19 Sept 2018

Talaaq: Legal Reform Nahi Social Reform ki Zaroorat hi

طلاق:لیگل ریفارم نہیں؛ سوشل ریفارم کی ضرورت ہے
شریعت لاء کے مطابق بارہ مصالحتی مراحل سے گذرنے کے بعد ہی تین طلاق تک معاملہ پہنچتا ہے
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاسلام سے پہلے کے نکاح پر ایک نظر
دین فطرت آنے سے پہلے لوگوں میں چار قسم کے نکاح رائج تھے: 
(۱) ایک طریقہ تو وہی تھا، جو آج شرعی طریقہ ہے کہ لڑکا لڑکی کے ذمہ دار حضرات کے توسط سے نکاح انجام پاتا ہے۔ 
(۲) دوسرا نکاح ’ استبضاع‘ تھا۔ اس کی شکل وہی تھی، جو غیر مسلموں میں نیوگ کی صورت ہے کہ اولاد حاصل کرنے کے لیے ، یا اعلیٰ نسب کی اولاد پانے کے لیے اپنی بیوی کو دوسرے کے پاس بھیج دیتے تھے۔ 
(۳) تیسرا طریقہ یہ تھا کہ دس پانچ مردوں کا ایک گروہ کسی عورت سے ہمبستر ی کرتا۔ اگر وہ عورت حاملہ ہوجاتی تو بچہ کی پیدائش کے بعد ان سبھی کو بلاتی ۔ اور دستور کے مطابق ہر شخص کو آنا ضروری تھا۔ پھر وہ اس محفل میں کسی ایک کا بچہ ہونے کا اعلان کرتی۔ یہی اعلان اس سے نسب ثابت ہونے کا ثبوت ہوتا اور وہ شخص انکار نہیں کرسکتا تھا۔ 
(۴) چوتھا طریقہ وہ تھا، جو آج کل طوائف کی شکل میں موجود ہے۔ البتہ اس سے آگے یہ ہوتا کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوجاتا، تو تعلق رکھنے والے سبھی لوگوں کو جمع کرتی اور قیافہ شناسی کے ماہرین کے ذریعہ باپ کی نشاندھی کرائی جاتی۔ یہ قیافہ شناس جس کا لڑکا بتادیتے، اسے تسلیم کیے بغیر چارہ کار نہیں ہوتا۔ (۱)
نکاح کا ایک پانچواں طریقہ بھی تھا، جس کو ’متعہ ‘ کہاجاتا ہے۔ یہ ابتدائے اسلام میں روا تھا، لیکن جب اسلام نے تمام شرمناک طریقوں پر پابندی لگائی، تو اس نکاح پر بھی ہمیشہ کے لیے بندش لگا دی گئی۔ اور درج بالا طریقوں میں صرف پہلا طریقہ جائز و برقرار رکھا۔(۲)
اسلام سے پہلے طلاق 
کچھ قدیم مذاہب میں نکاح ایک اٹوٹ بندھن ہے،ہوگیا، تو ہوگیا، اب وہ کسی طرح سے ختم ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ نظریہ دراصل عورتوں کے حوالے سے اس نظریہ کیپیداوار ہے کہ ’عورت پرایا دھن ہوتی ہے‘۔ اسی وجہ سے ایسے لوگوں کے نزدیک نکاح میں عورت کو قبول کرنے کے بجائے ’دان ‘ کردیا جاجاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ نکاح کو ’’کنیہ دان ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ 
عرب میں طلاق کا رواج تو تھا، لیکن طلاق کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی، جس کی وجہ سے عورت ظلم و زیادتی کی شکار ہوتی تھی ، کیوں کہ اگر کوئی مرد اپنی کسی بیوی سے محبت نہیں کرتا تھا ، تواس کو ستانے کے لیے پہلے طلاق دے دیتے تھے اور پھر عدت گذرنے سے پہلے رجوع کرلیا کرتے تھے۔ اس طرح سے عورت نہ تو مکمل طور پر آزاد ہوکر دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی تھی اور نہ ہی اس مرد سے حقوق زوجیت حاصل ہوتے تھے۔ عورتوں پر اس ظلم و زیادتی کو روکنے کے لیے اسلام نے طلاق کی تعداد مقرر کردی اور اسے تین تک محدود کردیا کہ رجوع تین طلاق تک ہی کرسکتے ہیں، اس کے بعد نہیں کرسکتے۔ تفسیر عثمانی میں ہے کہ 
’’اسلام سے پہلے دستور تھا کہ دس بیس جتنی بار چاہتے، زوجہ کو طلاق دیتے، مگرعدت کے ختم ہونے سے پہلے رجعت کرلیتے۔ پھر جب چاہتے طلاق دیتے اوررجعت کرلیتے۔ اور اس صورت سے بعض شخص عورتوں کو اسی طرح بہت ستاتے ، اس واسطے یہ آیت اتری کہ طلاق جس میں رجعت ہوسکے، ، کل دو بار ہے۔ ایک یا دو طلاق تک تو اختیار دیا گیا کہ عدت کے اندر مرد چاہے تو عورت کو پھر دستور کے موافق رکھ لے یا بھلی طرح سے چھوڑ دے۔ پھر بعد عدت کے رجعت باقی نہیں رہتی۔ ہاں اگر دونوں راضی ہوں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ اور اگر تیسری بار طلاق دے گا تو پھر ان میں نکاح بھی درست نہ ہوگا، جب تک دوسرا خاوند اس سے نکاح کرکے صحبت نہ کرلیوے۔ (البقرۃ،آیت نمبر: ۲۲۹)
اسلامی ہدایت
طلاق و عدت کے بارے میں اصولی ہدایت یہ ہے کہ مرد و عورت کے درمیان جو رشتہ قائم ہوگیا ہے، اسے ہمیشہ برقرار رکھے اور اس رشتہ محبت پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دے۔ لیکن اگر بتقاضائے بشریت ، یہ رشتہ نفرت و تلخی میں بدل جائے تو اس کی اصلاح کے لیے تین پروسیس ہیں:
پہلا پروسیس
(۱) سب سے پہلے ، میاں بیوی خود مل کر اپنے تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کریں اور آپس میں کچھ ٹرم اینڈ کنڈیشن طے کرکے رشتہ کو دوبارہ بحال کریں۔
دوسرا پروسیس 
(۲) لیکن اگر یہ نہ ہوپائے اور دونوں کسی مشترک اور متحدہ پوائنٹ پر جمع نہ ہوسکیں، تو پھر لڑکے کے لیے تین صورتیں ہیں: 
(۱) سب سے پہلے عورت کو سمجھائے بجھائے۔ اگر اس سے معاملہ ٹھیک ہوجاتا ہے تو بہت بہتر ہے۔ اگر نہیں ہوتا ہے تو پھر دوسرا طریقہ یہ اختیار کرے کہ 
(۲) عورت کے ساتھ سونا چھوڑ دے۔ یہ عورت کے لیے انتہائی دشوار مرحلہ ہوتا ہے اور بالعموم عورتیں نافرمانی سے باز آجاتی ہیں، لیکن اگر معاملہ اس سے بھی زیادہ بگڑ چکا ہے، تو تیسرا طریقہ یہ ہے کہ 
(۳) عورت کی ہلکی سرزنش کرے۔ یہ اصلاح کا آخری حربہ ہے ۔ اگر سرزنش کے خوف سے معاملہ ٹھیک ٹھاک ہوجاتا ہے، تو بہت اچھا ہے، لیکن معاملہ یہاں بھی نہیں سدھرتا ہے تو پھر آگے دو صورتیں ہیں: 
(الف) یا تو یہ معاملہ زوجین کے بجائے ان کے سرپرست حضرات حل کریں اور صلح کی مکمل کوشش کریں۔ اگر سرپرستوں سے معاملہ حل ہوجاتا ہے اور میاں بیوی کے درمیان تعلقات استوار ہوجاتے ہیں، تو بہت بہتر ہے۔ لیکن اگر سرپرستوں سے بھی معاملہ حل نہیں ہوتا تو
(ب) دوسری صورت یہ ہے کہ مرد عورت دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم مقرر کردیا جائے۔ اور ان دونوں حکموں کو فیصلہ کا مکمل اختیار دے دیا جائے۔ 
قرآن کا اعلان ہے کہ اگریہ حکم زوجین کے درمیان اصلاح کی کوشش کریں گے، تو اللہ ان کی پرخلوص نیت اور اچھی کوشش سے ضرور موافقت پیدا کردیں گے۔(۳) 
تیسرا پروسیس
(۳) اگر بالفرض درج بالا چھ شکلیں(۱۔ زوجین کی آپسی مصالحت۔ ۲۔ عورت کو نصیحت۔ ۳۔عورت کے بستر سے علاحدگی۔ ۴۔ عورت کی ہلکی سرزنش۔ ۵۔ سرپرستوں کی مصالحت۔ ۶۔ حکمین کی مصالحت) بھی کار گر نہیں ہوتی ہیں۔ تو یہاں سے تیسرا پروسیس شروع ہوتا ہے ۔ اس کی دو شکلیں ہیں: 
(الف)ایک شکل تو یہ ہے کہ اگر یہ ساری پریشانی شوہر کے لیے بیوی کی طرف سے ہے، تو شوہر بیوی کی اصلاح حال کے لیے اس وقت ایک طلاق دے جب وہ پاکی کی حالت میں ہو اور اس پاکی کی حالت میں اس سے ہمبستری نہ کی ہو۔ اور تین مہینے کے اندر اندر بیوی کے سدھرنے کا انتظار کرے۔ اگر اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ میری وجہ سے میرا شوہر پریشان ہے ، مجھے اپنی عادتوں سے باز آجانا چاہیے۔ یا شوہر کو یہ احساس ہوجائے کہ شاید غلطی ہماری ہی ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، تو عدت کے اندر رجوع کرلے اور ایک خوشگوار محبت بھری زندگی گذارے۔ 
پھر کبھی پانچ دس سال گذرنے کے بعد دونوں میں اختلافات ہوتے ہیں ، تو پھراسی طرح درج بالا چھ طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے صلح و مصالحت کی کوشش کی جائے گی ۔ لیکن بالفرض ان سے معاملہ ٹھیک نہیں ہوتا ہے ، تو پھر شوہر اپنی بیوی کو اس پاکی کی حالت میں ، جس میں ہمبستری نہیں کی ہے، ایک طلاق دے گا۔ اور تین مہینے تک سدھرنے کا انتظار کرے گا۔ اگر تین مہینے کے اندر اندر دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں دوبارہ مصالحت کرکے محبت آمیز زندگی کی شروعات کرنی چاہیے، تو عدت کے اندر شوہر رجوع کرلے ۔ اور محبت بھری زندگی کی نئی شروعات کرے۔ 
زندگی یوں ہی ہنسی خوشی گذرتے گذرتے بالفرض اگر پھر اختلاف ہوجاتا ہے ، تو اصلاح حال کے لیے پھر درج بالا چھ صورتوں کو اپنایا جائے گا۔ مان لیجیے کہ اگر ان سے بھی مصالحت نہیں ہوپاتی ہے اور مصالحت کے لیے کوئی راہ نہیں بچتی،تو چوں کہ اس سے پہلے دو دو بار یہ سارے طریقے ناکام ہوچکے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ مصالحت کی بارہ کوششیں ناکام ہوچکی ہیں،اس لیے فطری طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ شاید ان دونوں کی زندگی ایک ساتھ نہیں گذر سکتی، اس لییایسی زندگی کو الجھنوں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے لڑکا تیسری طلاق دیدے۔ 
تین طلاق پورے ہونے کے بعد نہ اب لڑکے کو اختیار رہے گا کہ عدت کے اندر پھر رجوع کرکے عورت کو زندگی کو جہنم بنائے ۔ اور نہ لڑکی کے لیے گنجائش ہے کہ جس مرد نے اس کو دو دو مرتبہ اسے زندگی سے نکالنے کی کوشش کی، پھر تہ بارہ اسی کی زندگی کی زینت بنے ۔ اب لڑکا بھی کسی دوسری عورت سے شادی کرکے اپنی زندگی کی دوسری شروعات کرے اور لڑکی بھی کسی دوسرے شریک سفر کو اپنا ہم سفر بناکر خوشگوار زندگی گذارے۔ 
(ب)دوسری شکل یہ ہے کہ اگر معاملہ الٹا ہو، یعنی شوہر بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن بیوی ہی شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، تو ایسا نہیں ہے کہ عورت مرد کی زندگی سے بالکل بھی آزاد نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خلع کی پیشکش کرے، یعنی شوہر سے کچھ مال کے عوض میں طلاق طلب کرے۔ اگر شوہر منظور کرلے گا، تو بذریعہ خلع طلاق واقع ہوجائے گی۔ (۴) 
حلالہ کی حقیقت
تیسری طلاق دینے کے بعد مرد کو تو بالکل اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو دوبارہ اپنے نکاح میں لائے، کیوں کہ اگر وہ کسی اور کی بیوی بن چکی ہے، پھرتو مردبالکل نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگرطلاق کے بعد کسی کی زوجیت میں نہیں گئی ہے، تو بھی مرد نکاح نہیں کرسکتا، کیوں جس مرد کو قانون فطرت نے طلاق کے مرحلے سے پہلے پہلے بارہ مرتبہ موقع دیا اور اس کے باوجود بھی اس عورت کی قدر نہیں کی، تو اب تین طلاق دینے کے بعد یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مرد ہی اس عورت کے قابل نہیں ہے۔ 
لیکن اگر عورت ہی کی یہ خواہش ہے کہ چلو جیسا بھی تھا، ہم نے زندگی کی شروعات اس کے ساتھ کی تھی ، تو اختتام بھی اسی کے ساتھ کریں گے، تو صرف عورت کے لیے شریعت نے یہ گنجائش رکھی ہے کہ تم پہلے کسی دوسرے شخص سے شادی کرو، پھر اس کے ساتھ زندگی اتنی دوبھر ہوجائے کہ مذکورہ بالا تینوں پروسیس سے گذرنے پر مجبور ہوکر تیسری طلاق تک نوبت آجائے ۔ اور تیسری طلاق دیدے، تو اب عدت گذارنے کے بعد پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہو۔ اسی کو شریعت میں حلالہ کہاجاتا ہے۔ تو گویا حلالہ کوئی نکاح نہیں، بلکہ معاملہ کو سلجھانے کے ایک پروسیس کا نام ہے، جو صرف اور صرف عورت کا حق و اختیار ہے۔ (۵) 
طلاق کا موجودہ رویہ
لیکن آج طلاق کے حوالے سے ہمارا رویہ یہ ہے کہ جب کسی بات پر غصہ آتا ہے تو ہم انجام کو سوچے بغیر یکبارگی تینوں طلاق دے ڈالتے ہیں، جس سے کئی قسم کے خانگی مسائل جنم لے لیتے ہیں۔ طلاق دینے کے اس طریقے کو طلاق بدعت کہاجاتا ہے۔ ایک طرف جہاں اس عورت کی زندگی اندھیرے میں چلی جاتی ہے، وہیں دوسری طرف بچوں کا مستقبل بھی تاریک ہوجاتا ہے اور خاندان انھونی مشکلات سے دوچار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک پاک رشتے کی وجہ سے جن دو خاندانوں میں الفت و محبت کا رشتہ قائم ہوا تھا، وہ نفرت و عداوت میں بدل جاتا ہے ۔ 
غیروں کا اعتراض
اس صورت حال کو دیکھ کر ہمارے غیر مسلم یہ اعتراض کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ایک عورت جس نے اپنے والدین کاسب کچھ چھوڑ کر اپنی مکمل زندگی جس مرد کے حوالے کیا اور ہمہ وقت اس کی ، اس کے گھر کی ، اس کے بچوں کی اور اس کے ماں باپ کی خدمت میں لگی رہی، محض تین مرتبہ طلاق کا لفظ بولنے سے یکبارگی یہ سب چیزیں کیسے ختم ہوجائیں گی؟ یہ نقطہ نظر اس نیتجے تک پہنچاتا ہے کہ تین طلاق عورتوں پر ظلم اور نا انصافی ہے، لہذا مسلم مہیلاوں کے ساتھ یہ ناانصافی بند ہونی چاہیے۔ چنانچہ موجودہ بی جے پی کی سرکار نے مسلمانوں کے خلاف طوفان بد تمیزی مچاتے ہوئے اس مسئلے کو اولیت دے کر پارلیمنٹ میں ایک ڈرافٹ بل پیش کیا ۔ اس کا اردو ترجمہ ہمارے رفیق محترم مولانا عظیم اللہ صاحب قاسمی صدیقی میڈیا انچارج جمعیۃ علماء ہند نے کیا ہے، ان کے شکریہ کے ساتھ یہاں پیش کیا جارہا ہے ۔
(۱) بل کا مقصد 
شادی شدہ مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ان کے شوہر کے ذریعہ دی جانے والی طلاق کی روک تھام اورمطلقہ خواتین کو ان حقوق فراہمی جو ری پبلک آف انڈیا کی ۶۸؍ سالہ مدت میں پارلیامنٹ کے ذریعہ طے کیے گئے ہیں۔
باب (۱)
پارلیامنٹری 

سیکشن۱۔ ۱۔اس قانون کو ’’مسلم خواتین (تحفظِ حقوق نکاح) ایکٹ۲۰۱۷ ء کہا جائے گا۔
۲۔ یہ جمو ں وکشمیر کے علاوہ تمام ریاستوں میں نافذ ہو گا۔
۳۔یہ مرکزی حکومت کے ذریعہ سرکاری گزٹ میں جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے تحت طے کردہ تاریخ سے نافذ ہو گا۔
سیکشن۲۔ توضیح:
اس قانون میں ذکرکردہ الفاظ کے درج ذیل معنی ہوں گے چاہے دوسری جگہ جو بھی معنی ہو۔
(الف) ’’الیکٹرانک فارم‘‘Electronic formکا معنی یہاں بھی وہی ہے جو آئی ٹی ایکٹ۲۰۰۰ء کے سیکشن (۲) کے ذیلی سیکشن (۱) میں موجود ہے۔
(ب) طلاق Talaqکامطلب ’’طلاق بدعت ’’ہے یا اس جیسی طلاق جوفوری طور سے اثر انداز ہوتی ہے اور ایسی ناقابل ترمیم طلاق جو کسی مسلم شوہر نے دی ہو۔
(ج) ’’مجسٹریٹ‘‘ Magistrate کا مطلب فرسٹ کلاس کا مجسٹریٹ جو کہ کریمنل پروسیزر۱۹۷۳ء کے تحت اس علاقہ میں مقرر ہو جہاں متعلقہ شادی شدہ خاتو ن رہتی ہے۔ 
باب (۲) 
طلاق کا اعلان غیر قانونی اور غیر موثر ہو گا۔ 
سیکشن۳۔ کسی بھی شخص کے ذریعہ اپنی بیوی کو دی گئی کوئی بھی طلاق، چاہے وہ لفظ کے ذریعہ ہو، یا بولی گئی ہو یا لکھی گئی ہو یا الیکٹرونک شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں ہو، غیر موثر اور غیر قانونی ہو گی ۔
سیکشن۴۔ سیکشن۳ کی تشریح کے مطابق ’’طلاق‘‘ جو شخص بھی اپنی بیوی کو دے گا، اسے تین سال کی قیداور جرمانہ کی سزا دی جائے گی۔
باب (۳) 
شادی شدہ مسلم خواتین کے حق کا تحفظ 
سیکشن ۵۔ کسی بھی نافذ العمل قانون میں شامل ہدایات کی عمومیت سے قطع نظر،ایسی مسلم شادی شدہ خاتون جسے طلاق دی گئی ہے، وہ اپنے اور اپنے زیر کفالت بچے کے لیے گزارہ خرچ لینے کی حق دار ہو گی، جس کی مقدار مجسٹریٹ کے ذریعہ طے کی جائے گی۔
سیکشن۶۔ نافذ العمل کسی بھی قانون میں شامل کسی امر کے باوجود،طلاق دیے جانے کی صورت میں، عورت اپنی نابالغ اولاد کی کسٹڈی کی حق دار ہو گی،اسی طرح سے جیسا کہ مجسٹریٹ طے کردے۔
سیکشن ۷۔ کریمنل پروسیز ر ایکٹ ۱۹۷۳ء میں شامل کسی بھی بات کے باوجود،اس ایکٹ کے تحت کیا گیا کوئی بھی جرم مذکورہ کوڈ کے مفہوم کے مطابق قابل گرفت (یعنی بغیر گرفتاری وارنٹ) اور ناقابل ضمانت ہو گا۔
قانون سازی کے اسباب و عوامل 
سائرہ بنام حکومت ہند اور دیگر کے مسئلے میں ۲۲؍اگست ۲۰۱۷ء کو 3۔2کے اپنے اکثریتی فیصلہ میں طلاق بدعت (تین طلاق جو ایک بار میں اور ایک وقت میں دی جائے) کو سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا تھا۔اس فیصلے نے مسلم خواتین کو طلاق کے اس وحشیانہ طریقہ عمل سے نجات دلایاجس میں مصالحت کی کوئی راہ نہیں بچتی تھی۔
۲۔ مذکورہ عرضی گزار(خاتون) نے چیلنج کیا تھا کہ بہت ساری دشواریو ں کے علاوہ’طلاق بدعت‘ کا عمل عورت کی عزت کے خلاف اور تفریق پر مبنی ہے۔اس فیصلے نے حکومت کے اس موقف کو بھی ثابت کردیا کہ ’طلاق بدعت‘ ’جنسی مساوات کے اصول،عورت کی عزت اور دستوری اخلاقیات کے خلاف ہے۔اس کے علاوہ دستور کے تحت دیے گئے جنسی مساوات سے متعلق حقوق کے بھی خلاف ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جو کہ مذکورہ مقدمہ میں فریق نمبرسات تھا،اپنے حلفیہ بیان میں دیگر باتوں کے علاوہ،اس نے اس بات کو پیش کی تھی کہ طلاق بدعت جیسے مذہبی مسائل میں عدالت کو فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے لیکن یہ کام مقننہ کا ہے کہ وہ اس مسئلہ پر قانو ن بنائے۔اس نے سپریم کورٹ میں یہ عرضی بھی داخل کی تھی کہ وہ اس عمل کے خلاف مسلم طبقہ کے ممبران کو ایڈوائزری جاری کرے گا۔
۳۔سپریم کورٹ کے ذریعہ طلاق بدعت کو منسوخ کیے جانے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے یقین دلانے کے باوجود، طلاق بدعت دیے جانے سے متعلق ملک کے مختلف حصوں سے شکایتیں مل رہی ہیں۔یہ دیکھا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کا طلاق بدعت سے متعلق کیا گیا فیصلہ بعض مسلمانوں کے درمیا ن طلاق دہی کی اعداد و شمار کو روکنے میں کارگر ثابت نہیں ہو رہا ہے۔اسی وجہ سے یہ محسوس کیا گیا کہ سرکار، سپریم کورٹ کے فیصلہ کو موثر بنانے کے لیے اقدام کرے تاکہ غیر قانونی طلاق کے ذریعہ متاثرہ خواتین کو درپیش مشکلات کا حل نکلے۔
۴۔ بے یارو مددگار شادی شدہ خواتین کے ساتھ مسلسل ہورہی اذیتوں کو روکنے اور انھیں راحت دینے کے لیے فوری طور سے قانون سازی کی ضرور ت ہے۔ یہ بل، سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق طلاق بدعت کو غیر قانونی و غیر موثر قرار دینے کی تجویز پیش کرتا ہے۔مزید تین طلاق دینا ایک قابل سزا جرم ہو۔ یہ ایسی طلاق کے عمل کو روکنے میں معاون ہو گا جس میں علاحدگی کے دوران عورت کچھ نہیں کہہ سکتی۔اس بات کی بھی تجویز پیش کی جاتی ہے کہ تین طلاق دیے جانے کی صورت میں ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے عورت کو شوہر سے گزارہ بھتہ مہیا کرایا جائے، خود اس کے لیے اور اس کے زیر کفالت بچوں کے لیے اور بیوی کو نابالغ اولا د کی کسٹڈی کا بھی حق ہو۔
۵۔ یہ قانون، شادی شدہ خواتین کے جنسی مساوات او رجنسی انصا ف کے دستوری حق کو وسیع حد تک یقینی بنانے میں معاون ہو گا۔ یہ قانون ناانصافی کے خاتمہ اور عورت کو مضبوط کرنے کے لیے بنیادی حق میں بھی کچھ تک معاو ن ہو گا۔(روی شنکر پرشاد)
ایکٹ میں ترمیم و منظوری
آج بتاریخ ۱۹؍ ستمبر ۲۰۱۸ء کو بی جے پی کی کابینہ نے اس آرڈینینس کو منظوری دیتے ہوئے تین ترمیمات بھی کی ہیں:
ایک ترمیم: پہلے یہ تھا کہ طلاق کے معاملہ میں کوئی بھی، حتیٰ کہ پولیس بھی کیس درج کراسکتی تھی،لیکن اب نئے ترمیم کا کہنا ہے کہ اب صرف متاثرہ خاتون، یا اس کا سگا رشتہ دارہی کیس درج کراسکتا ہے۔ 
دوسری ترمیم:پہلیپولیسپیشگی گرفتاری وارنٹ جاری کیے بغیرطلاق دینے والے کو گرفتاری کر سکتی ہے، لیکن اب نئی ترمیمکے مطابق مجسٹریٹ کو ضمانت دینے کااختیار ہے۔
تیسری ترمیم: پہلیکیس درج ہونے کے بعد زوجین کو مصالحت کرنے کا اختیار نہیں تھا،لیکن اس جدید ترمیم میں یہ کہا گیا ہے کہ مجسٹریٹ کے سامنے شوہر اور بیوی مصالحت کرسکتے ہیں۔ 
ایکٹ پر ایک نظر
اس ایکٹ کے باب نمبر ۲؍ سیکشن ۳؍ اور سیکشن ۴؍ کے مطابق کوئی بھی طلاق دی جائے ، وہ واقع نہیں ہوگی، اس کے باوجود محض طلاق کا لفظ کہہ دینے سے تین سال کی قید اور ساتھ میں جرمانہ بھی لگایا جائے گا۔ اس حوالے سے سماجی حالات اور بشری نفسیات کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر غور کیا جائے تو اس میں کئی طرح کی خامیاں نظر آئیں گی: 
(۱) جس طرح نکاح فطرت کی آواز ہے، اسی طرح بعض حالات میں طلاق بھی ایک ضرورت ہے۔ اس پر مکمل پابندی لگادی جائے گی تو مردوں اور عورتوں ؛ بالخصوص عورتوں کے لیے لامتناہی ظلم کا وہی دروازہ دوبارہ کھل جائے گا، جو لاتعداد طلاق و رجوعکے نام سے قبل ازاسلام زمانہ جاہلیت کی شناخت تھی اور جسے اسلام نے آکر بند کیا تھا۔ 
(۲) اگرخونی رشتے: ماں باپ کی طرح نکاح کو بھی ناقابل شکست رشتہ قرار دیا جائے، تو بسااوقات مرد و عورت دونوں کے لیے زندگی جہنم بن سکتی ہے۔ کیوں کہ اس امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر غیر کفو میں رشتہ ہوگیا اور دونوں میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی تو زندگی بھر دونوں ایک دوسرے کے لیے زندگی کا عذاب بن جائیں گے، تو جس رشتہ کی نیو محبت و الفت کے لیے رکھی جاتی ہے، وہ نفرت و عداوت کا سرچشمہ بن جائے گا ۔ اور اس کا علاج اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے کہ دونوں میں علاحدگی کا بھی آپشن رکھا جائے ۔ اور اسی کا نام طلاق ہے۔ 
(۳)خود سیکشن ۴؍ ، سیکشن ۳ ؍ کے متضاد مفہوم پر مشتمل ہے، کیوں کہ سزا کے لیے جرم کا ثبوت ضروری ہے۔ جرم طلاق کا وقوع ہے ، جو تفریق پر منتج ہے۔ اور جب سیکشن ۳؍ کے مطابق طلاق واقع ہی نہیں ہوگی، تو تفریق کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اور جب تفریق نہیں پائی گئی، تو جرم کا ثبوت نہیں ہوا۔ اور جب جرم ہی ثابت نہیں ہوا تو پھر تین سال کی قید اور مزید برآں سزا کا کیا جواز ہوسکتا ہے!۔ 
(۴) دوسری حیثیت سے بھی غور کیجیے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی ، جو خود قانون کی رو سے واقع نہیں ہوئی، اس کے باوجود شوہر کو تین سال کی قید کی سزا سناکر مقید کردیا گیا۔ اب تین سال کے بعد شوہر اپنے گھر آتا ہے تو کیا ایسا شوہر اپنی بیوی کو آتے ہی کہے گا کہ ’’ میڈم ! آئی لو یو‘‘ ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کی وجہ سے مجھ تین سال کی قید ہوگئی۔ پھر آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایسی بیوی کے ساتھ آگے کی زندگی میں شوہر کا کیا رویہ ہوگا!۔
(۵) پھر اس اعتبار سے بھی سوچیے کہ جس عورت کی وجہ سے اس کا بیٹا جیل چلا جائے، کیا وہ ساس اور سسرال کے دیگر افراداس عورت کو قبول کرسکیں گے۔ اگر بالفرض برداشت بھی کرلیں گے تو اس گھر میں اس عورت کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جائے گا، یہ کہنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ 
(۶) اس پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ قید کے ان تین سالوں کے دوران ، بیوی، بچوں اور شوہر کے والدین کی کفالت کا ذمہ دار کون ہوگا۔ 
پھر صحیح راستہ کیا ہے
آپ نے اسلام سے پہلے اور دیگر مذاہب کے نکاح و طلاق دونوں کا مطالعہ کرلیا۔ اور پھر اسلام نے ان میں کیا کیا اصلاحات کیں، وہ بھی آپ نے پڑھ لیا ، اور یہ بھی آپ نے پڑھ لیا کہ اسلام میں میاں بیوی کے درمیان تفریق تک پہنچنے تک کے لیے تقریبا بارہ مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، پھر تینوں طلاق کی نوبت آتی ہے۔اگر اسلام کے بتائے اس طریقے کے مطابق طلاق دی جائے تو راقم کا عندیہ ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی طلاق واقع ہوگی۔ کیوں کہ ناچیز کی معلومات کے مطابق آج تک کوئی ایک کیس بھی دیکھنے سننے یا پڑھنے کو نہیں ملا کہ جس نے شریعت کے صحیح طریقے کے مطابق طلاق دی ہو اور پھر وہ تفریق کے مرحلے تک پہنچ گیاہو؛ اس کی وجہ یہی ہے کہ تفریق کا یہ اسلامک لیگل سسٹم اتنا فطری اور انسانی نفسیات سے ہم آہنگ ہے کہ یہاں تک مرد و عورت اسی وقت پہنچ سکتے ہیں کہ جب دونوں کی مشترکہ زندگی ناقابل برداشت ہوجائے۔ برداشت اور مصالحت کی ذرا بھی گنجائش باقی رہے گی تو تینوں طلاق کی نوبت نہیں آسکتی۔ 
لیکن۔۔۔ چوں کہ ہمارا طریقہ شرعی طریقہ سے مختلف ہوگیا ہے، اس لیے آج معاشرہ میں دھڑا دھڑ طلاقیں ہور ہیں اور مرد و عورت دونوں کی زندگیاں جہنم کدہ بن رہی ہیں، ایسی صورت حال میں کسی لیگل ریفارم کی نہیں، کیوں کہ لیگل ریفارم کی جتنی ضرورت تھی، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام کرچکا ہے؛ بلکہ سوشل کی ریفارم کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر زندگی عذاب بن جائے تو اسلام اسے کس طرح حل کرنے کا فارمولہ پیش کرتا ہے ،اس فارمولہ پر عمل کیا جائے، تبھی عورتوں کے ساتھ مکمل انصاف ہوگا۔ 
لیکن اس کے بجائے اگر لیگل ریفارم کی کوشش کی جائے گی تو یہ فطری قانون سے ٹکرانے کے مترادف ہوگی، جس میں کبھی بھی کامیابی نہیں مل سکتی۔ 
مآخذو مصادر
(۱)
أَنَّ النِّکَاحَ فِي الجَاھِلِیّۃِ کَانَ عَلَی أَرْبَعَۃِ أَنْحَاءٍ: فَنِکَاحٌ مِنْھَا نِکَاحُ النَّاسِ الیَوْمَ: یَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلی الرَّجُلِ وَلِیَّتَہُ أَوِ ابْنَتہُ، فَیصْدِقُھَا ثُمَّ یَنْکِحُھَا، وَنِکَاحٌ آخَرُ: کَانَ الرَّجُلُ یَقُولُ لِامْرَأَتِہِ إِذَا طَھُرَتْ مِنْ طَمْثِھَا: أَرْسِلِي إِلَی فُلاَنٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْہُ، وَیَعْتَزِلُھَا زَوْجُھَا وَلاَ یَمَسُّھَا أَبَدًا، حَتَّی یَتَبَیَّنَ حَمْلُھَا مِنْ ذَلِکَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْہُ، فَإِذَا تَبَیَّنَ حَمْلُھَا أَصَابَھَا زَوْجُھَا إِذَا أَحَبَّ، وَإِنَّمَا یَفْعَلُ ذَلِکَ رَغْبَۃً فِي نَجَابَۃِ الوَلَدِ، فَکَانَ ھَذَا النِّکَاحُ نکَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ۔ وَنکَاحٌ آخَرُ: یَجْتَمِعُ الرَّھْطُ مَا دُونَ العَشَرَۃِ، فَیَدْخُلُونَ عَلَی المَرْأَۃِ، کُلّھُمْ یُصِیبُھَا، فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ، وَمَرَّ عَلَیھَا لَیَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَھَا، أَرْسَلَتْ إِلَیھِمْ، فَلَمْ یَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْھُمْ أَنْ یَمْتَنِعَ، حَتّی یَجْتَمِعُوا عِنْدَھَا، تَقُولُ لَھُمْ: قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي کَانَ مِنْ أَمْرِکُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ، فَھُوَ ابْنُکَ یَا فُلاَنُ، تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِہِ فَیَلْحَقُ بِہِ وَلَدُھَا، لاَ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَمْتَنِعَ بِہِ الرَّجُلُ، وَنِکَاحُ الرَّابِعِ: یَجْتَمِعُ النَّاسُ الَثِکیرُ، فَیَدْخُلُونَ عَلَی المَرْأۃِ، لاَ تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَھَا، وَھُنَّ البَغَایَا، کُنّ یَنْصِبْنَ عَلَی أَبْوَابِھِنَّ رَایَاتٍ تَکُونُ عَلَمًا، فَمَنْ أَرَادَھُنَّ دَخَلَ عَلَیْھِنَّ، فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاھُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَھَا جُمِعُوا لَھَا، وَدَعَوْا لَھُمُ القَافَۃَ، ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَھَا بِالَّذِي یَرَوْنَ، فَالْتَاطَ بِہِ، وَدُعِيَ ابْنَہُ، لاَ یَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِکَ ، فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالحَقِّ، ھَدَمَ نِکَاحَ الجَاھِلِیَّۃِ کُلَّہُ إِلَّا نِکَاحَ النَّاسِ الیَوْمَ۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب من قال لانکاح الا بولی)
(۲)
ان علیا قال لابن عباسؓ : ان النبی ﷺ نھیٰ عن المتعۃ عن لحوم الحمر الاھلیۃ زمن الخیبر۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب نھیٰ رسول اللّٰہ ﷺ عن نکاح المتعۃ اخیرا۔ 
(۳)
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَھُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِھِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیبِ بِمَا حَفِظَ اللَّہُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَھُنَّ فَعِظُوھُنَّ وَاھْجُرُوھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوھُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْھِنَّ سَبِیلًا إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیرًا(۳۴) وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوا حَکَمًا مِّنْ أَھْلِہِ وَحَکَمًا مِّنْ أَھْلِھَا إِن یُریدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللَّہُ بَیْنَھُمَا إِنَّ اللّہََ کانَ عَلِیمًا خَبِیرًا (۳۵) النساء)
(۴)
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَیْتُمُوھُنَّ شَیْءًا إِلَّا أَنْ یَخَافَا أَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللَّہِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللَّہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیہِ مَا فِيمَا افْتَدَتْ بِہِ تِلکَ حُدُودُ اللَّہِ فَلَا تَعْتَدُوھَا وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُودَ اللّہِ فَأُولَئکَ ھُمُ الظَّالِمُونَ۔ (البقرۃ، ۲۲۰)
(۵) فَإِن طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لہُ مِن بَعْدُ حَتّیٰ تَنکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ ، فَإِن طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیھِمَا أَن یَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن یُقِیمَا حُدُودَ اللّہِ ، وَتِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ یُبَیِّنُھَا لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ، (البقرۃ، ۲۳۰)