8 Apr 2018

فعل کابیان

قسط نمبر (8) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس

فعل کابیان
فعل کی تعریف ماقبل میں گذر چکی ہے۔ اس کو بہ الفاظ دیگر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جن الفاظ سے کسی کام کا ہونا یا کرنا معلوم ہوتاہے، وہ فعل کہلاتا ہے۔ اس میں جو کام کر رہاہے ، اس کو ’فاعل ‘کہا جاتا ہے، اور جس پر ہورہا ہے، اس کو’مفعول‘ کہا جاتا ہے، جیسے: عارف نے پھل کھا یا ۔ 
فعل کی دو قسمیں ہیں: (۱)لازم(۲)متعدی ۔ 
فعل لازم: یہ ہے کہ اس میں فعل فاعل سے بات پوری ہوجاتی ہے اور تیسری چیز (مفعول) کی ضرورت نہیں رہتی ہے، جیسے: محسن آیا ،عارف گیا، فاروق پہنچا۔
فعل متعدی: یہ ہے کہ اس میں فعل فاعل کے ساتھ ایک تیسری چیز یعنی(مفعول) کی بھی ضرورت پڑتی ہے ، جیسے: فاروق نے کتاب پڑھی ۔ 
پھر فعل کی چھ قسمیں ہیں۔ 
(۱)ماضی: ایسا فعل ہے جو گذرے ہوئے زمانہ میں کام کے ہونے کو بتلاتاہے ، جیسے: وہ رویا۔ اس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ علامت مصدر’نا‘ ہٹا کر لفظ ’یا‘ اور ’الف‘ بڑھا دیا جاتاہے ، جیسے: آنا سے آیا، پڑھنا سے پڑھا،کھانا سے کھایا، سونا سے سویا۔
(۲)حال: ایسے فعل کو کہتے ہیں،جو موجودہ زمانے میں کام ہونے کو بتلاتاہے ،جیسے: وہ آرہاہے ۔ اس کو مصدر کی علامت ختم کر کے ’’تاہے، تے ہیں،تے ہو، تاہوں‘‘ بڑھاکر بنایا جاتا ہے ، جیسے: وہ مارتاہے،وہ سب مارتے ہیں، تم مارتے ہو، میں مارتاہوں ۔ اسی طرح تار ہا ہے،تے رہے ہیں اور تارہا ہوں بڑھا نے سے بھی بنتاہے، جیسے: لکھتارہا ہے۔ اور اسی طرح صرف رہاہے،رہے ہیں اور رہا ہوں بڑھانے سے بھی حال بنتاہے، جیسے: وہ لکھ رہا ہے،وہ سب گا رہے ہیں،میں پڑھ رہا ہوں ۔ 
(۳)مستقبل : ایسے فعل کانام ہے، جو آئندہ زمانے میں کا م کے ہونے کوظاہرکرتا ہے ، جیسے: وہ جائے گا۔اس کو مضارع کے آخر میں ’گا،گے، گی‘ بڑھاکربناتے ہیں،جیسے:وہ آئے گا،لڑکی آئے گی ، لوگ جائیں گے۔ 
(۴) مضارع: وہ فعل ہے جو حال اور مستقبل دونوں زمانوں میں کام ہونے کو بتلاتاہے، جیسے: وہ جاتاہے یا جائے گا۔ اس کے بنانے کاقاعدہ یہ ہے کہ علامت مصدر گرانے کے بعد(ے) بڑھا دیتے ہیں ، جیسے: لانا سے لاے، روناسے روے،کرناسے کرے۔ 
نوٹ: چوں کہ مضارع میں حال اور مستقبل دونوں زمانے پائے جاتے ہیں، اس لیے ان دونوں کے بنانے کے قاعدے سے بھی مضارع بنایاجاتا ہے۔ 
(۵)امر: ایسا فعل ہے جو کسی کا م کے کرنے کے حکم کو بتلاتاہے، جیسے:لکھ ،پڑھ۔ مصدر کی علامت ہٹادینے سے فعل امر بن جاتاہے، جیسے: پڑھنا سے پڑھ ، کھانا سے کھا،جانا سے جا،سونا سے سو،رونا سے رو۔بولنا سے بول ، دینا سے دو۔کھیلنا سے کھیل۔
(۶)نہی :وہ فعل ہے جو کسی کام کے کرنے سے منع کو بتلاتا ہے، جیسے: مت کھیل ۔ اس کو مصدرکی علامت حذف کر نے کے بعد شروع میں (مت) یا (نہ)لگا کر بنا یا جاتا ہے ، جیسے : مت پڑھ ،نہ لکھ، مت جا،نہ روک۔
فعل ماضی کی چھ قسمیں ہیں: 
(۱)ماضی مطلق :وہ فعل ہے جس سے بلاقید قریب و بعید گذشتہ زمانے میں کام کاختم ہونا یا کرنا معلوم ہوتاہے، جیسے: فاروق رویا۔ اس کے بنانے کا قاعدہ وہی ہے جو فعل ماضی کا ہے ۔ 
(۲)ماضی قریب:ایسا فعل ہے جس سے زمانۂ گذشتہ قریب میں کام کا ختم ہونا یا کرنا معلوم ہوتاہے، جیسے: میں نے کھانا کھالیاہے۔ ماضی مطلق کے آخر میں لفظ:’ہے ،ہیں اور ہوں‘ بڑھانے سے ماضی قریب بنتی ہے، جیسے: آیا ہے، آئے ہیں، آیا ہوں۔ 
(۳)ماضی بعید : وہ فعل ہے جس سے زمانۂ گذشتہ بعید میں کام کاختم ہونا یا کرنا معلوم ہوتاہے، جیسے: محسن نے امتحان دیا تھا ۔ ماضی مطلق کے آخر میں ’تھا، تھے اور تھی‘ بڑھا نے سے ماضی بعیدبنتی ہے، جیسے: آیاتھا ،آئے تھے،آئی تھی۔ مصدر کی علامت حذف کرنے کے بعد ’چکاتھا، چکے تھے، چکی تھی‘بڑھانے سے بھی ماضی بعیدبنتی ہے، جیسے: آچکا تھا، آچکے تھے ، آچکی تھی ۔
(۴) ماضی ناتمام(استمراری):وہ فعل ہے جس سے زمانۂ گذشتہ میں کام کا تسلسل کے ساتھ ہونا یا کرنا معلوم ہوتا ہے، جیسے: وہ جاتا تھا۔ اس کو بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مصدر کی علامت ختم کر کے ’تاتھا، تے تھے ، تی تھی‘ اور’ رہا تھا ، رہے تھے، رہی تھی‘بڑھادیا جاتا ہے، جیسے: وہ لکھ رہا تھا،وہ لکھتا تھا،ہم جاتے تھے،ہم پڑھ رہے تھے۔
(۵)ماضی احتمالی (شکی) : وہ فعل ہے جس سے زمانۂ گذشتہ میں کام کے ختم ہونے یا کرنے میں شک و شبہ ظاہر کیا جاتا ہے،جیسے: عارف نے پڑھا ہوگا۔ ماضی مطلق کے آخر میں’ ہوگا، ہوں گے،ہوگی ‘بڑھانے سے ماضی احتمالی بن جاتی ہے، جیسے: وہ آیا ہوگا، وہ سب آئے ہوں گے،وہ آئی ہوگی، تو آیا ہوگا، تم سب روئے ہوگے۔
(۶)ماضی تمنائی :وہ فعل ہے جس سے زمانۂ گذشتہ میں کسی کام کے ہونے یا کرنے کی تمنا، آرزو اور شرط معلوم ہوتی ہے، جیسے: کاش! وہ پڑھتا ، اگر وہ لکھتا ۔ اس کے بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ شروع میں لفظ ’کاش‘ اور علامت مصدر ختم کر کے ’تا، تے، تیں‘ بڑھا دیا جاتاہے، جیسے: کاش! وہ پڑھتا۔ اس کے صرف تین صیغے آتے ہیں: واحد غائب ، جمع غائب اور واحد متکلم ۔ 
فعل کی تمام اقسام کے چھ چھ صیغے ہوتے ہیں: 
(۱)واحد غائب(۲)جمع غائب (۳) واحد حاضر (۴) جمع حاضر (۵) واحد متکلم(۶)جمع متکلم۔ سہولت کے لیے فعل کی تمام اقسام کی گردانیں لکھی جارہی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: 
گردانیں
افعال 
واحد غائب 
جمع غائب 
واحد حاضر
جمع حاضر
واحد متکلم
جمع متکلم
ماضی مطلق معروف
اس نے مارا 
ان سبھوں نے مارا
تو نے مارا
تم سبھوں نے مارا
میں نے مارا
ہم سب نے مارا
ماضی مطلق مجہول
وہ مارا گیا 
وہ سب مارا گیا 
تو مارا گیا 
تم سب مارے گئے
میں مارا گیا 
ہم سب مارے گئے
ماضی قریب معروف 
اس نے مارا ہے

ان سبھوں نے مارا ہے 
تم نے مارا ہے 
تم سبھوں نے مارا ہے 
میں نے مارا ہے
ہم سب نے مارا ہے
ماضی قریب مجہول
وہ مارا گیا ہے
وہ سب مارے گئے ہیں
تو مارا گیا ہے
تم سب مارا گئے ہو
میں مارا گیا ہوں
ہم سب مارے گئے ہیں
ماضی بعید معروف
اس نے مارا تھا
ان سبھوں نے مارا تھا
تو نے مارا تھا
تم سبھو ں نے مارا تھا
میں نے مارا تھا
ہم سبھوں نے مارا تھا
ماضی بعید مجہول
وہ مارا گیا تھا
وہ سب مارے گئے تھے
تو مارا گیا تھا
تم سب مارے گئے تھے
میں مارا گیا تھا
ہم سب مارے گئے تھے
ماضی بعید معروف
وہ مار چکا تھا
وہ سب مار چکے تھے
تو مار چکا تھا
تم سب مار چکے تھے
میں مار چکا تھا
ہم سب مار چکے تھے
ماضی بعید مجہول
وہ مارا جاچکا تھا
وہ سب مارے جا چکے تھے
تو مارا جا چکاتھا
تم سب مارے جا چکے تھے
میں مارا جا چکا تھا
ہم مارے جاچکے تھے
ماضی ناتمام معروف
وہ مارتا تھا
وہ سب مارتے تھے
تو مارتا تھا
تم سب مارتے تھے
میں مارتا تھا
ہم سب مارتے تھے
ماضی ناتمام مجہول
وہ مارا جاتا تھا
وہ سب مارے جاتے تھے
تو مارا جاتا تھا
تم سب مارے جاتے تھے
میں مارا جاتا تھا
ہم سب مارے جاتے تھے
ماضی ناتمام معروف
وہ ماررہا تھا
وہ سب مار رہے تھے
تو مار رہاتھا
تم سب مار رہے تھے
میں مار رہا تھا
ہم سب مار رہے تھے
ماضی ناتمام مجہول
وہ مارا جارہا تھا
وہ سب مارے جا رہے تھے
تو مارا جا رہا تھا
تم سب مارے جا رہے تھے
میں مارا جا رہا تھا
ہم سب مارے جا رہے تھے
ماضی احتمالی معروف
اس نے مارا ہوگا
ان سبھوں نے مارا ہوگا
تو نے مارا ہوگا
تم سبھوں نے مارا ہوگا
میں نے مارا ہوگا
ہم سب نے مارا ہوگا
ماضی احتمالی مجہول
وہ مارا گیا ہوگا
وہ سب مارے گئے ہوں گے
تو مارا گیا ہوگا
تم سب مارے گئے ہوں گے
میں مارا گیا ہوں گا
ہم سب مارے گئے ہوں گے
ماضی تمنائی معروف
کاش!وہ مارتا
کاش !وہ سب مارتے


کاش! میں مارتا

ماضی تمنائی مجہول
کاش! وہ مارا جاتا
کاش! وہ سب مارے جاتے


کاش! میں مارا جاتا

ماضی شرطیہ معروف
اگر وہ مارتا
اگر وہ سب مارتے


اگر میں مارتا

ماضی شرطیہ مجہول
اگر وہ مارا جاتا
اگر وہ سب مارے جاتے


اگر میں مارا جاتا

مضارع معروف
وہ مارے 
وہ سب مارے
تو مارا
تم سب مارے
میں ماروں
ہم سب ماریں
مضارع مجہول
وہ مارا جائے
وہ سب مارے جائیں
تو مارا جائے
تم سب مارے جاؤ
میں مارا جاؤں
ہم سب مارے جائیں
حال معروف
وہ مارتا ہے
وہ سب مارتے ہیں
تو مارتا ہے
تم سب مارتے ہو
میں مارتا ہوں
ہم سب مارتے ہیں
حال مجہول
وہ مارا جاتا ہے
وہ سب مارے جاتے ہیں
تو مارا جاتا ہے
تم سب مارے جاتے ہو
میں مارا جاتا ہوں
ہم مارے جاتے ہیں
حال استمراری معروف
وہ مار رہا ہے
وہ سب مار رہے ہیں
تو مار رہا ہے
تم سب مار رہے ہو
میں مار رہا ہوں
ہم سب مار رہے ہیں
حال استمراری مجہول
وہ مارا جارہا ہے
وہ مارے جارہے ہیں
تو مارا جارہا ہے
تم سب مارے جارہے ہو
میں مارا جارہا ہوں
ہم سب مارے جارہے ہیں
حال استمراری معروف
وہ مارتا رہا ہے
وہ سب مارتے رہے ہیں
تو مارتا رہا ہے
تم سب مارتے رہے ہو
میں مارتا رہا ہوں
ہم سب مارتے رہے ہیں
حال استمراری مجہول
وہ مارا جاتا رہا ہے
وہ سب مارے جاتے رہے ہیں
تو مارا جاتا رہا ہے
تم سب مارے جاتے رہے ہو
میں ماراجاتا رہا ہوں
ہم سب مارے جاتے رہے ہیں
مستقبل معروف
وہ مارے گا
وہ سب ماریں گے
تو مارے گا
تم سب مارو گے
میں ماروں گا
ہم سب ماریں گے
مستقبل مجہول
وہ مارا جائے گا
وہ سب مارے جائیں گے
تو مارا جائے گا
تم سب مارے جاؤگے
میں مارا جاؤں گا
ہم سب مارے جائیں گے
امر معروف
وہ مارے
وہ سب ماریں
تو مار
تم سب مارو
میں ماروں
ہم سب ماریں
امر مجہول
وہ مارا جائے
وہ سب مارے جائیں
تو مارا جائے
تم سب مارے جاؤ
میں مارا جاؤں
ہم سب مارے جائیں
نہی معروف
وہ نہ مارے
وہ سب نہ ماریں
تو نہ مار
تم سب نہ مارو
میں نہ ماروں
ہم سب نہ ماریں
نہی مجہول
وہ نہ مارا جائے
وہ سب نہ مارے جائیں
تو نہ مارا جائے
تم سب نہ مارے جاؤ
میں نہ مارا جاؤں
ہم نہ مارے جائیں
نوٹ: حال اور مستقبل سے بنائی گئی مضارع کی گردان دونوں گردانوں سے مل کر بنے گی، جیسے: وہ مارتا ہے یا مارے گا ۔ وہ مارا جاتا ہے یا مارا جائے گا۔
علامت فاعل : ’نے‘کے مواقع استعمال 
اردو میں فاعل کی علامت لفظ ’نے‘ہے ، چوں کہ اس کے استعمال میں اکثر غلطی واقع ہوجاتی ہے، جس سے تقریر وتحریر دونوں کی شگفتگی جاتی رہتی ہے۔ اس لیے ذیل میں علامت فاعل کے استعمال کے چند قواعد لکھے جارہے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں: 
(۱)علامت فاعل کا استعمال صرف فعل متعدی کے جملوں میں کیا جائے گا، جیسے: خالد نے کھانا کھایا۔ لیکن کبھی کبھی بعض متعدی افعال میں استعمال نہیں کیا جا تا ، جیسے: وہ بھولا، وہ بولا۔ 
(۲)کچھ افعال ایسے ہیں ، جن کے ساتھ علامت فاعل کا استعمال ضروری ہے، جیسے: غالب کے اس شعر میں 
میں نے چاہاتھا کہ اندوہِ وفاسے چھوٹوں 
وہ ستم گر میرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
(۳)فعل متعدی کے ساتھ آنے والا ’فعل امدادی‘ اگر متعدی ہو؛ تو علامت فاعل کا استعمال کیا جائے گا، جیسے: عارف نے خط بھیج دیا،فاروق نے جواب دے دیا۔اور اگر فعل امدادی لازم ہو؛ تو علامت فاعل کا استعمال نہیں ہوگا، جیسے: تحسین قلم لے گیا،عارف چلا گیا۔
فعل امدادی ایسے فعل کو کہاجاتا ہے ،جوفعل کے ساتھ اسے مدد دینے کے لیے آتا ہے ،جیسے : جواب دینا میں لفظ دینا اور سوال کرنا میں لفظ کرنا فعل امدادی ہے۔
مندرجہ ذیل صورتوں میں علامت فاعل کا استعمال نہیں ہوگا: 
(۱) فعل حال کے تمام صیغوں میں ، جیسے: وہ لکھتا ہے ،میں لکھ رہاہوں، تم لکھتے رہے ہو۔ 
(۲)فعل مستقبل کے تمام صیغوں میں جیسے: وہ جائے گا، میں جاؤں گا،ہم سب جائیں گے۔
(۳)ماضی ناتمام اور ماضی تمنائی کے تمام صیغوں میں، جیسے: وہ لکھتا تھا،میں لکھ رہاتھا ، کاش ! وہ لکھتا ۔ کاش ! میں دیکھتا۔
(۴)فعل لازم کے صیغوں میں ، خواہ وہ ماضی ہی کیوں نہ ہو،جیسے: میں دوڑا ، میں آیا ، وہ گیا۔
نوٹ: علامت فاعل جس جملے میں استعمال ہوگی ، اس میں فعل فاعل کے بجائے مفعول کے تابع ہوگا،جیسے : حامد نے روٹی کھائی ، شاہد نے کتابیں پڑھیں ۔ ان کو حامد نے روٹی کھایا اور کتابیں پڑھا نہیں کہا جائے گا۔
مطابقتِ فعل ، فاعل اور مفعول کے چند اصول
(۱) فعل لازم، واحد ، جمع اور تذکیر و تانیث میں فاعل کے مطابق ہوگا ، جیسے : مرغااڑا ، مرغی اڑی ، بکری آئی،حامد گیا،مردآئے،عورتیں آئیں۔
(۲)فعل متعدی معروف میں اگر علامت فاعل نہ ہو ، تو واحد ، جمع اور تذکیر و تانیث میں فعل فاعل کے مطابق ہوگا ، جیسے : بکری دوڑتی ہے، خالد کھا تا ہے،بکریاں دوڑ رہی ہیں ۔
(۳) فعل متعدی معروف میں اگر علامت فاعل ہو ، لیکن علامت مفعول (کو) نہ ہو، توفعل مفعول کے مطابق ہوگا، جیسے : خالد نے روٹی کھائی۔ عورتوں نے خط لکھا۔
(۴) فعل متعدی معروف میں اگر علامت فاعل اور علامت مفعول دونوں ہوں ، تو فاعل و مفعول (خواہ واحد ہوں یا جمع ،مذکرہوں یا مؤنث ) فعل متعدی معروف واحد مذکر ہی رہے گا، جیسے : زیدنے کتاب کو پڑھا ، لڑکیوں نے قلموں کوخریدا،تاجر نے کتابوں کو بیچا،میں نے ملکوں کا دورہ کیا۔
(۵) فعل متعدی مجہول، واحد ، جمع اورتذکیر وتانیث میں اپنے مفعول (نائب فاعل)کے مطابق ہوگا ، جیسے : چور پکڑ ا گیا ، بکری لائی گئی ، لڑکے بلائے گئے ،لڑکیاں بلائی گئیں ۔
(۶) جب فاعل لفظ تعظیمی اور واحد ہو، تو فعل جمع لایا جائے گا ، اور تذکیر و تانیث میں فاعل کے مطابق ہوگا،جیسے:آپ کب تشریف لائیں گے؟ آپ آئی تھیں ،مہمان تشریف لارہے ہیں۔
(۷) جب فاعل جمع کی ضمیرہو اور مذکر و مؤنث دونوں طرف لوٹے ، تو فعل مذکر اور جمع ہو گا ، جیسے : لڑکے اورلڑکیوں نے کہا کہ : ہم ہر وقت تلاوت کریں گے ،عورتوں اور مردوں نے مل کر عہدکیا کہ ہم حق بات کہنے سے نہ روکیں گے،بچے اور بچیوں نے مل کر ترانے گائے۔
(۸) جب مختلف قسم کی متعدد ضمیریں فاعل ہوں ، توفعل جمع ہوگا ، جیسے: وہ تم اور ہم مدرسہ گئے تھے ۔
(۹) جب اسم جمع فاعل ہو ، تو فعل واحد ہو گا ، جیسے : فوج جارہی ہے، قوم آ رہی ہے۔
(۱۰) جب متعدد اسما حرف عطف کے بغیر فاعل واقع ہوں، تو فعل جمع ہو گا، جیسے: دن رات چین سے گزررہے ہیں ،ماں باپ گھر پر آرہے ہیں۔
(۱۱) رشتے کے دو مذکر اسم جب بغیر عطف کے آئیں ،تو پہلا اسم واحد، دوسرا اسم جمع اور فعل جمع مذکر ہوگا ، جیسے: باپ بیٹے جا رہے ہیں،چچا بھتیجے سورہے ہیں ۔ اور اگر رشتے کے دو مؤنث اسم بغیر عطف کے آئیں، تو فعل جمع مؤنث ہوگا، جیسے : ماں بیٹی جارہی ہیں، ساس بہو سو رہی ہیں ۔
(۱۲) اگر فاعل غیر ذوی العقول ہو اور متعددہوں ، تو(خواہ فاعل واحد ہو یا جمع ، مذکر ہو یا مؤنث ) فعل جمع لایا جائے گا ، جیسے : بیل ، گھوڑ ے ،مرغی ، بکریاں چر رہی ہیں ۔
(۱۳)اگر متکلم کی ضمیر یں دوسری ضمیر وں کے ساتھ فاعل ہو کر آئیں ، تو فعل ہمیشہ متکلم کی ضمیروں کے مطابق ہو گا ، جیسے: وہ تم اور ہم آئے،وہ تم اور میں سویا۔
(۱۴) اگر جملے میں صرف حاضر اور غائب کی ضمیریں ہوں ، تو فعل، حاضر کی ضمیر کے مطابق لایا جائے گا ، جیسے:وہ اور تم جاؤگے۔ میں اور تم کھا ؤ گے۔
(۱۵) جن دو لفظوں نے مل کر مفرد کی شکل اختیا رکرلی ہو ، اگر ایسے الفاظ فاعل واقع ہوں ، توفعل قریب والے لفظ کے مطابق ہوگا ،جیسے: آب و ہوا خراب ہو رہی ہے ۔آب ودانہ اٹھ گیا۔
(۱۶) اگر متعدد واحد ذوی العقول حرف عطف کے بغیر فاعل واقع ہوں، تو فعل جمع لایا جائے گا ، جیسے : فاروق ، محسن ، عارف، تحسین حج کرنے گئے ۔
(۱۷) فاعل جمع ہواور دو یا دوسے زیادہ افعال ہوں؛ تو تمام افعال علامت فاعل سے متصل فعل کے مطابق ہوں گے، جیسے: میرے تمام لڑکوں نے ساتھ پڑھا، ساتھ کھیلا اور ساتھ کھایا۔ 
(۱۸)اگر فاعل، واحدکی شکل میں متعدد ہوں ، غیر ذوی العقول ہوں اور حرف عطف بھی ہو ، تو فعل واحد ہوگا، جیسے: گھوڑا، گدھا، بیل اور بکری چررہی ہے۔ 
(۱۹)اگر افعال دو یا دوسے زیادہ ہوں اور فاعل ایک ہی ہو؛ تو فاعل صرف ایک بار آئے گا۔ اور اگر افعال کا آخر ی حصہ بھی ایک ہی ہو، تو آخری حصے کو سب فعلوں کے بعد صرف آخری فعل میں لایا جا ئے گا، جیسے: محسن پڑھتا، لکھتا ، کھا تا ، پیتا اور سوتاہے۔ 
(۲۰)حروف اضافت:’کا ‘ واحد مذکر کے لیے ’کی‘ واحد اور جمع مؤنث کے لیے اور ’کے‘ جمع مذکر کے لیے استعمال کیے جائیں گے، جیسے: احمد کا قلم، سلمیٰ کا بھائی ،حلوائی کی مٹھائیاں،عارف کی کتاب ،عارف کی کتابیں،عارف کے کپڑے۔

اردو کے بنیادی قواعد

قسط نمبر (7) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس

اردو کے بنیادی قواعد
اردو ایک نہایت وسیع زبان ہے ، جو ہندستان کے تقریبا تمام گوشوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ، لیکن ہر علاقے کی زبان، لب ولہجہ ، الفاظ اور اندازتکلم میں تھوڑا بہت فرق پایا جاتاہے ، جو ایک فطری بات ہے ، لیکن تحریر میں یہ فرق نہیں پایا جاتاہے ، کیوں کہ گفتگواور تکلم کے حوالے سے ایسے قواعد وضع نہیں کیے گئے ہیں ،جنھیں ہر اردو بولنے والا شخص برتے ،اور ان کا لحاظ رکھے ، لیکن تحریر کے لیے ایسے قواعد وضع کیے گئے ہیں ،جنھیں تمام علاقوں کے لوگ تسلیم کرتے ہیں اور ان کی پابندی کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مختلف علاقے کے لوگوں سے گفتگو کریں گے ، تو لب ولہجہ اور انداز تکلم میں نمایاں فرق محسوس ہوگا، لیکن جب ان کی تحریریں پڑھیں گے، تو تمام خطوں کی تحریر وں میں یکسانیت نظر آئے گی ۔لہذا اردوسیکھنے کے لیے ان قواعد کے حوالے سے کچھ معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔
یہ صرف اردو زبان کی ہی تخصیص نہیں ، بلکہ دنیا کی تمام زبانوں میںیہی ہوتا ہے کہ ادائے مطلب اور مافی الضمیرکے اظہار کے لیے (خواہ زبانی طور پر ہویا تحریری طور پر)چند لفظوں کو جوڑکر جملے بنائے جاتے ہیں ۔ ان جملوں میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں ، جنھیں ہم اصطلاح میں اسم ، فعل اور حرف کہتے ہیں ۔
اسم:ایسے لفظ کو اسم کہا جاتا ہے، جس کے معنی دوسرے لفظ کے ملائے بغیر سمجھ میں آجاتا ہے۔ اور اس میں تینوں زمانوں : ماضی حال اوراستقبال میں سے کوئی زمانہ نہیں پایا جاتاہے۔ مثلاً: قلم،دوات، کاپی،کتاب وغیرہ۔
فعل: ایسا لفظ ہے، جواپنے معنی کے ادا کرنے میں کسی دوسرے لفظ کا محتاج نہیں ہوتا۔ اور اس میں تینوں زمانوں میں سے کوئی ایک زمانہ بھی پایا جاتا ہے ، جیسے :آیا (زمانۂ ماضی میں)۔آتا ہے۔ (زمانۂ حال میں) آئے گا۔ (زمانۂ مستقبل میں)۔
حرف: ایسا لفظ ہے، جو اپنامعنی دینے میں کسی دوسرے کا محتاج تونہیں ہوتا؛ لیکن دوسرے لفظ سے ملے بغیر مکمل مفہوم بھی ادا نہیں کر سکتا،جیسے : سے ، تک،کو،پر وغیرہ۔ 
مصدر: ایسا اسم ہے جو ماخذ ہوتاہے اور اس سے افعال متصرفہ بنتے ہیں۔ اس کی علامت (نا)ہے ،جیسے : کھانا، پینا وغیرہ ۔ مصدر کی چار قسمیں ہیں:
(۱)مصدر اصلی : ایسامصدرہوتاہے جسے اہل زبان اپنی زبان کے لیے مصدر بناتے ہیں ، اس میں کوئی حرف زائد نہیں ہوتا ، جیسے : آنا ، جانا، کھانا،پینا وغیرہ۔
(۲) مصدر جعلی : وہ مصدر ہے جو فارسی ، عربی اورکسی دوسری زبانوں کے الفاظ میں علامت مصدرلگا کرمصدربنا لیا جاتاہے، جیسے:چیدن سے چوننا،بخشیدن سے بخشنا،خریدن سے خریدناوغیرہ۔
(۳)مصدر مفرد: ایسے مصدر کو کہتے ہے جو اکیلا مصدر کا معنی دیتا ہے، جیسے : لکھنا، پڑھنا، بولنا،رونا وغیرہ۔ 
(۴)مصدر مرکب : اس مصدرکانام ہے جو دو لفظوں کو ملا کر مصدر بنا لیا جاتا ہے، جیسے: معلوم کرنا ، جواب دینا ، سوال کرنا ،خوشامد کرنا،اصرار کرناوغیرہ۔ 
حاصل مصدر: جو مصدر یا فعل کی حالت اور کیفیت کو بتلاتا ہے۔اسے حاصل مصدر کہتے ہیں، جیسے : تڑپنا سے تڑپ ، جنمنا سے جنم ،چبھنا سے چبھن، کھرچنا سے کھرچن۔
حاصل مصدر بنانے کے قاعدے 
(۱)مصدر کی علامت نا حذف کر کے ، جیسے : لوٹنا سے لوٹ وغیرہ۔
(۲) مصدر کے آخر سے صرف الف حذف کر کے ، جیسے : تھکنا سے تھکن،پھولنا سے پھولن، سوجناسے سوجن، دکھنا سے دکھن وغیرہ۔
(۳)علامت مصدر گرانے کے بعد الف بڑھا کر،جیسے : گھیرنا سے گھیرا، جھگڑنا سے جھگڑا۔
(۴)علامت مصدر گرا کر ی یا ائی لگا کر ، جیسے: ہنسنا سے ہنسی ، دھلنا سے دھلائی ۔
(۵)دوامروں کو ملا کر ، جیسے : بک بک ، جان پہچان ،کھینچ تان ۔
(۶)دو مختلف لفظوں کو جوڑکر ، جیسے : کتر بیونت ،چھان بین ،خرد برد۔
(۷)صفت پر لفظ(ہٹ)لگا کر،جیسے:چکناسے چکناہٹ،کڑواسے کڑواہٹ،بوکھلاناسے بوکھلاہٹ۔
(۸) علامت مصدر ہٹانے کے بعد (وٹ) لگا کر ،جیسے: لکھنا سے لکھاوٹ ،گرنا سے گراوٹ،ملاناسے ملاوٹ،سجنا سے سجاوٹ۔
(۹) علامت مصدر حذف کر کے اس کے ساتھ (ت) جوڑ کر ، جیسے : بچنا سے بچت ، سکنا سے سکت،کھپنا سے کھپت،بڑھنا سے بڑھت۔
(۱۰)علامت مصدر گرانے کے بعد لفظ (وا) بڑھا کر،جیسے :بلانا سے بلاو ا، کھلانا سے کھلاوا،دھلنا سے دھلاوا،دیکھنا سے دیکھاوا۔
(۱۱)علامت مصدر ختم کرنے کے بعد (و)کا اضافہ کر کے ، جیسے : بچنا سے بچاو، گھٹنا سے گھٹاو،لگنا سے لگاو،دبناسے دباو۔
(۱۲) علامت مصدر ہٹا کر س بڑھا کر کے ، جیسے : پینا سے پیاس ،بکوانا سے بکواس۔
مصدرمتعدی بنانے کے قاعدے 
(۱)علامت مصدر سے پہلے ’’الف‘‘ زیادہ کرکے ، جیسے: ہلنا سے ہلانا، بہناسے بہانا،گرنا سے گرانا۔ 
(۲)علامت مصدر سے پہلے حرف کے ماقبل ’’الف‘‘ بڑھا کر ، جیسے: اچھلنا سے اچھالنا، اگناسے اگانا،کھانا سے کھلانا،دیکھنا سے دیکھانا۔
(۳)تین حرفی مصدر میں اگر دوسرا حرف ’’الف، واو، یای‘‘ہو ؛ تو اسے گرانے کے بعد علامت مصدر سے پہلے (الف)بڑھاکر کے ، جیسے: بھاگناسے بھگانا، کودنا سے کدانا ، لیٹنا سے لٹانا۔ 
(۴)دوحرفی مصدر میں اگر دوسرا حرف ’’الف ، واویا ی‘‘ ہو؛ تو اسے ’’لام‘‘ اور’’الف‘‘ سے بدل کر کے ، جیسے: کھاناسے کھلانا،سوناسے سلانا ، سیناسے سِلانا۔ 
(۵)مصدر لازم کے شروع میں لفظ ’’لے‘‘یا’’دے‘‘ بڑھاکر ، جیسے: لے آنا، دے جانا۔ 
(۶)کبھی ایک مصدر سے دوطرح کے بھی متعدی بنائے جاتے ہیں ، جیسے: دبنا سے دبانااور دابنا، سیکھناسے سکھانا اورسکھلانا۔ 

7 Apr 2018

رموز اوقاف

قسط نمبر (6) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس

رموز اوقاف 
ہرزبان میں عبارت کی تفہیم و تسہیل کے لیے کچھ علامتیں اور نشانیاں استعمال کی جاتی ہیں ، انھیں ’اوقاف‘یا ’رموز اوقاف‘کہاجاتاہے ۔اگر چہ قدیم زمانے میں ان علامتوں کا استعمال ندارد ہے ، لیکن موجودہ زمانے میں ان کا استعمال تحریر کو خوب صورت اور پیچیدہ مضمون کو قابل فہم بنا نے کے لیے لابدی ہے، لہٰذ ا اردو میں عام طورپر استعمال کی جانے والی علامتیں اور ان کے مواقع استعمال درج ذیل ہیں: 
نمبرشمار 
علامات 
اردو نام 
انگریزی نام 
عربی نام 
۱
،
سکتہ (چھوٹا ٹھہراو)
Comma
الفاصلۃ 
۲
؛
وقفہ (ٹھہراو)
Semicolon
الفاصلۃ المنقوطۃ
۳
.
ختمہ (وقف تام)
Full stop 
النقطۃ 
۴
:
رابطہ (ملاو)
Colon 
النقطتان
۵
؟
سوالیہ نشان 
Question mark
علامۃ الاستفھام
۶
!
ندائیہ ، فجائیہ 
Exclamation
علامۃ التعجب
۷
۔
خط 
Dash
الشرطتان
۸
’’‘‘
واوین 
Inverted Comma
علامۃالتنصیص
۹
()
قوسین 
Brackets
القوسین

مواقع استعمال
سکتہ :(،) یہ سب سے چھوٹا وقفہ ہے،یہاں پر زیادہ ٹھہرنا نہیں چاہیے ؛بلکہ سانس توڑے بغیر تھوڑا سارک کر آگے بڑھ جاناچاہیے۔ یہ درج ذیل جگہوں پر استعمال ہوتاہے: 
(۱) عبارت میں ایک سے زائد اسما کے درمیان، جو ایک دوسرے کے بدل کا کام دیتے ہوں، جیسے: جناب حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ ، دار العلوم دیوبند کے بانی نے ، جنگ آزدی میں عظیم کارنامے انجام دیے ۔ 
(۲) عبارت میں ایک ہی قسم کے متعدد لفظوں کے بیچ میں جو ساتھ ساتھ استعمال کیے گئے ہوں ، سوائے آخری دوکلموں کے درمیان، جہاں(و)(یا) اور (اور) لکھے جاتے ہیں، جیسے: بہادر شاہ ظفر بہت عقل مند ، وسیع النظر ، خیر خواہ اور مدبربادشاہ تھا ۔ 
(۳) ایک ہی درجے کے الفاظ اگر جوڑوں میں استعمال ہوں؛ تو ان جوڑوں کے درمیان، جیسے: شاہ ہو کہ گدا، امیرہوکہ فقیر، عالم ہویاجاہل ؛ سب برابر ہیں ۔ 
(۴) ایسے اجزائے جملہ کے درمیان ، جو بغرض تشریح لائے جاتے ہیں ، جیسے: میرے پاس قلم ، دوات، کتاب،کاپیاں غرض پڑھنے لکھنے کی تمام چیز یں موجود ہیں۔ 
(۵) ندائیہ لفظوں کے بعد، جیسے: بھائیو، بہنو، دوستو، بزرگو! 
(۶) دو یا دو سے زیادہ ایک ہی درجے کے ایسے چھوٹے جملوں کے درمیان، جو ایک بڑے جملے کے اجزا ہوں جیسے: میں کمرے سے درس گاہ گیا، درس گاہ سے مطبخ آیا، اب مطبخ سے کمرہ جاتاہوں۔ 
وقفہ: (؛)یہ ایسی جگہوں پر استعمال کیا جاتاہے،جہاں سکتہ سے زیادہ ٹھہرنے کی ضرورت پڑتی ہے ، مثلاً: 
(۱) جملوں کے لمبے لمبے ٹکڑوں کے درمیان ، جیسے: ہندستانیوں کا شعور بیدار ہوا؛ انھوں نے غلامی کی ذلت کو محسوس کیا؛ آزادی کے لیے جدوجہد شروع کی ؛ لگاتار کوششوں کے بعد کامیابی نے ان کے قدم چومے ۔ 
(۲) جہاں جملوں کی اہمیت بتانے اور ان کے مختلف اجزا پر تاکید کی ضرورت ہو، جیسے: جوکرے گا، سوپائے گا؛ جوبوئے گا ، وہ کاٹے گا۔ 
(۳) جہا ں جملوں کے ایسے حصے کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی ضرورت ہو، جن میں اندرونی طور پر سکتہ ہو، جیسے: آندھراپردیش ، کرناٹک اور تامل ناڈو جنوبی ہند کی؛اتر پردیش،پنجاب اور کشمیر شمالی ہند کی ریاستیں ہیں۔ 
ختمہ : (.)اس علامت پر مکمل ٹھہراوہوتاہے، اس لیے اسے جملے کے خاتمے پر لگائی جاتی ہے۔یہ علامت فل اسٹاپ کے نام سے زیادہ مشہورہے۔انگریزی میں نقطہ(.)اوراردومیں ڈیش (۔) لگایا جاتا ہے، جیسے: فٹ بال کھیلنا صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ مخففات کے بعد بھی یہ علامت لگائی جاتی ہے، جیسے:ایم،اے۔بی، اے۔پی،ایچ،ڈی۔بی،یو،ایم،ایس۔ 
رابطہ : (:) اس کا ٹھہراو وقفہ کے ٹھہراو سے زیادہ ہوتاہے، یہ حسب ذیل موقعوں پر استعمال کیا جاتا ہے: 
(۱)جب جملے کی تفصیل کی جائے ، جیسے: انسان کو بعضے کاموں کی قدرت ہے، بعضے کی نہیں: وہ چل سکتاہے؛ دوڑ سکتاہے؛ مگر اڑنہیں سکتا۔ 
(۲)قول، مقولہ، کہاوت اور اقتباس نقل کرنے سے پہلے ، جیسے: مقولہ ہے کہ : گیا وقت پھر ہاتھ آتانہیں ۔ میرکے شعر کامصرع ہے کہ : ع 
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ 
سوالیہ نشان : (؟)سوالیہ جملوں کے آخر میں یہ علامت لگائی جاتی ہے، جیسے: اسلام کے آخری پیغمبر کا کیا نام ہے؟ 
ندائیہ ، فجائیہ : (! )یہ علامت خطابی لفظوں یا ان جملوں کے بعد لگائی جاتی ہے، جن سے کوئی جذبہ ظاہر کرنا ہوتاہے، مثلاً : غصہ ، ناراضگی ، حقارت، استعجاب، خوف وغیرہ ، جیسے:سامعین کرام ! خاموش! آپ آگئے! ۔ اورکبھی جذبے کی شدت کی مناسبت سے ایک سے زیادہ علامتیں لگا دیتے ہیں، جیسے: آہا!!! 
خط (۔): چھوٹے جملہ معترضہ کے شروع اور آخر میں یہ علامت مستعمل ہے، جیسے: میرا ساتھی ۔ جس کانام احمد ہے۔ کل گھر جارہا ہے۔ 
واوین (’’ ‘‘): کسی کا قول اسی کے الفاظ میں نقل کرنے یا کسی مضمون میں دوسرے مضون کا اقتباس لینے یا کسی خاص نام کو اجا گر کرنے کے لیے اول وآخر میں یہ علامت لگائی جاتی ہے ، جیسے: مولانا محمد علی جوہر نے انگریزوں سے لندن میں کہا تھا کہ: ’’میں وطن جاؤں گا؛ تو پروانۂ آزادی لے کر جاؤں گا‘‘۔ 
قوسین (( )): یہ علامت طویل جملہ معترضہ ، تشریحی عبارت اور کسی عبارت کو نمایاں کرنے کے لیے اول و آخر میں لگائی جاتی ہے ، جیسے: میری کتاب (جسے میں ہر وقت پڑھتارہتاتھا ) کسی نے غائب کر دی ہے ۔ 
چند علامتیں
مذکورہ بالا رموز اوقاف کے علاوہ مندرجہ ذیل علامتیں بھی استعمال کی جاتی ہیں :
ع: دوران تحریر مصرع آجانے پر اس سے پہلے یہ علامت لگائی جاتی ہے ، جیسے: ع 
رات ہے یاستاروں کی بارات ہے
؂ : شعر سے پہلے یہ علامت استعمال کی جاتی ہے ، جیسے: ؂ 
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ ، میری بے زبانی دیکھتے ۔۔۔۔۔۔ جاؤ
ؔ : یہ علامت شاعر کے قلمی نام یعنی تخلص پر لگا ئی جاتی ہے ، جیسے:فراقؔ ۔ داغؔ ۔مومنؔ ۔عاجزؔ ۔
۔۔۔۔۔ : تحریر کے دوران کسی خاص نام یا مقام کو نمایا ں کرنے کے لیے لائن کے اوپر یہ علامت لگائی جاتی ہے، جیسے:حضرت مولانا منیرالدین ؒ جہاز قطعہ ، گڈا جھار کھنڈ کی ایک عظیم ہستی تھی۔ جن کی بزرگی اور ولی اللہی کا اعتراف دست ودشمن سب نے یکساں طور پر کیا ہے ۔ 
۔۔۔: اقتباس میں بیچ کا کچھ حصہ حذف کردینے ، یا کوئی شعر یا تحریر مکمل نہ ہونے پر شروع یا آخر میں یہ علامت لگائی جاتی ہے، جیسے: ۔۔۔کوچۂ جاناں جاناں ۔
یہ ڈاکٹر کلیم عاجزؔ کے شعر کے دو سرے مصرع کا آخری حصہ ہے۔پورا شعر اس طرح ہے: ؂ 
خیریت سے ہے یہاں ، سر نہ دل وجاں جاناں 
کوچۂ جاناں نہیں ، کوچۂ جاناں جاناں
اور جیسے: یہ قدم قدم بلائیں ۔۔۔
پورا شعر اس طرح ہے: ؂
یہ قدم قدم بلائیں ، یہ سواد کو ئے جاناں 
وہ یہیں سے لوٹ جائیں ، جسے زندگی ہو پیاری 
؍ : تاریخ یا اعداد وشمار کے خاتمے پر یہ تر چھی لکیر لگائی جاتی ہے ، جیسے: آپ ﷺ ۹؍ ربیع الاول پیر کے روز پیدا ہوئے۔
مضمون کو خوب صورت اور قابل فہم بنانے کے لیے ان علامتوں کو ان کے صحیح مقام پر برتنا اور استعمال کرنا ضروری ہے ۔

اردو کا رسم الخط اور املا



قسط نمبر (5) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
اردو کا رسم الخط 
کسی بھی زبان کے لکھنے کی معیاری صورت کو’ رسم الخط‘کہا جاتاہے۔ اردو کے حروف تہجی بعینہ وہی ہیں، جو عربی اور فارسی کے ہیں، البتہ کچھ دیگر حروف (جو عربی اور فارسی میں نہیں ہیں اور جن سے ہندستانی زبان کی خاص خاص آواز یں ظاہر ہوتی ہیں ) اردو میں بڑھا د یے گئے ہیں، جیسے : ٹ ،ڈھ،ڑھ وغیرہ ۔ اور چوں کہ عربی کا رسم الخط ’خط نسخ‘ہے ، جس کا مآخذ سامی رسم الخط ہے۔اور خط نسخ میں کچھ تبدیلی کر کے فارسی کا رسم الخط بنایا گیا ہے، جس کو’خط نستعلیق‘ کہا جاتا ہے ، لہذا اردو کے حروف تہجی بعینہ عربی اور فارسی کے حروف تہجی ہونے کی وجہ سے اردو کا رسم الخط ’خط نستعلیق‘ ہے۔
املا کے ضروری قواعد 
املا کی تعریف :رسم الخط کے مطابق لفظ میں حرفوں کی ترتیب کا تعین ، ترتیب کے لحاظ سے اس لفظ میں شامل حرفوں کی صورت اور حرفوں کے جوڑنے کے معیاری اور مروجہ طریقے کو’ املا‘ کہا جاتا ہے ۔ 
اردوزبان کے املا کا مسئلہ سب سے پیچیدہ ہے ،کیوں کہ اردو ایک مخلوط زبان ہے ،جس میں مختلف زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ اب یہاں دوصورتیں ہیں : پہلی صورت تو یہ ہے کہ جس زبان سے جس لفظ کو مستعار لیا گیا ہے ، اس کو اسی زبان کے رسم الخط میں لکھا جائے ،لیکن اب جب کہ یہ الفاظ مستعار اردو زبان کا حصہ بن گئے ہیں ، تو ان کو ان کے رسم الخط میں لکھنا ضروری نہیں ، لیکن بہت سے الفاظ ایسے بھی ہیں کہ اگر اُنھیں انھیں کی زبان کے رسم الخط میں نہ لکھے جا ئیں ، تو یا تومعنی ہی بدل جاتے ہیں ، یا پھر ان کے معنی سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مستعارالفاظ میں اعراب لگا دیا جائے ، لیکن اردوکا رسم الخط اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس لیے اس حوالے سے ہندستان وپاکستان کے علما کی وہ تجاویز مختصر طور پر درج کی جارہی ہیں، جن کواکثریت نے قبول کیا ہے اور وہی املا رائج بھی ہے۔ 
الف 
الف ایک مصوتہ ہے۔اس کی دو قسمیں ہیں: (۱)الفِ ممدودہ (۲) الفِ مقصورہ ۔
الفِ ممدودہ : الف ممدودہ ایک لمبا مصوتہ ہے۔اسے کھینچ کر پڑھا جاتا ہے، جب یہ مرکب لفظوں کے بیچ میںآتا ہے،تو اس پر مدنہیں لکھا جاتا ہے، جیسے: تیزاب ،سیلاب،دستاویز،مرغابی وغیرہ۔لیکن جب مرکب لفظوں کے دونوں اجزا کا تلفظ علاحدہ علاحدہ کیا جائے، تو وہاں پر مد لکھا جائے گا ، جیسے: گرد آلود ، عالم آرا،رنگ آمیز ، غرق آب۔
الفِ مقصورہ:یہ ایک چھوٹا مصوتہ ہے، اس پرنہ تو مد لگا یا جاتاہے اور نہ ہی کھینچ کرپڑھاجاتا ہے،جیسے: اب،اگر،ابھی، اس ، ادھر وغیرہ۔
عربی الفاظ اور الف مقصورہ 
عربی کے وہ الفاظ ،جن کے آخر میں الفِ مقصورہ کی آواز آتی ہے اور انھیں ’ی‘ سے لکھا جاتاہے، انھیں اسی طرح عربی کے رسم الخط پر لکھنا چاہیے،جیسے : مدعیٰ ،مصطفی،مصلیٰ،عیسیٰ،موسیٰ، عقبیٰ، تقویٰ وغیرہ ۔ اسی طرح بعض عربی لفظوں کے بیچ میں الفِ مقصورہ لکھا جاتا ہے اور وہاں الفِ مقصورہ کا تلفظ بھی کیا جاتا ہے۔اس بارے میں تجویزیہ ہے کہ انھیں پورے الف سے لکھا جائے،جیسے: رحمان، سلیمان، اسماعیل، اسحاق۔ 
الف اور ہائے مختفی 
اردومیں ہائے مختفی کاوجود نہیں ہے،اس لیے ہندی لفظوں کے آخر میں ہائے مختفی کے بجائے الف لکھناچاہیے،جیسے:اُرا،اڈا،انگارا،باجا،بیڑا،پہاڑا،تانگا،رکشا،راجا،ٹھیلا،کٹورا وغیرہ ۔
ایسے مرکب الفاظ جن کا ایک جز فارسی یا عربی ہے اور وہ اردو کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں، انھیں الف سے لکھا جانا چاہیے،جیسے:آب خورا،بھڑکیلا،بے صبرا،جوشیلا،غل غپاڑا،تھکاماندا،چوراہا۔ 
ایسے الفاظ جو ہندی سے آئے ہیں اور ان کے آخر میں’ ی‘ کے بعد ہائے مختفی ہے اور اس کاتلفظ فتحہ سے ہوتا ہے، انھیں ہائے مختفی سے ہی لکھنا چاہیے،جیسے:ستیہ جیت راے،راجیہ سبھا،ساہتہ پریشد وغیرہ ۔ 
فارسی اور اردو کے ایسے متحد الشکل اورمختلف المعنی الفاظ ،جو الف اور ہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں، اور ان کا تلفظ یکساں ہوتاہے۔ ان میں سے فارسی کو فارسی کے رسم الخط کے مطابق اور اردو کو اردو کے رسم الخط کے مطابق لکھا جائے گا، جیسے :چارہ (اردو)علاج ودرد کے معنی میں۔ چارا (فارسی) بمعنی جانوروں کی خوراک ۔ پارہ (اردو)ٹکٹرا اورحصے کے معنی میں ۔پارا (فارسی)بمعنی سیماب ۔نالہ (فارسی) فریاد۔ نالا (اردو ) بڑی نالی۔پتہ: ٹھور ٹھکانہ اور پتا بمعنی پات، برگ۔
عربی اور فارسی کے بعض الفاظ جوہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں، انھیں ہائے مختفی سے ہی لکھنا چاہیے، جیسے: پردہ، جلوہ ،حلوہ،سقہ،حقہ وغیرہ۔
یوروپی زبانوں کے دخیل الفاظ کو رائج املا کے مطابق لکھا جائے گا،جیسے:کمرہ۔اور دیگر الفاظ کو الف سے لکھا جائے گا، جیسے: ڈراما،سوڈا، فرما۔
’الف‘ اور ’ہ‘ پر ختم ہونے لفظوں کے بعد حروفِ عطف آئیں، تو انھیں یائے مجہول سے بدلنا چاہیے،جیسے: کلکتہ : کلکتے سے،مئے خانہ: مئے خانے تک،افسانہ: افسانے میں،پردہ: پردے پر وغیرہ۔
ال 
عربی کے رائج الاستعمال وہ الفاظ جن کے شروع میں ’ال‘آتا ہے خواہ وہ پڑھا جائے،جیسے: بالکل،بالفعل،ملک الموت۔ یانہ پڑھا جائے ،جیسے: عبد الشکور، بالترتیب ،خادم الدین،زیب النسا۔ ایسے تمام الفاظ ’ال‘کے ساتھ لکھے جائیں گے۔
تنوین
عربی کے جو الفاظ مدور ’ۃ‘ پر ختم ہوتے ہیں، انھیں اردو میں تائے مطولہ سے لکھنا چاہیے،جیسے:حیاۃ سے حیات،سماۃسے سمات ،بابۃ سے بابت، ضرورۃ سے ضرورت ،فطرۃ سے فطرت۔
عربی کے ایسے الفاظ جومدور’ۃ‘ پر ختم ہوتے ہیں اور ان پر تنوین لگا نے کی ضرورت پیش آئے، تو ان تائے مدورہ کو لمبی تاسمجھی جائے اور ’ت‘ کے بعد الف بڑھا کر تنوین لگائی جائے،جیسے: ضرورۃسے ضرورتاً ، فطرۃ سے فطرتاً ، حکمتہ سے حکمتاً ، کلیۃََسے کلیتاً ۔ اس سلسلے میں بعض علما کی تجویز یہ ہے کہ تنوین کو نون سے بدل دیا جائے ،جیسے: عوماََ کو عمومن اورفوراً کو فورن لکھا جائے، لیکن اس تجویز کو قبول نہیں کیا گیا۔ اس لیے نون سے بدل کر لکنا غلط ہے۔ 
ت،ث،ق،ک،غ،گ،ت،ث،ج،ذ،ز،ژ،س،ش،ص،ض،ط،ظ،غ،گ، ق، ک
عربی وفارسی کی مذکورہ اصوات، اگر چہ قریب المخارج ہونے کی وجہ سے ان کی اصوات ایک دوسرے میں گم ہوگئی ہیں ،لیکن ان اصوات کو انھیں حروف سے لکھنا ضروری ہے، جیسے: محبت، خبیث، جہاز ،ذکر،زبان، اژدہا، سب،صبر ، ضبط، طشتری، ظالم، غم، گھر، قسم، کبھی۔ انھیں محبط، خبیش، جکر، اجدھا وغیرہ لکھنا درست نہیں ہے۔
نون
اردو کے جن مصدروں میں دو’ن‘ آتے ہیں: ایک نون مادۂ فعل کا اور ایک نون مصدر کی علامت کا۔ان مصدروں کو دونون کے ساتھ لکھنا چاہیے،جیسے: سننا، گننا،بننا۔انھیں تشدید کے ساتھ سنّا،گناّ،بنّا لکھنا غلط ہے۔ 
واو
قدیم اردو میں پیش کو’و‘ سے لکھا جاتا تھا، جیسے: اوس،اودھر۔ اب ان لفظوں کو ’و‘ کے بغیر لکھنا چاہیے۔ جیسے: اس ، ادھر،پہنچنا،ان۔چند لفظوں کی اصل میں ’و‘ رہتا ہے۔ لیکن ان سے بننے والے لفظوں میں ’و‘ کی جگہ پیش لاتے ہیں، ایسے لفظوں کو ’و‘ کے بغیر لکھنا چاہیے،جیسے: لوہا سے لہار،سونا سے سنار۔
بعض الفاظ’و‘کے سات اور ’و‘ کے بغیردونوں طرح لکھے جاتے ہیں،جیسے:دلہن ودولہن، نوکیلا ونکیلا، ہندستان و ہندستان وغیرہ۔واوِمعدولہ کے بعدالف ہو تو’و‘ کی صوتیت ختم کرکے صرف الف پڑھتے ہیں، جیسے: خواب،خواہش،خواجہ۔اوراگرواوکے بعد الف نہ ہو ،توتلفظ میں’و‘ کوپیش سے بدل دیتے ہیں،جیسے: خود، خوش، خویش۔ 
ہائے ملفوظ
لفظ کے آخر میں ہائے ملفوظ ہائے مختفی کی طرح لکھی جاتی ہے۔ ضمیراشاریہ: ’یہ،وہ‘ اور کافِ بیانیہ’کہ‘ کو لٹکن اور کہنی دار ’ہ‘ کے بغیر لکھنا چاہیے، جیسے : حالاں کہ ،بلکہ،وہ،یہ۔
اگر ہائے ملفوظ شروع یا درمیان کلمے میں آجائے ،تواس کو کہنی دار ’ہ‘ کے ساتھ لکھنا چاہیے،جیسے: ہم،ہمارا، کہو، کہاں وغیرہ۔آخر میں آنے والی ہائے ملفوظ سے پہلے ’ی ‘ہو،تو کہنی دار ’ہ‘ نہیں لکھنا چاہیے، جیسے: تشبیہ، تنبیہ، تکریہ، تنزیہ۔ ان لفظوں کو تشبیہہ،تنبیہہ ،تکریہہ وغیرہ لکھنا درست نہیں ہے۔
ہائے مخلوط 
اگر چہ قدیم املا میں ہائے ملفوظ اور ہائے مخلوط میں فرق نہیں کیا جاتا تھا۔ چنانچہ ہے کوھے اور ہمیشہ کوھمیشہ وغیرہ لکھ دیتے تھے،لیکن اب ہائے مخلوط کو ہکارآوازوں کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، اس لیے اب ہائے مخلوط صرف وہیں لکھی جائے گی،جہاں ہکارکی آواز ہو ،جیسے: بھائی، بھلائی،کھدائی، اچھا، بدھ،لاکھ ،گھوڑا۔ ان جیسے تمام ہکار آوازوں کو ہائے ملفوظ سے لکھنا درست نہیں ہے۔
لفظ کے شروع میں ہائے مخلوط لکھنا غلط ہے۔وہاں ہمیشہ ہائے ملفوظ لکھی جائے گی،جیسے: ہمیشہ، ہے، ہمارا وغیرہ۔ انھیں ھمیشہ ،ھے وغیرہ لکھنا درست نہیں ۔اسی طرح کلمے کے بیچ میں آنے والی ہائے ملفوظ کو اگر اس میں ہکار کی آواز والا حرف نہ ہو، تو انھیں لٹکن والی ’ہ‘ سے لکھی جائے گی،جیسے: پہلا،دہلی،دہن۔ انھیں پھلا،دھلی اور دھن لکھنا صحیح نہیں ہے۔
ہمزہ 
جہاں دومصوتے ایک ساتھ جمع ہو جائیں اور ہر مصوتہ اپنی اپنی آواز دے، تو وہاں پرہمزہ لکھا جائے گا،جیسے: غائب،دائم،رائج،قائم،دائرہ وغیرہ۔جن لفظوں میں دوہرے مصوتے کی آوازآتی ہے،وہاں پر ہمزہ لکھا جائے گا، جیسے: گھماؤ،بلاؤ،جاؤ،بچاؤوغیرہ۔
جس لفظ کے آخر میں ’و‘ ہواور اس سے پہلے ساکن مصوتہ ہو، تو اس پر ہمزہ نہیں لگایا جائے گا، جیسے:بھاو،گھاو،داو،پڑاو،الاو وغیرہ۔
عربی کے ایسے الفاظ جن کے آخرمیں اصلاً ہمزہ ہے، لیکن اردومیں الف سے بولے جاتے ہیں، انھیں ہمزہ کے بغیر الف سے لکھا جائے گا،جیسے: شعرا ،ادبا، فضلا،علما۔البتہ یہ الفاظ کسی ترکیب کا جزہوں، تو ہمزہ لکھا جائے گا، جیسے:شعرائے کرام،ثناء اللہ،صوفیائے ہند،ضیائے دین وغیرہ۔
عربی کے وہ الفاظ جو الف پر ختم ہوتے ہیں اور اصلاان کے بعد ہمزہ ہوتا ہے جو اردو رسم الخط میں حذف کر دیا جاتا ہے۔ان لفظوں کے بعد اگر تنوین آئے ،تو وہاں پرہمزہ لگایا جائے گا، جیسے:ابتدا سے ابتداءَََ، انتہا سے انتہاءَََ،ارتقا سے ارتقاءَََ۔
کسی لفظ کے آخر میں یائے مجہول ہو اور اس سے پہلے فتحہ ہو، تو وہاں پرہمزہ لکھنا چاہیے،جیسے: گئے ، نئے وغیرہ۔
کسی لفظ کے آخرمیں یائے مجہول ہو اور اس سے پہلے کسرہ ہو، تواس پرہمزہ نہیں لکھناچاہیے، جیسے: پڑھیے،لکھیے،دیکھیے،چاہیے،لیے،دیے وغیرہ۔
افعال کے آخرمیں اگردو’ی‘ آئیں،توہمزہ لکھا جائے گا،جیسے:آئیے،جائیے،بلائیے۔
جن لفظوں کے آخر میں یائے مجہول جزوِ لفظ ہو، تو انھیں ہمزہ کے بغیر لکھا جائے گا، جیسے: واے، چاے،بجاے۔
فارسی کے چند الفاظ’ی‘سے لکھے جاتے ہیں،لیکن اردو میں ان کا تلفظ ’ی‘ سے نہیں؛بلکہ ہمزہ سے ہوتاہے،ایسے لفظوں کوہمزہ سے لکھنا چاہیے،جیسے:آزمائش،ستائش،آئندہ،نمائندہ،شائع ،قائم،فائل، حدائق وغیرہ۔
جب دو الگ الگ اسموں کے درمیان واو اتصال کا ہو، تواس پر ہمزہ نہیں لکھا جائے گا،جیسے:معافی وتلافی،باغ وراغ،آب ودانہ ،آب وہوا وغیرہ۔
بعض عربی لفظوں میں’الف‘اور’واو‘کے بعدہمزہ لکھاجاتاہے،جیسے:جرأت، مؤثر، تأثر، مؤدب۔ اردو میں ان لفظوں کو ہمزہ کے بغیر لکھنے کا مشورہ دیا گیا ہے، جیسے: جرات،تاثر،موثر،مودب۔
لیکن انھیں الف اور واو پر ہمزہ دے کر لکھناہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے، تاکہ تلفظ اور املادونوں میں یکسانیت پیدا ہو جائے۔
ہمزہ اور اضافت 
ایسے مرکب الفاظ جن کے آخر میں ہائے مختفی ہو،تو وہاں پر ہمزہ لگایا جائے گا،جیسے: نامۂ عشق، خانۂ خدا، جلوۂ طور،نذرانۂ خلوص، خانۂ دل ۔
جس مضاف کے آخر میں مصوتے :الف اورواو میں سے کوئی ایک حرف آئے، تو ان کے آگے یائے مجہول بڑھا کر ہمزہ لگایا جائے گا،جیسے: دوائے دل،تمنائے عشق،نوائے سروش، بوئے گل، سوئے چمن،خوشبوئے وطن وغیرہ۔
جس مضاف کے آخر میں ’ی‘ آئے ،اس پر ہمزہ کے بجائے زیر لکھا جائے گا،جیسے:بے خودیِ عشق،تازگیِ خیال۔
یائے مجہول پر ختم ہونے والے الفاظ ،جو دوہرے مصوتے سے بولے جاتے ہیں، اضافت کے وقت ان پر ہمزہ لگایا جائے گا،جیسے: مئے رنگین،تگنائے غزل۔
جن لفظوں کے آخر میں ہمزہ آتا ہے، بوقت اضافت کسرہ لگایاجائے گا، جیسے :سوءِ ظن، مبدءِ اول، مبدءِ فیض۔
سابقے اور لاحقے 
لفظ کے شروع میں بڑھائے جانے والے جز کو ’سابقہ‘ کہا جاتاہے، جیسے:بے ادب ،بے ایمان،آپس میں ، دل میں ،ان پڑھ،ہم کلام ،ہم عصر، بہ خوبی،بہ ہر صورت،دل چسپ، طالب علم۔اورلفظ کے آخر میں بڑھائے جانے والے جز کو ’لاحقہ‘ کہاجاتا ہے،جیسے: قلم کار، صنعت کار، نیل گوں، پیشتر، خواب گاہ۔صنم خانہ ۔بت کدہ وغیرہ۔ ایسے تمام سابقوں اور لاحقوں کو الگ الگ لکھنا چاہیے، لیکن جن کو ملا کر لکھنے کا رواج ہوچکا ہو، تو انھیں ملاکر لکھنا ہی بہتر ہے، جیسے: پاسبان،باغیچہ، بچپن ، غمگین، سوگوار، بیتاب۔ 
انگریزی اور یورپی زبانوں کے الفاظ اور اصطلاحوں کوٹکڑوں میں تقسیم کر کے علاحدہ علاحدہ لکھنا چاہیے، جیسے: پارلیا منٹ،ٹیلی ویژن، انسٹی ٹیوٹ ،ورک شاپ ، ٹرانس پورٹ۔
اسی طرح عربی کے کچھ الفاظ جو اردو میں ملا کر لکھے جاتے ہیں، جیسے: مولٰنا،علیحدہ ۔انھیں اردو کے مطابق الگ الگ لکھنا چاہیے، جیسے: مولانا، علاحدہ ۔
علاماتِ اضافت: کا،کے، کی۔علاماتِ افعال :گا،گے ،گی وغیرہ اور ضمائراشاریہ کو علاحدہ علاحدہ لکھنا چاہیے، جیسے: آئے گا، اس کو، ہم کو، اس واسطے کہ، مجھ کو ،آپ کا وغیرہ۔
اعداد
(۱)گیارہ سے اٹھارہ کی گنتی میں ہائے ملفوظ لکھی جائے گی،جیسے:گیارہ،بارہ،تیرہ ،چودہ، پندرہ۔ اوراعدادِ ترتیبی ووصفی میں ہائے مخلوط لکھی جائے گی، جیسے:گیارھواں،بارھواں،تیرھواں۔
(۲)جو عدد مصمتے پر ختم ہوتے ہیں،انھیں وصفی عدد بنانے کے لیے ’واں‘ یا ’ویں‘کا لفظ بڑھایاجائے گا،جیسے: دسواں، چوبیسوں،اڑتالیسواں۔لیکن اگر عدد مصوتے پر ختم ہو تے ہوں، تومناسب یہ ہے کہ ہندسہ لکھ کر’ واں‘ یا’ویں‘ بڑھا دیا جائے ،جیسے: ۷۹ واں،۷۹ویں،۹۸واں،۹۸ویں۔
(۳)انیس سے اڑتا لیس تک کے اعداد میں سین کے بعد ’ی‘ لکھی جائے گی،جیسے: بیس، انتیس، چالیس، چوالیس، پینتالیس،سینتالیس۔
(۴)اعداد :۵۱،۸۱ اور ۹۱کو’ ی‘ سے لکھی جائے گی، جیسے: اکیاون،اکیاسی،اکیانوے۔
(۵)گھنٹوں کی تعداد بتانے کے لیے حروف استعمال کیے جائیں گے،جیسے:چوبیس گھنٹے،ساڑھے تین گھنٹے،پونے چار گھنٹے ۔اور اوقات کے لیے ہند سے لائے جائیں گے، جیسے:۴۰:۵، ۵۰:۱۰ وغیرہ ۔
(۶)جدول اور نقشہ جات میں ہند سے لکھے جائیں گے۔
(۷)اوزان اور پیمائشوں کے اعداد ہندسوں میں ہوں گے، جیسے: ۲۵۰؍گرام۔۶۰؍سنٹی میٹر وغیرہ۔ اسی طرح کسور بھی ہندسوں میں ہوں گے، جیسے: ۵۰۔۲؍کلو۔ ۷۵۔۲کلو وغیرہ ۔ لیکن جو کسور کسی عدد صحیح کا جزنہ ہوں، تو وہ حروف میں لکھے جائیں گے ، جیسے: چوتھائی حصہ ۔ تہائی آبادی وغیرہ ۔ 
(۸)تاریخ لکھتے وقت مہینے کے لیے حروف اورتاریخ وسن کے لیے ہندسے لائے جائیں گے، جیسے: ۹؍ذی الحجہ ۱۴۲۷ ؁ھ۔ اور صدی کے لیے حروف استعمال کیے جائیں گے،جیسے: چھٹی صدی عیسوی،اکیسویں صدی عیسوی وغیرہ ۔ 
(۹) فی صد لکھنے کے لیے اعداد کو ہندسوں میں لکھ کر اس کے آگے لفظ فی صدلکھا جائے گا، جیسے: ۵؍ فی صد،۱۰؍ فی صد۔ 
(۱۰) نقشہ ، چارٹ یا کتاب کے کسی صفحے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اعداد ہندسوں میں لکھے جائیں گے، جیسے: ملاحظہ فرمائیں : سیرت النبی ص ؍ ۵۰، دیکھیے: شکل نمبر ۳۔ 

اردو میں مخلوط دیگر زبانوں کے الفاظ کی شناخت کے اصول

قسط نمبر (4) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
اردو میں مخلوط دیگر زبانوں کے الفاظ کی شناخت کے اصول
اردو ایک مخلوط اور کل ہند رابطے کی زبان ہے، جس میں دوسری کئی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں، جن میں بیشتر عربی ، فارسی اورہندستانی الفاظ ہیں ،اور ان کے علاوہ دیگر زبانوں کے بھی الفاظ پائے جاتے ہیں ، لیکن یہ پتہ لگانا انتہائی مشکل کام ہے کہ اردو میں مستعمل الفاظ دوسری کس زبان سے تعلق رکھتے ہیں؟ تاہم کچھ ایسے بنیاد ی اصول وضع کیے گئے ہیں ، جن کی مدد سے اردو میں موجود دوسری زبانوں کے الفاظ کی شناخت کی جاسکتی ہے اور ان کی اصلیت کا پتہ لگا یا جا سکتا ہے ۔ 
عربی الاصل پہچاننے کے اصول 
اصول(۱):ایسے تمام الفاظ، جن میں ث،خ،ذ،ض، ظ اور غ میں سے کوئی ایک حر ف ہو؛تو وہ عربی الاصل ہوں گے ، جیسے: وارث ، خالد، ذلت، ضمانت، ظرافت،غباوت وغیرہ۔ 
اصول(۲):چوں کہ عربی الفاظ کے اکثر مادے عام طور پر سہ حرفی ہوتے ہیں، لہٰذا جس لفظ کا اصل مادہ سہ حرفی ہوگا،وہ عموماً عربی الا صل ہوگا،جیسے:منظر،منظور،اعظم،کریم وغیرہ کہ اس کااصل مادہ نَظَرَ،عَظَمَ اورکَرَمَ ہے۔ 
فارسی الاصل پہچاننے کے اصول 
اصول (۱): فارسی کے اصلی حروف چارہیں: پ، چ، ژ اور گ۔ باقی دیگر حروف سامی اور عربی زبان کے ہیں۔ ان میں سے پ، چ اور گ ہندستانی زبان میں بھی استعمال ہوتے ہیں، لیکن حرف ’ژ‘صرف فارسی کے ساتھ خاص ہے، لہٰذ ا جس لفظ میں’ژ‘ ہوگا ، وہ فارسی الاصل ہوگا ، جیسے: مِژْ گاں ، ژالہ،پژمردہ ، اژدہاوغیرہ ۔ 
اصول (۲): جب کسی لفظ میں فارسی کے مذکورہ چاروں حرفوں میں سے کسی ایک کے ساتھ عربی کے حروف آجائیں ؛ تو وہ بھی فارسی الا صل ہوگا، جیسے:چرخہ، خوانچہ وغیرہ ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں حرف ’چ‘ ہونے کی وجہ سے عربی کا لفظ نہیں ہوسکتا ؛کیوں کہ چار حروف عربی میں نہیں آتے : پ، چ، ژ، گ۔اورآٹھ حروف فارسی الاصل،نہیں ہیں:ث،ح،ص،ض،ط، ظ،ع،ق۔اورنوحروف اردو الاصل نہیں ہیں: ث،ح، ذ،ص، ض، ط، ظ، ع،ق۔بعض لوگوں نے ف اور خ کو بھی غیر اردو الاصل قرار دیا ہے۔ 
اصول (۳): جب خالص فارسی الفاظ : پ، چ،ژاور گ کے ساتھ ث ،ح، خ،ص ، ض، ظ، ع، ف اور ق میں سے کوئی ایک حرف آئے؛تو وہ فارسی الاصل ہوگا،جیسے:پائے تخت،پختہ،گفتگو، قینچی، ژرف، ژاژخا، پیدائش، چشم، گنبد و غیرہ۔
اردو الاصل پہچاننے کے اصول 
اصول (۱): اردو میں عربی اور فارسی کی طرح ہندستانی زبان کے بھی ڈھیروں الفاظ شامل ہیں ،لہذا جس لفظ میں ہندستانی الفاظ: ٹ،ڈ،ڑ اور ھ (دو چشمی )میں سے کوئی ایک حرف ہو ، تو وہ اصل اردو کا لفظ ہوگا ، جیسے :لڑکا ، بیٹا، ڈنڈا،پنکھا ،کھٹا ، میٹھا وغیرہ۔
اصول(۲):جہاں کہیں دوزبانوں کے الفاظ ایک ساتھ آئیں، جن میں سے ایک ہندی اور دوسرا عربی یا فارسی کا ہو ،تووہ الفاظ خالص اردو کے ہوں گے،جیسے:شادی بیاہ، دنگا فساد ، دھن دولت، گھربار،دکھ سکھ وغیرہ ۔
اصول(۳):اضافت سے بھی الفاظ کی اصلیت پہچانی جاتی ہے۔اضافت زیر ،ہمزہ اور ے کے ذریعے کی جاتی ہے ،جیسے: دشتِ غم ،بیضہء طاؤس،تماشائے گلشن۔اردو میں اضافت عام طور پر اس وقت کی جاتی ہے جب کہ مضاف و مضاف الیہ میں سے کوئی ایک عربی ہو اور دوسرا فارسی ہو، جیسے : صدائے باز گشت،گنبدِ بیضاء، چر خِ کہن ، عہدِ گذ شتہ وغیرہ ۔ 
اصول(۴):جن لفظوں میں مکتوبی غیر ملفوظی (جو لکھا تو جائے ، لیکن پڑھا نہ جائے )حروف ہوں گے،وہ اصل اردو کے الفاظ نہ ہوں گے، بلکہ کسی دوسری زبان کے الفاظ ہوں گے ، جیسے : خواہش ، درخواست ۔یہ دونوں فارسی کے ہیں ۔صلوٰۃ ،زکوٰۃ۔دونوں عربی لفظ ہیں۔
اصول(۵):جن کلموں میں مکتوبی حرف اپنی نوعیت کے خلاف پڑھا جائے ، تووہ بھی اصل اردو کے نہ ہوں گے ،جیسے: موسیٰ،عیسیٰ ،دعویٰ وغیرہ ۔ ایسے الفاظ عموماً عربی کے ہوں گے ۔ 
مذکورہ بالا اصولوں کی روشنی میں اردو میں مخلوط دیگر زبانوں کے الفاظ کی کسی حد تک شناخت کی جاسکتی ہے اور ان کی اصلیت کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔