7 Apr 2018

رموز اوقاف

قسط نمبر (6) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس

رموز اوقاف 
ہرزبان میں عبارت کی تفہیم و تسہیل کے لیے کچھ علامتیں اور نشانیاں استعمال کی جاتی ہیں ، انھیں ’اوقاف‘یا ’رموز اوقاف‘کہاجاتاہے ۔اگر چہ قدیم زمانے میں ان علامتوں کا استعمال ندارد ہے ، لیکن موجودہ زمانے میں ان کا استعمال تحریر کو خوب صورت اور پیچیدہ مضمون کو قابل فہم بنا نے کے لیے لابدی ہے، لہٰذ ا اردو میں عام طورپر استعمال کی جانے والی علامتیں اور ان کے مواقع استعمال درج ذیل ہیں: 
نمبرشمار 
علامات 
اردو نام 
انگریزی نام 
عربی نام 
۱
،
سکتہ (چھوٹا ٹھہراو)
Comma
الفاصلۃ 
۲
؛
وقفہ (ٹھہراو)
Semicolon
الفاصلۃ المنقوطۃ
۳
.
ختمہ (وقف تام)
Full stop 
النقطۃ 
۴
:
رابطہ (ملاو)
Colon 
النقطتان
۵
؟
سوالیہ نشان 
Question mark
علامۃ الاستفھام
۶
!
ندائیہ ، فجائیہ 
Exclamation
علامۃ التعجب
۷
۔
خط 
Dash
الشرطتان
۸
’’‘‘
واوین 
Inverted Comma
علامۃالتنصیص
۹
()
قوسین 
Brackets
القوسین

مواقع استعمال
سکتہ :(،) یہ سب سے چھوٹا وقفہ ہے،یہاں پر زیادہ ٹھہرنا نہیں چاہیے ؛بلکہ سانس توڑے بغیر تھوڑا سارک کر آگے بڑھ جاناچاہیے۔ یہ درج ذیل جگہوں پر استعمال ہوتاہے: 
(۱) عبارت میں ایک سے زائد اسما کے درمیان، جو ایک دوسرے کے بدل کا کام دیتے ہوں، جیسے: جناب حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ ، دار العلوم دیوبند کے بانی نے ، جنگ آزدی میں عظیم کارنامے انجام دیے ۔ 
(۲) عبارت میں ایک ہی قسم کے متعدد لفظوں کے بیچ میں جو ساتھ ساتھ استعمال کیے گئے ہوں ، سوائے آخری دوکلموں کے درمیان، جہاں(و)(یا) اور (اور) لکھے جاتے ہیں، جیسے: بہادر شاہ ظفر بہت عقل مند ، وسیع النظر ، خیر خواہ اور مدبربادشاہ تھا ۔ 
(۳) ایک ہی درجے کے الفاظ اگر جوڑوں میں استعمال ہوں؛ تو ان جوڑوں کے درمیان، جیسے: شاہ ہو کہ گدا، امیرہوکہ فقیر، عالم ہویاجاہل ؛ سب برابر ہیں ۔ 
(۴) ایسے اجزائے جملہ کے درمیان ، جو بغرض تشریح لائے جاتے ہیں ، جیسے: میرے پاس قلم ، دوات، کتاب،کاپیاں غرض پڑھنے لکھنے کی تمام چیز یں موجود ہیں۔ 
(۵) ندائیہ لفظوں کے بعد، جیسے: بھائیو، بہنو، دوستو، بزرگو! 
(۶) دو یا دو سے زیادہ ایک ہی درجے کے ایسے چھوٹے جملوں کے درمیان، جو ایک بڑے جملے کے اجزا ہوں جیسے: میں کمرے سے درس گاہ گیا، درس گاہ سے مطبخ آیا، اب مطبخ سے کمرہ جاتاہوں۔ 
وقفہ: (؛)یہ ایسی جگہوں پر استعمال کیا جاتاہے،جہاں سکتہ سے زیادہ ٹھہرنے کی ضرورت پڑتی ہے ، مثلاً: 
(۱) جملوں کے لمبے لمبے ٹکڑوں کے درمیان ، جیسے: ہندستانیوں کا شعور بیدار ہوا؛ انھوں نے غلامی کی ذلت کو محسوس کیا؛ آزادی کے لیے جدوجہد شروع کی ؛ لگاتار کوششوں کے بعد کامیابی نے ان کے قدم چومے ۔ 
(۲) جہاں جملوں کی اہمیت بتانے اور ان کے مختلف اجزا پر تاکید کی ضرورت ہو، جیسے: جوکرے گا، سوپائے گا؛ جوبوئے گا ، وہ کاٹے گا۔ 
(۳) جہا ں جملوں کے ایسے حصے کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی ضرورت ہو، جن میں اندرونی طور پر سکتہ ہو، جیسے: آندھراپردیش ، کرناٹک اور تامل ناڈو جنوبی ہند کی؛اتر پردیش،پنجاب اور کشمیر شمالی ہند کی ریاستیں ہیں۔ 
ختمہ : (.)اس علامت پر مکمل ٹھہراوہوتاہے، اس لیے اسے جملے کے خاتمے پر لگائی جاتی ہے۔یہ علامت فل اسٹاپ کے نام سے زیادہ مشہورہے۔انگریزی میں نقطہ(.)اوراردومیں ڈیش (۔) لگایا جاتا ہے، جیسے: فٹ بال کھیلنا صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ مخففات کے بعد بھی یہ علامت لگائی جاتی ہے، جیسے:ایم،اے۔بی، اے۔پی،ایچ،ڈی۔بی،یو،ایم،ایس۔ 
رابطہ : (:) اس کا ٹھہراو وقفہ کے ٹھہراو سے زیادہ ہوتاہے، یہ حسب ذیل موقعوں پر استعمال کیا جاتا ہے: 
(۱)جب جملے کی تفصیل کی جائے ، جیسے: انسان کو بعضے کاموں کی قدرت ہے، بعضے کی نہیں: وہ چل سکتاہے؛ دوڑ سکتاہے؛ مگر اڑنہیں سکتا۔ 
(۲)قول، مقولہ، کہاوت اور اقتباس نقل کرنے سے پہلے ، جیسے: مقولہ ہے کہ : گیا وقت پھر ہاتھ آتانہیں ۔ میرکے شعر کامصرع ہے کہ : ع 
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ 
سوالیہ نشان : (؟)سوالیہ جملوں کے آخر میں یہ علامت لگائی جاتی ہے، جیسے: اسلام کے آخری پیغمبر کا کیا نام ہے؟ 
ندائیہ ، فجائیہ : (! )یہ علامت خطابی لفظوں یا ان جملوں کے بعد لگائی جاتی ہے، جن سے کوئی جذبہ ظاہر کرنا ہوتاہے، مثلاً : غصہ ، ناراضگی ، حقارت، استعجاب، خوف وغیرہ ، جیسے:سامعین کرام ! خاموش! آپ آگئے! ۔ اورکبھی جذبے کی شدت کی مناسبت سے ایک سے زیادہ علامتیں لگا دیتے ہیں، جیسے: آہا!!! 
خط (۔): چھوٹے جملہ معترضہ کے شروع اور آخر میں یہ علامت مستعمل ہے، جیسے: میرا ساتھی ۔ جس کانام احمد ہے۔ کل گھر جارہا ہے۔ 
واوین (’’ ‘‘): کسی کا قول اسی کے الفاظ میں نقل کرنے یا کسی مضمون میں دوسرے مضون کا اقتباس لینے یا کسی خاص نام کو اجا گر کرنے کے لیے اول وآخر میں یہ علامت لگائی جاتی ہے ، جیسے: مولانا محمد علی جوہر نے انگریزوں سے لندن میں کہا تھا کہ: ’’میں وطن جاؤں گا؛ تو پروانۂ آزادی لے کر جاؤں گا‘‘۔ 
قوسین (( )): یہ علامت طویل جملہ معترضہ ، تشریحی عبارت اور کسی عبارت کو نمایاں کرنے کے لیے اول و آخر میں لگائی جاتی ہے ، جیسے: میری کتاب (جسے میں ہر وقت پڑھتارہتاتھا ) کسی نے غائب کر دی ہے ۔ 
چند علامتیں
مذکورہ بالا رموز اوقاف کے علاوہ مندرجہ ذیل علامتیں بھی استعمال کی جاتی ہیں :
ع: دوران تحریر مصرع آجانے پر اس سے پہلے یہ علامت لگائی جاتی ہے ، جیسے: ع 
رات ہے یاستاروں کی بارات ہے
؂ : شعر سے پہلے یہ علامت استعمال کی جاتی ہے ، جیسے: ؂ 
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ ، میری بے زبانی دیکھتے ۔۔۔۔۔۔ جاؤ
ؔ : یہ علامت شاعر کے قلمی نام یعنی تخلص پر لگا ئی جاتی ہے ، جیسے:فراقؔ ۔ داغؔ ۔مومنؔ ۔عاجزؔ ۔
۔۔۔۔۔ : تحریر کے دوران کسی خاص نام یا مقام کو نمایا ں کرنے کے لیے لائن کے اوپر یہ علامت لگائی جاتی ہے، جیسے:حضرت مولانا منیرالدین ؒ جہاز قطعہ ، گڈا جھار کھنڈ کی ایک عظیم ہستی تھی۔ جن کی بزرگی اور ولی اللہی کا اعتراف دست ودشمن سب نے یکساں طور پر کیا ہے ۔ 
۔۔۔: اقتباس میں بیچ کا کچھ حصہ حذف کردینے ، یا کوئی شعر یا تحریر مکمل نہ ہونے پر شروع یا آخر میں یہ علامت لگائی جاتی ہے، جیسے: ۔۔۔کوچۂ جاناں جاناں ۔
یہ ڈاکٹر کلیم عاجزؔ کے شعر کے دو سرے مصرع کا آخری حصہ ہے۔پورا شعر اس طرح ہے: ؂ 
خیریت سے ہے یہاں ، سر نہ دل وجاں جاناں 
کوچۂ جاناں نہیں ، کوچۂ جاناں جاناں
اور جیسے: یہ قدم قدم بلائیں ۔۔۔
پورا شعر اس طرح ہے: ؂
یہ قدم قدم بلائیں ، یہ سواد کو ئے جاناں 
وہ یہیں سے لوٹ جائیں ، جسے زندگی ہو پیاری 
؍ : تاریخ یا اعداد وشمار کے خاتمے پر یہ تر چھی لکیر لگائی جاتی ہے ، جیسے: آپ ﷺ ۹؍ ربیع الاول پیر کے روز پیدا ہوئے۔
مضمون کو خوب صورت اور قابل فہم بنانے کے لیے ان علامتوں کو ان کے صحیح مقام پر برتنا اور استعمال کرنا ضروری ہے ۔