قسط نمبر (5) محمد یاسین جہازی قاسمی کی
کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس
اردو کا رسم الخط
کسی بھی زبان کے لکھنے کی معیاری صورت کو’ رسم الخط‘کہا جاتاہے۔ اردو کے حروف تہجی بعینہ وہی ہیں، جو عربی اور فارسی کے ہیں، البتہ کچھ دیگر حروف (جو عربی اور فارسی میں نہیں ہیں اور جن سے ہندستانی زبان کی خاص خاص آواز یں ظاہر ہوتی ہیں ) اردو میں بڑھا د یے گئے ہیں، جیسے : ٹ ،ڈھ،ڑھ وغیرہ ۔ اور چوں کہ عربی کا رسم الخط ’خط نسخ‘ہے ، جس کا مآخذ سامی رسم الخط ہے۔اور خط نسخ میں کچھ تبدیلی کر کے فارسی کا رسم الخط بنایا گیا ہے، جس کو’خط نستعلیق‘ کہا جاتا ہے ، لہذا اردو کے حروف تہجی بعینہ عربی اور فارسی کے حروف تہجی ہونے کی وجہ سے اردو کا رسم الخط ’خط نستعلیق‘ ہے۔
املا کے ضروری قواعد
املا کی تعریف :رسم الخط کے مطابق لفظ میں حرفوں کی ترتیب کا تعین ، ترتیب کے لحاظ سے اس لفظ میں شامل حرفوں کی صورت اور حرفوں کے جوڑنے کے معیاری اور مروجہ طریقے کو’ املا‘ کہا جاتا ہے ۔
اردوزبان کے املا کا مسئلہ سب سے پیچیدہ ہے ،کیوں کہ اردو ایک مخلوط زبان ہے ،جس میں مختلف زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ اب یہاں دوصورتیں ہیں : پہلی صورت تو یہ ہے کہ جس زبان سے جس لفظ کو مستعار لیا گیا ہے ، اس کو اسی زبان کے رسم الخط میں لکھا جائے ،لیکن اب جب کہ یہ الفاظ مستعار اردو زبان کا حصہ بن گئے ہیں ، تو ان کو ان کے رسم الخط میں لکھنا ضروری نہیں ، لیکن بہت سے الفاظ ایسے بھی ہیں کہ اگر اُنھیں انھیں کی زبان کے رسم الخط میں نہ لکھے جا ئیں ، تو یا تومعنی ہی بدل جاتے ہیں ، یا پھر ان کے معنی سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مستعارالفاظ میں اعراب لگا دیا جائے ، لیکن اردوکا رسم الخط اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس لیے اس حوالے سے ہندستان وپاکستان کے علما کی وہ تجاویز مختصر طور پر درج کی جارہی ہیں، جن کواکثریت نے قبول کیا ہے اور وہی املا رائج بھی ہے۔
الف
الف ایک مصوتہ ہے۔اس کی دو قسمیں ہیں: (۱)الفِ ممدودہ (۲) الفِ مقصورہ ۔
الفِ ممدودہ : الف ممدودہ ایک لمبا مصوتہ ہے۔اسے کھینچ کر پڑھا جاتا ہے، جب یہ مرکب لفظوں کے بیچ میںآتا ہے،تو اس پر مدنہیں لکھا جاتا ہے، جیسے: تیزاب ،سیلاب،دستاویز،مرغابی وغیرہ۔لیکن جب مرکب لفظوں کے دونوں اجزا کا تلفظ علاحدہ علاحدہ کیا جائے، تو وہاں پر مد لکھا جائے گا ، جیسے: گرد آلود ، عالم آرا،رنگ آمیز ، غرق آب۔
الفِ مقصورہ:یہ ایک چھوٹا مصوتہ ہے، اس پرنہ تو مد لگا یا جاتاہے اور نہ ہی کھینچ کرپڑھاجاتا ہے،جیسے: اب،اگر،ابھی، اس ، ادھر وغیرہ۔
عربی الفاظ اور الف مقصورہ
عربی کے وہ الفاظ ،جن کے آخر میں الفِ مقصورہ کی آواز آتی ہے اور انھیں ’ی‘ سے لکھا جاتاہے، انھیں اسی طرح عربی کے رسم الخط پر لکھنا چاہیے،جیسے : مدعیٰ ،مصطفی،مصلیٰ،عیسیٰ،موسیٰ، عقبیٰ، تقویٰ وغیرہ ۔ اسی طرح بعض عربی لفظوں کے بیچ میں الفِ مقصورہ لکھا جاتا ہے اور وہاں الفِ مقصورہ کا تلفظ بھی کیا جاتا ہے۔اس بارے میں تجویزیہ ہے کہ انھیں پورے الف سے لکھا جائے،جیسے: رحمان، سلیمان، اسماعیل، اسحاق۔
الف اور ہائے مختفی
اردومیں ہائے مختفی کاوجود نہیں ہے،اس لیے ہندی لفظوں کے آخر میں ہائے مختفی کے بجائے الف لکھناچاہیے،جیسے:اُرا،اڈا،انگارا،باجا،بیڑا،پہاڑا،تانگا،رکشا،راجا،ٹھیلا،کٹورا وغیرہ ۔
ایسے مرکب الفاظ جن کا ایک جز فارسی یا عربی ہے اور وہ اردو کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں، انھیں الف سے لکھا جانا چاہیے،جیسے:آب خورا،بھڑکیلا،بے صبرا،جوشیلا،غل غپاڑا،تھکاماندا،چوراہا۔
ایسے الفاظ جو ہندی سے آئے ہیں اور ان کے آخر میں’ ی‘ کے بعد ہائے مختفی ہے اور اس کاتلفظ فتحہ سے ہوتا ہے، انھیں ہائے مختفی سے ہی لکھنا چاہیے،جیسے:ستیہ جیت راے،راجیہ سبھا،ساہتہ پریشد وغیرہ ۔
فارسی اور اردو کے ایسے متحد الشکل اورمختلف المعنی الفاظ ،جو الف اور ہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں، اور ان کا تلفظ یکساں ہوتاہے۔ ان میں سے فارسی کو فارسی کے رسم الخط کے مطابق اور اردو کو اردو کے رسم الخط کے مطابق لکھا جائے گا، جیسے :چارہ (اردو)علاج ودرد کے معنی میں۔ چارا (فارسی) بمعنی جانوروں کی خوراک ۔ پارہ (اردو)ٹکٹرا اورحصے کے معنی میں ۔پارا (فارسی)بمعنی سیماب ۔نالہ (فارسی) فریاد۔ نالا (اردو ) بڑی نالی۔پتہ: ٹھور ٹھکانہ اور پتا بمعنی پات، برگ۔
عربی اور فارسی کے بعض الفاظ جوہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں، انھیں ہائے مختفی سے ہی لکھنا چاہیے، جیسے: پردہ، جلوہ ،حلوہ،سقہ،حقہ وغیرہ۔
یوروپی زبانوں کے دخیل الفاظ کو رائج املا کے مطابق لکھا جائے گا،جیسے:کمرہ۔اور دیگر الفاظ کو الف سے لکھا جائے گا، جیسے: ڈراما،سوڈا، فرما۔
’الف‘ اور ’ہ‘ پر ختم ہونے لفظوں کے بعد حروفِ عطف آئیں، تو انھیں یائے مجہول سے بدلنا چاہیے،جیسے: کلکتہ : کلکتے سے،مئے خانہ: مئے خانے تک،افسانہ: افسانے میں،پردہ: پردے پر وغیرہ۔
ال
عربی کے رائج الاستعمال وہ الفاظ جن کے شروع میں ’ال‘آتا ہے خواہ وہ پڑھا جائے،جیسے: بالکل،بالفعل،ملک الموت۔ یانہ پڑھا جائے ،جیسے: عبد الشکور، بالترتیب ،خادم الدین،زیب النسا۔ ایسے تمام الفاظ ’ال‘کے ساتھ لکھے جائیں گے۔
تنوین
عربی کے جو الفاظ مدور ’ۃ‘ پر ختم ہوتے ہیں، انھیں اردو میں تائے مطولہ سے لکھنا چاہیے،جیسے:حیاۃ سے حیات،سماۃسے سمات ،بابۃ سے بابت، ضرورۃ سے ضرورت ،فطرۃ سے فطرت۔
عربی کے ایسے الفاظ جومدور’ۃ‘ پر ختم ہوتے ہیں اور ان پر تنوین لگا نے کی ضرورت پیش آئے، تو ان تائے مدورہ کو لمبی تاسمجھی جائے اور ’ت‘ کے بعد الف بڑھا کر تنوین لگائی جائے،جیسے: ضرورۃسے ضرورتاً ، فطرۃ سے فطرتاً ، حکمتہ سے حکمتاً ، کلیۃََسے کلیتاً ۔ اس سلسلے میں بعض علما کی تجویز یہ ہے کہ تنوین کو نون سے بدل دیا جائے ،جیسے: عوماََ کو عمومن اورفوراً کو فورن لکھا جائے، لیکن اس تجویز کو قبول نہیں کیا گیا۔ اس لیے نون سے بدل کر لکنا غلط ہے۔
ت،ث،ق،ک،غ،گ،ت،ث،ج،ذ،ز،ژ،س،ش،ص،ض،ط،ظ،غ،گ، ق، ک
عربی وفارسی کی مذکورہ اصوات، اگر چہ قریب المخارج ہونے کی وجہ سے ان کی اصوات ایک دوسرے میں گم ہوگئی ہیں ،لیکن ان اصوات کو انھیں حروف سے لکھنا ضروری ہے، جیسے: محبت، خبیث، جہاز ،ذکر،زبان، اژدہا، سب،صبر ، ضبط، طشتری، ظالم، غم، گھر، قسم، کبھی۔ انھیں محبط، خبیش، جکر، اجدھا وغیرہ لکھنا درست نہیں ہے۔
نون
اردو کے جن مصدروں میں دو’ن‘ آتے ہیں: ایک نون مادۂ فعل کا اور ایک نون مصدر کی علامت کا۔ان مصدروں کو دونون کے ساتھ لکھنا چاہیے،جیسے: سننا، گننا،بننا۔انھیں تشدید کے ساتھ سنّا،گناّ،بنّا لکھنا غلط ہے۔
واو
قدیم اردو میں پیش کو’و‘ سے لکھا جاتا تھا، جیسے: اوس،اودھر۔ اب ان لفظوں کو ’و‘ کے بغیر لکھنا چاہیے۔ جیسے: اس ، ادھر،پہنچنا،ان۔چند لفظوں کی اصل میں ’و‘ رہتا ہے۔ لیکن ان سے بننے والے لفظوں میں ’و‘ کی جگہ پیش لاتے ہیں، ایسے لفظوں کو ’و‘ کے بغیر لکھنا چاہیے،جیسے: لوہا سے لہار،سونا سے سنار۔
بعض الفاظ’و‘کے سات اور ’و‘ کے بغیردونوں طرح لکھے جاتے ہیں،جیسے:دلہن ودولہن، نوکیلا ونکیلا، ہندستان و ہندستان وغیرہ۔واوِمعدولہ کے بعدالف ہو تو’و‘ کی صوتیت ختم کرکے صرف الف پڑھتے ہیں، جیسے: خواب،خواہش،خواجہ۔اوراگرواوکے بعد الف نہ ہو ،توتلفظ میں’و‘ کوپیش سے بدل دیتے ہیں،جیسے: خود، خوش، خویش۔
ہائے ملفوظ
لفظ کے آخر میں ہائے ملفوظ ہائے مختفی کی طرح لکھی جاتی ہے۔ ضمیراشاریہ: ’یہ،وہ‘ اور کافِ بیانیہ’کہ‘ کو لٹکن اور کہنی دار ’ہ‘ کے بغیر لکھنا چاہیے، جیسے : حالاں کہ ،بلکہ،وہ،یہ۔
اگر ہائے ملفوظ شروع یا درمیان کلمے میں آجائے ،تواس کو کہنی دار ’ہ‘ کے ساتھ لکھنا چاہیے،جیسے: ہم،ہمارا، کہو، کہاں وغیرہ۔آخر میں آنے والی ہائے ملفوظ سے پہلے ’ی ‘ہو،تو کہنی دار ’ہ‘ نہیں لکھنا چاہیے، جیسے: تشبیہ، تنبیہ، تکریہ، تنزیہ۔ ان لفظوں کو تشبیہہ،تنبیہہ ،تکریہہ وغیرہ لکھنا درست نہیں ہے۔
ہائے مخلوط
اگر چہ قدیم املا میں ہائے ملفوظ اور ہائے مخلوط میں فرق نہیں کیا جاتا تھا۔ چنانچہ ہے کوھے اور ہمیشہ کوھمیشہ وغیرہ لکھ دیتے تھے،لیکن اب ہائے مخلوط کو ہکارآوازوں کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، اس لیے اب ہائے مخلوط صرف وہیں لکھی جائے گی،جہاں ہکارکی آواز ہو ،جیسے: بھائی، بھلائی،کھدائی، اچھا، بدھ،لاکھ ،گھوڑا۔ ان جیسے تمام ہکار آوازوں کو ہائے ملفوظ سے لکھنا درست نہیں ہے۔
لفظ کے شروع میں ہائے مخلوط لکھنا غلط ہے۔وہاں ہمیشہ ہائے ملفوظ لکھی جائے گی،جیسے: ہمیشہ، ہے، ہمارا وغیرہ۔ انھیں ھمیشہ ،ھے وغیرہ لکھنا درست نہیں ۔اسی طرح کلمے کے بیچ میں آنے والی ہائے ملفوظ کو اگر اس میں ہکار کی آواز والا حرف نہ ہو، تو انھیں لٹکن والی ’ہ‘ سے لکھی جائے گی،جیسے: پہلا،دہلی،دہن۔ انھیں پھلا،دھلی اور دھن لکھنا صحیح نہیں ہے۔
ہمزہ
جہاں دومصوتے ایک ساتھ جمع ہو جائیں اور ہر مصوتہ اپنی اپنی آواز دے، تو وہاں پرہمزہ لکھا جائے گا،جیسے: غائب،دائم،رائج،قائم،دائرہ وغیرہ۔جن لفظوں میں دوہرے مصوتے کی آوازآتی ہے،وہاں پر ہمزہ لکھا جائے گا، جیسے: گھماؤ،بلاؤ،جاؤ،بچاؤوغیرہ۔
جس لفظ کے آخر میں ’و‘ ہواور اس سے پہلے ساکن مصوتہ ہو، تو اس پر ہمزہ نہیں لگایا جائے گا، جیسے:بھاو،گھاو،داو،پڑاو،الاو وغیرہ۔
عربی کے ایسے الفاظ جن کے آخرمیں اصلاً ہمزہ ہے، لیکن اردومیں الف سے بولے جاتے ہیں، انھیں ہمزہ کے بغیر الف سے لکھا جائے گا،جیسے: شعرا ،ادبا، فضلا،علما۔البتہ یہ الفاظ کسی ترکیب کا جزہوں، تو ہمزہ لکھا جائے گا، جیسے:شعرائے کرام،ثناء اللہ،صوفیائے ہند،ضیائے دین وغیرہ۔
عربی کے وہ الفاظ جو الف پر ختم ہوتے ہیں اور اصلاان کے بعد ہمزہ ہوتا ہے جو اردو رسم الخط میں حذف کر دیا جاتا ہے۔ان لفظوں کے بعد اگر تنوین آئے ،تو وہاں پرہمزہ لگایا جائے گا، جیسے:ابتدا سے ابتداءَََ، انتہا سے انتہاءَََ،ارتقا سے ارتقاءَََ۔
کسی لفظ کے آخر میں یائے مجہول ہو اور اس سے پہلے فتحہ ہو، تو وہاں پرہمزہ لکھنا چاہیے،جیسے: گئے ، نئے وغیرہ۔
کسی لفظ کے آخرمیں یائے مجہول ہو اور اس سے پہلے کسرہ ہو، تواس پرہمزہ نہیں لکھناچاہیے، جیسے: پڑھیے،لکھیے،دیکھیے،چاہیے،لیے،دیے وغیرہ۔
افعال کے آخرمیں اگردو’ی‘ آئیں،توہمزہ لکھا جائے گا،جیسے:آئیے،جائیے،بلائیے۔
جن لفظوں کے آخر میں یائے مجہول جزوِ لفظ ہو، تو انھیں ہمزہ کے بغیر لکھا جائے گا، جیسے: واے، چاے،بجاے۔
فارسی کے چند الفاظ’ی‘سے لکھے جاتے ہیں،لیکن اردو میں ان کا تلفظ ’ی‘ سے نہیں؛بلکہ ہمزہ سے ہوتاہے،ایسے لفظوں کوہمزہ سے لکھنا چاہیے،جیسے:آزمائش،ستائش،آئندہ،نمائندہ،شائع ،قائم،فائل، حدائق وغیرہ۔
جب دو الگ الگ اسموں کے درمیان واو اتصال کا ہو، تواس پر ہمزہ نہیں لکھا جائے گا،جیسے:معافی وتلافی،باغ وراغ،آب ودانہ ،آب وہوا وغیرہ۔
بعض عربی لفظوں میں’الف‘اور’واو‘کے بعدہمزہ لکھاجاتاہے،جیسے:جرأت، مؤثر، تأثر، مؤدب۔ اردو میں ان لفظوں کو ہمزہ کے بغیر لکھنے کا مشورہ دیا گیا ہے، جیسے: جرات،تاثر،موثر،مودب۔
لیکن انھیں الف اور واو پر ہمزہ دے کر لکھناہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے، تاکہ تلفظ اور املادونوں میں یکسانیت پیدا ہو جائے۔
ہمزہ اور اضافت
ایسے مرکب الفاظ جن کے آخر میں ہائے مختفی ہو،تو وہاں پر ہمزہ لگایا جائے گا،جیسے: نامۂ عشق، خانۂ خدا، جلوۂ طور،نذرانۂ خلوص، خانۂ دل ۔
جس مضاف کے آخر میں مصوتے :الف اورواو میں سے کوئی ایک حرف آئے، تو ان کے آگے یائے مجہول بڑھا کر ہمزہ لگایا جائے گا،جیسے: دوائے دل،تمنائے عشق،نوائے سروش، بوئے گل، سوئے چمن،خوشبوئے وطن وغیرہ۔
جس مضاف کے آخر میں ’ی‘ آئے ،اس پر ہمزہ کے بجائے زیر لکھا جائے گا،جیسے:بے خودیِ عشق،تازگیِ خیال۔
یائے مجہول پر ختم ہونے والے الفاظ ،جو دوہرے مصوتے سے بولے جاتے ہیں، اضافت کے وقت ان پر ہمزہ لگایا جائے گا،جیسے: مئے رنگین،تگنائے غزل۔
جن لفظوں کے آخر میں ہمزہ آتا ہے، بوقت اضافت کسرہ لگایاجائے گا، جیسے :سوءِ ظن، مبدءِ اول، مبدءِ فیض۔
سابقے اور لاحقے
لفظ کے شروع میں بڑھائے جانے والے جز کو ’سابقہ‘ کہا جاتاہے، جیسے:بے ادب ،بے ایمان،آپس میں ، دل میں ،ان پڑھ،ہم کلام ،ہم عصر، بہ خوبی،بہ ہر صورت،دل چسپ، طالب علم۔اورلفظ کے آخر میں بڑھائے جانے والے جز کو ’لاحقہ‘ کہاجاتا ہے،جیسے: قلم کار، صنعت کار، نیل گوں، پیشتر، خواب گاہ۔صنم خانہ ۔بت کدہ وغیرہ۔ ایسے تمام سابقوں اور لاحقوں کو الگ الگ لکھنا چاہیے، لیکن جن کو ملا کر لکھنے کا رواج ہوچکا ہو، تو انھیں ملاکر لکھنا ہی بہتر ہے، جیسے: پاسبان،باغیچہ، بچپن ، غمگین، سوگوار، بیتاب۔
انگریزی اور یورپی زبانوں کے الفاظ اور اصطلاحوں کوٹکڑوں میں تقسیم کر کے علاحدہ علاحدہ لکھنا چاہیے، جیسے: پارلیا منٹ،ٹیلی ویژن، انسٹی ٹیوٹ ،ورک شاپ ، ٹرانس پورٹ۔
اسی طرح عربی کے کچھ الفاظ جو اردو میں ملا کر لکھے جاتے ہیں، جیسے: مولٰنا،علیحدہ ۔انھیں اردو کے مطابق الگ الگ لکھنا چاہیے، جیسے: مولانا، علاحدہ ۔
علاماتِ اضافت: کا،کے، کی۔علاماتِ افعال :گا،گے ،گی وغیرہ اور ضمائراشاریہ کو علاحدہ علاحدہ لکھنا چاہیے، جیسے: آئے گا، اس کو، ہم کو، اس واسطے کہ، مجھ کو ،آپ کا وغیرہ۔
اعداد
(۱)گیارہ سے اٹھارہ کی گنتی میں ہائے ملفوظ لکھی جائے گی،جیسے:گیارہ،بارہ،تیرہ ،چودہ، پندرہ۔ اوراعدادِ ترتیبی ووصفی میں ہائے مخلوط لکھی جائے گی، جیسے:گیارھواں،بارھواں،تیرھواں۔
(۲)جو عدد مصمتے پر ختم ہوتے ہیں،انھیں وصفی عدد بنانے کے لیے ’واں‘ یا ’ویں‘کا لفظ بڑھایاجائے گا،جیسے: دسواں، چوبیسوں،اڑتالیسواں۔لیکن اگر عدد مصوتے پر ختم ہو تے ہوں، تومناسب یہ ہے کہ ہندسہ لکھ کر’ واں‘ یا’ویں‘ بڑھا دیا جائے ،جیسے: ۷۹ واں،۷۹ویں،۹۸واں،۹۸ویں۔
(۳)انیس سے اڑتا لیس تک کے اعداد میں سین کے بعد ’ی‘ لکھی جائے گی،جیسے: بیس، انتیس، چالیس، چوالیس، پینتالیس،سینتالیس۔
(۴)اعداد :۵۱،۸۱ اور ۹۱کو’ ی‘ سے لکھی جائے گی، جیسے: اکیاون،اکیاسی،اکیانوے۔
(۵)گھنٹوں کی تعداد بتانے کے لیے حروف استعمال کیے جائیں گے،جیسے:چوبیس گھنٹے،ساڑھے تین گھنٹے،پونے چار گھنٹے ۔اور اوقات کے لیے ہند سے لائے جائیں گے، جیسے:۴۰:۵، ۵۰:۱۰ وغیرہ ۔
(۶)جدول اور نقشہ جات میں ہند سے لکھے جائیں گے۔
(۷)اوزان اور پیمائشوں کے اعداد ہندسوں میں ہوں گے، جیسے: ۲۵۰؍گرام۔۶۰؍سنٹی میٹر وغیرہ۔ اسی طرح کسور بھی ہندسوں میں ہوں گے، جیسے: ۵۰۔۲؍کلو۔ ۷۵۔۲کلو وغیرہ ۔ لیکن جو کسور کسی عدد صحیح کا جزنہ ہوں، تو وہ حروف میں لکھے جائیں گے ، جیسے: چوتھائی حصہ ۔ تہائی آبادی وغیرہ ۔
(۸)تاریخ لکھتے وقت مہینے کے لیے حروف اورتاریخ وسن کے لیے ہندسے لائے جائیں گے، جیسے: ۹؍ذی الحجہ ۱۴۲۷ ھ۔ اور صدی کے لیے حروف استعمال کیے جائیں گے،جیسے: چھٹی صدی عیسوی،اکیسویں صدی عیسوی وغیرہ ۔
(۹) فی صد لکھنے کے لیے اعداد کو ہندسوں میں لکھ کر اس کے آگے لفظ فی صدلکھا جائے گا، جیسے: ۵؍ فی صد،۱۰؍ فی صد۔
(۱۰) نقشہ ، چارٹ یا کتاب کے کسی صفحے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اعداد ہندسوں میں لکھے جائیں گے، جیسے: ملاحظہ فرمائیں : سیرت النبی ص ؍ ۵۰، دیکھیے: شکل نمبر ۳۔
کسی بھی زبان کے لکھنے کی معیاری صورت کو’ رسم الخط‘کہا جاتاہے۔ اردو کے حروف تہجی بعینہ وہی ہیں، جو عربی اور فارسی کے ہیں، البتہ کچھ دیگر حروف (جو عربی اور فارسی میں نہیں ہیں اور جن سے ہندستانی زبان کی خاص خاص آواز یں ظاہر ہوتی ہیں ) اردو میں بڑھا د یے گئے ہیں، جیسے : ٹ ،ڈھ،ڑھ وغیرہ ۔ اور چوں کہ عربی کا رسم الخط ’خط نسخ‘ہے ، جس کا مآخذ سامی رسم الخط ہے۔اور خط نسخ میں کچھ تبدیلی کر کے فارسی کا رسم الخط بنایا گیا ہے، جس کو’خط نستعلیق‘ کہا جاتا ہے ، لہذا اردو کے حروف تہجی بعینہ عربی اور فارسی کے حروف تہجی ہونے کی وجہ سے اردو کا رسم الخط ’خط نستعلیق‘ ہے۔
املا کے ضروری قواعد
املا کی تعریف :رسم الخط کے مطابق لفظ میں حرفوں کی ترتیب کا تعین ، ترتیب کے لحاظ سے اس لفظ میں شامل حرفوں کی صورت اور حرفوں کے جوڑنے کے معیاری اور مروجہ طریقے کو’ املا‘ کہا جاتا ہے ۔
اردوزبان کے املا کا مسئلہ سب سے پیچیدہ ہے ،کیوں کہ اردو ایک مخلوط زبان ہے ،جس میں مختلف زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ اب یہاں دوصورتیں ہیں : پہلی صورت تو یہ ہے کہ جس زبان سے جس لفظ کو مستعار لیا گیا ہے ، اس کو اسی زبان کے رسم الخط میں لکھا جائے ،لیکن اب جب کہ یہ الفاظ مستعار اردو زبان کا حصہ بن گئے ہیں ، تو ان کو ان کے رسم الخط میں لکھنا ضروری نہیں ، لیکن بہت سے الفاظ ایسے بھی ہیں کہ اگر اُنھیں انھیں کی زبان کے رسم الخط میں نہ لکھے جا ئیں ، تو یا تومعنی ہی بدل جاتے ہیں ، یا پھر ان کے معنی سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مستعارالفاظ میں اعراب لگا دیا جائے ، لیکن اردوکا رسم الخط اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس لیے اس حوالے سے ہندستان وپاکستان کے علما کی وہ تجاویز مختصر طور پر درج کی جارہی ہیں، جن کواکثریت نے قبول کیا ہے اور وہی املا رائج بھی ہے۔
الف
الف ایک مصوتہ ہے۔اس کی دو قسمیں ہیں: (۱)الفِ ممدودہ (۲) الفِ مقصورہ ۔
الفِ ممدودہ : الف ممدودہ ایک لمبا مصوتہ ہے۔اسے کھینچ کر پڑھا جاتا ہے، جب یہ مرکب لفظوں کے بیچ میںآتا ہے،تو اس پر مدنہیں لکھا جاتا ہے، جیسے: تیزاب ،سیلاب،دستاویز،مرغابی وغیرہ۔لیکن جب مرکب لفظوں کے دونوں اجزا کا تلفظ علاحدہ علاحدہ کیا جائے، تو وہاں پر مد لکھا جائے گا ، جیسے: گرد آلود ، عالم آرا،رنگ آمیز ، غرق آب۔
الفِ مقصورہ:یہ ایک چھوٹا مصوتہ ہے، اس پرنہ تو مد لگا یا جاتاہے اور نہ ہی کھینچ کرپڑھاجاتا ہے،جیسے: اب،اگر،ابھی، اس ، ادھر وغیرہ۔
عربی الفاظ اور الف مقصورہ
عربی کے وہ الفاظ ،جن کے آخر میں الفِ مقصورہ کی آواز آتی ہے اور انھیں ’ی‘ سے لکھا جاتاہے، انھیں اسی طرح عربی کے رسم الخط پر لکھنا چاہیے،جیسے : مدعیٰ ،مصطفی،مصلیٰ،عیسیٰ،موسیٰ، عقبیٰ، تقویٰ وغیرہ ۔ اسی طرح بعض عربی لفظوں کے بیچ میں الفِ مقصورہ لکھا جاتا ہے اور وہاں الفِ مقصورہ کا تلفظ بھی کیا جاتا ہے۔اس بارے میں تجویزیہ ہے کہ انھیں پورے الف سے لکھا جائے،جیسے: رحمان، سلیمان، اسماعیل، اسحاق۔
الف اور ہائے مختفی
اردومیں ہائے مختفی کاوجود نہیں ہے،اس لیے ہندی لفظوں کے آخر میں ہائے مختفی کے بجائے الف لکھناچاہیے،جیسے:اُرا،اڈا،انگارا،باجا،بیڑا،پہاڑا،تانگا،رکشا،راجا،ٹھیلا،کٹورا وغیرہ ۔
ایسے مرکب الفاظ جن کا ایک جز فارسی یا عربی ہے اور وہ اردو کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں، انھیں الف سے لکھا جانا چاہیے،جیسے:آب خورا،بھڑکیلا،بے صبرا،جوشیلا،غل غپاڑا،تھکاماندا،چوراہا۔
ایسے الفاظ جو ہندی سے آئے ہیں اور ان کے آخر میں’ ی‘ کے بعد ہائے مختفی ہے اور اس کاتلفظ فتحہ سے ہوتا ہے، انھیں ہائے مختفی سے ہی لکھنا چاہیے،جیسے:ستیہ جیت راے،راجیہ سبھا،ساہتہ پریشد وغیرہ ۔
فارسی اور اردو کے ایسے متحد الشکل اورمختلف المعنی الفاظ ،جو الف اور ہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں، اور ان کا تلفظ یکساں ہوتاہے۔ ان میں سے فارسی کو فارسی کے رسم الخط کے مطابق اور اردو کو اردو کے رسم الخط کے مطابق لکھا جائے گا، جیسے :چارہ (اردو)علاج ودرد کے معنی میں۔ چارا (فارسی) بمعنی جانوروں کی خوراک ۔ پارہ (اردو)ٹکٹرا اورحصے کے معنی میں ۔پارا (فارسی)بمعنی سیماب ۔نالہ (فارسی) فریاد۔ نالا (اردو ) بڑی نالی۔پتہ: ٹھور ٹھکانہ اور پتا بمعنی پات، برگ۔
عربی اور فارسی کے بعض الفاظ جوہائے مختفی پر ختم ہوتے ہیں، انھیں ہائے مختفی سے ہی لکھنا چاہیے، جیسے: پردہ، جلوہ ،حلوہ،سقہ،حقہ وغیرہ۔
یوروپی زبانوں کے دخیل الفاظ کو رائج املا کے مطابق لکھا جائے گا،جیسے:کمرہ۔اور دیگر الفاظ کو الف سے لکھا جائے گا، جیسے: ڈراما،سوڈا، فرما۔
’الف‘ اور ’ہ‘ پر ختم ہونے لفظوں کے بعد حروفِ عطف آئیں، تو انھیں یائے مجہول سے بدلنا چاہیے،جیسے: کلکتہ : کلکتے سے،مئے خانہ: مئے خانے تک،افسانہ: افسانے میں،پردہ: پردے پر وغیرہ۔
ال
عربی کے رائج الاستعمال وہ الفاظ جن کے شروع میں ’ال‘آتا ہے خواہ وہ پڑھا جائے،جیسے: بالکل،بالفعل،ملک الموت۔ یانہ پڑھا جائے ،جیسے: عبد الشکور، بالترتیب ،خادم الدین،زیب النسا۔ ایسے تمام الفاظ ’ال‘کے ساتھ لکھے جائیں گے۔
تنوین
عربی کے جو الفاظ مدور ’ۃ‘ پر ختم ہوتے ہیں، انھیں اردو میں تائے مطولہ سے لکھنا چاہیے،جیسے:حیاۃ سے حیات،سماۃسے سمات ،بابۃ سے بابت، ضرورۃ سے ضرورت ،فطرۃ سے فطرت۔
عربی کے ایسے الفاظ جومدور’ۃ‘ پر ختم ہوتے ہیں اور ان پر تنوین لگا نے کی ضرورت پیش آئے، تو ان تائے مدورہ کو لمبی تاسمجھی جائے اور ’ت‘ کے بعد الف بڑھا کر تنوین لگائی جائے،جیسے: ضرورۃسے ضرورتاً ، فطرۃ سے فطرتاً ، حکمتہ سے حکمتاً ، کلیۃََسے کلیتاً ۔ اس سلسلے میں بعض علما کی تجویز یہ ہے کہ تنوین کو نون سے بدل دیا جائے ،جیسے: عوماََ کو عمومن اورفوراً کو فورن لکھا جائے، لیکن اس تجویز کو قبول نہیں کیا گیا۔ اس لیے نون سے بدل کر لکنا غلط ہے۔
ت،ث،ق،ک،غ،گ،ت،ث،ج،ذ،ز،ژ،س،ش،ص،ض،ط،ظ،غ،گ، ق، ک
عربی وفارسی کی مذکورہ اصوات، اگر چہ قریب المخارج ہونے کی وجہ سے ان کی اصوات ایک دوسرے میں گم ہوگئی ہیں ،لیکن ان اصوات کو انھیں حروف سے لکھنا ضروری ہے، جیسے: محبت، خبیث، جہاز ،ذکر،زبان، اژدہا، سب،صبر ، ضبط، طشتری، ظالم، غم، گھر، قسم، کبھی۔ انھیں محبط، خبیش، جکر، اجدھا وغیرہ لکھنا درست نہیں ہے۔
نون
اردو کے جن مصدروں میں دو’ن‘ آتے ہیں: ایک نون مادۂ فعل کا اور ایک نون مصدر کی علامت کا۔ان مصدروں کو دونون کے ساتھ لکھنا چاہیے،جیسے: سننا، گننا،بننا۔انھیں تشدید کے ساتھ سنّا،گناّ،بنّا لکھنا غلط ہے۔
واو
قدیم اردو میں پیش کو’و‘ سے لکھا جاتا تھا، جیسے: اوس،اودھر۔ اب ان لفظوں کو ’و‘ کے بغیر لکھنا چاہیے۔ جیسے: اس ، ادھر،پہنچنا،ان۔چند لفظوں کی اصل میں ’و‘ رہتا ہے۔ لیکن ان سے بننے والے لفظوں میں ’و‘ کی جگہ پیش لاتے ہیں، ایسے لفظوں کو ’و‘ کے بغیر لکھنا چاہیے،جیسے: لوہا سے لہار،سونا سے سنار۔
بعض الفاظ’و‘کے سات اور ’و‘ کے بغیردونوں طرح لکھے جاتے ہیں،جیسے:دلہن ودولہن، نوکیلا ونکیلا، ہندستان و ہندستان وغیرہ۔واوِمعدولہ کے بعدالف ہو تو’و‘ کی صوتیت ختم کرکے صرف الف پڑھتے ہیں، جیسے: خواب،خواہش،خواجہ۔اوراگرواوکے بعد الف نہ ہو ،توتلفظ میں’و‘ کوپیش سے بدل دیتے ہیں،جیسے: خود، خوش، خویش۔
ہائے ملفوظ
لفظ کے آخر میں ہائے ملفوظ ہائے مختفی کی طرح لکھی جاتی ہے۔ ضمیراشاریہ: ’یہ،وہ‘ اور کافِ بیانیہ’کہ‘ کو لٹکن اور کہنی دار ’ہ‘ کے بغیر لکھنا چاہیے، جیسے : حالاں کہ ،بلکہ،وہ،یہ۔
اگر ہائے ملفوظ شروع یا درمیان کلمے میں آجائے ،تواس کو کہنی دار ’ہ‘ کے ساتھ لکھنا چاہیے،جیسے: ہم،ہمارا، کہو، کہاں وغیرہ۔آخر میں آنے والی ہائے ملفوظ سے پہلے ’ی ‘ہو،تو کہنی دار ’ہ‘ نہیں لکھنا چاہیے، جیسے: تشبیہ، تنبیہ، تکریہ، تنزیہ۔ ان لفظوں کو تشبیہہ،تنبیہہ ،تکریہہ وغیرہ لکھنا درست نہیں ہے۔
ہائے مخلوط
اگر چہ قدیم املا میں ہائے ملفوظ اور ہائے مخلوط میں فرق نہیں کیا جاتا تھا۔ چنانچہ ہے کوھے اور ہمیشہ کوھمیشہ وغیرہ لکھ دیتے تھے،لیکن اب ہائے مخلوط کو ہکارآوازوں کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، اس لیے اب ہائے مخلوط صرف وہیں لکھی جائے گی،جہاں ہکارکی آواز ہو ،جیسے: بھائی، بھلائی،کھدائی، اچھا، بدھ،لاکھ ،گھوڑا۔ ان جیسے تمام ہکار آوازوں کو ہائے ملفوظ سے لکھنا درست نہیں ہے۔
لفظ کے شروع میں ہائے مخلوط لکھنا غلط ہے۔وہاں ہمیشہ ہائے ملفوظ لکھی جائے گی،جیسے: ہمیشہ، ہے، ہمارا وغیرہ۔ انھیں ھمیشہ ،ھے وغیرہ لکھنا درست نہیں ۔اسی طرح کلمے کے بیچ میں آنے والی ہائے ملفوظ کو اگر اس میں ہکار کی آواز والا حرف نہ ہو، تو انھیں لٹکن والی ’ہ‘ سے لکھی جائے گی،جیسے: پہلا،دہلی،دہن۔ انھیں پھلا،دھلی اور دھن لکھنا صحیح نہیں ہے۔
ہمزہ
جہاں دومصوتے ایک ساتھ جمع ہو جائیں اور ہر مصوتہ اپنی اپنی آواز دے، تو وہاں پرہمزہ لکھا جائے گا،جیسے: غائب،دائم،رائج،قائم،دائرہ وغیرہ۔جن لفظوں میں دوہرے مصوتے کی آوازآتی ہے،وہاں پر ہمزہ لکھا جائے گا، جیسے: گھماؤ،بلاؤ،جاؤ،بچاؤوغیرہ۔
جس لفظ کے آخر میں ’و‘ ہواور اس سے پہلے ساکن مصوتہ ہو، تو اس پر ہمزہ نہیں لگایا جائے گا، جیسے:بھاو،گھاو،داو،پڑاو،الاو وغیرہ۔
عربی کے ایسے الفاظ جن کے آخرمیں اصلاً ہمزہ ہے، لیکن اردومیں الف سے بولے جاتے ہیں، انھیں ہمزہ کے بغیر الف سے لکھا جائے گا،جیسے: شعرا ،ادبا، فضلا،علما۔البتہ یہ الفاظ کسی ترکیب کا جزہوں، تو ہمزہ لکھا جائے گا، جیسے:شعرائے کرام،ثناء اللہ،صوفیائے ہند،ضیائے دین وغیرہ۔
عربی کے وہ الفاظ جو الف پر ختم ہوتے ہیں اور اصلاان کے بعد ہمزہ ہوتا ہے جو اردو رسم الخط میں حذف کر دیا جاتا ہے۔ان لفظوں کے بعد اگر تنوین آئے ،تو وہاں پرہمزہ لگایا جائے گا، جیسے:ابتدا سے ابتداءَََ، انتہا سے انتہاءَََ،ارتقا سے ارتقاءَََ۔
کسی لفظ کے آخر میں یائے مجہول ہو اور اس سے پہلے فتحہ ہو، تو وہاں پرہمزہ لکھنا چاہیے،جیسے: گئے ، نئے وغیرہ۔
کسی لفظ کے آخرمیں یائے مجہول ہو اور اس سے پہلے کسرہ ہو، تواس پرہمزہ نہیں لکھناچاہیے، جیسے: پڑھیے،لکھیے،دیکھیے،چاہیے،لیے،دیے وغیرہ۔
افعال کے آخرمیں اگردو’ی‘ آئیں،توہمزہ لکھا جائے گا،جیسے:آئیے،جائیے،بلائیے۔
جن لفظوں کے آخر میں یائے مجہول جزوِ لفظ ہو، تو انھیں ہمزہ کے بغیر لکھا جائے گا، جیسے: واے، چاے،بجاے۔
فارسی کے چند الفاظ’ی‘سے لکھے جاتے ہیں،لیکن اردو میں ان کا تلفظ ’ی‘ سے نہیں؛بلکہ ہمزہ سے ہوتاہے،ایسے لفظوں کوہمزہ سے لکھنا چاہیے،جیسے:آزمائش،ستائش،آئندہ،نمائندہ،شائع ،قائم،فائل، حدائق وغیرہ۔
جب دو الگ الگ اسموں کے درمیان واو اتصال کا ہو، تواس پر ہمزہ نہیں لکھا جائے گا،جیسے:معافی وتلافی،باغ وراغ،آب ودانہ ،آب وہوا وغیرہ۔
بعض عربی لفظوں میں’الف‘اور’واو‘کے بعدہمزہ لکھاجاتاہے،جیسے:جرأت، مؤثر، تأثر، مؤدب۔ اردو میں ان لفظوں کو ہمزہ کے بغیر لکھنے کا مشورہ دیا گیا ہے، جیسے: جرات،تاثر،موثر،مودب۔
لیکن انھیں الف اور واو پر ہمزہ دے کر لکھناہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے، تاکہ تلفظ اور املادونوں میں یکسانیت پیدا ہو جائے۔
ہمزہ اور اضافت
ایسے مرکب الفاظ جن کے آخر میں ہائے مختفی ہو،تو وہاں پر ہمزہ لگایا جائے گا،جیسے: نامۂ عشق، خانۂ خدا، جلوۂ طور،نذرانۂ خلوص، خانۂ دل ۔
جس مضاف کے آخر میں مصوتے :الف اورواو میں سے کوئی ایک حرف آئے، تو ان کے آگے یائے مجہول بڑھا کر ہمزہ لگایا جائے گا،جیسے: دوائے دل،تمنائے عشق،نوائے سروش، بوئے گل، سوئے چمن،خوشبوئے وطن وغیرہ۔
جس مضاف کے آخر میں ’ی‘ آئے ،اس پر ہمزہ کے بجائے زیر لکھا جائے گا،جیسے:بے خودیِ عشق،تازگیِ خیال۔
یائے مجہول پر ختم ہونے والے الفاظ ،جو دوہرے مصوتے سے بولے جاتے ہیں، اضافت کے وقت ان پر ہمزہ لگایا جائے گا،جیسے: مئے رنگین،تگنائے غزل۔
جن لفظوں کے آخر میں ہمزہ آتا ہے، بوقت اضافت کسرہ لگایاجائے گا، جیسے :سوءِ ظن، مبدءِ اول، مبدءِ فیض۔
سابقے اور لاحقے
لفظ کے شروع میں بڑھائے جانے والے جز کو ’سابقہ‘ کہا جاتاہے، جیسے:بے ادب ،بے ایمان،آپس میں ، دل میں ،ان پڑھ،ہم کلام ،ہم عصر، بہ خوبی،بہ ہر صورت،دل چسپ، طالب علم۔اورلفظ کے آخر میں بڑھائے جانے والے جز کو ’لاحقہ‘ کہاجاتا ہے،جیسے: قلم کار، صنعت کار، نیل گوں، پیشتر، خواب گاہ۔صنم خانہ ۔بت کدہ وغیرہ۔ ایسے تمام سابقوں اور لاحقوں کو الگ الگ لکھنا چاہیے، لیکن جن کو ملا کر لکھنے کا رواج ہوچکا ہو، تو انھیں ملاکر لکھنا ہی بہتر ہے، جیسے: پاسبان،باغیچہ، بچپن ، غمگین، سوگوار، بیتاب۔
انگریزی اور یورپی زبانوں کے الفاظ اور اصطلاحوں کوٹکڑوں میں تقسیم کر کے علاحدہ علاحدہ لکھنا چاہیے، جیسے: پارلیا منٹ،ٹیلی ویژن، انسٹی ٹیوٹ ،ورک شاپ ، ٹرانس پورٹ۔
اسی طرح عربی کے کچھ الفاظ جو اردو میں ملا کر لکھے جاتے ہیں، جیسے: مولٰنا،علیحدہ ۔انھیں اردو کے مطابق الگ الگ لکھنا چاہیے، جیسے: مولانا، علاحدہ ۔
علاماتِ اضافت: کا،کے، کی۔علاماتِ افعال :گا،گے ،گی وغیرہ اور ضمائراشاریہ کو علاحدہ علاحدہ لکھنا چاہیے، جیسے: آئے گا، اس کو، ہم کو، اس واسطے کہ، مجھ کو ،آپ کا وغیرہ۔
اعداد
(۱)گیارہ سے اٹھارہ کی گنتی میں ہائے ملفوظ لکھی جائے گی،جیسے:گیارہ،بارہ،تیرہ ،چودہ، پندرہ۔ اوراعدادِ ترتیبی ووصفی میں ہائے مخلوط لکھی جائے گی، جیسے:گیارھواں،بارھواں،تیرھواں۔
(۲)جو عدد مصمتے پر ختم ہوتے ہیں،انھیں وصفی عدد بنانے کے لیے ’واں‘ یا ’ویں‘کا لفظ بڑھایاجائے گا،جیسے: دسواں، چوبیسوں،اڑتالیسواں۔لیکن اگر عدد مصوتے پر ختم ہو تے ہوں، تومناسب یہ ہے کہ ہندسہ لکھ کر’ واں‘ یا’ویں‘ بڑھا دیا جائے ،جیسے: ۷۹ واں،۷۹ویں،۹۸واں،۹۸ویں۔
(۳)انیس سے اڑتا لیس تک کے اعداد میں سین کے بعد ’ی‘ لکھی جائے گی،جیسے: بیس، انتیس، چالیس، چوالیس، پینتالیس،سینتالیس۔
(۴)اعداد :۵۱،۸۱ اور ۹۱کو’ ی‘ سے لکھی جائے گی، جیسے: اکیاون،اکیاسی،اکیانوے۔
(۵)گھنٹوں کی تعداد بتانے کے لیے حروف استعمال کیے جائیں گے،جیسے:چوبیس گھنٹے،ساڑھے تین گھنٹے،پونے چار گھنٹے ۔اور اوقات کے لیے ہند سے لائے جائیں گے، جیسے:۴۰:۵، ۵۰:۱۰ وغیرہ ۔
(۶)جدول اور نقشہ جات میں ہند سے لکھے جائیں گے۔
(۷)اوزان اور پیمائشوں کے اعداد ہندسوں میں ہوں گے، جیسے: ۲۵۰؍گرام۔۶۰؍سنٹی میٹر وغیرہ۔ اسی طرح کسور بھی ہندسوں میں ہوں گے، جیسے: ۵۰۔۲؍کلو۔ ۷۵۔۲کلو وغیرہ ۔ لیکن جو کسور کسی عدد صحیح کا جزنہ ہوں، تو وہ حروف میں لکھے جائیں گے ، جیسے: چوتھائی حصہ ۔ تہائی آبادی وغیرہ ۔
(۸)تاریخ لکھتے وقت مہینے کے لیے حروف اورتاریخ وسن کے لیے ہندسے لائے جائیں گے، جیسے: ۹؍ذی الحجہ ۱۴۲۷ ھ۔ اور صدی کے لیے حروف استعمال کیے جائیں گے،جیسے: چھٹی صدی عیسوی،اکیسویں صدی عیسوی وغیرہ ۔
(۹) فی صد لکھنے کے لیے اعداد کو ہندسوں میں لکھ کر اس کے آگے لفظ فی صدلکھا جائے گا، جیسے: ۵؍ فی صد،۱۰؍ فی صد۔
(۱۰) نقشہ ، چارٹ یا کتاب کے کسی صفحے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اعداد ہندسوں میں لکھے جائیں گے، جیسے: ملاحظہ فرمائیں : سیرت النبی ص ؍ ۵۰، دیکھیے: شکل نمبر ۳۔