قسط نمبر (17) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
نثری اصناف
گذشتہ مباحث کے مطالعے سے آپ کے اندر اتنی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے کہ آپ کوئی مقالہ تیار کر سکتے ہیں،اس لیے اب مناسب معلوم ہو تا ہے کہ اردو کی کچھ خاص خاص نثری اصناف کا تعارف کرا دیا جائے ،تا کہ ان اصناف کے درمیان پائے جا نے والے فرق کو محسوس کر سکیں، اور ان کے جدا جدا اسلوب اور طرز نگارش سے واقف ہو کر ہر ایک صنف کو اس کے مطابق لکھ سکیں۔
نثر کی دو قسمیں ہیں:(۱) مسجع (۲) مرسل ۔
مسجع :اس نثر کو کہا جا تا ہے جس میں دو یا دو سے زائد فقرے میں قافیہ کا التزام کیا جاتاہے، جیسے:قسم ہے اس کی جو ارض و سما کا نور ہے،جو عرش وفرش کا ظہور ہے۔
مرسل:اس نثر کا نام ہے، جس میں قافیے کا التزام نہیں کیا جاتا ہے۔ نثرکی مختلف صنفیں ہیں ، جو زمانے کے تقاضے کے ساتھ معرض وجود میں آتی رہی ہیں، ذیل میں کچھ صنفوں کا تعارف پیش کیا جارہا ہے ۔
مضمون
کسی موضوع کے حوالے سے اپنے احساسات وجذبات اور ذہن میں مرتسم خیالات کو سپرد قرطاس کرنے کا نام ’مضمون ‘ ہے۔
’’مضمون ‘‘ مغربی ادب کی دین ہے۔ اس کو انگریزی میں ایسے (ESSAY)کہا جاتاہے۔مضمون میں ایجاز واختصارکے ساتھ موضوع کا احاطہ نہایت گہرائی وگیرائی سے کیاجاتاہے اور شروع سے آخر تک ربط وتسلسل اور منطقی توازن برقرار رکھا جاتاہے۔عام فہم زبان، دل کش انداز بیان اور سادہ اسلوب اختیار کیا جاتاہے۔ اس میں کسی موضوع کی قید نہیں ہوتی ۔سیاسی، سماجی ، مذہبی، اخلاقی ، تاریخی ، سائنسی غرض ہر ایک موضوع پر مضمون لکھا جاسکتاہے۔
مضمون کے عموماً تین حصے ہوتے ہیں : (۱)آغاز (۲)نفس مضمون (۳) اختتام ۔
آغاز میں مضمون کے مقاصد پر روشنی ڈالی جاتی ہے ، اور آگے پیش کی جانے والی نکات اور پہلووں کی طرف اشارہ کیا جاتاہے۔ نفس مضمون میں آغاز میں بیان کردہ نکات وخیالات کی وضاحت مدلل ومرتب انداز میں کی جاتی ہے، اور اس میں اٹھا ئے گئے مسائل کا حل اور سوال کا جواب دیا جاتا ہے۔ اور اختتام میں مضمون میں بیان کردہ خیالات واستد لالات سے نتائج اخذ کر کے انھیں استدلالی طریقے سے بیان کیا جاتاہے ۔
مضمون کی اقسام: چوں کہ مضمون کے لیے کسی موضوع کی قید نہیں ہوتی ، اس لیے موضوع کے اعتبار سے اس کی درجنوں قسمیں ہوسکتی ہیں، جیسے: علمی وتحقیقی مضمون ،بیانی مضمون ، اصلاحی مضمون ، سیاسی مضمون،حکائی مضمون، ذہنی مضمون اور مزاحیہ مضمون وغیرہ۔
انشا
’ انشا ‘عربی کا لفظ ہے، اس کے معنی عبارت آرائی کے ہیں ۔اصطلاح میں دل سے کوئی بات پیدا کرنے یا بات سے بات پیدا کرنے کو ’انشا ‘کہا جاتاہے۔اس میں انشا نگار اپنے ذاتی خیالات وتأثرات اور مشاہدات وتجربات بیان کرتاہے، اور اپنے زور قلم سے معمولی سی معمولی بات کو غیر معمولی بنادیتاہے۔ اسی وجہ سے اس کو’ذاتی شبیہ‘ یا’ قلمی تصویر‘ بھی کہا جا تاہے۔ انشا نگار ایسا شگفتہ اور شاعرانہ انداز بیان اختیار کرتاہے جس سے قاری کو لطف آنے لگتا ہے اور اس کی جادو بیانی سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ مضمون کی طرح اس میں بھی شروع سے آخر تک ربط وتسلسل کا پایا جانا ضروری ہے۔ نیز اس میں مواد کم اور عبارت آرائی زیادہ ہوتی ہے ۔
انشائیہ مضمون ہی کی ایک قسم ہے ۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ مضمون میں معلومات کا دخل ہوتاہے ، جب کہ انشا میں تأثرات کی کار فرمائی ہوتی ہے۔مضمون میں خیال انگیزی پائی جاتی ہے او رانشا میں تخیل پرستی ۔ مضمون میں صرف متعلقہ موضوع سے بحث کی جاتی ہے، اور انشا میں انشا نگار کے ذہن میں جو کچھ آتاہے ، اسے آزادانہ طور پر موضوع سے ربط برقرار رکھتے ہوئے بیان کر دیتاہے ۔
مضمون کی طرح اس میں بھی کسی موضوع کی قید نہیں ہوتی ، بلکہ یہ انشا نگار کے منشا کا تابع ہوتاہے ۔ اسی وجہ سے ایک ادیب جانسن نے اسے ’ذہن کی آزاد ترنگ‘ کہا ہے ۔
ذیل میں اردو کے مشہور انشا نگار مولانا ابو الکلام آزادؔ کا ایک انشائیہ بطور نمونہ دیا جارہاہے:
’’ہم نے ایمان کا اعلان کیا ہے، خدا پرستی کا دعویٰ کیا ہے، سرفروشی و جاں ستانی کا نعرہ لگایا ہے، ہم نے قربانی وجاں بازی کا ہزاروں ، لاکھوں مرتبہ نام لیا ہے، ہم نے حق پرستی کے عہد کیے ہیں، اور ملک سے عشق ومحبت کا پیمان وفا باندھا ہے، ہم نے نامردی اور بزدلی کی ہمیشہ حقارت کی ، ہم نے حق سے منھ موڑنے اور خدا کو پیٹھ دکھا نے پر لعنتیں بھیجیں ، ہم ان پر ہنسے، جو تکلیفوں اور مشکلوں سے گھبرا گئے، ہم نے ان کی بدبختی ومحرومی سے پناہ مانگی، جو وقت پر دعووں میں پورے نہ اترے ۔ یہ سب کچھ ہم نے اپنی مرضی اور طلب سے کیا، خدا اور اس کے فرشتے ہماری زبانوں اور ہمارے دلوں پر گواہ ہیں ، پھر اگرآج آزمائش کی گھڑی آگئی ہے اور وہ منزل سامنے ہے ،جس کے لیے ہم اس قدر دعوے کر چکے ہیں ؛ توکیا ہم عین وقت پر اپنے تمام دعوے بھلادیں گے؟ کیا ہمارا دعویٰ دھوکہ ثابت ہوگا ؟ اور ہمارا اعلان محض فریب کا تماشہ ہوگا؟ کیا ہم نے جو کچھ کہا ؛ وہ جھوٹ تھا؟ اور ہم نے اپنے ایمان اور حق کے لیے جو کچھ سمجھا ؛ وہ دھوکہ تھا؟۔ (الجمعیۃ آزاد نمبر ۔بحوالہ تقاریرمولانا آزادؒ )
خطوط
وہ معلومات وکیفیات ، جذبات واحساسات اور حالات وضروریات ،جو ایک شخص دوسرے شخص کو بواسطۂ تحریر ظاہر کرتاہے اسے ’خط‘ کہا جاتاہے ، بہ الفاظ دیگر ایک دوسرے سے بُعد مکانی کے باعث زبان لحم کے بجائے زبان قلم سے گفتگو کرنے کا نام ’مکتوب یا خط‘ ہے۔ اگر چہ یہ ملاقات کا بدل نہیں ہے، تاہم اسے نصف ملاقات کا درجہ دیا جاسکتاہے، چنانچہ خط کے بارے میں بابائے اردو مولوی عبدا لحق صاحب رقمطراز ہیں کہ :
’’خط دلی خیالات اور جذبات کا روز نامچہ اور اسرار حیات کا صحیفہ ہے۔ اس میں وہ صداقت اور خلوص ہے، جو دوسرے کلام میں نظر نہیں آتا۔ خطوط سے انسان کی سیرت کا جیسا انداز ہ ہوتا ہے ، وہ کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں ہوسکتا‘‘ ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر چہ نظم، افسانہ ، ناول اور ڈراما وغیرہ میں بھی انسانی سیرت اور اس کے کیریکٹر کی کچھ جھلکیاں ملتی ہیں؛ لیکن ان سب میں لکھنے والا بناوٹی باتوں کا سہارا لیتا ہے اورمبالغہ آرائی سے کام لیتاہے ، اس لیے ضروری نہیں ہے کہ ان اصناف سخن میں لکھنے والا اپنے دلی جذبات اور صحیح احساسات کا اظہار کریں، لیکن خط میں ، جب کوئی رکاوٹ اوراجنبیت نہ ہو ؛ تو لکھنے والا اپنے دل کی ساری باتوں کو بلا جھجھک لکھ ڈالتاہے، اس لیے انسانی سیرت کا اس سے جس قدر اندازہ لگا یا جا سکتا ہے وہ کسی اور ذرائع سے ممکن نہیں ۔
خط لکھتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
(۱)چوں کہ یہ تحریری گفتگو ہے، لہذا گفتگوکی طرح سا دہ انداز تحریر اختیار کرنا چاہیے ۔
(۲)القاب وآداب کے الفاظ مرسل الیہ کے مقام ومرتبہ اور اس کے حسب حال ہونا چاہیے۔
(۳)لکھنے میں ایجاز سے کام لینا چاہیے،لیکن اتنا بھی ایجاز نہ ہو کہ مطلب بھی واضح نہ ہو سکے اور ہر ہر جملہ فلسفہ بن جاے۔
گفتگو میں اس قدر توالجھنیں پیدا نہ کر
ورنہ تیرا جملہ جملہ فلسفہ بن جائے گا
(۴)اسلوب نگارش مرسل الیہ کے حسب حال ہونا چاہیے۔اگر مرسل الیہ طبقۂ عوام سے تعلق رکھتا ہے، تو اس کے لیے نہایت سادہ اور سلیس انداز میں لکھا جائے گا۔اور اگروہ طبقۂ اہل علم سے تعلق رکھتا ہے،تو اس کے لیے عالمانہ انداز اور ادیبانہ طرز اختیار کیا جا ئے گا۔
(۵)ایسے مشترک اور مشتبہ الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہیے ،جس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہو، نیز تحریر عمدہ اور صاف ستھری ہونی چاہیے،کیوں کہ بسا اوقات خراب تحریر کی وجہ سے لکھا کچھ جا تا ہے ،اور پڑھا کچھ اورجا تا ہے، جس سے غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے،جیسا کہ ایک شاعر نے کہاہے کہ:
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا
ہم دعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
خط میں چار اہم اجزا ہو تے ہیں:(۱)تمہید(۲)افتتاحیہ(۳)نفس مضمون(۴)اختتام۔
(۱)تمہید: اس حصے میں مرسل الیہ کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے مناسب القاب لکھے جاتے ہیں، جیسے: بڑوں اور بزرگوں کے لیے:مخدومی، محترمی، حضوروالا،جناب والا،آں جناب وغیرہ۔دوستوں کے لیے:محبی، مکرمی، برادرم، محب گرامی،جگری دوست، وفادار ساتھی وغیرہ۔اور بچوں کے لیے:عزیز من ،عزیز گرامی،نور نظر، لخت جگر، بابو، پیارے،دلارے، سرور قلب وغیرہ۔
(۲)افتتاحیہ:اس حصے میں ملاقاتی الفاظ اور جملے لکھے جا تے ہیں ،جیسے:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، سلام مسنون،آداب،آداب عرض ہے، تسلیم، تسلیمات، تسلیم و نیاز، آداب و تسلیم، باد نسیم سے زیادہ لطیف اور مشک کی نکہت سے زیادہ معطر سلام قبول کیجیے وغیرہ۔
(۳)نفسِ مضمون: اس حصے میں مرسِل مرسَل الیہ کو اپنی ضروری باتوں اور خط لکھنے کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے۔اس لیے اس میں ایسا اسلوب نگارش اختیار کرنا چاہیے، جس سے مکتوب الیہ متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے،اور پورا خط نہایت توجہ او ر دل جمعی کے ساتھ پڑھنے پر مجبور ہو جائے۔
(۴)اختتام:اس حصے میں مرسَل الیہ کے لیے خیریت و عافیت کے جملے لکھے جاتے ہیں،اور اپنے خلوص و محبت اور نیاز مندی کا اظہار کیا جا تاہے،جیسے:آخر میں میرا دلی سلام قبول کیجیے۔ہمارے دائمی خلوص کو شرف قبولیت سے نوازیے ،اب اجازت دیجیے،خدا حافظ ،خوش رہو، اب زیادہ کیا عرض کروں۔ فقط والسلام۔
خط کی اقسام :نفسِ مضمون اور حالات و ضروریات کے پیشِ نظر خط کی درجنوں قسمیں ہو سکتی ہیں،جیسے:شخصی خطوط،کاروباری خطوط، دفتری خطوط ،اخباری خطوط،تعزیتی خطوط،تہنیتی خطوط وغیرہ۔
نمونہ کے لیے ایک دوخط پیش کیا جارہا ہے:
پانی پت
۲۰ ؍جولائی ۱۹۰۴ء
جنابِ من
شمس العلما کا خطاب ملنے پر جس گرم جوشی اور مسرت کے ساتھ آپ نے خاکسار کو مبارک باددی ہے، اس کا شکریہ تہہ دل سے ادا کرتا ہوں، اور اس کو اپنے لیے دستاویز فخر وامتیاز سمجھتاہوں۔
آپ کے فصیح وبلیغ اشعار کو میں فخر یہ کسی اخبار میں چھپواوں گا۔ مجھے ترجمہ کرنے کی اب تک فرصت نہیں ملی ’آج کل‘ میں معہ ترجمہ کے لاہور بھیجوں گا۔ازراہِ عنایت مطلع کیجیے گااورنیز کراچی کی آب وہوا کا حال لکھیے گا کہ اب کیا رنگ ہے۔میں آج کل حد سے زیادہ عدیم الفرت ہوں،کسی تصنیف یا تالیف کے سبب نہیں،بلکہ مکروہاتِ خانگی کی وجہ سے ، ورنہ آپ کا شکر یہ ایسا سرسری طور پر معمولی الفاظ میں ہر گز نہ لکھتا۔
زیادہ نیاز
آپ کا نیاز مند
(دستخط)
الطاف حسین حالی
یہ دوسرا خط بھی ملاحظہ فرمائیے:
بھوپال
۲۰؍اگست ،۱۹۳۵ء
مخدومی، السلام علیکم
آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا ہے ،جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میں بھی یہاں حمید یہ لائبریری اور بعض پرائیوٹ،احباب سے کتابیں منگواکر دیکھتا رہا۔ الحمداللہ کہ بہت سی باتیں مل گئیں۔ اس مطالعے سے مجھے بے انتہا فائدہ ہوا، اور آپ کے خط نے تو اور بھی راہیں کھول دی ہیں۔
میں نے کبھی اپنے آپ کوشاعرنہیں سمجھا۔ اس واسطے کوئی میرارقیب نہیں ہے، اور نہ میں کسی کواپنارقیب تصورکرتا ہوں۔ فنِ شاعری سے کبھی مجھے دل چسپی نہیں رہی۔ ہاں بعض مقاصدِ خاص رکھتا ہوں، جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات وروایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔
مخلص
(دستخط)
محمد اقبال
تقریظ
تقریظ عربی کا لفظ ہے ،جس کے معنی : تعریف کرنے او ر سراہنے کے ہیں۔ کسی کتاب پر تقریظ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر تبصرہ کرنا ۔اس کی خوبیوں کو اجا گر کرنا اور صاحب کتاب کی تعریف وتوصیف کرنا، کبھی تقریظ میں کتاب میں در آنے والی غلطیوں یا مؤلف سے ہوئی لغزشوں کی طرف اشارہ اور ان کی جگہ اپنی رائے کا اظہار کیا جاتاہے۔
لیکن اب تقریظ میں عموماً صرف محاسن بیان کیے جاتے ہیں ، خامیوں اور فرو گذاشتوں سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ اگر صرف معائب ہی لکھے جائیں اور خوبیاں بالکل نظر انداز کردیے جائیں ؛ تو اسے ’تقریظ‘ کے بجائے ’تنقیص‘کہا جاتا ہے۔ کسی کسی تقریظ میں تقریظ نگار مصنف کو کوئی مفید مشورہ بھی دیتاہے،جو کتاب کے موضوع سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور اس کے لیے سود مند بھی، اور آخر میں کتاب اور صاحب کتاب دونوں کے لیے دعائیہ کلمات لکھے جاتے ہیں۔
خاکہ
کسی شخصیت کی انفرادی خصوصیات وامتیازات اور ان کی زندگی کے نمایاں پہلووں کو (خواہ ان کا تعلق خوبیوں سے ہوں یا خامیوں سے) مختصر ، مگر جامع انداز میں پیش کرنے کا نام ’خاکہ ‘ ہے۔
اس کو انگریزی میں اسکیچ (SKETCH)کہا جاتاہے ۔ جس طرح اسکیچ میں کسی کی شکل وصورت یا خصوصیت کو خطوط اور نقوش کے ذریعہ اجاگر کیا جاتا ہے، اسی طرح ’’خاکہ ‘‘ میں اختصاراور اشاروں میں صرف وہ کردار بیان کیا جاتا ہے،جو اس کی حقیقی زندگی کے نقوش کو ابھارسکے۔اس میں عام طور پر خاکہ نگار اپنے ذاتی مشاہدہ، تعلق اور تجربے کی روشنی میں اس کی سیرت کوپیش کرتا ہے اور صرف خاص خاص واقعات کو تحریر کرتا ہے ۔ اس میں سوانح کی طرح مکمل زندگی کا احاطہ نہیں کیا جاتا۔
سوانح
زندگی کے کسی خاص شعبے سے تعلق رکھنے والی کسی مشہور اور ممتازہستی کی پوری زندگی، اس کے واقعات حیات کے تمام گوشوں اور اس کے کارناموں کو قلم بند کرنے کا نام’سوانح ‘ہے ۔
اس میں پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام حالات لکھے جاتے ہیں۔ سوانح نگار تفسیر حیات کے ساتھ ساتھ اپنا تجزیہ بھی پیش کرتاہے۔ اس میں وہی باتیں اور وہی واقعات لکھے جاتے ہیں، جو حقیقی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں جعلی اور فرضی کہانیاں بیان نہیں کی جاتیں۔
جب کوئی خود اپنی زندگی کے حالات قلم بندکرتاہے؛ تو اسے’خود نوشت سوانح‘کہا جاتاہے،جیسے: مولانا ابوالکلام آزادؔ کی کتاب : ’تذکرہ‘ ان کی خود نوشت سوانح ہے ۔
سوانح اور خاکہ دونوں عربی اور فارسی ادب کی دین ہیں، اردو میں ان کا باقاعدہ آغاز اس وقت سے ہوا، جب کہ شاعروں اور ادیبوں نے سوانح لکھنا شروع کیا۔
ان دونوں صنفوں میں فرق یہ ہے کہ سوانح میں پوری زندگی کا احاطہ کیا جاتا ہے، اور ایک ایک خصوصیت کو پوری طرح نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، جب کہ خاکہ میں زندگی کے صرف اہم اہم واقعات لکھے جاتے ہیں اور تفصیل سے گریز کیا جاتاہے۔
تذکرہ
جس میں شعرا کے احوال وکوائف اور ان کے کلام کے نمونے لکھے جاتے ہیں، اسے’ تذکرہ‘ کہتے ہیں ۔ تذکرہ کی مختلف لوگوں نے مختلف حیثیتوں سے تقسیم کی ہے، بعضوں نے اس کی تقسیم ہےئت اور موضوع کے اعتبار سے کی ہے، اور بعضوں نے خصوصیات کے اعتبار سے اس کی قسمیں نکالیں ہیں ۔ چنانچہ ڈاکٹر زور نے اردو تذکروں کی تین قسمیں کی ہیں:
(۱)وہ تذکرہ، جو کسی شاعر نے لکھا ہو۔
(۲)وہ تذکرہ ،جس کو لکھنے والا کسی بڑے شاعر کا شاگرد ہو یا اس کا مداح ہو۔
(۳)وہ تذکرہ، جس کو لکھنے والا نہ تو شاعر ہو اور نہ ہی کسی شاعر کا شاگرد ؛ بلکہ صرف سخن فہم ہو ۔ اس کے برخلاف ڈاکٹر عبداللہ نے خصوصیات کے اعتبار سے اس کی سات قسمیں کی ہیں:
(۱)وہ تذکرے، جن میں صرف اعلیٰ شاعروں کے مستند حالات اور ان کے کلام کا انتخاب موجودہو۔
(۲) وہ تذکرے، جن میں قابل ذکر شعرا کے حالا ت اور نمونۂ کلام جمع کیا گیا ہو اورتذکرہ نگار کا مقصد صرف جامعیت ہو۔
(۳)وہ تذکرے، جن میں تمام شعرا کے عمدہ کلام اور ان کا مفصل انتخاب پیش کیا گیاہو ، اور ان میں حالات جمع کرنے کی طرف زیادہ توجہ نہ کی گئی ہو۔
(۴)وہ تذکرے ،جن میں اردو شاعری کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہو، اور تذکرے کا مقصد اس کی ارتقائی تاریخ کو قلم بند کرنا ہو۔
(۵)وہ تذکرے، جن میں صرف مخصوص دور سے بحث کی گئی ہو۔
(۶)وہ تذکرے، جن میں کسی خاص وطنی یا ادبی گروہ کی ترجمانی کی گئی ہو۔
(۷)وہ تذکرے، جن کا مقصد تنقید سخن اور اصلاح سخن ہو۔
(مستفاد از ’’اردو ادب ، ص؍ ۹۶و۹۷، بحوالہ ’’شعرائے اردو کے تذکرے‘‘)
تذکرہ نگاری کے وقت ان باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور ان کی روشنی میں تذکرہ نگاری کرنی چاہیے۔
طنزو مزاح
زندگی کی ناہمواریوں اور مضحکہ خیز پہلووں کو حقیقی روپ دے کر اس میں طنزیہ عنصر شامل کر کے ایسے شیفتہ وشگفتہ انداز میں پیش کرنا کہ پڑھنے اور سننے والے لطف اندوز ہونے لگیں’’طنز ومزاح‘‘کہلاتاہے۔
طنز ومزاح یہ دونوں لفظ عام طور پر ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں ؛ لیکن ان دونوں کے معنی اور طرزبیان میں تھوڑاسا فرق ہے: مزاح میں صرف ہنسی کا سامان ہوتاہے،جب کہ طنز میں اصلاح کا جذبہ بھی پیش نظر رہتاہے۔ مزاح میں زندگی کی ناہم واریوں کو ہو بہ ہو پیش کیا جاتا ہے، جب کہ طنز میں ان ناہم واریوں سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا جاتاہے۔ مزاح سے محض تفریح مقصود ہوتی ہے، جب کہ طنز میں ہنسی ہنسی میں معاشر ہ اور سماج میں پائی جانے والی خرابی پر چوٹ کی جاتی ہے۔
ایک اعلیٰ درجے کی مزاح نگاری کے لیے طنز کا بھی ہونا ضروری ہے؛کیوں کہ مزاح میں اگر طنز نہ ہو ؛ تو اس میں سطحیت آجاتی ہے، اور اس کے بغیر پھکڑپن اور مذاق بن جاتاہے۔ اس لیے طنزو مزاح ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم سمجھے جاتے ہیں، البتہ اتناہوسکتاہے کہ کبھی مزاح کا پہلو غالب رکھا جائے اور طنز کا مغلوب ، اور کبھی طنز کا پہلو غالب رکھا جائے اور مزاح کا مغلوب۔
مزاح نگاری دیگر صنف ادب کے مقابلے میں انسانوں کی اصلاح اور معاشرے میں سدھا ر لانے کے لیے ایک بہترین صنف ادب ہے، کیوں کہ ایک واعظ یا ناصح، جب کسی بات کو دو ٹوک انداز میں کہہ دیتاہے ، تو بسااوقات سامعین اس سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس کرنے لگتے ہیں ، لیکن جب وہی بات ایک مزاح نگار اپنے خوشگوار طریقے سے کہتاہے، تو سامعین کو بری نہیں لگتی؛ بلکہ انھیں اصلاح کی فکر ہونے لگتی ہے۔
مزاح نگاری کی متعدد قسمیں ہیں: تمسخر، ضلع بھگت ، (بذلہ سنجی و ظرافت)پھبتی،لطیفے، پیروڈی وغیرہ۔ ذیل میں نمونہ کے لیے کنہیا لال کپور کے ایک مزاحیہ مضمون سے ایک اقتباس دیا جارہاہے، جس کا عنوان ہے :
’’غالبؔ جدید شعرا کی محفل میں ‘‘
۶: م۔ن۔ ارشد: اب مرزا، غزل کا دوسرا شعر فرمائیے۔
غالبؔ : میں اب عرض مقطع کروں گا ، کہا ہے:
عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
۷: عبد الحی نگاہؔ : گستاخی معاف مرزا! اگر اس شعر کا پہلا مصرعہ اس طرح لکھا جاتا، تو ایک بات پیدا ہوجاتی۔
غالبؔ : کس طرح؟
عبد الحی نگاہؔ :
عشق نے، ہاں ہاں تمھارے عشق نے
عشق نے سمجھے؟ تمھارے عشق نے
مجھ کو نکما کردیا
اب نہ اٹھ سکتاہوں میں
اور چل تو سکتا ہی نہیں
جانے کیا بکتا ہوں میں
یعنی نکما کردیا
اتنا تمھارے عشق نے
گر تاہوں اور اٹھتاہوں میں
اٹھتاہوں اور گرتاہوں میں
یعنی تمھارے عشق نے
اتنا نکما کردیا
غالبؔ : (طنز اً )
بہت خوب ، غضب کردیا۔
غیظ احمد غیظؔ :
اور دوسرا مصرعہ اس طرح لکھا جا سکتا تھا:
جب تک نہ مجھ کو عشق تھا
تب تک مجھے کچھ ہوش تھا
سب کام کر سکتا تھا میں
اور دل میں میرے جوش تھا
اس وقت تھا میں آدمی
اور آدمی تھا کام کا
لیکن تمھارے عشق نے
مجھ کو نکما کردیا
۸: غالبؔ : واللہ! کمال ہی تو کردیا ۔ بھئی اب آپ لوگ اپنا کلام سنائیں۔
م۔ ن۔ ارشد : کیوں نہ اب ڈاکٹر حسین خالصؔ سے درخواست کی جائے کہ اپنا کلام پڑھیں۔
ڈاکٹر خالصؔ : میری نظم کا عنوان ہے: ’’عشق‘‘ عرض کیا ہے کہ:
عشق کیا ہے؟
میں نے اک عاشق سے پوچھا
اس نے یوں روکر کہا
عشق اک طوفان ہے
عشق اک سیلاب ہے
عشق ہے اک زلزلہ
شعلۂ جوالہ ہے عشق
عشق ہے پیغام موت
غالبؔ : بھئی یہ کیا مذاق ہے ۔ نظم پڑھیے ۔ مشاعرے میں نثر کا کیا کام؟
ڈاکٹر خالص: (جھنجھلا کر) تو آپ کے خیال میں یہ نثر ہے؟ یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم ؟ اور فرمایا تھا آپ نے : ع
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں
غالبؔ : میری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ یہ کس قسم کی نظم ہے۔ نہ ترنم، نہ قافیہ ، نہ ردیف ۔
ڈاکٹر خالص: مرزا صاحب ! یہی تو جدید شاعری کی خصوصیت ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو قافیہ اور ردیف کی فولادی زنجیروں میں قید کر رکھا تھا۔ ہم نے اس کے خلاف جہاد کر کے اسے آزاد کیا ہے۔ ( اقتباس از: ’’اردو ادب‘‘ ص؍ ۱۰۸)
پیروڈی
کسی نظم یا نثر کے اصل مضمون میں تصرف کر کے مزاحیہ انداز میں اس طرح پیش کرنا کہ اصل مضمون کی پرچھائیاں باقی رہتے ہوئے اس میں طنز ومزاح پیدا ہوجائے ’پیروڈی‘ کہلاتا ہے۔
پیروڈی یونانی لفظ ہے ۔یہ پیروڈیا (PARODIA)ّْ ّْ سے مشتق ہے، اس کے معنی ہیں: جوابی نغمہ۔ اردو میں اس کا کوئی متبادل لفظ وضع نہیں کیا گیا ہے، اس لیے لفظ پیروڈی ہی استعمال ہوتاہے۔ ذیل میں احمد فراز کی ایک شاہ کار غزل اور اس میں مشہور مزاح نگار : دلاور فگار کی پیروڈی سے نمونہ دیا جا رہا ہے۔
احمد فراز کی غزل کے چند اشعار
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے دہن سے گلاب جھڑتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعرو شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
دلاورفگار کی پیروڈی
سیاہ زلف کو جو بن سنور کے دیکھتے ہیں
سفید بال کہاں اپنے سر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے فیس ہے کچھ اس سے بات کرنے کی
یہ فیس کیا ہے؟ ابھی بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے لوگ سیہ فام مہ جبینوں کو
لگا کے دھوپ میں چشمے نظر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جیب میں مفلس بھی مال رکھتے ہیں
سو مفلسوں کی بھی جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے شوق ہے ان کو بھی گھوڑ سواری کا
جو رات کو بھی اجالے سحر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے عشق میں مشکل ہے میٹرک کرنا
رزلٹ کچھ بھی سہی، فارم بھر کے دیکھتے ہیں
ادیب و شاعر و فن کار بوتے ہیں جو شجر
یہ لوگ پھل کہاں اپنے شجر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے مرنے کے بعد ان کی قدر ہوتی ہے
سو چند دن کے لیے ہم بھی ’’ مر کے دیکھتے ہیں ‘‘
افسانہ
زندگی کا کوئی ایک واقعہ اور کو ئی ایک جھلک، انتہائی اختصارکے ساتھ، مگرجامع انداز میں پیش کرنا ’افسانہ کہلاتا ہے۔
افسانے کی تعمیر وتشکیل میں کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے، ماحول (زمان ومکان) ، اسلوب اور نظرےۂ حیات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہرافسانے میں ایک کہانی ہوتی ہے ۔کہانی کے مختلف واقعات کو ترتیب دینے کو ’پلاٹ‘ کہاجاتاہے ۔ان واقعات کو کسی ایکٹر کے ذریعے نمایاں کرنے کا نام: ’کردارہے۔ کردار کے ساتھ ایکٹر کی زندگی کے پہلو وں کو مناسب ’مکالموں‘کے ذریعے نمایاں کیا جاتاہے۔جب کہانی،پلاٹ اور کردار ہوں گے ؛ تو لازمی طور پر ان کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوگا اور یہ تمام عناصر کسی خاص جگہ اور مخصوص زمانے میں وقوع پذیر ہوں گے، جو ’ماحول‘سے عبارت ہے۔اس میں اسلوب نگارش اور افسانہ نگار کا نظرےۂ حیات، دونوں کافی اہم ہو تے ہیں ۔ اسلوب قاری کو متأثر اور مرعوب کرتاہے اور نظرےۂ حیات افسانے میں نئی معنویت پیدا کرتاہے۔
افسانے کی بنیادی شرط اختصارہے۔ مختصر افسانے کو انگریزی میںSHORT STORYکہا جاتاہے ۔ ایک امریکی ادیب اڈا گر الین یو کے نے اس کی تعریف ہی یوں کی ہے کہ ’’وہ نثری قصہ ہے جو ایک نشست میں پڑھا جاسکے‘‘ اور ایک نشست کا وقت آدھے گھنٹے سے لے کر ایک گھنٹہ تک متعین کیا ہے۔
افسانے میں شروع سے آخر تک ربط وتسلسل برقرار رکھا جاتاہے، اور غیر ضروری باتوں اور بے جوڑ جزوی واقعوں سے گریز کیا جاتاہے، اور وحدت تأثر (مجموعی اثر) پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ناول
ایسا نثری قصہ، جس میں زندگی میں پیش آنے والے مختلف حقیقی واقعات کو مبسوط اورتفصیلی انداز میں پیش کیا جاتاہے، ’ناول‘ کہلاتاہے۔
ناول ایک جدیدصنف ادب ہے، جس کا وجود د استان کے ختم ہونے کے بعد ہواہے۔مختلف حضرات نے اس کی خصوصیات کے مد نظر مختلف تعریفیں کی ہیں۔مثلاً مشہور ناول نگار ہنری جیمس نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے کہ ’’ناول کا زندگی پر راست اور شخصی اثر ہوتاہے‘‘۔ کسی نے کہا ہے کہ ’’یہ زندگی کی شبیہ یا تصویر ہے‘‘۔
ناول کی دو بنیادی شرطیں ہیں: جن کا پایا جانا ضروری ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس میں حقیقی زندگی میں درپیش مسائل کو ہی بیان کیا جاتاہے۔اور دوسری شرط یہ ہے کہ اس کے ضمنی واقعات کو مرکزی قصہ اور اس کے کردار سے از عنوان تااختتام مربوط رکھا جاتاہے۔
افسانے کی طرح اس کے بھی وہی سات عناصر ترکیبی ہیں،یعنی:کہانی،پلاٹ، کردار، مکالمے، زمان ومکان یا پس منظر، زاویہ نگاہ اور اسلوب۔کہانی،ناول کا بنیادی عنصر ہے۔ کہانی کے واقعات میں ایسا معنوی اور باطنی ربط وتسلسل ہوتا ،جس سے اگلا واقعہ پچھلے واقعے کا منطقی اور لازمی نتیجہ معلوم ہونے لگے:’پلاٹ‘ کہا جاتاہے۔ انسان عملی زندگی میں مختلف حالات و حادثات سے دو چار ہوتا ہے اور انھیں چیزوں کو ناول میں انسانی کردار کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ جذبات واحساسات کا اظہار انسان کے بیان سے ہوتا ہے اسی لیے مکالمے کو ناول کا ضروری جزو قرار دیاگیا ہے۔ مکالمے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فطری اور حقیقی زندگی سے قریب ہو، اس میں جگہ، وقت، طبقات اور جغرافیائی حالات کو پیش نظر رکھا گیا ہو اور واقعے کی اس طرح تصویر کشی کی گئی ہو کہ پڑھنے والے کے سامنے مکمل تصویر نکھر کر آجائے، اور وہ خود کو اس میں شریک محسوس کرے، کیوں کہ ایک کامیاب ناول کے لیے ایسی منظر نگاری ضروری ہے۔ لیکن اگر ان عناصر کے برتنے میں کوئی کمزوری یا جھول واقع ہو جائے ، تو اسے ناول کے دائرے سے خارج قرار نہیں دیا جائے گا، بشرطیکہ اس میں مذکورہ بالا دونوں شرطیں پائی جاتی ہوں۔ اسی وجہ سے انگریزی کے مشہور ناول نگار ورجیناوولف نے کہا ہے کہ: ’’صنف ناول شتر مرغ کی طرح ہر چیز کو ہضم کر جاتی ہے۔ اس میں شاعری، فلسفہ، تہذیب، معاشیات، عمرانیات، نفسیات غرض کہ کوئی علم وفن ایسا نہیں ہے جو بیان نہیں کیا جاسکتا۔گویا ناول ایک وسیع اورلچک دار صنف ادب ہے، جس میں زندگی کو وسیع ترین انداز میں پیش کیا جا سکتاہے ۔
ناول اور افسانے میں فرق یہ ہے کہ افسانہ مختصر ہوتاہے جب کہ اس کے مقابلے میں ناول طویل ہوتا ہے۔ افسانے میں زندگی کی کوئی ایک جھلک پیش کی جاتی ہے،جب کہ ناول میں مختلف واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔
داستان
دستان ایک ایسی صنف ادب ہے جس میں خیالی، فرضی اور محیر العقول قصوں کو چند کرداروں کے ذریعہ دل نشیں پیراے میں بیان کیا جاتاہے۔ داستان انتہائی طویل ہوتی ہے، جس میں کوئی مرکزی پلاٹ نہیں ہوتا۔ اور اس میں ایک مرکزی قصے سے دوسرے ضمنی قصے بھی جوڑدیے جاتے ہیں، جو اپنے طور پر مکمل آزاد ہوتے ہیں۔اس میں عموما ایسی مافوق الفطرت کہانیاں،حسن و عشق کی رنگینیاں اور محیر العقول واقعات بیان کیے جاتے ہیں، جو فطری زندگی میں پائے نہیں جاتے، جیسے: جناتوں اور پریوں کی کہانیاں، جادوگروں اور ان کے محیر العقول کارنامے وغیرہ وغیرہ۔
داستان اور ناول میں فرق یہ ہے کہ ناول میں حقیقی زندگی سے مشابہ زندگی پیش کی جاتی ہے، جب کہ داستان میں فرضی کہانی بیان کی جاتی ہے ۔داستان میں شروع سے آخرتک کردار ایک نہیں ہوتا؛ بلکہ کئی کردار (ایکٹرس) ہوتے ہیں، جب کہ ناول میںیہ ایک ہوتاہے۔
ڈراما
جس میں واقعات حیات اورانسانی افعال اداکاروں کے عمل اور مکالموں کے ذریعے پیش کیے جاتے ہیں، وہ ’ڈراما‘ کہلاتا ہے۔
’ڈراما‘ یونانی لفظ ہے اور ’ڈراو‘سے بنا ہے ، اس کے معنی ’عمل‘ کے ہیں۔’ڈراما‘کی مختلف لوگوں نے مختلف تعریفیں کی ہیں، چنانچہ ارسطو کے بقول:’’ڈراماانسانی افعال کی نقل ہے‘‘۔ سسرو کے الفاظ میں : ’’ڈراما زندگی کی نقل، رسم ورواج کا آئینہ اور سچائی کا عکس ہوتاہے‘‘، وکٹر ہیوگو کے مطابق ’’ڈراما ایک آئینہ ہے جس میں فطرت منعکس ہوتی ہے‘‘۔
ڈراما میں تین اہم اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں:(۱)کہانی(۲)اداکاری(کردار) (۳)پلاٹ۔
ڈراما میں کہانی اداکاروں کے عمل اور مکالموں کے ذریعے بیا ن کی جاتی ہے۔ عمل اور مکالموں کو مخصوص انداز میں ترتیب دینے کو ’پلاٹ‘ کہا جاتاہے۔ ڈرامے کے ’پلاٹ‘کی ابتدا کسی داخلی یا خارجی کشمکش اور تصادم سے کی جاتی ہے ۔ یہ کشمکش اور ٹکراؤ دو اداکاروں کے درمیان ہوتاہے، جس میں ایک انسان دوسرے انسان سے، ایک خاندان دوسرے خاندان سے، ایک طبقہ دوسرے طبقہ سے اور ایک ملک دوسرے ملک سے متصادم ہوتا ہے۔
آغاز سے اختتام تک ڈرامائی عمل میں تسلسل پا یا جاتاہے، اسے ’ڈرامائی خط‘ کہا جاتاہے، یہ خط چھ مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے:
(۱)تمہید: اس میں آگے کی کہانی کو سمجھانے کے لیے گذشتہ واقعے کی طرف اشارہ کیا جاتاہے۔
(۲)ابتدائے واقعہ : یہاں سے ڈراما کا آغاز ہو جاتاہے۔
(۳)ارتقا: اس مرحلے میں کشمکش اور تصادم ہونے لگتاہے۔
(۴)عروج : اس حصے میں کشمکش عروج پر پہنچ جاتی ہے۔
(۵) زوال : یہاں سے کشمکش دور ہونے لگتی ہے۔
(۶)انجام: اس مرحلے میں ’ڈراما‘ گذرے ہوئے واقعات کی روشنی میں کسی انجام تک پہنچ جاتاہے۔ اور اسی پر ڈراما کے اختتام ہو جاتا ہے۔
ڈراما اور اسٹیج
چوں کہ ڈراما اسٹیج پر تماشائیوں کے سامنے پیش کی جانے والی صنف ادب ہے، اس لیے ڈراما کے لیے اسٹیج کا تصور جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے ، لہذا ڈراما نگار کو ڈراما نگاری کے وقت اسٹیج کا تصور اور اس کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ اب ڈرامے کے تماشائی سننے سے زیادہ دیکھنے میں دل چسپی لینے لگے ہیں، اس لیے مکالمے سے زیادہ عملی پیش کش کی اہمیت ہے۔تماشائیوں میں بعض وہ ہوتے ہیں،جو محض تفریح طبع کے خواہش مند ہوتے ہیں، اور بعض باشعور اور اعلیٰ ذوق کے حامل افراد بھی ہوتے ہیں ، اس لیے ڈراما نگار کو لکھتے وقت ہرایک کے تسکین ذوق کا خیال رکھنا ناگزیر ہے۔
ڈراما کی اقسام
تأثرکے اعتبار سے ڈراما کی دوقسمیں ہیں: (۱)المیہ (۲)طربیہ۔
(۱)المیہ : اس میں رنج والم اور ہمدردی کا تأثر غالب رہتاہے۔
(۲)طربیہ : اس میں فرحت وانبساط کا تأثر حاوی رہتاہے، اور طنز ومزاح کے ذریعے مضحکہ خیز پہلووں کو اجاگر کیا جاتاہے۔
موضوع کے اعتبار سے اس کی درجنوں قسمیں ہوسکتی ہیں ،جیسے: سیاسی ڈرامے،سماجی ڈرامے، اصلاحی ڈرامے، مزاحیہ ڈرامے وغیرہ ۔ آج کل ریڈیو پربھی ڈراما پیش کیا جا تاہے ، اسے ’ریڈیوڈراما‘ یا ’صوتی ڈراما‘کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں اداکاروں کے عمل اور اسٹیج پر دکھائے جانے والے مناظر کو صدا کاری اور صوتی تأثر کے ذریعہ پیش کیا جاتاہے۔
ڈراما اورناول میں فرق یہ ہے کہ ڈراما میں ہر بات عمل اور ایکٹنگ کے ذریعے پیش کی جاتی ہے، جب کہ ناول میں ہر بات بیان کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ناول کو انگریزی میں ’پاکٹ تھیٹر‘ کہا جاتاہے۔
آج کل بعض مدارس میں ڈراما سے مشابہ کچھ اسی طرح کا عمل ’مکالمہ‘ اور محادثہ‘ کے عنوان سے پیش کیا جاتاہے۔ بس فرق یہ ہوتاہے کہ اس میں کردار نہیں ہوتا۔ اور اس کا مقصد صرف حقائق کا اظہار و انکشاف ہوتاہے (تفریح طبع نہیں ہوتا) اس لیے ’مکالمہ نگاری‘کے لیے بھی ’ڈرامانگاری‘ کے اجزائے ترکیبی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔
ترجمہ
کسی تحریر اور خیال کو ایک زبان سے بعینہٖ دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام ’ترجمہ‘ ہے۔ ’ترجمہ‘ ایک مستقل اور قدیم فن ہے۔ اسی کے ذریعے ایک زبان کے علوم وفنون کو دوسری زبان میں منتقل کیا جاتاہے، جس سے زبانیں پھلتی پھولتی اور فروغ پاتی ہیں۔ ویسے تو ہر دور میں ’ترجمہ نگاری‘ کی اہمیت مسلم رہی ہے ؛ لیکن عصر حاضر میں ترسیل و ابلاغ کے تمام ذرائع کا اسی پر دار ومدار ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
ہر زبان کی کچھ نہ کچھ ایسی امتیازات وخصوصیات ہوتی ہیں،جو دوسری زبانوں میں نہیں ہوتیں۔ اسی طرح ہر زبان کا مزاج اور اسلوب بھی دوسری زبان سے مختلف ہوتاہے، بایں وجہ ترجمہ کا فن قدیم ہونے کے باوجود اس کے کوئی مقررہ اصول وضع نہیں کیے جا سکے ہیں۔ تاہم چند ایسے گُر ہیں جن کا اگر ترجمہ کرتے وقت خیال رکھا جائے؛ تو ترجمہ کرنا آسان ہوسکتا ہے اور وہ درج ذیل ہیں:
(۱)جس زبان سے ترجمہ کیا جائے ، پہلے اس زبان کا ادب ، ادبی روایات اور روز مرہ استعمال ہونے والے امثال ومحاورات سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرلی جائے۔
(۲)جس موضوع اور فن کا ترجمہ کیا جائے، اس موضوع کے حوالے سے مکمل معلومات اور اس فن میں اچھی خاصی مہارت پیدا کرلی جائے۔
(۳)ترجمے میں اپنی زبان کی نزاکت اور مزاج کو قائم رکھنا بھی ضروری ہوتاہے، اس لیے مترادفات اور محاورات میں سے وہ الفاظ اور محاورے استعمال کیے جائیں،جو مضمون کے مناسب اور موقع استعمال پر مکمل طور پر فٹ ہوجائیں۔
(۴)محاورات واصطلاحات کے ترجمے کے وقت اگردوسری زبان میں ان کا متبادل موجود ہو؛ تو فبہا، ورنہ ان کے لیے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جائے جو سہل اور عام فہم ہوں۔
(۵)ترجمہ کرتے وقت سب سے پہلے جملے کی ساخت پر خوب غور وخوض کیا جائے ، اور اس کے اجزائے ترکیبی کو مکمل گرفت میں لے لیا جائے۔ چوں کہ ہر زبان کے جملوں کی بناوٹ مختلف ہوتی ہے، اس لیے اس زبان کے اجزائے کلام کی ترتیب کے مطابق ترجمہ کیا جائے، مثلاً : اردو کے جملوں میں اجزائے ترکیبی اس طرح ہوتے ہیں: (۱)فاعل (۲)مفعول (متعلقات فعل)(۳)فعل (۴)فعل امدادی،جیسے:
عارف
ایک خط
گھر
بھیج
دے گا
فاعل
مفعول
متعلقات فعل
فعل
فعل امدادی
جب کہ عربی میں سب سے پہلے فعل ، پھر فاعل ، اس کے بعد مفعول اور متعلقات فعل ہوا کرتے ہیں، جیسے:
یقرأ
حامدٌ
کتاباً
منذ یوم الجمعۃ
فعل
فاعل
مفعول
متعلقات فعل
اسی طرح اردو اور عربی دونوں کے بر خلاف انگریزی میں اجزائے کلام کی ترتیب اس طرح ہوتی ہے: (۱)فاعل (۲)امدادی فعل (۳)فعل (۴)مفعول۔ جیسے:
ABOOK
READING
IS
KHALID
مفعول
فعل(حال)
امدادی فعل
فاعل
لہذا عربی اور انگریزی کے مذکورہ بالا دونوں جملے کا اردو میں ترجمہ، ان دونوں کے اجزائے کلام کی ترتیب کے مطابق اس طرح نہیں کیا جائے گا کہ پڑھ رہاہے حامد ایک کتاب جمعہ کے دن سے۔ (عربی کا) اور خالد ہے پڑھ رہا ایک کتاب۔ (انگریزی کا)؛ بلکہ ان دونوں جملوں کا اردو کے اجزائے کلام کی ترتیب کے موافق اس طرح ترجمہ کیا جائے گا: حامدجمعے کے دن سے ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ اور خالد ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ اسی طرح اردو کا دوسری زبان میں ترجمہ کرتے وقت اس زبان کے اجزائے کلام کی ترتیب کا لحاظ رکھا جائے گا۔
(۶)صلہ جاتوں کا ترجمہ وہیں کیا جائے گا؛ جہاں زبان ان کا متقاضی ہو، اور جہاں زبان ان کا متقاضی نہ ہو؛ وہاں ان کا ترجمہ نہیں کیا جائے گا، جیسے: عربی میں بولا جاتاہے: ذہبتُ الیٰ المحطۃاس میں ’ذہب‘ فعل کا صلہ’الیٰ‘ہے، جس کے معنی: تک، طرف کے ہیں۔چوں کہ اردوزبان یہاں اس کے ترجمے کا متقاضی نہیں ہے، اس لیے’میں اسٹیشن کی طرف گیا‘ ترجمہ نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ یہ کیا جائے گا کہ : ’میں اسٹیشن گیا‘ ۔
اسی طرح انگریزی کا ایک جملہ ہے:’’ There was a king‘‘ اس کا اردو زبان کے مزاج سے ہم آہنگ ترجمہ ہوگا: ’’ایک بادشاہ تھا‘‘۔ یہ نہیں ہوگا کہ:’’ یہاں ایک بادشاہ تھا‘‘ ؛ کیوں کہ انگریزی میں یہاں پر thereکا لفظ جملے کی تکمیل کے لیے مبتدا کی ضرورت کے پیش نظر تھا۔ اردو میں اس کی ضرورت نہیں، اس لیے اردو میں ترجمہ کرتے وقت ’’یہاں‘‘ کا لفظ شامل کرنا زائد بھی ہوگا اور بے محل بھی اور کلام کا مفہوم بھی تبدیل ہو جائے گا۔
(۷)ترجمہ کرنے کے دوران مفہوم کی مکمل وضاحت کے لیے بعض جگہ ایک آدھا لفظ کم کرنے یا بڑھا نے کی ضرورت پڑتی ہے؛کیوں کہ ایک زبان کے طرز بیان میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں ، جن کا استعمال اس میں ناگزیر ہوتا ہے ،جب کہ وہ دوسری زبان کے لیے قطعی غیر ضروری؛ اس لیے ایسی صورت میں دونوں زبانوں کے مزاجوں اور جملوں کی ساخت میں مماثلت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے الفاظ کو گھٹانے بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
(۸)ترجمے میں وہی اسلوب اور طرز بیان اپنانا ضروری ہے جو اصل زبان میں ہے، مثلا: اخبار کے ترجمے میں اخباری زبان واسلوب اور ادبی مضامین کے ترجمے میں ادیبانہ اسلوب اختیار کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اصل زبان میں پائے جانے والے جذبات کی پوری پوری عکاسی کرنا بھی ناگزیر ہے۔
(۹)ترجمے والی زبان میں الفاظ کی ترتیب کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ کبھی ایسا ہوتاہے کہ جملے کے ہر ہر جز کا ترجمہ تو صحیح ہوتاہے، لیکن الفاظ کی ترتیب میں الٹ پھیر ہونے کی وجہ سے جملے کا مفہوم ہی بدل جاتاہے، جیسے: ’حامد پڑھ رہاہے‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے؛ تو ترجمہ ہوگا: Hamid is reading. لیکن اس کی ترتیب بدل دی جائے ، مثلایوں کردیاجائے کہIs Hamid reading? تو اگرچہ اردو جملے کے ہرہر جز کا ترجمہ ہوگیا، لیکن ترتیب بدل دینے کی وجہ سے سادہ جملہ استفہامیہ جملہ میں تبدیل گیا، اور اس کا مفہوم بدل کر یہ ہوگیا کہ ’’کیا حامد پڑھ رہا ہے؟۔
(۱۰)کبھی کبھی ترجمے والی زبان سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جملہ اسمیہ کا جملہ فعلیہ سے ، جملہ فعلیہ کا جملہ اسمیہ سے ، فعل لازم کا فعل متعدی سے، فعل متعدی کا فعل لازم سے ، معروف کا مجہول سے ، مجہول کا معروف سے اور صلہ وموصول کا اسم فاعل سے ترجمہ کیا جاتاہے ، جیسے: عربی جملوں کے ترجمے میں :
(۱)انما المرء بأصغریہ: قلبہ ولسانہ:آدمی اپنی دو چھوٹی چیزوں: دل اور زبان سے پہچان لیا جاتاہے۔ (۲)تنقسم الکلمۃ الیٰ ثلاثۃ اقسامٍ:اسم،وفعل، وحرفٍ:کلمے کی تین قسمیں ہیں: اسم، فعل اور حرف ۔ (۳)انتقل الرجل الذی کان ہنا امس ، الیٰ دلہی:کل یہاں موجود شخص دہلی چلا گیا۔ پہلی مثال میں جملہ اسمیہ کا جملہ فعلیہ سے ، دوسری مثال میں جملہ فعلیہ کا جملہ اسمیہ سے اور تیسری مثال میں صلہ موصول کا اسم فاعل سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
(۱۱)ترجمہ مکمل کرنے کے بعد ترجمہ اور اصل مضمون دونوں کو باربار پڑھنا چاہیے، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اصل مدعا ادا ہورہاہے یا نہیں ۔ اگر نہیں ہورہاہے، تو الفاظ کی تراش خراش کر کے اس خامی کو دور کیا جائے، اور اصل کے مطابق بنایاجائے۔
(۱۲)ترجمہ میں وہی الفاظ لکھے جائیں ، جن کے معنی ومفہوم سے اچھی طرح واقفیت ہو۔ اگر کسی لفظ کے معنی ومفہوم میں ذرابھی شک وتردد ہو؛ تو فوراً لغت کا سہارا لیا جائے، سستی وکاہلی کی وجہ سے اس کولغت دیکھے بغیر نہ لکھ دیا جائے۔کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں جو معنی ہے ،وہ نہ ہو ،اور ترجمہ کچھ کا کچھ ہوجائے۔
ترجمے کی اقسام
یوں تو ترجمے کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں؛ لیکن مجموعی تأثر کے لحاظ سے اس کی تین قسمیں ہیں: لفظی ترجمہ ۔ بامحاورہ ترجمہ۔ آزاد ترجمہ۔
لفظی ترجمہ : اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر ہر لفظ کا ترجمہ کیا جائے اور اصل زبان کے الفاظ سے ترجمے کی زبان کے الفاظ کو قریب سے قریب تر رکھا جائے؛ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ جملہ بے ربط اور زبان وبیان کا خون نہ ہونے پائے، بلکہ اس میں دل کشی اور شگفتگی برقرار رہے۔
بامحاورہ ترجمہ:اس سے مراد یہ ہے کہ ایک زبان میں مستعمل محاوروں کا دوسری زبان کے محاوروں سے ترجمہ کیا جائے۔ بہ الفاظ مختصر محاورے کا محاورے سے ترجمہ کیا جائے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ محاورے برمحل واقع ہوتے ہوں اور مفہوم میں کسی تبدیلی کے بغیر ترجمہ فصیح اور زبان کا مزاج وانداز دونوں برقرار رہتے ہوں، گویا ایسا معلوم ہوکہ یہ ترجمہ نہیں؛بلکہ خود اسی زبان کامضمون ہے، جیسے: عربی کا ایک محاورہ ہے: ’جعل الحبۃ قبۃً‘ اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہوگا کہ ’اس نے دانے کو گنبد بنادیا‘؛ لیکن اس کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہوگا کہ ’اس نے رائی کے دانے کو پہاڑ بنادیا‘۔ اسی طرح انگریزی کا ایک جملہ ہے:: Mend Your Ways اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہوگا کہ ’’اپنا راستہ درست کرو‘‘ جب کہ اس کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’اپنی چال چلن ٹھیک کرو‘‘ ۔
بامحاورہ ترجمہ کرنے میں کبھی یہ مشکل در پیش ہوتی ہے کہ دوسری زبان میں اس کا متبادل محاورہ نہیں ملتا، کیوں کہ ہر محاورے کا اپنا ایک سماجی، تاریخی اور تہذیبی پس منظرہوتا ہے اور اسی کے مشابہ واقعہ میں استعمال ہوتاہے، ہر جگہ استعمال نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اصل مفہوم کو اس طرح بیان کیا جاتاہے کہ وہ محاورے کی پوری لطافت اپنے اندر سمیٹ لے۔
آزادترجمہ:اس میں صرف مرکزی خیال اور مفہوم کو منتقل کیا جاتاہے ۔ آزاد ترجمہ نگار متن کے الفاظ کے پیچ وخم میں الجھے بغیر صرف مفہوم کو اپنی زبان اور اپنے الفاظ میں بیان کردیتاہے؛ لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مصنف کے انداز واسلوب کو کسی حدتک برقرار رکھا جائے اور اس کے احساسات وجذ بات کی کما حقہ ترجمانی کی جائے۔ اگر ترجمہ نگاری کے وقت ان تینوں قسموں میں سے کسی قسم میں ترجمہ کرنے کے دوران اس کی شرط پوری کی جائے، تو ان شاء اللہ وہ کامیاب ترجمہ ہوگا۔
فیچر
فیچرمضمون کی ہی ایک قسم ہے ۔ البتہ دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مضمون تازہ اور تحقیقی مواد پر مشتمل ہوتاہے ، جب کہ فیچر میں اس کے مقابلے میں کچھ سطحیت ہوتی ہے ۔نیز یہ مضمون کی بہ نسبت آسان اور مختصر ہوتاہے۔ اس کی کئی قسمیں ہیں، جیسے:تفریحی فیچر،تاریخی فیچر،مقامی فیچر،پریکٹیکل فیچر،سائنسی فیچر،طبی فیچروغیرہ ۔
رودادنگاری
کسی خبر ، کسی واقعہ یا کسی نوعیت کے مشاہدے وتجربے یا حادثات کی رپورٹ پیش کرنے کو ’روداد نگاری‘ کہا جاتاہے۔ اس کے تین طریقے ہیں:
(۱)مساواتی روداد نگاری: اس میں واقعہ بلا کم وکاست اور من وعن بیا ن کیا جاتاہے۔اس میں تفصیل سے کام لیا جاتاہے اورنہ اختصار سے ۔
(۲)مختصر رودادنگاری: اس میں اختصار سے کام لیا جاتاہے ، اور واقعے کی صرف بنیادی اور اہم باتوں کا تذکرہ کیا جاتاہے۔
(۳)توضیحی رودادنگاری: اس میں واقعے کی معمولی سی معمولی باتوں کو نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتاہے او ر کبھی واقعے کے پس منظر کی بھی وضاحت کردی جاتی ہے۔
روداد نگار موقع اور محل کی مناسبت سے ان تینوں طریقوں میں سے کسی طریقے کے مطابق روداد نگاری کرسکتاہے۔ آج کل پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں میں یہ سب طریقے رائج ہیں۔
روداد نگاری کی مختلف قسمیں ہیں، جیسے: جرائم کی روداد نگاری،اجلاس کی روداد نگاری،حادثات کی روداد نگاری، کھیل کود کی روداد نگاری ،سماجی تقاریب کی روداد نگاری،جدیدانکشافات کی روداد نگاری ،تعلمیے روداد نگاری، زرعی روداد نگاری ،قانونی روداد نگاری وغیرہ ۔رودادنگاری میں مہارت پیدا کرنے کے لیے جلسے جلوس میں شرکت اور اخبار کا پابندی سے مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کے انداز واسلوب سے استفادہ کرنا چاہیے۔
نثر کی اور بھی اصناف ہیں،جو اردو میں مستعمل ہیں، لیکن طوالت کے خوف سے ان سے صرف نظر کی جاتی ہے، کیو ں کہ ایک مبتدی کے لیے انھیں اصناف سے واقفیت حاصل کرلینا کافی ہے۔
گذشتہ مباحث کے مطالعے سے آپ کے اندر اتنی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے کہ آپ کوئی مقالہ تیار کر سکتے ہیں،اس لیے اب مناسب معلوم ہو تا ہے کہ اردو کی کچھ خاص خاص نثری اصناف کا تعارف کرا دیا جائے ،تا کہ ان اصناف کے درمیان پائے جا نے والے فرق کو محسوس کر سکیں، اور ان کے جدا جدا اسلوب اور طرز نگارش سے واقف ہو کر ہر ایک صنف کو اس کے مطابق لکھ سکیں۔
نثر کی دو قسمیں ہیں:(۱) مسجع (۲) مرسل ۔
مسجع :اس نثر کو کہا جا تا ہے جس میں دو یا دو سے زائد فقرے میں قافیہ کا التزام کیا جاتاہے، جیسے:قسم ہے اس کی جو ارض و سما کا نور ہے،جو عرش وفرش کا ظہور ہے۔
مرسل:اس نثر کا نام ہے، جس میں قافیے کا التزام نہیں کیا جاتا ہے۔ نثرکی مختلف صنفیں ہیں ، جو زمانے کے تقاضے کے ساتھ معرض وجود میں آتی رہی ہیں، ذیل میں کچھ صنفوں کا تعارف پیش کیا جارہا ہے ۔
مضمون
کسی موضوع کے حوالے سے اپنے احساسات وجذبات اور ذہن میں مرتسم خیالات کو سپرد قرطاس کرنے کا نام ’مضمون ‘ ہے۔
’’مضمون ‘‘ مغربی ادب کی دین ہے۔ اس کو انگریزی میں ایسے (ESSAY)کہا جاتاہے۔مضمون میں ایجاز واختصارکے ساتھ موضوع کا احاطہ نہایت گہرائی وگیرائی سے کیاجاتاہے اور شروع سے آخر تک ربط وتسلسل اور منطقی توازن برقرار رکھا جاتاہے۔عام فہم زبان، دل کش انداز بیان اور سادہ اسلوب اختیار کیا جاتاہے۔ اس میں کسی موضوع کی قید نہیں ہوتی ۔سیاسی، سماجی ، مذہبی، اخلاقی ، تاریخی ، سائنسی غرض ہر ایک موضوع پر مضمون لکھا جاسکتاہے۔
مضمون کے عموماً تین حصے ہوتے ہیں : (۱)آغاز (۲)نفس مضمون (۳) اختتام ۔
آغاز میں مضمون کے مقاصد پر روشنی ڈالی جاتی ہے ، اور آگے پیش کی جانے والی نکات اور پہلووں کی طرف اشارہ کیا جاتاہے۔ نفس مضمون میں آغاز میں بیان کردہ نکات وخیالات کی وضاحت مدلل ومرتب انداز میں کی جاتی ہے، اور اس میں اٹھا ئے گئے مسائل کا حل اور سوال کا جواب دیا جاتا ہے۔ اور اختتام میں مضمون میں بیان کردہ خیالات واستد لالات سے نتائج اخذ کر کے انھیں استدلالی طریقے سے بیان کیا جاتاہے ۔
مضمون کی اقسام: چوں کہ مضمون کے لیے کسی موضوع کی قید نہیں ہوتی ، اس لیے موضوع کے اعتبار سے اس کی درجنوں قسمیں ہوسکتی ہیں، جیسے: علمی وتحقیقی مضمون ،بیانی مضمون ، اصلاحی مضمون ، سیاسی مضمون،حکائی مضمون، ذہنی مضمون اور مزاحیہ مضمون وغیرہ۔
انشا
’ انشا ‘عربی کا لفظ ہے، اس کے معنی عبارت آرائی کے ہیں ۔اصطلاح میں دل سے کوئی بات پیدا کرنے یا بات سے بات پیدا کرنے کو ’انشا ‘کہا جاتاہے۔اس میں انشا نگار اپنے ذاتی خیالات وتأثرات اور مشاہدات وتجربات بیان کرتاہے، اور اپنے زور قلم سے معمولی سی معمولی بات کو غیر معمولی بنادیتاہے۔ اسی وجہ سے اس کو’ذاتی شبیہ‘ یا’ قلمی تصویر‘ بھی کہا جا تاہے۔ انشا نگار ایسا شگفتہ اور شاعرانہ انداز بیان اختیار کرتاہے جس سے قاری کو لطف آنے لگتا ہے اور اس کی جادو بیانی سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ مضمون کی طرح اس میں بھی شروع سے آخر تک ربط وتسلسل کا پایا جانا ضروری ہے۔ نیز اس میں مواد کم اور عبارت آرائی زیادہ ہوتی ہے ۔
انشائیہ مضمون ہی کی ایک قسم ہے ۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ مضمون میں معلومات کا دخل ہوتاہے ، جب کہ انشا میں تأثرات کی کار فرمائی ہوتی ہے۔مضمون میں خیال انگیزی پائی جاتی ہے او رانشا میں تخیل پرستی ۔ مضمون میں صرف متعلقہ موضوع سے بحث کی جاتی ہے، اور انشا میں انشا نگار کے ذہن میں جو کچھ آتاہے ، اسے آزادانہ طور پر موضوع سے ربط برقرار رکھتے ہوئے بیان کر دیتاہے ۔
مضمون کی طرح اس میں بھی کسی موضوع کی قید نہیں ہوتی ، بلکہ یہ انشا نگار کے منشا کا تابع ہوتاہے ۔ اسی وجہ سے ایک ادیب جانسن نے اسے ’ذہن کی آزاد ترنگ‘ کہا ہے ۔
ذیل میں اردو کے مشہور انشا نگار مولانا ابو الکلام آزادؔ کا ایک انشائیہ بطور نمونہ دیا جارہاہے:
’’ہم نے ایمان کا اعلان کیا ہے، خدا پرستی کا دعویٰ کیا ہے، سرفروشی و جاں ستانی کا نعرہ لگایا ہے، ہم نے قربانی وجاں بازی کا ہزاروں ، لاکھوں مرتبہ نام لیا ہے، ہم نے حق پرستی کے عہد کیے ہیں، اور ملک سے عشق ومحبت کا پیمان وفا باندھا ہے، ہم نے نامردی اور بزدلی کی ہمیشہ حقارت کی ، ہم نے حق سے منھ موڑنے اور خدا کو پیٹھ دکھا نے پر لعنتیں بھیجیں ، ہم ان پر ہنسے، جو تکلیفوں اور مشکلوں سے گھبرا گئے، ہم نے ان کی بدبختی ومحرومی سے پناہ مانگی، جو وقت پر دعووں میں پورے نہ اترے ۔ یہ سب کچھ ہم نے اپنی مرضی اور طلب سے کیا، خدا اور اس کے فرشتے ہماری زبانوں اور ہمارے دلوں پر گواہ ہیں ، پھر اگرآج آزمائش کی گھڑی آگئی ہے اور وہ منزل سامنے ہے ،جس کے لیے ہم اس قدر دعوے کر چکے ہیں ؛ توکیا ہم عین وقت پر اپنے تمام دعوے بھلادیں گے؟ کیا ہمارا دعویٰ دھوکہ ثابت ہوگا ؟ اور ہمارا اعلان محض فریب کا تماشہ ہوگا؟ کیا ہم نے جو کچھ کہا ؛ وہ جھوٹ تھا؟ اور ہم نے اپنے ایمان اور حق کے لیے جو کچھ سمجھا ؛ وہ دھوکہ تھا؟۔ (الجمعیۃ آزاد نمبر ۔بحوالہ تقاریرمولانا آزادؒ )
خطوط
وہ معلومات وکیفیات ، جذبات واحساسات اور حالات وضروریات ،جو ایک شخص دوسرے شخص کو بواسطۂ تحریر ظاہر کرتاہے اسے ’خط‘ کہا جاتاہے ، بہ الفاظ دیگر ایک دوسرے سے بُعد مکانی کے باعث زبان لحم کے بجائے زبان قلم سے گفتگو کرنے کا نام ’مکتوب یا خط‘ ہے۔ اگر چہ یہ ملاقات کا بدل نہیں ہے، تاہم اسے نصف ملاقات کا درجہ دیا جاسکتاہے، چنانچہ خط کے بارے میں بابائے اردو مولوی عبدا لحق صاحب رقمطراز ہیں کہ :
’’خط دلی خیالات اور جذبات کا روز نامچہ اور اسرار حیات کا صحیفہ ہے۔ اس میں وہ صداقت اور خلوص ہے، جو دوسرے کلام میں نظر نہیں آتا۔ خطوط سے انسان کی سیرت کا جیسا انداز ہ ہوتا ہے ، وہ کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں ہوسکتا‘‘ ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر چہ نظم، افسانہ ، ناول اور ڈراما وغیرہ میں بھی انسانی سیرت اور اس کے کیریکٹر کی کچھ جھلکیاں ملتی ہیں؛ لیکن ان سب میں لکھنے والا بناوٹی باتوں کا سہارا لیتا ہے اورمبالغہ آرائی سے کام لیتاہے ، اس لیے ضروری نہیں ہے کہ ان اصناف سخن میں لکھنے والا اپنے دلی جذبات اور صحیح احساسات کا اظہار کریں، لیکن خط میں ، جب کوئی رکاوٹ اوراجنبیت نہ ہو ؛ تو لکھنے والا اپنے دل کی ساری باتوں کو بلا جھجھک لکھ ڈالتاہے، اس لیے انسانی سیرت کا اس سے جس قدر اندازہ لگا یا جا سکتا ہے وہ کسی اور ذرائع سے ممکن نہیں ۔
خط لکھتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
(۱)چوں کہ یہ تحریری گفتگو ہے، لہذا گفتگوکی طرح سا دہ انداز تحریر اختیار کرنا چاہیے ۔
(۲)القاب وآداب کے الفاظ مرسل الیہ کے مقام ومرتبہ اور اس کے حسب حال ہونا چاہیے۔
(۳)لکھنے میں ایجاز سے کام لینا چاہیے،لیکن اتنا بھی ایجاز نہ ہو کہ مطلب بھی واضح نہ ہو سکے اور ہر ہر جملہ فلسفہ بن جاے۔
گفتگو میں اس قدر توالجھنیں پیدا نہ کر
ورنہ تیرا جملہ جملہ فلسفہ بن جائے گا
(۴)اسلوب نگارش مرسل الیہ کے حسب حال ہونا چاہیے۔اگر مرسل الیہ طبقۂ عوام سے تعلق رکھتا ہے، تو اس کے لیے نہایت سادہ اور سلیس انداز میں لکھا جائے گا۔اور اگروہ طبقۂ اہل علم سے تعلق رکھتا ہے،تو اس کے لیے عالمانہ انداز اور ادیبانہ طرز اختیار کیا جا ئے گا۔
(۵)ایسے مشترک اور مشتبہ الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہیے ،جس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہو، نیز تحریر عمدہ اور صاف ستھری ہونی چاہیے،کیوں کہ بسا اوقات خراب تحریر کی وجہ سے لکھا کچھ جا تا ہے ،اور پڑھا کچھ اورجا تا ہے، جس سے غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے،جیسا کہ ایک شاعر نے کہاہے کہ:
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا
ہم دعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
خط میں چار اہم اجزا ہو تے ہیں:(۱)تمہید(۲)افتتاحیہ(۳)نفس مضمون(۴)اختتام۔
(۱)تمہید: اس حصے میں مرسل الیہ کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے مناسب القاب لکھے جاتے ہیں، جیسے: بڑوں اور بزرگوں کے لیے:مخدومی، محترمی، حضوروالا،جناب والا،آں جناب وغیرہ۔دوستوں کے لیے:محبی، مکرمی، برادرم، محب گرامی،جگری دوست، وفادار ساتھی وغیرہ۔اور بچوں کے لیے:عزیز من ،عزیز گرامی،نور نظر، لخت جگر، بابو، پیارے،دلارے، سرور قلب وغیرہ۔
(۲)افتتاحیہ:اس حصے میں ملاقاتی الفاظ اور جملے لکھے جا تے ہیں ،جیسے:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، سلام مسنون،آداب،آداب عرض ہے، تسلیم، تسلیمات، تسلیم و نیاز، آداب و تسلیم، باد نسیم سے زیادہ لطیف اور مشک کی نکہت سے زیادہ معطر سلام قبول کیجیے وغیرہ۔
(۳)نفسِ مضمون: اس حصے میں مرسِل مرسَل الیہ کو اپنی ضروری باتوں اور خط لکھنے کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے۔اس لیے اس میں ایسا اسلوب نگارش اختیار کرنا چاہیے، جس سے مکتوب الیہ متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے،اور پورا خط نہایت توجہ او ر دل جمعی کے ساتھ پڑھنے پر مجبور ہو جائے۔
(۴)اختتام:اس حصے میں مرسَل الیہ کے لیے خیریت و عافیت کے جملے لکھے جاتے ہیں،اور اپنے خلوص و محبت اور نیاز مندی کا اظہار کیا جا تاہے،جیسے:آخر میں میرا دلی سلام قبول کیجیے۔ہمارے دائمی خلوص کو شرف قبولیت سے نوازیے ،اب اجازت دیجیے،خدا حافظ ،خوش رہو، اب زیادہ کیا عرض کروں۔ فقط والسلام۔
خط کی اقسام :نفسِ مضمون اور حالات و ضروریات کے پیشِ نظر خط کی درجنوں قسمیں ہو سکتی ہیں،جیسے:شخصی خطوط،کاروباری خطوط، دفتری خطوط ،اخباری خطوط،تعزیتی خطوط،تہنیتی خطوط وغیرہ۔
نمونہ کے لیے ایک دوخط پیش کیا جارہا ہے:
پانی پت
۲۰ ؍جولائی ۱۹۰۴ء
جنابِ من
شمس العلما کا خطاب ملنے پر جس گرم جوشی اور مسرت کے ساتھ آپ نے خاکسار کو مبارک باددی ہے، اس کا شکریہ تہہ دل سے ادا کرتا ہوں، اور اس کو اپنے لیے دستاویز فخر وامتیاز سمجھتاہوں۔
آپ کے فصیح وبلیغ اشعار کو میں فخر یہ کسی اخبار میں چھپواوں گا۔ مجھے ترجمہ کرنے کی اب تک فرصت نہیں ملی ’آج کل‘ میں معہ ترجمہ کے لاہور بھیجوں گا۔ازراہِ عنایت مطلع کیجیے گااورنیز کراچی کی آب وہوا کا حال لکھیے گا کہ اب کیا رنگ ہے۔میں آج کل حد سے زیادہ عدیم الفرت ہوں،کسی تصنیف یا تالیف کے سبب نہیں،بلکہ مکروہاتِ خانگی کی وجہ سے ، ورنہ آپ کا شکر یہ ایسا سرسری طور پر معمولی الفاظ میں ہر گز نہ لکھتا۔
زیادہ نیاز
آپ کا نیاز مند
(دستخط)
الطاف حسین حالی
یہ دوسرا خط بھی ملاحظہ فرمائیے:
بھوپال
۲۰؍اگست ،۱۹۳۵ء
مخدومی، السلام علیکم
آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا ہے ،جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میں بھی یہاں حمید یہ لائبریری اور بعض پرائیوٹ،احباب سے کتابیں منگواکر دیکھتا رہا۔ الحمداللہ کہ بہت سی باتیں مل گئیں۔ اس مطالعے سے مجھے بے انتہا فائدہ ہوا، اور آپ کے خط نے تو اور بھی راہیں کھول دی ہیں۔
میں نے کبھی اپنے آپ کوشاعرنہیں سمجھا۔ اس واسطے کوئی میرارقیب نہیں ہے، اور نہ میں کسی کواپنارقیب تصورکرتا ہوں۔ فنِ شاعری سے کبھی مجھے دل چسپی نہیں رہی۔ ہاں بعض مقاصدِ خاص رکھتا ہوں، جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات وروایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔
مخلص
(دستخط)
محمد اقبال
تقریظ
تقریظ عربی کا لفظ ہے ،جس کے معنی : تعریف کرنے او ر سراہنے کے ہیں۔ کسی کتاب پر تقریظ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر تبصرہ کرنا ۔اس کی خوبیوں کو اجا گر کرنا اور صاحب کتاب کی تعریف وتوصیف کرنا، کبھی تقریظ میں کتاب میں در آنے والی غلطیوں یا مؤلف سے ہوئی لغزشوں کی طرف اشارہ اور ان کی جگہ اپنی رائے کا اظہار کیا جاتاہے۔
لیکن اب تقریظ میں عموماً صرف محاسن بیان کیے جاتے ہیں ، خامیوں اور فرو گذاشتوں سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ اگر صرف معائب ہی لکھے جائیں اور خوبیاں بالکل نظر انداز کردیے جائیں ؛ تو اسے ’تقریظ‘ کے بجائے ’تنقیص‘کہا جاتا ہے۔ کسی کسی تقریظ میں تقریظ نگار مصنف کو کوئی مفید مشورہ بھی دیتاہے،جو کتاب کے موضوع سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور اس کے لیے سود مند بھی، اور آخر میں کتاب اور صاحب کتاب دونوں کے لیے دعائیہ کلمات لکھے جاتے ہیں۔
خاکہ
کسی شخصیت کی انفرادی خصوصیات وامتیازات اور ان کی زندگی کے نمایاں پہلووں کو (خواہ ان کا تعلق خوبیوں سے ہوں یا خامیوں سے) مختصر ، مگر جامع انداز میں پیش کرنے کا نام ’خاکہ ‘ ہے۔
اس کو انگریزی میں اسکیچ (SKETCH)کہا جاتاہے ۔ جس طرح اسکیچ میں کسی کی شکل وصورت یا خصوصیت کو خطوط اور نقوش کے ذریعہ اجاگر کیا جاتا ہے، اسی طرح ’’خاکہ ‘‘ میں اختصاراور اشاروں میں صرف وہ کردار بیان کیا جاتا ہے،جو اس کی حقیقی زندگی کے نقوش کو ابھارسکے۔اس میں عام طور پر خاکہ نگار اپنے ذاتی مشاہدہ، تعلق اور تجربے کی روشنی میں اس کی سیرت کوپیش کرتا ہے اور صرف خاص خاص واقعات کو تحریر کرتا ہے ۔ اس میں سوانح کی طرح مکمل زندگی کا احاطہ نہیں کیا جاتا۔
سوانح
زندگی کے کسی خاص شعبے سے تعلق رکھنے والی کسی مشہور اور ممتازہستی کی پوری زندگی، اس کے واقعات حیات کے تمام گوشوں اور اس کے کارناموں کو قلم بند کرنے کا نام’سوانح ‘ہے ۔
اس میں پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام حالات لکھے جاتے ہیں۔ سوانح نگار تفسیر حیات کے ساتھ ساتھ اپنا تجزیہ بھی پیش کرتاہے۔ اس میں وہی باتیں اور وہی واقعات لکھے جاتے ہیں، جو حقیقی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں جعلی اور فرضی کہانیاں بیان نہیں کی جاتیں۔
جب کوئی خود اپنی زندگی کے حالات قلم بندکرتاہے؛ تو اسے’خود نوشت سوانح‘کہا جاتاہے،جیسے: مولانا ابوالکلام آزادؔ کی کتاب : ’تذکرہ‘ ان کی خود نوشت سوانح ہے ۔
سوانح اور خاکہ دونوں عربی اور فارسی ادب کی دین ہیں، اردو میں ان کا باقاعدہ آغاز اس وقت سے ہوا، جب کہ شاعروں اور ادیبوں نے سوانح لکھنا شروع کیا۔
ان دونوں صنفوں میں فرق یہ ہے کہ سوانح میں پوری زندگی کا احاطہ کیا جاتا ہے، اور ایک ایک خصوصیت کو پوری طرح نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، جب کہ خاکہ میں زندگی کے صرف اہم اہم واقعات لکھے جاتے ہیں اور تفصیل سے گریز کیا جاتاہے۔
تذکرہ
جس میں شعرا کے احوال وکوائف اور ان کے کلام کے نمونے لکھے جاتے ہیں، اسے’ تذکرہ‘ کہتے ہیں ۔ تذکرہ کی مختلف لوگوں نے مختلف حیثیتوں سے تقسیم کی ہے، بعضوں نے اس کی تقسیم ہےئت اور موضوع کے اعتبار سے کی ہے، اور بعضوں نے خصوصیات کے اعتبار سے اس کی قسمیں نکالیں ہیں ۔ چنانچہ ڈاکٹر زور نے اردو تذکروں کی تین قسمیں کی ہیں:
(۱)وہ تذکرہ، جو کسی شاعر نے لکھا ہو۔
(۲)وہ تذکرہ ،جس کو لکھنے والا کسی بڑے شاعر کا شاگرد ہو یا اس کا مداح ہو۔
(۳)وہ تذکرہ، جس کو لکھنے والا نہ تو شاعر ہو اور نہ ہی کسی شاعر کا شاگرد ؛ بلکہ صرف سخن فہم ہو ۔ اس کے برخلاف ڈاکٹر عبداللہ نے خصوصیات کے اعتبار سے اس کی سات قسمیں کی ہیں:
(۱)وہ تذکرے، جن میں صرف اعلیٰ شاعروں کے مستند حالات اور ان کے کلام کا انتخاب موجودہو۔
(۲) وہ تذکرے، جن میں قابل ذکر شعرا کے حالا ت اور نمونۂ کلام جمع کیا گیا ہو اورتذکرہ نگار کا مقصد صرف جامعیت ہو۔
(۳)وہ تذکرے، جن میں تمام شعرا کے عمدہ کلام اور ان کا مفصل انتخاب پیش کیا گیاہو ، اور ان میں حالات جمع کرنے کی طرف زیادہ توجہ نہ کی گئی ہو۔
(۴)وہ تذکرے ،جن میں اردو شاعری کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہو، اور تذکرے کا مقصد اس کی ارتقائی تاریخ کو قلم بند کرنا ہو۔
(۵)وہ تذکرے، جن میں صرف مخصوص دور سے بحث کی گئی ہو۔
(۶)وہ تذکرے، جن میں کسی خاص وطنی یا ادبی گروہ کی ترجمانی کی گئی ہو۔
(۷)وہ تذکرے، جن کا مقصد تنقید سخن اور اصلاح سخن ہو۔
(مستفاد از ’’اردو ادب ، ص؍ ۹۶و۹۷، بحوالہ ’’شعرائے اردو کے تذکرے‘‘)
تذکرہ نگاری کے وقت ان باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور ان کی روشنی میں تذکرہ نگاری کرنی چاہیے۔
طنزو مزاح
زندگی کی ناہمواریوں اور مضحکہ خیز پہلووں کو حقیقی روپ دے کر اس میں طنزیہ عنصر شامل کر کے ایسے شیفتہ وشگفتہ انداز میں پیش کرنا کہ پڑھنے اور سننے والے لطف اندوز ہونے لگیں’’طنز ومزاح‘‘کہلاتاہے۔
طنز ومزاح یہ دونوں لفظ عام طور پر ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں ؛ لیکن ان دونوں کے معنی اور طرزبیان میں تھوڑاسا فرق ہے: مزاح میں صرف ہنسی کا سامان ہوتاہے،جب کہ طنز میں اصلاح کا جذبہ بھی پیش نظر رہتاہے۔ مزاح میں زندگی کی ناہم واریوں کو ہو بہ ہو پیش کیا جاتا ہے، جب کہ طنز میں ان ناہم واریوں سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا جاتاہے۔ مزاح سے محض تفریح مقصود ہوتی ہے، جب کہ طنز میں ہنسی ہنسی میں معاشر ہ اور سماج میں پائی جانے والی خرابی پر چوٹ کی جاتی ہے۔
ایک اعلیٰ درجے کی مزاح نگاری کے لیے طنز کا بھی ہونا ضروری ہے؛کیوں کہ مزاح میں اگر طنز نہ ہو ؛ تو اس میں سطحیت آجاتی ہے، اور اس کے بغیر پھکڑپن اور مذاق بن جاتاہے۔ اس لیے طنزو مزاح ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم سمجھے جاتے ہیں، البتہ اتناہوسکتاہے کہ کبھی مزاح کا پہلو غالب رکھا جائے اور طنز کا مغلوب ، اور کبھی طنز کا پہلو غالب رکھا جائے اور مزاح کا مغلوب۔
مزاح نگاری دیگر صنف ادب کے مقابلے میں انسانوں کی اصلاح اور معاشرے میں سدھا ر لانے کے لیے ایک بہترین صنف ادب ہے، کیوں کہ ایک واعظ یا ناصح، جب کسی بات کو دو ٹوک انداز میں کہہ دیتاہے ، تو بسااوقات سامعین اس سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس کرنے لگتے ہیں ، لیکن جب وہی بات ایک مزاح نگار اپنے خوشگوار طریقے سے کہتاہے، تو سامعین کو بری نہیں لگتی؛ بلکہ انھیں اصلاح کی فکر ہونے لگتی ہے۔
مزاح نگاری کی متعدد قسمیں ہیں: تمسخر، ضلع بھگت ، (بذلہ سنجی و ظرافت)پھبتی،لطیفے، پیروڈی وغیرہ۔ ذیل میں نمونہ کے لیے کنہیا لال کپور کے ایک مزاحیہ مضمون سے ایک اقتباس دیا جارہاہے، جس کا عنوان ہے :
’’غالبؔ جدید شعرا کی محفل میں ‘‘
۶: م۔ن۔ ارشد: اب مرزا، غزل کا دوسرا شعر فرمائیے۔
غالبؔ : میں اب عرض مقطع کروں گا ، کہا ہے:
عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
۷: عبد الحی نگاہؔ : گستاخی معاف مرزا! اگر اس شعر کا پہلا مصرعہ اس طرح لکھا جاتا، تو ایک بات پیدا ہوجاتی۔
غالبؔ : کس طرح؟
عبد الحی نگاہؔ :
عشق نے، ہاں ہاں تمھارے عشق نے
عشق نے سمجھے؟ تمھارے عشق نے
مجھ کو نکما کردیا
اب نہ اٹھ سکتاہوں میں
اور چل تو سکتا ہی نہیں
جانے کیا بکتا ہوں میں
یعنی نکما کردیا
اتنا تمھارے عشق نے
گر تاہوں اور اٹھتاہوں میں
اٹھتاہوں اور گرتاہوں میں
یعنی تمھارے عشق نے
اتنا نکما کردیا
غالبؔ : (طنز اً )
بہت خوب ، غضب کردیا۔
غیظ احمد غیظؔ :
اور دوسرا مصرعہ اس طرح لکھا جا سکتا تھا:
جب تک نہ مجھ کو عشق تھا
تب تک مجھے کچھ ہوش تھا
سب کام کر سکتا تھا میں
اور دل میں میرے جوش تھا
اس وقت تھا میں آدمی
اور آدمی تھا کام کا
لیکن تمھارے عشق نے
مجھ کو نکما کردیا
۸: غالبؔ : واللہ! کمال ہی تو کردیا ۔ بھئی اب آپ لوگ اپنا کلام سنائیں۔
م۔ ن۔ ارشد : کیوں نہ اب ڈاکٹر حسین خالصؔ سے درخواست کی جائے کہ اپنا کلام پڑھیں۔
ڈاکٹر خالصؔ : میری نظم کا عنوان ہے: ’’عشق‘‘ عرض کیا ہے کہ:
عشق کیا ہے؟
میں نے اک عاشق سے پوچھا
اس نے یوں روکر کہا
عشق اک طوفان ہے
عشق اک سیلاب ہے
عشق ہے اک زلزلہ
شعلۂ جوالہ ہے عشق
عشق ہے پیغام موت
غالبؔ : بھئی یہ کیا مذاق ہے ۔ نظم پڑھیے ۔ مشاعرے میں نثر کا کیا کام؟
ڈاکٹر خالص: (جھنجھلا کر) تو آپ کے خیال میں یہ نثر ہے؟ یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم ؟ اور فرمایا تھا آپ نے : ع
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں
غالبؔ : میری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ یہ کس قسم کی نظم ہے۔ نہ ترنم، نہ قافیہ ، نہ ردیف ۔
ڈاکٹر خالص: مرزا صاحب ! یہی تو جدید شاعری کی خصوصیت ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو قافیہ اور ردیف کی فولادی زنجیروں میں قید کر رکھا تھا۔ ہم نے اس کے خلاف جہاد کر کے اسے آزاد کیا ہے۔ ( اقتباس از: ’’اردو ادب‘‘ ص؍ ۱۰۸)
پیروڈی
کسی نظم یا نثر کے اصل مضمون میں تصرف کر کے مزاحیہ انداز میں اس طرح پیش کرنا کہ اصل مضمون کی پرچھائیاں باقی رہتے ہوئے اس میں طنز ومزاح پیدا ہوجائے ’پیروڈی‘ کہلاتا ہے۔
پیروڈی یونانی لفظ ہے ۔یہ پیروڈیا (PARODIA)ّْ ّْ سے مشتق ہے، اس کے معنی ہیں: جوابی نغمہ۔ اردو میں اس کا کوئی متبادل لفظ وضع نہیں کیا گیا ہے، اس لیے لفظ پیروڈی ہی استعمال ہوتاہے۔ ذیل میں احمد فراز کی ایک شاہ کار غزل اور اس میں مشہور مزاح نگار : دلاور فگار کی پیروڈی سے نمونہ دیا جا رہا ہے۔
احمد فراز کی غزل کے چند اشعار
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے دہن سے گلاب جھڑتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعرو شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
دلاورفگار کی پیروڈی
سیاہ زلف کو جو بن سنور کے دیکھتے ہیں
سفید بال کہاں اپنے سر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے فیس ہے کچھ اس سے بات کرنے کی
یہ فیس کیا ہے؟ ابھی بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے لوگ سیہ فام مہ جبینوں کو
لگا کے دھوپ میں چشمے نظر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جیب میں مفلس بھی مال رکھتے ہیں
سو مفلسوں کی بھی جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے شوق ہے ان کو بھی گھوڑ سواری کا
جو رات کو بھی اجالے سحر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے عشق میں مشکل ہے میٹرک کرنا
رزلٹ کچھ بھی سہی، فارم بھر کے دیکھتے ہیں
ادیب و شاعر و فن کار بوتے ہیں جو شجر
یہ لوگ پھل کہاں اپنے شجر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے مرنے کے بعد ان کی قدر ہوتی ہے
سو چند دن کے لیے ہم بھی ’’ مر کے دیکھتے ہیں ‘‘
افسانہ
زندگی کا کوئی ایک واقعہ اور کو ئی ایک جھلک، انتہائی اختصارکے ساتھ، مگرجامع انداز میں پیش کرنا ’افسانہ کہلاتا ہے۔
افسانے کی تعمیر وتشکیل میں کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے، ماحول (زمان ومکان) ، اسلوب اور نظرےۂ حیات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہرافسانے میں ایک کہانی ہوتی ہے ۔کہانی کے مختلف واقعات کو ترتیب دینے کو ’پلاٹ‘ کہاجاتاہے ۔ان واقعات کو کسی ایکٹر کے ذریعے نمایاں کرنے کا نام: ’کردارہے۔ کردار کے ساتھ ایکٹر کی زندگی کے پہلو وں کو مناسب ’مکالموں‘کے ذریعے نمایاں کیا جاتاہے۔جب کہانی،پلاٹ اور کردار ہوں گے ؛ تو لازمی طور پر ان کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوگا اور یہ تمام عناصر کسی خاص جگہ اور مخصوص زمانے میں وقوع پذیر ہوں گے، جو ’ماحول‘سے عبارت ہے۔اس میں اسلوب نگارش اور افسانہ نگار کا نظرےۂ حیات، دونوں کافی اہم ہو تے ہیں ۔ اسلوب قاری کو متأثر اور مرعوب کرتاہے اور نظرےۂ حیات افسانے میں نئی معنویت پیدا کرتاہے۔
افسانے کی بنیادی شرط اختصارہے۔ مختصر افسانے کو انگریزی میںSHORT STORYکہا جاتاہے ۔ ایک امریکی ادیب اڈا گر الین یو کے نے اس کی تعریف ہی یوں کی ہے کہ ’’وہ نثری قصہ ہے جو ایک نشست میں پڑھا جاسکے‘‘ اور ایک نشست کا وقت آدھے گھنٹے سے لے کر ایک گھنٹہ تک متعین کیا ہے۔
افسانے میں شروع سے آخر تک ربط وتسلسل برقرار رکھا جاتاہے، اور غیر ضروری باتوں اور بے جوڑ جزوی واقعوں سے گریز کیا جاتاہے، اور وحدت تأثر (مجموعی اثر) پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ناول
ایسا نثری قصہ، جس میں زندگی میں پیش آنے والے مختلف حقیقی واقعات کو مبسوط اورتفصیلی انداز میں پیش کیا جاتاہے، ’ناول‘ کہلاتاہے۔
ناول ایک جدیدصنف ادب ہے، جس کا وجود د استان کے ختم ہونے کے بعد ہواہے۔مختلف حضرات نے اس کی خصوصیات کے مد نظر مختلف تعریفیں کی ہیں۔مثلاً مشہور ناول نگار ہنری جیمس نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے کہ ’’ناول کا زندگی پر راست اور شخصی اثر ہوتاہے‘‘۔ کسی نے کہا ہے کہ ’’یہ زندگی کی شبیہ یا تصویر ہے‘‘۔
ناول کی دو بنیادی شرطیں ہیں: جن کا پایا جانا ضروری ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس میں حقیقی زندگی میں درپیش مسائل کو ہی بیان کیا جاتاہے۔اور دوسری شرط یہ ہے کہ اس کے ضمنی واقعات کو مرکزی قصہ اور اس کے کردار سے از عنوان تااختتام مربوط رکھا جاتاہے۔
افسانے کی طرح اس کے بھی وہی سات عناصر ترکیبی ہیں،یعنی:کہانی،پلاٹ، کردار، مکالمے، زمان ومکان یا پس منظر، زاویہ نگاہ اور اسلوب۔کہانی،ناول کا بنیادی عنصر ہے۔ کہانی کے واقعات میں ایسا معنوی اور باطنی ربط وتسلسل ہوتا ،جس سے اگلا واقعہ پچھلے واقعے کا منطقی اور لازمی نتیجہ معلوم ہونے لگے:’پلاٹ‘ کہا جاتاہے۔ انسان عملی زندگی میں مختلف حالات و حادثات سے دو چار ہوتا ہے اور انھیں چیزوں کو ناول میں انسانی کردار کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ جذبات واحساسات کا اظہار انسان کے بیان سے ہوتا ہے اسی لیے مکالمے کو ناول کا ضروری جزو قرار دیاگیا ہے۔ مکالمے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فطری اور حقیقی زندگی سے قریب ہو، اس میں جگہ، وقت، طبقات اور جغرافیائی حالات کو پیش نظر رکھا گیا ہو اور واقعے کی اس طرح تصویر کشی کی گئی ہو کہ پڑھنے والے کے سامنے مکمل تصویر نکھر کر آجائے، اور وہ خود کو اس میں شریک محسوس کرے، کیوں کہ ایک کامیاب ناول کے لیے ایسی منظر نگاری ضروری ہے۔ لیکن اگر ان عناصر کے برتنے میں کوئی کمزوری یا جھول واقع ہو جائے ، تو اسے ناول کے دائرے سے خارج قرار نہیں دیا جائے گا، بشرطیکہ اس میں مذکورہ بالا دونوں شرطیں پائی جاتی ہوں۔ اسی وجہ سے انگریزی کے مشہور ناول نگار ورجیناوولف نے کہا ہے کہ: ’’صنف ناول شتر مرغ کی طرح ہر چیز کو ہضم کر جاتی ہے۔ اس میں شاعری، فلسفہ، تہذیب، معاشیات، عمرانیات، نفسیات غرض کہ کوئی علم وفن ایسا نہیں ہے جو بیان نہیں کیا جاسکتا۔گویا ناول ایک وسیع اورلچک دار صنف ادب ہے، جس میں زندگی کو وسیع ترین انداز میں پیش کیا جا سکتاہے ۔
ناول اور افسانے میں فرق یہ ہے کہ افسانہ مختصر ہوتاہے جب کہ اس کے مقابلے میں ناول طویل ہوتا ہے۔ افسانے میں زندگی کی کوئی ایک جھلک پیش کی جاتی ہے،جب کہ ناول میں مختلف واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔
داستان
دستان ایک ایسی صنف ادب ہے جس میں خیالی، فرضی اور محیر العقول قصوں کو چند کرداروں کے ذریعہ دل نشیں پیراے میں بیان کیا جاتاہے۔ داستان انتہائی طویل ہوتی ہے، جس میں کوئی مرکزی پلاٹ نہیں ہوتا۔ اور اس میں ایک مرکزی قصے سے دوسرے ضمنی قصے بھی جوڑدیے جاتے ہیں، جو اپنے طور پر مکمل آزاد ہوتے ہیں۔اس میں عموما ایسی مافوق الفطرت کہانیاں،حسن و عشق کی رنگینیاں اور محیر العقول واقعات بیان کیے جاتے ہیں، جو فطری زندگی میں پائے نہیں جاتے، جیسے: جناتوں اور پریوں کی کہانیاں، جادوگروں اور ان کے محیر العقول کارنامے وغیرہ وغیرہ۔
داستان اور ناول میں فرق یہ ہے کہ ناول میں حقیقی زندگی سے مشابہ زندگی پیش کی جاتی ہے، جب کہ داستان میں فرضی کہانی بیان کی جاتی ہے ۔داستان میں شروع سے آخرتک کردار ایک نہیں ہوتا؛ بلکہ کئی کردار (ایکٹرس) ہوتے ہیں، جب کہ ناول میںیہ ایک ہوتاہے۔
ڈراما
جس میں واقعات حیات اورانسانی افعال اداکاروں کے عمل اور مکالموں کے ذریعے پیش کیے جاتے ہیں، وہ ’ڈراما‘ کہلاتا ہے۔
’ڈراما‘ یونانی لفظ ہے اور ’ڈراو‘سے بنا ہے ، اس کے معنی ’عمل‘ کے ہیں۔’ڈراما‘کی مختلف لوگوں نے مختلف تعریفیں کی ہیں، چنانچہ ارسطو کے بقول:’’ڈراماانسانی افعال کی نقل ہے‘‘۔ سسرو کے الفاظ میں : ’’ڈراما زندگی کی نقل، رسم ورواج کا آئینہ اور سچائی کا عکس ہوتاہے‘‘، وکٹر ہیوگو کے مطابق ’’ڈراما ایک آئینہ ہے جس میں فطرت منعکس ہوتی ہے‘‘۔
ڈراما میں تین اہم اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں:(۱)کہانی(۲)اداکاری(کردار) (۳)پلاٹ۔
ڈراما میں کہانی اداکاروں کے عمل اور مکالموں کے ذریعے بیا ن کی جاتی ہے۔ عمل اور مکالموں کو مخصوص انداز میں ترتیب دینے کو ’پلاٹ‘ کہا جاتاہے۔ ڈرامے کے ’پلاٹ‘کی ابتدا کسی داخلی یا خارجی کشمکش اور تصادم سے کی جاتی ہے ۔ یہ کشمکش اور ٹکراؤ دو اداکاروں کے درمیان ہوتاہے، جس میں ایک انسان دوسرے انسان سے، ایک خاندان دوسرے خاندان سے، ایک طبقہ دوسرے طبقہ سے اور ایک ملک دوسرے ملک سے متصادم ہوتا ہے۔
آغاز سے اختتام تک ڈرامائی عمل میں تسلسل پا یا جاتاہے، اسے ’ڈرامائی خط‘ کہا جاتاہے، یہ خط چھ مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے:
(۱)تمہید: اس میں آگے کی کہانی کو سمجھانے کے لیے گذشتہ واقعے کی طرف اشارہ کیا جاتاہے۔
(۲)ابتدائے واقعہ : یہاں سے ڈراما کا آغاز ہو جاتاہے۔
(۳)ارتقا: اس مرحلے میں کشمکش اور تصادم ہونے لگتاہے۔
(۴)عروج : اس حصے میں کشمکش عروج پر پہنچ جاتی ہے۔
(۵) زوال : یہاں سے کشمکش دور ہونے لگتی ہے۔
(۶)انجام: اس مرحلے میں ’ڈراما‘ گذرے ہوئے واقعات کی روشنی میں کسی انجام تک پہنچ جاتاہے۔ اور اسی پر ڈراما کے اختتام ہو جاتا ہے۔
ڈراما اور اسٹیج
چوں کہ ڈراما اسٹیج پر تماشائیوں کے سامنے پیش کی جانے والی صنف ادب ہے، اس لیے ڈراما کے لیے اسٹیج کا تصور جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے ، لہذا ڈراما نگار کو ڈراما نگاری کے وقت اسٹیج کا تصور اور اس کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ اب ڈرامے کے تماشائی سننے سے زیادہ دیکھنے میں دل چسپی لینے لگے ہیں، اس لیے مکالمے سے زیادہ عملی پیش کش کی اہمیت ہے۔تماشائیوں میں بعض وہ ہوتے ہیں،جو محض تفریح طبع کے خواہش مند ہوتے ہیں، اور بعض باشعور اور اعلیٰ ذوق کے حامل افراد بھی ہوتے ہیں ، اس لیے ڈراما نگار کو لکھتے وقت ہرایک کے تسکین ذوق کا خیال رکھنا ناگزیر ہے۔
ڈراما کی اقسام
تأثرکے اعتبار سے ڈراما کی دوقسمیں ہیں: (۱)المیہ (۲)طربیہ۔
(۱)المیہ : اس میں رنج والم اور ہمدردی کا تأثر غالب رہتاہے۔
(۲)طربیہ : اس میں فرحت وانبساط کا تأثر حاوی رہتاہے، اور طنز ومزاح کے ذریعے مضحکہ خیز پہلووں کو اجاگر کیا جاتاہے۔
موضوع کے اعتبار سے اس کی درجنوں قسمیں ہوسکتی ہیں ،جیسے: سیاسی ڈرامے،سماجی ڈرامے، اصلاحی ڈرامے، مزاحیہ ڈرامے وغیرہ ۔ آج کل ریڈیو پربھی ڈراما پیش کیا جا تاہے ، اسے ’ریڈیوڈراما‘ یا ’صوتی ڈراما‘کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں اداکاروں کے عمل اور اسٹیج پر دکھائے جانے والے مناظر کو صدا کاری اور صوتی تأثر کے ذریعہ پیش کیا جاتاہے۔
ڈراما اورناول میں فرق یہ ہے کہ ڈراما میں ہر بات عمل اور ایکٹنگ کے ذریعے پیش کی جاتی ہے، جب کہ ناول میں ہر بات بیان کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ناول کو انگریزی میں ’پاکٹ تھیٹر‘ کہا جاتاہے۔
آج کل بعض مدارس میں ڈراما سے مشابہ کچھ اسی طرح کا عمل ’مکالمہ‘ اور محادثہ‘ کے عنوان سے پیش کیا جاتاہے۔ بس فرق یہ ہوتاہے کہ اس میں کردار نہیں ہوتا۔ اور اس کا مقصد صرف حقائق کا اظہار و انکشاف ہوتاہے (تفریح طبع نہیں ہوتا) اس لیے ’مکالمہ نگاری‘کے لیے بھی ’ڈرامانگاری‘ کے اجزائے ترکیبی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔
ترجمہ
کسی تحریر اور خیال کو ایک زبان سے بعینہٖ دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام ’ترجمہ‘ ہے۔ ’ترجمہ‘ ایک مستقل اور قدیم فن ہے۔ اسی کے ذریعے ایک زبان کے علوم وفنون کو دوسری زبان میں منتقل کیا جاتاہے، جس سے زبانیں پھلتی پھولتی اور فروغ پاتی ہیں۔ ویسے تو ہر دور میں ’ترجمہ نگاری‘ کی اہمیت مسلم رہی ہے ؛ لیکن عصر حاضر میں ترسیل و ابلاغ کے تمام ذرائع کا اسی پر دار ومدار ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
ہر زبان کی کچھ نہ کچھ ایسی امتیازات وخصوصیات ہوتی ہیں،جو دوسری زبانوں میں نہیں ہوتیں۔ اسی طرح ہر زبان کا مزاج اور اسلوب بھی دوسری زبان سے مختلف ہوتاہے، بایں وجہ ترجمہ کا فن قدیم ہونے کے باوجود اس کے کوئی مقررہ اصول وضع نہیں کیے جا سکے ہیں۔ تاہم چند ایسے گُر ہیں جن کا اگر ترجمہ کرتے وقت خیال رکھا جائے؛ تو ترجمہ کرنا آسان ہوسکتا ہے اور وہ درج ذیل ہیں:
(۱)جس زبان سے ترجمہ کیا جائے ، پہلے اس زبان کا ادب ، ادبی روایات اور روز مرہ استعمال ہونے والے امثال ومحاورات سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرلی جائے۔
(۲)جس موضوع اور فن کا ترجمہ کیا جائے، اس موضوع کے حوالے سے مکمل معلومات اور اس فن میں اچھی خاصی مہارت پیدا کرلی جائے۔
(۳)ترجمے میں اپنی زبان کی نزاکت اور مزاج کو قائم رکھنا بھی ضروری ہوتاہے، اس لیے مترادفات اور محاورات میں سے وہ الفاظ اور محاورے استعمال کیے جائیں،جو مضمون کے مناسب اور موقع استعمال پر مکمل طور پر فٹ ہوجائیں۔
(۴)محاورات واصطلاحات کے ترجمے کے وقت اگردوسری زبان میں ان کا متبادل موجود ہو؛ تو فبہا، ورنہ ان کے لیے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جائے جو سہل اور عام فہم ہوں۔
(۵)ترجمہ کرتے وقت سب سے پہلے جملے کی ساخت پر خوب غور وخوض کیا جائے ، اور اس کے اجزائے ترکیبی کو مکمل گرفت میں لے لیا جائے۔ چوں کہ ہر زبان کے جملوں کی بناوٹ مختلف ہوتی ہے، اس لیے اس زبان کے اجزائے کلام کی ترتیب کے مطابق ترجمہ کیا جائے، مثلاً : اردو کے جملوں میں اجزائے ترکیبی اس طرح ہوتے ہیں: (۱)فاعل (۲)مفعول (متعلقات فعل)(۳)فعل (۴)فعل امدادی،جیسے:
عارف
ایک خط
گھر
بھیج
دے گا
فاعل
مفعول
متعلقات فعل
فعل
فعل امدادی
جب کہ عربی میں سب سے پہلے فعل ، پھر فاعل ، اس کے بعد مفعول اور متعلقات فعل ہوا کرتے ہیں، جیسے:
یقرأ
حامدٌ
کتاباً
منذ یوم الجمعۃ
فعل
فاعل
مفعول
متعلقات فعل
اسی طرح اردو اور عربی دونوں کے بر خلاف انگریزی میں اجزائے کلام کی ترتیب اس طرح ہوتی ہے: (۱)فاعل (۲)امدادی فعل (۳)فعل (۴)مفعول۔ جیسے:
ABOOK
READING
IS
KHALID
مفعول
فعل(حال)
امدادی فعل
فاعل
لہذا عربی اور انگریزی کے مذکورہ بالا دونوں جملے کا اردو میں ترجمہ، ان دونوں کے اجزائے کلام کی ترتیب کے مطابق اس طرح نہیں کیا جائے گا کہ پڑھ رہاہے حامد ایک کتاب جمعہ کے دن سے۔ (عربی کا) اور خالد ہے پڑھ رہا ایک کتاب۔ (انگریزی کا)؛ بلکہ ان دونوں جملوں کا اردو کے اجزائے کلام کی ترتیب کے موافق اس طرح ترجمہ کیا جائے گا: حامدجمعے کے دن سے ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ اور خالد ایک کتاب پڑھ رہا ہے۔ اسی طرح اردو کا دوسری زبان میں ترجمہ کرتے وقت اس زبان کے اجزائے کلام کی ترتیب کا لحاظ رکھا جائے گا۔
(۶)صلہ جاتوں کا ترجمہ وہیں کیا جائے گا؛ جہاں زبان ان کا متقاضی ہو، اور جہاں زبان ان کا متقاضی نہ ہو؛ وہاں ان کا ترجمہ نہیں کیا جائے گا، جیسے: عربی میں بولا جاتاہے: ذہبتُ الیٰ المحطۃاس میں ’ذہب‘ فعل کا صلہ’الیٰ‘ہے، جس کے معنی: تک، طرف کے ہیں۔چوں کہ اردوزبان یہاں اس کے ترجمے کا متقاضی نہیں ہے، اس لیے’میں اسٹیشن کی طرف گیا‘ ترجمہ نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ یہ کیا جائے گا کہ : ’میں اسٹیشن گیا‘ ۔
اسی طرح انگریزی کا ایک جملہ ہے:’’ There was a king‘‘ اس کا اردو زبان کے مزاج سے ہم آہنگ ترجمہ ہوگا: ’’ایک بادشاہ تھا‘‘۔ یہ نہیں ہوگا کہ:’’ یہاں ایک بادشاہ تھا‘‘ ؛ کیوں کہ انگریزی میں یہاں پر thereکا لفظ جملے کی تکمیل کے لیے مبتدا کی ضرورت کے پیش نظر تھا۔ اردو میں اس کی ضرورت نہیں، اس لیے اردو میں ترجمہ کرتے وقت ’’یہاں‘‘ کا لفظ شامل کرنا زائد بھی ہوگا اور بے محل بھی اور کلام کا مفہوم بھی تبدیل ہو جائے گا۔
(۷)ترجمہ کرنے کے دوران مفہوم کی مکمل وضاحت کے لیے بعض جگہ ایک آدھا لفظ کم کرنے یا بڑھا نے کی ضرورت پڑتی ہے؛کیوں کہ ایک زبان کے طرز بیان میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں ، جن کا استعمال اس میں ناگزیر ہوتا ہے ،جب کہ وہ دوسری زبان کے لیے قطعی غیر ضروری؛ اس لیے ایسی صورت میں دونوں زبانوں کے مزاجوں اور جملوں کی ساخت میں مماثلت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے الفاظ کو گھٹانے بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
(۸)ترجمے میں وہی اسلوب اور طرز بیان اپنانا ضروری ہے جو اصل زبان میں ہے، مثلا: اخبار کے ترجمے میں اخباری زبان واسلوب اور ادبی مضامین کے ترجمے میں ادیبانہ اسلوب اختیار کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اصل زبان میں پائے جانے والے جذبات کی پوری پوری عکاسی کرنا بھی ناگزیر ہے۔
(۹)ترجمے والی زبان میں الفاظ کی ترتیب کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ کبھی ایسا ہوتاہے کہ جملے کے ہر ہر جز کا ترجمہ تو صحیح ہوتاہے، لیکن الفاظ کی ترتیب میں الٹ پھیر ہونے کی وجہ سے جملے کا مفہوم ہی بدل جاتاہے، جیسے: ’حامد پڑھ رہاہے‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے؛ تو ترجمہ ہوگا: Hamid is reading. لیکن اس کی ترتیب بدل دی جائے ، مثلایوں کردیاجائے کہIs Hamid reading? تو اگرچہ اردو جملے کے ہرہر جز کا ترجمہ ہوگیا، لیکن ترتیب بدل دینے کی وجہ سے سادہ جملہ استفہامیہ جملہ میں تبدیل گیا، اور اس کا مفہوم بدل کر یہ ہوگیا کہ ’’کیا حامد پڑھ رہا ہے؟۔
(۱۰)کبھی کبھی ترجمے والی زبان سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جملہ اسمیہ کا جملہ فعلیہ سے ، جملہ فعلیہ کا جملہ اسمیہ سے ، فعل لازم کا فعل متعدی سے، فعل متعدی کا فعل لازم سے ، معروف کا مجہول سے ، مجہول کا معروف سے اور صلہ وموصول کا اسم فاعل سے ترجمہ کیا جاتاہے ، جیسے: عربی جملوں کے ترجمے میں :
(۱)انما المرء بأصغریہ: قلبہ ولسانہ:آدمی اپنی دو چھوٹی چیزوں: دل اور زبان سے پہچان لیا جاتاہے۔ (۲)تنقسم الکلمۃ الیٰ ثلاثۃ اقسامٍ:اسم،وفعل، وحرفٍ:کلمے کی تین قسمیں ہیں: اسم، فعل اور حرف ۔ (۳)انتقل الرجل الذی کان ہنا امس ، الیٰ دلہی:کل یہاں موجود شخص دہلی چلا گیا۔ پہلی مثال میں جملہ اسمیہ کا جملہ فعلیہ سے ، دوسری مثال میں جملہ فعلیہ کا جملہ اسمیہ سے اور تیسری مثال میں صلہ موصول کا اسم فاعل سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
(۱۱)ترجمہ مکمل کرنے کے بعد ترجمہ اور اصل مضمون دونوں کو باربار پڑھنا چاہیے، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اصل مدعا ادا ہورہاہے یا نہیں ۔ اگر نہیں ہورہاہے، تو الفاظ کی تراش خراش کر کے اس خامی کو دور کیا جائے، اور اصل کے مطابق بنایاجائے۔
(۱۲)ترجمہ میں وہی الفاظ لکھے جائیں ، جن کے معنی ومفہوم سے اچھی طرح واقفیت ہو۔ اگر کسی لفظ کے معنی ومفہوم میں ذرابھی شک وتردد ہو؛ تو فوراً لغت کا سہارا لیا جائے، سستی وکاہلی کی وجہ سے اس کولغت دیکھے بغیر نہ لکھ دیا جائے۔کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں جو معنی ہے ،وہ نہ ہو ،اور ترجمہ کچھ کا کچھ ہوجائے۔
ترجمے کی اقسام
یوں تو ترجمے کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں؛ لیکن مجموعی تأثر کے لحاظ سے اس کی تین قسمیں ہیں: لفظی ترجمہ ۔ بامحاورہ ترجمہ۔ آزاد ترجمہ۔
لفظی ترجمہ : اس کا حاصل یہ ہے کہ ہر ہر لفظ کا ترجمہ کیا جائے اور اصل زبان کے الفاظ سے ترجمے کی زبان کے الفاظ کو قریب سے قریب تر رکھا جائے؛ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ جملہ بے ربط اور زبان وبیان کا خون نہ ہونے پائے، بلکہ اس میں دل کشی اور شگفتگی برقرار رہے۔
بامحاورہ ترجمہ:اس سے مراد یہ ہے کہ ایک زبان میں مستعمل محاوروں کا دوسری زبان کے محاوروں سے ترجمہ کیا جائے۔ بہ الفاظ مختصر محاورے کا محاورے سے ترجمہ کیا جائے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ محاورے برمحل واقع ہوتے ہوں اور مفہوم میں کسی تبدیلی کے بغیر ترجمہ فصیح اور زبان کا مزاج وانداز دونوں برقرار رہتے ہوں، گویا ایسا معلوم ہوکہ یہ ترجمہ نہیں؛بلکہ خود اسی زبان کامضمون ہے، جیسے: عربی کا ایک محاورہ ہے: ’جعل الحبۃ قبۃً‘ اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہوگا کہ ’اس نے دانے کو گنبد بنادیا‘؛ لیکن اس کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہوگا کہ ’اس نے رائی کے دانے کو پہاڑ بنادیا‘۔ اسی طرح انگریزی کا ایک جملہ ہے:: Mend Your Ways اس کا لفظی ترجمہ تو یہ ہوگا کہ ’’اپنا راستہ درست کرو‘‘ جب کہ اس کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’اپنی چال چلن ٹھیک کرو‘‘ ۔
بامحاورہ ترجمہ کرنے میں کبھی یہ مشکل در پیش ہوتی ہے کہ دوسری زبان میں اس کا متبادل محاورہ نہیں ملتا، کیوں کہ ہر محاورے کا اپنا ایک سماجی، تاریخی اور تہذیبی پس منظرہوتا ہے اور اسی کے مشابہ واقعہ میں استعمال ہوتاہے، ہر جگہ استعمال نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اصل مفہوم کو اس طرح بیان کیا جاتاہے کہ وہ محاورے کی پوری لطافت اپنے اندر سمیٹ لے۔
آزادترجمہ:اس میں صرف مرکزی خیال اور مفہوم کو منتقل کیا جاتاہے ۔ آزاد ترجمہ نگار متن کے الفاظ کے پیچ وخم میں الجھے بغیر صرف مفہوم کو اپنی زبان اور اپنے الفاظ میں بیان کردیتاہے؛ لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مصنف کے انداز واسلوب کو کسی حدتک برقرار رکھا جائے اور اس کے احساسات وجذ بات کی کما حقہ ترجمانی کی جائے۔ اگر ترجمہ نگاری کے وقت ان تینوں قسموں میں سے کسی قسم میں ترجمہ کرنے کے دوران اس کی شرط پوری کی جائے، تو ان شاء اللہ وہ کامیاب ترجمہ ہوگا۔
فیچر
فیچرمضمون کی ہی ایک قسم ہے ۔ البتہ دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مضمون تازہ اور تحقیقی مواد پر مشتمل ہوتاہے ، جب کہ فیچر میں اس کے مقابلے میں کچھ سطحیت ہوتی ہے ۔نیز یہ مضمون کی بہ نسبت آسان اور مختصر ہوتاہے۔ اس کی کئی قسمیں ہیں، جیسے:تفریحی فیچر،تاریخی فیچر،مقامی فیچر،پریکٹیکل فیچر،سائنسی فیچر،طبی فیچروغیرہ ۔
رودادنگاری
کسی خبر ، کسی واقعہ یا کسی نوعیت کے مشاہدے وتجربے یا حادثات کی رپورٹ پیش کرنے کو ’روداد نگاری‘ کہا جاتاہے۔ اس کے تین طریقے ہیں:
(۱)مساواتی روداد نگاری: اس میں واقعہ بلا کم وکاست اور من وعن بیا ن کیا جاتاہے۔اس میں تفصیل سے کام لیا جاتاہے اورنہ اختصار سے ۔
(۲)مختصر رودادنگاری: اس میں اختصار سے کام لیا جاتاہے ، اور واقعے کی صرف بنیادی اور اہم باتوں کا تذکرہ کیا جاتاہے۔
(۳)توضیحی رودادنگاری: اس میں واقعے کی معمولی سی معمولی باتوں کو نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتاہے او ر کبھی واقعے کے پس منظر کی بھی وضاحت کردی جاتی ہے۔
روداد نگار موقع اور محل کی مناسبت سے ان تینوں طریقوں میں سے کسی طریقے کے مطابق روداد نگاری کرسکتاہے۔ آج کل پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں میں یہ سب طریقے رائج ہیں۔
روداد نگاری کی مختلف قسمیں ہیں، جیسے: جرائم کی روداد نگاری،اجلاس کی روداد نگاری،حادثات کی روداد نگاری، کھیل کود کی روداد نگاری ،سماجی تقاریب کی روداد نگاری،جدیدانکشافات کی روداد نگاری ،تعلمیے روداد نگاری، زرعی روداد نگاری ،قانونی روداد نگاری وغیرہ ۔رودادنگاری میں مہارت پیدا کرنے کے لیے جلسے جلوس میں شرکت اور اخبار کا پابندی سے مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کے انداز واسلوب سے استفادہ کرنا چاہیے۔
نثر کی اور بھی اصناف ہیں،جو اردو میں مستعمل ہیں، لیکن طوالت کے خوف سے ان سے صرف نظر کی جاتی ہے، کیو ں کہ ایک مبتدی کے لیے انھیں اصناف سے واقفیت حاصل کرلینا کافی ہے۔