3 Aug 2018

جمعیۃ یوتھ کلب کیا ہے؟

جمعیۃ یوتھ کلب کیا ہے؟
محمد یاسین قاسمی جہازی
۲۴؍ جولائی ۲۰۱۸ء پیر کے دن شہر علم دیوبند میں ، جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام تقریبا گذشتہ چار سال سے جاری بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ کا مظاہرتی پیروگرام ہوا۔ اور اسی پروگرام میں جمعیۃ یوتھ کلب کو بھی متعارف کیا گیا۔ مظاہرتی پروگرام میں آفات و حادثات کے مواقع پر وسائل کے بغیرمتاثرین میں فرسٹ ایڈ اور راحت رسانی کا کام کیسے کیا جائے اور اپنے اندر انسانی خدمت کے جذبہ کے کیسے پیدا کیا جائے؛ اس قسم کے طریقوں پر مشتمل تربیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرہ کی یہ خبر بھارتی میڈیا میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور کچھ چینلوں نے حقیقت سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ،پروگرام کو کچھ منفی کردار والی تنظیموں کی سرگرمیوں سے جوڑ دیا۔ یہ خبر ٹرینڈ ہوجانے کی وجہ سے لوگوں میں حقیقت جاننے کا تجسس پیدا ہوا۔ یہ تحریر اسی تجسس کی تسکین کی ایک کوشش ہے۔ 
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ جمعیۃ یوتھ کلب کیا ہے؟ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ مختلف سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں کو متحرک و فعال رکھنے کے لیے کیڈر اور والنٹیر کی ضرورت ہوتی ہے، جو تقریبا ہر زندہ تنظیموں اور پارٹیوں کے پاس ہوتے ہیں۔ جمعیۃ بھی اسی مقصد سے اپنے والٹنیر کو جوڑنے کا کام کر رہی ہے، جس کو جمعیۃ یوتھ کلب کا نام دیا گیا ہے۔ اس سوال کا ایک جواب تو یہ تھا اور دوسرا جواب یہ ہے کہ جمعیۃ یوتھ کلب کوئی نیا معاملہ نہیں ہے؛ بلکہ 20 / واں اجلاس عام منعقدہ 9/10/11/ 1960 میں منظور کردہ دستور اساسی جمعیۃ علماء ہند کی دفعہ (93) میں مذکور خدام ملت کی تشکیل کے تحت اس کا بنیادی و ضمنی ڈھانچہ ہے، جس کا نام جمعیۃ یوتھ کلب رکھا گیا ہے۔ یہ کلب بزرگوں کے خوابوں کی تعبیر کا حسین عنوان ہے اور وقت کے نبض کی صحیح تشخیص ہے۔ یہ کلب جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری حفظہ اللہ اور حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کی دور رس نگاہوں کا پرتو جمیل ہے۔ اورہند میں ملت اسلامی کے سنہرے مستقبل کا اشاریہ بھی ہے۔ 
جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ جمعیۃ علماء ہند کا ہر کام قرآن و احادیث کی ہدایات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کلب کے بھی دو بنیادی مقاصد ہیں، جن کے حوالے احادیث میں موجود ہیں۔
(۱) طاقت ور مومن تیار کرنا۔اس مقصد کا سرچشمہ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ المومن القوی خیر و احب الیٰ اللہ من المومن الضعیف۔ یعنی طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے زیادہ بہتر اور محبوب ہے۔ 
(۲) انسانیت کا خدمت گار بنانا۔یہ اس نبوی فرمان کا عملی مظہر ہے کہ خیرکم من ینفع الناس۔یعنی لوگوں کو نفع پہنچانے والا سب سے زیادہ بہتر شخص ہوتا ہے۔ 
ان دونوں مقاصد کے دائرہ کارکا تعین کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کی دستور اساسی کی دفعہ (۹۳) شق نمبر ۲ میں کہا گیا ہے کہ ’’جمعیۃ علماء ہند کی ہدایات کے بموجب:
(الف) سماجی اور جماعتی خدمات انجام دینا۔
(ب) بلا امتیاز مذہب و ملت مظلوموں کی امداد اور خلق خدا کی خدمت کرنا۔
(ج) قیام امن، حفاظت وطن اور ملک کے تعمیری پروگراموں میں تنہا یا دوسری جماعتوں کے ساتھ حصہ لینا۔
(د) مسلمانوں میں دینی رجحان پیدا کرنا۔
(ھ) اسکاؤٹنگ کے طریقے پر تربیت حاصل کرنا۔‘‘
دیوبند میں منعقد پروگرام کے موقع پر اس کلب کے تعارف و طریق کار پر مشتمل جو کتابچہ پیش کیا گیا ہے، اس میں درج بالا اغراض و مقاصد کے علاوہ شرائط داخلہ بھی بیان کیا گیا ہے، جو دستور اساسی کی دفعہ (۹۳) شق نمبر ۳ سے لیا گیا ہے۔ دستور کا متن یہ ہے کہ 
’’۳۔ شرائط داخلہ
اس تنظیم میں ہر وہ عاقل و بالغ مسلمان داخل ہوسکتا ہے ، جو جمعیۃ علماء ہند کے مقاصد اور طریقۂ کار سے پورا اتفاق رکھتا ہو۔
(الف) جمعیۃ علماء ہند کی ہدایا ت پر عمل کرنے اور اس کے پروگراموں کو کامیاب بنانے ۔
(ب) احترام مذاہب اور حتیٰ الامکان پابندیِ شریعت کرنے۔
(ج) نیک چلن رہنے ، خدمت خلق اور ہر ایک ساتھ اخلاق سے پیش آنے کا عہد کرے ۔
(د) جمعیۃ علماء ہند کا منظور کردہ عہد نامہ منظور کرے۔
(ہ) اس کی عمر کم سے کم ۱۸؍ سال ہو اور جسمانی قوت کے لحاظ سے رضا کارانہ خدمات انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔(دستوراساسی، ص؍ ۳۶؍۳۷۔ دستخط شدہ : محمود اسعد مدنی، ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند، ۲۸،۲۹؍ مئی ۲۰۰۵ء ؁)
کتابچہ میں اس کے علاوہ کلب کا جھنڈا، وردی اور تنظیمی خاکہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، چنانچہ اس کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کا جھنڈا ہی اس کلب کا جھنڈا ہوگا، علاوہ ازیں جمعیۃ کے جھنڈے کلر کی ٹوپی اور لباس پر جمعیۃ کا مونو گرام اس کی وردی کا حصہ ہوگا۔ اور ان سب کے حوالے دستور کی دفعہ (۹۳) کی ذیلی شقوں میں موجود ہیں۔ 
جمعیۃ یوتھ کلب کا پیش کردہ دستور اور طریق عمل کے مطابق ،اس کے تین پروسیس ہیں: اس میں شامل ہونے والوں کو سب سے پہلے بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ کی ٹریننگ دی جائے گی، بعد ازاں جمعیۃ یوتھ کلب میں شامل کیا جائے گا۔ اور پھر اس میں سے منتخب افراد کو خدام ملت کا ممبر بنایا جائے گا۔ اور یہی افراد جمعیۃ علماء ہند کے اصل خادم اور والنٹیر قرار پائیں گے۔ 
اس کی ٹریننگ میں دو قسم کی ٹریننگ کا تذکرہ کیا گیا ہے، جو دونوں اس کے دونوں بنیادی مقاصد کے پیش نظر طے کیا گیا ہے۔پہلا مقصد طاقت ور مومن بنانے کے لیے جسمانی ٹریننگ کو لازم کیا گیاہے، جس میں اسکاؤٹ کی ٹریننگ لازمی کی گئی ہے ۔ اور دوسرا مقصد نافع بخش مومن بنانے کے لیے ذہنی تربیت کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت اسوہ نبوی ﷺ پر عمل، دینی خدمات کی ترغیب اور خدمت خلق کا جذبہ و داعیہ پیدا کرنے کے لیے مختلف پروگرام کیے جائیں گے۔ 
جمعیۃ یوتھ کلب کا ایکشن پلان بھی پیش کیا گیا ہے، جس کے مطابق دو ایکشن پلان ہیں: قلیل مدتی اور طویل مدتی۔ قلیل مدتی میں جنوری ۲۰۱۹ء تک دس ہزار نوجوانوں کو کلب کا ممبر بنانے کا ہدف رکھا گیا ہے ، جب کہ طویل مدتی پلان میں دس سالہ منصوبہ پیش کیا گیا ہے، اس کے مطابق آنے والے ۲۰۲۸ء تک سوا کروڑ نوجوانوں کو اس سے جوڑ ا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر سال بارہ لاکھ پچاس ہزار افراد کو ممبر بنایا جائے گا۔ 
دستور میں تنظیمی ڈھانچہ کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں، جس میں چھ عہدوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، سب سے چھوٹی یونٹ کے ذمہ دار کا نام مانیٹر رکھا گیا ہے، جو دس افراد پر ہوگا۔ اس کے بعد دوسرا عہدہ آرگنائزر کا ہے، جو ہر پانچ مانیٹر یعنی پچاس افراد پر ہوگا۔ تیسرا عہدہ نقیب کا ہے، جو پانچ آرگنائزر یعنی دو سو پچاس افراد پر منتخب کیا جائے گا۔ نقیب کے بعد رائد ہوگا، جو پانچ نقیب یعنی ایک ہزار دو سو پچاس افراد پر منتخب ہوگا۔ پھر پانچ رائد یعنی چھ ہزار دو سو پچاس افراد پر ریاستی سالار ہوگا۔ اور سارے ریاستی سالار قومی سطح پر منتخب سالار ملت کے ماتحت ہوں گے۔
اسی طرح خدام ملت کے عہدیداران کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں، جن میں پانچ عہدوں کا تسلسل ہے اعلی ترتیب سے مرکزی؍ریاستی؍ ضلعی ناظم،سکریٹری،آرگنائزر، آگنائزنگ ممبر اور عام ممبر ان ہیں۔ 
کسی بھی تحریک کے ہدف کا تعیین اس کے مقاصد سے کیا جاتا ہے۔ جمعیۃ یوتھ کلب کے دستوری کتابچہ اور جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی صدر و ناظم صاحبان کے بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی آئین و قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے یہاں کے مسلم شہریوں کو ملک و ملت اور انسانیت کے لیے کار آمد و فعال بنانے کے لیے جمعیۃ یوتھ کلب کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔مظلوموں اور مصیبت زدوں کی آہ سننا اور خدمت خلق کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا اس کے ممبران کی خصوصی شناخت ہوگی۔ اس سے وابستہ افراد دینی رجحانات سے اس طرح لبریز ہوں گے کہ ان کی زندگی نبوی سیرت کے عملی مجسمے بن جائیں گے۔اور رحمۃ اللعالمین کے امتی اپنے اندر بھی خلق خدا کے تئیں الفت و محبت کے جذبہ سے سرشار نظر آئیں گے۔ 
اور جس تحریک و تنظیم کے یہ مقاصد ہوں، اسے کسی منفی کردار والی تنظیموں سے جوڑنا ، یقیناًحقیقت کا منھ چڑھانا ہوگا، لہذا جو لوگ اس کے خلاف غلط بیان سے کام لے رہے ہیں، در حقیقت کالے دل اور منفی نظریات و کردار کے پرستار ہیں، جنھیں سچائی اور انسانی ہمدردی سے چڑھ ہے۔ 
آئیے دعا کریں اللہ تعالیٰ اس تحریک کو تمام شرور فتن سے محفوظ رکھے اور اسے قوم و ملت اور بھارت کے لیے نافع بنائے ، آمین۔ 

2 Aug 2018

احرام باندھنے کا طریقہ

احرام باندھنے کا طریقہ
قسط نمبر (15)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
جب بدن کی صفائی سے فراغت ہوجائے تو سلے ہوئے کپڑے اتار دے اور دو کپڑے نئے سفید بے سلے ایک چادر اور لنگی اوڑھ لے۔ بدن اور کپڑوں میں تیل ، خوشبو جو میسر ہو لگائے۔
عن زید بن ثابت انہ رأیٰ النبی ﷺ یجرد لِاھلالِہِ و غَسَلَ (رواہ الترمذی والدارمی)
زید ابن ثابت سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ احرام کے لیے سلے ہوئے کپڑوں سے خالی ہوئے اور غسل فرمایا۔ 
اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے ۔ سلام پھیر کر قبلہ ہی رو بیٹھے اور سر کھول کر اسی جگہ نیت کرے ، یعنی دل سے یہ ارادہ کرے کہ حج یا عمرہ یا دونوں کا ارادہ کرتا ہوں ۔ اگر زبان سے بھی نیت کے الفاظ کہہ لے ، تو بہتر ہے ۔ اگر صرف عمرہ کی نیت ہو، تو کہے:
أللّٰھم انی ارید العمرۃ فیَسِّرْھا لی و تَقَبَّلْھَا مِنِّی۔ 
ائے اللہ ! میں نے عمرہ کا ارادہ کیا ہے تو اس کو میرے لیے آسان کر اور میری طرف سے قبول فرما۔
اور حج کا ارادہ ہو تو کہے: 
أللّٰھُمَّ انی اریدُ الحَجَّ فَیَسِّرْہُ لِیْ و تَقَبَّلْہُ مِنّی۔
ائے اللہ! میں نے حج کا ارادہ کیا تو اس کو میرے لیے آسان کر اور میری طرف سے اس کو قبول فرما۔
اور اگر حج اور عمرہ دونوں کا ارادہ ہوتو کہے کہ: 
أللّٰھُمَّ انی اریدُ الحَج والعمرۃَ فَیَسِّرْہُما لِیْ و تَقَبَّلْھُما مِنِّی۔ 
الٰہی! میں حج اور عمرہ کا ارادہ رکھتا ہوں ، تو ان دونوں کو میرے لیے آسان کردے اور تو ان دونوں کو میری طرف سے قبول فرما۔ 
اور اگر عربی میں نہ کہے تو اردو میں کہہ لے۔ اس کے بعد بلند آواز سے تین مرتبہ تلبیہ پڑھے۔ تلبیہ یہ ہے:
لَبّیکَ أللّٰھُمَّ لَبّیکَ، لَبَّیکَ لا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ۔ (ہدایہ)
اس کے بعد درود شریف پڑھے۔ اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے۔ یہ دعا مستحب ہے:
ألْلّٰھُمَّ اِنِّی أسْءَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَضَبِکَ وَالنَّارِ۔ 
الٰہی! میں تجھ سے تیری رضا اور جنت چاہتا ہوں اور تیرے غضب اور دوزخ سے تیری پناہ ڈھونڈھتا ہوں۔ 
اِنَّ النبیَ ﷺ کانَ اذا فَرَغَ مِنْ تْلبِیَتِہِ سَءَلَ اللّٰہَ رِضْوانَہُ والجَنَّۃَ واسْتَعفَاہُ بِرَحْمَتِہِ مِنَ النَّارِ (رواہ الشافعی)
نبی کریم ﷺ جب تلبیہ سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے ان کی رضا مندی اور جنت اور اس کی رحمت سے دوزخ سے پناہ ڈھونڈتے۔ 
و فیِ رِوایۃ الدارمی والبیھقی اَنَّ النبیَ ﷺ کانَ یُصَلِّی علیٰ نَفْسِہِ بعدَ تلْبِیَتِہِ۔ 
نبی اکرم ﷺؑ تلبیہ کے بعد اپنے اوپر درود پڑھتے۔ 
و رویٰ ابو داود والدارقطنی عن القاسم بن محمد ﷺ أنَّہ قالَ یَستحِبُّ للرَّجُلِ الصلوٰۃ علیٰ النبی ﷺ بعدَ التلْبِیَۃِ ۔
تلبیہ کے بعد مستحب ہے کہ نبی کریم ﷺ پر درود بھیجے۔ 
اگر پہلا حج ہو، تو فرض کی نیت خاص طور سے کرنا اور زبان سے کہہ لینا بہتر ہے ۔ نیت کرلینے اور تلبیہ پڑھ لینے کے بعد احرام بندھ گیا ۔ اب ان چیزوں سے بچے جس کا کرنا محرم کے لیے منع ہے۔ 
قسط نمبر (16) کے لیے کلک کریں

1 Aug 2018

احرام کا بیان

احرام کا بیان 
قسط نمبر (14)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
جس طرح نماز کے لیے تحریمہ ہو تا ہے کہ نماز کے افعال وہیں سے شروع ہوتے ہیں اور تحریمہ کے بعد بہت سی جائز چیزیں، جو منافی نماز ہیں، ان کے لیے نا جائز ہوجاتی ہیں، اسی طرح احرام کے بعد سے افعال حج شروع ہوتے ہیں اور بہت سی جائز چیزیں اس کے لیے ناجائز ہوجاتی ہیں ۔ احرام کے معنی ہیں: حرام کرنا ۔
نماز کا تحریمہ نیت کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہنے سے بندھ جاتا ہے، اسی طرح حج کا احرام نیت کے ساتھ تلبیہ پڑھنے سے بندھ جاتا ہے۔احرام باندھنے سے پہلے حاجی کو پوری طہارت حاصل کرلینا مستحب ہے ۔( نور الایضاح ) 
پوری طہارت یہ ہے کہ زیر ناف اور بغل کا بال صاف کرے۔ ناخن کٹوائے۔ مونچھ کتروائے۔ بیوی ساتھ ہو، تو صحبت سے بھی سکون حاصل کرلے۔ سر منڈوالے یا سر کو صابون وغیرہ سے دھولے۔ بدن کا میل کچیل دور کرے۔ غسل سے فارغ ہونے کے بعد بدن اور سر میں تیل کی مالش کرلے۔ سر وغیرہ میں کنگھی کرلے اور بدن اور کپڑوں میں خوشبو مل لے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مروی ہے کہ 
کان رسولُ اللّٰہِ ﷺ اذا أرادَ أن یحرم غَسَلَ رأسَہُ بِخطمی و اشنان و دَھَنَہُ بِزیتٍ۔ (دار قطنی)
رسول اللہ ﷺ جب احرام کا ارادہ فرماتے، تو اپنے سر کو خطمی اور اشنان سے دھولیتے اور سر میں زیتون کا تیل لگاتے۔ 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری حدیث میں ہے کہ :
قالت: کنتُ اطیبُ رسولَ اللّٰہِ ﷺ لِاِحرامِہِ قبلَ أن یحرمَ و لِحلہِ قبل أی یطوفَ بالبیتِ بطیبٍ فیہِ مسکٌ کأنی انظرُ الیٰ وبیض الطیبِ فی مفارقِ رسولِ اللّٰہِ ﷺ و وھو محرمٌ۔ (متفق علیہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ احرام سے پہلے میں رسول اللہ ﷺ کو احرام کے لیے اور بیت اللہ کے طواف (زیارت) سے پہلے احرام کھولنے کے لیے ایسی خوشبو لگاتی ، جس میں مشک ہوتا تھا، گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں ، حالاں کہ آپﷺ محرم ہوتے۔ (بخاری و مسلم)
یعنی احرام کے بعد بھی اس خوشبو کا اثر ظاہر ہوتا، جو احرام سے قبل لگائی جاتی ۔
در مختار میں ہے کہ اگر اس کے پاس خوشبو ہو تو اپنے بدن میں لگائے اور ایسی خوشبو جس کا جسم باقی رہے اپنے کپڑوں میں نہ لگائے، یہی صحیح ہے۔
اور فتاویٰ قاضی خاں میں ہے کہ مستحب یہ ہے کہ سر کی چکٹ ، بدن کا میل کچیل، خطمی ، اشنان وغیرہ سے دھوکر دور کرے اور جونسا تیل چاہے لگائے، خوشبو دار ہو یا بے خوشبو۔ علمائے حنفیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ احرام سے پہلے ایسی خوشبو لگانا، جس کا عین باقی نہیں رہتا ہے جائز ہے، اگرچہ اس کی خوشبو احرام کے بعد باقی رہے۔اسی طرح ایسی خوشبو جس کا جسم احرام کے بعد باقی رہے، جیسے مشک اور غالیہ ، ہمارے نزدیک ظاہری روایت میں مکروہ نہیں ہے، اور یہی صحیح ہے ، اسی طرح محیط میں ہے ۔ اور ایسی خوشبو جس کا جسم احرام کے بعد باقی رہے، کپڑوں میں لگانا صاحبین کی دو روایتوں میں سے ایک روایت کی بنا پر کل کے قول پر جائز نہیں۔ (عالمگیری)
احرام کے لیے جو غسل مسنون ہے ، وہ محض صفائی کے لیے ہے، اس لیے وہ بھی غسل کرلے، جو غسل سے پاک نہ ہو، جیسے حیض ، نفاس والی عورت، جیسا کہ حضور ﷺ نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو فرمایا، جب کہ وہ نفاس میں تھیں:
اغتسِلی واستشفری بثوب و احرمی
تو نہالے اور لنگوٹ کس لے اور احرام باندھ لے (مسلم)
مسئلہ: اگر غسل نہ کرسکے، تو وضو کرے۔ بلا غسل اور وضو کے احرام باندھنا جائز ہے ؛ مگر مکروہ ہے ۔
مسئلہ: اگر پانی نہ ہو تو احرام کے لیے غسل کا تیمم مشروع نہیں ہے ، اس لیے کہ تیمم سے جسم کی صفائی نہیں ہوتی ہے ۔ البتہ نماز کے لیے غسل کا تیمم جائز ہے ۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔
مسئلہ: احرام کی چادر اتنی لمبی ہو کہ داہنے کندھے سے نکال کر بائیں کندھے پر سہولت سے آجائے اور تہہ بند اتنا ہو کہ ستر اچھی طرح سے چھپ جائے ۔
مسئلہ: احرام میں کرتہ پاجامہ، اچکن ، صدری، بنیان وغیرہ پہننا منع ہے ۔ جو کپڑا بدن کی ہیئت پر سلا ہوا ہو، اس کا پہننا احرام میں جائز نہیں۔ 
مسئلہ: چادر یا لنگی اگر بیچ میں سے سلی ہوئی ہو، تو جائز ہے ،مگر بہتر یہی ہے کہ احرام کا کپڑا بالکل سلا ہوا نہ ہو۔
مسئلہ: احرام کا کپڑا سفید ہونا افضل ہے۔ 
مسئلہ: کمبل ، لحاف، رزائی وغیرہ احرام میں اوڑھنا جائز ہے۔
مسئلہ: ایک کپڑا بھی احرام میں کافی ہے اور دو سے زائد بھی جائز ہے ۔ رنگین بھی جائز ہے ؛ لیکن کسم یا زعفران میں رنگا ہوا نہ ہو۔
قسط نمبر 15 کے لیے کلک کریں

31 Jul 2018

میقات سے بلا احرام باندھے گذرجانا

میقات سے بلا احرام باندھے گذرجانا

 قسط نمبر (13)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
کوئی آفاقی عاقل بالغ میقات سے بغیر احرام کے آگے گذر جائے، تو اس پر واجب ہے کہ لوٹ کر پھر میقات پر آئے اور احرام باندھے۔ اگر میقات پر آکر احرام نہیں باندھا؛ بلکہ وہیں سے احرام باندھ لیا ،تو اس پر دم واجب ہوگا۔ لوٹ کر میقات سے احرام باندھنے میں کوئی دم نہیں ہے ۔
عن بن عباسؓ قال: اذا جاوز الوقت فلم یحرم حتی دخل مکۃ رجع الیٰ الوقت فاحرم وان خشی ان رجع الیٰ الوقت فانہ یحرم ویحریق لذلک دما ( رواہ اسحاق بن راھویہ فی مسندہ)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا: جب کوئی شخص میقات سے آگے بڑھ جائے اور احرام نہ باندھے، یہاں تک کہ مکہ آجائے، تو وہ میقات کی طرف لوٹے اور احرام باندھے۔ اور اگر میقات کی طرف لوٹنے میں ( حج فوت ہونے کا یا جان کا )ڈر ہو،تو وہیں احرام باندھ لے اور میقات پر احرام نہ باندھنے کی وجہ سے دم دے ۔
مسئلہ : میقات سے بلا احرام گذرا اور آگے جاکر احرام باندھا اور مکہ پہنچنے سے پہلے لوٹا اور میقات پر پہنچ کر تلبیہ پڑھ لیا، تو دم ساقط ہوگیا۔ اگر تلبیہ نہیں پڑھا ،تو دم ساقط نہیں ہوگا ۔
مسئلہ: میقات پر احرام نہیں باندھا اور آگے چل کر احرام باندھااور مکہ بھی پہنچ گیا، مگر افعال حج شروع نہیں کیا تھا کہ پھر لوٹ کر میقات پر آیا اور تلبیہ پڑھا، تو دم ساقط ہوجائے گا ۔
مسئلہ : میقات سے بغیر احرام کے گذرا اور آگے چل کر احرام باندھا، تو اس پر واجب ہے کہ لوٹ کر میقات پر آئے ،ورنہ گنہگار ہوگا اور دم بھی واجب ہوگا ۔البتہ اگر واپس آنے میں جان ومال کا خطرہ یا حج کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو،یا بیماری کی وجہ سے نہیں آسکتا ہے، تو ایسی صورت میں واپس آناواجب نہیں؛ لیکن دم واجب ہوگا، جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ کے قول سے معلوم ہوا ۔
مسئلہ : اگر میقات سے گذر کر آگے احرام باندھا اور پھر میقات پر واپس نہیں آیا، یا کچھ افعال شروع کرنے کے بعد واپس آیا، تودم ساقط نہیں ہوگا، قربانی ہوگی ۔
مسئلہ :جو شخص کسی میقات سے بلا احرام کے گذرا ہے، اس پر یہ واجب نہیں کہ اسی میقات پر واپس آئے؛ بلکہ کسی میقات پر مواقیت مذکورہ میں سے آنا کافی ہے؛ ہاں افضل یہی ہے کہ اسی میقات پر واپس آئے، جس سے گذرا تھا ۔
مسئلہ: کوئی آفاقی میقات سے آگے جانا چاہتاہے، مگر ایسی جگہ جارہا ہے، جو حرم کے حددو کے اندر داخل نہیں ہے؛ بلکہ حل میں ہے ،تووہاں جانے کے لیے میقات سے احرام باندھنا واجب نہیں، بغیر احرام باندھے جاسکتاہے اور پھر وہاں سے حرم کے حدود میں،یا مکہ جانا چاہے ،تو بغیر احرام کے جاسکتا ہے ،اس پر کوئی دم نہیں، یعنی جب حل کسی غرض سے گیا، تو وہ حلی ہوگیا اور حلیوں کے لیے حرم میں بغیر احرام کے جانا درست ہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے آفاقیوں ہی کو بغیر احرام کے میقات سے آگے بڑھنے سے منع کیا ہے اور حل میں پہنچ کر اگر وہاں سے حج یا عمرہ کا احرام باندھنا چاہے ،تو حل سے احرام باندھ لے ۔
مسئلہ: میقات پر جو ارادہ ہے اسی کا اعتبار ہے ۔ اگر اس کے بعد ارادہ بدل دے، تو اس کا اعتبار نہیں ۔ میقات پر مکہ کا ،یا حج، یاعمرہ کاارادہ تھا، مگر میقات پر احرام نہیں باندھا، آگے چل کر حل کا ارادہ کیا، تو یہ ارادہ دم ساقط نہیں کرے گا، کیوں کہ بغیر احرام کے آگے بڑھا ہے؛ البتہ اگر میقات ہی کے اندر حل کا ارادہ تھا اور بغیر احرام میقات سے آگے بڑھا، پھر مکہ کا ارادہ ہوگیا، تو اس پر کوئی دم نہیں؛ لیکن اس کو حل کے اندر احرام باندھ لینا چاہیے ۔
مسئلہ : آفاقی شخص اگر حرم میں، یا مکہ میں بلا احرام کے داخل ہوجائے، تو اس پر ایک حج، یا عمرہ کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔اگرکئی مرتبہ اسی طرح بلا احرام داخل ہوا،تو اتنا ہی مرتبہ اس پر حج ،یا عمرہ واجب ہوگا ۔
مسئلہ: مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونے کی وجہ سے جو حج یا عمرہ واجب ہواتھا، اس کے قائم مقام حج فرض، یا حج نذر، یا عمرہ نذر ہوجا ئے گا، اگر چہ اس کی نیت نہ کی ہو، بشرطیکہ اسی سال حج یا عمرہ کیا ہوجس سال داخل ہوا تھا۔ اگر یہ سال گذر گیا، تو پھر اس کے لیے مستقل حج یا عمرہ واجب ہوگا ۔
مسئلہ : جو لوگ میقات کے رہنے والے ہیں ،جیسے ذوالحلیفہ والے، یا میقات اور حرم کے درمیان رہتے ہیں، اگر وہ حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ جائیں ،تو ان پر حل کے اندر احرام باندھنا واجب ہے ۔(ہدایہ) اور اگر حج یا عمرہ کے ارادہ سے نہ جائیں، تو ان کے لیے احرام باندھ کر جانا واجب نہیں ہے، بلااحرام مکہ میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی وہ آفاقی، جو حل میں مقیم ہو گیا ،ان کو بھی جب حج ،یا عمرہ کا ارادہ نہ ہو،تو بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا جائز ہے۔(فتح القدیر )

30 Jul 2018

حلی کی میقات

حلی کی میقات
قسط نمبر (12)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
جو لوگ میقات میں، یا میقات اور حدود حرم کے درمیان میں رہتے ہیں، ان کے لیے کل زمین حل میقات ہے۔ حدود حرم میں داخل ہونے سے پہلے جہاں چاہے احرام باندھ لے، لیکن گھر سے احرام باندھنا افضل ہے ۔(ہدایہ)
حرمی کی میقات 
حج کے لیے مکہ اور حدود حرم میں رہنے والے کے لیے حرم کی کل زمیں میقات ہے ، حدود حرم میں جہا ں چاہے احرام باندھ لے ۔ (ہدایہ)اور عمرہ کے لیے میقات حل ہے، جیسا کہ حضرت عائشہؓ کو آپ ﷺنے عمرہ کے احرام کے لیے تنعیم بھیجا ۔(بخاری و مسلم ) 
مسئلہ : آفاقیوں کے لیے جو میقات بیان کی گئی ہیں، یہ خاص ان ممالک والوں کے لیے بھی میقات ہیں اور جو لوگ دوسرے ممالک کے رہنے والے مکہ مکرمہ کو جاتے ہوئے ان میقاتوں سے گزرتے ہیں، ان کے لیے بھی یہ میقات ہیں ،جیسا کہ روایت سے واضح ہوا۔
مسئلہ : آفاقیوں کے لیے اگر وہ مکہ یا حرم کے ارادے سے سفر کرے، تو اس کو میقات پر پہنچ کر حج یا عمرہ کا احرام باندھنا واجب ہے، خواہ حج یا عمرہ کا ارادہ ہو یا نہ ہو ۔ (ہدایہ)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
لا یجاوز الوقت الا بالاحرام ( رواہ ابن ابی شیبہ)
احرام کے بغیر کوئی میقات سے آ گے نہ بڑھے ۔
مسئلہ : مکہ یا حرم میں حج یا عمرہ کے ارادہ سے جائے، یا تجارت و سیر کے لیے جائے، بہر صورت میقات پر پہنچ کر احرام باندھنا واجب ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ : میقات پر آنے سے پہلے بھی احرام باندھنا جائز ہے، بلکہ افضل یہ ہے کہ اپنے گھرہی سے احرام باندھ لے، بشرطیکہ ممنوعات احرم میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو؛ ورنہ مکروہ ہے ۔ (ہدایہ) 
سئل علی رضی اللہ عنہ عن قولہ عز وجل: واتمو الحج والعمرۃ للّٰہ فقال: ان تحرم من دویرہ اھلک ( رواہ الحاکم فی تفسیرہ من المستدرک وقال: صحیح علی شرط شیخین)
حضرت علیؓ سے اللہ تعالیٰ کے قول و اتموا الحج والعمرۃ کے بارے میں سوال کیا گیا، آپؓ نے فرمایا: حج اور عمرہ کا اتمام یہ ہے کہ اپنے گھر ہی سے احرام باندھو۔ 
مسئلہ: اگر کوئی شخص خشکی میں، یا سمند ر میں ایسے راستہ سے مکہ جارہا ہے کہ اس میں کوئی میقات مذکورہ بالا میقاتوں میں سے نہیں آئے گی، تو اس کو مذکورہ بالا میقات میں سے کسی میقات کی محاذات ( برابری ) سے احرام باندھنا واجب ہے ۔
مسئلہ : اگر ایسے راستہ سے جارہا ہے کہ جس میں میقات مقررہ کوئی نہیں آئے گی، تو اس کو محاذات معلوم کرکے احرام باندھنا چاہیے۔ اگر محاذات معلوم نہ ہو، تو تحری کرے، یعنی غورو فکر سے محاذات کا اندازہ لگائے اور جس جگہ محاذ کا ظن غالب ہو، وہاں سے احرام باندھ لے ۔
مسئلہ : تحری اور غورو فکر اس وقت کرنا چاہیے، جب کہ کوئی بتانے والا موجود نہ ہو، لیکن اگر محاذات کا واقف کا ر اگر موجود ہے، تو اس سے پوچھ لینا واجب ہے؛ لیکن اگر دونوں یکساں ناواقف ہوں اور دونوں کی رائے میں اختلاف ہوجائے، تو پھر اپنی اپنی رائے کے موافق محاذات پر احرام باندھ لے ،دوسرے کے قول کا اعتبار نہ کرے ۔
مسئلہ : اس بارے میں کافر کا قول معتبر نہیں، مثلا جہاز میں انگریز یا کافر بتائے کہ اس جگہ سے میقات کی محاذات ہے، تواس کا قول معتبر نہیں؛ البتہ جہاز کے ملازمین میں سے ایک مسلمان عادل شخص وہاں آمدورفت رکھنے ولا اورجاننے والابتادے ،تو اس کا قول معتبر ہے ۔
مسئلہ: اگرکسی کے راستے میں دو میقاتیں پڑتیں ہیں، تواس کو پہلی میقات سے احرام باندھنا افضل ہے اگر دوسری میقات تک مؤخر کیا، توجائز ہے۔ اسی طرح اگر دو میقاتوں کی محاذات پڑتی ہوں، تو پہلی میقات کی محاذات سے احرام باندھنا افضل ہے ۔
مسئلہ : اگر کسی کو محاذات میقات کا علم نہیں اور نہ کوئی جاننے والا ملا، تو ایسی صورت میں مکہ سے دو منزل پہلے احرام باندھنا واجب ہے، جیسے کوئی ہندستانی سمند ر میں سفر کر کے گیا اور میقات کی محاذات کا علم نہ ہوا ،اور کوئی بتانے والا بھی نہ ملا،تو جدہ سے احرام باندھنا ہوگا۔جدہ مکہ سے دو منزل پر ہے ۔
مسئلہ : راستے میں ایک میقات سے گذرتا ہے اور دوسری میقات کے محاذ (برابری) سے بھی گذر ہوگا، تو میقات سے احرام باندھنا واجب ہوگا، محاذ کااعتبار نہ ہوگا ۔
مسئلہ : مدینہ والوں کو یا جو مدینہ کی طرف سے آئے ،تو وہ ذوی الحلیفہ میں احرام باندھے ۔ جحفہ تک بغیر احرام کے آنا اور جحفہ سے احرام باندھنا مکروہ ہے ۔
مسئلہ : جو آفاقی عمرہ سے فارغ ہو کر مکہ میں مقیم ہو، تووہ مکہ والوں کی طرح حج کا احرام حرم سے اور عمرہ کا احرام حل سے باندھے اور تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھنا افضل ہے ۔
مسئلہ: اگرمکی میقات سے باہر نکل آئے، تو واپسی میں اس پر بھی آفاقی کی طرح میقات سے احرام باندھنا واجب ہے ۔

28 Jul 2018

میقات مکانی کابیان

میقات مکانی کابیان 
قسط نمبر (11)  
تصنیف: 
حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

وہ جگہ جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہے اور احرام کے بغیر وہاں سے آگے بڑھنا جائز نہیں ہے، اس کی تین قسمیں ہیں : 
(۱) آفاقی کی میقات، یعنی جو لوگ میقات سے باہر رہتے ہیں ۔
(۲) حلی کی میقات یعنی جو لوگ حرم سے باہر رہتے ہیں اور میقات کے اندر کے ہیں، ان کی میقات ۔ 
(۳) حرمی کی میقات، یعنی جو لوگ حرم کے حدو دکے اندر رہتے ہیں، ان کی میقات۔ آفاقیوں کی میقات یہ ہیں : 
(۱) ذوالحلیفہ: یعنی بیر علی مدینہ کی طرف سے آنے والوں کے لیے۔
(۲) ذات عرق: عراق کی طرف سے آنے والوں کے لیے ۔
(۳) جحفہ: شام اور مصر کی طرف سے آنے والوں کے لیے۔
(۴) قرن: نجد کی طرف سے آنے والوں کے لیے۔ 
(۵) یلملم: یمن اور ہندستان اور پاکستان وغیرہ سے آنے والوں کے لیے۔ (ہدایہ ) 
ان لوگوں کے لیے رسول ﷺ نے یہی میقاتیں مقرر کی ہیں، چنانچہ حدیث میں ہے:
وقَّتَ رسول ﷺلا ھل المدینۃ ذالحلیفۃ، و لا ھل الشام الجحفۃ، ولا ھل نجد قرن المنازل، ولا ھل الیمن یلملم، فمن لھم ولمن اتی علیھن من غیر اھلھن لمن کان یرید الحج والعمرۃ، فمن کان دونھن فمھلہ من اھلہ وکذاک وکذاک حتی اھل مکۃ یھلون منھا ( متفق علیہ) 
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ اور شام والوں کے لیے جحفہ اور نجد والو ں کے لیے قرن منازل اور یمن والوں کے لیے یلملم میقات مقررکی ہیں۔ یہ میقات ان میقات والوں کے لیے ہے اور ان کے علاوہ جو بھی ان راستوں سے گزرے ان کے لیے بھی یہی میقات ہے ،جو بھی حج اور عمرہ کے ارادہ سے آئے ۔ اور جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں، ان کی میقات اپنے اہل سے ہے۔ اسی طرح اور اسی طرح یہاں تک مکہ والے مکہ سے احرام باندھے ۔ (بخاری ومسلم ) 
یعنی جو لوگ میقات مقررہ کے اندر رہتے ہیں، ان کے لیے میقات اپنا گھر ہے۔ افضل یہی ہے کہ گھر سے احرام باندھے، ورنہ کم از کم حدود حرم سے باہر ضرور احرام باندھ لے۔ اور جولوگ حدود حرم میں رہتے ہیں، وہ بھی اپنے گھرسے احرام باندھے، یا حرم کے اندر جہاں سے چاہے ۔ اس حدیث سے تینوں قسم کی میقات معلوم ہوگئی اور آپ ﷺنے فرمایا: 
مھل اھل المدنیۃ من ذی الحلیفۃ والطریقۃ الا الجحفۃ ومھل اھل العراق من ذات عرق (رواہ مسلم ) 
مدینہ والوں کے لیے میقات ذوالحلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جحفہ ہے اور عراق والوں کی ذات عرق ہے ۔(مسلم)
جحفہ رابغ کے قریب مکہ سے تین منزل پر ایک مکان ہے، جو شام والوں کی میقات ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک میقات والے جب دوسری میقات پر پہنچے، تووہی دوسری میقات اس کی میقات ہے ،جیسے مدینہ والوں کے لیے میقات ذوالحلیفہ ہے، جو مدینہ سے تقریبا چھ میل دور ہے، جس کا نام آج کل بیر علی ہے۔ آ پﷺ نے مدینہ والو ں کے لیے جب کہ دوسرے راستے آئے، تو اس کے لیے وہی میقات بتائی، جو شام والوں تھی، یعنی جحفہ۔ ذات عرق ایک مقام کانا م ہے، جو آج کل ویران ہوگیا ہے۔ مکہ مکرمہ سے تقریبا تین روز کی مسافت پر ہے۔ عراق سے مکہ آنے والوں کے لیے آپ نے یہ میقات ٹھہرائی ہے ۔
قسط نمبر (12) کے لیے کلک کریں

27 Jul 2018

اور ہم خوار ہیں زمانے میں مسلماں ہوکر۔۔۔!!!!

اور ہم خوار ہیں زمانے میں مسلماں ہوکر۔۔۔!!!!
محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408

علامہ اقبالؒ نے نیرنگی فطرت کا راز کھولتے ہوئے کہا ہے کہ 
سکوں محال ہے قدرت کے کار خانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
فطرت کی بوقلمونی میں قوموں کی حالت بھی مستثنیٰ نہیں ہے، اس لیے ان کے عروج و زوال کی کہانیوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ 
ہر زمانے کے ارباب دانش و فکر نے اپنی قوم کے زوال کی وجوہات کا پتہ لگانے کی کوشش کی ہے اور اپنی قوم کو ان سے واقف کرایا ہے۔ چنانچہ علامہ قبال اپنے دور میں مسلمانوں کے زوال کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ:
’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اِس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی و دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے: ایک اُن کا قرآن کو چھوڑ دینا، دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی؛ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اِس کام میں صرف کروں کہ قرآنِ کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی مکاتب بستی بستی قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اُس کے معانی سے روشناس کیا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیاجائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے‘‘۔ (وحدتِ امت، ص: 39۔40، ط: مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور 1985ء)
اب تک ملت اسلامیہ کے جن جن دانشوروں نے مسلم قوم کی حالت زار پر غور کیا ہے، مشترکہ طور پر ان سبھوں نے زوال کے اسباب بتانے کے ساتھ ساتھ اس کے انجام سے بھی باخبر کیاتھا؛ لیکن اس قوم کی غفلت کا تسلسل بتلاتا ہے کہ ہم نے ان مفکرین کی کسی بھی بات پر توجہ دے کر عملی اقدامات نہیں کیے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہیں کہ اب صرف ہم زوال پذیر نہیں؛ بلکہ دنیا کی سب سے ذلیل ترین قوم بن چکے ہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ 
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
حریم ملت اسلامیہ ہند، قائد جمعیۃ حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے ۲۴؍ جولائی ۲۰۱۸ء بروز سوموار دیوبندمیں منعقد جمعیۃ یوتھ کلب کے تعارفی و مظاہرہ پروگرام سے خطاب کے دوران پوری دنیا میں مسلمانوں کی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 
’’ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا مقام ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں ہم ذلیل اور رسوا نہ ہوگئے ہوں۔ اگر بے عزتی کا نام لیا جائے تو ہمارے نام کے ساتھ لگ چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ احساس ختم ہوگیا ہے ۔ ہم خود اپنے منھ سے اپنی تعریف کرلیتے ہیں۔ اپنا جلسہ ہوتا ہے، اپنی مجلس ہوتی ہے ، اپنی تعریف کرنے والے اپنے ساتھی ہوتے ہیں، وہ قائد بھی بنادیتے ہیں، وہ امیر بھی بنا دیتے ہیں، فرما روا بھی بنادیتے ہیں؛ سب کچھ بنادیتے ہیں۔ لیکن سچائی اس سے بہت پرے ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ذلت و رسوائی ہم اپنے دامن میں لے کے گھوم رہے ہیں۔ بالکل گھوم رہے ہیں اور کہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور اپنے احوال کو اپنے حالات کو اپنے ایٹی ٹیوڈ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں‘‘۔ 
یہ تو قوم کی بات ہے، قوم کے قائد کے بارے میں مولانا مدنی کہتے ہیں کہ 
’’ لوگ نعرے لگاتے ہیں کہ قائد ملت فلاں فلاں فلاں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ بھیا قوم تو ذلیل ہورہی ہے ، آپ کہتے ہیں کہ قائد ملت۔ جس قائد کی قوم ذلیل ہورہی ہو وہ قائد باعزت کیسے ہوسکتا ہے!۔ ‘‘
مفکرین ملت کے ان اقوال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندستانی سماج و حالات میں مسلمانوں کی حالت کا تجزیہ کیا جائے، تو معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ پہلے جہاں مسلمان ہونا عزت و افتخار کی بات ہوا کرتی تھی، آج مسلمان کہلانا اور دکھنا ذلت وخواری کا عنوان بن چکا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے بارے میں غیروں کا نظریہ نہیں؛ بلکہ مسلمان خود اپنی نگاہ میں ذلت و رسوائی محسوس کر رہا ہے۔ چنانچہ ہم دو تین عملی نمونہ پیش کرتے ہیں:
(۱) مسلمان اپنے اکثریتی محلہ میں اسلامی تشخص و شعار کو کسی قدر اپناتے ہیں، لیکن جب اکثریتی طبقہ کے محلوں میں رہتے یا جاتے ہیں، تو اپنی شناخت چھپانے میں ہی عزت سمجھتے ہیں۔ 
(۲) عصری تعلیم گاہوں اور یونی ور سیٹیوں کا رخ کرنے والے ایسے افراد جن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسلامی لباس و شعار میں گذرتا ہے ؛ حتی کہ اس زندگی میں اس کے تحفظ کے لیے جان و مال کی بھی پرواہ نہیں کرتے، لیکن اس ماحول سے نکلتے ہی دوسرے ماحول سے متاثر ہوجاتے ہیں اور اثر پذیری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ خود کو مسلمان دکھنے ، دکھانے اور کہلانے میں بھی شرم محسوس کرنے لگتے ہیں۔
(۳) یہ سچ ہے کہ اسلامی شعار و ہیئت اکثریتی طبقہ کے لیے اور پنڈت کے لباس و تشخص اقلیتی طبقہ کے لیے اجنبیت پیدا کرتے ہیں؛ لیکن محض اجنبیت کی بنیاد پر اپنے وجود سے شرم محسوس کرنا اور اپنے تشخصات کو ذلت و نکبت کا باعث سمجھنا ، فکری دیوالیہ پن نہیں تو اور کیا ہے!!۔ 
(۴) مسلمانوں کے دو ظاہری تشخصات ہیں: چہرے پر داڑھی اور ٹوپی کرتا لباس ۔ اور غیروں کے کئی شناخت ہیں، جن میں داڑھی صفا چٹ، ہاتھ میں رکشہ بندھن کے دھاگے، مرد کے ہاتھ میں کڑے اور چوڑیاں، گلے میں عورتوں والے ہاراور شرٹ پتلون عمومی لباس۔ میں نے زندگی میں آج تک کسی غیر مسلم کو نہیں دیکھا کہ وہ چہرے پر سنتی داڑھی، سر پر ٹوپی اور کرتا پاجامہ پہن کر کسی معاشرہ میں رہتا ہو، لیکن لاکھوں مسلمان ہندوانہ شعار و لباس میں آپ کو ہرجگہ نظر آئیں گے؛ حتیٰ کہ بعض افراد غیروں کی مداہنت میں یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ تشقہ لگانے اور مندروں میں بھی پھول چڑھانے سے نہیں چونکتے ۔
زمینی حقائق اور بھی ہیں۔ یہ تو مشتے نمونے از خرورے ہیں۔ ان حقائق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنا خلاف واقعہ نہیں ہوگا کہ پہلے قوم بحیثت قوم زوال پذیر ہوتی تھی، لیکن آج ہم بحیثت فرد عملی اور فکری دونوں اعتبار سے اس قدر پست ہوچکے ہیں کہ اسے اس کے علاوہ اور کیا کہاجاسکتا ہے کہ ع
اور ہم خوار ہیں زمانے میں مسلماں ہوکر
مسلمان ہونا کل بھی عزت کی بات تھی ، آج بھی عزت کی علامت ہے اور کل بھی عزت کا مرکز رہے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ ہم صحیح معنی میں مسلمان ہوجائیں اور یہ عہد کرلیں کہ ہم محض نام کے نہیں ؛ بلکہ کردار و عمل والے مسلمان بن کر رہیں گے۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں سچا پکا مسلمان بنائے اور مسلمانوں کی ساری عزت و رفعت ہمیں دوبارہ عطا فرمائے، آمین۔

26 Jul 2018

میقات کا بیان



میقات کا بیان 

قسط نمبر (10)  

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
وقت معین اور مکان معین کو میقات کہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ میقات کی دو قسمیں ہیں: میقات زمانی اور میقات مکانی۔
میقات زمانی کا بیان 
پہلی شوال سے دسویں ذی الحجہ تک کا زمانہ، حج کا زمانہ کہلاتا ہے۔ اس کے اندر افعال حج کیے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :
الحج اشھر معلومات( سورۃ بقرۃ رکوع۲۵)
حج (کا زمانہ) چند معلوم مہینے ہیں۔
اور وہ معلوم مہینے وہی ہیں، جن کو بیان کیا۔ صحابہ کرام سے یہی ثابت ہوا ہے ۔(ہدایہ)
مسئلہ : حج کے افعال خواہ کسی قسم کے ہو:واجب ہو، یا سنت، یا مستحب ؛تمام افعال حج کے مہینوں ہی میں صٓحیح ہوتے ہیں۔ احرا م کے سوا اگر کوئی فعل ان مہینوں سے پہلے کیا، تو صحیح نہ ہوگا، مثلا قارن یا متمتع اگر حج کے مہینوں سے پہلے عمرہ کا طواف کرلے، یا حج کی سعی طواف قدوم کے بعد حج کے مہینوں سے پہلے کرلے ،تو سعی نہ ہوگی ۔طواف قدوم کرنا صحیح ہوگا، لیکن سعی کے لیے موسم حج میں پھر طواف کرنا ہوگا خواہ نفلی طواف ہی سہی ۔
مسئلہ: حج کا احرام حج کے مہینوں سے پہلے باندھنا مکروہ تحریمی ہے ۔
مسئلہ: طواف قدوم کے اکثر شوط شوال میں کیے اور اس کے بعد حج کے لیے سعی کرلی، تو یہ حج کی سعی ہوجائے گی۔ اور اگر شوال کے بجائے رمضان ہی میٓں یہ طواف اور سعی کرلی، تو وہ حج کی سعی نہ ہوگی۔ پھر سے حج کی سعی موسم میں کرنی ہوگی۔ اگر رمضان ہی میں طواف کیا، مگر سعی شوال میں کیا، تو یہ سعی صحیح نہ ہوگی؛ البتہ اگرشوال میں کوئی نفلی طواف کرکے ،پھر سعی کرے تو یہ حج کی سعی ہوجائے گی۔ اگر طواف قدوم کے اکثر پھیرے رمضان ہی میں کیے اورتھوڑے سے شوال میں، تب بھی جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر سعی طواف قدوم سے پہلے کرلی، گو شوال ہی میں کی، تو سعی نہ ہوگی ۔ سعی کے لیے پہلے طواف ضروری ہے، خواہ کسی قسم کا طواف ہو، لہذا شوال میں طواف اور سعی ہونا چاہیے۔
قسط (11) کے لیے کلک کریں

25 Jul 2018

حج کی سنتوں کابیان

حج کی سنتوں کابیان
قسط نمبر (9)  
تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ
یہ سب چیزیں حج کے اندر سنت ہیں: 
(۱) حدود میقات سے باہر رہنے والوں کے لیے خواہ حج کا احرام باندھا ہو، یا حج اور عمرہ دونوں کا؛ ان کے لیے طواف قدوم کرنا ۔
(۲) طواف قدوم میں رمل کرنا۔ اگر اس میں نہ کیا، تو طواف زیارت ،یا طواف وداع میں رمل کرنا، یعنی تین پھیر ااکڑ کر پہلوان کی طرح منڈھے ہلاتے ہوئے چلنا ۔
(۳) امام کا تین مقام پر خطبہ پڑھنا: ساتویں کو مکہ میں، نویں کو عرفہ میں اور گیارھویں کو منیٰ میں ۔
(۴) آٹھویں اور نویں ذی الحجہ کے درمیان والی رات کو منیٰ میں رہنا ۔
(۵) سورج نکلنے کے بعد نویں ذی الحجہ کو منیٰ سے عرفات کو جانا ۔
(۶) عرفات سے امام کے چلنے کے بعد چلنا ۔
(۷) مزدلفہ میں عرفات سے واپس ہوکر رات کو ٹھہرنا ۔
(۸) عرفہ میں غسل کرنا ۔
(۹) ایام منیٰ میں رات کو منیٰ میں رہنا، یعنی ۱۱،۲۱ ،او ر ۱۳؍ کی رات گزارنا ۔
(۱۰) منیٰ سے واپسی میں محصب میں ٹھہرنا ۔اگر چہ ایک لحظہ کے لیے ہو۔
ان کے علاوہ اور بھی سنتیں ہیں، جو مسائل اور افعا ل کے ساتھ ان شاء اللہ موقع بموقع ذکر کی جائیں گی ۔
مسئلہ : سنت کاحکم یہ ہے کہ ان کو قصدا ترک کرنابر اہے اور کرنے سے ثواب ملتا ہے، ان کے ترک کرنے سے جزا لازم نہیں ہوتی ہے ۔
قسط 10 کے لیے کلک کریں

23 Jul 2018

حج کے واجبات کا بیا ن

حج کے واجبات کا بیا ن 



قسط نمبر (8)  

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

حج کے اندر چھ چیزیں واجب ہیں: 
(۱) وقوف مزدلفہ: یعنی دسویں ذالحجہ کو طلوع فجر کے بعد اور طلوع شمس سے کچھ پہلے مزدلفہ کے میدان میں ٹھہرنا ۔ 
(۲) سعی کرنا: یعنی صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگا نا، خواہ طواف قدوم کے بعد، یا طواف زیارت کے بعد ۔
(۳) رمی کرنا: یعنی دسویں ،گیارھویں اور بارھویں کو کنکریاں مارنا۔ دسویں کو صرف جمرہ عقبی ٰ میں اور گیارھویں ،بارھویں کو تینوں جمروں میں ۔
(۴) قارن اور متمتع کو قربانی کرنا ۔
(۵) سرکا بال منڈاوانا، یا کٹوانا ۔ منڈوانا کٹوانے سے بہتر ہے ۔
(۶) میقات سے باہر رہنے والے کو طواف وداع کرنا ۔
تنبیہ
یہ چھ واجبات حج ہیں۔ بعض کتابوں میں واجبات حج ۳۵؍ تک لکھے ہیں۔ اوروہ در اصل ارکان حج کے واجبات ہیں ۔ کچھ احرام کے واجبات ہیں۔ اور کچھ طواف کے، کچھ وقوف کے شرائط ہیں، جن کو واجبات میں لکھ دیے ہیں ۔افعال حج کے واجبات ان شاء اللہ ان افعال کے بیان میں ذکر کیے جائیں گے ۔
مسئلہ : واجبات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں سے کوئی واجب چھوٹ جائے، تو حج ہوجائے گا، خواہ قصدا چھوڑا، یا بھول کر؛ لیکن اس کی جزا لازم ہوگی، قربا نی یا صدقہ، جیسا کہ جنایات کے بیان میں آئے گا۔ البتہ اگرکوئی فعل کسی معتبر عذر کی وجہ سے چھوٹ گیا، تو جزا لازم نہ ہوگی ۔
قسط نمبر 9 کے لیے کلک کریں

22 Jul 2018

حج فرض کے صحیح ہونے کی شرطوں کا بیان

حج فرض کے صحیح ہونے کی شرطوں کا بیان 

قسط نمبر (7)  

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

کسی نے حج ادا کر لیا اور اس کی فرضیت ذمہ سے ساقط ہو گئی، اب دوبارہ اس پر حج ادا کرنا فرض نہ ہوگا۔ یہ اسی وقت ہوگا جب حج اداکرنے والے کے اندر نوشرطیں پائی جائیں گی ۔
(۱) حج ادا کر نے والے کے اندر اسلام کا ہونا۔ کافر کے حج کرنے سے حج اسلام نہ ہوگا۔
(۲) اسلام کا تا زیست باقی رہنا ۔ اگر حج کرنے کے بعد عیاذا باللہ مرتد ہوگیا اور اس کے بعد مسلمان دوبارہ ہوا، تو اب دوبارہ اس پر حج کرنا فرض ہوگا، جب کہ شرائط وجوب دوبارہ پائے جائیں ۔
(۳) آزاد ہونا۔ اگر غلام نے مالک کی اجازت سے حج کرلیا، تو فرض ادا نہ ہوگا ۔آزاد ہونے کے بعد اگر قدرت ہوئی، تو دوبارہ حج کرنا فرض ہوگا ۔
(۴) بالغ ہونا ۔ نابالغ کا حج نفل ہے ۔ بالغ ہونے پر استطاعت کی صورت میں دوبارہ حج کرنا واجب ہوگا ۔
(۵) عاقل ہونا ۔ حالت جنون کا حج نفل ہے ۔عاقل ہونے پر دوبارہ حج کرنا ہوگا ۔ جب کہ استطاعت ہو ۔
(۶) خو دحج کرنا ۔ قدرت رہتے ہوئے حج بدل کرائے گا، تو نفل ہوگا، فراض ادا نہ ہوگا۔
(۷) حج کو جماع سے فاسد نہ کرنا۔ فاسد ہو نے کی صورت میں دوبارہ حج کرنا ہوگا ۔
(۸) کسی دوسرے کی طرف سے حج کی نیت نہ کرنا۔ ورنہ دوسرے کی طرف سے حج ہوجائے گا اور اس کے ذمہ فرض باقی رہے گا ۔
(۹) نفل کی نیت نہ کرنا ،ورنہ نفلی حج ہوگا، فرض ادا نہ ہوگا ۔
حج کی شرطوں اور رکنوں کا بیان 
حج کے اندر دو شرطیں اور دوہی فرضیں ہیں: پہلی شرط: احرام ہے۔ اور دوسری شرط: حج کا وقت ہونا ہے۔ اور حج کا پہلا رکن :وقوف عرفہ ہے ۔اور دوسرا رکن طواف زیارت ہے، جیسا کہ شروع میں بیان ہوا ۔
قسط نمبر 8 کے کے لیے کلک کریں

21 Jul 2018

حج صحیح ہونے کی شرطوں کا بیان

حج صحیح ہونے کی شرطوں کا بیان 

قسط نمبر (6)  

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ

نو شرطوں کے ساتھ حج صحیح ہوتا ہے :
(۱) اسلام: اس کا مفصل بیان ہوچکا ہے ۔
(۲) احرام: بغیر احرام کے حج صحیح نہیں ہوتا، اگرچہ تمام افعال کر لے۔ 
(۳) حج کا زمانہ ہونا : اگر حج کے افعال ان کے وقت پر ادانہ کیے تو حج صحیح نہیں ہوا۔ حج کے تمام افعال موسم حج میں ہوناچاہیے۔
(۴) مکان: یعنی ہر چیز کو ان کی متعین جگہ میں کرنا، مثلا :وقوف کا عرفہ میں ہونا ، طواف کا مسجد حرام میں ہونا،ذبح کا حدود حرم میں ہونا،رمی کا منیٰ میں خاص مقام پر ہو نا وغیرہ ذالک۔ اگر یہ افعال اپنی جگہ پر نہ ہوئے، تو حج صحیح نہ ہوا ۔
(۵) عقل ۔
(۶) تمیز ہونا :حج کرنے والے کے اندر عقل و تمیز نہیں تو اس کا نائب عقل و تمیز والا ہو۔ 
(۷) احرام کے بعد وقوف عرفہ سے پہلے جماع کا نہ ہونا: اگر احرام کے بعد اور وقوف عرفہ سے پہلے جماع کرلیا، تو حج کا احرام فاسد ہوگیا۔ آگے کے افعال بغیراحرام کے ہوں گے، جس سے حج صحیح نہ ہوگا ۔ یہی ایک فعل ہے، جس سے احرا م فاسد ہوتا ہے، لیکن احرام فاسد ہونے کے باوجود تمام افعال حج پورے کرنے ہوں گے، اگر چہ حج صحیح نہ ہوگا اور آئندہ قضا لازم ہوگی ۔
(۸) افعال حج اپنے سے ادا کرنا: خواہ شرائط ہوں، یا ارکان، یا واجبات؛ البتہ بعض افعال عذر کی صورت میں نائب بھی ادا کرسکتا ہے، جس کا بیان آگے آئے گا۔
(۹) جس سال احرام باندھے، اسی سال حج کرے۔
قسط نمبر 7 کے لیے کلک کریں

20 Jul 2018

شریعت پر صرف داڑھی، ٹوپی اور کرتا پاجامہ والے کا حق ہے۔۔۔!!!

شریعت پر صرف داڑھی، ٹوپی اور کرتا پاجامہ والے کا حق ہے۔۔۔!!!


محمد یاسین قاسمی جہازی
9871552408
Add caption
دیگر مذاہب میں اس تصور کو مذہبی حکم تسلیم کیا گیا ہے کہ صرف مخصوص برادری کو ہی مذہب سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ ہندو کی مذہبی تعلیم میں کہا گیا ہے کہ’’ وید سننے پر (شودر کے) دونوں کانوں میں سیسہ ڈال دو،پڑھے تو زبان کاٹ دو، یاد کرے تو دل چیر دو‘‘۔ (باب چہارم منو شاستری)
یہ تفریق تعلیم تک ہی محدود نہیں ہے؛ بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی تفریق سے کام لیا گیا ہے، ہم یہاں پر چند مختصر حوالے پیش کر رہے ہیں:
برہمن پرماتما کے منہ سے کشتری بازوؤں سے ویش رانوں سے شودر پاؤں سے پیدا ہوا (رگ وید باب ۰۱ بھجن ۰۹ ص ۸۳‘ یجروید‘ اتھرو وید)
وید کے لیے برہمن حکومت کے لیے چھتری (کشتری) کاروبار کے لیے و بیش اور دکھ اٹھانے کے لیے شودر کو پیدا کیا ہے۔ (یجروید ۰۳:۵)
برہمنوں کے لیے وید کی تعلیم اور خود اپنے اور دوسروں کے لیے دیوتاؤں کو چڑھاوے دینا اور دان (چندہ) لینے دینے کا فرض قرار دیا (منو شاستر باب اول ۸۸)
چھتری کو اس نے حکم دیا کہ مخلوق کی حفاظت کرے دان دے چڑھاوے چڑھائے وید پڑھے اور شہوات نفسانی میں نہ پڑے (منو شاستر باب اول ۹۸)
ویش کواس نے حکم دیا کہ وہ مویشی کی سیوا کرے‘ وان دے‘ چڑھاوے چڑھائے‘ تجارت لین دین اور زراعت کرے (منو شاستر باب اول ۰۹)
شودر کے لیے قادر مطلق نے صرف ایک ہی فرض بنایا ہے وہ ہے ان تینوں (برہمن قوم‘ کشتری قوم اور ویش قوم کی خدمت کرنا) (منو شاستری باب اول ۱۹)
’’جس برہمن کو رگوید یاد ہو وہ بالکل گناہ سے پاک ہے اگرچہ وہ تینوں اقوام کو ناس کردے یا کسی کا بھی کھانا کھالے ( منوشاستری باب نہم ۲۶۲)
سزائے موت کے عوض برہمن کاصرف سر مونڈا جائے لیکن اور ذات کے لوگوں کو سزائے موت دی جائے گی (باب ہشتم ۹۷۳)
شودر جس عضو سے برہمن کی ہتک کرے اس کا وہ عضو کاٹ دیا جائے(منو باب دوم ۱۸۳)
لیکن ان کے برعکس اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خواہ تعلیم و تعلم کا میدان ہو یا احکامات کے اجرا و نفاذ کا؛ اس میں سب انسان برابر ہیں۔ نہ کسی مولوی کویہ کاپی رائٹ حاصل ہے کہ صرف وہیں جنت کے حق دار ہیں اور باقی سب لوگ جہنم کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ شریعت پر عمل کے مکلف صرف داڑھی، ٹوپی اور کرتا پاجامہ والے ہیں اور بقیہ دیگر حضرات عمل سے مستثنیٰ ہیں۔ اسلام میں ہر شخص اس کے احکام کا براہ راست مخاطب اور مکلف ہے اور خدا تک پہنچنے کے لیے کسی واسطے کی بھی ضرورت نہیں؛ ہر انسان براہ راست اللہ تک پہنچ سکتا ہے اور اسے راضی کرسکتا ہے۔ 
آج جب ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیتے ہیں، تو اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسلم قوم بھی ہندو مذہب کے درج بالا نظریوں سے متاثر ہیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے حوالے سے خود کو شودر سمجھتے ہیں۔ ہمارا عمومی نظریہ یہ بن چکا ہے کہ نماز ، روزہ اور دیگر فرائض صرف وہیں ادا کریں گے، جو ٹوپی، داڑھی اور کرتا پاجامہ والے ہیں۔ جو لوگ یہ لباس اور ہیئت اختیار نہیں کرتے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان فرائض سے مرفوع القلم ہیں۔ 
تعجب کی انتہا تو اس وقت ہوتی ہے کہ جو بے ریش کبھی بھی نماز نہیں پڑھتے، وہ باریش افراد کو نماز کے لییایسے ٹوکتے ہیں، جیسے کہ اس پر نماز ہی فرض نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ داڑھی رکھ کر، ٹوپی پہن کر، اور کرتا پاجامہ پہن کر نماز نہیں پڑھتے!۔ اور جب پلٹ کر ان سے کہا جاتا ہے کہ بھائی! آپ بھی تو مسلمان ہیں، آپ داڑھی کیوں نہیں رکھتے اور نماز کیوں نہیں پڑھتے، تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ میں مولوی تھوڑی ہوں۔ گویا ہم اپنی فکر سے یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم شودر ہیں اور اسلامی احکامات ہمارے لیے نہیں؛ بلکہ صرف مولویوں کے لیے ہے۔ 
اگر معاملہ صرف اپنی ذات تک محدود رہتا تو بھی غنیمت تھا، معاملہ ایں جا رسید کہ اگر کوئی نوجوان دینی معلومات سے آگاہ ہوکر اپنے چہرے پر سنت سجانے کا آغاز کرتا ہے، تو اس کے شودر ساتھی یہ کہہ کر گناہ کی دعوت دینے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کہ ارے یار! تم تو دن بدن مولوی ہوتے جارہے ہو! داڑھی رکھنے کے بعد بادۂ رنگیں سے کیسے محظوظ ہو پاؤگے۔ قصۂ مختصر یہ کہ ہم نے نظریاتی اور عملی طور پر یہ ثابت کردیا ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے حوالے سے ہم شودر ہیں۔ ان پر صرف وہی عمل کریں گے، جو داڑھی، ٹوپی اور کرتا پاجامہ پہنتے ہیں۔ اور نہ صرف ہم عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں؛ بلکہ عمل کرنے والے ساتھیوں کو بھی باز رکھنے کی دعوت گناہ دیتے ہیں؛ ہمارے اس رویہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے ، کم ہے۔ 
میرے اسلامی بھائیو! سب سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسے آفاقی اور فطرت سے ہم آہنگ دین سے نوازا، جس میں دیگر مذہبوں کی طرح انسان کے کسی بھی طبقے کے لیے تفریق و تذلیل نہیں ہے۔ اور ہمیں ہر احکام میں برابری کا حق دیا اور اس کے نتیجے میں ملنے والی خدا کی رضا اور جنت پر کسی ایک طبقہ کو قبضہ نہیں دیا، اتنی عظیم نعمت ملنے کے باوجود اگر ہم خود کو عملی طور پر شودر سمجھیں تو ہماری عقل و فکر پر ماتم اور توفیق الٰہی سے محرومی کے علاوہ اورکیا کہا جاسکتا ہے۔ آئیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم اور فکر رشید عطا فرمائے ۔ اور ہمیں شودر جیسی ذلت آمیز طرز عمل اور فکر سے نجات دے کر اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق بخش دے، آمین۔

19 Jul 2018

اداکے واجب ہونے کی شرطوں کا بیان

اداکے واجب ہونے کی شرطوں کا بیان 

قسط نمبر (5)  

تصنیف: حضرت مولانا محمد منیر الدین  جہازی نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ


نفس وجو ب کی شرطوں کا بیان ہوچکا۔ جب وہ ساتوں شرطیں پائی جائیں گی ،تو اس پر حج فرض ہوجائے گا۔ اب یہاں سے اس کا بیان ہے کہ ادا کرنا کب فرض ہوگا۔ ادا کے وجو ب ہونے کی بھی کچھ شرطیں ہیں۔ جب وہ شرطیں پائی جائیں گی، تو اس پر خود چل کر حج کرنا فرض ہوگا ۔اور اگر اس کے اندر صرف پہلی قسم کی شرطیں پائی جاتی ہیں اور وجوب ادا کی شرطیں نہیں پائی جاتی ہیں ،تو اس پر حج بدل کرنا یا مرتے دم وصیت کرنا واجب ہوگا ۔
وجوب ادا کی پانچ شرطیں ہیں 
اول: تندرست ہونا ۔دوسری: بادشاہ کی طرف سے رکاوٹ کانہ ہونا۔
عن ابی امامۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ :من لم یمنعہ من الحج حاجۃ ظاہرۃ، أو سلطان جائر، أو مرض حابس، فمات ولم یحج، فلیمت ان شاء یھودیا أو نصرانیا۔ (راوہ الدارمی)
حضرت ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو کسی ضروری حاجت، یا ظالم بادشاہ، یا مرض شدید نے حج سے نہیں روکا اور اس نے حج نہیں کیا اور مرگیا، تو وہ چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے ۔
تیسری شرط :راستہ کاپر امن ہونا ہے ۔ یہ شرطیں مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہیں۔ چوتھی شرط: عورت کے لیے محرم کا ہونا ہے۔
عن ابن عباسؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ:لا یخلون رجل بامرۃ ولا تسافرن امرأۃ الا ومعھامحرم۔ فقال رجل: یا رسول اللہ ﷺ ! اکتتبت فی غزوۃ کذا وکذا، وخرجت امرأتی حجۃ، قال: اذھب فاحجج مع امرأتک۔ (متفق علیہ)
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی اجنبی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ ہرگز تنہائی نہ کرے اور عورت بغیر محرم کے ہرگز سفر نہ کرے۔ تو ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ !میں فلاں فلاں غزوہ میں نامز دہوچکا ہوں اور میری عورت حج کرنے کو جارہی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جا اور اپنی عورت کے ساتھ حج کر۔ 
پانچویں شرط: عورت کا عدت میں نہ ہوناہے، یہ دو شرطیں صرف عورت کے لیے ہیں ۔
علما کا اختلا ف ہے کہ بدن کا تندرست ہونا؛ یہ نفس وجوب کی شرط ہے، یاوجوب ادا کی۔ بعضوں نے کہا کہ نفس وجوب کی شرط ہے۔ اسی طرح نہایہ میں اور بحر الرائق میں ہے کہ یہی صحیح ہے۔ ان لوگوں کے قول کی بنا پر مریض، اندھا ،دونوں پاؤں کٹے ہوئے اپاہج، سواری پر نہ ٹھہرنے و الے بڈھے اور لنگڑے پر حج فرض نہ ہوگا ۔نہ اس پر حج بدل کرانا اور نہ وصیت کرنا ضروری ہوگا ۔اور بعض علما نے کہا ہے کہ یہ وجوب ادا کی شرط ہے۔ جامع کی شرح میں قاضی خاں نے اسی کی تصحیح کی ہے اور بہت سے مشائخ نے اسی کو اختیارکیاہے ،انھیں میں سے ابن ہمام بھی ہیں۔ (شرح لباب)
ان علما کے قول کی بنا پر ایسے لوگوں پر حج بدل کرانا واجب ہوگا، یا مرتے دم وصیت کرنی حج بدل کی واجب ہوگی ۔ یہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ معذوری کی حالت میں استطاعت حاصل ہوئی ہو۔ اگر صحت کی حالت میں اس پر حج فرض ہوچکا تھا اور حج ادا نہ کیا، پھر معذور ہوا تو اس پر بالاتفاق حج فرض ہے۔ اس کو حج بدل کرانا ضروری ہے یا مرتے دم وصیت ۔
مسئلہ: اگر کوئی شخص قید میں ہے، یا بادشاہ حج کے لیے نہیں جانے دیتاہے، تو اس پر خود حج کرناواجب نہیں، لیکن اگر حج کرنے کا موقع نہ ملا تو مرتے وقت حج بدل کی وصیت کرنا واجب ہوگا ۔
مسئلہ: کسی کی حق کی وجہ سے قید میں ہے اور اس کو حق ادا کرنے کی قدرت ہے اور اس کے اندر شرئط حج پائے جاتے ہیں،تو اس پر حج ادا کرنا فرض ہے، اس کے لیے قید عذر نہیں؛ اس لیے کہ حق ادا کر کے وہ قید سے نکل سکتا ہے ۔
مسئلہ: حج کے شرئط موجود ہیں؛ لیکن راستہ مامون نہیں ہے۔ کسی ظلم کا خوف ہے، یا کوئی درندہ ہے، یا سمندرمیں ڈوب جانے کاڈرہے، تو ایسی صورت میں حج ادا کر نا فرض نہیں؛ لیکن اگر راستہ مرتے وقت تک مامون نہ ہو، توحج بدل کی وصیت کرنا واجب ہوگی ۔
مسئلہ: راستہ کے پر امن ہونے میں غالب اور اکثر کااعتبار ہے۔ اگر اکثر قافلے صحیح سلامت پہنچ جاتے ہیں اور بعض اتفاقیہ لٹ جاتے ہیں ،تو راستہ مامون سمجھا جائے گا ۔
مسئلہ :اگر سمندر میں اکثر جہاز ڈوب جاتے ہیں، توراستہ مامون نہیں سمجھا جائے گا؛ لیکن اگر اکثر صحیح سلا مت پہنچ جاتے ہیں، تو راستہ مامون سمجھا جائے گا ۔
مسئلہ: اگر کچھ رشوت دے کر راستہ میں امن مل جاتا ہے، تو راستہ مامون سمجھا جائے گا۔ اور دفع ظلم کے لیے رشوت دینی جائز ہے۔ دینے والا گناہ گا ر نہ ہوگا، لینے والا گناہ گار ہے ۔
مسئلہ: کسی پر حج فرض ہے؛ لیکن اس کے ماں باپ بیمار ہیں اور ان کو بیٹے کی خدمت کی ضرورت ہے، تو بلا اجازت جانا مکروہ ہے۔ اور اگر اس کو اس کی خدمت کی ضرورت نہیں اور ان کی ہلاکت کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، تو بلا اجازت جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ راستہ پر امن ہو۔ اور اگر راستہ پر امن نہیں ہے، تو بلااجازت جانا جائز نہیں۔
مسئلہ: دادادادی، نانا نانی ،ماں باپ کی عدم موجودگی میں مثل ماں باپ کے ہیں، ہاں ماں باپ کے ہوتے ہوئے ان کی اجازت کااعتبار نہیں ۔
مسئلہ : نفلی حج کے لیے والدین کی اجازت کے بغیر جانا مکروہ ہے، خواہ راستہ مامون ہی کیوں نہ ہو، خواہ خدمت کی حاجت ہو یا نہ ہو ۔
مسئلہ: جن لوگوں کا نان ونفقہ ان کے ذمہ ہے اور ان کے نان و نفقہ کا انتظام بھی نہیں کرکے جارہا ہے،تو ان کی اجازت کے بغیر جانا مکروہ ہے؛ البتہ اگر ان کی ہلاکت کاخوف نہیں ہے ،تو جانے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے ۔
مسئلہ : جن کا نان و نفقہ واجب نہیں، ان کی اجازت کی حاجت نہیں، خواہ خوش ہوں، یا ہلاک ہوں ۔
مسئلہ : چھوٹا بچہ ہے او اس کو کوئی رکھنے والا دوسرانہیں ہے، تو تاخیر کے لیے عذر ہے، بچہ خواہ اچھا ہو، یا مریض ہو ۔
مسئلہ : حج فرض ہے، لیکن تھوڑ اسا چلنے کے بعد سانس چڑھ جاتی ہے اور آرام لینے کی حاجت ہوتی ہے، پھر تھوڑا سا چلنے کے بعد سانس چڑھ جاتی ہے اور یہی کیفیت راستہ بھر رہتی ہے، تو اس کے لیے حج کو مؤخر کرنا جائز نہیں؛ ہاں اگر سواری پر بھی سفر نہ کرسکے، تو یہ اس کے لیے عذر ہے ۔
مسئلہ :سفر میں ٹھنڈی ہوا نقصان دیتی ہے اوربلغم جم جاتا ہے اور ضیق النفس بھی ہوجاتا ہے، تو عذر نہیں ۔
مسئلہ: ایسا مرض عذر ہے جس سے سفر نہ ہوسکے، یا شدید تکلیف کا اندیشہ ہو ۔
مسئلہ: عورت پر حج فرض ہے لیکن نہ شوہر سفر میں ساتھ دیتا ہے اور نہ کوئی محرم، تو اس عورت پر حج ادا کرنا واجب نہیں ہے۔ اگر تا حیات ایسا موقع میسر نہ ہو،تو مرتے وقت حج بدل کی وصیت کرجائے۔
مسئلہ: محرم وہ ہے جس سے نکاح کرنا کبھی جائز نہ ہو، خواہ یہ حرمت رشتہ کی وجہ سے ہو، یا دودھ کی وجہ سے یا رشتہ دامادی کی وجہ سے ۔
مسئلہ: محرم کا عاقل با لغ اور دین دار ہونا شرط ہے۔ اگر محرم، یا شوہر فاسق ہو تو اس کے ساتھ جانا جائز نہیں۔ اسی طرح لاابالی اور بے پرواہ بھی نہ ہو ۔
مسئلہ: جو لڑکا ہوشیار اور قریب البلوغ ہے، وہ مثل بالغ کے ہے، اس کے ساتھ جانا جائز ہے ۔
مسئلہ: اگر عورت بیوہ ہے اور کوئی محرم موجو د نہیں ہے، تو حج کرنے کے لیے اس پر نکاح واجب نہیں ۔
مسئلہ: شوہر یا محرم کے بغیر عورت حج کرلے، تو حج ادا ہوجائے گا، لیکن گناہ گار ہوگی۔
مسئلہ: محرم کا مسلمان ہو نا، یا آزاد ہونا شرط نہیں ہے؛ بلکہ غلام اور کافر بھی محرم ہوسکتا ہے؛ لیکن اگرمجوسی ہو تو اس کا اعتبار نہیں؛کیوں کہ ان کے یہاں محرمات سے بھی نکاح جائز ہے۔ اس زمانہ میں کافر کا بھی اعتبار نہیں۔ ممکن ہے کہ اسلام سے برگشتہ کردے ۔
مسئلہ: اگر محرم یا شوہر اپنے خرچ سے جانے کے لیے تیار نہ ہو، تو اس کا خرچہ بھی عورت کے ذمہ ہوگا۔ ایسی صورت میں دوہرے خرچ پر قدرت وجوب حج کے لیے شرط ہوگی؛ ہاں اگر محرم یا شوہر اپنا خرچہ کر کے ساتھ دینے کے لیے تیار ہو تو پھر عورت پر دوہرا خرچ واجب نہ ہو گا۔
مسئلہ: حج کرنے کے لیے محر م یا شوہر کو ساتھ لے جانے پر عورت مجبور نہیں کرسکتی ہے ۔
مسئلہ: بوڑھی عورت اور قریب البلوغ لڑکی کے لیے بھی محرم کا ساتھ ہونا شرط ہے۔(ہدایہ)
مسئلہ: خنثیٰ مشکل کے لیے بھی محرم کا ساتھ ہونا شرط ہے ۔
مسئلہ: محرم کو بھی اسی وقت سفر میں ساتھ جانا جائز ہے جب کہ فتنہ اور شہوت کا اندیشہ نہ ہو۔ اور اگر غلبۂ گمان ہو کہ خلوت میں یا ضرورت کے وقت چھونے سے شہوت ہوجاے گی، تو اس کو ساتھ جانا جا ئز نہیں ۔
مسئلہ: اگر عور ت کو سوار کرنے یا اتار نے کی ضرورت ہے اور شوہر ساتھ نہیں اور شہوت کاخوف ہے خواہ اپنے نفس پر یا عورت پر، تو جہاں تک ممکن ہو، اس سے بچے۔ اور اگر کوئی اتارنے والا نہ ہو، تو پھر موٹا کپڑا ہاتھ اور بدن کے بیچ میں ہونا ضروری ہے ۔ کپڑا اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ جس سے حرارت بدن کی ایک دوسرے کو نہ پہنچ سکے ۔
مسئلہ: عورت پر حج فرض ہوگیا اور محرم ساتھ جارہا ہے، تو شوہر فرض حج سے نہیں روک سکتا ہے؛ البتہ اگر محرم ساتھ نہ دے، یا نفلی حج ہو، تو شوہر کو روکنے کا حق ہے ۔
مسئلہ: اگرعورت نے حج کی نذر مانی، تو نذر صحیح ہوگی؛ لیکن شوہر کی اجازت کے بغیر حج کو نہیں جاسکتی ہے۔ اگر حج نہ کرسکی، تو حج بدل کی وصیت کرجائے ۔
مسئلہ: اگر عورت پیدل حج کو جانا چاہے، تو ولی اور شوہر کو روکنے کا حق ہے ۔
مسئلہ: عام طور سے جس موسم میں لوگ حج کے لیے وہاں سے جاتے ہیں، اگر عورت اس سے پہلے جانا چاہے ،تو شوہر کو روکنے کا حق ہے؛ لیکن اگردوایک روز اس سے قبل جانا چاہے تو نہیں روک سکتا ہے ۔ 
مسئلہ: عورت کو دوسری عورت کے ساتھ محر م یا شوہر کے بغیر جانا جائز نہیں ۔
مسئلہ: عدت کے اندر عورت کو حج کے لیے جانا واجب نہیں، خواہ وہ عدت موت کی ہو، یا فسخ نکاح کی، یا طلاق کی رجعی ہو، یا بائن ،یا مغلظہ؛ سب کا ایک حکم ہے ۔
مسئلہ: عدت کے اندر اگر عورت حج کو نکل جائے تو حج ہو جائے گا؛ لیکن گناہ گار ہوگی۔
مسئلہ: اگر راستہ میں شوہر طلاق رجعی دیدے، توعورت کو خاوند کے ساتھ رہنا چاہیے، چاہے آگے جائے یا پیچھے لوٹے۔اور شوہر کو بھی عورت سے علاحدہ نہیں ہونا چا ہیے۔ اور بہتر یہ ہے کہ رجعی میں طلاق سے رجوع کرلے ۔
مسئلہ: شوہر نے سفر میں طلاق بائن دی اور اس کے وطن اور مکہ کے درمیان تین روز کی مسافت سے کم فاصلہ ہے، تو عورت کو اختیار ہے ،خواہ وطن واپس ہوجائے، یا مکہ چلی جائے، چاہے محرم ساتھ ہو، یا نہ ہو۔ اور شہر میں ہو،یا جنگل میں ہو؛ مگر وطن کی طرف واپس ہونا افضل ہے۔ اور اگرایک طرف کی مسافت زیادہ ہے اور ایک طرف کی کم، تو جدھر کم ہو ،ادھر ہی کو جائے۔ اور اگر دونوں طرف مسافت مدت سفر کی ہے اور شہر میں ہے، تو اس کو اسی شہر میں عدت گزارنی چاہیے،اگرچہ محرم ساتھ ہو،یہ اما م ابو حنیفہؒ کا قول ہے۔ اور صاحبینؒ کاقول ہے کہ اگر محرم ساتھ ہے، توعدت گزارے بغیر اس شہر سے نکل سکتی ہے ۔
مسئلہ: اگرکسی گاؤں میں عدت لازم ہوئی، یا کسی جنگل میں ،اور وہاں جان ومال کاخطرہ ہے، تو وہاں سے امن کی جگہ میں جاناجائز ہے، خواہ گاؤں ہو، یا شہر؛ مگر وہاں سے بغیر عدت گزارے کہیں نہ نکلے اگر چہ محرم ہو، یہ امام صاحبؒ کے نزدیک ہے۔ اور صاحبینؒ کے نزدیک اگر محرم ہوتو نکلنا جائز ہے ۔
قسط نمبر 6 کے لیے کلک کریں