قسط نمبر (15) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
اظہار خیال کے مختلف پیرایۂ بیان
اب تک جتنی باتیں لکھی گئیں ہیں، ان کا تعلق صرف لفظوں اور جملوں کی تراش خراش اور ان کی ظاہری بناوٹ وسجاوٹ سے تھا۔ اب ان میں لفظی ومعنوی خوبیاں پیدا کرنے کے حوالے سے اختصار کے ساتھ چند سطور لکھی جارہی ہیں ہیں۔
ایک عام انسان اپنے خیالات واحساسات کوبیان کرتا ہے،تو سیدھے سادے انداز میں بیان کردیتاہے؛ لیکن ایک شاعر یا ادیب اپنے خیالات و جذبات کوبیان کر تا ہے کہ مختلف پیراےۂ بیان میں انتہا ئی دل چسپ اور دل کش انداز میں بیان کرتاہے، جس کو پڑھ کر دل میں فرحت وسرور اور طبیعت میں شگفتگی پیدا ہوجاتی ہے، ایسے اسلوبِ بیان کو اصطلاح میں ’بلاغت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
بلاغت کی تین قسمیں ہیں: (۱) بیان (۲) معانی (۳) بدیع۔
علم بیان
ایسا علم ہے جس میں تشبیہ ، مجاز اور کنایہ سے بحث کی جاتی ہے۔نیز اس میں ایک مضمون کو کئی طریقوں سے ادا کرنے کا ڈھنگ سکھایاجاتاہے، جیسے: یہ کہا جائے کہ میری محبوبہ خوب صورت ہے۔ اس کو یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ وہ چاند ہے۔اور اس انداز کو بھی اپنایا جاسکتا ہے کہ وہ مانند گلاب ہے۔
علم بیا ن کی ان اقسام کایہاں تعارف کرایا جاتاہے، جو اردو میں کثیر الاستعمال ہیں، اور جن کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر نہ تو ہم اردو کو صحیح ڈھنگ سے سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی لکھ سکتے ہیں ۔
(۱)تشبیہ : ایک چیز کو کسی دوسری چیز کے ساتھ ایک صفت یا اس سے زائد صفات میں مماثل اور مانند قرار دینا، ’تشبیہ ‘کہلاتا ہے، جیسے:
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
اس شعر میں’لب‘کو’گلاب کی پنکھڑی‘ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ دونوں کی مشترکہ خصوصیت نزاکت ہے۔ تشبیہ کے پانچ اجزا ہوتے ہیں :
(۱)مشبہ : جس کو تشبیہ دی جائے ، اس شعر میں ’لب‘ مشبہ ہے۔
(۲)مشبہ بہ : جس سے کسی چیز کو تشبیہ دی جائے ، اس میں ’گلاب کی پنکھڑی ‘ مشبہ بہ ہے ۔
(۳)وجہ شبہ : وہ خصوصیت ، جس کی وجہ سے تشبیہ دی جائے، اس میں ’نزاکت‘ وجہ شبہ ہے ۔
(۴)غرض تشبیہ:جس مقصد سے تشبیہ دی جائے ،یہاں غرض تشبیہ لب کی نزاکت کو بتلانا ہے ۔
(۵)حروف تشبیہ : وہ حروف جن کے ذریعہ مشابہت دکھائی جائے ، جیسے : اس شعر میں ’کی سی‘ حروف تشبیہ ہیں؛ لیکن بعض دفعہ حروف تشبیہ حذف بھی کردیے جاتے ہیں۔ اوردوسرے لفظوں کے ذریعے تشبیہ دکھائی جاتی ہے،جیسے:
کھلنا کم کم کلی نے سیکھاہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
اس میں کلی کے آہستہ آہستہ کھلنے کو محبوب کی آنکھوں کی نیم خوابی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(۲)حقیقت :کسی لفظ کواگر اس کے اصلی اور لغوی معنی میں استعمال کیا جائے، تو اسے حقیقت کہیں گے، جیسے :
اب لطف اسی میں ہے مزا ہے تو اسی میں
آ اے میرے محبوب! ستانے کے لیے آ
اس شعر کے تمام الفاظ اپنے لغوی معنی میں مستعمل ہیں ۔
(۳)مجاز: کسی لفظ سے اس کے لغوی معنی کے علاوہ کوئی اور معنی مراد لیں، تو اسے مجاز کہا جاتا ہے، جیسے :
میرے پہلو میں دل مضطر نہ تھا سیماب تھا
ارتکاب جرم الفت کے لیے بیتاب تھا
اس میں لفظ’سیماب ‘(پارہ)کا استعمال بطور مجاز ہواہے ۔
(۴)استعارہ:کسی لفظ کے حقیقی معنی کو چھوڑکر مجازی معنی میں استعمال کرنا’استعارہ‘ کہلاتاہے؛ لیکن معنی حقیقی اور معنی مجازی میں تشبیہ کا تعلق ہونا ضروری ہے ، جیسے:
اقرار ہے صاف آپ کے انکار سے ظاہر
ہے مستی شب نرگس مے خوار سے ظاہر
اس میں آنکھ کے لیے نرگس کا استعارہ کیا گیا ہے اور نرگس اور آنکھ میں تشبیہ کا تعلق ہے ۔
استعارے میں مشبہ کو مستعار لہ اور مشبہ بہ کو مستعار منہ کہتے ہیں اور وجہ شبہ وجہ جامع کہلاتی ہے ۔
(۵)مجاز مرسل: کسی لفظ کو حقیقی معنی کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کرنامجازمرسل کہلاتا ہے ، لیکن حقیقی و مجازی معنوں میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور تعلق ہوناچاہیے، جیسے:
غضب آنکھیں ،ستم ابرو ،عجب منھ کی صفائی ہے
خدانے اپنے ہاتھوں سے تیری صورت بنائی ہے
اس میں لفظ’ہاتھوں‘کو مجازی معنی طاقت و قدرت میں استعمال کیا گیا ہے ، اور دونوں معنی میں تشبیہ کا تعلق نہیں ہے ، بلکہ سببیت کا ہے ۔
(۶)مجاز عقلی : فعل یا معنی فعل کی نسبت ،حقیقی معنی کو چھوڑ کر کسی مناسبت کی وجہ سے دوسرے معنی کی طرف کرنا، ’مجاز عقلی‘کہلاتا ہے ، جیسے :
خود ساقی کوثر نے رکھی مے خانے کی بنیاد یہاں
تاریخ مرتب کرتی ہے دیوانوں کی روداد یہاں
اس میں مے خانے (دارالعلو م )کی بنیاد رکھنے (فعل)کی نسبت ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب مجاز کے طور پر کیا گیاہے ۔
(۷)کنایہ: لغت میں کنایہ پوشیدہ بات کو کہتے ہیں۔ اوراصطلاح میں اس سے مراد یہ ہے کہ کلام میں الفاظ حقیقی ولغوی معنی میں استعمال نہ کیے گئے ہوں، بلکہ ان سے غیر حقیقی اور مجازی معنی مراد لیے گئے ہوں، لیکن لغوی معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہوں، جیسے:
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم، چھاؤں میں تلواروں کی
اس شعرمیں ’’چھاؤں میں تلوار کی‘‘ سے حقیقی معنی بھی مراد لیے جا سکتے ہیں، لیکن یہاں اس کے مجازی معنی مراد ہیں۔
(۸)تعریض : یہ کنایہ کی ہی ایک قسم ہے ،جس میں موصوف کاذکر نہیں ہوتا ، لیکن اشارہ کے طور پر موصوف کی ذات مراد لی جاتی ہے، جیسے : ع
ہے دوست وہ ، جو دوست کی خاطر جلائے دل
اگر چہ اس شعر میں دوست کا نام نہیں ہے لیکن شاعر یہ تعریض کر رہا ہے کہ دوست !تم حقیقی دوست نہیں ہو۔
(۹)محاورہ: دو یادوسے زیادہ لفظوں کا وہ مجموعہ ہے ، جو اپنے معنی حقیقی سے مل کر معنی مجازی میں بولا جاتاہے ،جیسے : بال بیکا کرنا : نقصان پہچانا ، آب و دانہ اٹھنا : موت آنا۔
(۱۰)ضرب الامثال: ایسے جملے کو کہا جاتاہے، جس کا لفظی معنی کچھ اور ہو اور مطلب کچھ اور ہو ، جیسے: گھر کی مرغی دال برابر ۔ اس کامطلب ہے کہ گھر کی چیزوں کی قدر کم ہوتی ہے ، اس کو ’کہاوت‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ ضرب الامثال میں تغیر جائز نہیں ہے ۔اسے اس کے پس منظر کے مشابہ واقعہ میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
علم معانی
علم معانی سے مراد وہ علم ہوتا ہے جس میں مقتضائے حال (موقع ومحل)اور مخاطب کی حالت کے اعتبار سے کلام کرنے کے طریقے بیان کیے جاتے ہیں، مثلاً: مخاطب کو جو بات آپ کہنا چاہتے ہیں ۔اگر وہ اس سے بالکل ناواقف ہے، تو اس موقع پر کلام کو بغیر کسی تاکید کے لایاجائے گا ۔ اور اگر مخاطب کو اس میں شک وشبہ ہورہا ہے، تواس موقع پر کلام میں تاکید ی الفاظ لاناہوگا، اور اگر مخاطب سرے سے آپ کی بات کا انکار کررہا ہے،تو اس موقع پر مؤکد کلام کرنا ضروری ہے ۔ موقع اور مقتضائے حال کے مطابق کلام کرنے کی تین صورتیں ہیں: (۱)مساوات(۲)ایجاز(۳)اطناب۔
(۱)مساوات : اس کا مطلب یہ ہے کہ معنی اور مفہوم کی ادائیگی کے لیے جتنے الفاظ کی ضرورت ہو اتنے ہی الفاظ لائے جائیں ۔ الفاظ مفاہیم سے نہ کم ہوں، نہ زیادہ ، جیسے :
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا
اس میں مفہوم کی ادائیگی کے لیے جتنے الفاظ کی ضرورت تھی،اتنے ہی الفاظ لایے گئے ہیں۔الفاظ مفہوم کو ادا کرنے کے لیے نہ کم ہیں نہ زیادہ۔
(۲)ایجاز: اس کامطلب یہ ہے کہ جتنے مفہوم کی ادائیگی کی ضرورت ہو ، الفاظ اس سے کم ہوں ، لیکن وہ معنی مقصود کو کما حقہ ادا کر رہے ہوں ، بہ الفاظ دگر: الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں ، جیسے:
اس بزم جنوں کے دیوانے ہر راہ سے،پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے دیوار چمن سے زنداں تک
اس شعر میں دریا ئے مفہوم کو کوزۂ الفاظ میں سمو دیا گیا ہے ، اور الفاظ ان مفہوموں کو کماحقہ ادا کر رہے ہیں۔
(۳) اطناب:اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی بات کہنی ہو ، الفاظ اس سے زائد ہوں،بہ الفاظ دگر: معانی کم اور الفاظ زیادہ ہوں ، جیسے :
اچھا جو خفا ہوتے ہو تم اے صنم اچھا
تو ہم بھی نہ بولیں گے خدا کی قسم اچھا
اس میں لفظ ’اچھا ‘ کاتکرار معنی مقصود سے زائد ہے ،اس لیے کہ اگر اس میں ایک لفظ اچھا کو حذف کردیں ، تومعنی کی ادائیگی میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔لیکن یہ ملحوظ خاطر رہے کہ اس میں زیادتی بے مقصد نہیں ہوتی ہے ، بلکہ اس کا بھی کچھ مقصد اور فائدہ مطلوب ہوتا ہے ، جیساکہ اس شعر میں تکرار تاکید کا فائدہ دے رہاہے۔
علم بدیع
علم بدیع وہ علم ہے، جس کے ذریعے فصیح و بلیغ کلام کو خوب بصورت اور مؤثر بنانے کے طریقے معلوم ہوتے ہیں اور مقام وحال کے تقاضے کے مطابق کلام پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی اردو میں کثیر الاستعمال ا قسام درج ذیل ہیں :
(۱)توریہ: یہ ہے کہ ایک ایسا لفظ بولا جائے ،جس کے دو معنی ہوں: ایک قریبی معنی، کہ لفظ بولتے ہی یہ معنی ذہن میں آجائے ۔ دوسرا دور کے معنی، جو فوراً ذہن میں نہ آئے اور قریبی معنی کو چھوڑ کر دور کے معنی مراد لیے جائیں، جیسے :
بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا
اس میں ’سایہ‘ کے قریبی معنی’چھاؤں‘( دھوپ کی ضد) اور معنی بعید’ حمایت‘ہے ۔ اور یہی شاعر کی مراد ہے۔
(۲)افتنان: یہ ہے کہ دوالگ الگ فنوں کوایک کلام میں جمع کر دیا جائے ، مثلاً : ایک ہی ساتھ مدح بھی کی جائے اور ہجو بھی ، جیسے:
یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ہو ،افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
اس کے پہلے مصرع میں مدح ہے اور دوسرے میں ہجو ہے ۔
(۳)مبالغہ: کسی صفت کے بارے میں اتنی زیادتی یاکمی کا دعوی کرناکہ وہ محال یا بعید از عقل معلوم ہونے لگے ، ’مبالغہ‘ کہلاتا ہے، جیسے :
ناتواں ایسا ہوں گر سایہ پڑے دیوار کا
پڑے گویا کہ سقفِ آسماں بالائے سر
اس میں اپنی کمزوری کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے کہ دیوار کے سائے کا بوجھ بھی برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے، جو نہ تو عادتا ایسا ہونا ممکن ہے اور نہ ہی عقلا اسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
(۴)اقتباس : یہ ہے کہ نظم یا نثر میں قرآن کریم یا حدیث شریف کا کوئی ٹکڑا لایا جائے اور یہ وضاحت نہ کی جائے کہ یہ قرآن کا کوئی ٹکڑا ہے یا حدیث کا کوئی جز ہے ، جیسے :
دھوپ کی تابش آگ کی گرمی
’’وَقِنَا رَبَّنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘
سچ ہے ’’الحرب خدعۃ‘‘ اے ذوق
آنکھ اس کی دعا سے لڑتی ہے
پہلے شعر میں قرآن مجید سے اور دوسرے شعر میں حدیث پاک سے اقتباس ہے ۔اور دونوں شعروں میں قرآن وحدیث سے ہونے کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
(۵)تضمین : یہ ہے کہ شاعر اپنے شعر میں دوسرے شاعر کے شعر کا کچھ حصہ ذکر کر ے ، اور اگروہ شعر مشہور نہ ہو ، تو یہ بھی وضاحت کردے کہ یہ فلاں کا شعرہے یافلاں کا مصرع ہے ، جیسے : ڈاکٹر کلیم عاجزؔ کے یہ شعر:
مقطع میں اور کچھ مجھے کہنا نہیں ہے ہاں
غالبؔ کا شعر پڑھ دوں اجازت اگر ملے
’’ساقی گر ی کی شرم کرو آج ورنہ ہم
ہرشب پیاہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے‘‘
(۶) عقد : اس کا مطلب یہ ہے کہ نثر کو نظم بنادی جائے ، جیسے :
سفر جو کبھی تھا نمونہ سقر کا
وسیلہ ہے اب وہ سر اسر ظفر کا
اس میں ’السفر و سیلۃ الظفر‘کو شعر کے قالب میں ڈھال دیا گیا ہے ۔
(۷)حل : اس کو کہتے ہیں ،جس میں نظم کو نثر بنا دیا جاتا ہے ، جیسے :
توریت کی قسم ، قسم انجیل کی تجھے
تجھ کو قسم زبور کی، قرآن کی قسم
یہ انشاؔ کا شعر ہے۔ اس شعر کومرزا غالب ؔ نے اس طرح حل بنا دیا ہے: ’’ بھائی قرآن کی قسم ،انجیل کی قسم ، توریت کی قسم، زبور کی قسم‘‘ ۔
(۸)تلمیح : ایسے کلام کو کہا جاتا ہے جس میں میں کسی آیت، حدیث، شعر ،قصہ یا کہاوت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ، جیسے :
دشت تو دشت رہا دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
اس شعر کے دوسرے مصرع میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے، جس میں مدائن فتح کرنے کے لیے حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے دریا میں گھوڑے ڈال دیے تھے اوربہ آسانی پار کر گئے تھے۔
(۹)تجنیسِ تام: اس سے مراد یہ ہے کہ شعر میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں، جن کا تلفظ تو ایک ہو، لیکن معنی مختلف ہوں،جیسے:
سب سہیں گے ہم اگر لاکھ برائی ہوگی
پر کہیں آنکھ لڑائی تو لڑائی ہوگی
اس شعر میں پہلی لڑائی سے آنکھ ملانا اور دوسری لڑائی سے لڑائی جھگڑا مراد ہے۔
(۱۰)اشتقاق:اس کلام کو اشتقاق کہتے ہیں،جس میں ایسے الفاظ لائے جاتے ہیں، جوسب ایک ہی مادے سے مشتق ہوتے ہیں، جیسے:
تو مرے حال سے غافل ہے پراے غفلت کیش
تیرے اندازِ تغافل نہیں غفلت والے
اس میں غافل، غفلت اور تغافل استعمال کیے گئے ہیں اور سب کا مادہ ایک ہے۔
(۱۱)تکرار: اس میں ایک ہی لفظ کو شعر میں بار بار لایا جاتا ہے ، جیسے:
ہم کو شکایتوں کے مزے آہی جاتے ہیں
سن سن کے دل ہی دل میں وہ شرمائے جاتے ہیں
اس میں سن اور دل مکرر لائے گئے ہیں جن کی صوتی تکرار سے شعر میں نغمگی پیدا ہو گئی ہے۔
(۱۲) متتابع:اس صنعت کا نام متتابع ہے ،جس میں بات سے بات نکالی جاتی ہے، جیسے:
جی جلائیں کیوں نہ میرا یہ بتانِ سنگ
دل ظفرؔ ان کا ہے پتھر اور پتھر میں ہے آگ
اس میں لفظ پتھر سے ایک دوسری بات :’’پتھر میں ہے آگ ‘‘نکالی گئی ہے۔
(۱۳)قلب: قلب سے مرادوہ صنعت ہے، جس میں دو الفاظ ایسے لائے جاتے ہیں کہ ایک لفظ کے حروف پلٹنے سے دوسرا پہلا لفظ بن جاتاہے، جیسے،
رات بھر مجھ کو غمِ یار نے سونے نہ دیا
صبح کو خوفِ شبِ تار نے سونے نہ دیا
اس شعر میں لفظ رات کو پلٹنے سے تار اور لفظ تار کو پلٹنے سے رات بنتا ہے۔
(۱۴)طباق:اس کا مطلب یہ ہے کہ کلام میں ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں،جو معنوی طور پر ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں ، جیسے:
گاہ جیتا ہوں گاہ مرتا ہوں
آنا جانا تیرا قیامت ہے
اس شعر میں جینا مرنا اور آ نا جانا متضادالفاظ ہیں۔
(۱۵)تجاہل عارف: اس سے مرادیہ ہے کہ انداز کلام اس طرح اختیار کیا جائے کہ کسی بات کو جانتے ہوئے بھی لا علمی کا اظہار ہوتاہو، جیسے:
صنم سنتے ہیں تیری بھی کمر ہے
کہاں ہے، کس طرف کو ہے، کدھر ہے
(۱۶)لف ونشر: اس صنعت کا نام لف و نشر ہے،جس میں پہلے چند چیزوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ، پھر ان کے منا سبات بیان کیے جاتے ہیں ،جیسے:
تیرے رخسار وقدوچشم کے ہیں عاشقِ زار
گل جدا، سرو جدا، نرگسِ بیمار جدا
اس کے پہلے شعر میں رخسار، قد اور چشم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔بعد ازاں گل، سرو اور نرگس کے الفاظ لائے گئے ہیں، جو ان کے مناسبات ہیں۔
(۱۷)حسنِ تعلیل: اس سے مراد یہ ہے کہ کلام میں کسی چیز کی اصلی اور حقیقی علت بیان کرنے کے بجائے کوئی اور علت بیان کیا جائے، جیسے:
نکلا ہے لالہ خاک کے نیچے سے سرخ سرخ
رنگین ہواشہیدوں کے خوں میں نہاں نہاں
اس میں لالہ کے سرخ ہونے کی وجہ، حقیقی علت (اس کا فطری طور پر سرخ ہونے )کے بجائے شہیدوں کے خون میں نہاں ہونا بیان کیا گیا ہے۔
(۱۸)عکس: عکس اس صنعت کا نام ہے،جس میں کلام کے بعض اجزا کو آگے پیچھے کر کے دوسرا فقرہ یا مصرع بنا لیا جاتا ہے، جیسے:
ہم ہیں اس کے خیال کی تصویر
جس کی تصویر ہے خیال اپنا
اس کے پہلے مصرع میں کچھ ردوبدل کر کے دوسرا مصرع بنا لیا گیا ہے۔
اسلوب کی تین قسمیں ہیں : (۱)علمی (۲) ادبی(۳)خطابی۔
(۱)اسلوب علمی
اس اسلوب کو کہا جاتاہے،جس میں پوشیدہ علمی حقائق کی تشریح اور کسی موضوع پر حوالہ جات کے ساتھ علمی و تحقیقی انداز میں بحث کی جاتی ہے ۔اس اسلوب میں عقل و فکر کو مخاطب بنا یا جاتا ہے اور سہل و سلیس عبارت اور مثبت انداز اختیار کیا جاتا ہے ۔حتی الامکان شعری خیالات اور مجاز و کنایات سے اجتناب کیا جاتا ہے ۔
(۲)اسلوب ادبی
یہ ایسا اسلوب ہے جس میں انتہائی خوب صورتی اور عمدگی کے ساتھ نہایت لطیف، د ل کش اور ادبی پیرایۂ بیان میں کوئی بات کہی جاتی ہے ، اسلوب ادبی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں محسوسات کومعنویات کا یا معنویات کو محسوسات کا لبادہ اڑھا کر کو ئی بات بیان کی جاتی ہے۔
(۳) اسلوب خطابی
ایسا اسلوب ہے ،جس میں خطیب اپنے سامعین کے مطابق وضاحت اور قوت کے ساتھ کوئی بات کہتا ہے ۔ تکرار الفاظ ، مترادفات کا استعمال ، حکایات و امثال کا بیان اور دلائل و براہین سے اپنی بات کو مدلل کرنا اس اسلوب کی خاص خصوصیا ت ہیں ۔نیز سامعین کے دلوں میں خطیب کی قدر و منزلت ، تقوی و للہیت ،طلاقت لسانی ، چرب بیانی، شیریں گفتار ،آواز کا اتار چڑھاؤ اور ٹھوس اشارے اس اسلوب کی تاثیر کو بڑھا تے ہیں ۔
اب تک جتنی باتیں لکھی گئیں ہیں، ان کا تعلق صرف لفظوں اور جملوں کی تراش خراش اور ان کی ظاہری بناوٹ وسجاوٹ سے تھا۔ اب ان میں لفظی ومعنوی خوبیاں پیدا کرنے کے حوالے سے اختصار کے ساتھ چند سطور لکھی جارہی ہیں ہیں۔
ایک عام انسان اپنے خیالات واحساسات کوبیان کرتا ہے،تو سیدھے سادے انداز میں بیان کردیتاہے؛ لیکن ایک شاعر یا ادیب اپنے خیالات و جذبات کوبیان کر تا ہے کہ مختلف پیراےۂ بیان میں انتہا ئی دل چسپ اور دل کش انداز میں بیان کرتاہے، جس کو پڑھ کر دل میں فرحت وسرور اور طبیعت میں شگفتگی پیدا ہوجاتی ہے، ایسے اسلوبِ بیان کو اصطلاح میں ’بلاغت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
بلاغت کی تین قسمیں ہیں: (۱) بیان (۲) معانی (۳) بدیع۔
علم بیان
ایسا علم ہے جس میں تشبیہ ، مجاز اور کنایہ سے بحث کی جاتی ہے۔نیز اس میں ایک مضمون کو کئی طریقوں سے ادا کرنے کا ڈھنگ سکھایاجاتاہے، جیسے: یہ کہا جائے کہ میری محبوبہ خوب صورت ہے۔ اس کو یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ وہ چاند ہے۔اور اس انداز کو بھی اپنایا جاسکتا ہے کہ وہ مانند گلاب ہے۔
علم بیا ن کی ان اقسام کایہاں تعارف کرایا جاتاہے، جو اردو میں کثیر الاستعمال ہیں، اور جن کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر نہ تو ہم اردو کو صحیح ڈھنگ سے سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی لکھ سکتے ہیں ۔
(۱)تشبیہ : ایک چیز کو کسی دوسری چیز کے ساتھ ایک صفت یا اس سے زائد صفات میں مماثل اور مانند قرار دینا، ’تشبیہ ‘کہلاتا ہے، جیسے:
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
اس شعر میں’لب‘کو’گلاب کی پنکھڑی‘ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ دونوں کی مشترکہ خصوصیت نزاکت ہے۔ تشبیہ کے پانچ اجزا ہوتے ہیں :
(۱)مشبہ : جس کو تشبیہ دی جائے ، اس شعر میں ’لب‘ مشبہ ہے۔
(۲)مشبہ بہ : جس سے کسی چیز کو تشبیہ دی جائے ، اس میں ’گلاب کی پنکھڑی ‘ مشبہ بہ ہے ۔
(۳)وجہ شبہ : وہ خصوصیت ، جس کی وجہ سے تشبیہ دی جائے، اس میں ’نزاکت‘ وجہ شبہ ہے ۔
(۴)غرض تشبیہ:جس مقصد سے تشبیہ دی جائے ،یہاں غرض تشبیہ لب کی نزاکت کو بتلانا ہے ۔
(۵)حروف تشبیہ : وہ حروف جن کے ذریعہ مشابہت دکھائی جائے ، جیسے : اس شعر میں ’کی سی‘ حروف تشبیہ ہیں؛ لیکن بعض دفعہ حروف تشبیہ حذف بھی کردیے جاتے ہیں۔ اوردوسرے لفظوں کے ذریعے تشبیہ دکھائی جاتی ہے،جیسے:
کھلنا کم کم کلی نے سیکھاہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
اس میں کلی کے آہستہ آہستہ کھلنے کو محبوب کی آنکھوں کی نیم خوابی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(۲)حقیقت :کسی لفظ کواگر اس کے اصلی اور لغوی معنی میں استعمال کیا جائے، تو اسے حقیقت کہیں گے، جیسے :
اب لطف اسی میں ہے مزا ہے تو اسی میں
آ اے میرے محبوب! ستانے کے لیے آ
اس شعر کے تمام الفاظ اپنے لغوی معنی میں مستعمل ہیں ۔
(۳)مجاز: کسی لفظ سے اس کے لغوی معنی کے علاوہ کوئی اور معنی مراد لیں، تو اسے مجاز کہا جاتا ہے، جیسے :
میرے پہلو میں دل مضطر نہ تھا سیماب تھا
ارتکاب جرم الفت کے لیے بیتاب تھا
اس میں لفظ’سیماب ‘(پارہ)کا استعمال بطور مجاز ہواہے ۔
(۴)استعارہ:کسی لفظ کے حقیقی معنی کو چھوڑکر مجازی معنی میں استعمال کرنا’استعارہ‘ کہلاتاہے؛ لیکن معنی حقیقی اور معنی مجازی میں تشبیہ کا تعلق ہونا ضروری ہے ، جیسے:
اقرار ہے صاف آپ کے انکار سے ظاہر
ہے مستی شب نرگس مے خوار سے ظاہر
اس میں آنکھ کے لیے نرگس کا استعارہ کیا گیا ہے اور نرگس اور آنکھ میں تشبیہ کا تعلق ہے ۔
استعارے میں مشبہ کو مستعار لہ اور مشبہ بہ کو مستعار منہ کہتے ہیں اور وجہ شبہ وجہ جامع کہلاتی ہے ۔
(۵)مجاز مرسل: کسی لفظ کو حقیقی معنی کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کرنامجازمرسل کہلاتا ہے ، لیکن حقیقی و مجازی معنوں میں تشبیہ کے علاوہ کوئی اور تعلق ہوناچاہیے، جیسے:
غضب آنکھیں ،ستم ابرو ،عجب منھ کی صفائی ہے
خدانے اپنے ہاتھوں سے تیری صورت بنائی ہے
اس میں لفظ’ہاتھوں‘کو مجازی معنی طاقت و قدرت میں استعمال کیا گیا ہے ، اور دونوں معنی میں تشبیہ کا تعلق نہیں ہے ، بلکہ سببیت کا ہے ۔
(۶)مجاز عقلی : فعل یا معنی فعل کی نسبت ،حقیقی معنی کو چھوڑ کر کسی مناسبت کی وجہ سے دوسرے معنی کی طرف کرنا، ’مجاز عقلی‘کہلاتا ہے ، جیسے :
خود ساقی کوثر نے رکھی مے خانے کی بنیاد یہاں
تاریخ مرتب کرتی ہے دیوانوں کی روداد یہاں
اس میں مے خانے (دارالعلو م )کی بنیاد رکھنے (فعل)کی نسبت ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب مجاز کے طور پر کیا گیاہے ۔
(۷)کنایہ: لغت میں کنایہ پوشیدہ بات کو کہتے ہیں۔ اوراصطلاح میں اس سے مراد یہ ہے کہ کلام میں الفاظ حقیقی ولغوی معنی میں استعمال نہ کیے گئے ہوں، بلکہ ان سے غیر حقیقی اور مجازی معنی مراد لیے گئے ہوں، لیکن لغوی معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہوں، جیسے:
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم، چھاؤں میں تلواروں کی
اس شعرمیں ’’چھاؤں میں تلوار کی‘‘ سے حقیقی معنی بھی مراد لیے جا سکتے ہیں، لیکن یہاں اس کے مجازی معنی مراد ہیں۔
(۸)تعریض : یہ کنایہ کی ہی ایک قسم ہے ،جس میں موصوف کاذکر نہیں ہوتا ، لیکن اشارہ کے طور پر موصوف کی ذات مراد لی جاتی ہے، جیسے : ع
ہے دوست وہ ، جو دوست کی خاطر جلائے دل
اگر چہ اس شعر میں دوست کا نام نہیں ہے لیکن شاعر یہ تعریض کر رہا ہے کہ دوست !تم حقیقی دوست نہیں ہو۔
(۹)محاورہ: دو یادوسے زیادہ لفظوں کا وہ مجموعہ ہے ، جو اپنے معنی حقیقی سے مل کر معنی مجازی میں بولا جاتاہے ،جیسے : بال بیکا کرنا : نقصان پہچانا ، آب و دانہ اٹھنا : موت آنا۔
(۱۰)ضرب الامثال: ایسے جملے کو کہا جاتاہے، جس کا لفظی معنی کچھ اور ہو اور مطلب کچھ اور ہو ، جیسے: گھر کی مرغی دال برابر ۔ اس کامطلب ہے کہ گھر کی چیزوں کی قدر کم ہوتی ہے ، اس کو ’کہاوت‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ ضرب الامثال میں تغیر جائز نہیں ہے ۔اسے اس کے پس منظر کے مشابہ واقعہ میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
علم معانی
علم معانی سے مراد وہ علم ہوتا ہے جس میں مقتضائے حال (موقع ومحل)اور مخاطب کی حالت کے اعتبار سے کلام کرنے کے طریقے بیان کیے جاتے ہیں، مثلاً: مخاطب کو جو بات آپ کہنا چاہتے ہیں ۔اگر وہ اس سے بالکل ناواقف ہے، تو اس موقع پر کلام کو بغیر کسی تاکید کے لایاجائے گا ۔ اور اگر مخاطب کو اس میں شک وشبہ ہورہا ہے، تواس موقع پر کلام میں تاکید ی الفاظ لاناہوگا، اور اگر مخاطب سرے سے آپ کی بات کا انکار کررہا ہے،تو اس موقع پر مؤکد کلام کرنا ضروری ہے ۔ موقع اور مقتضائے حال کے مطابق کلام کرنے کی تین صورتیں ہیں: (۱)مساوات(۲)ایجاز(۳)اطناب۔
(۱)مساوات : اس کا مطلب یہ ہے کہ معنی اور مفہوم کی ادائیگی کے لیے جتنے الفاظ کی ضرورت ہو اتنے ہی الفاظ لائے جائیں ۔ الفاظ مفاہیم سے نہ کم ہوں، نہ زیادہ ، جیسے :
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا
اس میں مفہوم کی ادائیگی کے لیے جتنے الفاظ کی ضرورت تھی،اتنے ہی الفاظ لایے گئے ہیں۔الفاظ مفہوم کو ادا کرنے کے لیے نہ کم ہیں نہ زیادہ۔
(۲)ایجاز: اس کامطلب یہ ہے کہ جتنے مفہوم کی ادائیگی کی ضرورت ہو ، الفاظ اس سے کم ہوں ، لیکن وہ معنی مقصود کو کما حقہ ادا کر رہے ہوں ، بہ الفاظ دگر: الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں ، جیسے:
اس بزم جنوں کے دیوانے ہر راہ سے،پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے دیوار چمن سے زنداں تک
اس شعر میں دریا ئے مفہوم کو کوزۂ الفاظ میں سمو دیا گیا ہے ، اور الفاظ ان مفہوموں کو کماحقہ ادا کر رہے ہیں۔
(۳) اطناب:اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی بات کہنی ہو ، الفاظ اس سے زائد ہوں،بہ الفاظ دگر: معانی کم اور الفاظ زیادہ ہوں ، جیسے :
اچھا جو خفا ہوتے ہو تم اے صنم اچھا
تو ہم بھی نہ بولیں گے خدا کی قسم اچھا
اس میں لفظ ’اچھا ‘ کاتکرار معنی مقصود سے زائد ہے ،اس لیے کہ اگر اس میں ایک لفظ اچھا کو حذف کردیں ، تومعنی کی ادائیگی میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔لیکن یہ ملحوظ خاطر رہے کہ اس میں زیادتی بے مقصد نہیں ہوتی ہے ، بلکہ اس کا بھی کچھ مقصد اور فائدہ مطلوب ہوتا ہے ، جیساکہ اس شعر میں تکرار تاکید کا فائدہ دے رہاہے۔
علم بدیع
علم بدیع وہ علم ہے، جس کے ذریعے فصیح و بلیغ کلام کو خوب بصورت اور مؤثر بنانے کے طریقے معلوم ہوتے ہیں اور مقام وحال کے تقاضے کے مطابق کلام پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی اردو میں کثیر الاستعمال ا قسام درج ذیل ہیں :
(۱)توریہ: یہ ہے کہ ایک ایسا لفظ بولا جائے ،جس کے دو معنی ہوں: ایک قریبی معنی، کہ لفظ بولتے ہی یہ معنی ذہن میں آجائے ۔ دوسرا دور کے معنی، جو فوراً ذہن میں نہ آئے اور قریبی معنی کو چھوڑ کر دور کے معنی مراد لیے جائیں، جیسے :
بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا
اس میں ’سایہ‘ کے قریبی معنی’چھاؤں‘( دھوپ کی ضد) اور معنی بعید’ حمایت‘ہے ۔ اور یہی شاعر کی مراد ہے۔
(۲)افتنان: یہ ہے کہ دوالگ الگ فنوں کوایک کلام میں جمع کر دیا جائے ، مثلاً : ایک ہی ساتھ مدح بھی کی جائے اور ہجو بھی ، جیسے:
یوں تو سید بھی ہو ، مرزا بھی ہو ،افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
اس کے پہلے مصرع میں مدح ہے اور دوسرے میں ہجو ہے ۔
(۳)مبالغہ: کسی صفت کے بارے میں اتنی زیادتی یاکمی کا دعوی کرناکہ وہ محال یا بعید از عقل معلوم ہونے لگے ، ’مبالغہ‘ کہلاتا ہے، جیسے :
ناتواں ایسا ہوں گر سایہ پڑے دیوار کا
پڑے گویا کہ سقفِ آسماں بالائے سر
اس میں اپنی کمزوری کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے کہ دیوار کے سائے کا بوجھ بھی برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے، جو نہ تو عادتا ایسا ہونا ممکن ہے اور نہ ہی عقلا اسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
(۴)اقتباس : یہ ہے کہ نظم یا نثر میں قرآن کریم یا حدیث شریف کا کوئی ٹکڑا لایا جائے اور یہ وضاحت نہ کی جائے کہ یہ قرآن کا کوئی ٹکڑا ہے یا حدیث کا کوئی جز ہے ، جیسے :
دھوپ کی تابش آگ کی گرمی
’’وَقِنَا رَبَّنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘
سچ ہے ’’الحرب خدعۃ‘‘ اے ذوق
آنکھ اس کی دعا سے لڑتی ہے
پہلے شعر میں قرآن مجید سے اور دوسرے شعر میں حدیث پاک سے اقتباس ہے ۔اور دونوں شعروں میں قرآن وحدیث سے ہونے کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
(۵)تضمین : یہ ہے کہ شاعر اپنے شعر میں دوسرے شاعر کے شعر کا کچھ حصہ ذکر کر ے ، اور اگروہ شعر مشہور نہ ہو ، تو یہ بھی وضاحت کردے کہ یہ فلاں کا شعرہے یافلاں کا مصرع ہے ، جیسے : ڈاکٹر کلیم عاجزؔ کے یہ شعر:
مقطع میں اور کچھ مجھے کہنا نہیں ہے ہاں
غالبؔ کا شعر پڑھ دوں اجازت اگر ملے
’’ساقی گر ی کی شرم کرو آج ورنہ ہم
ہرشب پیاہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے‘‘
(۶) عقد : اس کا مطلب یہ ہے کہ نثر کو نظم بنادی جائے ، جیسے :
سفر جو کبھی تھا نمونہ سقر کا
وسیلہ ہے اب وہ سر اسر ظفر کا
اس میں ’السفر و سیلۃ الظفر‘کو شعر کے قالب میں ڈھال دیا گیا ہے ۔
(۷)حل : اس کو کہتے ہیں ،جس میں نظم کو نثر بنا دیا جاتا ہے ، جیسے :
توریت کی قسم ، قسم انجیل کی تجھے
تجھ کو قسم زبور کی، قرآن کی قسم
یہ انشاؔ کا شعر ہے۔ اس شعر کومرزا غالب ؔ نے اس طرح حل بنا دیا ہے: ’’ بھائی قرآن کی قسم ،انجیل کی قسم ، توریت کی قسم، زبور کی قسم‘‘ ۔
(۸)تلمیح : ایسے کلام کو کہا جاتا ہے جس میں میں کسی آیت، حدیث، شعر ،قصہ یا کہاوت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ، جیسے :
دشت تو دشت رہا دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
اس شعر کے دوسرے مصرع میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے، جس میں مدائن فتح کرنے کے لیے حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے دریا میں گھوڑے ڈال دیے تھے اوربہ آسانی پار کر گئے تھے۔
(۹)تجنیسِ تام: اس سے مراد یہ ہے کہ شعر میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں، جن کا تلفظ تو ایک ہو، لیکن معنی مختلف ہوں،جیسے:
سب سہیں گے ہم اگر لاکھ برائی ہوگی
پر کہیں آنکھ لڑائی تو لڑائی ہوگی
اس شعر میں پہلی لڑائی سے آنکھ ملانا اور دوسری لڑائی سے لڑائی جھگڑا مراد ہے۔
(۱۰)اشتقاق:اس کلام کو اشتقاق کہتے ہیں،جس میں ایسے الفاظ لائے جاتے ہیں، جوسب ایک ہی مادے سے مشتق ہوتے ہیں، جیسے:
تو مرے حال سے غافل ہے پراے غفلت کیش
تیرے اندازِ تغافل نہیں غفلت والے
اس میں غافل، غفلت اور تغافل استعمال کیے گئے ہیں اور سب کا مادہ ایک ہے۔
(۱۱)تکرار: اس میں ایک ہی لفظ کو شعر میں بار بار لایا جاتا ہے ، جیسے:
ہم کو شکایتوں کے مزے آہی جاتے ہیں
سن سن کے دل ہی دل میں وہ شرمائے جاتے ہیں
اس میں سن اور دل مکرر لائے گئے ہیں جن کی صوتی تکرار سے شعر میں نغمگی پیدا ہو گئی ہے۔
(۱۲) متتابع:اس صنعت کا نام متتابع ہے ،جس میں بات سے بات نکالی جاتی ہے، جیسے:
جی جلائیں کیوں نہ میرا یہ بتانِ سنگ
دل ظفرؔ ان کا ہے پتھر اور پتھر میں ہے آگ
اس میں لفظ پتھر سے ایک دوسری بات :’’پتھر میں ہے آگ ‘‘نکالی گئی ہے۔
(۱۳)قلب: قلب سے مرادوہ صنعت ہے، جس میں دو الفاظ ایسے لائے جاتے ہیں کہ ایک لفظ کے حروف پلٹنے سے دوسرا پہلا لفظ بن جاتاہے، جیسے،
رات بھر مجھ کو غمِ یار نے سونے نہ دیا
صبح کو خوفِ شبِ تار نے سونے نہ دیا
اس شعر میں لفظ رات کو پلٹنے سے تار اور لفظ تار کو پلٹنے سے رات بنتا ہے۔
(۱۴)طباق:اس کا مطلب یہ ہے کہ کلام میں ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں،جو معنوی طور پر ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں ، جیسے:
گاہ جیتا ہوں گاہ مرتا ہوں
آنا جانا تیرا قیامت ہے
اس شعر میں جینا مرنا اور آ نا جانا متضادالفاظ ہیں۔
(۱۵)تجاہل عارف: اس سے مرادیہ ہے کہ انداز کلام اس طرح اختیار کیا جائے کہ کسی بات کو جانتے ہوئے بھی لا علمی کا اظہار ہوتاہو، جیسے:
صنم سنتے ہیں تیری بھی کمر ہے
کہاں ہے، کس طرف کو ہے، کدھر ہے
(۱۶)لف ونشر: اس صنعت کا نام لف و نشر ہے،جس میں پہلے چند چیزوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ، پھر ان کے منا سبات بیان کیے جاتے ہیں ،جیسے:
تیرے رخسار وقدوچشم کے ہیں عاشقِ زار
گل جدا، سرو جدا، نرگسِ بیمار جدا
اس کے پہلے شعر میں رخسار، قد اور چشم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔بعد ازاں گل، سرو اور نرگس کے الفاظ لائے گئے ہیں، جو ان کے مناسبات ہیں۔
(۱۷)حسنِ تعلیل: اس سے مراد یہ ہے کہ کلام میں کسی چیز کی اصلی اور حقیقی علت بیان کرنے کے بجائے کوئی اور علت بیان کیا جائے، جیسے:
نکلا ہے لالہ خاک کے نیچے سے سرخ سرخ
رنگین ہواشہیدوں کے خوں میں نہاں نہاں
اس میں لالہ کے سرخ ہونے کی وجہ، حقیقی علت (اس کا فطری طور پر سرخ ہونے )کے بجائے شہیدوں کے خون میں نہاں ہونا بیان کیا گیا ہے۔
(۱۸)عکس: عکس اس صنعت کا نام ہے،جس میں کلام کے بعض اجزا کو آگے پیچھے کر کے دوسرا فقرہ یا مصرع بنا لیا جاتا ہے، جیسے:
ہم ہیں اس کے خیال کی تصویر
جس کی تصویر ہے خیال اپنا
اس کے پہلے مصرع میں کچھ ردوبدل کر کے دوسرا مصرع بنا لیا گیا ہے۔
اسلوب کی تین قسمیں ہیں : (۱)علمی (۲) ادبی(۳)خطابی۔
(۱)اسلوب علمی
اس اسلوب کو کہا جاتاہے،جس میں پوشیدہ علمی حقائق کی تشریح اور کسی موضوع پر حوالہ جات کے ساتھ علمی و تحقیقی انداز میں بحث کی جاتی ہے ۔اس اسلوب میں عقل و فکر کو مخاطب بنا یا جاتا ہے اور سہل و سلیس عبارت اور مثبت انداز اختیار کیا جاتا ہے ۔حتی الامکان شعری خیالات اور مجاز و کنایات سے اجتناب کیا جاتا ہے ۔
(۲)اسلوب ادبی
یہ ایسا اسلوب ہے جس میں انتہائی خوب صورتی اور عمدگی کے ساتھ نہایت لطیف، د ل کش اور ادبی پیرایۂ بیان میں کوئی بات کہی جاتی ہے ، اسلوب ادبی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں محسوسات کومعنویات کا یا معنویات کو محسوسات کا لبادہ اڑھا کر کو ئی بات بیان کی جاتی ہے۔
(۳) اسلوب خطابی
ایسا اسلوب ہے ،جس میں خطیب اپنے سامعین کے مطابق وضاحت اور قوت کے ساتھ کوئی بات کہتا ہے ۔ تکرار الفاظ ، مترادفات کا استعمال ، حکایات و امثال کا بیان اور دلائل و براہین سے اپنی بات کو مدلل کرنا اس اسلوب کی خاص خصوصیا ت ہیں ۔نیز سامعین کے دلوں میں خطیب کی قدر و منزلت ، تقوی و للہیت ،طلاقت لسانی ، چرب بیانی، شیریں گفتار ،آواز کا اتار چڑھاؤ اور ٹھوس اشارے اس اسلوب کی تاثیر کو بڑھا تے ہیں ۔