27 Sept 2018

Sunane Wazoo

سنن وضو

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (5) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
دین کا وہ پسندیدہ طریقہ جو حضور پر نور ﷺ کے قول یا فعل سے ثابت ہو، مگر نہ وہ لازم ہو اور نہ چھوڑنے پر انکار ہو اور نہ حضورﷺ کے ساتھ مخصوص ہو، اس کو سنت کہتے ہیں ۔ سنت کی جمع سنن آتی ہے ۔ وضو کی سنتیں یہ ہیں: 
(۱) نیت کرنا: یعنی دل سے وضو کا ارادہ کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
انما الاعمال بالنیات۔ (متفق علیہ)
نیت ہی سے عمل کا اعتبار ہے اور اسی پر ثواب کا دارو مدار ہے۔ 
(۲) بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھنا۔
کانَ النبی ﷺ اذا بدء الوضوءَ سمّٰی (رواہ البزار)
نبی کریم ﷺ جب وضو شروع کرتے تو بسم اللہ پڑھتے۔(زجاجہ ص۹۸)
سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ 
منْ توضَّاءَ و ذکَرَ اسمَ اللّٰہِ فاِنَّہ یطْھُرُ جَسَدَہُ کلُّہُ، و من توضَّاءَ ولم یذکُرِاسمَ اللّٰہِ لم یطھر الا موضعَ الوضوءِ (رواہ دار قطنی، ا بو الشیخ نور الہدایہ، زجاجہ ص۹۷)
جو شخص اللہ کا نام لے کر وضو کرے تو اس کا پورا بدن پاک ہوتا ہے اور جو شخص وضو کرے اور اللہ کا نام نہ لے تو اس کا صرف دھونے کی جگہ پاک ہوتی ہے۔
یعنی بسم اللہ کے بغیر وضو ناقص رہتا ہے ۔ 
(۳) دونوں ہاتھوں کا کلائی تک تین بار دھونا۔
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہتھیلیوں کو تین بار دھویا۔ (بخاری و مسلم)
(۴) مسواک کرنا۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
السواکُ مِطْھَرَۃٌ للفم مرضاۃٌ للرب۔ (رواہ الشافعی و احمد والدارمی والنسائی و رواہ البخاری فی صحیحہ بلا اسناد)
مسواک منھ کی صفائی اور اللہ کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔ 
اور بھی حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
تفضل الصلوٰۃ التی یستاک لھا علیٰ الصلوٰۃ التی لا یستاک لھا سبعین ضعفا۔ (رواہ البیھقی فی شعب الایمان)
جس نماز کے لیے مسواک کی جائے وہ نماز اس نماز پر جس کے لیے مسواک نہ کی جائے ستر درجہ فضیلت رکھتی ہے۔ 
کچھ لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
ما أراکم قُلَّحاً اِسْتاکوا۔ (رواہ امامنا ابو حنیفۃ مرسلا)
میں تم کو پیلے دانتوں والا کیوں دیکھتا ہوں ؟ تم مسواک کیا کرو۔ 
کلی کرتے وقت مسواک کرے تاکہ منھ اچھی طرح صاف ہوجائے۔ اگر مسواک نہ ہوتو انگلی سے دانت کو ملے۔ (نور الہدایہ)
(۵) تین بار مضمضہ یعنی منھ میں پانی دے کر اس کو حرکت دے کر کلی کرنا مسنون ہے۔
عن ابی وائل شھدتُ علیا و عثمان توضا ثلاثا ثلاثا و افردا المضمضۃ من الاستنشاق ثم قالا: ھٰکذا رأیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ توضاء۔ (التلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر، کتاب الطھارۃ، باب سنن الوضوء)
(۶) تین بار ناک میں پانی ڈالنا اور اس کو صاف کرنا۔ حضرت کعب بن عمرو الیمانی کا بیان ہے کہ 
کانَ النبی ﷺ توضا فمضمضَ ثلاثا، واستنشقَ ثلاثا یاخذ لکل واحد ماء ا جدیدا (رواہ الطبرانی)
نبی کریم ﷺ نے وضو کیا، پس تین بار کلی اور مضمضہ کیا، یعنی منھ میں پانی ڈال کر اس کو حرکت دی۔ تین بار ناک میں پانی ڈال کر چھڑکا۔ ہر ایک کے لیے نیا پانی لیتے تھے۔ 
ایک ہی چلو سے دونوں کام نہیں کرتے تھے اور یہی مسنون طریقہ ہے۔
(۷) ہر عضو کو تین تین بار دھونا مسنون ہے۔ 
ان النبی ﷺ توضاثلاثا ثلاثا و قال: ھٰکذا وضوئی و وضوء الانبیاء من قبلی۔ (رواہ الدارقطنی وغیرہ)
نبی کریم ﷺ ہر عضو کو تین تین بار دھوتے اور فرمایا: یہ میرا اور مجھ سے پہلے پیغمبروں کا وضو ہے۔ 
(۸) داڑھی کا خلال کرنا مسنون ہے ۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ 
کانَ رسولُ اللّٰہِ ﷺ اذا توضاءَ اخذَ کفَّاً من ماءٍ ، فادخلہُ تحت حنکہِ فخلل بہ لحیتَہُ و قال: ھٰکذا امرَنی ربی۔ (رواہ ابو داود)
رسول اللہ ﷺ جب وضو کرتے تو ایک چلو پانی لے کر اپنے گلے کے نیچے داخل کرتے اور اس سے داڑھی کا خلال کرتے اور فرماتے : اسی طرح میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے۔ 
داڑھی کا نیچے کی طرف سے خلال کرنا ہی مسنون طریقہ ہے ۔ 
(۹) ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا مسنون ہے ۔ 
لقیط ابن صبرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے وضو کی خبر دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: 
اسبغِ الوضوءَ و خلل بین الاصابع و بالغ فی الاستنشاق الا ان تکون صائما۔ (رواہ ابو داؤد و غیرہ و صححہ ابن خزیمہ)
وضو کامل کرو اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو ۔ اگر روزہ کی حالت نہ ہوتو ناک میں پانی چڑھانے اور سنکنے میں مبالغہ کرو۔ 
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اذا توضاء فخلل اصابع یدیک و رجلیک۔ (رواہ الترمذی وابن ماجہ وقال الترمذی حسن غریب کبیری ص۲۴)
جب تو وضو کرے تو اپنے ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کر۔ 
(۱۰) ایک بار پورے سر کا مسح کرنا۔ مسح کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کی شہادت اور انگوٹھے کو چھوڑ کر باقی انگلیوں کو ملا کر سر کے اگلے حصے پر اور ہتھیلی کو الگ رکھ کر پیچھے کی طرف کھینچ کر گدی تک لے جائے اور پھر وہاں سے لوٹائے ، اس طرح پر کہ دونوں ہتھیلیوں کو دونوں کنپٹیوں سے لگاتے ہوئے آگے کو لائے تاکہ پورے سر کا مسح ہوجائے۔ (محیط)
عن عبد اللّٰہ بن زید ان رسول اللّٰہ ﷺ مسحَ رأسَہُ بیدیہ فاقبل بھما و ادبر بدأ بمقدم رأسِہ ثم ذھب بھماالیٰ قفاہ ثم ردَّھما حتّٰی رجع الیٰ المکان الذی بدأ منہ ثم غسلَ رجلیہ۔ (رواہ الترمذی، و قال ھٰذا حدیث اصح شئی فی ھٰذا الباب و احسن، و رواہ البخاری مثلہ، زجاجہ ص۹۹)
حضرت عبد اللہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اگلے پچھلے حصہ کا مسح کیا، سر کے اگلے حصہ سے شروع کیا، پھر دونوں کو گدی تک لے گئے ۔ پھر دونوں کو لوٹایا، یہاں تک کہ اس جگہ پہنچایا جہاں سے شروع کیا تھا، پھر دونوں پاؤں کو دھویا۔ 
(۱۱) دونوں کانوں کے اندر و باہر کا مسح کرنا۔ شہادت کی انگلیوں سے اندر کا اور انگوٹھوں سے اس کے باہر کا مسح کرے۔ 
حضرت عبدا للہ بن عمروؓ نے رسول اللہ ﷺ کے وضو کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: 
ثم مسح برأسہ و ادخلَ اصبعیہ السباحتین فی اذنیہ و مسح ابھامیہ فی ظاہر اذنیہ (اخرجہ ابو داؤد و النسائی و صححہ ابن خزیمہ، بلوغ المرام ص۹)
پھر آں حضرت ﷺ نے اپنے سر کا مسح کیا اور اپنی شہادت کی دونوں انگلیوں کو دونوں کانوں میں داخل کیااور اپنے دونوں انگوٹھوں سے دونوں کانوں کے ظاہر کا مسح کیا۔ 
اور کان کے مسح کے لیے نیا پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے ، کیوں کہ کان بھی سر میں داخل ہے ۔ چنانچہ عبد اللہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ 
قال رسول اللّٰہ ﷺ الاذنان من الرأس۔ (رواہ ابن ماجہ و رویٰ الدار قطنی عن ابن عباس مثلہ قال ابن القطان اسنادہ صحیح لاتصالہ و ثقۃ رواتہ، زجاجہ، ص ۱۰۰)
(۱۲) داہنی طرف سے شروع کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
اذا توضاتم فابدؤا بمیامنکم (اخرجہ الاربعۃ و صححہ ابن خزیمۃ، بلوغ المرام ص۱۰)
جب وضو کرو تو اپنے داہنے طرف سے شروع کرو۔ 
رسول اللہ ﷺ کوجوتا پہننے میں اور کنگھی کرنے میں اور طہارت کرنے میں (غرض) تمام کاموں میں داہنی جانب سے ابتدا کرنا اچھا معلوم ہوتا تھا۔ (بخاری، کتاب الوضوء )
(۱۳)ترتیب سے وضو کرنا، یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وضو کا ذکر کیا ہے، اسی ترتیب سے وضو کرنامسنون ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حج کے بارے میں فرمایا: 
ابدؤا بما بدء اللّٰہُ بہِ (نسائی) 
جس طرح اللہ نے شروع کیا ہے، اسی طرح شروع کرو۔ 
آپ ﷺ کا وضو بھی اسی ترتیب سے ہوتا تھا۔ 
(۱۴) پے درپے وضو کو دھونا مسنون ہے، یعنی ایک عضو دھونے کے بعد دوسرا عضو دھونے لگ جائے ۔ دونوں کے درمیان اتنی تاخیر نہ کرے کہ پہلا عضو خشک ہوجائے۔ 
عن حمران قال: رأیت عثمان توضا فافرغ علیٰ یدیہ ثلاثا فغسلھا ثم مضمض ثلاثا واستنثر ثلاثا ثم غسل وجھہ ثلاثا، ثم غسل یدہ الیمنیٰ ثلاثا ثم الیسریٰ ثلاثا مثل ذالک ثم مسح رأسہ ثم غسل قدمیہ الیمنیٰ ثلاثا ثم الیسریٰ ثلاثا، ثم قال: رأیتُ رسولَ اللّٰہ ﷺ یتوضاء من نحو وضوئی ھٰذا، ثم قال: من توضاء نحو وضوئی ھٰذا، و فی روایۃ مثل وضوئی ھٰذا ثم صلیّٰ رکعتین لایُحَدِّثُ فیھا نفسُہُ غُفِر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ (رواہ البخاری ومسلم و ابو داؤد والنسائی و احمد والدار قطنی وبن حبان وابن خزیمۃ، زجاجہ ص۱۰۷) 
حضرت عثمانؓ کے غلام حضرت حمران کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عثمان غنیؓ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ آپؓ نے دونوں ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالا اور اس کو دھویا۔ (کلائی تک) پھر تین بار کلی کی۔ پھر تین بار ناک میں پانی ڈال کر صاف کیا۔ پھر تین بار منھ دھویا۔ پھر تین بار داہنا ہاتھ دھویا۔ پھربایاں اسی طرح تین بار دھویا۔ پھر سر کا مسح کیا۔ پھر تین بار دایاں پاؤں دھویا۔ پھر تین بار بایاں دھویا۔ پھر فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے اس وضو کی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اور حضور ﷺ نے فرمایا: جو کوئی میرے اس وضو کی طرح وضو کرے ۔ پھر دو رکعت نماز پڑھے، جن میں اپنے دل سے کچھ بات نہ کرے، تو اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ 
اس حدیث سے حسب ذیل باتوں کا ثبوت ہوا: 
(۱) تین بار دونوں ہاتھوں کا کلائی تک دھونا۔ 
(۲) تین بار کلی کرنا۔ 
(۳) تین بار ناک میں پانی ڈالنا۔ 
(۴) تین بار ہر عضو کو دھونا۔
(۵) ایک مرتبہ سر کا مسح کرنا۔ 
(۶) قرآنی ترتیب سے وضو کرنا۔ 
(۷) پے درپے دھونا۔ 
(۸) ہر عضو کو دائیں طرف سے دھونا۔ 
(۹) تحیۃ الوضو کا پڑھنا۔
قسط نمبر (6) کے لیے کلک کریں

26 Sept 2018

Faraeze Wazoo

فرائض وضو

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (4) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
جو چیز قطعی دلیل سے ثابت ہواور اس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو، اس کو فرض کہتے ہیں ۔ اس کا انکار کرنے والا کافر ہوجاتا ہے ۔ فرض کی جمع فرائض ہے۔
وضو میں چار فرض ہیں:
(۱) ایک بار منھ کا دھونا، پیشانی کے بال کے اگنے کی جگہ سے تھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لوتک۔
(۲) کہنی سمیت دونوں ہاتھوں کا ایک بار دھونا۔
(۳) چوتھائی سر کا ایک مرتبہ مسح کرنا۔ 
(۴) ٹخنے سمیت دونوں پاؤں کا ایک ایک بار دھونا۔ 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
یَااَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلٰی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ أیْدِیَکُمْ اِلیٰ الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ وَ أرْجُلَکُمْ اِلیٰ الْکَعْبَیْنِ (سورۃ المائدۃ، آیۃ:۶ )
ائے ایمان والو! جب نماز کے لیے اٹھنے لگو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوؤ اور اپنے سروں کا مسح کرو اور پانے پیروں کو ٹخنوں سمیت دھوؤ۔ 
جن اعضاکا دھونا فرض ہے ، ان میں کہیں ایک بال بھی سوکھا رہ جائے گا، تو وضو نہیں ہوگا۔ 
اگر داڑھی بہت گھنی ہو کہ جس سے نیچے کی کھال نظر نہ آتی ہو تو اس صورت میں بال کے نیچے کھال تک پانی پہنچانا فرض نہیں ہے ؛ بلکہ صرف چہرہ کے مقابل بال کا تر کردینا کافی ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں وہ بال بھی چہرہ میں داخل ہیں، اس لیے اس کا دھونا فرض ہوگا۔ مواجہت اسی بال سے ہوگی کھال سے نہیں ، اس لیے چہرہ میں چہرے کے مقابل داخل ہوں گے نہ کہ کھال۔ اسی طرح اور کوئی چیز جو وضو کے اعضا پر پانی پہنچانے سے مانع ہو تو اس کو دور کرکے جب تک وضو نہ کرے گا وضو نہ ہوگا۔ 
عن عبداللّٰہ بن عمروؓ قال: رجعنا مع رسول اللّٰہِ صلیٰ اللّٰہ علیہ وسلم من مکۃ إلیٰ المدینۃ حتّٰی إذا کنا بماء بالطریق، تعجل قومٌ عند العصر، فتوضؤا وھم عجال، فانتھینا إلیھم، وأعقابھم تلوح لم یمسھا الماءُ، فقال رسول اللّٰہِﷺ: ویلٌ للأعقابِ من النَّارِ،أسْبِغُوا الوضوءَ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الوضوء، باب سنن الوضوء)
حضرت عبداللہ ابن عمروؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ لوٹے ، یہاں تک کہ ہم راستے میں پانی پر پہنچے توایک قوم نے عصر کے وقت جلدی کی اور انھوں نے جلدی میں وضو کیا۔ چنانچہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ان کی ایڑیوں میں پانی نہیں پہنچے ہیں۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایڑی والوں کے لیے دوزخ کے عذاب کی ہلاکت ہے۔ 
البتہ اگر داڑھی زیادہ گھنی نہ ہوتو کھال تک پانی پہنچانا فرض ہے ۔ (در مختار)
چہرے کے حدود سے جو بال نیچے لٹکے ہوئے ہیں ان کا دھونا فرض نہیں ہے ، کیوں کہ وہ چہرہ میں داخل نہیں ہے اور چہرہ دھونے کا حکم ہے۔ 
ہر عضو کا ایک ایک بار دھونا فرض ہے ۔ ایک سے زیادہ دھونا مسنون ۔ اور کمال سنن یہ ہے کہ عضو کو تین تین مرتبہ دھویا جائے ، اس سے زیادہ دھونا مکروہ ہے ۔ 
عن ابن عمرؓ ان النبی ﷺ توضاء مرۃ مرۃ و قال: ھذا وضوء لایقبلُ اللّٰہُ الصَّلٰوۃ الَّا بِہِ۔ و توضَّا ءَ مرتین مرتین و قال: ھذا وضوء مَن یضاعفُ الاجر مرتین وَ توضاء ثلاثا ثلاثا و قال: ھذا وضوءُی و وضوءُ الانبیاءِ من قبلی۔ (رواہ الدار قطنی والبیھقی وابن حبان وابن ماجہ و احمد والطبرانی، زجاجہ، ص؍۱۰۳)
نبی کریم ﷺ نے اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا اور فرمایا: یہ ایسا وضو ہے کہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ نماز ہی قبول نہیں فرماتا۔ اور آپ ﷺ نے اعضا کو دو دو مرتبہ دھویا اور فرمایا: یہ ایسا وضو ہے کہ اس سے ثواب دوگنا ہوجاتا ہے۔ اور آپ ﷺ نے تین تین مرتبہ اعضا کو دھویا اور فرمایا: یہ میرا اور مجھ سے پہلے پیغمبروں کا وضو ہے۔ 
تین مرتبہ سے زیادہ دھونے کے بارے میں فرمایا: 
فمنْ زادَ علیٰ ھٰذا فقدْ اَسَاءَ و تعدَّیٰ و ظلَمَ۔ (نسائی، ابن ماجہ)
جس نے اس پر زیادہ کیا ، اس نے برا کیا اور ظلم و زیادتی کی۔ 
چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے ۔ اگر اس سے کم کیا تو وضو نہیں ہوگا۔
عن عطاء انَّ النبی ﷺ توضاء فحسر العمامۃ و مسح مقدم رأسِہِ او قال ناصیتہ۔ (رواہ البیھقی)
حضرت عطا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو فرمایا، پھر عمامہ کو کھولا اور سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔ 
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺ کے سر پر قطریہ عمامہ تھا۔ آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کو عمامہ کے نیچے داخل کیا۔ پھر سر کے اگلے حصہ کا مسح کیا۔ 
شمسی نے فرمایا کہ یہ تو معلوم ہے کہ سر کا اگلا حصہ سر کے چار حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے ، اگر چوتھائی سر کا مسح کافی نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس وقت اس پر بس نہ فرماتے ۔ اور اگر چوتھائی سر سے کم کا مسح کافی ہوتا تو عمر بھر میں کبھی تو جواز بتانے کے لیے کرکے دکھاتے ۔ خواہ ایک ہی بارہو ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پس معلوم ہو اکہ چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض ہے ۔ (زجاجۃ المصابیح)
کسی عضو پر تر ہاتھ پھیرنے کو مسح کہتے ہیں ، خواہ یہ تری نیا پانی لے کر حاصل کی ہویا کسی عضو کے دھونے سے حاصل ہوئی ہو۔ 
کسی عضو پر اتنا پانی ڈالنا کہ عضو تر ہو کر کم از کم دو چار قطرے پانی بہہ جائے ، اس کو غسل اور دھونا کہتے ہیں ۔ (مراقی الفلاح)
عن عبد اللّٰہ بن زید ان النبی ﷺ توضاء و انہ مسح رأسہ بماء غیر من فضل یدیہ۔ (رواہ الترمذی، زجاجۃ، ص؍۱۰۱)
دونوں ہاتھ کے فاضل بقیہ پانی سے سر کا مسح کیا۔
اور ایک روایت میں غیر فضل یدیہ ہے۔ (ترمذی، مسلم، زوائد) ۔ 
ایک عضو کے مسح کے بعد بھی ہاتھ میں تری رہے تو اس تری سے دوسرے عضو کا مسح صحیح نہیں ہے، جیسے کہ سر کے مسح کے بعدموزہ کا مسح کرے، یا زخم کا مسح کرے، ناروا ہے۔ اسی طرح دوسرے دھوئے ہوئے عضو کی تری سے تری لے اور مسح کرے، ناجائز ہے ۔ (نور الہدایہ، ص؍۱۹) 
اگر وضو کے بعد سر منڈوائے اور سر سے خون نکل کر نہ بہے تو دوبارہ وضو اور مسح کی حاجت نہیں؛ لیکن خون بہہ جانے پر خون کا دوبارہ دھونا اور دوبارہ وضو کرنا فرض ہوگا؛ کیوں کہ خون نکل کر بہنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ ناخن وغیرہ کٹوانے سے دوبارہ اس کا دھونا ضروری نہیں۔
قسط (5) کے لیے کلک کریں

25 Sept 2018

Wazoo ka Bayan: Fazaele Wazoo

وضو کا بیان

فضائل وضو
پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (3) 

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَوَضَّاَ فَاَحْسَنَ الْوَضُوْءَ خَرَجَتْ خَطَایَاہُ مِنْ جَسَدِہِ حَتّٰی تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ اَظْفَارِہِ (رواہ مسلم)
جو شخص اچھی طرح سے وضو کرتا ہے، تو اس کے بدن سے گناہ نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے ناخن کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب کوئی مسلم یا مومن بندہ وضو کرتا ہے ، پھر وہ منھ دھوتا ہے، تو چہرہ سے وہ تمام گناہیں جو آنکھ کے دیکھنے سے ہوئے تھے، پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ دور ہوجاتے ہیں ۔ پھر جب دونوں ہاتھوں کو دھوتا ہے ، تو اس کے دونوں ہاتھوں سے جو پکڑنے کی وجہ سے گناہ ہوئے تھے پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ دور ہوجاتے ہیں۔ پھر جب دونوں پاؤں دھوتے ہیں تو پاؤں سے وہ تمام گناہ جو چلنے کی وجہ سے ہوئے تھے، پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے صاف نکل جاتا ہے۔ (مسلم شریف)
یعنی وضو کرنے سے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ بڑے بڑے گناہ معاف نہیں ہوتے، اس لیے کہ مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ:
کانتْ کَفَّارۃٌ لِمَا قَبْلَھَا مِنَ الذُّنُوْبِ مَا لَمْ یُؤتِ کَبِیْرَۃ۔ 
ماقبل کے گناہوں کا کفارہ ہوگا جب کہ کبیرہ نہ کیا گیا ہو۔ 
لیکن یہی کیا تھوڑا ہے ، گناہ آخر گناہ ہے، خواہ چھوٹا ہی سہی۔ اگر خدا گرفت کرنے لگے تو انسان صغیرہ ہی کے اندر ہلاک ہوجائے، اسی لیے صحابہ کرامؓ معمولی گناہوں کو بھی مہلکات ہی سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ تھوڑی نافرمانی ایک عظیم الشان قہار کی ہو رہی ہے ، جس کے قہر کے سامنے کوئی دم نہیں مارسکتا ۔ اور حساب خشم ناک ہی حالت میں ہوگا جب کہ لمن الملک الیوم کا نعرہ خدا بلند کرتا ہوگا، اولیا تو اولیا ؛انبیا کے پتے بھی پانی ہوں گے ، اس لیے معمولی گناہ کی معافی کو معمولی نہ سمجھو ؛ بلکہ اس ذات وحدہ لاشریک کی بڑی مہربانی سمجھو کہ اس نے اتنا بوجھ ہلکا کردیا۔ 
فائدہ وضو کا یہ ہوگا کہ تم اس کی وجہ سے قیامت کے دن پہچانے جاؤگے کہ یہ شخص امت محمدیہ کا ایک فرد ہے، جس کی وجہ سے تمھاری شفاعت آسان ہوگی۔ آخر حضورﷺ کی شفاعت کے محتاج تو اس دن سب ہی ہوں گے، ان کے بغیر کسی کا بیڑا پار نہ ہوگا۔ سرکار دو عالم ﷺنے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو دیکھوں ، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا ہم لوگ آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ میرے اصحاب ہو، میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو دنیا میں ابھی نہیں آئے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! اپنی اس امت کو جو دنیا میں اب تک نہیں آئی ہے، کیسے پہچانیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: 
اَرَاَیْتَ لَوْ اَنَّ رَجُلَاً لَہُ خَیْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَۃٌ بَینَ ظَھْرَیْ خَیْلٍ دُھْمٍ بُھْمٍ اَلَایَعْرِفُ خَیْلَہُ؟ قَالُوْا: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ: فَاِنَّھُمْ یَأتُوْنَ غُرّاً مُحَجَّلِیْنَ مِنَ الْوَضُوْءِ وَ أنَا فَرَطُھُمْ عَلٰی الْحَوْضِ (رواہ مسلم)
کیا تیری رائے ہے کہ کسی کا گھوڑا سفید پیشانی والا پچکلیان خوب کالے گھوڑوں کے درمیان میں رہے تو کیا وہ اپنے گھوڑے کو نہیں پہچانے گا ؟ سب نے عرض کیا: ضرور پہچانے گا یا رسول اللہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو وہ لوگ بھی وضو کی وجہ سے روشن پیشانی اور روشن ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے اور میں حوض کوثر پر ان کے انتظام کے لیے پہلے سے موجود رہوں گا۔
قسط نمبر (4) کے لیے کلک کریں

24 Sept 2018

Najasate Haeeqia ke Aqsaam

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (2) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
نجاست حقیقیہ کے اقسام

نجاست حقیقیہ کی دو قسمیں ہیں:غلیظہ اور خفیفہ ۔
جس چیز کے پاک اور ناپاک ہونے میں نص کا ٹکراؤ ناہو، بلکہ نص سے صرف نجس ہونے کا ہی ثبوت ہوتاہو، تو اس کو نجاست غلیظہ کہتے ہیں۔
اور جس چیز کے پاک اور ناپاک ہونے میں نص کا ٹکراؤ ہو، یا ایک حدیث سے ناپاک ہونا ثابت ہوتا ہے اور دوسری آیت یا حدیث سے اس کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے؛ لیکن نجاست کا ثبوت راجح ہو تو اس کو نجاست خفیفہ کہتے ہیں۔(زیلعی)
نجاست غلیظہ میں یہ چیزیں داخل ہیں:شراب انگوری، مردار جانور کا گوشت، چربی اور اس کی کچی کھال،سور بتمامہا،مچھلی ،مچھر، پسو، کھٹمل کے سوا ہرقسم کے جانور کا بہتا ہوا خون۔
اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابَ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ۔ (سورۃ المائدۃ: آیۃ)
بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرع کے تیر یہ سب گندی چیزیں ہیں۔ 
اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمَاً مَسْفُوْحَاً فَاِنَّہُ رِجْسٌ۔ (سورۃ الانعام، آیۃ: )
جن چوپاؤں کا گوشت کھانا حرام ہے ان کا پیشاب اور آدمی کا پیشاب خواہ دودھ پیتا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہرقسم کے چوپاؤں اور آدمی کا پاخانہ، مرغی، بطخ اور مرغابی کی بیٹ۔جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے، اس کا لعاب اور پسینہ؛ مگر گدھے، خچر کا پسینہ پاک ہے۔ ہر وہ چیز جو ناقض وضو یا موجب غسل ہو، جیسے منہ بھر قے ،زخم کا بہتا ہوا پانی،پیپ،کچہ لہو اور منی، مذی وغیرہ۔یہ سب نجاست خفیفہ میں داخل ہیں۔ جن جانوروں کا گوشت کھانا حلال ہے، ان کا پیشاب اور گھوڑے کا پیشاب، اور جن پرندوں کا گوشت کھانا حرام ہے، ان کی بیٹ اور جن پرندوں کاگوشت کھانا حلال ہے، مرغی اور بطخ اور مرغابی کے سوا سب کی بیٹ پاک ہے۔
نجاست غلیظہ اگر گاڑھی ہو تو ساڑھے چار ماشہ وزن تک معاف ہے۔ اور اگر پتلی ہو تو ہتھیلی کی گہرائی کی مقدار معاف ہے، یعنی اگر اس کے رہتے ہوئے نماز پڑھ لے، تو نماز ہوجائے گی؛ لیکن مکروہ تحریمی ہوگی۔اس لیے اس کا دھونا اس پر واجب ہوگا۔ اور اگر اس سے کم ہے تو نماز مکروہ تنزیہی ہوگی، اس لیے اس کا دھولینا مسنون ہوگا۔اور اگر مقدار عفو سے زائد ہو، تو نماز صحیح نہیں ہوگی۔(درمختار)
اور نجاست خفیفہ اگر کسی عضو پر ہوتو چوتھائی عضو اور کپڑے پر ہو، تو اس کپڑے کی چوتھائی سے کم اور اگر کسی چیز پر ہو تو اس چیز کی چوتھائی سے کم ہو ،تو معاف ہے، یعنی اس کے رہتے ہوئے نماز پڑھ لے تو نماز ہوجائے گی۔ لیکن اگر نجاست خفیفہ پانی میں پڑجائے ،تو پانی کو نجس کردے گی۔پیشاب کی چھینٹ سوئی کی نوک کے برابر بدن یا کپڑے میں پڑے ،تو وہ معاف ہے۔
نجاست حکمیہ کے اقسام
جس طرح نجاست حقیقیہ کی دو قسمیں تھیں، اسی طرح نجاست حکمیہ کی بھی دو قسمیں ہیں: چھوٹی نجاست حکمیہ اور بڑی نجاست حکمیہ۔چھوٹی نجاست حکمیہ کو حدث اصغر اور بڑی نجاست حکمیہ کو حدث اکبر کہتے ہیں۔حدث اصغر کی صورت میں وضو اور حدث اکبر کی صورت میں غسل کرنا پڑتا ہے۔
یہاں تک ہر قسم کی نجاستوں کا بیان ہوا۔ اب آگے ان سے پاکی حاصل کرنے کی صورتوں کا بیان ہوگا۔ 
اول نجاست حکمیہ سے طہارت حاصل کرنے کی جو صورتیں ہیں، ان کو بیان کرتے ہیں۔ یہ پہلے لکھ چکے ہیں کہ چھوٹی نجاست حکمیہ وضو کرلینے سے دور ہوجاتی ہے اور بدن پاک ہوجاتا ہے ، اس لیے اول وضو کا بیان ہوتا ہے۔
قسط نمبر (3) کے لیے کلک کریں

21 Sept 2018

yeh kahen madhe yazeed wa qadhe Hussain to nahi

یہ کہیں مدح یزید و قدح حسین تو نہیں۔۔۔؟
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408


مشاہدات، مسموعات، یوٹیوب، فیس بک ،گوگل پلس،واٹس ایپ اور خبروں کے دیگر ذرائع سے حاصل جانکاریوں کے مطابق دس محرم یوم عاشورہ کے موقع پر سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ و دیگر اہل بیت نبوی کی مظلومانہ شہادت کی سیرتوں کی یادگار منانے اور ان کی ہو بہو نقل پیش کرنے کی ایکٹنگ کے مناظر کو دیکھ ، سن اور پڑھ کر کئی سوالات ذہن میں گردش کرتے ہیں اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر اسلام کا یہی کردار ہے تو پھر کفریہ اعمال کی تشریح کیا ہوگی۔۔۔؟ ان میں سے کچھ سوالات درج ذیل ہیں: 
(۱) حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی مظلومیت کو یاد کرنے کے لیے اگر آگ پر چلنا، خود کو زخمی کرنااور حضرت حسینؓ جن حالات سے گذرے ہیں ، ان پر عمل کار ثواب ہے تو آپؓ کی سیرت پر عمل کرنا کتنا بڑا کار ثواب ہوگا ، تو پھر صرف خود کو زخمی کرنے تک سیرت پر عمل کیوں ، مکمل سیرت پر عمل کیوں نہیں، یعنی حضرت حسینؓ نے سر کی بھی قربانی دی ہے تو پھر حسینی ماتم کار اپنا سر کیوں نہیں کاٹ لیتے ۔۔۔؟
(۲) آج بھی، جہاں دین پر عمل کرنے والے اپنے اعمال کے اعتبار سے کافی کمزور ہوچکے ہیں، اس کے باوجود کسی بھی دینی کام کا افتتاح یا قیادت علمائے کرام کرتے ہیں یا کراتے ہیں؛ لیکن یہ ماتمی حرکات ہیہیں ، جہاں معاشرے کے اوباش اور بگڑے قسم کے افراد ہی قیادت کرتے ہیں، کیوں کہ میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ کسی حسینی اکھاڑے میں ڈھول کوئی مولوی یا ذاکر بجاتا ہو، یا طبلے کی تھاپر دستار و پگڑی والے علماناچ کر مجلس کے ثواب میں اضافہ کر رہے ہوں۔ 
(۳) اگر ڈھول، تاشے اور ناچ گانا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ماتمی محبت کی صحیح شکل ہے، تو اپنے رشتہ دار کی وفات پر بھنگڑے کرنے والے اور ناچ گانے والوں کو بلا کر کیوں نہیں ماتم منایا جاتا، ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی ہی کیوں کرائی جاتی ہے۔۔۔ ؟
(۴) اگر تعزیہ داری اور اس قسم کی دیگر شبیہات بنانا اور پرسہ دینا عین اسلام ہے ، تو پھر صرف کربلا کی تاریخ ہی کیوں، خوداہل بیت میں سے حضرات علی و حسن رضی اللہ عنہما بھی بڑی مظلومیت کے ساتھ شہید کے گئے ہیں، ان کی تعزیہ داری کیوں نہیں۔۔۔؟ 
(۵) اسلام کی جتنی بھی عیدیں ہیں، کبھی ان میں انسانوں کے جانی و مالی نقصان کی کوئی خبر نہیں آتی، کیوں کہ جس طرح اسلام پر امن مذہب ہے، وہیں اس کے سارے اعمال بھی امن و شانتی کے مظاہر ہیں، لیکن یہی ایک ایسا تہوار ہے، جہاں آدمی کبھی کبھار خود بھی زخم کھاتا ہے اور کبھی کبھار پورے معاشرے کو مجرم بنادیتا ہے، جیسا کہ حالیہ گڈا بسنت رائے کا واقعہ اس پر شاہد عدل ہے۔ 
(۶) قبل از اسلام اوراسلام میں بھی محرم حرمت و عظمت والا مہینہ کہلاتا ہے، جس میں وہ لوگ بھی جنگ، لڑائی اور خون ریزی سے باز رہتے تھے، جن کے لیے لڑائی کرنا معاشی، سماجی اور سیاسی ضرورت تھی، لیکن آج کے اسلام میں صرف اسی حرمت والے مہینے میں لڑائی کے یہ نمائشی جلوے کیوں دکھائے جاتے ہیں۔۔۔ ؟ 
(۷) اگر حسینی سیرت تعزیہ، شبیہ، علم وغیرہ وغیرہ عین اسلام ہے ، تو نبوی سیرت ان چیزوں کا زیادہ حق دار ہے، نبوی سیرت کا کوئی تہوار کیوں نہیں۔۔۔؟ 
سوالات اور بھی ہیں، لیکن درج بالا سوالوں ہی کی روشنی میں ہم اپنے کردار کو جانچیں تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے، ہمارے یہ اعمال کسی بھی شکل میں حضرت حسین کی تعریف و توصیف کے لیے نہیں ہوسکتے، یہ سب یزیدی کردار ہیں، جن کا اسلام سے کوئی بھی واسطہ نہیں ہے۔ تو ان اعمال سے ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روح کو تسکین نہیں پہنچا رہے ہیں، بلکہ یزیدیوں کے کردارکا جشن منارہے ہیں۔ ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم قدح حسین اور مدح یزید کر رہے ہیں، جو سراسر لعنتی اور واجب الترک عمل ہے۔ 
ہمیں ان لوگوں سے شکوہ نہیں ہے، جن کے ایمان و کردار کی ابتدا و انتہا واقعہ کربلا کے کردار سے ہوتا ہے؛اگر یہ اپنا ایمان سجھتے ہیں، تو یہ ان کا حق ہے، ہمیں ان کے حق پر کوئی اعتراض نہیں؛ ہمیں شکوہ ہے ان بھائیوں سے جو خود کو صحیح العقیدہ اہل سنت والجماعۃ کہلاتے ہیں اور پھر بھی ان تمام یزیدی کرداروں کو ادا کرنے کے لیے اپنی جان مال سب ضائع کرتے ہیں۔ خدارا ہوش کے ناخن لیجیے اور اس قسم کی حرکتوں سے اسلام کو بدنام مت کیجیے۔ اللہ ہمیں عقل سلیم دے اور اپنی مرضیات پر چلائے۔ 

19 Sept 2018

Talaaq: Legal Reform Nahi Social Reform ki Zaroorat hi

طلاق:لیگل ریفارم نہیں؛ سوشل ریفارم کی ضرورت ہے
شریعت لاء کے مطابق بارہ مصالحتی مراحل سے گذرنے کے بعد ہی تین طلاق تک معاملہ پہنچتا ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاسلام سے پہلے کے نکاح پر ایک نظر
دین فطرت آنے سے پہلے لوگوں میں چار قسم کے نکاح رائج تھے: 
(۱) ایک طریقہ تو وہی تھا، جو آج شرعی طریقہ ہے کہ لڑکا لڑکی کے ذمہ دار حضرات کے توسط سے نکاح انجام پاتا ہے۔ 
(۲) دوسرا نکاح ’ استبضاع‘ تھا۔ اس کی شکل وہی تھی، جو غیر مسلموں میں نیوگ کی صورت ہے کہ اولاد حاصل کرنے کے لیے ، یا اعلیٰ نسب کی اولاد پانے کے لیے اپنی بیوی کو دوسرے کے پاس بھیج دیتے تھے۔ 
(۳) تیسرا طریقہ یہ تھا کہ دس پانچ مردوں کا ایک گروہ کسی عورت سے ہمبستر ی کرتا۔ اگر وہ عورت حاملہ ہوجاتی تو بچہ کی پیدائش کے بعد ان سبھی کو بلاتی ۔ اور دستور کے مطابق ہر شخص کو آنا ضروری تھا۔ پھر وہ اس محفل میں کسی ایک کا بچہ ہونے کا اعلان کرتی۔ یہی اعلان اس سے نسب ثابت ہونے کا ثبوت ہوتا اور وہ شخص انکار نہیں کرسکتا تھا۔ 
(۴) چوتھا طریقہ وہ تھا، جو آج کل طوائف کی شکل میں موجود ہے۔ البتہ اس سے آگے یہ ہوتا کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوجاتا، تو تعلق رکھنے والے سبھی لوگوں کو جمع کرتی اور قیافہ شناسی کے ماہرین کے ذریعہ باپ کی نشاندھی کرائی جاتی۔ یہ قیافہ شناس جس کا لڑکا بتادیتے، اسے تسلیم کیے بغیر چارہ کار نہیں ہوتا۔ (۱)
نکاح کا ایک پانچواں طریقہ بھی تھا، جس کو ’متعہ ‘ کہاجاتا ہے۔ یہ ابتدائے اسلام میں روا تھا، لیکن جب اسلام نے تمام شرمناک طریقوں پر پابندی لگائی، تو اس نکاح پر بھی ہمیشہ کے لیے بندش لگا دی گئی۔ اور درج بالا طریقوں میں صرف پہلا طریقہ جائز و برقرار رکھا۔(۲)
اسلام سے پہلے طلاق 
کچھ قدیم مذاہب میں نکاح ایک اٹوٹ بندھن ہے،ہوگیا، تو ہوگیا، اب وہ کسی طرح سے ختم ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ نظریہ دراصل عورتوں کے حوالے سے اس نظریہ کیپیداوار ہے کہ ’عورت پرایا دھن ہوتی ہے‘۔ اسی وجہ سے ایسے لوگوں کے نزدیک نکاح میں عورت کو قبول کرنے کے بجائے ’دان ‘ کردیا جاجاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ نکاح کو ’’کنیہ دان ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ 
عرب میں طلاق کا رواج تو تھا، لیکن طلاق کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی، جس کی وجہ سے عورت ظلم و زیادتی کی شکار ہوتی تھی ، کیوں کہ اگر کوئی مرد اپنی کسی بیوی سے محبت نہیں کرتا تھا ، تواس کو ستانے کے لیے پہلے طلاق دے دیتے تھے اور پھر عدت گذرنے سے پہلے رجوع کرلیا کرتے تھے۔ اس طرح سے عورت نہ تو مکمل طور پر آزاد ہوکر دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی تھی اور نہ ہی اس مرد سے حقوق زوجیت حاصل ہوتے تھے۔ عورتوں پر اس ظلم و زیادتی کو روکنے کے لیے اسلام نے طلاق کی تعداد مقرر کردی اور اسے تین تک محدود کردیا کہ رجوع تین طلاق تک ہی کرسکتے ہیں، اس کے بعد نہیں کرسکتے۔ تفسیر عثمانی میں ہے کہ 
’’اسلام سے پہلے دستور تھا کہ دس بیس جتنی بار چاہتے، زوجہ کو طلاق دیتے، مگرعدت کے ختم ہونے سے پہلے رجعت کرلیتے۔ پھر جب چاہتے طلاق دیتے اوررجعت کرلیتے۔ اور اس صورت سے بعض شخص عورتوں کو اسی طرح بہت ستاتے ، اس واسطے یہ آیت اتری کہ طلاق جس میں رجعت ہوسکے، ، کل دو بار ہے۔ ایک یا دو طلاق تک تو اختیار دیا گیا کہ عدت کے اندر مرد چاہے تو عورت کو پھر دستور کے موافق رکھ لے یا بھلی طرح سے چھوڑ دے۔ پھر بعد عدت کے رجعت باقی نہیں رہتی۔ ہاں اگر دونوں راضی ہوں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ اور اگر تیسری بار طلاق دے گا تو پھر ان میں نکاح بھی درست نہ ہوگا، جب تک دوسرا خاوند اس سے نکاح کرکے صحبت نہ کرلیوے۔ (البقرۃ،آیت نمبر: ۲۲۹)
اسلامی ہدایت
طلاق و عدت کے بارے میں اصولی ہدایت یہ ہے کہ مرد و عورت کے درمیان جو رشتہ قائم ہوگیا ہے، اسے ہمیشہ برقرار رکھے اور اس رشتہ محبت پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دے۔ لیکن اگر بتقاضائے بشریت ، یہ رشتہ نفرت و تلخی میں بدل جائے تو اس کی اصلاح کے لیے تین پروسیس ہیں:
پہلا پروسیس
(۱) سب سے پہلے ، میاں بیوی خود مل کر اپنے تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کریں اور آپس میں کچھ ٹرم اینڈ کنڈیشن طے کرکے رشتہ کو دوبارہ بحال کریں۔
دوسرا پروسیس 
(۲) لیکن اگر یہ نہ ہوپائے اور دونوں کسی مشترک اور متحدہ پوائنٹ پر جمع نہ ہوسکیں، تو پھر لڑکے کے لیے تین صورتیں ہیں: 
(۱) سب سے پہلے عورت کو سمجھائے بجھائے۔ اگر اس سے معاملہ ٹھیک ہوجاتا ہے تو بہت بہتر ہے۔ اگر نہیں ہوتا ہے تو پھر دوسرا طریقہ یہ اختیار کرے کہ 
(۲) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ یہ عورت کے لیے انتہائی دشوار مرحلہ ہوتا ہے اور بالعموم عورتیں نافرمانی سے باز آجاتی ہیں، لیکن اگر معاملہ اس سے بھی زیادہ بگڑ چکا ہے، تو تیسرا طریقہ یہ ہے کہ 
(۳) عورت کی ہلکی سرزنش کرے۔ یہ اصلاح کا آخری حربہ ہے ۔ اگر سرزنش کے خوف سے معاملہ ٹھیک ٹھاک ہوجاتا ہے، تو بہت اچھا ہے، لیکن معاملہ یہاں بھی نہیں سدھرتا ہے تو پھر آگے دو صورتیں ہیں: 
(الف) یا تو یہ معاملہ زوجین کے بجائے ان کے سرپرست حضرات حل کریں اور صلح کی مکمل کوشش کریں۔ اگر سرپرستوں سے معاملہ حل ہوجاتا ہے اور میاں بیوی کے درمیان تعلقات استوار ہوجاتے ہیں، تو بہت بہتر ہے۔ لیکن اگر سرپرستوں سے بھی معاملہ حل نہیں ہوتا تو
(ب) دوسری صورت یہ ہے کہ مرد عورت دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم مقرر کردیا جائے۔ اور ان دونوں حکموں کو فیصلہ کا مکمل اختیار دے دیا جائے۔ 
قرآن کا اعلان ہے کہ اگریہ حکم زوجین کے درمیان اصلاح کی کوشش کریں گے، تو اللہ ان کی پرخلوص نیت اور اچھی کوشش سے ضرور موافقت پیدا کردیں گے۔(۳) 
تیسرا پروسیس
(۳) اگر بالفرض درج بالا چھ شکلیں(۱۔ زوجین کی آپسی مصالحت۔ ۲۔ عورت کو نصیحت۔ ۳۔عورت کے بستر سے علاحدگی۔ ۴۔ عورت کی ہلکی سرزنش۔ ۵۔ سرپرستوں کی مصالحت۔ ۶۔ حکمین کی مصالحت) بھی کار گر نہیں ہوتی ہیں۔ تو یہاں سے تیسرا پروسیس شروع ہوتا ہے ۔ اس کی دو شکلیں ہیں: 
(الف)ایک شکل تو یہ ہے کہ اگر یہ ساری پریشانی شوہر کے لیے بیوی کی طرف سے ہے، تو شوہر بیوی کی اصلاح حال کے لیے اس وقت ایک طلاق دے جب وہ پاکی کی حالت میں ہو اور اس پاکی کی حالت میں اس سے ہمبستری نہ کی ہو۔ اور تین مہینے کے اندر اندر بیوی کے سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ میری وجہ سے میرا شوہر پریشان ہے ، مجھے اپنی عادتوں سے باز آجانا چاہیے۔ یا شوہر کو یہ احساس ہوجائے کہ شاید غلطی ہماری ہی ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، تو عدت کے اندر رجوع کرلے اور ایک خوشگوار محبت بھری زندگی گذارے۔ 
پھر کبھی پانچ دس سال گذرنے کے بعد دونوں میں اختلافات ہوتے ہیں ، تو پھراسی طرح درج بالا چھ طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے صلح و مصالحت کی کوشش کی جائے گی ۔ لیکن بالفرض ان سے معاملہ ٹھیک نہیں ہوتا ہے ، تو پھر شوہر اپنی بیوی کو اس پاکی کی حالت میں ، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے، ایک طلاق دے گا۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے گا۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں دوبارہ مصالحت کرکے محبت آمیز زندگی کی شروعات کرنی چاہیے، تو عدت کے اندر شوہر رجوع کرلے ۔ اور محبت بھری زندگی کی نئی شروعات کرے۔ 
زندگی یوں ہی ہنسی خوشی گذرتے گذرتے بالفرض اگر پھر اختلاف ہوجاتا ہے ، تو اصلاح حال کے لیے پھر درج بالا چھ صورتوں کو اپنایا جائے گا۔ مان لیجیے کہ اگر ان سے بھی مصالحت نہیں ہوپاتی ہے اور مصالحت کے لیے کوئی راہ نہیں بچتی،تو چوں کہ اس سے پہلے دو دو بار یہ سارے طریقے ناکام ہوچکے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ مصالحت کی بارہ کوششیں ناکام ہوچکی ہیں،اس لیے فطری طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ شاید ان دونوں کی زندگی ایک ساتھ نہیں گذر سکتی، اس لییایسی زندگی کو الجھنوں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے لڑکا تیسری طلاق دیدے۔ 
تین طلاق پورے ہونے کے بعد نہ اب لڑکے کو اختیار رہے گا کہ عدت کے اندر پھر رجوع کرکے عورت کو زندگی کو جہنم بنائے ۔ اور نہ لڑکی کے لیے گنجائش ہے کہ جس مرد نے اس کو دو دو مرتبہ اسے زندگی سے نکالنے کی کوشش کی، پھر تہ بارہ اسی کی زندگی کی زینت بنے ۔ اب لڑکا بھی کسی دوسری عورت سے شادی کرکے اپنی زندگی کی دوسری شروعات کرے اور لڑکی بھی کسی دوسرے شریک سفر کو اپنا ہم سفر بناکر خوشگوار زندگی گذارے۔ 
(ب)دوسری شکل یہ ہے کہ اگر معاملہ الٹا ہو، یعنی شوہر بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن بیوی ہی شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، تو ایسا نہیں ہے کہ عورت مرد کی زندگی سے بالکل بھی آزاد نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خلع کی پیشکش کرے، یعنی شوہر سے کچھ مال کے عوض میں طلاق طلب کرے۔ اگر شوہر منظور کرلے گا، تو بذریعہ خلع طلاق واقع ہوجائے گی۔ (۴) 
حلالہ کی حقیقت
تیسری طلاق دینے کے بعد مرد کو تو بالکل اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لائے، کیوں کہ اگر وہ کسی اور کی بیوی بن چکی ہے، پھرتو مردبالکل نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگرطلاق کے بعد کسی کی زوجیت میں نہیں گئی ہے، تو بھی مرد نکاح نہیں کرسکتا، کیوں جس مرد کو قانون فطرت نے طلاق کے مرحلے سے پہلے پہلے بارہ مرتبہ موقع دیا اور اس کے باوجود بھی اس عورت کی قدر نہیں کی، تو اب تین طلاق دینے کے بعد یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مرد ہی اس عورت کے قابل نہیں ہے۔ 
لیکن اگر عورت ہی کی یہ خواہش ہے کہ چلو جیسا بھی تھا، ہم نے زندگی کی شروعات اس کے ساتھ کی تھی ، تو اختتام بھی اسی کے ساتھ کریں گے، تو صرف عورت کے لیے شریعت نے یہ گنجائش رکھی ہے کہ تم پہلے کسی دوسرے شخص سے شادی کرو، پھر اس کے ساتھ زندگی اتنی دوبھر ہوجائے کہ مذکورہ بالا تینوں پروسیس سے گذرنے پر مجبور ہوکر تیسری طلاق تک نوبت آجائے ۔ اور تیسری طلاق دیدے، تو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہو۔ اسی کو شریعت میں حلالہ کہاجاتا ہے۔ تو گویا حلالہ کوئی نکاح نہیں، بلکہ معاملہ کو سلجھانے کے ایک پروسیس کا نام ہے، جو صرف اور صرف عورت کا حق و اختیار ہے۔ (۵) 
طلاق کا موجودہ رویہ
لیکن آج طلاق کے حوالے سے ہمارا رویہ یہ ہے کہ جب کسی بات پر غصہ آتا ہے تو ہم انجام کو سوچے بغیر یکبارگی تینوں طلاق دے ڈالتے ہیں، جس سے کئی قسم کے خانگی مسائل جنم لے لیتے ہیں۔ طلاق دینے کے اس طریقے کو طلاق بدعت کہاجاتا ہے۔ ایک طرف جہاں اس عورت کی زندگی اندھیرے میں چلی جاتی ہے، وہیں دوسری طرف بچوں کا مستقبل بھی تاریک ہوجاتا ہے اور خاندان انھونی مشکلات سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک پاک رشتے کی وجہ سے جن دو خاندانوں میں الفت و محبت کا رشتہ قائم ہوا تھا، وہ نفرت و عداوت میں بدل جاتا ہے ۔ 
غیروں کا اعتراض
اس صورت حال کو دیکھ کر ہمارے غیر مسلم یہ اعتراض کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ایک عورت جس نے اپنے والدین کاسب کچھ چھوڑ کر اپنی مکمل زندگی جس مرد کے حوالے کیا اور ہمہ وقت اس کی ، اس کے گھر کی ، اس کے بچوں کی اور اس کے ماں باپ کی خدمت میں لگی رہی، محض تین مرتبہ طلاق کا لفظ بولنے سے یکبارگی یہ سب چیزیں کیسے ختم ہوجائیں گی؟ یہ نقطہ نظر اس نیتجے تک پہنچاتا ہے کہ تین طلاق عورتوں پر ظلم اور نا انصافی ہے، لہذا مسلم مہیلاوں کے ساتھ یہ ناانصافی بند ہونی چاہیے۔ چنانچہ موجودہ بی جے پی کی سرکار نے مسلمانوں کے خلاف طوفان بد تمیزی مچاتے ہوئے اس مسئلے کو اولیت دے کر پارلیمنٹ میں ایک ڈرافٹ بل پیش کیا ۔ اس کا اردو ترجمہ ہمارے رفیق محترم مولانا عظیم اللہ صاحب قاسمی صدیقی میڈیا انچارج جمعیۃ علماء ہند نے کیا ہے، ان کے شکریہ کے ساتھ یہاں پیش کیا جارہا ہے ۔
(۱) بل کا مقصد 
شادی شدہ مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ان کے شوہر کے ذریعہ دی جانے والی طلاق کی روک تھام اورمطلقہ خواتین کو ان حقوق فراہمی جو ری پبلک آف انڈیا کی ۶۸؍ سالہ مدت میں پارلیامنٹ کے ذریعہ طے کیے گئے ہیں۔
باب (۱)
پارلیامنٹری 

سیکشن۱۔ ۱۔اس قانون کو ’’مسلم خواتین (تحفظِ حقوق نکاح) ایکٹ۲۰۱۷ ء کہا جائے گا۔
۲۔ یہ جمو ں وکشمیر کے علاوہ تمام ریاستوں میں نافذ ہو گا۔
۳۔یہ مرکزی حکومت کے ذریعہ سرکاری گزٹ میں جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے تحت طے کردہ تاریخ سے نافذ ہو گا۔
سیکشن۲۔ توضیح:
اس قانون میں ذکرکردہ الفاظ کے درج ذیل معنی ہوں گے چاہے دوسری جگہ جو بھی معنی ہو۔
(الف) ’’الیکٹرانک فارم‘‘Electronic formکا معنی یہاں بھی وہی ہے جو آئی ٹی ایکٹ۲۰۰۰ء کے سیکشن (۲) کے ذیلی سیکشن (۱) میں موجود ہے۔
(ب) طلاق Talaqکامطلب ’’طلاق بدعت ’’ہے یا اس جیسی طلاق جوفوری طور سے اثر انداز ہوتی ہے اور ایسی ناقابل ترمیم طلاق جو کسی مسلم شوہر نے دی ہو۔
(ج) ’’مجسٹریٹ‘‘ Magistrate کا مطلب فرسٹ کلاس کا مجسٹریٹ جو کہ کریمنل پروسیزر۱۹۷۳ء کے تحت اس علاقہ میں مقرر ہو جہاں متعلقہ شادی شدہ خاتو ن رہتی ہے۔ 
باب (۲) 
طلاق کا اعلان غیر قانونی اور غیر موثر ہو گا۔ 
سیکشن۳۔ کسی بھی شخص کے ذریعہ اپنی بیوی کو دی گئی کوئی بھی طلاق، چاہے وہ لفظ کے ذریعہ ہو، یا بولی گئی ہو یا لکھی گئی ہو یا الیکٹرونک شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں ہو، غیر موثر اور غیر قانونی ہو گی ۔
سیکشن۴۔ سیکشن۳ کی تشریح کے مطابق ’’طلاق‘‘ جو شخص بھی اپنی بیوی کو دے گا، اسے تین سال کی قیداور جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔
باب (۳) 
شادی شدہ مسلم خواتین کے حق کا تحفظ 
سیکشن ۵۔ کسی بھی نافذ العمل قانون میں شامل ہدایات کی عمومیت سے قطع نظر،ایسی مسلم شادی شدہ خاتون جسے طلاق دی گئی ہے، وہ اپنے اور اپنے زیر کفالت بچے کے لیے گزارہ خرچ لینے کی حق دار ہو گی، جس کی مقدار مجسٹریٹ کے ذریعہ طے کی جائے گی۔
سیکشن۶۔ نافذ العمل کسی بھی قانون میں شامل کسی امر کے باوجود،طلاق دیے جانے کی صورت میں، عورت اپنی نابالغ اولاد کی کسٹڈی کی حق دار ہو گی،اسی طرح سے جیسا کہ مجسٹریٹ طے کردے۔
سیکشن ۷۔ کریمنل پروسیز ر ایکٹ ۱۹۷۳ء میں شامل کسی بھی بات کے باوجود،اس ایکٹ کے تحت کیا گیا کوئی بھی جرم مذکورہ کوڈ کے مفہوم کے مطابق قابل گرفت (یعنی بغیر گرفتاری وارنٹ) اور ناقابل ضمانت ہو گا۔
قانون سازی کے اسباب و عوامل 
سائرہ بنام حکومت ہند اور دیگر کے مسئلے میں ۲۲؍اگست ۲۰۱۷ء کو 3۔2کے اپنے اکثریتی فیصلہ میں طلاق بدعت (تین طلاق جو ایک بار میں اور ایک وقت میں دی جائے) کو سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا تھا۔اس فیصلے نے مسلم خواتین کو طلاق کے اس وحشیانہ طریقہ عمل سے نجات دلایاجس میں مصالحت کی کوئی راہ نہیں بچتی تھی۔
۲۔ مذکورہ عرضی گزار(خاتون) نے چیلنج کیا تھا کہ بہت ساری دشواریو ں کے علاوہ’طلاق بدعت‘ کا عمل عورت کی عزت کے خلاف اور تفریق پر مبنی ہے۔اس فیصلے نے حکومت کے اس موقف کو بھی ثابت کردیا کہ ’طلاق بدعت‘ ’جنسی مساوات کے اصول،عورت کی عزت اور دستوری اخلاقیات کے خلاف ہے۔اس کے علاوہ دستور کے تحت دیے گئے جنسی مساوات سے متعلق حقوق کے بھی خلاف ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جو کہ مذکورہ مقدمہ میں فریق نمبرسات تھا،اپنے حلفیہ بیان میں دیگر باتوں کے علاوہ،اس نے اس بات کو پیش کی تھی کہ طلاق بدعت جیسے مذہبی مسائل میں عدالت کو فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے لیکن یہ کام مقننہ کا ہے کہ وہ اس مسئلہ پر قانو ن بنائے۔اس نے سپریم کورٹ میں یہ عرضی بھی داخل کی تھی کہ وہ اس عمل کے خلاف مسلم طبقہ کے ممبران کو ایڈوائزری جاری کرے گا۔
۳۔سپریم کورٹ کے ذریعہ طلاق بدعت کو منسوخ کیے جانے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے یقین دلانے کے باوجود، طلاق بدعت دیے جانے سے متعلق ملک کے مختلف حصوں سے شکایتیں مل رہی ہیں۔یہ دیکھا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کا طلاق بدعت سے متعلق کیا گیا فیصلہ بعض مسلمانوں کے درمیا ن طلاق دہی کی اعداد و شمار کو روکنے میں کارگر ثابت نہیں ہو رہا ہے۔اسی وجہ سے یہ محسوس کیا گیا کہ سرکار، سپریم کورٹ کے فیصلہ کو موثر بنانے کے لیے اقدام کرے تاکہ غیر قانونی طلاق کے ذریعہ متاثرہ خواتین کو درپیش مشکلات کا حل نکلے۔
۴۔ بے یارو مددگار شادی شدہ خواتین کے ساتھ مسلسل ہورہی اذیتوں کو روکنے اور انھیں راحت دینے کے لیے فوری طور سے قانون سازی کی ضرور ت ہے۔ یہ بل، سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق طلاق بدعت کو غیر قانونی و غیر موثر قرار دینے کی تجویز پیش کرتا ہے۔مزید تین طلاق دینا ایک قابل سزا جرم ہو۔ یہ ایسی طلاق کے عمل کو روکنے میں معاون ہو گا جس میں علاحدگی کے دوران عورت کچھ نہیں کہہ سکتی۔اس بات کی بھی تجویز پیش کی جاتی ہے کہ تین طلاق دیے جانے کی صورت میں ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے عورت کو شوہر سے گزارہ بھتہ مہیا کرایا جائے، خود اس کے لیے اور اس کے زیر کفالت بچوں کے لیے اور بیوی کو نابالغ اولا د کی کسٹڈی کا بھی حق ہو۔
۵۔ یہ قانون، شادی شدہ خواتین کے جنسی مساوات او رجنسی انصا ف کے دستوری حق کو وسیع حد تک یقینی بنانے میں معاون ہو گا۔ یہ قانون ناانصافی کے خاتمہ اور عورت کو مضبوط کرنے کے لیے بنیادی حق میں بھی کچھ تک معاو ن ہو گا۔(روی شنکر پرشاد)
ایکٹ میں ترمیم و منظوری
آج بتاریخ ۱۹؍ ستمبر ۲۰۱۸ء کو بی جے پی کی کابینہ نے اس آرڈینینس کو منظوری دیتے ہوئے تین ترمیمات بھی کی ہیں:
ایک ترمیم: پہلے یہ تھا کہ طلاق کے معاملہ میں کوئی بھی، حتیٰ کہ پولیس بھی کیس درج کراسکتی تھی،لیکن اب نئے ترمیم کا کہنا ہے کہ اب صرف متاثرہ خاتون، یا اس کا سگا رشتہ دارہی کیس درج کراسکتا ہے۔ 
دوسری ترمیم:پہلیپولیسپیشگی گرفتاری وارنٹ جاری کیے بغیرطلاق دینے والے کو گرفتاری کر سکتی ہے، لیکن اب نئی ترمیمکے مطابق مجسٹریٹ کو ضمانت دینے کااختیار ہے۔
تیسری ترمیم: پہلیکیس درج ہونے کے بعد زوجین کو مصالحت کرنے کا اختیار نہیں تھا،لیکن اس جدید ترمیم میں یہ کہا گیا ہے کہ مجسٹریٹ کے سامنے شوہر اور بیوی مصالحت کرسکتے ہیں۔ 
ایکٹ پر ایک نظر
اس ایکٹ کے باب نمبر ۲؍ سیکشن ۳؍ اور سیکشن ۴؍ کے مطابق کوئی بھی طلاق دی جائے ، وہ واقع نہیں ہوگی، اس کے باوجود محض طلاق کا لفظ کہہ دینے سے تین سال کی قید اور ساتھ میں جرمانہ بھی لگایا جائے گا۔ اس حوالے سے سماجی حالات اور بشری نفسیات کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر غور کیا جائے تو اس میں کئی طرح کی خامیاں نظر آئیں گی: 
(۱) جس طرح نکاح فطرت کی آواز ہے، اسی طرح بعض حالات میں طلاق بھی ایک ضرورت ہے۔ اس پر مکمل پابندی لگادی جائے گی تو مردوں اور عورتوں ؛ بالخصوص عورتوں کے لیے لامتناہی ظلم کا وہی دروازہ دوبارہ کھل جائے گا، جو لاتعداد طلاق و رجوعکے نام سے قبل ازاسلام زمانہ جاہلیت کی شناخت تھی اور جسے اسلام نے آکر بند کیا تھا۔ 
(۲) اگرخونی رشتے: ماں باپ کی طرح نکاح کو بھی ناقابل شکست رشتہ قرار دیا جائے، تو بسااوقات مرد و عورت دونوں کے لیے زندگی جہنم بن سکتی ہے۔ کیوں کہ اس امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر غیر کفو میں رشتہ ہوگیا اور دونوں میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی تو زندگی بھر دونوں ایک دوسرے کے لیے زندگی کا عذاب بن جائیں گے، تو جس رشتہ کی نیو محبت و الفت کے لیے رکھی جاتی ہے، وہ نفرت و عداوت کا سرچشمہ بن جائے گا ۔ اور اس کا علاج اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے کہ دونوں میں علاحدگی کا بھی آپشن رکھا جائے ۔ اور اسی کا نام طلاق ہے۔ 
(۳)خود سیکشن ۴؍ ، سیکشن ۳ ؍ کے متضاد مفہوم پر مشتمل ہے، کیوں کہ سزا کے لیے جرم کا ثبوت ضروری ہے۔ جرم طلاق کا وقوع ہے ، جو تفریق پر منتج ہے۔ اور جب سیکشن ۳؍ کے مطابق طلاق واقع ہی نہیں ہوگی، تو تفریق کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اور جب تفریق نہیں پائی گئی، تو جرم کا ثبوت نہیں ہوا۔ اور جب جرم ہی ثابت نہیں ہوا تو پھر تین سال کی قید اور مزید برآں سزا کا کیا جواز ہوسکتا ہے!۔ 
(۴) دوسری حیثیت سے بھی غور کیجیے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی ، جو خود قانون کی رو سے واقع نہیں ہوئی، اس کے باوجود شوہر کو تین سال کی قید کی سزا سناکر مقید کردیا گیا۔ اب تین سال کے بعد شوہر اپنے گھر آتا ہے تو کیا ایسا شوہر اپنی بیوی کو آتے ہی کہے گا کہ ’’ میڈم ! آئی لو یو‘‘ ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کی وجہ سے مجھ تین سال کی قید ہوگئی۔ پھر آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایسی بیوی کے ساتھ آگے کی زندگی میں شوہر کا کیا رویہ ہوگا!۔
(۵) پھر اس اعتبار سے بھی سوچیے کہ جس عورت کی وجہ سے اس کا بیٹا جیل چلا جائے، کیا وہ ساس اور سسرال کے دیگر افراداس عورت کو قبول کرسکیں گے۔ اگر بالفرض برداشت بھی کرلیں گے تو اس گھر میں اس عورت کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جائے گا، یہ کہنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ 
(۶) اس پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ قید کے ان تین سالوں کے دوران ، بیوی، بچوں اور شوہر کے والدین کی کفالت کا ذمہ دار کون ہوگا۔ 
پھر صحیح راستہ کیا ہے
آپ نے اسلام سے پہلے اور دیگر مذاہب کے نکاح و طلاق دونوں کا مطالعہ کرلیا۔ اور پھر اسلام نے ان میں کیا کیا اصلاحات کیں، وہ بھی آپ نے پڑھ لیا ، اور یہ بھی آپ نے پڑھ لیا کہ اسلام میں میاں بیوی کے درمیان تفریق تک پہنچنے تک کے لیے تقریبا بارہ مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، پھر تینوں طلاق کی نوبت آتی ہے۔اگر اسلام کے بتائے اس طریقے کے مطابق طلاق دی جائے تو راقم کا عندیہ ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی طلاق واقع ہوگی۔ کیوں کہ ناچیز کی معلومات کے مطابق آج تک کوئی ایک کیس بھی دیکھنے سننے یا پڑھنے کو نہیں ملا کہ جس نے شریعت کے صحیح طریقے کے مطابق طلاق دی ہو اور پھر وہ تفریق کے مرحلے تک پہنچ گیاہو؛ اس کی وجہ یہی ہے کہ تفریق کا یہ اسلامک لیگل سسٹم اتنا فطری اور انسانی نفسیات سے ہم آہنگ ہے کہ یہاں تک مرد و عورت اسی وقت پہنچ سکتے ہیں کہ جب دونوں کی مشترکہ زندگی ناقابل برداشت ہوجائے۔ برداشت اور مصالحت کی ذرا بھی گنجائش باقی رہے گی تو تینوں طلاق کی نوبت نہیں آسکتی۔ 
لیکن۔۔۔ چوں کہ ہمارا طریقہ شرعی طریقہ سے مختلف ہوگیا ہے، اس لیے آج معاشرہ میں دھڑا دھڑ طلاقیں ہور ہیں اور مرد و عورت دونوں کی زندگیاں جہنم کدہ بن رہی ہیں، ایسی صورت حال میں کسی لیگل ریفارم کی نہیں، کیوں کہ لیگل ریفارم کی جتنی ضرورت تھی، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام کرچکا ہے؛ بلکہ سوشل کی ریفارم کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر زندگی عذاب بن جائے تو اسلام اسے کس طرح حل کرنے کا فارمولہ پیش کرتا ہے ،اس فارمولہ پر عمل کیا جائے، تبھی عورتوں کے ساتھ مکمل انصاف ہوگا۔ 
لیکن اس کے بجائے اگر لیگل ریفارم کی کوشش کی جائے گی تو یہ فطری قانون سے ٹکرانے کے مترادف ہوگی، جس میں کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکتی۔ 
مآخذو مصادر
(۱)
أَنَّ النِّکَاحَ فِي الجَاھِلِیّۃِ کَانَ عَلَی أَرْبَعَۃِ أَنْحَاءٍ: فَنِکَاحٌ مِنْھَا نِکَاحُ النَّاسِ الیَوْمَ: یَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلی الرَّجُلِ وَلِیَّتَہُ أَوِ ابْنَتہُ، فَیصْدِقُھَا ثُمَّ یَنْکِحُھَا، وَنِکَاحٌ آخَرُ: کَانَ الرَّجُلُ یَقُولُ لِامْرَأَتِہِ إِذَا طَھُرَتْ مِنْ طَمْثِھَا: أَرْسِلِي إِلَی فُلاَنٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْہُ، وَیَعْتَزِلُھَا زَوْجُھَا وَلاَ یَمَسُّھَا أَبَدًا، حَتَّی یَتَبَیَّنَ حَمْلُھَا مِنْ ذَلِکَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْہُ، فَإِذَا تَبَیَّنَ حَمْلُھَا أَصَابَھَا زَوْجُھَا إِذَا أَحَبَّ، وَإِنَّمَا یَفْعَلُ ذَلِکَ رَغْبَۃً فِي نَجَابَۃِ الوَلَدِ، فَکَانَ ھَذَا النِّکَاحُ نکَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ۔ وَنکَاحٌ آخَرُ: یَجْتَمِعُ الرَّھْطُ مَا دُونَ العَشَرَۃِ، فَیَدْخُلُونَ عَلَی المَرْأَۃِ، کُلّھُمْ یُصِیبُھَا، فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ، وَمَرَّ عَلَیھَا لَیَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَھَا، أَرْسَلَتْ إِلَیھِمْ، فَلَمْ یَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْھُمْ أَنْ یَمْتَنِعَ، حَتّی یَجْتَمِعُوا عِنْدَھَا، تَقُولُ لَھُمْ: قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي کَانَ مِنْ أَمْرِکُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ، فَھُوَ ابْنُکَ یَا فُلاَنُ، تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِہِ فَیَلْحَقُ بِہِ وَلَدُھَا، لاَ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَمْتَنِعَ بِہِ الرَّجُلُ، وَنِکَاحُ الرَّابِعِ: یَجْتَمِعُ النَّاسُ الَثِکیرُ، فَیَدْخُلُونَ عَلَی المَرْأۃِ، لاَ تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَھَا، وَھُنَّ البَغَایَا، کُنّ یَنْصِبْنَ عَلَی أَبْوَابِھِنَّ رَایَاتٍ تَکُونُ عَلَمًا، فَمَنْ أَرَادَھُنَّ دَخَلَ عَلَیْھِنَّ، فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاھُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَھَا جُمِعُوا لَھَا، وَدَعَوْا لَھُمُ القَافَۃَ، ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَھَا بِالَّذِي یَرَوْنَ، فَالْتَاطَ بِہِ، وَدُعِيَ ابْنَہُ، لاَ یَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِکَ ، فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالحَقِّ، ھَدَمَ نِکَاحَ الجَاھِلِیَّۃِ کُلَّہُ إِلَّا نِکَاحَ النَّاسِ الیَوْمَ۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب من قال لانکاح الا بولی)
(۲)
ان علیا قال لابن عباسؓ : ان النبی ﷺ نھیٰ عن المتعۃ عن لحوم الحمر الاھلیۃ زمن الخیبر۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب نھیٰ رسول اللّٰہ ﷺ عن نکاح المتعۃ اخیرا۔ 
(۳)
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَھُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِھِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیبِ بِمَا حَفِظَ اللَّہُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَھُنَّ فَعِظُوھُنَّ وَاھْجُرُوھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوھُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْھِنَّ سَبِیلًا إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیرًا(۳۴) وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوا حَکَمًا مِّنْ أَھْلِہِ وَحَکَمًا مِّنْ أَھْلِھَا إِن یُریدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللَّہُ بَیْنَھُمَا إِنَّ اللّہََ کانَ عَلِیمًا خَبِیرًا (۳۵) النساء)
(۴)
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَیْتُمُوھُنَّ شَیْءًا إِلَّا أَنْ یَخَافَا أَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللَّہِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللَّہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیہِ مَا فِيمَا افْتَدَتْ بِہِ تِلکَ حُدُودُ اللَّہِ فَلَا تَعْتَدُوھَا وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُودَ اللّہِ فَأُولَئکَ ھُمُ الظَّالِمُونَ۔ (البقرۃ، ۲۲۰)
(۵) فَإِن طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لہُ مِن بَعْدُ حَتّیٰ تَنکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ، فَإِن طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیھِمَا أَن یَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن یُقِیمَا حُدُودَ اللّہِ ، وَتِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ یُبَیِّنُھَا لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ، (البقرۃ، ۲۳۰)

Paaki ka Bayaan

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمدُ للّٰہِ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین، و علیٰ آلہ واصحابہ اجمعین۔
پاکی کا بیان

پاکی اور نماز کے مسائل مدلل، قسط (1) 
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ
جہاں نماز کے مسائل کا جاننا ضروری ہے، وہاں طہارت کے مسائل کا جاننا بھی ضروری ہے۔ 
بدن اور کپڑے اور مکان کی صفائی اور اس کی پاکیزگی کا اہتمام مذہب اسلام نے جس قدر کیا ہے، اس کی مثال کوئی مذہب پیش نہیں کرسکتا ہے۔ پاکیزگی کو مذہب اسلام نے جزو ایمان قرار دیا ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا:
اَلطہورُ شطرُالایمان: الحدیث (رواہ مسلم عن مالک الاشعری )
پاکیزگی جزو ایمان ہے۔
جزو ایمان ہی نہیں۔ بلکہ نصف ایمان ہے۔ چنانچہ سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الطہور نصف الایمان(رواہ الترمذی عن رجل من بنی سلیمٖؓ وقال ھٰذا حدیث حسن) زجاجہ ص۶۸۔
پاکی آدھا ایمان ہے۔اس کے بغیر مسلمانوں کی اہم عبادت جو نماز ہے جو حصول جنت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، بغیر طہارت صحیح نہیں ہوتی ۔چنانچہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا :
مفتاحُ الجنۃِ الصلوٰۃُ و مفتاحُ الصلوٰۃِ الطہورُ(رواہ احمد عن جابر)زجاجہ ص۶۷
جنت کی کنجی نماز اور خود نماز کی کنجی طہارت ہے۔
طہارت پاکی حاصل کرنے کو کہتے ہیں اور پاکی نجاست ہی سے حاصل کی جاتی ہے اس لیے پہلے نجاست سے بحث کی جاتی ہے۔
نجاست کا بیان
نجاست گندگی اور ناپاکی کو کہتے ہیں اس کی دوقسمیں ہیں: حقیقیہ اور حکمیہ۔
بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اس کا خون وغیرہ کا گندہ اور ناپاک ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، اسی کو نجاست حقیقیہ کہتے ہیں۔ اور بعض چیزیں ہیں جن کا گندہ اور ناپاک ہونا ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے ہیں، کیوں کہ اس پر ظاہری نجاست نہیں ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی ناپاک قرار دیا ہے، جیسے بدن کا ناپاک ہونا، اس وجہ سے نہیں کہ اس پر ناپاکی لگی ہے؛ بلکہ اس وجہ سے کہ وضو یا غسل کی حاجت ہے، اسی کو نجاست حکمیہ کہتے ہیں۔
قسط نمبر (1) کے لیے کلک کریں

16 Sept 2018

Moharram ki jharni

محرم کی جھرنی
محمد یاسین قاسمی جہازی
قسط (2)
گیت نمبر ۴ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت قاسم ہاتھ میں قرآن لے کر آرہے ہیں اور علیٰ الصباح حضرت زینب بھی آرہی ہیں، جن کے ہاتھ میں رومال ہے۔ حضرت سکینہ قرآن پڑھی رہی ہیں اور شادی کی تمنا دل میں جاگ رہی ہے ۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ ہمیں فرات ندی کے کنارے لے چلو، کیوں کہ آج بڑی قتل یعنی یوم شہادت حسین کی رات ہے اور چوں کہ آج رینی رات ہے، اس لیے سبھی حسینیوں کو مل کر رہنا چاہیے۔ 
پانچ نمبر گیت کہا گیا ہے کہ میدان جنگ کے بیچ سات شیطانوں نے دونوں بھائیوں کو گھیرلیا ہے ۔ حضرات حسنین اللہ اور اس کے رسول کا نام لے رہے ہیں ۔ اور جس طرح کیلا کاٹا جارہا ہے، اسی طرح دونوں بھائی شیطانوں کو میدان جنگ میں کاٹ رہے ہیں اور خون کی دھاریں پھوٹ رہی ہیں۔ 
گیت نمبر ۶ میں کئی سوالات و جوابات ہیں کہ حضرت حسین کی قبر اینٹ کی بنائی گئی ہے اور دودھ سے پوتائی کی گئی ہے ، اسے ریشم کے رومال کی چادر اوڑھائی گئی ہے ۔ اور لسان( جھنڈا) میں بانس اور کپڑا لگایا گیا ہے۔ یہ درگاہ میدان جنگ کے بیچ میں ہے۔ 
آخری گیت کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ میں چوڑیاں اور سر پر اوڑھنی اچھی لگتی ہے، لیکن جب میرا سید میدان جنگ میں گیا ہے تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ بیوی پلنگ پر اچھی لگتی ہے ۔ ایک گھر ہے، جس میں پھول کے بستر لگے ہیں۔ اگر کسی کو نماز پڑھنی ہے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔ 
آپ نے گیت اور ان کی تشریحات دونوں کو پڑھ لیا، جس سے بالیقین آپ بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہوں گے، جس نتیجہ پر راقم پہنچاہے، وہ نتیجہ و خلاصہ پیش خدمت ہے: 
(۱) یہ قبائلی گیت سراسر فرضی اوردیو مالائی داستان کے عکس ہیں، جن میں نہ واقعیت ہے اور نہ صداقت ۔ 
(۲) ان کہانیوں کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ کربلا کی کچھ پرچھائیاں ضرور پائی جاتی ہیں۔ 
(۳) گیت کے بعض بندوں میں شرکیہ کلمات بھی ہے ، جیسے کہ گیت نمبر ایک کی لائن نمبر ۲۹؍ میں دولہن یہ کہتی ہے کہ میرا بھائی سورج دیو سے مانگا ہوا ہے۔ یہ سراسر شرکیہ نظریہ ہے۔ 
(۴) یہ گیت بالعموم سنی مسلم لڑکیاں حضرت حسین سے عشق و شیفتگی میں گاتی ہیں اور ایصال ثواب کا ذریعہ سمجھتی ہیں، جو کہ سراسر گناہ اور مذموم حرکت ہے۔ 
قصہ مختصر یہ ہے کہ محرم کے موقع پر کھیلے جانے والے کھیل ’’جھرنی‘‘ کے گیت، طریق عمل اور کھیلنے والیوں کو دیکھا جائے تو اس کا جہاں اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہیں یہ سراسر قبیح اور مذموم عمل ہے۔یہ شیعی طرز فکر کے اثرات ہیں اور الحمد للہ اللہ نے آپ کو صحیح العقیدہ اہل سنت والجماعۃ کی صف میں شامل کیا ہے، اس لیے راہ مستقیم کو پانے پر اللہ کا شکر ادا کیجیے اور ہماری جو بچیاں جھرنی کھیلنے کے نام پر غول میں جاتی ہیں اور ایک طرف کفریہ کلمات گاتی ہیں، تودوسری طرف اخلاقی کمزوریوں کی بھی شکار ہوتی ہیں۔انھیں ’’محرم کی جھرنی‘‘ کھیل سے ہر ممکن دور رکھ کر اپنے گھر اور بچیوں کے اعلیٰ اقدار و کردار کو قائم و دائم رکھیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلائے۔ آمین۔