محرم کی جھرنی
محمد یاسین قاسمی جہازی
قسط (2)
گیت نمبر ۴ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت قاسم ہاتھ میں قرآن لے کر آرہے ہیں اور علیٰ الصباح حضرت زینب بھی آرہی ہیں، جن کے ہاتھ میں رومال ہے۔ حضرت سکینہ قرآن پڑھی رہی ہیں اور شادی کی تمنا دل میں جاگ رہی ہے ۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ ہمیں فرات ندی کے کنارے لے چلو، کیوں کہ آج بڑی قتل یعنی یوم شہادت حسین کی رات ہے اور چوں کہ آج رینی رات ہے، اس لیے سبھی حسینیوں کو مل کر رہنا چاہیے۔
پانچ نمبر گیت کہا گیا ہے کہ میدان جنگ کے بیچ سات شیطانوں نے دونوں بھائیوں کو گھیرلیا ہے ۔ حضرات حسنین اللہ اور اس کے رسول کا نام لے رہے ہیں ۔ اور جس طرح کیلا کاٹا جارہا ہے، اسی طرح دونوں بھائی شیطانوں کو میدان جنگ میں کاٹ رہے ہیں اور خون کی دھاریں پھوٹ رہی ہیں۔
گیت نمبر ۶ میں کئی سوالات و جوابات ہیں کہ حضرت حسین کی قبر اینٹ کی بنائی گئی ہے اور دودھ سے پوتائی کی گئی ہے ، اسے ریشم کے رومال کی چادر اوڑھائی گئی ہے ۔ اور لسان( جھنڈا) میں بانس اور کپڑا لگایا گیا ہے۔ یہ درگاہ میدان جنگ کے بیچ میں ہے۔
آخری گیت کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ میں چوڑیاں اور سر پر اوڑھنی اچھی لگتی ہے، لیکن جب میرا سید میدان جنگ میں گیا ہے تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ بیوی پلنگ پر اچھی لگتی ہے ۔ ایک گھر ہے، جس میں پھول کے بستر لگے ہیں۔ اگر کسی کو نماز پڑھنی ہے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔
آپ نے گیت اور ان کی تشریحات دونوں کو پڑھ لیا، جس سے بالیقین آپ بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہوں گے، جس نتیجہ پر راقم پہنچاہے، وہ نتیجہ و خلاصہ پیش خدمت ہے:
(۱) یہ قبائلی گیت سراسر فرضی اوردیو مالائی داستان کے عکس ہیں، جن میں نہ واقعیت ہے اور نہ صداقت ۔
(۲) ان کہانیوں کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ کربلا کی کچھ پرچھائیاں ضرور پائی جاتی ہیں۔
(۳) گیت کے بعض بندوں میں شرکیہ کلمات بھی ہے ، جیسے کہ گیت نمبر ایک کی لائن نمبر ۲۹؍ میں دولہن یہ کہتی ہے کہ میرا بھائی سورج دیو سے مانگا ہوا ہے۔ یہ سراسر شرکیہ نظریہ ہے۔
(۴) یہ گیت بالعموم سنی مسلم لڑکیاں حضرت حسین سے عشق و شیفتگی میں گاتی ہیں اور ایصال ثواب کا ذریعہ سمجھتی ہیں، جو کہ سراسر گناہ اور مذموم حرکت ہے۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ محرم کے موقع پر کھیلے جانے والے کھیل ’’جھرنی‘‘ کے گیت، طریق عمل اور کھیلنے والیوں کو دیکھا جائے تو اس کا جہاں اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہیں یہ سراسر قبیح اور مذموم عمل ہے۔یہ شیعی طرز فکر کے اثرات ہیں اور الحمد للہ اللہ نے آپ کو صحیح العقیدہ اہل سنت والجماعۃ کی صف میں شامل کیا ہے، اس لیے راہ مستقیم کو پانے پر اللہ کا شکر ادا کیجیے اور ہماری جو بچیاں جھرنی کھیلنے کے نام پر غول میں جاتی ہیں اور ایک طرف کفریہ کلمات گاتی ہیں، تودوسری طرف اخلاقی کمزوریوں کی بھی شکار ہوتی ہیں۔انھیں ’’محرم کی جھرنی‘‘ کھیل سے ہر ممکن دور رکھ کر اپنے گھر اور بچیوں کے اعلیٰ اقدار و کردار کو قائم و دائم رکھیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلائے۔ آمین۔
پانچ نمبر گیت کہا گیا ہے کہ میدان جنگ کے بیچ سات شیطانوں نے دونوں بھائیوں کو گھیرلیا ہے ۔ حضرات حسنین اللہ اور اس کے رسول کا نام لے رہے ہیں ۔ اور جس طرح کیلا کاٹا جارہا ہے، اسی طرح دونوں بھائی شیطانوں کو میدان جنگ میں کاٹ رہے ہیں اور خون کی دھاریں پھوٹ رہی ہیں۔
گیت نمبر ۶ میں کئی سوالات و جوابات ہیں کہ حضرت حسین کی قبر اینٹ کی بنائی گئی ہے اور دودھ سے پوتائی کی گئی ہے ، اسے ریشم کے رومال کی چادر اوڑھائی گئی ہے ۔ اور لسان( جھنڈا) میں بانس اور کپڑا لگایا گیا ہے۔ یہ درگاہ میدان جنگ کے بیچ میں ہے۔
آخری گیت کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ میں چوڑیاں اور سر پر اوڑھنی اچھی لگتی ہے، لیکن جب میرا سید میدان جنگ میں گیا ہے تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ بیوی پلنگ پر اچھی لگتی ہے ۔ ایک گھر ہے، جس میں پھول کے بستر لگے ہیں۔ اگر کسی کو نماز پڑھنی ہے تو نماز پڑھ سکتا ہے۔
آپ نے گیت اور ان کی تشریحات دونوں کو پڑھ لیا، جس سے بالیقین آپ بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہوں گے، جس نتیجہ پر راقم پہنچاہے، وہ نتیجہ و خلاصہ پیش خدمت ہے:
(۱) یہ قبائلی گیت سراسر فرضی اوردیو مالائی داستان کے عکس ہیں، جن میں نہ واقعیت ہے اور نہ صداقت ۔
(۲) ان کہانیوں کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ کربلا کی کچھ پرچھائیاں ضرور پائی جاتی ہیں۔
(۳) گیت کے بعض بندوں میں شرکیہ کلمات بھی ہے ، جیسے کہ گیت نمبر ایک کی لائن نمبر ۲۹؍ میں دولہن یہ کہتی ہے کہ میرا بھائی سورج دیو سے مانگا ہوا ہے۔ یہ سراسر شرکیہ نظریہ ہے۔
(۴) یہ گیت بالعموم سنی مسلم لڑکیاں حضرت حسین سے عشق و شیفتگی میں گاتی ہیں اور ایصال ثواب کا ذریعہ سمجھتی ہیں، جو کہ سراسر گناہ اور مذموم حرکت ہے۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ محرم کے موقع پر کھیلے جانے والے کھیل ’’جھرنی‘‘ کے گیت، طریق عمل اور کھیلنے والیوں کو دیکھا جائے تو اس کا جہاں اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہیں یہ سراسر قبیح اور مذموم عمل ہے۔یہ شیعی طرز فکر کے اثرات ہیں اور الحمد للہ اللہ نے آپ کو صحیح العقیدہ اہل سنت والجماعۃ کی صف میں شامل کیا ہے، اس لیے راہ مستقیم کو پانے پر اللہ کا شکر ادا کیجیے اور ہماری جو بچیاں جھرنی کھیلنے کے نام پر غول میں جاتی ہیں اور ایک طرف کفریہ کلمات گاتی ہیں، تودوسری طرف اخلاقی کمزوریوں کی بھی شکار ہوتی ہیں۔انھیں ’’محرم کی جھرنی‘‘ کھیل سے ہر ممکن دور رکھ کر اپنے گھر اور بچیوں کے اعلیٰ اقدار و کردار کو قائم و دائم رکھیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلائے۔ آمین۔