6 Apr 2018

آہ خلیفہ شیخ الاسلام ؒ حضرت قاری صالح صاحبؒ بھاگلپوری

محمد یاسین جہازی
آہ خلیفہ شیخ الاسلام ؒ حضرت قاری صالح صاحبؒ بھاگلپوری
موت و حیات اس دنیائے رنگ و بو کی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔ہر لمحہ نئی زندگی اور ہر آن موت اس کائنات کا فطری سسٹم ہے۔ زندگی وجود بخشتی ہے ، جب کہ موت اس کی فنائیت کا اعلان ہے؛ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ ہستیاں موت کے پیغام فنائیت کو مات دے دیتی ہیں اور اور مرنے کے بعد بھی صرف زندہ نہیں ؛ بلکہ زندہ جاوید رہتی اور سکڑوں مردہ نفوس میں زندگی ڈال دیتی ہیں۔ حضرت قاری صالح صاحب مرحوم بھی انھیں شخصتیوں میں سے ایک ہیں، جو گرچہ ہمارے درمیان نہیں رہے، تاہم ان کے تابندہ نقوش اور کارہائے نمایاں ان کی حیات جاودانی کے مظاہر ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارے دلوں میں اور تصورات کے نہا خانوں میں آج بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔
ابتدائی حالات زندگی، تعلیم اور تدریس
حضرت قاری صاحب مرحوم کی ولادت بہار ضلع بھاگلپور کے کروڈیہہ گاوں میں ۱۹۲۴ میں ہوئی ۔یہ گاوں بھاگلپور سے جنوب مغرب میں تقریبا بیس کلو میٹر کے فاصل پر ہے۔ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں ہی حاصل کی ، تکمیل حفظ قرآن کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سہارنپور گئے ، جہاں حضرت قاری عبدالخالق صاحبؒ سے تجویدو قرات کی تعلیم حاصل کی ۔ پھر دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔اور یہیں سے مولویت کی تکمیل کی۔تعلیم سے فراغت کے بعد تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا : سب سے پہلے بہار کے ضلع بانکا میں واقع مدرسہ کیتھا ٹیکر میں تقریبا ۲۰؍ سال حفظ قرآن کی خدمت انجام دی، اس کے بعد حضرت حافظ نجابت حسین صاحب ؒ جو حضرت قاری صاحبؒ کے استاذ تھے، ان کی کوشش سے مدرسہ اعزازیہ پتھنہ بھاگل پور تشریف لے آئے اور یہاں ۳۸؍ سال تک قرآن کریم کا درس دیا ۔ اس طرح گویا آپ مرحوم کی زندگی کا بیشتر حصہ قرآن کریم کی خدمت میں بسر ہوا۔ 
بیعت و خلافت
آپ فطرۃ شریف الطبع تھے ۔طالب علمی ہی کے زمانے میں اکابرین اور اولیا اللہ سے محبت و وابستگی آپ کی خاص پہچان بن گئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ کافی عرصے تک آپ حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز صاحب ؒ کے خاص خادم رہے اور تہجد میں روزانہ حضرت شیخ الادبؒ کو ایک پارہ قرآن کریم سنانے کا معمول رہا۔ پھر حضرت کے ہی مشورہ سے زمانہ طالب علمی میں ہی حضرت شیخ الاسلام ؒ سے بیعت ہوگئے اور روحانی ترقیات کی منزلیں طے کرتے رہے۔ اور ان کے انتقال کے بعدحضرت کے جانشین فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کے دامن عقیدت سے وابستہ ہوگئے۔ اور پھر انھیں سے چند سال کے اندر اندر خلافت بھی حاصل کرلی۔
اخلاق و اوصاف
انھیں اکابرین کی تربیت اور نیک توجہات کا یہ کرشمہ تھا کہ حضرت قاری صالح صاحب مرحوم ایک ولی صفت انسان بن گئے ۔ان حضرات اکابر کی مشفقانہ نگاہ کی برکت سے آپ ؒ کو اللہ تعالیٰ نے زہد و تقویٰ اور قدرو منزلت کے جس بلند رتبہ پر فائز فرمایا تھا، اس کا اندازہ ہم جیسے بے بصیرت و کم علم لوگ کہاں سے لگا سکتے ہیں ، حضرت مرحوم کی زندگی کا مشاہدہ کرنے والا ان کے تدین ، تقویٰ اور خشوع کا ثناخواں ہے ۔ حقوق کی ادائیگی کا اہتمام، توازن ، معاملات کی صفائی ، معاشرتی زندگی کی پاکیزگی ، نماز باجماعت کا اہتمام، خاشعانہ کیفیت، شب بیداری، آہ سحرگاہی، تلاوت ومناجات دعا ، حسن اخلاق اور مہمان نوازی مرحوم کی عملی زندگی کے جلی عناوین ہیں ۔اور یہی حضرت مرحوم کی زندگی کا پیغام بھی ۔
ملی خدمات اور جمعیۃ علماء ہند سے وابستگی
عمومی طور پر دیکھا یہی گیا ہے کہ تعلیم و تدریس سے وابستہ افراد شاید ہی ملت کے دوسرے کاموں کے لیے خود کوفارغ کرپاتے ہیں ، لیکن حضرت قاری صاحب جس نابغہ روزگار ہستی سے بیعت تھے اور جنھوں نے ان کو خلافت کا لبادہ اڑھایا تھا ، خود ان کی زندگیاں تدریس اور ملی خدمات کی سنگم نظر آتی ہیں ، تو بھلا ان کے تربیت یافتہ اور شاگر خلف کی زندگی ان خصوصیات سے عاری کیسے رہ سکتی تھی ۔ چنانچہ حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز صاحب رحمہ اللہ اور فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ نے جہاں تدریسی فرائض انجام دیے ہیں وہیں ملی خدمات میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ۔ حالات اور وقت کے تقاضے کے پیش نظر کبھی تدریس کا سلسلہ شروع کیا ، تو کبھی ملت کی صلاح و اصلاح کے لیے میدان عمل میں کود پڑے ۔ یہی سب خصوصیت حضرت قاری صالح صاحب نور اللہ مرقدہ کی زندگی میں بھی نمایاں نظر آتی ہے ۔ انھوں نے جہاں۵۸؍ سال تک قرآن کریم کی تدریس کا فریضہ انجام دیا، وہیں جب جمعیۃ علماء ہند نے مکمل آزادی اور کیویٹ انڈیا کی تحریک چلائی ، تو اس کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے قاری صاحب بھی میدان عمل میں آگئے اور اپنے پیرو مرشد کی ہدایت کے مطابق اپنے علاقے میں سرگرم عمل ہوگئے ۔ اور کئی مرتبہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ اور شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہوی ؒ کا دورہ کرایا۔ جگہ جگہ پروگرام ہوئے اور آزادی کی جنگ کے شعلے کو تیز سے تیز کردیا۔ پھر جب ۱۹۸۹ء میں بھاگلپور کا خونی فساد ہوا، اور پیرومرشد حضرت فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ یہاں تشریف لائے تو یہی حضرت قاری صاحب ؒ تھے ، جنھوں نے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر حضرت کو متاثرین کے بیچ لے کر گئے اور ریلف اور باز آباد کاری کی کوششیں کیں۔ اس کے بعد جب بھی حضرت فدائے ملت اس علاقے میں تشریف لاتے تھے ،تو ان کے خصوصی میزبان حضرت قاری صاحب ہی ہوا کرتے تھے۔ جمعیۃ علماء ہند کے موجودہ سکریٹری حضرت مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی بھی اس فساد میں قاری صاحب کے ساتھ ساتھ رہے اور تقریبا تین مہینے تک یہ دونوں حضرات فسادات کے مظلومین کے سہارا بنے رہے۔اس علاقے میں ان اکابرین کی آمد ہو یا پھر بھاگلپور کے ہولناک فسادات میں انسانیت کی خدمت ؛ ان دونوں موضوع پر جب بھی کوئی گفتگو کی جائے گی یا تاریخ لکھی جائے گی تو اس ناچیز کا عندیہ ہے کہ وہ حضرت قاری صاحب کے تذکرے کے بغیر نامکمل رہے گی۔اور یہ وہ احسان عظیم ہے جس کی بنیاد پر اہل علاقہ کی گردنیں خم کھائی ہوئی ہیں۔ 
وفات حسرت آیات اور اولاد
لیکن افسوس کہ علاقے کی یہ عظیم شخصیت ۹۲؍ سال کی عمر پاکر مورخہ ۵؍ اگست ۲۰۱۶ء مطابق یکم ذی قعدہ ۱۴۳۷ھ بروز جمعہ رات گیارہ بج کر دس منٹ پر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دوسرے دن آبائی قبرستان میں تدفین ہوئی ۔ جنازہ کی نماز حضرت قاری صاحب کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا مصلح الدین صاحب قاسمی استاذ جامعہ حسینیہ جونپور یوپی نے پڑھائی ۔ حضرت قاری صاحب کے چار صاحبزادے ہیں ۔ سب سے بڑے حضرت مولانا مصلح الدین صاحب ہیں ، ان کے بعد حضرت مولانا بہاء الدین صاحب استاذ حدیث جامعہ تعلیم الدین گجرات ، پھر مولانا عضد الدین صاحب قاسمی ، بعد ازاں حضرت مولانا حافظ فرید الدین صاحب استاذ درجہ حفظ جامعہ تعلیم الدین گجرات ہیں۔اورچار صاحب زادیاں ہیں ۔ اور ماشاء اللہ ابھی تک سب بقید حیات ہیں ۔ سردست قاری صاحب کی نسل میں گیار حفاظ ار پانچ جید علما ہیں۔
صدر ، ناظم عمومی اور سکریٹری جمعیۃ کی تعزیت
حضرت قاری صاحب مرحوم کی خبر وفات سن کر جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم چوتھے امیرالہند حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری دامت برکاتہم، اس کے ناظم عمومی قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ، ان کے پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں خانوادہ مدنی سے وابستہ حضرات اور جمعیۃ علماء ہند سے تعلق رکھنے والے افراد سے خصوصی طور پر اور سبھی لوگوں سے عمومی طور پر دعائے مغفرت کی اپیل کی۔ بعد ازاں حضرت ناظم عمومی صاحب نے ان کے گھر آکر تعزیت کا فیصلہ کیا، لیکن ملی مسائل کے ہجوم کی وجہ سے سفر ملتوی ہوگیا۔ لیکن کچھ دنوں بعد۱۶؍ ستمبر ۲۰۱۶ء کو جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم اور سکریٹری مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی نے حضرت قاری صاحب کی تعزیت کے لیے خصوصی دورہ کیا اور ان کے لواحقین سے ملاقات کرکے انھیں صبر جمیل کی تلقین کی۔ تعزیت کے اس سفر میں ، صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب جہازی دامت برکاتہم ، شاگرد شیخ الاسلام حضرت مولانا مظہر الحق صاحب دامت برکاتہم اور یہ ناچیز (محمد یاسین قاسمی مرکز دعوت اسلام جمعیۃ علماء ہند) بھی شریک رہا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اکابرین کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رہے اور حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ کے درجات بلند کرے اور انھیں اعلیٰ علیین میں جگہ نصیب فرمائے ، آمین یا رب العالمین۔