محمد یاسین جہازی قاسمی
حج کی مصلحتیں
اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور حکیم کا کوئی بھی کام حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتا، یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس حکمت کا علم ہوسکے یا نہیں۔ لیکن جب ہمیں اس کا علم ہوجاتا ہے ، تو ہم بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ربنا ما خلقت ھذا باطلا۔ ائے ہمارے پروردگار ! تم نے کچھ بھی غلط چیز نہیں بنائی۔ حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، گرچہ یہ اس کا تعلق محض عبادت سے ہے ، لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی بے شمارحکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں، جن میں سے چند کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
(۱) اللہ تعالیٰ کے گھر کی عظمت و تعظیم کا اظہار
جب کسی مقام کا خصوصی ارادے اور کافی تیاریوں کے بعد زیارت ممکن ہوتی ہے، تو یقیناًاس کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ حج بھی کافی تیاریوں اور تمناوں کے بعد ممکن ہوپاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب کسی شخص کے نام کے آگے حاجی کا لفظ آجاتا ہے، تو ان کی عظمت و عقیدت کا بھی تصور ذہن میں گردش کرتا ہے، تو جس گھر کی زیارت کی وجہ سے یہ مقام حاصل ہوا ہے، خود اس گھر کی عظمت شان کا کیا عالم ہوگا ، یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ پھر جب اجتماعیت کے ساتھ اس گھر کی زیارت کی جاتی ہے، تو یہ اس کی عظمت و تقدس کے اظہار کا سب سے بڑا مظہر ہوتا ہے، لہذا حج کی ایک حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعظیم و عظمت کا اظہار ہو اور اس کے تقدس و احترام سب کے دلوں میں جاگزیں ہوجائے۔
(۲) دربار خداوندی میں اپنے آپ کی پیشی اور حاضری کا ایک منظر
کل قیامت کے دن دنیا کے سبھی انسان ایک ہی ہیئت میں کھڑے ہوں گے اور حج میں ہمیں اس کا ایک نمونہ دکھایا گیا ہے، جہاں سبھی لوگ ملک و ملت ، تہذیب و کلچر اور لب و لہجے کے تنوعات کے باوجود سب ایک ہی ہیئت اور ایک ہی عمل میں نظر آتے ہیں۔ گویا یہ ایک منظر عبرت ہے جسے حج کی شکل میں دکھایا گیا ہے، لہذا جو لوگ رنگ و نسل اور ملک و ملت کے امتیاز اور فخر و غرور میں مبتلا ہیں، وہ یہ سمجھ لیں کہ قیامت کے دن اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سب کے سب ایک ہی ہیئت میں ہوں گے۔
(۳) وحدت امۃ کا عملی نمونہ
حج کے تقریبا سبھی اعمال اس کے گواہ ہیں کہ مسلمان خواہ وہ کسی ملک میں بھی بستے ہوں، اور خواہ وہ کسی بھی مقام و مرتبے کا حامل ہوں، حج میں سب کو ایک ہی صف میں کھڑا ہونا ضروری ہے۔ سبھی حاجیوں کو ایک ہی کپڑے پہننا لازم ہے جسے احرام کہاجاتا ہے۔ منی کا قیام بھی ایک ہی تاریخ میں کرنا ضروری ہے۔ ایک ہی تاریخ میں وقوف عرفہ کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں، المختصر سبھی ارکان میں تمام حاجیوں کی اجتماعیت اور اتفاق ضروری ہے، اس کے بغیر حج ممکن نہیں ہے، جو اس بات کا عملی اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی کسی تفریق کے بغیر اتحاد پر مبنی ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور حکیم کا کوئی بھی کام حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتا، یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس حکمت کا علم ہوسکے یا نہیں۔ لیکن جب ہمیں اس کا علم ہوجاتا ہے ، تو ہم بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ربنا ما خلقت ھذا باطلا۔ ائے ہمارے پروردگار ! تم نے کچھ بھی غلط چیز نہیں بنائی۔ حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، گرچہ یہ اس کا تعلق محض عبادت سے ہے ، لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی بے شمارحکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں، جن میں سے چند کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
(۱) اللہ تعالیٰ کے گھر کی عظمت و تعظیم کا اظہار
جب کسی مقام کا خصوصی ارادے اور کافی تیاریوں کے بعد زیارت ممکن ہوتی ہے، تو یقیناًاس کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ حج بھی کافی تیاریوں اور تمناوں کے بعد ممکن ہوپاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب کسی شخص کے نام کے آگے حاجی کا لفظ آجاتا ہے، تو ان کی عظمت و عقیدت کا بھی تصور ذہن میں گردش کرتا ہے، تو جس گھر کی زیارت کی وجہ سے یہ مقام حاصل ہوا ہے، خود اس گھر کی عظمت شان کا کیا عالم ہوگا ، یہ بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ پھر جب اجتماعیت کے ساتھ اس گھر کی زیارت کی جاتی ہے، تو یہ اس کی عظمت و تقدس کے اظہار کا سب سے بڑا مظہر ہوتا ہے، لہذا حج کی ایک حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعظیم و عظمت کا اظہار ہو اور اس کے تقدس و احترام سب کے دلوں میں جاگزیں ہوجائے۔
(۲) دربار خداوندی میں اپنے آپ کی پیشی اور حاضری کا ایک منظر
کل قیامت کے دن دنیا کے سبھی انسان ایک ہی ہیئت میں کھڑے ہوں گے اور حج میں ہمیں اس کا ایک نمونہ دکھایا گیا ہے، جہاں سبھی لوگ ملک و ملت ، تہذیب و کلچر اور لب و لہجے کے تنوعات کے باوجود سب ایک ہی ہیئت اور ایک ہی عمل میں نظر آتے ہیں۔ گویا یہ ایک منظر عبرت ہے جسے حج کی شکل میں دکھایا گیا ہے، لہذا جو لوگ رنگ و نسل اور ملک و ملت کے امتیاز اور فخر و غرور میں مبتلا ہیں، وہ یہ سمجھ لیں کہ قیامت کے دن اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سب کے سب ایک ہی ہیئت میں ہوں گے۔
(۳) وحدت امۃ کا عملی نمونہ
حج کے تقریبا سبھی اعمال اس کے گواہ ہیں کہ مسلمان خواہ وہ کسی ملک میں بھی بستے ہوں، اور خواہ وہ کسی بھی مقام و مرتبے کا حامل ہوں، حج میں سب کو ایک ہی صف میں کھڑا ہونا ضروری ہے۔ سبھی حاجیوں کو ایک ہی کپڑے پہننا لازم ہے جسے احرام کہاجاتا ہے۔ منی کا قیام بھی ایک ہی تاریخ میں کرنا ضروری ہے۔ ایک ہی تاریخ میں وقوف عرفہ کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں، المختصر سبھی ارکان میں تمام حاجیوں کی اجتماعیت اور اتفاق ضروری ہے، اس کے بغیر حج ممکن نہیں ہے، جو اس بات کا عملی اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی کسی تفریق کے بغیر اتحاد پر مبنی ہونا چاہیے۔