6 Apr 2018

نبی اکرم ﷺ کا آخری حج (حجۃ الوداع)

محمد یاسین جہازی قاسمی
نبی اکرم ﷺ کا آخری حج (حجۃ الوداع)

روانگی کی تمہید
جب سورہ النصر نازل ہوئی، تو نبی اکرم ﷺ نے قدرت کا یہ اشارہ سمجھ لیا کہ اب رحلت کا وقت قریب آگیاہے، چنانچی ۱۰ھ ؁ میں یہ ارادہ فرمالیا کہ آخری حج کرلیا جائے، بڑا اہتمام کیا گیا، کوشش یہ کی گئی کہ کوئی عقیدت مند محروم نہ رہ جائے ، آس پاس کے قبائل میں ارادہ پاک کی اطلاع دی گئی، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت یمن میں تھے، ان کو حج میں شرکت کی دعوت بھجوائی گئی۔ تمام ازواج مطہرات کو ساتھ چلنے کی خوش خبری سنائی گئی ،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تیاری کا حکم ملا۔۲۴؍ ذی قعدہ جمعہ کا دن تھا، مسجد نبوی میں جمعہ میں۲۵؍ کی روانگی کا اعلان ہوا۔
روانگی کا پہلا دن ۲۵؍ ذی قعدہ بروز سنیچر
۲۵؍ ذی قعدہ بروز سنیچر ، آپ ﷺ نے غسل فرمایا، لباس تبدیل کیے اور مسجد نبوی میں ظہر کی نمازکے لیے تشریف لائے ۔ نماز سے قبل آپ نے خطبہ دیا، جس میں مسائل حج بیان کیے۔ پھر نماز ادا فرمائی اور حمد و شکر کے ترانوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد صحابہ کرام آپ ﷺ کے ہمرکاب تھے، جہاں تک نظر جاتی تھی ، ہر طرف انسانوں کا سیلاب نظر آتا تھا۔مدینے سے۹ کیلو میٹر کے فاصلے پر مقام ذوالحلیفہ ہے، آپ ﷺ یہاں پہنچے تو عصر کا وقت ہوچکا تھا، اس لیے سب سے پہلے آپ ﷺ نے دو رکعت نماز عصر ادا کی اوررات بھی یہیں قیام فرمایا۔سبھی نوازواج مطہرات شریک سفر تھیں، اس رات سبھی سے صحبت فرمائی۔
روانگی کا دوسرا دن ۲۶؍ ذی قعدہ بروز اتوار
دوسرے دن نبی اکرم ﷺ نے غسل فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جسم پاک پر اپنے ہاتھوں سے عطر لگائی۔سر پر تلبید(سر کے بالوں کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے کچھ کرنا) فرمائی ۔ قربانی کے۶۳؍ جانوروں کو گلے میں جوتے پہناکر نشان زد کیا اور انھیں ناجیۃ اسلمی رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا۔ پھر آپ نے احرام کی چادریں زیب تن فرمائیں۔ ظہر کی نماز مسجد ذوالحلیفہ(مسجد شجرہ ) میں ادا کی۔پھر بڑے دردو گداز سے دو رکعتیں پڑھیں اور مسجد سے باہر تشریف لاکر اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوئے اورحج و عمرہ کے لیے احرام باندھتے ہوئے ترانہ لبیک بلند فرمایا: 
لبیک اللھم لبیک ، لاشریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک، لاشریک لک۔
اس ایک صدائے لبیک کی اقتدا میں ہزارہا آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئیں ، جن سے دشت وجبل ترانہ توحید سے گونج اٹھے۔ روانگی شروع ہوگئی اور ذوالحلیفہ کے قریب بیدا کی پہاڑی پر پہنچے۔یہاں کبھی آپ حج و عمرہ کے لیے تلبیہ پڑھتے تھے اور کبھی صرف حج کا۔ اور کبھی آپ یہ دعا پڑھتے تھے کہ 
اللھم اجعلہ حجا لا ریاء ا فیہ و لا سمعۃ۔
ائے اللہ! اسے دکھاوے اور شہرت سے پاک حج فرما۔
بیدا کی پہاڑی پر
جب بیدا کی پہاڑی پر چڑھے، تو یہیں پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی، جس کا نام محمد ابن ابوبکر رکھا گیا۔ پیدائش کے وقت حضرت جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام تشریف لائے اور یہ پیغام پہنچایا کہ آپ ﷺ صحابہ کو آواز بلند کرنے کا حکم دیں۔ یہاں حضور ﷺ نے زور سے لبیک کہا، صحابہ نے بھی آپ کی آواز سے آواز ملائی، جس سے آسمان کا خلا حمد خدا سے لبریز ہوگیا۔جب مدینے سے اٹھائیس میل دور مقام ملل پر پہنچے تو آپ نے یہاں پر پیر کے اپری حصہ پرحجامہ کرایا۔ پھر آگے بڑھے اور وادی روحا پہنچے۔جو مدینے سے چوہتر کلو میٹر دور ہے۔
وادی روحا میں
یہاں پر آپ ﷺ سواری سے اترے اور نماز ادا فرمائی پھر ارشاد فرمایا کہ اس مقام پر ستر نبیوں نے نماز پڑھی ہے۔ پھر قافلہ آگے کے لیے روانہ ہوگیا ۔اور اثایہ پہنچا ، یہاں دیکھا کہ ایک ہرن شکار کی ہوئی ہے۔ چوں کہ محرم کے لیے شکار جائز نہیں ہے، اس لیے ایک شخص کو اس جگہ مقرر کردیا تاکہ کوئی محرم اسے استعمال نہ کرے۔ اور قافلہ آگے بڑھتا رہا۔یہاں تک کہ لحی جمل آگیا۔ یہاں آپ ﷺ تھوڑی دیر ٹھہرے اور اپنے سر پر پچھنا لگوایا۔ بعد ازاں قافلہ آگے کے لیے روانہ ہوا۔
وادی عرج میں انتظار
چلتے چلتے وادی عرج پہنچے،یہاں دیکھا تو معلوم ہوا کہ سامان جس غلام کے سپرد تھا، وہ ابھی تک نہیں پہنچا ہے، لہذا اس کا انتظار فرمانے لگے۔ اس سفر میں حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سامان ایک ہی اونٹ پر تھا۔ وہ غلام بہت دیر میں آیا اور وہ بھی خالی ہاتھ ۔ یہ دیکھ کرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمھار اونٹ کہاں ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ صبح سے ہی گم ہوگیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کافی ناراض ہوئے اور غلام کی پٹائی کرنے لگے اور کہاکہ ایک ہی تو اونٹ تھا اور اسے بھی گم کردیا۔ حضور ﷺ نے یہ منظر دیکھا تو تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
انظروا الیٰ ھذا المحرم ما یصنع؟
ان محرم کو دیکھو کہ کیا کر رہے ہیں، یعنی حالت احرام میں مار پیٹ کر رہے ہیں۔
جب فضالہ اسلمی رضی اللہ عنہ اورصحابہ کو حضور ﷺ کے اونٹ کے گم ہونے کی اطلاع ملی تو وہ آپ کے لیے کھانا تیار کر کے لائے۔ حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر کو آواز دی کہ آو اللہ تعالیٰ نے بہترین غذا عطا فرمائی ہے،مگر حضرت ابوبکر کافی غصے میں تھے، اور غلام کو ڈانٹ ڈپٹ رہے تھے ۔حضور اکرم ﷺنے ان سے کہا: ابوبکر غصہ کو جانے دو۔کچھ دیر بعد اونٹنی مل گئی۔ کھانا تناول کے بعد حضرت سعد اور حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہما خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ سامان کی اونٹنی ہے اسے قبول فرمالیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تمھیں برکت دے ، ہماری اونٹنی اللہ کے فضل سے مل گئی ہے۔ یہاں سے آگے کے لیے روانہ ہوئے۔ اور مقام ابوا پہنچے، جو مدینے سے 228کلو میٹر پر واقع ہے۔آج کل اس کا نام مستورۃ ہے۔یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ ﷺ کی والدہ محترمہ مدفون ہیں۔
مقام ابوا
جب آپ یہاں پہنچے، تو حضرت صعب ابن جثامہ رضی اللہ عنہ نے حمار وحشی آپ کو ہدیۃ پیش کیا، جسے آپ ﷺ نے قبول کرنے سے منع کردیا ، کیوں کہ محرم کے لیے شکار کا گوشت جائز نہیں ہے۔ یہاں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ حضرت انجش رضی اللہ عنہ عورتوں کے اونٹوں کو ہنکا رہے تھے اور اونٹوں کو تیز چلانے کے لیے نغمے بھی گاتے جارہے تھے، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے کہا کہ انجش! تمھاری سواری میں شیشے یعنی عورتیں ہیں، تھوڑا آہستہ ہنکاؤ۔ قافلہ چل ہی رہا تھا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا۔ وہ بہت زیادہ رونے لگیں۔ آپ ﷺ کو اطلاع ہوئی۔ آپ تشریف لائے، تو انھیں تسلی دی اور اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پوچھے، لیکن وہ مزید رونے لگیں۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے انھیں ڈانٹا اور لوگوں کو قیام کرنے کا حکم دیا۔ حالاں کہ یہاں آپ کے ٹھہرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ نبی اکرم ﷺ اپنے خیمے میں آرام فرمانے لگے۔ یہ دن خود حضرت صفیہ کی باری کا دن تھا۔ نبی اکرم ﷺ کی ڈانٹ سے انھیں یہ احساس ہوا کہ رسول اللہ ﷺان سے ناراض ہوگئے ہیں۔ چنانچہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور کہاکہ اگر رسول اللہ ﷺ کی مجھ سے ناراضگی دور کرادیں، تو میں اپنی باری تمھیں دے دوں گی۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے۔ انھوں نے اپنا دوپٹہ لیا، لباس پہنی اور رسول اللہ ﷺ کے خیمہ کے پاس جاکر خیمہ کا کنارہ اٹھاکر اندر جھانکا۔ حضرت عائشہ کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا ہوا عائشہ ! آج تو تمھاری باری نہیں ہے، تو حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ اللہ اپنا فضل جسے چاہتا ہے عنایت کرتا ہے۔ دوپہر کا وقت تھا ، اس لیے نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ کے ساتھ قیلولہ فرمایا۔ بعد ازاں آپ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ایک اونٹ صفیہ کو دیدو ، تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ میں اپنا اونٹ یہودیہ کو دوں گی ! یہ جواب سن کر نبی اکرم ﷺ شدید ناراض ہوئے ، حتیٰ کہ پورے سفر میں اور مدینہ لوٹنے کے بعد ربیع الاول تک ان سے بات چیت نہیں کی۔ پھر یہاں سے قافلہ آگے بڑھا۔
وادی عُسفان 
چلتے چلتے مکہ سے ۲۵ ؍ کلو میٹر دور واقع وادی عسفان پہنچے۔ یہاں پر آپ نے قیام فرمایا۔اسی مقام پر نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ یہ کونسی وادی ہے؟ تو حضرت ابوبکرنے جواب دیا کہ یہ وادی عسفان ہے۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اسی مقام سے حضرت ھود اور حضرت صالح علیہما السلام حج کے لیے تلبیہ پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے تھے۔یہاں آپ آرام فرمارہے تھے کہ حضرت سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ نے آپ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ہمیں حج کا طریقہ اس طرح سکھا دیجیے کہ جیسے کہ ہم آج ہی پیدا ہوئے ہیں یعنی اس طرح سکھائیں کہ گویا ہمیں پہلے سے کچھ معلوم نہیں ہے، چنانچہ سرکار دو عالم ﷺ نے انھیں حج کا مکمل طریقہ سکھایا۔
مقام سرف
پھر وہاں سے آگے بڑھے اور سرف پہنچے، یہاں ایک شرعی مسئلہ یہ پیش آیا کہ اماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عورتوں والا معاملہ پیش آگیا، تو وہ کافی رونے لگیں کہ میرا تو سفر ہی بیکار ہوگیا اور حج کا وقت کا قریب ہے اور میں ناپاک ہوں۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے انھیں تسلی دی اور بتایا کہ یہ تو سبھی عورتوں کو پیش آتا ہے۔ پھر حضور ﷺ نے صحابہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے ، وہ مکہ مکرمہ میں داخلے کے بعد عمرہ کریں گے اور عمرہ کے بعد احرام کھول دیں گے۔
مقام ذو طویٰ
قافلہ آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ کے بالکل قریب ذو طوی پہنچ گئے ۔ شام ہوگئی تھی ، اس لیے رات یہیں قیام فرمایا۔یہ سنیچرکی شام اوراتوارکی رات اور تاریخ ۴ ؍ ذی الحجہ تھی۔جب صبح ہوئی تو مکہ معظمہ کی عمارتیں نظر آنے لگیں۔آپ نے سب سے پہلے غسل فرمایا اور مکہ میں داخلے کی تیاری کرنے لگے اور وادی ازرق کا راستہ اختیار کیا۔
وادی ازرق
جب وادی ازرق پہنچے ، تو ایک لمحہ کے لیے حضور ﷺ یہاں رک گئے اور ارشاد فرمایا کہ اس وقت میرے سامنے وہ منظر ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام حج کے لیے آئے تھے اور اس مقام سے گزرے تو انھوں نے اپنی انگلیاں کانوں میں ڈالیں اور زور سے زور سے ترانہ حج پڑھنے لگے۔
مکہ میں داخلہ
جوں جوں آپ مکہ سے قریب ہوتے جارہے تھے ، توں توں ہاشمی خاندان کے افراد حضور اکرم ﷺ کے استقبال کے لیے بے تابانہ بے خود ہوئے جارہے تھے اور معصوم بچے سراپا شوق بنے ہوئے اپنے گھروں سے دوڑتے نکل رہے تھے۔ چنانچہ جب ان کی نگاہیں سرورکائنات ﷺ پر پڑیں، تو بچے آپ کی سواری کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے ۔ ادھر سرکار دوجہاں کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ ان کے معصوم چہروں کو دیکھ کر جوش محبت سے جھک گئے اور کسی کو اپنی سواری کے آگے اور کسی کو پیچھے بیٹھالیا۔جب اور آگے بڑھے ، تو کعبۃ اللہ کی عمارت نظر آنے لگی، جس پر آپ کی زبان سے یہ ارشاد عالی مقام صادر ہوا کہ 
اللھم زد بیتک ھذا تشریفا و تعظیما و تکریما و مھابۃ
ائے اللہ خانہ کعبہ کو اور زیادہ شرف و امتیاز عطا فرما۔
آپ باب بنی شیبہ سے مسجد حرام میں داخل ہوئے ۔ سب سے پہلے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ بعدہ طواف فرمایا۔ جب طواف مکمل ہوگیا ، تو مقام ابراہیم پر آئے اور دوگانہ ادا فرمایا ، اس وقت زبان اقدس و اطہر پر یہ آیت جاری تھی کہ 
واتخذوا من مقام ابراھیم مصلیٰٰ (سورۃ البقرۃ، آیۃ: )
نماز سے فراغت کے بعد پھر حجر اسود کو بوسہ دیا ۔پھر زمزم کے پاس آئے ۔ کچھ نوش فرمایا اور کچھ اپنے سر پر ڈالا۔اور باب الصفا سے نکل کر صفا کے قریب پہنچے تو آپ کی زبان پر یہ آیت تھی کہ 
ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ
صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا کہ جس کے ذکر سے اللہ نے شروعات کی ہے ، میں بھی اسی سے شروع کرتا ہوں، چنانچہ پہلے صفاپہاڑی پر تشریف لے گئے۔پہاڑی پر اتنا اوپر چڑھے کہ کعبۃ اللہ نظر آنے لگا۔ یہاں تھوڑی دیر تکبیر و تحمید میں مشغول رہے ۔اس کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کی سات چکریں پوری فرمائیں۔ جب مروہ پر سعی پوری ہوئی، تو آپ ﷺ نے حج کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں کے پاس ہدی نہیں ہے ، وہ اپنا احرام کھول دیں اور جن کے پاس ہدی ہے وہ بدستور حالت احرام میں ہی رہیں۔پھر آپ نے حلق یعنی سرمنڈوانے والے کے لیے تین مرتبہ اور قصر کرنے والوں کے لیے ایک مرتبہ مغفرت کی دعا فرمائی۔ یہاں سے پھر آپ اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور یہاں پر چار دن قیام فرمایا۔
نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تھا، جب ان کو نبی اکرم ﷺ کے ارادہ حج کی اطلاع ملی، تو آپ براہ راست یمن سے مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ مکہ پہنچ کرسب سے پہلے اپنی بیوی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ حضرت فاطمہ حالت احرام میں نہیں ہیں، تو وہ بہت غصہ ہوئے۔ جس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ایسا انھوں نے اس لیے کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پھر حضرت علی نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے، اس وقت سرور کائنات ﷺ ابطح میں تھے۔ ملاقات کے بعد ان سے پوچھا کہ بما اھللت یا علی؟ ائے علی کس چیز کا احرام باندھے ہو، تو انھوں نے جواب دیا کہ جس چیز کا احرام نبی اکرم ﷺ نے باندھا ہے، تو آپ نے حکم دیا کہ پھر حالت احرام میں ہی رہو، کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے قربانی کے جانورلے کر آئے تھے۔اسی مقام پر صحابہ کی حضور اکرم ﷺ پر وارفتگی اور جاں نثاری کا وہ عدیم النظیر واقعہ پیش آیا، جو تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ آپ نے وضو فرمایا تو صحابہ کی وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے پانی کو زمین پر گرنے نہیں دیا، اس سے پہلے ہی ہاتھوں میں اٹھا لیا او ر برکت حاصل کرنے کے لیے اپنے چہروں پر ملنے لگے۔
ساتویں ذی الحجہ کو آپ ﷺ بطحا سے مکہ تشریف لائے اور ایک درد انگیز خطبہ ارشاد فرمایا کہ
یا معشر المسلمین! قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ نماز کو مار ہی ڈالیں گے۔ اسی طرح آپ نے قیامت کی مزید نشانیوں کے بارے میں بتایا۔
۸؍ ذی الحجہ جمعرات کو چاشت کے وقت ابطح سے آپ نے حج کے لیے احرام باندھا اور منیٰ تشریف لے گئے۔ سبھی صحابہ کرام بھی ساتھ تھے۔یہ دن اور رات یہیں گزاری۔ اسی دن منیٰ کے میدان میں ایک سانپ نکلا، جسے صحابہ نے مارنا چاہا، لیکن وہ بل میں گھس گیا۔ ۹؍ ذی الحجہ بروز جمعہ بعد نماز فجر عرفات تشریف لائے اور مقام نمرہ پر اپنے خیمے میں زوال تک آرام فرمایا۔ بعد زوال اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بطن عرنہ آئے اور ایک طویل خطبہ دیا ۔ حمد و صلاۃ کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ ائے لوگو! یہ ہمارا آخری اجتماع ہے ، شاید آج کے بعد کبھی دوبارہ ہم اس طرح جمع نہ ہوسکیں گے۔ یہ درد انگیز جملہ سننا تھا کہ صحابہ کی آنکھیں بے اختیار ہوگئیں، کیوں کہ اس جملے نے اس اجتماع کا مقصد واضح کردیا تھا ۔خطبہ میں آپ ﷺ نے گمراہ نہ ہونے اور آپس میں ایک دوسرے کی گردن نہ مارنے کی تلقین کی۔ بعدہ اپنی بیویوں اور غلاموں کے حقوق کی پاسداری کی توجہ دلائی۔ پھر عرب میں فساد و خون ریزی کے سب سے بڑے دو اسباب: ادائے سود کے مطالبات اور مقتولوں کے انتقام کو باطل فرمایا اور سب سے پہلے اپنے خاندانی مقتول ربیعہ بن حارث کے خون سے اور اپنے خاندانی سود عباس بن مطلب کے سود سے دستبرداری کا اعلان عام فرمایا۔رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز و تفریق کی بیخ کنی فرمائی اور اتحاد ملت، نماز پنجگانہ کی پابندی ، رمضان کے روزے رکھنے اور خوش دلی سے زکوٰۃ دینے کی تاکید کی۔پھر فرمایا : الا و انی فرطکم علیٰ الحوض و اکاثر بکم الامم فلاتسودوا وجھی۔ خبردار رہو!میں حوض کوثر پر تمھارا منتظر رہوں گا اور تمھارے ذریعے سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا، اس لیے بد عملی کرکے میرا چہرہ سیاہ مت کرنا( مجھے رسوا مت کرنا)۔اور سب سے آخر میں فرمایا: و انتم تسالون عنی فما انتم قائلون؟اس پر مجمع سے پرجوش صدائیں بلند ہوئیں کہ انک قد بلغت و ادیت و نصعت۔ اس وقت حضور پر نور محمد عربی ﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمانی کی طرف اٹھائی اور ارشاد فرمایا اللھم اشھد۔ ائے اللہ! خلق خدا کی گواہی سن لے۔ اللھم اشھد۔ ائے اللہ! مخلوق خدا کا اعتراف سن لے۔ اللھم اشھد ائے اللہ! گواہ ہوجا۔اس کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ فلیبلغ منکم الشاھد الغائب۔خطبہ سے فارغ ہوئے تو جبرئیل امین وہیں تکمیل دین اور اتمام نعمت کا پیغام لے کر آئے اور یہ آیت اتری کہ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا۔اسی دوران حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا نے آپ کا روزہ معلوم کرنے کے لیے دودھ بھیجا ، جسے سرکار دوعالم ﷺ نے سارے مجمع کے سامنے نوش فرمایا کہ تاکہ امت کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ دن روزہ رکھنے کے نہیں بلکہ خدا کی مہمانی سے لطف اندوز ہونے کا دن ہے۔ بعد ازاں حضرت بلال کو تکبیر کہنے کا حکم فرمایا اور ظہر و عصر کی نماز ظہر ہی کے وقت پڑھائیں۔ نماز سے فارغ ہوئے تو بطن عرنہ سے میدان عرفات کے مقام موقف پر تشریف لائے ۔اور مغرب تک اپنی اونٹنی ہی پر دعا میں مشغول رہے ۔اسی دوران ایک صحابی اونٹ سے گر کر شہید ہوگئے، تو انھیں احرام ہی کے کپڑوں میں دفنانے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ یہ شخص کل قیامت تک لبیک پڑھتے ہوئے اٹھے گا۔ اس جگہ نجد کی ایک جماعت پہنچی ،اس نے حج کے بارے میں سوال کیا ، جس پر آپ ﷺ نے جواب دیا کہ حج عرفہ میں ٹھہرنے کا نام ہے، جو شخص دس ذی الحجہ کی صبح سے پہلے پہلے یہاں پہنچ جائے ، اس کا حج ہوگیا۔
غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب سے قبل عرفات سے روانگی کا حکم دیا ، مجمع کثیر تھا ، کثرت ہجوم کی وجہ سے اضطراب کی ایک کیفیت پیدا ہورہی تھی ، اس وقت حضور اکرم ﷺ کی زبان اقدس و اطہر پر یہ الفاظ جاری تھے کہ السکینۃ ایھا الناس۔ السکینۃ ایھا الناس۔راستے میں اسنتجا کا تقاضا ہوا تو آپ نے استنجا کیا اور وضو فرمایا۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے نماز مغرب کی یاد دہانی کرائی تو ارشاد فرمایا کہ آگے چلو، یہاں تک کہ آپ مزدلفہ پہنچے اور پہنچتے ہی سب سے پہلے مغرب اور عشا کی نماز ایک ساتھ پڑھائیں۔اس کے بعد دعا میں مشغول ہوگئے ۔ دعا سے فراغت کے بعد آپ صبح تک آرام فرماتے رہے ، یہاں تک کہ زندگی میں پہلی بار آپ نے نماز تہجد بھی ادا نہیں فرمائی۔
۱۰؍ ذی الحجہ بروز سنیچر بعد نماز فجر طلوع آفتاب سے قبل آپ ﷺ مزدلفہ سے پھر منیٰ کے لیے روانہ ہوئے۔جب بطن محسر کے پاس پہنچے ، تو سواری کی رفتار تیز کردی۔ راستے میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک مسئلہ دریافت کرنے آئی کہ کیا میں اپنے کمزور باپ کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپ نے ہاں میں جواب دیا۔ حضرت فضل ابن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے ہمراہ تھے، وہ اس عورت کو دیکھ رہے تھے ، توآپ ﷺ نے ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا ۔مزدلفہ سے سیدھے جمرہ عقبہ پر پہنچے۔ شیطان کو سات کنکریاں ماریں اور واپس منیٰ کے میدان میں تشریف لائے ، دھوپ تیز تھی ۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نے کپڑا تان کر سایہ کیا۔ حضرت بلال حبشیؓ آپ کے ناقہ کے مہار تھامے کھڑے تھے۔ آگے پیچھے، دائیں بائیں مہاجرین و انصار ، قریش اور دیگر قبائل کھڑے تھے۔ ایسے میں زبان اقدس و مطہر سے یہ جملے ارشاد ہوئے کہ اس وقت حج کے مسائل سیکھ لو ، شاید اس کے بعد دوبارہ اس کی نوبت نہ آئے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ آج کونسا دن ہے؟ حسب معمول صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ طویل خاموشی کے بعد پھر سوال کیا کہ کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ صحابہ کا جواب تھا کہ بیشک آج قربانی کا دن ہے۔ پھر سوال ہوا کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟ حسب دستور صحابہ کا وہی جواب تھا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ طویل خاموشی کے بعد ارشاد ہوا کہ کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ مسلمانوں کا جواب تھا کہ بیشک یہ ذی الحجہ کا مہینہ ہے۔ پھر سوال ہوا کہ یہ کونسا شہر ہے؟ صحابہ کا وہی جواب تھا ۔ طویل خاموشی کے بعد پیغمبر انسانیت نے کہا کہ کیا یہ بلدۃ الحرام نہیں ہے؟ مجمع کا بیک زبان یہی جواب تھا کہ بیشک یہ بلدۃ الحرام ہے۔ اس کے بعد ارشاد عالی مقام ہوا کہ مسلمانو! تمھارا خون، تمھارا مال، تمھاری آبرواسی طرح قابل حرمت ہیں، جس طرح یہ دن، یہ مہینہ اور یہ شہر محترم ہیں۔ دیکھو تم میرے بعد گمراہ نہ ہوجاناکہ آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔خطبہ میں سرکار دوعالم ﷺ نے مزید چند باتیں ارشاد فرمائیں۔ خطبہ کی تکمیل کے بعد کئی صحابہ نے الگ الگ مسائل دریافت کیے، سب کے جواب میں آپ نے یہی ارشاد فرمایا کہ افعل ولا حرج، کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ خطبہ سے فراغت کے بعد قربانی کی جگہ پر تشریف لائے اورسو اونٹوں کی قربانی فرمائی، جس میں اپنی عمر کے مطابق تریسٹھ اونٹوں کو خود ذبح فرمایا بقیہ ۳۷؍ اونٹوں کو حضرت علیؓ نے قربان کیا۔قربانی کے بعد اعلان کرادیا کہ جس کاجی چاہے ، ان قربانیوں سے گوشت لے جائے اور حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ ان میں سے ہر ایک قربانی سے ایک ایک بوٹی لے کر آو۔چنانچہ حکم کی تعمیل کی گئی ۔ حضور نے اس سالن کا شوربا نوش فرمایا۔ اس سفر میں چوں کہ۹؍ ازواج مطہرات ساتھ تھیں، اس لیے ان کی طرف سے آپ ﷺ نے گائے کی قربانی پیش کی۔قربانی سے فراغت کے بعد حضرت معمر یا حضرت خراشؓ کو بلایا گیا اور سرمنڈوائے اور ناخن ترشوائے ، جنھیں بطور تبریک حاجیوں میں تقسیم کردیا گیا ۔اس کے بعد احرام کی چادریں اتار دیں اور کپڑے زیب تن فرمالیے اور خوشبو بھی لگائی۔جب ظہر کا وقت ہوا تو مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ یہاں نماز ظہر ادا کی اور طواف فرمایا۔ اس کے بعد زمزم کے کنویں پر تشریف لائے اور زمزم نوش فرمایا اور واپس منی ٰ تشریف لے آئے۔ بعدہ تین دن منیٰ ہی میں قیام فرمایا، جس میں روزانہ زوال کے بعد رمی جمار کیا کرتے تھے۔
۱۳؍ ذی الحجہ بروز سوم وار مکہ سے باہر بطحا تشریف لائے ۔ عشا تک یہاں قیام فرمایا۔ بعد نماز عشا مکہ مکرمہ تشریف لائے اور طواف وداع فرمایا۔ فجر تک یہیں قیام فرما رہے۔ ساتھ میں زمزم کا پانی لیا اوربعد نماز فجر یعنی ۱۴؍ ذی الحجہ بروز منگل پھر بطحا واپس آئے ۔ اور اسی دن مدینہ واپسی کا حکم دیا۔ ۱۸؍ ذی الحجہ کو غدیر خم پہنچے اورایک درخت کے نیچے قیام فرمایا ۔ بعد نماز ظہر آپ ﷺ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس میں آپ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمام مومنین سے افضل نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، آپ تمام مومنین سے اعلیٰ و افضل ہے۔ پھر فرمایا کہ من کنت مولاہ ، فعلی مولاہ، کہ میں جس کا محبوب ہوں، علی بھی اس کے محبوب ہیں۔ اس خطبہ کی وجہ یہ تھی کہ 
حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ یمن کو فتح کرچکے تھے ۔ یمن کے جہاد میں مسلمانوں کو کافی مالی غنیمت حاصل ہوا تھا، اس کو تقسیم کرنے اور خمس لینے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی کو یمن بھیجا۔ قیدیوں میں کئی لونڈیاں بھی تھیں، جن میں سے بطور خمس ایک لونڈی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے رکھ لی۔ اور ان سے اگلے ہی دن صحبت فرمائی ۔ فراغت کے بعد جب غسل کرکے نکل رہے تھے کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا۔ حضرت خالد نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا کہ اس شخص نے کیا کیا؟ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب حضرت علی نے خمس لیا، تو خمس تو نبی اکرم ﷺ کے لیے ہوتا ہے، تو یہ باندی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کی جانی چاہیے تھی، اس کو حضرت علی نے خود کیوں استعمال کیا؟ حضرت بریدہ نے جواب دیا کہ مجھے علی سے نفرت ہے ۔ پھر حضرت بریدہ نے حضرت علی سے سوال کیا کہ ائے حسن کے ابا! یہ سب کیا ہے؟ تو حضرت علی نے جواب دیا کہ یہ لونڈی خمس کا حصہ ہے اور خمس نبی اور آل نبی کے لیے ہوتا ہے اور میں آل نبی میں سے ہوں، اس لیے میں نے اس سے صحبت کی۔لیکن اس جواب سے حضرت بریدہ مطمئن نہیں ہوئے ۔ حجۃ الوداع کے لیے جب بلاوا آیا ، تو یہ سبھی حضرات یہاں سے سیدھے مکہ چلے گئے۔ اور حج و عمرہ میں مشغول ہوگئے۔ واپسی پر غدیر خم پر حضرت بریدہ نے نبی اکرم ﷺ سے حضرت علی کی شکایت کی اور معاملہ کو بڑھا کر پیش کیا، جسے سن کر نبی اکرم ﷺ کا چہرہ غصے سے متغیر ہوگیااور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں پہلے حضرت علی کے فضائل اور ان کے انصاف پسند ی کی تعریف کی ۔ بعدہ ارشاد فرمایا کہ من کنت مولاہ، فعلی مولاہ کہ میں جس کا محبوب ہوں، علی بھی اس کے محبوب ہیں، اور جو علی سے دشمنی رکھے، وہ میرا بھی دشمن ہے۔ حضرت بریدہ کا ہی بیان ہے کہ 
عَنْ بُرَیْدۃَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْیَمَنَ فَرَأَیْتُ مِنْہُ جَفْوَۃً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلی رَسُولِ اللہِ صَلی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذکَرْتُ عَلِیًّا فَتَنَقَّصْتہُ، فَرَأَیْتُ وَجہَ رَسُولِ اللہِ صَلی اللہ عَلَیہِ وَسَلَّمَ یَتَغَیَّرُ فَقَالَ: یَا بُرَیْدَۃُ أَلَسْتُ أَوْلی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ؟ قُلْتُ: بَلَی یَا رَسُولَ اللہِ. قَالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاہُ (مسند احمد ، حدیث بریدۃ الاسلمی)
المختصر تاریخی شہادت کے مطابق غدیرخم کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی کے متعلق لوگوں کی غلط فہمی کو دور کیا۔ پھر قافلہ یہاں سے روانہ ہوا اور جب روحا پہنچے، تو گھڑسواروں کا ایک گروہ آیا۔ اس میں سے ایک عورت چھوٹے بچے کو لے کر نکلی اور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا اس پر بھی حج ہے؟ تو نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا کہ ہاں اس پر حج ہے اور اسے حج کرانے پر تمھیں ثواب ملے گا۔
اس کے بعد تقریبا ۴؍ دن بعد ذو الحلیفہ پہنچے۔ یہاں رات قیام فرمایا اور صبح کے وقت معرس کے راستے سے مدینہ میں داخل ہوئے ۔ اس وقت زبان اقدس و اطہر پر یہ کلمات جاری تھے کہ
آئبون، تائبون، عابدون،ساجدون، لربنا حامدون۔
مآخذ: حجۃ الوداع و جزء عمرات النبی ﷺ ، مصنفہ حضرت علامہ شیخ زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ ۔ 

حج کی مصلحتیں

محمد یاسین جہازی قاسمی
حج کی مصلحتیں
اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور حکیم کا کوئی بھی کام حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتا، یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس حکمت کا علم ہوسکے یا نہیں۔ لیکن جب ہمیں اس کا علم ہوجاتا ہے ، تو ہم بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ربنا ما خلقت ھذا باطلا۔ ائے ہمارے پروردگار ! تم نے کچھ بھی غلط چیز نہیں بنائی۔ حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، گرچہ یہ اس کا تعلق محض عبادت سے ہے ، لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی بے شمارحکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں، جن میں سے چند کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
(۱) اللہ تعالیٰ کے گھر کی عظمت و تعظیم کا اظہار
جب کسی مقام کا خصوصی ارادے اور کافی تیاریوں کے بعد زیارت ممکن ہوتی ہے، تو یقیناًاس کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ حج بھی کافی تیاریوں اور تمناوں کے بعد ممکن ہوپاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب کسی شخص کے نام کے آگے حاجی کا لفظ آجاتا ہے، تو ان کی عظمت و عقیدت کا بھی تصور ذہن میں گردش کرتا ہے، تو جس گھر کی زیارت کی وجہ سے یہ مقام حاصل ہوا ہے، خود اس گھر کی عظمت شان کا کیا عالم ہوگا ، یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ پھر جب اجتماعیت کے ساتھ اس گھر کی زیارت کی جاتی ہے، تو یہ اس کی عظمت و تقدس کے اظہار کا سب سے بڑا مظہر ہوتا ہے، لہذا حج کی ایک حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعظیم و عظمت کا اظہار ہو اور اس کے تقدس و احترام سب کے دلوں میں جاگزیں ہوجائے۔
(۲) دربار خداوندی میں اپنے آپ کی پیشی اور حاضری کا ایک منظر
کل قیامت کے دن دنیا کے سبھی انسان ایک ہی ہیئت میں کھڑے ہوں گے اور حج میں ہمیں اس کا ایک نمونہ دکھایا گیا ہے، جہاں سبھی لوگ ملک و ملت ، تہذیب و کلچر اور لب و لہجے کے تنوعات کے باوجود سب ایک ہی ہیئت اور ایک ہی عمل میں نظر آتے ہیں۔ گویا یہ ایک منظر عبرت ہے جسے حج کی شکل میں دکھایا گیا ہے، لہذا جو لوگ رنگ و نسل اور ملک و ملت کے امتیاز اور فخر و غرور میں مبتلا ہیں، وہ یہ سمجھ لیں کہ قیامت کے دن اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سب کے سب ایک ہی ہیئت میں ہوں گے۔
(۳) وحدت امۃ کا عملی نمونہ
حج کے تقریبا سبھی اعمال اس کے گواہ ہیں کہ مسلمان خواہ وہ کسی ملک میں بھی بستے ہوں، اور خواہ وہ کسی بھی مقام و مرتبے کا حامل ہوں، حج میں سب کو ایک ہی صف میں کھڑا ہونا ضروری ہے۔ سبھی حاجیوں کو ایک ہی کپڑے پہننا لازم ہے جسے احرام کہاجاتا ہے۔ منی کا قیام بھی ایک ہی تاریخ میں کرنا ضروری ہے۔ ایک ہی تاریخ میں وقوف عرفہ کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں، المختصر سبھی ارکان میں تمام حاجیوں کی اجتماعیت اور اتفاق ضروری ہے، اس کے بغیر حج ممکن نہیں ہے، جو اس بات کا عملی اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی کسی تفریق کے بغیر اتحاد پر مبنی ہونا چاہیے۔

نماز پڑھنے کے دوران وہ عام غلطیاں جن سے نماز نہیں ہوتی

محمد یاسین جہازی قاسمی
نماز پڑھنے کے دوران وہ عام غلطیاں جن سے نماز نہیں ہوتی
اسوأ الناس سرقۃ من یسرق من صلاتہ 
تمام عبادات میں جتنی اہمیت اور تفصیلات کے ساتھ نماز کو بیان کیا گیا ہے، اتنی اہمیت اور تفصیلات کے ساتھ کسی دوسری عبادت کو بیان نہیں کیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے نماز کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نماز کی حقیقت تین چیزیں ہیں: (۱) دل اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کی تسلیم سے لبریز ہو۔ (۲) زبان سے اللہ کی اس عظمت و کبریائی کو بہتر سے بہتر الفاظ میں بیان کیا جائے ۔ (۳) جسم کے پورے اعضا اس عظمت و کبریائی اور اظہار بندگی کی شہادت کے لیے لگے رہیں۔ چنانچہ نماز میں یہی ہوتا ہے کہ جب دل میں اللہ تعالی کی محبت انگڑائیاں لینے لگتی ہیں، تو ہم صدائے اللہ اکبر سنتے ہیں، تو تمام کاروبار حیات کو بند کرکے مسجد کی طرف چل پڑتے ہیں۔ پھر دنیا کی تمام چیزوں اور فکروں سے بے نیاز ہوکر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھ لیتے ہیں ، زبان ثنائے خداوندی میں مصروف ہوجاتی ہے اور بدن کے تمام اعضا اللہ تعالیٰ کے سامنے اظہار عاجزی میں لگ جاتے ہیں، چنانچہ جیسے ہی قیام کا وقت ہوتا ہے ، تو زبان مصروف تلاوت ہوجاتی ہے۔ رکوع اور سجدے کا نمبر آتا ہے تو فورا سر جھک جاتا ہے اور جبین نیاز خم ہوجاتی ہے ، اور مکمل روحانی کیفیت کے ساتھ ہماری نماز پوری ہوتی ہے۔نماز خدائے واحد کے سامنے کمال خشوع و خضوع کی آخری حد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے نماز کے فضائل و برکات کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ نماز تمام خطاوں اور گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔ 
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ کہیں جارہا تھا،پت جھڑ والا موسم تھا، راستے میں ایک درخت ملا، جس کے پتے خود ہی جھڑ رہے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس درخت کی دو ٹہنیاں پکڑیں اور انھیں ہلانے لگے، تو یکایک ان کے پتے اور جھڑنے لگے۔ ظاہر ہے کہ جس درخت کے پتے از خود جھڑ رہے تھے تو اس کو ہلاکر جھاڑیں گے تو سب جھڑ جائیں گے۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ائے ابو ذر ! میں نے عرض کیا حاضر ہوں یارسول اللہ! آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب مومن بندہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے نماز پڑھتا ہے، تو اس کے گناہ ان پتوں کے طرح جھڑ جاتے ہیں۔
یہ حدیث شاہد عدل ہے کہ اللہ کی رحمتوں کو متوجہ کرنے کے لیے نماز کی کتنی اہمیت ہے۔ جب نماز اس قدر اہم ہے، تو اس کو ادائیگی کے طریقے بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں اور اس کی ادائگی کے لیے شرائط و آداب بھی دیگر عبادتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ ان تمام باتوں کو سر دست چھوڑتے ہوئے آئیے آج ہم اس پر گفتگو کریں گے کہ کچھ ہم ایسی غلطیاں نماز میں کرتے ہیں، جن غلطیوں کا ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا اور ہماری نماز بھی نہیں ہوتی۔ وہ چند غلطیاں درج ذیل ہیں:
(۱) تکبیر تحریمہ نہ کہنا: تکبیر تحریمہ زبان سے اتنی آواز سے کہنا ضروری ہے کہ آدمی کم از کم خود سن لے۔ اگر کوئی شخص بغیر زبان سے بولے صرف من ہی من میں اللہ اکبر کہہ لیتا ہے اور نیت باندھ لیتا ہے ، تو اس کی نمازہی شروع نہ ہوگی ۔ اور جب نماز ہی شروع نہ ہوگی ، تو نماز کیسے ہوگی۔ 
(۲) ستر عورت :لوور پہن کر نماز پڑھنا نماز میں خصوصی طور پر اور عام حالتوں میں خصوصی طور پر شرعی حدود کے پردے والے حصہ کو چھپانا ضروری ہے۔ لباس کی جتنی مقدار پہنا صالح معاشرے میں تہذیب و شرافت کی بات سمجھی جاتی ہے، اتنا لباس نماز میں بھی پہننا نماز کے آداب کا حصہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص صرف شرعی پردے والے حصوں پر لباس پہنا ہوا ہے تو اس کی نماز ہوجائے گی۔ لباس کے تعلق سے مردوں کے لیے شرعی حدود یہ ہیں کہ ناف سے لے گھٹنے سمیت حصے کو چھپایا جائے ۔ اور عورتوں کے لیے پورا بدن ستر میں شامل ہے صرف چہرہ اور دونوں ہاتھ گٹوں تک اور دونوں پیر ٹخنوں تک اس سے علاحدہ ہے۔ لہذا اگرکوئی بہن نماز پڑھ رہی ہے اوراس کے ہاتھ کہنیوں تک کھلے ہوئے ہیں، اس کی نماز نہیں ہوگی۔ اسی طرح مردوں میں ایک عام بیماری یہ ہوگئی ہے کہ لوور پہنتے ہیں ، جس میں پیر کے نیچے ممنوع والے حصہ ٹخنہ تو چھپا ہوا ہوتا ہے، لیکن جو اصلی ستر ہے یعنی ناف کے نیچے والا پشت کی جانب کا حصہ، وہ بالکل کھل جاتا ہے۔ ویسے لوور اتنا نیچے ہوتا ہے کہ عام اور قیام کی حالت میں بھی شرعی دائرہ ستر سے نیچے رہتا ہے، لیکن جب لوور پہنے والا رکوع میں جاتا ہے، مزید ستر کا حصہ کھل جاتا ہے اور سجدہ میں تو گویا پورا ہی کھل جاتا ہے۔ جس سے حصے کو عام حالت میں بھی کھلا رکھنا ناجائز ہے ، وہ حصہ جب نماز میں کھل جائے تو نماز کیسے درست ہوسکتی ہے۔ یہ آج کے معاشرے کی ایسی کمزوری ہے، جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ایک سلیم الفطرت اور نمازی شخص کو یہ بالکل زیب نہیں دیتا ۔
(۳)پھٹا جنس پہننا: آج کل ایک فیشن یہ بھی چلا ہوا ہے کہ جگہ جگہ جنس میں شکن اور پھٹن ہوتی ہے ، اس کے باوجود اس کو شوق و رغبت سے ہمارے نوجوان خریدتے ہیں اور پہنتے ہیں ، اور اسی میں نماز بھی پڑھتے ہیں۔ اگر شرعی دائرہ ستر میں کہیں یہ پھٹن ہے تو اس کی بھی نماز نہیں ہوگی۔
(۴) سجدے میں دونوں پیر اٹھالینا: بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب سجدے میں جاتے ہیں تو دونوں پیروں کی انگلیوں کو ایک ساتھ زمین سے اوپر اٹھالیتے ہیں اور اس سے کھیلتے ہیں رہتے ہیں ۔ کبھی ایک پیر سے دوسرے پیر میں کھجاتے ہیں ، کبھی ایک دوسرے کے اوپر چڑھاتے ہیں اور کبھی صرف ایک دونوں کو زمین سے اوپر اٹھائے رکھتے ہیں۔ اگر دونوں ایک ساتھ اٹھ جائیں، تو دھیان رکھیں کہ آپ کی نماز ہی نہیں ہوگی۔سجدے کی حالت میں چوں کہ انسان کی نظر اپنے پیر پر نہیں پڑتی ، اس لیے معلومات کے بعد بھی لاشعوری میں پیر اٹھ جاتے ہیں، اس کا علاج یہ ہے کہ اگر کوئی ساتھی اپنے ساتھی کو ایسا کرتے دیکھے ، تو اسے ضرور بتائے کہ آپ سجدے میں دونوں پیر اٹھاتے ہیں، اس لیے آپ کی نماز نہیں ہوتی۔ خود راقم کا واقعہ ہے کہ گاوں کی جامع مسجد میںیہ بات بتائی ، لیکن میں خود لاشعوری طور پر اس جرم کا مجرم تھا،اللہ جزائے خیر دے اس شخص کو ، انھوں نے نماز کے بعدمجھے متوجہ کیا ، تو احساس ہوا اور اس دن سے لے کر آج تک جب بھی سجدے میں جاتا ہوں تو عموما پیر کو ٹکانے کا خیال رہتا ہے۔ 
(۵) عمل کثیر کا ارتکاب کرنا: بسا اوقات ہم نماز پڑھتے پڑھتے کچھ ایسے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں کہ دوسرے دیکھنے والے کو شبہ ہوجاتا ہے کہ یہ شخص یہ نماز پڑھ رہا ہے یا کچھ اور کر رہاہے ۔ اس کی کئی شکلیں ہیں،جو ذیل میں درج ہیں:
(الف) (۱)کبھی ایسا ہوتا ہے کہ گرمی لگ رہی ہے، تو ہم دونوں ہاتھوں سے اپنے پہنے ہوئے کپڑوں سے ہوا کرنے لگتے ہیں۔ اگر ہم نے دونوں ہاتھ ایک ساتھ لگا دیے تو نماز ختم ہوگئی۔ اور اگر صرف ایک ہاتھ سے ہوا کیا تو اگر تین مرتبہ سے زیادہ کیا تو نماز ٹوٹ گئی۔ از سر نو نماز کی نیت باندھ کر پڑھنی پڑے گی۔ 
(ب) (۲)اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ موبائل بجنے لگا تو اس کی ایک شکل یہ ہے کہ جس جیب میں ہے ، اس طرف کے ہاتھ سے رنگ بند کردیں۔ یہاں تک کی گنجائش ہے۔ لیکن ہم کرتے کیا ہیں کہ موبائل بج رہا ہے ،ہم بڑے اطمینان سے جیب سے نکالتے ہیں، پھر بغور دیکھتے ہیں کہ کس کا فون آرہا ہے ، پھر کچھ دیر تک سوچتے رہتے ہیں کہ فون کاٹوں یا نہ کاٹوں اور جب تک گھنٹی بج رہی ہوتی ہے ۔ دوسرے نمازی کو خلل ہورہا ہوتا ہے۔ پھر بہت آرام سے فون کاٹتے ہیں یا کوئی میسج بھیجتے ہیں کہ میں ابھی کال ریسیو نہیں کرسکتا ۔ یاد رکھیے کہ یہ زیادہ کام ہے ، عمل کثیر ہے اور اس سے ہماری نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
(ج) (۳)کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بدن میں کہیں کھجلی ہورہی ہوتی ہے ، حسب ضرورت کھجانا تو ایک فطری ضرورت ہے، لیکن نماز کی حالت میں احتیاط ضروری ہے۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ جب کھجاہٹ کا تقاضا ہوتا ہے کہ تو نماز کے تمام تقاضوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور کھجلی کے تقاضوں میں منہمک ہوجاتے ہیں اور یہ انہماک اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ کھجاہٹ کی لذت نماز کی لذت پر غالب آجاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکالتا ہے کہ ہم جسمانی طور سے نماز کی ہیئت سے دور تو ہو ہی جاتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ فکری اعتبار سے بھی نماز ہم سے الگ ہوجاتی ہے،ہمیں ایسے موقع پر کھجلی سے زیادہ نماز کا خیال رکھنا چاہیے۔
(د) (۴)کبھی یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ شرعی حدود کا لباس بھی پہنا ہوا ہے، کپڑے سے ہوا بھی نہیں کھارہا ہے، موبائل بھی جیب میں نہیں ہے، اور نہ ہی اسے کھجلی ہورہی ہے، لیکن جسم کی ساخت پر کپڑے کو بار بار ٹھیک کرتے رہتے ہیں۔ جیسے کہ ایک شخص کرتا پہن کر نماز پڑھ رہا ہے ، تو جیسے ہی رکوع سے یا سجدے سے قیام کی طرف لوٹتا ہے ، تو سب سے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیچھے کے دامن کو سنوارنے میں لگ جاتا ہے۔ اور یہاں بھی عموما دونوں ہاتھوں کا استعمال ہوتا ہے اور ہماری نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ یا کوئی شخص نہات چست شرٹ یا ٹی شرٹ پہنا ہوا ہوتا ہے ، اور نیچے لوور ٹائپ کا پتلون یا جنس ، تو یہ صاحب بھی بار بار اپنے ٹوپ کے کپڑے کو نیچے کی طرف کھینچتا رہتا ہے اور دونوں ہاتھوں سے یہ کام کرتا ہے، ایسے افراد کی بھی نماز نہیں ہوتی۔
(ھ) (۵)جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو پڑھتے پڑھتے ہماری نظر سامنے کی دیوار پر پڑتی ہے ، جہاں کچھ لکھا ہوا ہوتا ہے۔ اگر صرف ایک اچٹی نگاہ پڑی اور آپ نے نگاہ پھیر لی، اس کو پڑھنے کی کوشش نہ کی ، تو آپ کی نماز برقرار ہے ، لیکن اگر نماز سے دھیان ختم کرکے، اس کو پڑھنے میں لگ گئے ، تو آپ کی نماز ختم ہوگئی۔
(و) (۶)آج کل گرمی کا موسم ہے ، اس موسم میں دیہات وغیرہ میں مچھر افزائش بڑھ جاتی ہے،جو بار بار دوران نماز ہمیں پریشان کرتے ہیں ، یا مکھیاں بدن پر بیٹھ جاتی ہیں اور ہمیں الجھن محسوس ہوتی ہے، تو اگر ایک ہاتھ سے ان کو بھگانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ایک حد تک اس کی گنجائش ہے، لیکن بعض دوستوں کو دیکھا گیا ہے کہ سر پر مکھی بیٹھی ، تو انھوں نے زور سے ہاتھ مارا، لیکن مکھی یا مچھر اڑ گیا ، پھر فورا دوبارہ بیٹھ گیا، ہم نے دوبارہ اڑا دیا ، اس طرح کرتے کرتے کبھی ایسا بھی کربیٹھتے ہیں کہ زبان سے بھی مچھر ، مکھی کو بھگانے لگتے ہیں اور پھر ہماری نماز نوٹ جاتی ہے۔
(۶) نماز میں تاخیر سے شامل ہونا: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم وضو کررہے ہوتے ہیں یا مسجد کے دور کنارے ہوتے ہیں، یا سنت پڑھ رہے ہوتے ہیں اور امام صاحب رکوع میں چلے جاتے ہیں، ہم اس رکعت کو پانے کے لیے جلدی بازی کرتے ہیں اور دوڑے بھاگتے نماز میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اتفاق یہ ہوتا ہے کہ آپ اللہ اکبر بھی پورا نہیں کرپاتے کہ امام صاحب رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمد کہہ دیتے ہیں، لیکن ہم پھر بھی دو تین سکنڈ کے لیے رکوع میں چلے جاتے ہیں اور پھر امام کے ساتھ شامل ہوکر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے وہ رکعت پالی۔ اس رکعت کو پانے کا پیمانہ یہ ہے کہ امام رکوع میں تھے ، آپ نے تکبیر تحریمہ کہی ، رکوع میں گئے اور ایک مرتبہ آپ نے سبحان اللہ کہا، پھر امام صاحب رکوع سے اٹھے، تو یہ رکعت آپ نے پالی۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا، بلکہ یہ ہوا کہ آپ نے تکبری تحریمہ کہی اور امام صاحب نے سمع اللہ لمن حمد کہنا شروع کردیا، یا پھر تکبیر تحریمہ کے بعد آپ ابھی رکوع میں گئے ہی تھے ، سبحان ربی بھی نہیں کہہ پائے تھے کہ امام نے سمع اللہ کہہ دیا تو آپ کی شمولیت نہیں ہوئی۔ اور جب نماز میں ہی شمولیت نہیں ہوپائی ، تو ہماری نماز بھی نہیں ہوئی۔ یہ بیماری بہت عام ہوگئی ہے، اس پر ہر شخص کو اپنا اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
(۷) عورتوں کا ستر عورت کے بغیر نماز پڑھنا: عورتوں کا دائرہ کار اور دائرہ عمل دونوں گھر ہے، لیکن پھر بھی ملازمت یا دگر مجبوری کے پیش نظر کچھ بہنیں مسجد میں بھی نماز کے لیے آتی ہیں اور شوق و رغبت کے ساتھ نماز پڑھتی ہیں، لیکن مشاہدہ یہ بتلاتا ہے کہ عموما اس قسم کی عورتیں نماز کے شرعی طریقے سے ناواقف ہوتی ہیں۔ مرد اور عورتوں کی نماز میں جو فرق رکھا گیا ہے، وہ عورتیں ان فرقوں کا لحاظ نہیں رکھتیں ۔ وہ مسجدوں میں جس طرح مردوں کو نماز پڑھتے دیکھتی ہیں، وہ ویسے ہی نماز پڑھنے لگتی ہیں، کچھ لمحہ کے لیے مان لیتے ہیں کہ ان کا عمل اچھا کہا جاسکتا ہے، لیکن پریشانی یہ ہے کہ وہ لباس میں بھی مردوں کی نقل کرتی ہیں، شریعت میں ان کے لیے جو پردہ کے شرعی حدود ہیں، ان حدود میں ان کا لباس نہیں ہوتا ، جس کی وجہ سے نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس کی تفصیلات پیش خدمت ہیں:
(الف) دونوں ہاتھ کھلے ہونا: عورتوں کی کہنیاں ستر کا حصہ ہیں، جن کے کھلے ہونے سے نماز نہیں ہوتی۔ آج کل لڑکیوں کے لباس میں کہنیاں بالعموم کھلی ہوتی ہیں۔ ایسے کپڑے پہن کر نماز نہیں ہوتی۔
(ب) جنس پہن کر نماز پڑھنا: لڑکیوں کی جنس بالعموم ٹخنوں سے اوپر ہوتی ہیں، جن سے نماز نہیں ہوتی، کیوں کہ ٹخنوں سے اوپری حصے ستر میں داخل ہیں۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اگر شرعی پردے کیے بغیر نماز پڑھیں، تو ایسے لباس میں نماز نہیں ہوتی۔ لہذا ان چیزوں کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

آہ خلیفہ شیخ الاسلام ؒ حضرت قاری صالح صاحبؒ بھاگلپوری

محمد یاسین جہازی
آہ خلیفہ شیخ الاسلام ؒ حضرت قاری صالح صاحبؒ بھاگلپوری
موت و حیات اس دنیائے رنگ و بو کی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔ہر لمحہ نئی زندگی اور ہر آن موت اس کائنات کا فطری سسٹم ہے۔ زندگی وجود بخشتی ہے ، جب کہ موت اس کی فنائیت کا اعلان ہے؛ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ ہستیاں موت کے پیغام فنائیت کو مات دے دیتی ہیں اور اور مرنے کے بعد بھی صرف زندہ نہیں ؛ بلکہ زندہ جاوید رہتی اور سکڑوں مردہ نفوس میں زندگی ڈال دیتی ہیں۔ حضرت قاری صالح صاحب مرحوم بھی انھیں شخصتیوں میں سے ایک ہیں، جو گرچہ ہمارے درمیان نہیں رہے، تاہم ان کے تابندہ نقوش اور کارہائے نمایاں ان کی حیات جاودانی کے مظاہر ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارے دلوں میں اور تصورات کے نہا خانوں میں آج بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔
ابتدائی حالات زندگی، تعلیم اور تدریس
حضرت قاری صاحب مرحوم کی ولادت بہار ضلع بھاگلپور کے کروڈیہہ گاوں میں ۱۹۲۴ میں ہوئی ۔یہ گاوں بھاگلپور سے جنوب مغرب میں تقریبا بیس کلو میٹر کے فاصل پر ہے۔ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں ہی حاصل کی ، تکمیل حفظ قرآن کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سہارنپور گئے ، جہاں حضرت قاری عبدالخالق صاحبؒ سے تجویدو قرات کی تعلیم حاصل کی ۔ پھر دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔اور یہیں سے مولویت کی تکمیل کی۔تعلیم سے فراغت کے بعد تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا : سب سے پہلے بہار کے ضلع بانکا میں واقع مدرسہ کیتھا ٹیکر میں تقریبا ۲۰؍ سال حفظ قرآن کی خدمت انجام دی، اس کے بعد حضرت حافظ نجابت حسین صاحب ؒ جو حضرت قاری صاحبؒ کے استاذ تھے، ان کی کوشش سے مدرسہ اعزازیہ پتھنہ بھاگل پور تشریف لے آئے اور یہاں ۳۸؍ سال تک قرآن کریم کا درس دیا ۔ اس طرح گویا آپ مرحوم کی زندگی کا بیشتر حصہ قرآن کریم کی خدمت میں بسر ہوا۔ 
بیعت و خلافت
آپ فطرۃ شریف الطبع تھے ۔طالب علمی ہی کے زمانے میں اکابرین اور اولیا اللہ سے محبت و وابستگی آپ کی خاص پہچان بن گئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ کافی عرصے تک آپ حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز صاحب ؒ کے خاص خادم رہے اور تہجد میں روزانہ حضرت شیخ الادبؒ کو ایک پارہ قرآن کریم سنانے کا معمول رہا۔ پھر حضرت کے ہی مشورہ سے زمانہ طالب علمی میں ہی حضرت شیخ الاسلام ؒ سے بیعت ہوگئے اور روحانی ترقیات کی منزلیں طے کرتے رہے۔ اور ان کے انتقال کے بعدحضرت کے جانشین فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کے دامن عقیدت سے وابستہ ہوگئے۔ اور پھر انھیں سے چند سال کے اندر اندر خلافت بھی حاصل کرلی۔
اخلاق و اوصاف
انھیں اکابرین کی تربیت اور نیک توجہات کا یہ کرشمہ تھا کہ حضرت قاری صالح صاحب مرحوم ایک ولی صفت انسان بن گئے ۔ان حضرات اکابر کی مشفقانہ نگاہ کی برکت سے آپ ؒ کو اللہ تعالیٰ نے زہد و تقویٰ اور قدرو منزلت کے جس بلند رتبہ پر فائز فرمایا تھا، اس کا اندازہ ہم جیسے بے بصیرت و کم علم لوگ کہاں سے لگا سکتے ہیں ، حضرت مرحوم کی زندگی کا مشاہدہ کرنے والا ان کے تدین ، تقویٰ اور خشوع کا ثناخواں ہے ۔ حقوق کی ادائیگی کا اہتمام، توازن ، معاملات کی صفائی ، معاشرتی زندگی کی پاکیزگی ، نماز باجماعت کا اہتمام، خاشعانہ کیفیت، شب بیداری، آہ سحرگاہی، تلاوت ومناجات دعا ، حسن اخلاق اور مہمان نوازی مرحوم کی عملی زندگی کے جلی عناوین ہیں ۔اور یہی حضرت مرحوم کی زندگی کا پیغام بھی ۔
ملی خدمات اور جمعیۃ علماء ہند سے وابستگی
عمومی طور پر دیکھا یہی گیا ہے کہ تعلیم و تدریس سے وابستہ افراد شاید ہی ملت کے دوسرے کاموں کے لیے خود کوفارغ کرپاتے ہیں ، لیکن حضرت قاری صاحب جس نابغہ روزگار ہستی سے بیعت تھے اور جنھوں نے ان کو خلافت کا لبادہ اڑھایا تھا ، خود ان کی زندگیاں تدریس اور ملی خدمات کی سنگم نظر آتی ہیں ، تو بھلا ان کے تربیت یافتہ اور شاگر خلف کی زندگی ان خصوصیات سے عاری کیسے رہ سکتی تھی ۔ چنانچہ حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز صاحب رحمہ اللہ اور فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ نے جہاں تدریسی فرائض انجام دیے ہیں وہیں ملی خدمات میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ۔ حالات اور وقت کے تقاضے کے پیش نظر کبھی تدریس کا سلسلہ شروع کیا ، تو کبھی ملت کی صلاح و اصلاح کے لیے میدان عمل میں کود پڑے ۔ یہی سب خصوصیت حضرت قاری صالح صاحب نور اللہ مرقدہ کی زندگی میں بھی نمایاں نظر آتی ہے ۔ انھوں نے جہاں۵۸؍ سال تک قرآن کریم کی تدریس کا فریضہ انجام دیا، وہیں جب جمعیۃ علماء ہند نے مکمل آزادی اور کیویٹ انڈیا کی تحریک چلائی ، تو اس کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے قاری صاحب بھی میدان عمل میں آگئے اور اپنے پیرو مرشد کی ہدایت کے مطابق اپنے علاقے میں سرگرم عمل ہوگئے ۔ اور کئی مرتبہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ اور شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہوی ؒ کا دورہ کرایا۔ جگہ جگہ پروگرام ہوئے اور آزادی کی جنگ کے شعلے کو تیز سے تیز کردیا۔ پھر جب ۱۹۸۹ء میں بھاگلپور کا خونی فساد ہوا، اور پیرومرشد حضرت فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ یہاں تشریف لائے تو یہی حضرت قاری صاحب ؒ تھے ، جنھوں نے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر حضرت کو متاثرین کے بیچ لے کر گئے اور ریلف اور باز آباد کاری کی کوششیں کیں۔ اس کے بعد جب بھی حضرت فدائے ملت اس علاقے میں تشریف لاتے تھے ،تو ان کے خصوصی میزبان حضرت قاری صاحب ہی ہوا کرتے تھے۔ جمعیۃ علماء ہند کے موجودہ سکریٹری حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی بھی اس فساد میں قاری صاحب کے ساتھ ساتھ رہے اور تقریبا تین مہینے تک یہ دونوں حضرات فسادات کے مظلومین کے سہارا بنے رہے۔اس علاقے میں ان اکابرین کی آمد ہو یا پھر بھاگلپور کے ہولناک فسادات میں انسانیت کی خدمت ؛ ان دونوں موضوع پر جب بھی کوئی گفتگو کی جائے گی یا تاریخ لکھی جائے گی تو اس ناچیز کا عندیہ ہے کہ وہ حضرت قاری صاحب کے تذکرے کے بغیر نامکمل رہے گی۔اور یہ وہ احسان عظیم ہے جس کی بنیاد پر اہل علاقہ کی گردنیں خم کھائی ہوئی ہیں۔ 
وفات حسرت آیات اور اولاد
لیکن افسوس کہ علاقے کی یہ عظیم شخصیت ۹۲؍ سال کی عمر پاکر مورخہ ۵؍ اگست ۲۰۱۶ء مطابق یکم ذی قعدہ ۱۴۳۷ھ بروز جمعہ رات گیارہ بج کر دس منٹ پر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دوسرے دن آبائی قبرستان میں تدفین ہوئی ۔ جنازہ کی نماز حضرت قاری صاحب کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا مصلح الدین صاحب قاسمی استاذ جامعہ حسینیہ جونپور یوپی نے پڑھائی ۔ حضرت قاری صاحب کے چار صاحبزادے ہیں ۔ سب سے بڑے حضرت مولانا مصلح الدین صاحب ہیں ، ان کے بعد حضرت مولانا بہاء الدین صاحب استاذ حدیث جامعہ تعلیم الدین گجرات ، پھر مولانا عضد الدین صاحب قاسمی ، بعد ازاں حضرت مولانا حافظ فرید الدین صاحب استاذ درجہ حفظ جامعہ تعلیم الدین گجرات ہیں۔اورچار صاحب زادیاں ہیں ۔ اور ماشاء اللہ ابھی تک سب بقید حیات ہیں ۔ سردست قاری صاحب کی نسل میں گیار حفاظ ار پانچ جید علما ہیں۔
صدر ، ناظم عمومی اور سکریٹری جمعیۃ کی تعزیت
حضرت قاری صاحب مرحوم کی خبر وفات سن کر جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم چوتھے امیرالہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری دامت برکاتہم، اس کے ناظم عمومی قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ، ان کے پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں خانوادہ مدنی سے وابستہ حضرات اور جمعیۃ علماء ہند سے تعلق رکھنے والے افراد سے خصوصی طور پر اور سبھی لوگوں سے عمومی طور پر دعائے مغفرت کی اپیل کی۔ بعد ازاں حضرت ناظم عمومی صاحب نے ان کے گھر آکر تعزیت کا فیصلہ کیا، لیکن ملی مسائل کے ہجوم کی وجہ سے سفر ملتوی ہوگیا۔ لیکن کچھ دنوں بعد۱۶؍ ستمبر ۲۰۱۶ء کو جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم اور سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی نے حضرت قاری صاحب کی تعزیت کے لیے خصوصی دورہ کیا اور ان کے لواحقین سے ملاقات کرکے انھیں صبر جمیل کی تلقین کی۔ تعزیت کے اس سفر میں ، صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب جہازی دامت برکاتہم ، شاگرد شیخ الاسلام حضرت مولانا مظہر الحق صاحب دامت برکاتہم اور یہ ناچیز (محمد یاسین قاسمی مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند) بھی شریک رہا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اکابرین کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رہے اور حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ کے درجات بلند کرے اور انھیں اعلیٰ علیین میں جگہ نصیب فرمائے ، آمین یا رب العالمین۔ 

لایعنی کام

محمد یاسین جہازی
لایعنی کام
انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت قیمتی بنایا ہے۔ اس کو قیمتی بنانے کا لازما تقاضا یہ ہے کہ اس کو جتنی بھی دنیاوی زندگی ملی ہے، اس کا ہر ہر لمحہ قیمتی ہے۔ وقت کے بیش قیمت ہونے کے تعلق سے بزرگوں کا کہنا ہے کہ الوقت اثمن من الذھب کہ سونے سے زیادہ بیش قیمت وقت ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان سونا خرید سکتا ہے ، لیکن انسان کی زندگی سے جو وقت گذر چکا ہے ، وہ بے شمار کوششوں کے باوجود واپس نہیں لاسکتا، جو لمحہ گذر گیا، سو گذر گیا۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ الوقت کالسیف، ان لم تقطعہ ، یقطعک۔ یعنی وقت ایک تلوار ہے ۔ اگر تم اس سے کاٹنے کا کام نہ کروگے تو وہ تمھیں کاٹ ڈالے گا۔ المختصریہاں دو چیزیں ہیں : ایک انسان۔ اور ایک اس کی زندگی کی شکل میں وقت۔ انسان بھی انمول ہے اور اس کی زندگی کے لمحات بھی بیش قیمت۔ لہذا انسان کو پہلے اپنی قدرو قیمت سمجھتے ہوئے وقت کی بھی قدر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
انسانی نیچر ہے کہ جو چیز جتنی زیادہ انمول ہوتی ہے ، اس کے تحفظ کی اتنی ہی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے گھروں میں زیورات کے تحفظ اور عام برتنوں کے تحفظ کے طرز عمل سے اس کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔ لہذا جب وقت انمو ہے اور اس سے کہیں زیادہ انمول اور بیش قیمت انسان ہے تو ان دونوں انمولوں کے لیے تحفظ کے لیے بھی ہمارا طرز عمل انتہائی حساسیت پر مبنی ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس تعلق سے ہدایت دیتے ہوئے نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ 
من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ
آدمی کو اسلام یہ خوبی بخشتا ہے کہ وہ فضول اور لایعنی کاموں سے پرہیز کرے۔اس لیے انسان کو چاہیے کہ اس فرمان نبوی علیہ السلام پر عمل کرتے ہوئے اپنی قیمت کو بھی پہچانے اور وقت کی قدر کرنا بھی سیکھے۔

لڑائی قوم کے لیے موت ہے

محمد یاسین جہازی قاسمی جمعیۃ علمائے ہند
لڑائی قوم کے لیے موت ہے
بہت ہی پرانے شہروں میں سے ایک شہر مدینہ منورہ بھی ہے۔ تاریخ نگاروں کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کی پانچویں نسل یہاں آکر آباد ہوئی اور اپنے سردار کے نام پر اس کا نام یثرب رکھا۔ ہجرت نبوی ﷺ سے بیس صدی قبل یعنی کلدانی اور یونانی کتبات و نقوش سے پتہ چلتا ہے کہ یثرب شام اور یمن کے درمیان سفر کرنے والوں کا اسٹیشن تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی یہ اولادیں قحطانی النسل تھیں، جنھیں یہودی کہاجاتا ہے۔ مدینے میں ان یہودیوں کے علاوہ اوس و خزرج بھی آباد تھے۔ جب عرم کا سیلاب آیا، جس کا تذکرہ کلام پاک میں بھی ہے اور وہ لوگ دربدر ہوئے ، تو زندگی کی تلاش میں یہ لوگ یثرب چلے آئے اور یہیں آباد ہوگئے۔
یہودیوں کے پاس چوں کہ آسمانی صحیفے اور ہدایتیں موجود تھیں، اس لیے انھیں مذہبی تفوق حاصل تھا اور اسی بنیاد پر مدینے کی سیادت و قیادت بھی انھیں کے پاس تھی، جب کہ اوس و خزرج کے پاس نہ کوئی اخلاقی ضابطہ تھا اور نہ ہی کوئی دستور حیات ، حتیٰ کہ اگر ان کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا توزندہ رہنے کی یہ منت مانتے تھے کہ ہم اسے یہودی بنادیں گے۔ 
یہودی اپنے مال و ثرورت کی برتری ، مذہبی تفوق، سیاسی پکڑ اور اوس و خزرج کی اپنے تئیں جاں نثاری کی بنیاد پر ہر قسم کی بدکاری اور عیاشی کو اپنا حق سمجھنے لگے تھے ، یہاں تک کہ یہودکے ایک سردار ، جس کا نام فطیون تھا، اس نے یہ اعلان کردیا تھا کہ جس کنواری کا لڑکی کا نکاح ہوگا، پہلی رات اس کو میرے پاس گزارنا ہوگا ، تب وہ شوہر کے پاس جائے گی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس سے زیادہ اخلاقی بحران اور کیا ہوسکتا ہے۔اور خود مدینے کے لوگ اتنے بے بس اور غیرت و حمیت سے عاری ہوچکے تھے کہ ان میں اس شیطانی حرکت کوچیلنج کرنے کی سکت باقی نہیں رہ گئی تھی۔تاریخ بتلاتی ہے کہ خزرج کے ایک شخص مالک بن عجلان کی بہن کی شادی تھی ، جب سب مہمان آگئے ، تو اس کی بہن بڑی بے حیائی کے ساتھ بے حجاب ہوکر سب کے سامنے نکلی۔ اپنی بہن کی یہ حرکت دیکھ کر مالک کو بڑا غصہ آیا۔ وہ اندر گیا اور اپنی بہن کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ آج تم نے سب مہمانوں کے سامنے میری عزت خاک میں ملادی۔بہن نے جواب دیا کہ بھیا کل جو ہونے والا ہے، وہ عزت و غیرت کو زیادہ چیلنج کرنے والا ہے۔ بہن کا یہ جواب سن کر بھائی غیرت سے گڑ گیا اور پسینہ پسینہ ہوگیا۔ 
دوسرے دن جب اس کی بہن دلہن بن کر دولہا کے گھر جانے سے قبل رسم فطیون ادا کرنے کے لیے اس کے محل کے لیے نکلی ، تو مالک بھی زنانہ لباس پہن کر اس کی سہیلیوں کی جھرمٹ میں فطیون کے محل میں چلا گیا ۔ جب شام ہوئی ، اس کی بہن گھبرائی ہوئی محل سرا کے عیش کدہ میں پہنچی ، تو مالک اپنی آستین میں خنجر چھپائے اس کمرہ میں پہنچ گیا اور تاریکی کا فائدہ اٹھاکر ایک کونے میں چھپ گیا، جوں ہی فطیون نو عروس کی ناموس کو تار تار کرنے کے لیے اس کمرے میں داخل ہوا، تو مالک نے جھپٹ کر خنجر سے اس پر حملہ کردیا اور اس کاکام تمام کردیا۔
فطیون کو معلوم تھا کہ یہاں یہودیوں کی سیادت و قیادت ہے اور یہودی مجھے سردار کے قتل کے جرم میں ضرور مار ڈالیں گے ، اس لیے وہ وہاں سے فورا بھا گ گیا اور شام چلاگیا۔ اس وقت وہاں کا حاکم ابو جبلہ غسانی تھا ، مالک نے اس کو پوری کہانی سنائی ، ابو جبلہ مالک کی شرافت سے بہت متاثر ہوا اور اس نے اپنی تلوار پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہودیوں کی بدکاریاں اب زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتیں ۔چنانچہ ابو جبلہ غسانی نے اپنے قبیلہ غسان اور یمن کی قوم تبع کو ساتھ لے کر مدینہ پر حملہ کی تیاری کی۔ جب وہ مدینہ کے قریب بڑی بھاری فوج لے کر پہنچا ، تو پہلے دن اس نے انصار کے شیوخ کو دعوت پر بلایا اور انھیں گراں قدر تحفے تحائف دیے اور خلعت سے نوازا۔ دوسرے دن یہودیوں کے تمام سرداروں کو دعوت دی۔ یہودی بہت خوش تھے کہ ہم انصاریوں کے شیوخ سے رتبہ دولت ، عزت اورقیادت ؛ ہر اعتبار سے بڑھ کر ہیں، لہذا ابو جبلہ ہمیں ان سے زیادہ تحائف و خلعت سے نوازیں گے۔ لیکن ابو جبلہ نے ان کے توقعات کے خلاف سبھی یہودی سرداروں کو قید کر لیا اور ایک ایک کرکے سب کو قتل کردیا۔ اس طرح سے مدینہ میں یہودیوں کی شوکت و قوت ختم ہوگئی اور انصار یہودیوں کے سیاہ و سفید کے مالک ہوگئے، لیکن یہودی تو یہودی ہے، شرارت اور شر انگیزی اس کی فطرت میں شامل ہے، یہ کہاں چین سے بیٹھنے والے تھے۔ یہودیوں نے سازشی جال بننے شروع کردیے اور رفتہ رفتہ انصاریوں کو خانہ جنگی میں مبتلا کردیا اور ان کی قوت کو ختم کردیا۔ اب انصار کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ خود اپنے کسی قبیلہ کا سردار بننے کے لیے یہودی کے رحم و کرم کے محتاج ہوگئے ۔ معمولی معمولی باتوں پر جو جنگ چھڑ جاتی تھی ، وہ سالہا سال تک چلتی رہتی تھی اور دونوں فریقوں کے لاکھ لوگ لقمہ اجل بن جایا کرتے تھے، انصار کی سب سے آخر ی لڑائی جنگ بعاث ہے۔جو نبی اکرم ﷺ کی ہجرت سے پانچ سال قبل شروع ہوئی تھی، اس جنگ نے انصاریوں کو بالکل توڑ کر رکھ دیا تھااور عبداللہ ابن ابی ابن سلول کی اہمیت بڑھ گئی تھی ۔ اور مدینے میں اس کی تاج پوشی کی تیاری چل رہی تھی ۔ جنگی حالات کی وجہ سے انصار امن و شانتی کی تلاش میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم و کرم فرماتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے سامان بہم پہنچائے ۔ نبی اکرم ﷺ کی مدینہ آمد نے انصاریوں کی قسمت بدل کر رکھ دی ۔ اور یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے عرب سے دربدر کردیا۔ 
واقعہ کے نتائج پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہودیوں کی سرداری اور تفوق کی بنیادی دو وجہیں تھیں: (۱) اپنی تعلیم۔ (۲) آپسی اتحاد۔ اسی طرح انصاریوں کے محکوم و مغلوب ہوجانے کی بھی بنیادی وجہیں دو تھیں: (۱) اپنی جہالت۔ (۲) آپسی انتشار۔
تاریخ بتلاتی ہے کہ اس دنیا میں جو بھی قومیں کسی کے ہاتھوں کا کھلونا بنی ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات صرف یہی دو ہیں۔ آج ہندستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں مسلمانوں کی مظلومیت کی وجوہات کا پتہ لگایا جائے ، تو اس کی بنیادی یہیں دو وجہیں سامنے آئیں گی کہ مسلمان اپنی جہالت کی بنیاد پر اتحاد کی طاقت کو جاننے کے باوجود غیر قوموں کی ہاتھوں کا کھلونا بنا ہوا ہے اور کہیں فرقہ اور کہیں مسلک، کہیں ذات اور کہیں پات، کہیں مولوی اور کہیں روشن خیال کے نام سے بٹ کر فرد فرد بکھر گیا ہے۔ جس کا نتیجہ سامنے ہے ۔ اللہ ہم سب کو فہم رشید اور عقل سلیم عطا فرمائے ، آمین۔ 

آزادی ہند میں جمعیۃ علماء ہند

محمد یاسین جہازی 
آزادی ہند میں جمعیۃ علماء ہند
۱۸۵۷ء کی جنگ، تحریک آزادی ہند کاایک انقلابی آغازہے ۔ تاریخ کی گواہی کے مطابق جدوجہد آزادی کے حوالے سے حالات کا نقشہ یہ تھا کہ اس وقت تین پارٹیاں میدان عمل میں سرگرم عمل تھیں۔ پہلی پارٹی کا نام ہے انڈین نیشنل کانگریس۔ اس پارٹی کی تشکیل ۲۸؍ دسمبر ۱۸۸۵میں ایک انگریز Allan Octavian Hume نے کی تھی، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندستانی عوام کو تعلیم یافتہ بنایا جائے تاکہ وہ برٹش حکومتوں کی زبان اور اس کے دستور کو سمجھ سکیں اور انگریزی تعلیم پاکر انگریزیت کے رنگ میں رنگ جائیں۔ لیکن تاریخ بتلاتی ہے کہ نتیجہ اس کے برعکس سامنے آیا۔ کل تک جو ہندستانی ناخواندگی کی بنیاد پر ملک کے حالات اور انگریزوں کے سیاسی مکاریوں سے ناواقف تھے ، وہی ہندستانی جب تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوگئے، تو انھیں احساس ہوا کہ انگریزوں نے ہندستان پر جابرانہ و ظالمانہ قبضہ کررکھا ہے اور ہماری زندگی ان کی غلامی کی ذلت کی رہین ہوچکی ہے۔ چنانچہ ہندستانیوں کا شعور بیدار ہوا اور ان کے دلوں میں جنگ آزادی کے شرربار جذبے انگڑائیاں لینے لگے ۔ 
دوسری پارٹی ایک مخصوص طبقے کے نام پربنائی گئی ، جس کا نام تھا آل انڈیامسلم لیگ ۔ اس پارٹی کا وجود ۳۰؍ نومبر ۱۹۰۶ء میں ہوا۔ لیگیوں کا ماننا تھا کہ انگریزہیوم نے آل انڈیا کانگریس پارٹی اس لیے بنائی تھی تاکہ انگریزوں کے بعد ہندستان پر ہندو راج قائم ہوسکے۔ لہذا مسلمانان ہند کو انگریزوں کے بعد ہندووں کی غلامی سے بچانے کے لیے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہے، چنانچہ اس جماعت نے اس وقت کے حالات کے مزاج اور مستقبل کے خوف ناک نتائج کو سمجھے بغیر برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ ریاست کی تشکیل کی کوشش شروع کردی اور یہی ایک کوشش اس جماعت کا بنیاد مقصد بن گیا۔
ہندستانیوں کو غلامی سے نجات دینے کے لیے ایک اور تحریک اٹھی ۔ اس تحریک کا نام تھا : جمعیۃ علماء ہند ۔ ویسے کلینڈر کے اعتبار سے اس کی تشکیل تو۲۳؍ نومبر ۱۹۱۹ء میں ہوئی، لیکن اگر اس کی پوری تاریخ اور اس فکر کی جڑ کو تلاش کریں گے، تو اس کا سلسلہ ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ آزادی سے جاملے گا۔ جب مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں شکست ہوئی، تو اس کے اسباب پر غور کرتے ہوئیحجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ اس قوم سے اپنے آباو اجداد کے پرسودہ ہتھیار سے لڑنا ناممکن ہے، اس کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان علم دین کے ہتھیار سے لیث ہوں اور یہی ایک ایسا ہتھیار ہے، جو ہندستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلاسکتا ہے۔ اور ہندستان میں اسلام اور مسلمانوں دونوں کا مستقبل محفوظ ہوسکتا ہے۔چنانچہ اس کے بعد حجۃ الاسلام نے اپنے طریقۂ کار کو بدلتے ہوئے دیوبند کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں ۳۰؍ مئی ۱۸۶۶ ء میں ایک ادارہ قائم کیا، جو دارالعلوم دیوبند کے نام سے عالمی شہرت اختیار کرچکا ہے۔ اس کے قیام کا مقصد جہاں تعلیم و تعلم تھا ، وہیں ملک کی آزادی کے لیے رجال کار بھی تیار کرنا تھا۔ چنانچہ تاریخ شاہد عدل ہے کہ اس ادارے کے فارغین نے جہاں دینی سلسلے کو آگے بڑھایا، وہیں جنگ آزادی اور ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کا قیام بھی ان کا ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔ان بنیادی باتوں کے بعد آئیے اب مختصرا اس وقت کا جائزہ لیتے ہیں، جس وقت ہند میں سرمایہ ملت کی نگہبان یعنی جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا۔ 
واقعہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کے اوائل میں جنگ آزادی کے لیے جتنی بھی تحریکیں میدان عمل میں اتریں ، ان کا دائرۂ کاریاتو ان کے مسلکی افراد تک محدود تھایا پھر آزادی کے نام پر اپنے خاص نظریے کو تھوپنے کی کوشش تھی۔بطور خاص آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی مسیحائی کے لیے خوب صورت نام کا سہارا لے کر فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دینے میں مصروف عمل تھی۔ اور ان میں کچھ تحریکیں ایسی بھی تھیں، جن کا کردار صاف طور پر ملک سے غداری پر مبنی تھا۔ ان کے لیے تو انگریز گویا ایک مسیحا اور نجات دہندہ تھا۔ المختصر جدوجہد آزادی جاری تھی، مگر کوئی ایسی مشترکہ تحریک نہیں تھی، جس کے بینر تلے مسلک و مذہب کی قید سے آزاد ہوکر محض ایک ہندستانی ہونے کی بنیاد پر یہ لڑائی لڑی جائے۔ملک کا یہی نقشہ تھا کہ۲۳ نومبر ۱۹۱۹ء میں بمقام دہلی ’’خلافت کانفرنس ‘‘ ہوتی ہے، جس میں ملک کے کونے کونے سے علمائے کرام تشریف لاتے ہیں۔ایک جگہ سرجوڑ کر بیٹھتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسلمانوں کی تنظیم سمجھی جانے والی آل انڈیامسلم لیگ علما کی قیادت سے محروم ہے، جس کے باعث مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے بجائے مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اگر بروقت علمائے کرام مسلک و مشرب کے اختلاف سے اوپر اٹھ کر اجتماعیت کے ساتھ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے، تو اس ملک سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔چنانچہ اسی محفل میں ید بیضا لیے بیٹھے اہل اللہ اور خرقہ پوش متقی علمائے کرام نے متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے اس تنظیم کی نیو رکھی اور اس کا نام ’’ جمعیۃ علماء ہند‘‘ رکھا۔
چنانچہ اس جماعت نے حالات کے مزاج کو سمجھتے ہوئے فراست ایمانی پر مبنی حکمت عملی اختیار کی اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے پھیلتے زہریلے اثرات کو روکنے کے لیے برادران وطن پر مشتمل تنظیم کانگریس سے اتحاد کرکے،ملک کی مکمل آزادی کے لیے فرقہ و مذہب کی قید سے آزاد ہوکرلڑائی شروع کی ۔آئیے اس عنوان کے حوالے سے ایک مختصر تاریخی حوالہ دیکھتے ہیں کہ 
۱۹۱۹ء میں (جو کہ جمعیۃ علماء ہند کا سن قیام ہے) اس نے ہندستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔ اسی سال جدوجہد آزادی کی پاداش میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ اور امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کو گرفتار کر لیا گیا، جن کی رہائی کے لیے بھرپور جدوجہد کی گئی۔۱۹؍ جولائی ۱۹۲۰ء میں حضرت شیخ الہندؒ نے ترک موالات کا فتویٰ دیا، جسے ۶؍ ستمبر کو کلکتہ میں منعقد جمعیۃ کے خصوصی اجلاس میں اس کی بھرپور تائید کی گئی اور پھر ۱۹؍تا ۲۱؍ اکتوبر دہلی میں منعقد دوسرے اجلاس عام میں یہ اعلان کیا کہ حکومت برطانیہ سے ہر طرح کے تعلقات کا بائکاٹ کیا جائے اور اسے ایک مذہبی فریضے کے طور پر ناجائز اور حرام قرار دیا۔اس تجویز میں یہ کہاگیا کہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس کامل غور کے بعد مذہبی احکام کے مطابق اعلان کرتا ہے کہ موجودہ حالت میں گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ موالات اور نصرت کے تمام تعلقات اور معاملات رکھنے حرام ہیں، جس کے ماتحت حسبِ ذیل امور بھی واجب العمل ہیں۔
(۱) خطابات اور اعزازی عہدے چھوڑ دینا۔
(۲) کونسلوں کی ممبری سے علیحدگی اور امیدواروں کے لیے رائے نہ دینا۔
(۳) دشمنانِ دین کو تجارتی نفع نہ پہنچانا۔
(۴) کالجوں اسکولوں میں سرکاری اِمداد قبول نہ کرنا اور سرکاری یونیورسٹیوں سے تعلق قائم نہ رکھنا۔
(۵) دشمنانِ دین کی فوج میں ملازمت نہ کرنا اور کسی قسم کی فوجی امداد نہ پہنچانا۔
(۶) عدالتوں میں مقدمات نہ لے جانا اور وکیلوں کے لیے ان مقدمات کی پیروی نہ کرنا۔
ملک کے بگڑتے حالات ؛ بطور خاص فرقہ پرستی کی ذہنیت کو پنپتے دیکھ کر اسی سال یہ فیصلہ کیا کہ آزادی کی لڑائی مذہب کے بجائے برادران وطن کے ساتھ اتحاد و ربط پیدا کرکے لڑی جائے ، چنانچہ اس نے خود بھی کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا اور جدوجہد آزادی کی دیگر منتشر قوتوں کو بھی کانگریس کے پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوشش کی۔ ۸؍ جولائی ۱۹۲۱ء میں بمقام کراچی خلافت کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرتے ہوئے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی ؒ نے شرکت کی اور جمعیۃ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے برطانوی حکومت سے تمام تعلقات قطع کرنے کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں آپ کو گرفتار کرلیا گیا اور ساتھ ہی ترک موالات کے فتوی کو بھی ضبط کرلیاگیا۔ لیکن جمعیۃ علماء ہند خاموش نہیں بیٹھی اور ۱۸؍ تا ۲۰؍ نومبر ۱۹۲۱ء لاہور میں تیسرے اجلاس عام کا انعقاد کیا اور اس کھلے اجلاس میں اعلان کیا کہ ترک موالات کی تحریک جاری رہے گی، چاہیے اس کے لیے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ جمعیۃ کے اس عزم کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اس فتویٰ کو ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اشاعت پر پابندی بھی لگادی، لیکن جمعیۃ نے اس کے باوجود اسے بار بار شائع کیا اور تقسیم کیا۔۹، ۱۰؍ فروری ۱۹۲۲ء کو دہلی میں مجلس عاملہ کا اجلاس کیا اور یہ فیصلہ لیا کہ لوگ بڑھ چڑھ کر انفرادی سول نافرمانی میں حصہ لیں۔ ۲۴؍ تا ۲۶؍ اپریل ۱۹۲۲ء میں بمقام گیا چوتھا اجلاس عام کیا اور کونسلوں سے بائکاٹ کرنے کی تجویز پاس کی۔جمعیۃ علماء ہند کی برادران وطن کے ساتھ متحدہ جدوجہد انگریزوں کو ایک آنکھ نہ بھائی ، تو پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے ہندو مسلم کے مثالی اتحاد کو توڑنے اور جذبۂ آزادی کو ختم کرنے کے لیے غیر مسلموں میں شدھی سنگھٹن کھڑا کیا اور مسلمانوں میں قادیانیت کا فرقہ ( جو پہلے سے ہی ارتدادی کام انجام دے رہا تھا ) اور دیگر فرقوں کو کھڑا کیا، لیکن جمعیۃ علماء ہند نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا مشن جاری رکھا۔۳؍ جنوری ۱۹۲۳ کو کوکناڈ میں پانچواں اجلاس کیا اور مکمل آزادی کے مطالبے کو دہرایا۔۱۱؍ تا ۱۴؍ مارچ کلکتہ میں ساتواں اجلاس عام کیا اور ترک موالات کی تحریک کو جاری رکھتے ہوئے مکمل آزادی تک جدوجہد کرنے کا عہدو پیمان لیا۔۱۹۲۷ء میں حکومت ہند کے دستور میں تبدیلی کے نام پر جذبۂ آزادی کو سرد کرنے کے لیے حکومت برطانیہ نے سائمن کمیشن بنائی۔ جمعیۃ نے اس کے مقصد کو بھانپتے ہوئے کمیشن کا مکمل بائکاٹ کیا ۔۱۹۲۸ء میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے ’’نہرو رپورت ‘‘ کے نام سے ایک رپورٹ برطانوی حکومت کو دی۔ اس رپورٹ میں مکمل آزادی کے بجائے برطانوی حکومت کے تحت آئینی مراعات حاصل کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس کی سخت مخالفت کی ۔ رپورٹ کے جائزے کے لیے ایک سب کمیٹی بھی بنائی ، جس نے ترمیمی مسودہ بھی تیار کیا۔ اس میں مکمل آزادی سے کم کسی بھی چیز پر راضی نہ ہونے کی وکالت کی گئی۔۱۹۲۹میں گاندھی جی کے ذریعے چلائی جارہی تحریک ’’تحریک نمک سازی‘‘ میں جمعیۃ علماء ہند نے بھرپور حصہ لیا۔ ۱۹۳۰ ء میں تحریک سول نافرمانی کو دوبارہ شدومد کے ساتھ چلائی گئی ، جس کی وجہ سے حکومت بوکھلاہٹ کی شکار ہوگئی اور صدر جمعیۃ حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ اور ناظم عمومی حضرت مولانا احمد سعید صاحب کو گرفتار کرلیا گیا۔ ۳۱؍ مارچ تا یکم اپریل۱۹۳۱ء کراچی میں دسواں اجلاس عام کیا گیا، جس میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے کوششوں پر زور دیا گیا اور اسی سال آزاد ہندستان کا دستوری خاکہ پیش کرنے کے لیے حکومت کے سامنے ایک فارمولہ پیش کیا ، جو تاریخ میں ’’مدنی فارمولہ ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ۱۹۳۲ء میں سول نافرمانی تحریک دوبارہ شروع کی گئی اور ساتھ ہی کانگریس کی جنگی کونسل کی طرح ایک ادارہ قائم کیا، جس کانام ’’ادارۂ حربیہ‘‘ رکھا۔ ۱۹۳۳ء میں بمقام مرادآباد مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیا اور یہ فیصلہ لیا کہ کامل آزادی ملنے تک جدوجہد جاری رہے گی۔۱۱؍ مارچ ۱۹۳۴ء میں ملک کے حالات کے پیش نظر ایک لاکھ افراد پر مشتمل ایک احتجاجی جلوس نکالاگیا، جس کی قیادت حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ نے کی اور انھیں دفعہ ۱۴۴؍ کی خلاف ورزی کرنے کے نام پر گرفتار کرلیا گیا۔
اگست ۱۹۳۵ء میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پاس کرانے میں جمعیۃ علماء ہند کو بڑی کامیابی ملی۔ واضح رہے کہ اس ایکٹ میں مدنی فارمولہ کی تجاویز شامل کی گئی تھیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو مذہبی مراعات حاصل ہوسکیں۔جب تقسیم وطن کا مطالبہ زور پکڑنے لگا،جس کی اصل یہ تھی کہ وطن کی تعمیر مذہب کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے، چنانچہ خود کو مسلمانوں کی مسیحا کہلانے والی تنظیم نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایک خدا کی پرستش کرنے والی قوم کروڑوں خداوں کو ماننے والی قوم کے ساتھ ایک ساتھ کیسے رہ سکتی ہے ، کیوں کہ قومیں سرحد سے بنتی ہیں، چنانچہ لیگ نے مسلمانوں کے لیے اسلامی سلطنت کے خوب صورت نام پر پاکستان بنانے کا مطالبہ کیا؛ لیکن جمعیۃ علماء ہندکے اکابرین نے اپنی فراست ایمانی سے محسوس کرلیا کہ جس قسم کے لوگ اور جس طریقے سے پاکستان بنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ، اس میں فائدے کم اور نقصان زیادہ ہے، چنانچہ جمعیۃ علماء ہند نے اس مطالبے کی شدت سے مخالفت کی اور تقسیم کے بجائے ’’ متحدہ قومیت‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔یہ ۱۹۳۷ء کا واقعہ ہے ۔یہ نظریہ پیش کرنا تھا کہ لیگیوں نے جمعیۃ علماء ہند اور اس کے اکابرین کے ساتھ بدتمیزیوں اور گستاخیوں کا ایک طوفان کھڑا کردیا، جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کو زیادتیوں کا نشانہ بنایاگیا ، انھیں گالیاں دی گئیں ، ان کا مذاق اڑایا گیا اور شیخ الاسلام کے بجائے انھیں شیخ الاصنام کہنے لگے۔ ان الزام تراشیوں میں صرف عوام نہیں ؛ بلکہ بڑے بڑے خواص بھی مبتلا تھے، جس پر اس وقت کے جنرل سکریٹری مولانا احمد سعیدصاحب نور اللہ مرقدہ نے پیش قیاسی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لیگی مدنی صاحب کے ساتھ گستاخیاں کر رہے ہیں، ان سے حضرت مدنی کا تو کچھ بگڑنے والا نہیں، البتہ لیگیوں کا نام و نشان ضرور مٹ جائے گا۔ آج تاریخ شاہد ہے کہ بدتمیزی کرنے والوں کے نام تک باقی نہیں رہے اور حضرت کا نام آج بھی تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھے ہوئے ہیں اور ہندستانیوں کی گردنیں ان کے احسانات کے بارگراں سے خم کھائی ہوئی ہیں۔۱۹۴۱ ء میں آزادی کے متوالوں نے ایک تحریک بنائی ، جس کا نام تھا ’’ ستیہ گرہ‘‘ ۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس کی مکمل حمایت کی۔ اسی سال یہ طے کیا گیا کہ سول نافرمانی تحریک میں تشدد کے بجائے عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ۱۹۴۲ء میں جمعیۃ علماء ہند نے آزادی کی تحریک کو مہمیز کرتے ہوئے یہ نعرہ دیا کہ’’ انگریزو!ہندستان چھوڑود‘‘۔ اور مکمل آزادی کے لیے ریاستوں کی مکمل خود مختاری کی قرارداد منظور کی۔ حالات کے پیش نظر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ نے جگہ جگہ حصول آزادی کے موضوع پر تقریریں شروع کردیں، جن کے نتیجے میں آپ کو پھر گرفتار کرلیاگیا اور ساتھ ہی انگریزوں نے آزادی کے مجاہدین کی عام گرفتاری بھی شروع کردی، جس کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے دفعہ ۱۲۹؍ ڈیفینس آف انڈیا رولز کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ عام گرفتاری بند کرے۔۱۹۴۳ء میں پھر شدت کے ساتھ قیام پاکستان کے نظریے کی مخالفت کی اور اس کے بھیانک نتائج سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ اسی دوران فرقہ پرستی اور مسلم فرقہ پرستی بھی عروج پر تھی، جمعیۃ نے ان دونوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیااور لوگوں سے یہ اپیل کہ وہ خوب صورت نام سے دھوکہ نہ کھائیں اور حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔تقسیم ہند کے نظریہ کا طوفان جب کسی طرح سے بھی نہ تھما، تو ۱۹۴۵ء میں اس کے متبادل نظریہ ’’ مدنی فارمولہ ‘‘ پیش کیا ۔اسی سال جمعیۃ نے ایک اہم کام یہ کیا کہ آل مسلم پارٹیز کی کانفرنس بلائی اور مسلم پارلیمنٹری بورڈ سے کہاکہ وہ مرکزی و صوبائی الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑا کرے۔ تمام روپوش مجاہدین آزادی سے پابندی اٹھالینے اور ان کی عام رہائی کی بھی کوشش کی۔۱۹۴۶ء میں برٹش حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ آزادی ملک، آزادی مذہب، کلچر، زبان، اس کی رسم الخط، مذہبی تعلیم و تبلیغ ، مذہبی عقائد و اعمال، عبادت گاہیں اور اوقاف جیسے مسائل کو مسلمانوں کے فنڈا مینٹل رائٹس کے طور پر منظور کرے اور حکومت ان میں مداخلت کرنا بند کرے۔قیام پاکستان کی مخالفت پر مسلم لیگ بدستور اکابرین جمعیۃ کی شان میں گستاخی اور بد تمیزی کرتے رہے۔۲۰؍ فروری ۱۹۴۷ء میں برطانوی وزیر اعظم کے اعلان آزادی کا خیر مقدم کیا ؛ البتہ انتقال اختیارات کے طریقے کو واضح نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ فرقہ وارانہ تقسیم اور پنجاب کو دو حصوں مسلم و غیر مسلم پنجاب میں تقسیم کرنے کی سخت مذمت کی۔آزاد ہندستان میں مسلمانوں کے مذہبی و قومی تحفظ کے لائحۂ عمل طے کرنے کے لیے تمام مسلم تنظیموں سے مل کر کوئی فیصلہ کرنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر اس وقت مسلمانوں نے اس کی طرف سے لاپرواہی برتی اور ضد سے کام لیا، تو آزاد ہندستان میں ان کے لیے کوئی مناسب مقام نہ ہوگا (کاروائی مجلس عاملہ ۱۰ تا ۱۳ مارچ ۱۹۴۷)۔ برطانیہ نے تقسیم کا جو پلان پیش کیا تھا، اس میں نہ تو مکمل آزادی کا ذکر تھا اور نہ ہی ہندستان کی وحدت کاتذکرہ تھا۔ اس سے اظہار بیزاری کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ ’’ اس پلان کی وجہ سے مسلمانان ہند تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ اور تقریبا پانچ کروڑ مسلمان ایک ایسی اکثریت کے حوالے کردیے گئے ہیں، جس کی تعداد پچیس کروڑ ہے۔ مسلمانوں کی یہ تباہی ان کی گمراہانہ رہنمائی کا نتیجہ ہے۔ اگر اس نقصان دہ تقسیم کو ہی قبول کرنا تھا ، تو اس کا بہترین موقع وہ تھا جب کہ مسٹر گاندھی اور مسٹر راج گوپال آچاریہ اس تقسیم کی پیشکش کر رہے تھے یا جب کہ کیبنٹ مشن سے گفتگو ہورہی تھی ، لیکن اس وقت پاکستان کو ’’چھلکا‘‘ اور سایہ کہہ کر مسٹر جناح نے رد کردیا ۔ اگر یہ چھوٹا اور بے حقیقت پاکستان اس وقت قبول کرلیا جاتا، تو مسلمان یوں تباہ و برباد نہ ہوتے۔ جمعیۃ علماء ہند نے کانگریس کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے اس تقسیم کو منظور کرکے ملک کے مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اپنے اصول سے کھلا انحراف کیا ہے۔ ‘‘ (کاروائی مجلس عاملہ ۲۴؍ جون ۱۹۴۷)۔ لیکن جوں ہی زبردست جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ۱۵؍ اگست کو ہندستان کی آزادی کا اعلان مسرت ہوا، تو اسی وقت تقسیم کے نتیجے میں آبادی کی تبدیلی کی ہولناک تباہی و بربادی اور فرقہ وارانہ فسادات نے ساری خوشیوں کو خاک میں ملادی۔ اکابرین جمعیۃ نے قبل از تقسیم، تقسیم کے نتیجے میں پیش آنے والے جن بھیانک اور خوف ناک خطرات کی پیش قیاسی کی تھی، وہ ایک ایک کرکے پوری ہونے لگی۔ ایسے نازک وقت میں بھی جمعیۃ علماء ہند نے مسلمانوں کو بے سہارا نہیں چھوڑا اور آگ و خون کی اس ہولی کو روکنے کی انتھک جدوجہدکی اور انھیں اس ملک میں عزت کے ساتھ رہنے کا حوصلہ بخشا۔پھر ۲۷، ۲۸؍ دسمبر۱۹۴۷ کو لکھنو میں منعقد ہونے والی آزاد کانفرنس سے فرقہ وارانہ پارلیمانی سیاست سے دستبرداری اور تعمیری پروگرام کا اعلان کیا۔
یہاں پر ہم تاریخ سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ سوال تاریخ سے کرنا جتنا ضروری ہے، اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ یہ سوال ہر ہندستانی مسلمان خواہ وہ کسی بھی شعبہ حیات سے وابستہ ہو یا پھر کسی بھی مسلک و مشرب کا ترجمان ہواپنے آپ سے کرے ۔اور پھر تاریخ اس کا جو جواب دے گی ، اس کی روشنی میں اپنے کردار کے تعلق سے خود سے اور اپنی خودی سے سوال کرے کہ اس محسن کے لیے اب تک ہمارا رویہ کس طرح کا رہا ہے ؟ اگر ضمیر یہ جواب دیتا ہے کہ معاندانہ رہا ہے، تو ان کے لیے نیک مشورہ ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ اس رویے سے باز آجائے اور خود کو اس کے لیے وقف کردے ۔ اور اگر یہ جواب دیتا ہے کہ معاندانہ نہیں بلکہ دوستانہ رہا ہے، تو یہ اس کے لیے خوش آئند بات ہے، لیکن اس کو بھی یہ جائزہ لینا ہوگا کہ یہ دوستانہ تعلق محض ظاہر پرستی پر مبنی ہے ، یا اس کا واقعیت و حقیقت سے بھی کچھ تعلق ہے؛ اگر اس کا تجزیہ یہ کہتا ہے کہ اس کا تعلق حقیقی بنیادوں پر قائم ہے، تو اسے سجدۂ شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ معاملہ صرف ظاہر پرستی تک محدود ہے ، تو اس کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ بھی اپنے کردار کا جائزہ لے اور پھر اسے واقعیت میں بدلنے کا عزم کرے کہ یہی خود کے ساتھ ، تاریخ کے ساتھ اور اس محسن کے ساتھ انصاف ہوگا۔ 
وہ سوال یہ ہے کہ ۱۸۸۵ میں تشکیل کانگریس پارٹی تمام برادران ہند کی نمائندہ پارٹی کہلاتی ہے، جو تحریک آزادی میں سرگرم عمل ہے۔ پھر ۱۹۰۶ میں فرقہ واریت کی سوچ پر مبنی ایک جماعت وجود میں آتی ہے، جسے آل انڈیا مسلم لیگ کا نام دیا جاتا ہے، جو بعد میں تقسیم ہند کی وکالت کرتی ہے اور مسلمانوں کے لیے مذہب کے نام پر پاکستان بنانے کی جدوجہد شروع کردیتی ہے، جس سے فرقہ پرستی کے نظریات میں شدت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھر ۱۹۱۹ میں جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آتا ہے، جو ہندستان کی مکمل آزادی کے لیے انتھک جدوجہد کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کی مخالفت کرتی ہے۔ اور وہ یہ اعلان کرتی ہے کہ ہم ہندستان کی مٹی پر پیدا ہوئے ہیں، یہی ہمارا اصلی وطن ہے اور اسی زمین میں ہم دفن ہوں گے۔ ان تمام قربانیوں کے باوجود آج برملا یہ کہاجاتا ہے کہ ہندی، ہندو، ہندستان، مسلم بھاگو پاکستان ۔ تو ذرا غور رکیجیے کہ اگر ۱۴؍ جون ۱۹۴۷ ؁ء کو کانسٹی ٹیوشن ہاؤس دہلی میں کانگریس کے اجلاس میں پیش کی گئی تقسیم ہند کی تجویزپر اے۔ آئی۔ سی۔ سی (آل انڈیا کانگریس کمیٹی)کے تقریباً چھ سوارکان کی ہم نوائی و حمایت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند بھی دستخط کردیتی ، تو بھلا بتائیے کہ آج ہندستان میں مسلمانوں کے لیے فخر اور حق کے ساتھ جینے کے لیے کیا جواز رہ جاتا؟
علاوہ ازیں جمعیۃ علماء ہند نے ہندستان میں مسلمانوں کے قومی اور ملی امتیازات و تشخصات اور ان کے دینی و سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے جو کارنامے پیش کیے ہیں، ان کی بنیاد پر یہ دعویٰ خلاف واقعہ نہیں ہوسکتا کہ آج ہندستان کے کونے کونے میں جومساجد، مدارس ، مکاتب، خانقاہیں ،دینی ادارے، مذہبی تحریکات کی آزادی، تبلیغی مشن، چہروں پر داڑھیاں، سروں پر ٹوپیاں، جسم پر برقعے اوراسلامی تہذیب کو اختیارکرنے کا حق حاصل ہے ، وہ سب کے سب جمعیۃ علماء ہند کی کاوشوں کی رہین منت ہیں۔ ان تاریخی حقائق کے بعد بھی اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ایک ہندستانی مسلمان ہوتے ہوئے وہ جمعیۃ کا احسان مند نہیں ہے، تو اسے ناسپاس اورحقیقت بینی سے معذور کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
المختصر جمعیۃ علماء ہند نے روز اول ہی سے ملک و قوم کے لیے حالات کے تقاضے کے پیش نظرجو کار ہائے نمایا ں انجام دیے ہیں، وہ ناقابل فراموش ہیں؛ بالخصوص تحریک آزادی ہند میں جو کردار اس نے ادا کیے ہیں، ان کا انکار سراسر تاریخی شہادتوں کو جھٹلانے کے مرادف ہے!! 

حساب خودی

محمد یاسین جہازی
حساب خودی
خدا کی بنائی ہوئی بے شمار مخلوقات میں سے ایک اعلیٰ و اشرف مخلوق کا نام بشرہے۔ اس کی برتریت کا راز یہ ہے کہ اس کی ادراک و شعور دوسری تمام مخلوقات کی بنسبت اعلیٰ معیار تک پہنچا ہوا ہے ۔ دنیا کا سب سے پہلا شخص حضرت آدم علیہ السلام ہیں، اس لیے ان کی جانب نسبت کرتے ہوئے اسے آدمی بھی کہاجاتا ہے۔اس کا ایک تیسرا نام بھی ہے اور وہ ہے : انسان۔ یہ عربی کے لفظ انس سے بنا ہے، جس کے لغوی معنی محبت و الفت کے ہیں۔ چوں کہ انسان کے اندر محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے، اس لیے اسے اس نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اور یہیں سے ہم عوام الناس کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ انسان کی ادراک و شعوراس کے اندر محبت وپیار کاجذبہ پیدا کرتا ہے اور یہی جذبہ اسے تمام انسانوں ؛ بلکہ دیگر مخلوقوں کے ساتھ خیرخواہی اور ہمدردی کا سلیقہ بخشتا ہے۔ چنانچہ یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ اپنے کسی بھائی کے ساتھ یا کسی جاندار مخلوق کے ساتھ ظلم ہوتا دیکھ کر دکھی ہوتا ہے ۔ وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ دوسرا شخص کسی تکلیف میں مبتلا ہے، تو اسے دیکھ کر اس کی چبھن یہ بھی محسوس کرتا ہے ۔ اور اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے کہ وہ انسان ہے ، محبت و ہمدردی اس کی فطرت کا ایک لازمی عنصر ہے۔ عشق و شیفتگی اور لاڈ پیار ہی انسان کی سب سے بڑی امتیازی شناخت ہے۔ 
اسلام چوں کہ دین فطرت ہے اور محبت و الفت انسان کی فطرت میں داخل ہے ، اس لیے اسلام نے انسان کو یہ تعلیم دی ہے کہ
من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا، و من احیاھافکانما احیاالناس جمعیا۔
ناحق ایک شخص کو قتل کرنا ایسا ہے جیسا کہ تمام انسانوں کو قتل کردیا ۔ اور جس شخص نے ایک جان کو زندگی دی ، گویا اس نے سب انسانوں کو زندگی بخشی۔ 
اس اسلامی ہدایت کی روشنی میں آئیے ہم سب اپنا اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم واقعی انسان ہیں ؟ اور اگر انسان ہیں تو کیا انسانیت کے تقاضے کو پورا کر رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم انسیت و محبت کا دعویٰ کرتے کرتے نہ تھکتے ہوں، لیکن ہمارے کسی ظلم و زیادتی کی وجہ سے ایک فرد نہیں، ایک خاندان نہیں؛ بلکہ پورا معاشرہ پریشان ہو رہا ہو اور ہمیں اس کا احساس بھی نہ ہو۔ 
اپنا محاسبہ شروع کرنے سے پہلے آئیے ایک واقعہ ذہن نشین کرتے چلیں کہ پہلے زمانے میں ایک عبادت گزار شخص تھا۔ ایک فاحشہ اور بدکار عورت نے اسے اپنے دام تزویر میں پھنسانے کی کوشش کی۔ اور ایک لونڈی کو پیغام دے کر اس کے پاس بھیجا کہ میں تمہیں گواہی کیلئے اپنے پاس بلا رہی ہوں (گواہی کیلئے جانا فرض تھا) چنانچہ وہ مرد صالح اس لونڈی کے ساتھ چلا آیا۔ وہ نیک شخص مطلوبہ مکان کے جس کمرے میں داخل ہوتا۔ لونڈی اس کا دروازہ مقفل (بند) کر دیتی۔ اس طرح وہ اس خوبصورت عورت کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں عورت کے علاوہ ایک لڑکا تھا اور ایک طرف شراب کا جام رکھا ہوا تھا۔ اب اس بدکار عورت نے اس نیک آدمی سے کہا۔ انی واللہ مادعوتک للشھادۃ اللہ کی قسم! میں نے تجھے کسی گواہی کیلئے نہیں بلایا۔ بلکہ اس لیے بلوایا ہے کہ تم میرے ساتھ ہم بستری کرو۔ یا شراب کا یہ جام پیو۔ یا پھر اس لڑکے کو قتل کرو۔ (تمہیں ان تینوں میں سے ایک کام لازمی کرنا پڑے گا) چنانچہ اس نے شراب نوشی کو دوسرے دونوں گناہوں سے کم تر جرم خیال کرتے ہوئے کہا۔ مجھے شراب کا ایک گلاس پلا دو۔ اس عورت نے اسے ایک پیالہ شراب پلا دی۔ (جب لذت محسوس ہوئی تو) بولا۔ اور پلاؤ۔ اس نے اور شراب پلا دی۔ پھر اس مرد صالح نے شراب نوشی کی مخموری کے باعث اس عورت سے صحبت بھی کی اور اس کے مطالبے پر لڑکے کو بھی قتل کر دیا۔ 
اس واقعے میں جس طرح بزرگ شخص نے شراب نوشی کو دوسرے دونوں گناہوں کی بنسبت کم تر خیال کرتے ہوئے اسے اختیار کرلیا اور پھر سبھی بڑے بڑے گناہ ہوگئے ،اسی طرح آج ہماری ذاتی زندگی ، خاندانی نظام حیات اور معاشرتی معاملات کا نقشہ اس واقعہ سے مختلف نہیں ہیں۔ ہم لاشعوری طور پر کچھ ایسے کام کرجاتے ہیں ، جس کی وجہ سے مفاسد کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ کام بڑے بڑے گناہوں کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ محاسبہ کے طور پر چند پہلو کی نشاندھی کی جاتی ہے۔
(۱) غلط فہمی
غلط فہمی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی چیز کو دیکھ کر یا سن کر وہ سمجھ لیتا ہے ، جو حقیقت میں وہ ہے نہیں۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب کی دکان کے سامنے لوگ پیشاب کرتے تھے، جس کی بدبو اور تعفن سے وہ پریشان تھے۔ دکاندار نے بہت کوشش کی ، کبھی اس جگہ دیوار پر لکھ دیا کہ یہاں پیشاب کرنا منع ہے۔ کبھی کسی کو دیکھ لیا تو اسے ٹوک دیا کہ بھائی یہاں پیشاب مت کرو، لیکن لوگ تھے کہ باز ہی نہیں آرہے تھے۔ پھر اس کے دماغ میں یہ ترکیب آئی کہ کیوں نہ ایسا کریں کہ اس جگہ کے متعلق غلط فہمی پھیلائی جائے ، شاید اس سے لوگ رک جائیں۔ چنانچہ اس نے وہاں پر یہ لکھ کر ایک بورڈ لگوادیا کہ یہاں جنات و شیطان رہتے ہیں، اس جگہ پیشاب نہ کریں۔ ایک یہ ہوا کہ ایک صاحب کو بڑی تیز لگی ہوئی تھی، جگہ کا پتہ تو تھا ہی، وہ جلدی میں آے اور اسی جگہ بیٹھ گئے، جب اس کو اطمینان ہوا اور بیٹھے ہوئے ہی اس کی نظر اس بورڈ پر پڑی کہ یہ کہ جنات کی جگہ ہے، پھر کیا تھا اس کا پیشاب رک گیا اس کے ذہن نے کام کرنا بند کردیا، گھبراہٹ کے عالم میں جلدی جلدی پینٹ کا بٹن لگانے لگا، لیکن اتفاق سے ہوا ایسا کہ پینٹ کی بٹن شرٹ میں شرٹ کی بٹن پینٹ میں لگ گیا۔ اب وہ صاحب جب کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، تو کمر سیدھی ہی نہیں ہورہی ہے۔ گھبراہوا تو پہلے سے ہی تھا اب مارے خوف کہ چیخیں نکل گئیں کہ مجھے بچاو مجھے جنات نے پکڑ لیا ہے، میری کمر ٹیڑھی کردی ہے۔ مجھے بچاو۔ یہ منظر جب راہ گیروں نے دیکھا تو انھیں بھی یہی لگا کہ اس نے جنات پر پیشاب کیا ہے، اسی وجہ سے جنات کے اس کی یہ حالت کردی ہے۔ 
اب دیکھیے کہ حقیقت میں وہاں نہ جنات ہے اور نہ ہی اس کی کمر ٹیڑھی ہوئی ہے،لیکن اس کو غلط فہمی ہوگئی ہے کہ جنات نے مجھ پر اثر ڈال دیا ہے، اس لیے صحیح ہونے کے باوجود وہ بیماری میں مبتلا ہے۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں ایک دوسرے سے غلط فہمی اور بدگمانی عام ہوچکی ہے۔ اس سے جہاں بدگمان شخص بدگمانی شخص کو نقصان پہنچاتا ہے، وہیں وہ شخص خود بھی نقصان اور پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور بے شمار تاریخی واقعات اس پر شاہد ہیں کہ بدگمانی سے کسی شخص کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔آئیے ہم اسلامی تاریخ سے مثال ڈھونڈھتے ہیں کہ صلح حدیبیہ سے پہلے کفار مکہ اور یہود مدینہ نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلادی تھیں، کفار مکہ نے سرور کائنات کے بارے میں تو یہاں تک مشہور کردیا تھا کہ وہ تو جادو گر ہیں، اس لیے کوئی قریب مت جانا ورنہ ان کے جادو کے شکار ہوجاو گے ، لیکن جب صلح حدیبیہ کی وجہ سے دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا اور لوگ ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور معاملات کرنے لگے تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم اب تک اندھیرے میں رکھے گئے تھے، پھر جس طرح سے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے ، اس سے پہلے بیس سالہ اسلام کے دور میں نہیں ہوا تھا۔
(۲) شادی بیاہ میں رسوم و رواجات
زندگی کی ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ جب اپنی لڑکی کی شادی کرتے ہیں،تو سمجھتے ہیں کہ لڑکے والے جہیز، تلک اور بارات وغیرہ کی رسموں کو انجام دے کر غیر ضروری اخراجات کا بوجھ ڈال دیتے ہیں، لیکن جب وہی لڑکی والا اپنے کسی لڑکے کی شادی کرتا ہے، تو وہ تمام رسمیں اور چیزیں اپنے لیے رحمت کا باعث سمجھتے ہیں اور ان چیزوں سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔ 
قرآن و حدیث کی رو سے لڑکے کو لڑکی پر ایک درجہ زیادہ مرتبہ ملنے کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام چلانے کے لیے حاکم ومحکوم اور بادشاہ و رعایہ کا سسٹم رکھا ہے۔ اگر یہ نہ ہوگا تو انسان کا سماجی و تمدنی نظام نہیں چل سکتا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت بالغہ سے کسی کو بادشاہ اور کسی کو رعایہ بنادیا ہے۔ اسی نظریے کے مطابق خاندانی شیرازہ بندی کے لیے اللہ تعالیٰ نے لڑکے کو حاکم و قوام اور نگراں بنایا ہے اور لڑکی کو اس کا ماتحت۔ یہ تو ایک وجہ تھی اور دوسریہ وجہ یہ ہے کہ لڑکا چوں کہ مال خرچ کرتا ہے، اس لیے لڑکے کا درجہ بڑا ہے۔ 
اس فرمان کے مطابق کوئی بھی موقع ہو، مال خرچ کرنے کی ذمہ داری لڑکے پر عائد ہوتی ہے، لہذا شادی بیاہ کے موقع پر بھی مال اور دعوت وغیرہ سبھی خرچ لڑکے کے ذمہ ہے، نہ کہ لڑکی کے ذمہ۔ علاوہ ازیں حدیث میں لڑکی کورحمت کہا گیا ہے، اور شادی کے ذریعہ لڑکی رخصت ہوتی ہے، تو لڑکی والوں کے لیے کوئی خوشی کا موقع نہیں ہوسکتا، کیوں کہ رحمت کی رخصتی خوشی کی وجہ نہیں ہوسکتی، البتہ لڑکے والوں کے لیے مسرت کا مقام ہے کہ ایک رحمت کا ورود ہورہا ہے، جس کی خوشی کے طور پر ولیمہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 
قرآن و حدیث کے ان فرمان کے برعکس آج ہمارا حال یہ ہے کہ لڑکی والوں پر سارے اخراجات کی ذمہ داری ڈال دیتے ہیں اور اس طرح ہم ان پر ظلم کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہم کسی طریقے سے کسی پر ظلم و زیادتی تو نہیں کر رہے ہیں۔۔۔!
اس طرح زندگی کے بے شمار واقعات ہیں، جہاں ہم چاہی نہ چاہی ، شعوری اور لاشعوری طور پر غلط فہمیوں کے شکار ہوتے ہیں ، یا غلط کام کرتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا، اس لیے ایسے موقعوں پر گناہوں سے بچنے کا خود کا اور خودی کا محاسبہ بہت ضروری ہے۔