محمد یاسین جہازی قاسمی جمعیۃ علمائے ہند
لڑائی قوم کے لیے موت ہے
بہت ہی پرانے شہروں میں سے ایک شہر مدینہ منورہ بھی ہے۔ تاریخ نگاروں کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کی پانچویں نسل یہاں آکر آباد ہوئی اور اپنے سردار کے نام پر اس کا نام یثرب رکھا۔ ہجرت نبوی ﷺ سے بیس صدی قبل یعنی کلدانی اور یونانی کتبات و نقوش سے پتہ چلتا ہے کہ یثرب شام اور یمن کے درمیان سفر کرنے والوں کا اسٹیشن تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی یہ اولادیں قحطانی النسل تھیں، جنھیں یہودی کہاجاتا ہے۔ مدینے میں ان یہودیوں کے علاوہ اوس و خزرج بھی آباد تھے۔ جب عرم کا سیلاب آیا، جس کا تذکرہ کلام پاک میں بھی ہے اور وہ لوگ دربدر ہوئے ، تو زندگی کی تلاش میں یہ لوگ یثرب چلے آئے اور یہیں آباد ہوگئے۔
یہودیوں کے پاس چوں کہ آسمانی صحیفے اور ہدایتیں موجود تھیں، اس لیے انھیں مذہبی تفوق حاصل تھا اور اسی بنیاد پر مدینے کی سیادت و قیادت بھی انھیں کے پاس تھی، جب کہ اوس و خزرج کے پاس نہ کوئی اخلاقی ضابطہ تھا اور نہ ہی کوئی دستور حیات ، حتیٰ کہ اگر ان کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا توزندہ رہنے کی یہ منت مانتے تھے کہ ہم اسے یہودی بنادیں گے۔
یہودی اپنے مال و ثرورت کی برتری ، مذہبی تفوق، سیاسی پکڑ اور اوس و خزرج کی اپنے تئیں جاں نثاری کی بنیاد پر ہر قسم کی بدکاری اور عیاشی کو اپنا حق سمجھنے لگے تھے ، یہاں تک کہ یہودکے ایک سردار ، جس کا نام فطیون تھا، اس نے یہ اعلان کردیا تھا کہ جس کنواری کا لڑکی کا نکاح ہوگا، پہلی رات اس کو میرے پاس گزارنا ہوگا ، تب وہ شوہر کے پاس جائے گی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس سے زیادہ اخلاقی بحران اور کیا ہوسکتا ہے۔اور خود مدینے کے لوگ اتنے بے بس اور غیرت و حمیت سے عاری ہوچکے تھے کہ ان میں اس شیطانی حرکت کوچیلنج کرنے کی سکت باقی نہیں رہ گئی تھی۔تاریخ بتلاتی ہے کہ خزرج کے ایک شخص مالک بن عجلان کی بہن کی شادی تھی ، جب سب مہمان آگئے ، تو اس کی بہن بڑی بے حیائی کے ساتھ بے حجاب ہوکر سب کے سامنے نکلی۔ اپنی بہن کی یہ حرکت دیکھ کر مالک کو بڑا غصہ آیا۔ وہ اندر گیا اور اپنی بہن کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ آج تم نے سب مہمانوں کے سامنے میری عزت خاک میں ملادی۔بہن نے جواب دیا کہ بھیا کل جو ہونے والا ہے، وہ عزت و غیرت کو زیادہ چیلنج کرنے والا ہے۔ بہن کا یہ جواب سن کر بھائی غیرت سے گڑ گیا اور پسینہ پسینہ ہوگیا۔
دوسرے دن جب اس کی بہن دلہن بن کر دولہا کے گھر جانے سے قبل رسم فطیون ادا کرنے کے لیے اس کے محل کے لیے نکلی ، تو مالک بھی زنانہ لباس پہن کر اس کی سہیلیوں کی جھرمٹ میں فطیون کے محل میں چلا گیا ۔ جب شام ہوئی ، اس کی بہن گھبرائی ہوئی محل سرا کے عیش کدہ میں پہنچی ، تو مالک اپنی آستین میں خنجر چھپائے اس کمرہ میں پہنچ گیا اور تاریکی کا فائدہ اٹھاکر ایک کونے میں چھپ گیا، جوں ہی فطیون نو عروس کی ناموس کو تار تار کرنے کے لیے اس کمرے میں داخل ہوا، تو مالک نے جھپٹ کر خنجر سے اس پر حملہ کردیا اور اس کاکام تمام کردیا۔
فطیون کو معلوم تھا کہ یہاں یہودیوں کی سیادت و قیادت ہے اور یہودی مجھے سردار کے قتل کے جرم میں ضرور مار ڈالیں گے ، اس لیے وہ وہاں سے فورا بھا گ گیا اور شام چلاگیا۔ اس وقت وہاں کا حاکم ابو جبلہ غسانی تھا ، مالک نے اس کو پوری کہانی سنائی ، ابو جبلہ مالک کی شرافت سے بہت متاثر ہوا اور اس نے اپنی تلوار پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہودیوں کی بدکاریاں اب زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتیں ۔چنانچہ ابو جبلہ غسانی نے اپنے قبیلہ غسان اور یمن کی قوم تبع کو ساتھ لے کر مدینہ پر حملہ کی تیاری کی۔ جب وہ مدینہ کے قریب بڑی بھاری فوج لے کر پہنچا ، تو پہلے دن اس نے انصار کے شیوخ کو دعوت پر بلایا اور انھیں گراں قدر تحفے تحائف دیے اور خلعت سے نوازا۔ دوسرے دن یہودیوں کے تمام سرداروں کو دعوت دی۔ یہودی بہت خوش تھے کہ ہم انصاریوں کے شیوخ سے رتبہ دولت ، عزت اورقیادت ؛ ہر اعتبار سے بڑھ کر ہیں، لہذا ابو جبلہ ہمیں ان سے زیادہ تحائف و خلعت سے نوازیں گے۔ لیکن ابو جبلہ نے ان کے توقعات کے خلاف سبھی یہودی سرداروں کو قید کر لیا اور ایک ایک کرکے سب کو قتل کردیا۔ اس طرح سے مدینہ میں یہودیوں کی شوکت و قوت ختم ہوگئی اور انصار یہودیوں کے سیاہ و سفید کے مالک ہوگئے، لیکن یہودی تو یہودی ہے، شرارت اور شر انگیزی اس کی فطرت میں شامل ہے، یہ کہاں چین سے بیٹھنے والے تھے۔ یہودیوں نے سازشی جال بننے شروع کردیے اور رفتہ رفتہ انصاریوں کو خانہ جنگی میں مبتلا کردیا اور ان کی قوت کو ختم کردیا۔ اب انصار کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ خود اپنے کسی قبیلہ کا سردار بننے کے لیے یہودی کے رحم و کرم کے محتاج ہوگئے ۔ معمولی معمولی باتوں پر جو جنگ چھڑ جاتی تھی ، وہ سالہا سال تک چلتی رہتی تھی اور دونوں فریقوں کے لاکھ لوگ لقمہ اجل بن جایا کرتے تھے، انصار کی سب سے آخر ی لڑائی جنگ بعاث ہے۔جو نبی اکرم ﷺ کی ہجرت سے پانچ سال قبل شروع ہوئی تھی، اس جنگ نے انصاریوں کو بالکل توڑ کر رکھ دیا تھااور عبداللہ ابن ابی ابن سلول کی اہمیت بڑھ گئی تھی ۔ اور مدینے میں اس کی تاج پوشی کی تیاری چل رہی تھی ۔ جنگی حالات کی وجہ سے انصار امن و شانتی کی تلاش میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم و کرم فرماتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے سامان بہم پہنچائے ۔ نبی اکرم ﷺ کی مدینہ آمد نے انصاریوں کی قسمت بدل کر رکھ دی ۔ اور یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے عرب سے دربدر کردیا۔
واقعہ کے نتائج پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہودیوں کی سرداری اور تفوق کی بنیادی دو وجہیں تھیں: (۱) اپنی تعلیم۔ (۲) آپسی اتحاد۔ اسی طرح انصاریوں کے محکوم و مغلوب ہوجانے کی بھی بنیادی وجہیں دو تھیں: (۱) اپنی جہالت۔ (۲) آپسی انتشار۔
تاریخ بتلاتی ہے کہ اس دنیا میں جو بھی قومیں کسی کے ہاتھوں کا کھلونا بنی ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات صرف یہی دو ہیں۔ آج ہندستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں مسلمانوں کی مظلومیت کی وجوہات کا پتہ لگایا جائے ، تو اس کی بنیادی یہیں دو وجہیں سامنے آئیں گی کہ مسلمان اپنی جہالت کی بنیاد پر اتحاد کی طاقت کو جاننے کے باوجود غیر قوموں کی ہاتھوں کا کھلونا بنا ہوا ہے اور کہیں فرقہ اور کہیں مسلک، کہیں ذات اور کہیں پات، کہیں مولوی اور کہیں روشن خیال کے نام سے بٹ کر فرد فرد بکھر گیا ہے۔ جس کا نتیجہ سامنے ہے ۔ اللہ ہم سب کو فہم رشید اور عقل سلیم عطا فرمائے ، آمین۔
بہت ہی پرانے شہروں میں سے ایک شہر مدینہ منورہ بھی ہے۔ تاریخ نگاروں کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کی پانچویں نسل یہاں آکر آباد ہوئی اور اپنے سردار کے نام پر اس کا نام یثرب رکھا۔ ہجرت نبوی ﷺ سے بیس صدی قبل یعنی کلدانی اور یونانی کتبات و نقوش سے پتہ چلتا ہے کہ یثرب شام اور یمن کے درمیان سفر کرنے والوں کا اسٹیشن تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی یہ اولادیں قحطانی النسل تھیں، جنھیں یہودی کہاجاتا ہے۔ مدینے میں ان یہودیوں کے علاوہ اوس و خزرج بھی آباد تھے۔ جب عرم کا سیلاب آیا، جس کا تذکرہ کلام پاک میں بھی ہے اور وہ لوگ دربدر ہوئے ، تو زندگی کی تلاش میں یہ لوگ یثرب چلے آئے اور یہیں آباد ہوگئے۔
یہودیوں کے پاس چوں کہ آسمانی صحیفے اور ہدایتیں موجود تھیں، اس لیے انھیں مذہبی تفوق حاصل تھا اور اسی بنیاد پر مدینے کی سیادت و قیادت بھی انھیں کے پاس تھی، جب کہ اوس و خزرج کے پاس نہ کوئی اخلاقی ضابطہ تھا اور نہ ہی کوئی دستور حیات ، حتیٰ کہ اگر ان کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا توزندہ رہنے کی یہ منت مانتے تھے کہ ہم اسے یہودی بنادیں گے۔
یہودی اپنے مال و ثرورت کی برتری ، مذہبی تفوق، سیاسی پکڑ اور اوس و خزرج کی اپنے تئیں جاں نثاری کی بنیاد پر ہر قسم کی بدکاری اور عیاشی کو اپنا حق سمجھنے لگے تھے ، یہاں تک کہ یہودکے ایک سردار ، جس کا نام فطیون تھا، اس نے یہ اعلان کردیا تھا کہ جس کنواری کا لڑکی کا نکاح ہوگا، پہلی رات اس کو میرے پاس گزارنا ہوگا ، تب وہ شوہر کے پاس جائے گی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس سے زیادہ اخلاقی بحران اور کیا ہوسکتا ہے۔اور خود مدینے کے لوگ اتنے بے بس اور غیرت و حمیت سے عاری ہوچکے تھے کہ ان میں اس شیطانی حرکت کوچیلنج کرنے کی سکت باقی نہیں رہ گئی تھی۔تاریخ بتلاتی ہے کہ خزرج کے ایک شخص مالک بن عجلان کی بہن کی شادی تھی ، جب سب مہمان آگئے ، تو اس کی بہن بڑی بے حیائی کے ساتھ بے حجاب ہوکر سب کے سامنے نکلی۔ اپنی بہن کی یہ حرکت دیکھ کر مالک کو بڑا غصہ آیا۔ وہ اندر گیا اور اپنی بہن کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ آج تم نے سب مہمانوں کے سامنے میری عزت خاک میں ملادی۔بہن نے جواب دیا کہ بھیا کل جو ہونے والا ہے، وہ عزت و غیرت کو زیادہ چیلنج کرنے والا ہے۔ بہن کا یہ جواب سن کر بھائی غیرت سے گڑ گیا اور پسینہ پسینہ ہوگیا۔
دوسرے دن جب اس کی بہن دلہن بن کر دولہا کے گھر جانے سے قبل رسم فطیون ادا کرنے کے لیے اس کے محل کے لیے نکلی ، تو مالک بھی زنانہ لباس پہن کر اس کی سہیلیوں کی جھرمٹ میں فطیون کے محل میں چلا گیا ۔ جب شام ہوئی ، اس کی بہن گھبرائی ہوئی محل سرا کے عیش کدہ میں پہنچی ، تو مالک اپنی آستین میں خنجر چھپائے اس کمرہ میں پہنچ گیا اور تاریکی کا فائدہ اٹھاکر ایک کونے میں چھپ گیا، جوں ہی فطیون نو عروس کی ناموس کو تار تار کرنے کے لیے اس کمرے میں داخل ہوا، تو مالک نے جھپٹ کر خنجر سے اس پر حملہ کردیا اور اس کاکام تمام کردیا۔
فطیون کو معلوم تھا کہ یہاں یہودیوں کی سیادت و قیادت ہے اور یہودی مجھے سردار کے قتل کے جرم میں ضرور مار ڈالیں گے ، اس لیے وہ وہاں سے فورا بھا گ گیا اور شام چلاگیا۔ اس وقت وہاں کا حاکم ابو جبلہ غسانی تھا ، مالک نے اس کو پوری کہانی سنائی ، ابو جبلہ مالک کی شرافت سے بہت متاثر ہوا اور اس نے اپنی تلوار پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یہودیوں کی بدکاریاں اب زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتیں ۔چنانچہ ابو جبلہ غسانی نے اپنے قبیلہ غسان اور یمن کی قوم تبع کو ساتھ لے کر مدینہ پر حملہ کی تیاری کی۔ جب وہ مدینہ کے قریب بڑی بھاری فوج لے کر پہنچا ، تو پہلے دن اس نے انصار کے شیوخ کو دعوت پر بلایا اور انھیں گراں قدر تحفے تحائف دیے اور خلعت سے نوازا۔ دوسرے دن یہودیوں کے تمام سرداروں کو دعوت دی۔ یہودی بہت خوش تھے کہ ہم انصاریوں کے شیوخ سے رتبہ دولت ، عزت اورقیادت ؛ ہر اعتبار سے بڑھ کر ہیں، لہذا ابو جبلہ ہمیں ان سے زیادہ تحائف و خلعت سے نوازیں گے۔ لیکن ابو جبلہ نے ان کے توقعات کے خلاف سبھی یہودی سرداروں کو قید کر لیا اور ایک ایک کرکے سب کو قتل کردیا۔ اس طرح سے مدینہ میں یہودیوں کی شوکت و قوت ختم ہوگئی اور انصار یہودیوں کے سیاہ و سفید کے مالک ہوگئے، لیکن یہودی تو یہودی ہے، شرارت اور شر انگیزی اس کی فطرت میں شامل ہے، یہ کہاں چین سے بیٹھنے والے تھے۔ یہودیوں نے سازشی جال بننے شروع کردیے اور رفتہ رفتہ انصاریوں کو خانہ جنگی میں مبتلا کردیا اور ان کی قوت کو ختم کردیا۔ اب انصار کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ خود اپنے کسی قبیلہ کا سردار بننے کے لیے یہودی کے رحم و کرم کے محتاج ہوگئے ۔ معمولی معمولی باتوں پر جو جنگ چھڑ جاتی تھی ، وہ سالہا سال تک چلتی رہتی تھی اور دونوں فریقوں کے لاکھ لوگ لقمہ اجل بن جایا کرتے تھے، انصار کی سب سے آخر ی لڑائی جنگ بعاث ہے۔جو نبی اکرم ﷺ کی ہجرت سے پانچ سال قبل شروع ہوئی تھی، اس جنگ نے انصاریوں کو بالکل توڑ کر رکھ دیا تھااور عبداللہ ابن ابی ابن سلول کی اہمیت بڑھ گئی تھی ۔ اور مدینے میں اس کی تاج پوشی کی تیاری چل رہی تھی ۔ جنگی حالات کی وجہ سے انصار امن و شانتی کی تلاش میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم و کرم فرماتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے سامان بہم پہنچائے ۔ نبی اکرم ﷺ کی مدینہ آمد نے انصاریوں کی قسمت بدل کر رکھ دی ۔ اور یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے عرب سے دربدر کردیا۔
واقعہ کے نتائج پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہودیوں کی سرداری اور تفوق کی بنیادی دو وجہیں تھیں: (۱) اپنی تعلیم۔ (۲) آپسی اتحاد۔ اسی طرح انصاریوں کے محکوم و مغلوب ہوجانے کی بھی بنیادی وجہیں دو تھیں: (۱) اپنی جہالت۔ (۲) آپسی انتشار۔
تاریخ بتلاتی ہے کہ اس دنیا میں جو بھی قومیں کسی کے ہاتھوں کا کھلونا بنی ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات صرف یہی دو ہیں۔ آج ہندستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں مسلمانوں کی مظلومیت کی وجوہات کا پتہ لگایا جائے ، تو اس کی بنیادی یہیں دو وجہیں سامنے آئیں گی کہ مسلمان اپنی جہالت کی بنیاد پر اتحاد کی طاقت کو جاننے کے باوجود غیر قوموں کی ہاتھوں کا کھلونا بنا ہوا ہے اور کہیں فرقہ اور کہیں مسلک، کہیں ذات اور کہیں پات، کہیں مولوی اور کہیں روشن خیال کے نام سے بٹ کر فرد فرد بکھر گیا ہے۔ جس کا نتیجہ سامنے ہے ۔ اللہ ہم سب کو فہم رشید اور عقل سلیم عطا فرمائے ، آمین۔