کی رخصتی کے مناظر(۵)تقریب کا ذاتی تأثر۔پھر ان کو ان کے ترتیب وجودی کے مطابق لکھیں۔
(۱۱)ہر جز کو لکھنے کے وقت پیرا گراف بد لیں اور نئی سطر سے لکھیں،اور تمام اجزا کے درمیان ربط و تسلسل برقرار رکھیں۔ایسا محسوس نہ ہو کہ مختلف ’’تراشے‘‘جمع کر دیے گئے ہیں۔
(۱۲)مضمون لکھتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ موضوع کا کوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے،بلکہ تمام گوشوں کا احاطہ اور ہر گوشے کی مکمل وضاحت کریں۔
(۱۳)کبھی تو آپ فوراً لکھ لیں گے،اور ایسا محسوس کریں گے کہ آپ کے قلم میں روانی آگئی ہے؛لیکن کبھی ایسا بھی ہوگا کہ قلم کی روانی رک جائے گی اور بہت زیادہ غور وفکر کرنے کے بعد بھی کچھ سمجھ میں نہیں آئے گا،بس یہی سوچتے رہ جائیں گے کہ کیا لکھیں؟کس طرح شروع کریں؟لیکن اس کیفیت سے گھبرانے یا اکتاہٹ محسوس کرنے کی با لکل ضرورت نہیں ہے،کیوں کہ شروع شروع میں ہر نو آموز کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔اگر کبھی ایسا ہو؛تو لکھنا مؤخر کردیں،اور دل ودماغ تروتازہ ہونے کے بعد کسی دوسرے وقت میں اسے لکھنے کی کوشش کریں۔
(۱۴)اگر دوسرے وقت میں بھی بسیار کو شش کے باوجود اسی طرح کی کیفیت برقرار رہے ، تو ایسی صورت میں کتاب سامنے رکھ لیں ، اور اس کے مضمون کی تلخیص ، عنوان میں تبدیلی اور ترتیب وتنسیق میں ’’الٹ پھیر‘‘ اور ’’ہیرا پھیری‘‘ کرکے مقالہ تیار کریں۔اور یہ عمل اس وقت تک جاری رکھیں ؛ جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو جائے کہ آپ کتاب بند کر کے لکھ سکنے لگیں۔ 
’’دس بیس مضامین کے ساتھ ’’ہیرا پھیری‘‘ کا یہ عمل ، آپ کے قلم کو ایسا حوصلہ دے گا کہ آپ راہ نگارش پر آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ ‘‘ ۔ (حرف شیریں،ص؍۵۵)۔ 
(۱۵)کبھی ایسا بھی ہوگا کہ آغاز مضمون میں قلم خوب چلے گا؛ لیکن دوران مضمون یا اختتام میں ذہن و دماغ سے مواد عنقا ہوجائے گا اور بہت زیادہ سوچنے کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ کیا لکھیں؟ اور مضمون کس طرح پورا کریں؟ ایسی صورت میں کتاب کی طرف دوبارہ مراجعت کریں ، اور مضمون کو آگے بڑھائیں۔ 
(۱۶) اور کبھی ایسا بھی ہوگا کہ بعینہ مطالعہ کے الفاظ وتعبیرات نوک قلم پر آئیں گے، اور ان کے علاوہ کوئی لفظ یا تعبیر ذہن میں نہیں آئے گی۔ اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہو جائے ، تو اس سے کوئی حرج نہیں ، انھیں الفاظ و تعبیرات کے ساتھ مضمون مکمل کریں ۔ 
’’جو کچھ مطالعہ کیا جائے ، اس کو اپنی بے تکلف زبان میں لکھ لیا جائے، اگر مطالعہ کردہ کتاب یا مضمون کی عبارت کہیں بیچ میں آجائے، تو کوئی حرج نہیں اور نہ آئے تب بھی کوئی نقصان نہیں‘‘۔
(ایضا،ص؍۵۳) 
(۱۸)اس کے بعد مضمون کو ایک ’اصلاح کی کاپی‘ میں نقل کریں، نقل کے دوران بھی کچھ کانٹ چھانٹ کی ضرورت محسوس کریں، تو کانٹ چھانٹ کریں ۔ اوراگرنئی نئی باتیں ذہن میں آئیں ، تو انھیں بھی شامل مضمون کرلیں، اور نہایت صاف ستھرے اور خوش خط انداز میں لکھنے کے بعد اصلاح کے لیے پیش کریں۔ 
(۱۹) یاد رکھیں کہ تحریر سیکھنے کے لیے کسی استاذ کی رہ نمائی ضروری ہے،کیوں کہ کوئی بھی فن سیکھنے کے لیے تجربہ کار، صاحب نظر اور پختہ کار ماہر فن سے رجوع کرنا ناگزیر ہے، اگر کو ئی بغیر کسی استاذ کی رہ نمائی کے سیکھ بھی لیتا ہے، تو اس کا نقصان یہ ہو تاہے کہ جو غلطیاں اس کے اندر ہوتی ہیں ، وہ کبھی دور نہیں ہوپاتیں، بلکہ اورپر وان چڑھ جاتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ غلطیوں کی اصلاح تو اس وقت ممکن ہے جب کہ غلطیوں کا احساس ہو، اور غلطیوں کا احساس بغیر کسی کے احساس دلائے ممکن نہیں، اور احساس دلانے والے ہی کانام استاذ ہے۔اس لیے تحریر سیکھنے کے لیے کسی ایسے استاذ کو رہ نما اور مصلح بنائیں، جو اسلام کے صحیح فکر کے حامل ہوں، تقویٰ وطہارت کے صفات سے متصف ہوں، مطالعہ کا ذوق رکھتے ہوں ، میدان قلم کے شہسوار ہوں، خیر خواہ اور تجربہ کا رہوں،آفاقی ذہن کے مالک ہوں اورر جال کاری کی بھرپور صلاحیت ان کے اندر موجود ہو۔
(۲۰)اصلاح میں کبھی تو ایسا ہوگا کہ استاذ کہیں چھوٹی اور کہیں بڑی عبارتیں قلم زد کردیں گے ، اور ان کی جگہ کہیں کچھ لکھیں گے اور کہیں نہیں بھی لکھیں گے ۔ اور کبھی ایسا ہوگا کہ جو حصہ آپ نے نہایت عرق ریزی سے لکھا ہوگا اور وہ آپ کے نزدیک سب سے پسندیدہ ہوگا ، وہی حصہ کاٹ دیں گے۔ بسا اوقات اس سے آپ ناگواری بھی محسوس کریں گے؛ لیکن اس سے شکستہ دل ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ، کیوں کہ جب آپ اس فن میں مہارت پیدا کرلیں گے ، اور اپنے ان ابتدائی مضامین کو دیکھیں گے، تو معلوم ہوگا کہ استاذ کی کاٹ چھانٹ بالکل بر محل تھی ، بلکہ آپ خود اپنے طور پر تراش خراش کی ضرورت محسوس کریں گے۔ 
(۲۱)کوئی بھی فن یا زبان سیکھنے کے صرف دوطریقے ہیں ، اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں: (۱)بنیادی قواعد سے واقفیت (مطالعہ بھی اسی میں شامل ہے) ۔(۲) مشق و تمرین۔
مطالعے کے بارے میں آپ کو معلوم ہی ہوگیا کہ وہ تحریر سیکھنے کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے؛ لیکن مشق اس سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے،کیوں کہ تجربہ شاہد ہے کہ بہت سے لوگ جو قواعدمیں بہت زیادہ ماہر ہوتے ہیں ، لیکن مشق نہ کرنے کی وجہ سے عملی سطح پر بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں، اور بہت سے لوگ جو قواعد سے کم ہی واقف ہوتے ہیں، لیکن مشق وتمرین کی بدولت ان سے بہتر لکھتے اور بولتے ہیں۔ 
اس لیے مطالعہ تو لازمی طورپر روز بلا ناغہ کریں، اور ممکن ہوتو ایک معین مقدار روزانہ لکھنے کی کوشش کریں ۔ اگر ہر روز ممکن نہ ہو، تو ہفتہ میں کم سے کم ایک مضمون ضرور لکھیں، اور اس سے زیادہ تاخیر نہ کریں، کیوں کہ آپ جتنے فاصلے سے مضمون لکھیں گے ، تعلم کا زمانہ بھی اتنا ہی دراز ہوتا چلا جائے گا، مزید برآں کبھی کبھار لکھنے سے فکر میں انجماد اور تعطل پیدا ہوجاتا ہے اور قلم میں خشکی جڑ پکڑ لیتی ہے۔ 
(۲۲)لکھنے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیں، بلکہ جب بھی موقعہ ملے ، اور جیسا بھی عنوان ہاتھ آئے ، اس پر ضرورلکھیں ،اس سے آپ کی تحریر سدھرے گی،اس میں نکھار پیدا ہوگاا ور آپ کی بصیرت کو جلا ملے گی۔ 
(۲۳)آخر میں یہ عرض کردینا مناسب سمجھتاہوں کہ آج کل نئے افسانوں اور جدید ناولوں کا مطالعہ انتہائی انہماک سے کیا جاتاہے، اور یہ سمجھا جاتاہے کہ ان سے بھی ادب آتی ہے، اور معلومات میں اضافہ ہوتاہے،ان باتوں سے یک قلم انکار تو نہیں کیا جاسکتا ،تاہم پریشانی کی بات یہ ہے کہ آج کل کے اکثر افسانیں اور ناولیں فحش ، گندے اور مخرب اخلاق ہوتے ہیں۔ نیز ان کے مطالعے سے معلومات کم اور وقت زیادہ ضائع ہوتاہے، اور ان میں سے اکثر معیاری ادب کے بھی نہیں ہوتے، اس لیے اس سے زیادہ بہتر تویہ ہے کہ کسی دینی اور ادبی رسائل وجرائد کا مطالعہ کیا جائے ، یاسیرت کی کتابوں کو پڑھا جائے۔اور اگر افسانوں کو پڑھے بغیر چین نہ آئے، تو پھر پرانے ادیبوں کی لکھی ہوئی داستانوں اورافسانوں کا مطالعہ کیا جائے ۔جن سے معلومات بھی زیادہ حاصل ہوں گی، اور ادبی سرمایہ بھی زیادہ ہاتھ آئے گا؛ لیکن خیال رہے کہ صرف تفریحی ادب کا مطالعہ بھی نقصان دہ ہے۔ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ رقمطراز ہیں کہ :
’’محض تفریحی ادب کے مطالعے سے ذہن میں سطحیت ، علم اور فکر میں بے مغزی اور معلومات میں تہی مائیگی پیدا ہوتی ہے، اور ایسا آدمی کوئی وقیع اور مؤثر کام نہیں کرسکتا ، تفریحی ادب کا وہی حصہ ہونا چاہیے، جونمکیات وفواکہ کا ہوتا ہے‘‘ ۔ (میری علمی ومطالعاتی زندگی، ص؍۵۲)۔ 
معیاری مضمون کی پہچان
سابقہ باتوں کی روشنی میں جب آپ کچھ دنوں مشق کرلیں گے، تو آپ کو یہ خوش فہمی ستانے لگے گی کہ ’’میں اب معیاری مضمون لکھنے لگا ہوں‘‘؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی کاوش اور اپنی تخلیق سب سے اچھی معلوم ہوتی ہے، اس لیے صرف آپ کے اپنے مضمون کو معیاری سمجھ لینے سے وہ معیاری نہیں ہوجائے گا، جب تک کہ وہ ’’اصول معیار‘‘ پرپورے نہ اترے ۔ اس لیے ذیل میں اس حوالے سے چند باتیں درج کی جارہی ہیں، جن کی روشنی میں آپ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ کا مضمون معیاری ہے یانہیں ؟ 
مضمون میں تین چیزیں ہوتی ہیں: (۱)الفاظ (۲)معانی (۳)پیراےۂ بیان۔
(۱)الفاظ: مضمون ایسے فصیح وبلیغ الفاظ پر مشتمل ہونے چاہیے، جوعام فہم اور سہل ہوں ، متروک الاستعمال نہ ہوں ، نفس مطلوب کوبہ خوبی اداکررہے ہوں۔اور جس مقام پر وہ استعمال کیے جارہے ہوں، اس مقام پر مکمل طورپر منطبق ہورہے ہوں۔ 
یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ آج کل کے اردوادب میں قدیم زمانے کی طرح عربی وفارسی الفاظ کی کثرت اچھی نہیں سمجھی جاتی۔ اس لیے اس سے گریز کرنا چاہیے۔ 
(۲)معانی: معانی فرسودہ اور فلسفیانہ نہ ہوں، بلکہ مقتضائے حال کے مطابق نہایت لطیف، عمدہ اور سریع الفہم ہوں، اور جامع ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں ندرت اور بانکپن بھی پایا جاتاہو۔
(۳) پیراےۂ بیان: پیراےۂ بیان اس قدر دل کش، د ل نشیں اور مؤثر ہونا چاہیے کہ پڑھنے سے قاری کو لذت محسوس ہونے لگے اور اس کے دل ودماغ پر خوشگوار اثرمرتب کرے۔ 
مضمون میں یہ صفات وخصوصیات اس وقت پیداہوں گی جب کہ مضمون لکھتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے : 
(۱)ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں، جو معنی مقصود کو مکمل وضاحت کے ساتھ ادا کرسکیں، نیز جملے ادق اور گنجلک نہ ہوں۔اسی طرح مضمون بے شمار معترضہ جملے اور لاتعداد ضمائر (اِن ، اُن، اُس، اِس، اُنھوں، جنھوں، کنھوں وغیرہ) کے التباس سے پاک ہو۔ 
(۲)قواعد کی غلطیاں نہ ہوں اور معنی مطلوب کو ادا کرنے کے لیے مناسب الفاظ کے ساتھ ساتھ متواضعانہ اور مہذب طرز نگارش اختیار کیا گیا ہو۔ ایسا اسلوب اختیار نہ کیا گیا ہو جس سے غرور علمی کی بو آتی ہو۔
(۳)مضمون غیر ضروری کلام اور حشو وزوائد سے پاک ہو او ر متضاد ومشترک معانی رکھنے والے الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں۔ 
(۴)مضمون تصنع وتکلف سے خالی ہو۔ 
(۵)مضمون سہل اور شیریں الفاظ پر مشتمل ہو، اس میں بھونڈے، غیر مانوس اور متروک الاستعمال الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں۔ 
(۶)موضوع اور بیان کیے گئے مفاہیم میں پوری پوری مطابقت پائی جاتی ہواو ر اس کے تمام اجزا میں ربط وتسلسل بھی موجود ہو۔ 
(۷)شستہ وشائستہ الفاظ اور شان دار تعبیرات کے ذریعے نہایت لطیف اورانوکھے واچھوتے معانی بیان کیے گئے ہوں۔ 
(۸)اختصار وایجاز سے کام لیا گیا ہو اور غیر ضروری طوالت سے اجتناب کیا گیاہو، بشرطیکہ اختصار کی وجہ سے مفہوم میں کسی قسم کا الجھاؤ یا گنجلک پیدا نہ ہوا ہو او رنہ ہی کوئی اہم نکتہ بیان ہونے سے رہ گیا ہو ۔ 
مضمون کو ’’معیاری ‘‘ بنانے کے لیے ان خصوصیات کو پیدا کرناضروری ہے اور اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور پیہم مشق کی ضرورت ہے۔ 
نو آموزطلبہ میں پائی جانے والی چند غلطیوں کی نشان دہی اور ان کے ازالے کی تدبیریں
(۱)انتخاب کیا گیا موضوع سے انحراف یا اس کے بعض اجزا کوبھول جانا ،ایسی غلطی کرنے سے مضمون پائے معیار سے گر جاتاہے ۔ 
(۲)الفاظ اور معانی کی تکرار ، جن سے مضمون کی لذت وچاشنی اور شگفتگی جاتی رہتی ہے۔ 
(۳)علامت فاعل ، مطابقتِ فعل ، فاعل اور مفعول ، واحد جمع اور تذکیر وتانیث کی غلطیاں، جن سے مضمون بے معنی اور کرکرا ہوجاتاہے۔ 
(۴)لچر وپوچ اور غیر واضح اسلوب اور معنی مراد کی ادائیگی کے لیے غیر ضروری عبارتیں، جن سے مضمون پیچیدہ اور گنجلک ہوجاتاہے۔ 
(۵)تراکیب مہند کے استعمال میں غلطیاں ، جن سے مضمون کی وقعت ختم ہوجاتی ہے۔
(۶)اشعار ، ضرب الامثال اور اقتباسات کا غیر مناسب جگہوں پر استعمال، جن سے مضمون بد مزہ اور بدوضع ہوجاتاہے۔ 
(۷)املا کی غلطیاں ، ان سے مضمون کی قدرو قیمت گھٹ جاتی ہے۔ 
نوآموز طلبہ عموماً ان غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، اس لیے ذیل میں ہر ایک غلطی کے ازالے کی تدبیریں لکھی جاتی ہیں ۔انھیں انتہائی توجہ اور دھیان سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک شق ۔۱کی غلطی کا تعلق ہے ، تو موضوع کے حوالے سے تمام گوشوں پر غور وفکر کرنے کے بعد اس کے اجزا متعین کر کے لکھنے سے اس غلطی سے بچاجاسکتا ہے۔ اورشق ۔۲کی غلطیوں سے اس طور پر بچا جاسکتا ہے کہ بار بار آنے والے الفاظ کو دہرانے کے بجائے ان کی جگہ ضمیروں کا استعمال کیا جائے۔ اور معنوی تکرارسے بچنے کے لیے اجزاکو پیش نظر رکھا جائے۔ اور تیسری ، پانچویں اور ساتویں شقوں کی غلطیا ں دور کرنے کے لیے کتاب ہذا کے سابقہ مباحث کا باربار بغور مطالعہ کیاجائے۔ اور چوتھی وچھٹی شقوں کی خامیاں دور کرنے کے لیے بڑے بڑے ادیبوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے اور ان کے انداز نگارش کو اپنانے کی کوشش کی جائے۔ 
امید ہے کہ ان باتوں کو مد نظر رکھنے سے مذکورہ بالاغلطیوں پر قابو پایا جاسکے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔


اظہار خیال کے مختلف پیرایۂ بیان


قسط نمبر (15) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
اظہار خیال کے مختلف پیرایۂ بیان
اب تک جتنی باتیں لکھی گئیں ہیں، ان کا تعلق صرف لفظوں اور جملوں کی تراش خراش اور ان کی ظاہری بناوٹ وسجاوٹ سے تھا۔ اب ان میں لفظی ومعنوی خوبیاں پیدا کرنے کے حوالے سے اختصار کے ساتھ چند سطور لکھی جارہی ہیں ہیں۔
ایک عام انسان اپنے خیالات واحساسات کوبیان کرتا ہے،تو سیدھے سادے انداز میں بیان کردیتاہے؛ لیکن ایک شاعر یا ادیب اپنے خیالات و جذبات کوبیان کر تا ہے کہ مختلف پیراےۂ بیان میں انتہا ئی دل چسپ اور دل کش انداز میں بیان کرتاہے، جس کو پڑھ کر دل میں فرحت وسرور اور طبیعت میں شگفتگی پیدا ہوجاتی ہے، ایسے اسلوبِ بیان کو اصطلاح میں ’بلاغت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 
بلاغت کی تین قسمیں ہیں: (۱) بیان (۲) معانی (۳) بدیع۔
علم بیان
ایسا علم ہے جس میں تشبیہ ، مجاز اور کنایہ سے بحث کی جاتی ہے۔نیز اس میں ایک مضمون کو کئی طریقوں سے ادا کرنے کا ڈھنگ سکھایاجاتاہے، جیسے: یہ کہا جائے کہ میری محبوبہ خوب صورت ہے۔ اس کو یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ وہ چاند ہے۔اور اس انداز کو بھی اپنایا جاسکتا ہے کہ وہ مانند گلاب ہے۔
علم بیا ن کی ان اقسام کایہاں تعارف کرایا جاتاہے، جو اردو میں کثیر الاستعمال ہیں، اور جن کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر نہ تو ہم اردو کو صحیح ڈھنگ سے سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی لکھ سکتے ہیں ۔
(۱)تشبیہ : ایک چیز کو کسی دوسری چیز کے ساتھ ایک صفت یا اس سے زائد صفات میں مماثل اور مانند قرار دینا، ’تشبیہ ‘کہلاتا ہے، جیسے: ؂
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے 
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
اس شعر میں’لب‘کو’گلاب کی پنکھڑی‘ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ دونوں کی مشترکہ خصوصیت نزاکت ہے۔ تشبیہ کے پانچ اجزا ہوتے ہیں : 
(۱)مشبہ : جس کو تشبیہ دی جائے ، اس شعر میں ’لب‘ مشبہ ہے۔ 
(۲)مشبہ بہ : جس سے کسی چیز کو تشبیہ دی جائے ، اس میں ’گلاب کی پنکھڑی ‘ مشبہ بہ ہے ۔ 
(۳)وجہ شبہ : وہ خصوصیت ، جس کی وجہ سے تشبیہ دی جائے، اس میں ’نزاکت‘ وجہ شبہ ہے ۔ 
(۴)غرض تشبیہ:جس مقصد سے تشبیہ دی جائے ،یہاں غرض تشبیہ لب کی نزاکت کو بتلانا ہے ۔ 
(۵)حروف تشبیہ : وہ حروف جن کے ذریعہ مشابہت دکھائی جائے ، جیسے : اس شعر میں ’کی سی‘ حروف تشبیہ ہیں؛ لیکن بعض دفعہ حروف تشبیہ حذف بھی کردیے جاتے ہیں۔ اوردوسرے لفظوں کے ذریعے تشبیہ دکھائی جاتی ہے،جیسے: ؂
کھلنا کم کم کلی نے سیکھاہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے 
اس میں کلی کے آہستہ آہستہ کھلنے کو محبوب کی آنکھوں کی نیم خوابی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(۲)حقیقت :کسی لفظ کواگر اس کے اصلی اور لغوی معنی میں استعمال کیا جائے، تو اسے حقیقت کہیں گے، جیسے : ؂
اب لطف اسی میں ہے مزا ہے تو اسی میں 
آ اے میرے محبوب! ستانے کے لیے آ
اس شعر کے تمام الفاظ اپنے لغوی معنی میں مستعمل ہیں ۔ 
(۳)مجاز: کسی لفظ سے اس کے لغوی معنی کے علاوہ کوئی اور معنی مراد لیں، تو اسے مجاز کہا جاتا ہے، جیسے : ؂ 
میرے پہلو میں دل مضطر نہ تھا سیماب تھا 
ارتکاب جرم الفت کے لیے بیتاب تھا 
اس میں لفظ’سیماب ‘(پارہ)کا استعمال بطور مجاز ہواہے ۔ 
(۴)استعارہ:کسی لفظ کے حقیقی معنی کو چھوڑکر مجازی معنی میں استعمال کرنا’استعارہ‘ کہلاتاہے؛ لیکن معنی حقیقی اور معنی مجازی میں تشبیہ کا تعلق ہونا ضروری ہے ، جیسے: ؂ 
اقرار ہے صاف آپ کے انکار سے ظاہر
ہے مستی شب نرگس مے خوار سے ظاہر
اس میں آنکھ کے لیے نرگس کا استعارہ کیا گیا ہے اور نرگس اور آنکھ میں تشبیہ کا تعلق ہے ۔
استعارے میں مشبہ کو مستعار لہ اور مشبہ بہ کو مستعار منہ کہتے ہیں اور وجہ شبہ وجہ جامع کہلاتی ہے ۔ 
(۵)مجاز مرسل: کسی لفظ کو حقیقی معنی کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کرنامجازمرسل کہلاتا ہے ، لیکن حقیقی و مجازی معنوں میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور تعلق ہوناچاہیے، جیسے: ؂ 
غضب آنکھیں ،ستم ابرو ،عجب منھ کی صفائی ہے
خدانے اپنے ہاتھوں سے تیری صورت بنائی ہے 
اس میں لفظ’ہاتھوں‘کو مجازی معنی طاقت و قدرت میں استعمال کیا گیا ہے ، اور دونوں معنی میں تشبیہ کا تعلق نہیں ہے ، بلکہ سببیت کا ہے ۔
(۶)مجاز عقلی : فعل یا معنی فعل کی نسبت ،حقیقی معنی کو چھوڑ کر کسی مناسبت کی وجہ سے دوسرے معنی کی طرف کرنا، ’مجاز عقلی‘کہلاتا ہے ، جیسے : ؂ 
خود ساقی کوثر نے رکھی مے خانے کی بنیاد یہاں 
تاریخ مرتب کرتی ہے دیوانوں کی روداد یہاں 
اس میں مے خانے (دارالعلو م )کی بنیاد رکھنے (فعل)کی نسبت ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب مجاز کے طور پر کیا گیاہے ۔
(۷)کنایہ: لغت میں کنایہ پوشیدہ بات کو کہتے ہیں۔ اوراصطلاح میں اس سے مراد یہ ہے کہ کلام میں الفاظ حقیقی ولغوی معنی میں استعمال نہ کیے گئے ہوں، بلکہ ان سے غیر حقیقی اور مجازی معنی مراد لیے گئے ہوں، لیکن لغوی معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہوں، جیسے: ؂ 
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی 
کلمہ پڑھتے تھے ہم، چھاؤں میں تلواروں کی 
اس شعرمیں ’’چھاؤں میں تلوار کی‘‘ سے حقیقی معنی بھی مراد لیے جا سکتے ہیں، لیکن یہاں اس کے مجازی معنی مراد ہیں۔
(۸)تعریض : یہ کنایہ کی ہی ایک قسم ہے ،جس میں موصوف کاذکر نہیں ہوتا ، لیکن اشارہ کے طور پر موصوف کی ذات مراد لی جاتی ہے، جیسے : ع
ہے دوست وہ ، جو دوست کی خاطر جلائے دل
اگر چہ اس شعر میں دوست کا نام نہیں ہے لیکن شاعر یہ تعریض کر رہا ہے کہ دوست !تم حقیقی دوست نہیں ہو۔ 
(۹)محاورہ: دو یادوسے زیادہ لفظوں کا وہ مجموعہ ہے ، جو اپنے معنی حقیقی سے مل کر معنی مجازی میں بولا جاتاہے ،جیسے : بال بیکا کرنا : نقصان پہچانا ، آب و دانہ اٹھنا : موت آنا۔
(۱۰)ضرب الامثال: ایسے جملے کو کہا جاتاہے، جس کا لفظی معنی کچھ اور ہو اور مطلب کچھ اور ہو ، جیسے: گھر کی مرغی دال برابر ۔ اس کامطلب ہے کہ گھر کی چیزوں کی قدر کم ہوتی ہے ، اس کو ’کہاوت‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ ضرب الامثال میں تغیر جائز نہیں ہے ۔اسے اس کے پس منظر کے مشابہ واقعہ میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
علم معانی 
علم معانی سے مراد وہ علم ہوتا ہے جس میں مقتضائے حال (موقع ومحل)اور مخاطب کی حالت کے اعتبار سے کلام کرنے کے طریقے بیان کیے جاتے ہیں، مثلاً: مخاطب کو جو بات آپ کہنا چاہتے ہیں ۔اگر وہ اس سے بالکل ناواقف ہے، تو اس موقع پر کلام کو بغیر کسی تاکید کے لایاجائے گا ۔ اور اگر مخاطب کو اس میں شک وشبہ ہورہا ہے، تواس موقع پر کلام میں تاکید ی الفاظ لاناہوگا، اور اگر مخاطب سرے سے آپ کی بات کا انکار کررہا ہے،تو اس موقع پر مؤکد کلام کرنا ضروری ہے ۔ موقع اور مقتضائے حال کے مطابق کلام کرنے کی تین صورتیں ہیں: (۱)مساوات(۲)ایجاز(۳)اطناب۔
(۱)مساوات : اس کا مطلب یہ ہے کہ معنی اور مفہوم کی ادائیگی کے لیے جتنے الفاظ کی ضرورت ہو اتنے ہی الفاظ لائے جائیں ۔ الفاظ مفاہیم سے نہ کم ہوں، نہ زیادہ ، جیسے : ؂
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند 
دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا
اس میں مفہوم کی ادائیگی کے لیے جتنے الفاظ کی ضرورت تھی،اتنے ہی الفاظ لایے گئے ہیں۔الفاظ مفہوم کو ادا کرنے کے لیے نہ کم ہیں نہ زیادہ۔
(۲)ایجاز: اس کامطلب یہ ہے کہ جتنے مفہوم کی ادائیگی کی ضرورت ہو ، الفاظ اس سے کم ہوں ، لیکن وہ معنی مقصود کو کما حقہ ادا کر رہے ہوں ، بہ الفاظ دگر: الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں ، جیسے: ؂
اس بزم جنوں کے دیوانے ہر راہ سے،پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے دیوار چمن سے زنداں تک 
اس شعر میں دریا ئے مفہوم کو کوزۂ الفاظ میں سمو دیا گیا ہے ، اور الفاظ ان مفہوموں کو کماحقہ ادا کر رہے ہیں۔
(۳) اطناب:اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی بات کہنی ہو ، الفاظ اس سے زائد ہوں،بہ الفاظ دگر: معانی کم اور الفاظ زیادہ ہوں ، جیسے : ؂ 
اچھا جو خفا ہوتے ہو تم اے صنم اچھا 
تو ہم بھی نہ بولیں گے خدا کی قسم اچھا
اس میں لفظ ’اچھا ‘ کاتکرار معنی مقصود سے زائد ہے ،اس لیے کہ اگر اس میں ایک لفظ اچھا کو حذف کردیں ، تومعنی کی ادائیگی میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔لیکن یہ ملحوظ خاطر رہے کہ اس میں زیادتی بے مقصد نہیں ہوتی ہے ، بلکہ اس کا بھی کچھ مقصد اور فائدہ مطلوب ہوتا ہے ، جیساکہ اس شعر میں تکرار تاکید کا فائدہ دے رہاہے۔
علم بدیع
علم بدیع وہ علم ہے، جس کے ذریعے فصیح و بلیغ کلام کو خوب بصورت اور مؤثر بنانے کے طریقے معلوم ہوتے ہیں اور مقام وحال کے تقاضے کے مطابق کلام پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی اردو میں کثیر الاستعمال ا قسام درج ذیل ہیں : 
(۱)توریہ: یہ ہے کہ ایک ایسا لفظ بولا جائے ،جس کے دو معنی ہوں: ایک قریبی معنی، کہ لفظ بولتے ہی یہ معنی ذہن میں آجائے ۔ دوسرا دور کے معنی، جو فوراً ذہن میں نہ آئے اور قریبی معنی کو چھوڑ کر دور کے معنی مراد لیے جائیں، جیسے : ؂
بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن 
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا
اس میں ’سایہ‘ کے قریبی معنی’چھاؤں‘( دھوپ کی ضد) اور معنی بعید’ حمایت‘ہے ۔ اور یہی شاعر کی مراد ہے۔ 
(۲)افتنان: یہ ہے کہ دوالگ الگ فنوں کوایک کلام میں جمع کر دیا جائے ، مثلاً : ایک ہی ساتھ مدح بھی کی جائے اور ہجو بھی ، جیسے: ؂ 
یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ہو ،افغان بھی ہو 
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
اس کے پہلے مصرع میں مدح ہے اور دوسرے میں ہجو ہے ۔
(۳)مبالغہ: کسی صفت کے بارے میں اتنی زیادتی یاکمی کا دعوی کرناکہ وہ محال یا بعید از عقل معلوم ہونے لگے ، ’مبالغہ‘ کہلاتا ہے، جیسے : ؂ 
ناتواں ایسا ہوں گر سایہ پڑے دیوار کا 
پڑے گویا کہ سقفِ آسماں بالائے سر 
اس میں اپنی کمزوری کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے کہ دیوار کے سائے کا بوجھ بھی برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے، جو نہ تو عادتا ایسا ہونا ممکن ہے اور نہ ہی عقلا اسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
(۴)اقتباس : یہ ہے کہ نظم یا نثر میں قرآن کریم یا حدیث شریف کا کوئی ٹکڑا لایا جائے اور یہ وضاحت نہ کی جائے کہ یہ قرآن کا کوئی ٹکڑا ہے یا حدیث کا کوئی جز ہے ، جیسے : ؂ 
دھوپ کی تابش آگ کی گرمی 
’’وَقِنَا رَبَّنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘
سچ ہے ’’الحرب خدعۃ‘‘ اے ذوق 
آنکھ اس کی دعا سے لڑتی ہے 
پہلے شعر میں قرآن مجید سے اور دوسرے شعر میں حدیث پاک سے اقتباس ہے ۔اور دونوں شعروں میں قرآن وحدیث سے ہونے کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
(۵)تضمین : یہ ہے کہ شاعر اپنے شعر میں دوسرے شاعر کے شعر کا کچھ حصہ ذکر کر ے ، اور اگروہ شعر مشہور نہ ہو ، تو یہ بھی وضاحت کردے کہ یہ فلاں کا شعرہے یافلاں کا مصرع ہے ، جیسے : ڈاکٹر کلیم عاجزؔ کے یہ شعر: ؂ 
مقطع میں اور کچھ مجھے کہنا نہیں ہے ہاں 
غالبؔ کا شعر پڑھ دوں اجازت اگر ملے 
’’ساقی گر ی کی شرم کرو آج ورنہ ہم
ہرشب پیاہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے‘‘ 
(۶) عقد : اس کا مطلب یہ ہے کہ نثر کو نظم بنادی جائے ، جیسے : ؂
سفر جو کبھی تھا نمونہ سقر کا 
وسیلہ ہے اب وہ سر اسر ظفر کا
اس میں ’السفر و سیلۃ الظفر‘کو شعر کے قالب میں ڈھال دیا گیا ہے ۔
(۷)حل : اس کو کہتے ہیں ،جس میں نظم کو نثر بنا دیا جاتا ہے ، جیسے : ؂ 
توریت کی قسم ، قسم انجیل کی تجھے 
تجھ کو قسم زبور کی، قرآن کی قسم
یہ انشاؔ کا شعر ہے۔ اس شعر کومرزا غالب ؔ نے اس طرح حل بنا دیا ہے: ’’ بھائی قرآن کی قسم ،انجیل کی قسم ، توریت کی قسم، زبور کی قسم‘‘ ۔
(۸)تلمیح : ایسے کلام کو کہا جاتا ہے جس میں میں کسی آیت، حدیث، شعر ،قصہ یا کہاوت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ، جیسے : ؂ 
دشت تو دشت رہا دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے 
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
اس شعر کے دوسرے مصرع میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے، جس میں مدائن فتح کرنے کے لیے حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے دریا میں گھوڑے ڈال دیے تھے اوربہ آسانی پار کر گئے تھے۔
(۹)تجنیسِ تام: اس سے مراد یہ ہے کہ شعر میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں، جن کا تلفظ تو ایک ہو، لیکن معنی مختلف ہوں،جیسے: ؂
سب سہیں گے ہم اگر لاکھ برائی ہوگی 
پر کہیں آنکھ لڑائی تو لڑائی ہوگی
اس شعر میں پہلی لڑائی سے آنکھ ملانا اور دوسری لڑائی سے لڑائی جھگڑا مراد ہے۔
(۱۰)اشتقاق:اس کلام کو اشتقاق کہتے ہیں،جس میں ایسے الفاظ لائے جاتے ہیں، جوسب ایک ہی مادے سے مشتق ہوتے ہیں، جیسے: ؂
تو مرے حال سے غافل ہے پراے غفلت کیش 
تیرے اندازِ تغافل نہیں غفلت والے 
اس میں غافل، غفلت اور تغافل استعمال کیے گئے ہیں اور سب کا مادہ ایک ہے۔
(۱۱)تکرار: اس میں ایک ہی لفظ کو شعر میں بار بار لایا جاتا ہے ، جیسے: ؂
ہم کو شکایتوں کے مزے آہی جاتے ہیں 
سن سن کے دل ہی دل میں وہ شرمائے جاتے ہیں
اس میں سن اور دل مکرر لائے گئے ہیں جن کی صوتی تکرار سے شعر میں نغمگی پیدا ہو گئی ہے۔
(۱۲) متتابع:اس صنعت کا نام متتابع ہے ،جس میں بات سے بات نکالی جاتی ہے، جیسے: ؂
جی جلائیں کیوں نہ میرا یہ بتانِ سنگ 
دل ظفرؔ ان کا ہے پتھر اور پتھر میں ہے آگ 
اس میں لفظ پتھر سے ایک دوسری بات :’’پتھر میں ہے آگ ‘‘نکالی گئی ہے۔
(۱۳)قلب: قلب سے مرادوہ صنعت ہے، جس میں دو الفاظ ایسے لائے جاتے ہیں کہ ایک لفظ کے حروف پلٹنے سے دوسرا پہلا لفظ بن جاتاہے، جیسے، ؂
رات بھر مجھ کو غمِ یار نے سونے نہ دیا 
صبح کو خوفِ شبِ تار نے سونے نہ دیا
اس شعر میں لفظ رات کو پلٹنے سے تار اور لفظ تار کو پلٹنے سے رات بنتا ہے۔
(۱۴)طباق:اس کا مطلب یہ ہے کہ کلام میں ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں،جو معنوی طور پر ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں ، جیسے: ؂
گاہ جیتا ہوں گاہ مرتا ہوں 
آنا جانا تیرا قیامت ہے
اس شعر میں جینا مرنا اور آ نا جانا متضادالفاظ ہیں۔
(۱۵)تجاہل عارف: اس سے مرادیہ ہے کہ انداز کلام اس طرح اختیار کیا جائے کہ کسی بات کو جانتے ہوئے بھی لا علمی کا اظہار ہوتاہو، جیسے: ؂
صنم سنتے ہیں تیری بھی کمر ہے 
کہاں ہے، کس طرف کو ہے، کدھر ہے
(۱۶)لف ونشر: اس صنعت کا نام لف و نشر ہے،جس میں پہلے چند چیزوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ، پھر ان کے منا سبات بیان کیے جاتے ہیں ،جیسے: ؂
تیرے رخسار وقدوچشم کے ہیں عاشقِ زار 
گل جدا، سرو جدا، نرگسِ بیمار جدا
اس کے پہلے شعر میں رخسار، قد اور چشم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔بعد ازاں گل، سرو اور نرگس کے الفاظ لائے گئے ہیں، جو ان کے مناسبات ہیں۔
(۱۷)حسنِ تعلیل: اس سے مراد یہ ہے کہ کلام میں کسی چیز کی اصلی اور حقیقی علت بیان کرنے کے بجائے کوئی اور علت بیان کیا جائے، جیسے: ؂
نکلا ہے لالہ خاک کے نیچے سے سرخ سرخ
رنگین ہواشہیدوں کے خوں میں نہاں نہاں
اس میں لالہ کے سرخ ہونے کی وجہ، حقیقی علت (اس کا فطری طور پر سرخ ہونے )کے بجائے شہیدوں کے خون میں نہاں ہونا بیان کیا گیا ہے۔
(۱۸)عکس: عکس اس صنعت کا نام ہے،جس میں کلام کے بعض اجزا کو آگے پیچھے کر کے دوسرا فقرہ یا مصرع بنا لیا جاتا ہے، جیسے: ؂
ہم ہیں اس کے خیال کی تصویر 
جس کی تصویر ہے خیال اپنا
اس کے پہلے مصرع میں کچھ ردوبدل کر کے دوسرا مصرع بنا لیا گیا ہے۔
اسلوب کی تین قسمیں ہیں : (۱)علمی (۲) ادبی(۳)خطابی۔
(۱)اسلوب علمی 
اس اسلوب کو کہا جاتاہے،جس میں پوشیدہ علمی حقائق کی تشریح اور کسی موضوع پر حوالہ جات کے ساتھ علمی و تحقیقی انداز میں بحث کی جاتی ہے ۔اس اسلوب میں عقل و فکر کو مخاطب بنا یا جاتا ہے اور سہل و سلیس عبارت اور مثبت انداز اختیار کیا جاتا ہے ۔حتی الامکان شعری خیالات اور مجاز و کنایات سے اجتناب کیا جاتا ہے ۔
(۲)اسلوب ادبی
یہ ایسا اسلوب ہے جس میں انتہائی خوب صورتی اور عمدگی کے ساتھ نہایت لطیف، د ل کش اور ادبی پیرایۂ بیان میں کوئی بات کہی جاتی ہے ، اسلوب ادبی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں محسوسات کومعنویات کا یا معنویات کو محسوسات کا لبادہ اڑھا کر کو ئی بات بیان کی جاتی ہے۔
(۳) اسلوب خطابی 
ایسا اسلوب ہے ،جس میں خطیب اپنے سامعین کے مطابق وضاحت اور قوت کے ساتھ کوئی بات کہتا ہے ۔ تکرار الفاظ ، مترادفات کا استعمال ، حکایات و امثال کا بیان اور دلائل و براہین سے اپنی بات کو مدلل کرنا اس اسلوب کی خاص خصوصیا ت ہیں ۔نیز سامعین کے دلوں میں خطیب کی قدر و منزلت ، تقوی و للہیت ،طلاقت لسانی ، چرب بیانی، شیریں گفتار ،آواز کا اتار چڑھاؤ اور ٹھوس اشارے اس اسلوب کی تاثیر کو بڑھا تے ہیں ۔