8 Apr 2018

مقالہ نگاری کے چند رہ نما اصول


قسط نمبر (16) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
مقالہ نگاری کے چند رہ نما اصول 
افہام و تفہیم اور اظہار ما فی الضمیرکے دو طریقے ہیں : تحریر اور تقریر ۔ تقریر وقتی اور غیر پائدار ہوتی ہے، جب کہ تحریر دیر پااور ہمیشہ رہنے والی چیز ہے۔ تقریر کا اثر و رسوخ محدود اور مختصر ہوتاہے ، جب کہ تحریر کادائرۂ اثر بہت وسیع اور حلقۂ تاثیر نہایت کشادہ ہے ۔ تقریر میں کم مطالعہ سے بھی کام چل جاتا ہے، جب کہ تحریر مطالعہ میں وسعت چاہتی ہے۔ تقریر کسی جوش و جذبے کی پیداوار ہوتی ہے ، جب کہ تحریر نہایت عرق ریزی سے کیا ہوا مطالعے کا نچوڑ اور عقل وفکر کی کاوش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس لیے تحریر کے لیے مطالعہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، لہذا مطالعے میں جتنی گہرائی و گیرائی ہوگی ، تحریر بھی اتنی ہی عمدہ اور معیاری ہوگی ۔
مطالعے کی اہمیت و افادیت اس درجہ مسلم ہے کہ اس حوالے سے کچھ لکھنے کی چند اں ضرورت نہیں ہے ، کیوں کہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کسی بھی علم و فن کا دارومدارسراسر مطالعے پر ہے ۔اسی وجہ سے کہاگیا ہے کہ’’مطالعہ روح علم کے لیے غذا کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔ 
’’مطالعے کی اہمیت و افادیت ہمیشہ اور ہر دور میں مسلم رہی ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی نقطۂ نظر یا مدرسۂ فکر کو کوئی اختلاف نہیں ، بلکہ مطالعہ ہی سے نقطہ ہائے نظر اور مدارس فکر کی شناخت ہوتی ہے ۔ اور مطالعہ ہی کی مدد سے ان کے روشن یا تاریک پہلو سامنے آتے ہیں ۔سماج یا معاشرہ کی تعمیر و تطہیر میں مطالعہ کا بڑا اہم اور واضح رول ہوتا ہے ۔دنیا کی تمام مخلوقات میں انسان کے شرف و تفوق کی بنیاد علم پر ہے، اور علم صرف مطالعہ ہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس صورت میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مطالعہ انسا نی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ، اور مطالعہ کے بغیر انسان اپنی اس منزل کو نہیں پا سکتا ، جس کے لیے خالق کائنات نے اس کی تخلیق فرمائی ہے ۔بعض دانش وروں کے نزدیک جو اہمیت انسانی زندگی کے لیے پانی ، ہوا اور غذا کی ہے ، وہی اہمیت مطالعے کی بھی ہے۔ اس لیے کہ پانی ،ہوا اور غذا سے جسم انسانی کو نشو و نما ملتی ہے، اور مطالعہ سے ذہن و فکر میں گیرائی و بالیدگی اور روح میں تازگی و روشنی پیدا ہوتی ہے ‘‘ 
(میرا مطالعہ،ص؍۷)
’’ بصیرت و استدلال کو جلا دینے کا ایک اہم وسیلہ مطالعہ ہے۔ انسان مطالعہ کرتا ہے ، تو اپنی جستجو کی تسکین بھی کرتا ہے ۔وہ بہتر سے بہتر کی تلاش کرتا ہے ، اور زندگی کے زیادہ روشن راستوں پر گامزن ہوتا ہے ‘‘ ۔ (ایضا،ص؍۱۳۲)
ذیل میں مطالعہ کرنے اور مقالہ لکھنے کے چندزریں اصول لکھے جاتے ہیں ، انھیں بغور پڑھیں ، اور ذہن میں محفوظ کر لیں ۔
(۱)مطالعہ کے لیے سب سے بنیادی چیز کتاب کا انتخاب ہے۔ آج کل طباعت کی سہولت کی وجہ سے بری بھلی اور مفید و مضر ہر طرح کی کتابیں اور رسائل شائع ہو رہے ہیں ، اس لیے کتاب کا انتخاب نہایت نازک مسئلہ بن گیا ہے، لہذا اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ آپ ایسے مربی اور اساتذہ سے مشورہ لیں ، جو مطالعے کا ذوق اور انتخاب کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اور مشیر ومربی کو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ طلبہ کے ذوق اور ان کی دل چسپیوں کو پیش نظر رکھ کر کسی فن یا موضوع کو منتخب کریں ۔
(۲) اگر آپ خود بالغ نظر ہیں اور صحیح غلط اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، تواپنے ذوق و میلان اور ذاتی دل چسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی کتاب کا انتخاب کریں ، جو اچھے اور اچھوتے مضامین پر مشتمل ہو، اور کسی بڑے ادیب کی لکھی ہوئی کوئی ادبی کتاب ہو ۔ یاد رکھیے کہ ہر کتاب قابل مطالعہ اور مقالہ نگاری سیکھنے کے لیے لائق استفادہ نہیں ہوتی ۔ اس لیے اس سلسلے میں کسی قلم کار یااپنے استاذ سے مشورہ لے لینا ہی بہتر ہے، اور ان کے مشورے پر عمل کرناہی زیادہ کا ر آمد ہے۔
’’مطالعہ اتنا آسان نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے بغیر کسی ترتیب کے پڑھنا شروع کر دے۔ یہ دودھاری تلوار ہے۔ اگر اس کا صحیح استعمال نہ ہوا ، تو وہ نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ یہ ایک پل صراط ہے ، اس پر بہت سبک روی اور بہت احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے اپنے اساتذہ سے مشورہ کیجیے‘‘۔ (پاجا سراغ زندگی،ص؍۸۵)۔ 
(۳)مطالعہ کرنے کا مفید طریقہ یہ ہے کہ عبارت کو نہایت توجہ اور دل جمعی کے ساتھ پڑھی جائے ، اور دوران مطالعہ نظر سے گذرنے والے ہر لفظ پر خوب غور و فکر کیا جائے ۔عبارت کو مکمل گرفت میں لینا اور جملے کا پورا پورا مفہوم اخذ کرنا ایک کامیاب اور مفید مطالعے کے لیے ضروری ہے۔
کیفیت کے بجائے کمیت میں مطالعہ چنداں مفید نہیں، یعنی صرف صفحات کی تعداد بڑھانے کو مطالعہ سمجھنا ، اور کیفیتِ مطالعہ کو پیش نظر نہ رکھنا ، مطالعہ کے ساتھ ناانصافی ہے ، کیوں کہ صرف سرسری نگاہ دوڑ انے اور صفحات کی تعداد بڑھانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔اس لیے کمیت میں خواہ ایک ہی صفحہ کیوں نہ ہو، لیکن مطالعہ مذکور ہ بالا کیفیت کے ساتھ ہی ہونا چاہیے ، ورنہ صرف وقت ضائع کرنے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔
(۴) مطالعہ کے دوران جو جو اچھی تعبیرات اور مفید باتیں نظر سے گذریں ،ان سب کو ایک کاپی میں نقل کرتے جائیں ،اور ساتھ ہی انھیں ذہن میں بھی محفوظ کرتے چلیں ۔( اس طرح سے آپ کے پاس الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہو جائے گا )۔ایسا نہ کریں کہ کاپی میں نقل کر لینے کے بعد انھیں طاق نسیان میں رکھ دیں اور نقل بے سود ہو جائے۔
’’کار آمد مطالعہ کے لیے ضروری ہے کہ جو بھی اہم کام کی بات یاد رکھنے کے قابل بات، ہمیں دورانِ مطالعہ معلوم ہو، ا سے کاپی یا کسی کاغذ کے پرزے پر ہی نوٹ کر لیں ، کیوں کہ انسانی حافظے کے چاہے وہ کتنا ہی قوی ہو، اپنے حدود ہوتے ہیں‘‘۔ (میرا مطالعہ،ص؍۱۶۰)۔
(۵) اس خیال سے یادکرناترک نہ کریں کہ یادکیاہوابھول جائیں گے، اس لیے جب ضرورت پڑے گی، کاپی سے نقل کر لیں گے؛ کیوں کہ
’’کہتے ہیں کہ کوئی پڑھی ہوئی چیز خواہ بھلادی جائے ،بے کارو بے اثر نہیں رہتی ، اپنا اچھا بر اثر ضرور کرتی ہے‘۔‘ (میری علمی و مطالعاتی زندگی،ص۱۲)۔
(۶)ان تعبیرات کو اپنی تحریر اور روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کرنے کی کوشش کریں، تاکہ وہ زبانِ قلم اور زبانِ لحم دونوں پر رواں دواں ہو جائیں ، اور ان کو صحیح مقام پر برتنے کا ڈھنگ بھی آ جائے۔
(۷) دورانِ مطالعہ جب کوئی بات اول وہلہ میں سمجھ میں نہ آئے ،تو اس پر باربار غور و فکر کریں۔اگر اس کے باوجود سمجھ میں نہ آئے ، تو اس کو چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں ( تاکہ آپ کا غوروفکر میں مزید وقت ضائع نہ ہو) کیوں کہ کبھی ایسا ہوگا کہ آگے کے مطالعے سے خود بخود سمجھ میں آ جائے گا؛ لیکن اگر خود بخود سمجھ میں نہ آئے، تو پھر کسی اہل علم سے رجوع کریں ، اور اس مسئلے کو سمجھے بغیر نہ چھوڑیں ۔
(۸) جب آپ ایک عنوان مکمل کر لیں ،توکتاب بند کر کے اس کے مفہوم پر غور و فکر کریں ، پھر اسے اپنے الفاظ میں اختصار کے ساتھ دہرائیں۔ اگر یہ اعادہ بہ آ واز بلند ہو، تو زیادہ بہتر ہے ۔
(۹) مذکورہ بالا مراحل طے کر لینے کے بعد اب کاپی اور قلم لے کر بیٹھ جائیں اور ذہن کے نہا خانہ میں محفوظ مواد و میٹر کو اپنی بے تکلف اور سادہ زبان میں صفحۂ کا غذ پر منتقل کریں ،انھیں اپنے الفاظ میں ڈھالیں ۔ اس سلسلے میں تکلف، بناوٹ اور عبارت آرائی سے پر ہیز کریں اور فطری طور پر لکھنے کی کوشش کریں ، اگر ہو سکے تو اس پر ذاتی تأثر اور تبصرہ بھی لکھیں۔
(۱۰)بہتر ہے کہ پہلے مضمون کو اجزا میں تقسیم کر لیں،پھر ہر جز کو مناسب ترتیب کے مطابق لکھیں، مثلاًآپ کسی کی’’شادی کی تقریب‘‘پر لکھنا چاہتے ہیں،تو اس طرح اجزا نکالیں:(۱) تمہید(۲) گھر، سڑک اور شادی ہال کی آرائش وزیبائش(۳)بارات کی آمد(۴)دلہن کی رخصتی کے مناظر(۵)تقریب کا ذاتی تأثر۔پھر ان کو ان کے ترتیب وجودی کے مطابق لکھیں۔
(۱۱)ہر جز کو لکھنے کے وقت پیرا گراف بد لیں اور نئی سطر سے لکھیں،اور تمام اجزا کے درمیان ربط و تسلسل برقرار رکھیں۔ایسا محسوس نہ ہو کہ مختلف ’’تراشے‘‘جمع کر دیے گئے ہیں۔
(۱۲)مضمون لکھتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ موضوع کا کوئی گوشہ تشنہ نہ رہ جائے،بلکہ تمام گوشوں کا احاطہ اور ہر گوشے کی مکمل وضاحت کریں۔
(۱۳)کبھی تو آپ فوراً لکھ لیں گے،اور ایسا محسوس کریں گے کہ آپ کے قلم میں روانی آگئی ہے؛لیکن کبھی ایسا بھی ہوگا کہ قلم کی روانی رک جائے گی اور بہت زیادہ غور وفکر کرنے کے بعد بھی کچھ سمجھ میں نہیں آئے گا،بس یہی سوچتے رہ جائیں گے کہ کیا لکھیں؟کس طرح شروع کریں؟لیکن اس کیفیت سے گھبرانے یا اکتاہٹ محسوس کرنے کی با لکل ضرورت نہیں ہے،کیوں کہ شروع شروع میں ہر نو آموز کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔اگر کبھی ایسا ہو؛تو لکھنا مؤخر کردیں،اور دل ودماغ تروتازہ ہونے کے بعد کسی دوسرے وقت میں اسے لکھنے کی کوشش کریں۔
(۱۴)اگر دوسرے وقت میں بھی بسیار کو شش کے باوجود اسی طرح کی کیفیت برقرار رہے ، تو ایسی صورت میں کتاب سامنے رکھ لیں ، اور اس کے مضمون کی تلخیص ، عنوان میں تبدیلی اور ترتیب وتنسیق میں ’’الٹ پھیر‘‘ اور ’’ہیرا پھیری‘‘ کرکے مقالہ تیار کریں۔اور یہ عمل اس وقت تک جاری رکھیں ؛ جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو جائے کہ آپ کتاب بند کر کے لکھ سکنے لگیں۔ 
’’دس بیس مضامین کے ساتھ ’’ہیرا پھیری‘‘ کا یہ عمل ، آپ کے قلم کو ایسا حوصلہ دے گا کہ آپ راہ نگارش پر آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ ‘‘ ۔ (حرف شیریں،ص؍۵۵)۔ 
(۱۵)کبھی ایسا بھی ہوگا کہ آغاز مضمون میں قلم خوب چلے گا؛ لیکن دوران مضمون یا اختتام میں ذہن و دماغ سے مواد عنقا ہوجائے گا اور بہت زیادہ سوچنے کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ کیا لکھیں؟ اور مضمون کس طرح پورا کریں؟ ایسی صورت میں کتاب کی طرف دوبارہ مراجعت کریں ، اور مضمون کو آگے بڑھائیں۔ 
(۱۶) اور کبھی ایسا بھی ہوگا کہ بعینہ مطالعہ کے الفاظ وتعبیرات نوک قلم پر آئیں گے، اور ان کے علاوہ کوئی لفظ یا تعبیر ذہن میں نہیں آئے گی۔ اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہو جائے ، تو اس سے کوئی حرج نہیں ، انھیں الفاظ و تعبیرات کے ساتھ مضمون مکمل کریں ۔ 
’’جو کچھ مطالعہ کیا جائے ، اس کو اپنی بے تکلف زبان میں لکھ لیا جائے، اگر مطالعہ کردہ کتاب یا مضمون کی عبارت کہیں بیچ میں آجائے، تو کوئی حرج نہیں اور نہ آئے تب بھی کوئی نقصان نہیں‘‘۔
(ایضا،ص؍۵۳) 
(۱۸)اس کے بعد مضمون کو ایک ’اصلاح کی کاپی‘ میں نقل کریں، نقل کے دوران بھی کچھ کانٹ چھانٹ کی ضرورت محسوس کریں، تو کانٹ چھانٹ کریں ۔ اوراگرنئی نئی باتیں ذہن میں آئیں ، تو انھیں بھی شامل مضمون کرلیں، اور نہایت صاف ستھرے اور خوش خط انداز میں لکھنے کے بعد اصلاح کے لیے پیش کریں۔ 
(۱۹) یاد رکھیں کہ تحریر سیکھنے کے لیے کسی استاذ کی رہ نمائی ضروری ہے،کیوں کہ کوئی بھی فن سیکھنے کے لیے تجربہ کار، صاحب نظر اور پختہ کار ماہر فن سے رجوع کرنا ناگزیر ہے، اگر کو ئی بغیر کسی استاذ کی رہ نمائی کے سیکھ بھی لیتا ہے، تو اس کا نقصان یہ ہو تاہے کہ جو غلطیاں اس کے اندر ہوتی ہیں ، وہ کبھی دور نہیں ہوپاتیں، بلکہ اورپر وان چڑھ جاتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ غلطیوں کی اصلاح تو اس وقت ممکن ہے جب کہ غلطیوں کا احساس ہو، اور غلطیوں کا احساس بغیر کسی کے احساس دلائے ممکن نہیں، اور احساس دلانے والے ہی کانام استاذ ہے۔اس لیے تحریر سیکھنے کے لیے کسی ایسے استاذ کو رہ نما اور مصلح بنائیں، جو اسلام کے صحیح فکر کے حامل ہوں، تقویٰ وطہارت کے صفات سے متصف ہوں، مطالعہ کا ذوق رکھتے ہوں ، میدان قلم کے شہسوار ہوں، خیر خواہ اور تجربہ کا رہوں،آفاقی ذہن کے مالک ہوں اورر جال کاری کی بھرپور صلاحیت ان کے اندر موجود ہو۔
(۲۰)اصلاح میں کبھی تو ایسا ہوگا کہ استاذ کہیں چھوٹی اور کہیں بڑی عبارتیں قلم زد کردیں گے ، اور ان کی جگہ کہیں کچھ لکھیں گے اور کہیں نہیں بھی لکھیں گے ۔ اور کبھی ایسا ہوگا کہ جو حصہ آپ نے نہایت عرق ریزی سے لکھا ہوگا اور وہ آپ کے نزدیک سب سے پسندیدہ ہوگا ، وہی حصہ کاٹ دیں گے۔ بسا اوقات اس سے آپ ناگواری بھی محسوس کریں گے؛ لیکن اس سے شکستہ دل ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ، کیوں کہ جب آپ اس فن میں مہارت پیدا کرلیں گے ، اور اپنے ان ابتدائی مضامین کو دیکھیں گے، تو معلوم ہوگا کہ استاذ کی کاٹ چھانٹ بالکل بر محل تھی ، بلکہ آپ خود اپنے طور پر تراش خراش کی ضرورت محسوس کریں گے۔ 
(۲۱)کوئی بھی فن یا زبان سیکھنے کے صرف دوطریقے ہیں ، اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں: (۱)بنیادی قواعد سے واقفیت (مطالعہ بھی اسی میں شامل ہے) ۔(۲) مشق و تمرین۔
مطالعے کے بارے میں آپ کو معلوم ہی ہوگیا کہ وہ تحریر سیکھنے کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے؛ لیکن مشق اس سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے،کیوں کہ تجربہ شاہد ہے کہ بہت سے لوگ جو قواعدمیں بہت زیادہ ماہر ہوتے ہیں ، لیکن مشق نہ کرنے کی وجہ سے عملی سطح پر بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں، اور بہت سے لوگ جو قواعد سے کم ہی واقف ہوتے ہیں، لیکن مشق وتمرین کی بدولت ان سے بہتر لکھتے اور بولتے ہیں۔ 
اس لیے مطالعہ تو لازمی طورپر روز بلا ناغہ کریں، اور ممکن ہوتو ایک معین مقدار روزانہ لکھنے کی کوشش کریں ۔ اگر ہر روز ممکن نہ ہو، تو ہفتہ میں کم سے کم ایک مضمون ضرور لکھیں، اور اس سے زیادہ تاخیر نہ کریں، کیوں کہ آپ جتنے فاصلے سے مضمون لکھیں گے ، تعلم کا زمانہ بھی اتنا ہی دراز ہوتا چلا جائے گا، مزید برآں کبھی کبھار لکھنے سے فکر میں انجماد اور تعطل پیدا ہوجاتا ہے اور قلم میں خشکی جڑ پکڑ لیتی ہے۔ 
(۲۲)لکھنے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیں، بلکہ جب بھی موقعہ ملے ، اور جیسا بھی عنوان ہاتھ آئے ، اس پر ضرورلکھیں ،اس سے آپ کی تحریر سدھرے گی،اس میں نکھار پیدا ہوگاا ور آپ کی بصیرت کو جلا ملے گی۔ 
(۲۳)آخر میں یہ عرض کردینا مناسب سمجھتاہوں کہ آج کل نئے افسانوں اور جدید ناولوں کا مطالعہ انتہائی انہماک سے کیا جاتاہے، اور یہ سمجھا جاتاہے کہ ان سے بھی ادب آتی ہے، اور معلومات میں اضافہ ہوتاہے،ان باتوں سے یک قلم انکار تو نہیں کیا جاسکتا ،تاہم پریشانی کی بات یہ ہے کہ آج کل کے اکثر افسانیں اور ناولیں فحش ، گندے اور مخرب اخلاق ہوتے ہیں۔ نیز ان کے مطالعے سے معلومات کم اور وقت زیادہ ضائع ہوتاہے، اور ان میں سے اکثر معیاری ادب کے بھی نہیں ہوتے، اس لیے اس سے زیادہ بہتر تویہ ہے کہ کسی دینی اور ادبی رسائل وجرائد کا مطالعہ کیا جائے ، یاسیرت کی کتابوں کو پڑھا جائے۔اور اگر افسانوں کو پڑھے بغیر چین نہ آئے، تو پھر پرانے ادیبوں کی لکھی ہوئی داستانوں اورافسانوں کا مطالعہ کیا جائے ۔جن سے معلومات بھی زیادہ حاصل ہوں گی، اور ادبی سرمایہ بھی زیادہ ہاتھ آئے گا؛ لیکن خیال رہے کہ صرف تفریحی ادب کا مطالعہ بھی نقصان دہ ہے۔ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ رقمطراز ہیں کہ :
’’محض تفریحی ادب کے مطالعے سے ذہن میں سطحیت ، علم اور فکر میں بے مغزی اور معلومات میں تہی مائیگی پیدا ہوتی ہے، اور ایسا آدمی کوئی وقیع اور مؤثر کام نہیں کرسکتا ، تفریحی ادب کا وہی حصہ ہونا چاہیے، جونمکیات وفواکہ کا ہوتا ہے‘‘ ۔ (میری علمی ومطالعاتی زندگی، ص؍۵۲)۔ 
معیاری مضمون کی پہچان
سابقہ باتوں کی روشنی میں جب آپ کچھ دنوں مشق کرلیں گے، تو آپ کو یہ خوش فہمی ستانے لگے گی کہ ’’میں اب معیاری مضمون لکھنے لگا ہوں‘‘؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی کاوش اور اپنی تخلیق سب سے اچھی معلوم ہوتی ہے، اس لیے صرف آپ کے اپنے مضمون کو معیاری سمجھ لینے سے وہ معیاری نہیں ہوجائے گا، جب تک کہ وہ ’’اصول معیار‘‘ پرپورے نہ اترے ۔ اس لیے ذیل میں اس حوالے سے چند باتیں درج کی جارہی ہیں، جن کی روشنی میں آپ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ کا مضمون معیاری ہے یانہیں ؟ 
مضمون میں تین چیزیں ہوتی ہیں: (۱)الفاظ (۲)معانی (۳)پیراےۂ بیان۔
(۱)الفاظ: مضمون ایسے فصیح وبلیغ الفاظ پر مشتمل ہونے چاہیے، جوعام فہم اور سہل ہوں ، متروک الاستعمال نہ ہوں ، نفس مطلوب کوبہ خوبی اداکررہے ہوں۔اور جس مقام پر وہ استعمال کیے جارہے ہوں، اس مقام پر مکمل طورپر منطبق ہورہے ہوں۔ 
یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ آج کل کے اردوادب میں قدیم زمانے کی طرح عربی وفارسی الفاظ کی کثرت اچھی نہیں سمجھی جاتی۔ اس لیے اس سے گریز کرنا چاہیے۔ 
(۲)معانی: معانی فرسودہ اور فلسفیانہ نہ ہوں، بلکہ مقتضائے حال کے مطابق نہایت لطیف، عمدہ اور سریع الفہم ہوں، اور جامع ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں ندرت اور بانکپن بھی پایا جاتاہو۔
(۳) پیراےۂ بیان: پیراےۂ بیان اس قدر دل کش، د ل نشیں اور مؤثر ہونا چاہیے کہ پڑھنے سے قاری کو لذت محسوس ہونے لگے اور اس کے دل ودماغ پر خوشگوار اثرمرتب کرے۔ 
مضمون میں یہ صفات وخصوصیات اس وقت پیداہوں گی جب کہ مضمون لکھتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے : 
(۱)ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں، جو معنی مقصود کو مکمل وضاحت کے ساتھ ادا کرسکیں، نیز جملے ادق اور گنجلک نہ ہوں۔اسی طرح مضمون بے شمار معترضہ جملے اور لاتعداد ضمائر (اِن ، اُن، اُس، اِس، اُنھوں، جنھوں، کنھوں وغیرہ) کے التباس سے پاک ہو۔ 
(۲)قواعد کی غلطیاں نہ ہوں اور معنی مطلوب کو ادا کرنے کے لیے مناسب الفاظ کے ساتھ ساتھ متواضعانہ اور مہذب طرز نگارش اختیار کیا گیا ہو۔ ایسا اسلوب اختیار نہ کیا گیا ہو جس سے غرور علمی کی بو آتی ہو۔
(۳)مضمون غیر ضروری کلام اور حشو وزوائد سے پاک ہو او ر متضاد ومشترک معانی رکھنے والے الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں۔ 
(۴)مضمون تصنع وتکلف سے خالی ہو۔ 
(۵)مضمون سہل اور شیریں الفاظ پر مشتمل ہو، اس میں بھونڈے، غیر مانوس اور متروک الاستعمال الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں۔ 
(۶)موضوع اور بیان کیے گئے مفاہیم میں پوری پوری مطابقت پائی جاتی ہواو ر اس کے تمام اجزا میں ربط وتسلسل بھی موجود ہو۔ 
(۷)شستہ وشائستہ الفاظ اور شان دار تعبیرات کے ذریعے نہایت لطیف اورانوکھے واچھوتے معانی بیان کیے گئے ہوں۔ 
(۸)اختصار وایجاز سے کام لیا گیا ہو اور غیر ضروری طوالت سے اجتناب کیا گیاہو، بشرطیکہ اختصار کی وجہ سے مفہوم میں کسی قسم کا الجھاؤ یا گنجلک پیدا نہ ہوا ہو او رنہ ہی کوئی اہم نکتہ بیان ہونے سے رہ گیا ہو ۔ 
مضمون کو ’’معیاری ‘‘ بنانے کے لیے ان خصوصیات کو پیدا کرناضروری ہے اور اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور پیہم مشق کی ضرورت ہے۔ 
نو آموزطلبہ میں پائی جانے والی چند غلطیوں کی نشان دہی اور ان کے ازالے کی تدبیریں
(۱)انتخاب کیا گیا موضوع سے انحراف یا اس کے بعض اجزا کوبھول جانا ،ایسی غلطی کرنے سے مضمون پائے معیار سے گر جاتاہے ۔ 
(۲)الفاظ اور معانی کی تکرار ، جن سے مضمون کی لذت وچاشنی اور شگفتگی جاتی رہتی ہے۔ 
(۳)علامت فاعل ، مطابقتِ فعل ، فاعل اور مفعول ، واحد جمع اور تذکیر وتانیث کی غلطیاں، جن سے مضمون بے معنی اور کرکرا ہوجاتاہے۔ 
(۴)لچر وپوچ اور غیر واضح اسلوب اور معنی مراد کی ادائیگی کے لیے غیر ضروری عبارتیں، جن سے مضمون پیچیدہ اور گنجلک ہوجاتاہے۔ 
(۵)تراکیب مہند کے استعمال میں غلطیاں ، جن سے مضمون کی وقعت ختم ہوجاتی ہے۔
(۶)اشعار ، ضرب الامثال اور اقتباسات کا غیر مناسب جگہوں پر استعمال، جن سے مضمون بد مزہ اور بدوضع ہوجاتاہے۔ 
(۷)املا کی غلطیاں ، ان سے مضمون کی قدرو قیمت گھٹ جاتی ہے۔ 
نوآموز طلبہ عموماً ان غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، اس لیے ذیل میں ہر ایک غلطی کے ازالے کی تدبیریں لکھی جاتی ہیں ۔انھیں انتہائی توجہ اور دھیان سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک شق ۔۱کی غلطی کا تعلق ہے ، تو موضوع کے حوالے سے تمام گوشوں پر غور وفکر کرنے کے بعد اس کے اجزا متعین کر کے لکھنے سے اس غلطی سے بچاجاسکتا ہے۔ اورشق ۔۲کی غلطیوں سے اس طور پر بچا جاسکتا ہے کہ بار بار آنے والے الفاظ کو دہرانے کے بجائے ان کی جگہ ضمیروں کا استعمال کیا جائے۔ اور معنوی تکرارسے بچنے کے لیے اجزاکو پیش نظر رکھا جائے۔ اور تیسری ، پانچویں اور ساتویں شقوں کی غلطیا ں دور کرنے کے لیے کتاب ہذا کے سابقہ مباحث کا باربار بغور مطالعہ کیاجائے۔ اور چوتھی وچھٹی شقوں کی خامیاں دور کرنے کے لیے بڑے بڑے ادیبوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے اور ان کے انداز نگارش کو اپنانے کی کوشش کی جائے۔ 
امید ہے کہ ان باتوں کو مد نظر رکھنے سے مذکورہ بالاغلطیوں پر قابو پایا جاسکے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔