8 Apr 2018

فعل کابیان

قسط نمبر (8) محمد یاسین جہازی قاسمی کی کتاب: رہ نمائے اردو ادب سے اقتباس

فعل کابیان
فعل کی تعریف ماقبل میں گذر چکی ہے۔ اس کو بہ الفاظ دیگر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جن الفاظ سے کسی کام کا ہونا یا کرنا معلوم ہوتاہے، وہ فعل کہلاتا ہے۔ اس میں جو کام کر رہاہے ، اس کو ’فاعل ‘کہا جاتا ہے، اور جس پر ہورہا ہے، اس کو’مفعول‘ کہا جاتا ہے، جیسے: عارف نے پھل کھا یا ۔ 
فعل کی دو قسمیں ہیں: (۱)لازم(۲)متعدی ۔ 
فعل لازم: یہ ہے کہ اس میں فعل فاعل سے بات پوری ہوجاتی ہے اور تیسری چیز (مفعول) کی ضرورت نہیں رہتی ہے، جیسے: محسن آیا ،عارف گیا، فاروق پہنچا۔
فعل متعدی: یہ ہے کہ اس میں فعل فاعل کے ساتھ ایک تیسری چیز یعنی(مفعول) کی بھی ضرورت پڑتی ہے ، جیسے: فاروق نے کتاب پڑھی ۔ 
پھر فعل کی چھ قسمیں ہیں۔ 
(۱)ماضی: ایسا فعل ہے جو گذرے ہوئے زمانہ میں کام کے ہونے کو بتلاتاہے ، جیسے: وہ رویا۔ اس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ علامت مصدر’نا‘ ہٹا کر لفظ ’یا‘ اور ’الف‘ بڑھا دیا جاتاہے ، جیسے: آنا سے آیا، پڑھنا سے پڑھا،کھانا سے کھایا، سونا سے سویا۔
(۲)حال: ایسے فعل کو کہتے ہیں،جو موجودہ زمانے میں کام ہونے کو بتلاتاہے ،جیسے: وہ آرہاہے ۔ اس کو مصدر کی علامت ختم کر کے ’’تاہے، تے ہیں،تے ہو، تاہوں‘‘ بڑھاکر بنایا جاتا ہے ، جیسے: وہ مارتاہے،وہ سب مارتے ہیں، تم مارتے ہو، میں مارتاہوں ۔ اسی طرح تار ہا ہے،تے رہے ہیں اور تارہا ہوں بڑھا نے سے بھی بنتاہے، جیسے: لکھتارہا ہے۔ اور اسی طرح صرف رہاہے،رہے ہیں اور رہا ہوں بڑھانے سے بھی حال بنتاہے، جیسے: وہ لکھ رہا ہے،وہ سب گا رہے ہیں،میں پڑھ رہا ہوں ۔ 
(۳)مستقبل : ایسے فعل کانام ہے، جو آئندہ زمانے میں کا م کے ہونے کوظاہرکرتا ہے ، جیسے: وہ جائے گا۔اس کو مضارع کے آخر میں ’گا،گے، گی‘ بڑھاکربناتے ہیں،جیسے:وہ آئے گا،لڑکی آئے گی ، لوگ جائیں گے۔ 
(۴) مضارع: وہ فعل ہے جو حال اور مستقبل دونوں زمانوں میں کام ہونے کو بتلاتاہے، جیسے: وہ جاتاہے یا جائے گا۔ اس کے بنانے کاقاعدہ یہ ہے کہ علامت مصدر گرانے کے بعد(ے) بڑھا دیتے ہیں ، جیسے: لانا سے لاے، روناسے روے،کرناسے کرے۔ 
نوٹ: چوں کہ مضارع میں حال اور مستقبل دونوں زمانے پائے جاتے ہیں، اس لیے ان دونوں کے بنانے کے قاعدے سے بھی مضارع بنایاجاتا ہے۔ 
(۵)امر: ایسا فعل ہے جو کسی کا م کے کرنے کے حکم کو بتلاتاہے، جیسے:لکھ ،پڑھ۔ مصدر کی علامت ہٹادینے سے فعل امر بن جاتاہے، جیسے: پڑھنا سے پڑھ ، کھانا سے کھا،جانا سے جا،سونا سے سو،رونا سے رو۔بولنا سے بول ، دینا سے دو۔کھیلنا سے کھیل۔
(۶)نہی :وہ فعل ہے جو کسی کام کے کرنے سے منع کو بتلاتا ہے، جیسے: مت کھیل ۔ اس کو مصدرکی علامت حذف کر نے کے بعد شروع میں (مت) یا (نہ)لگا کر بنا یا جاتا ہے ، جیسے : مت پڑھ ،نہ لکھ، مت جا،نہ روک۔
فعل ماضی کی چھ قسمیں ہیں: 
(۱)ماضی مطلق :وہ فعل ہے جس سے بلاقید قریب و بعید گذشتہ زمانے میں کام کاختم ہونا یا کرنا معلوم ہوتاہے، جیسے: فاروق رویا۔ اس کے بنانے کا قاعدہ وہی ہے جو فعل ماضی کا ہے ۔ 
(۲)ماضی قریب:ایسا فعل ہے جس سے زمانۂ گذشتہ قریب میں کام کا ختم ہونا یا کرنا معلوم ہوتاہے، جیسے: میں نے کھانا کھالیاہے۔ ماضی مطلق کے آخر میں لفظ:’ہے ،ہیں اور ہوں‘ بڑھانے سے ماضی قریب بنتی ہے، جیسے: آیا ہے، آئے ہیں، آیا ہوں۔ 
(۳)ماضی بعید : وہ فعل ہے جس سے زمانۂ گذشتہ بعید میں کام کاختم ہونا یا کرنا معلوم ہوتاہے، جیسے: محسن نے امتحان دیا تھا ۔ ماضی مطلق کے آخر میں ’تھا، تھے اور تھی‘ بڑھا نے سے ماضی بعیدبنتی ہے، جیسے: آیاتھا ،آئے تھے،آئی تھی۔ مصدر کی علامت حذف کرنے کے بعد ’چکاتھا، چکے تھے، چکی تھی‘بڑھانے سے بھی ماضی بعیدبنتی ہے، جیسے: آچکا تھا، آچکے تھے ، آچکی تھی ۔
(۴) ماضی ناتمام(استمراری):وہ فعل ہے جس سے زمانۂ گذشتہ میں کام کا تسلسل کے ساتھ ہونا یا کرنا معلوم ہوتا ہے، جیسے: وہ جاتا تھا۔ اس کو بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مصدر کی علامت ختم کر کے ’تاتھا، تے تھے ، تی تھی‘ اور’ رہا تھا ، رہے تھے، رہی تھی‘بڑھادیا جاتا ہے، جیسے: وہ لکھ رہا تھا،وہ لکھتا تھا،ہم جاتے تھے،ہم پڑھ رہے تھے۔
(۵)ماضی احتمالی (شکی) : وہ فعل ہے جس سے زمانۂ گذشتہ میں کام کے ختم ہونے یا کرنے میں شک و شبہ ظاہر کیا جاتا ہے،جیسے: عارف نے پڑھا ہوگا۔ ماضی مطلق کے آخر میں’ ہوگا، ہوں گے،ہوگی ‘بڑھانے سے ماضی احتمالی بن جاتی ہے، جیسے: وہ آیا ہوگا، وہ سب آئے ہوں گے،وہ آئی ہوگی، تو آیا ہوگا، تم سب روئے ہوگے۔
(۶)ماضی تمنائی :وہ فعل ہے جس سے زمانۂ گذشتہ میں کسی کام کے ہونے یا کرنے کی تمنا، آرزو اور شرط معلوم ہوتی ہے، جیسے: کاش! وہ پڑھتا ، اگر وہ لکھتا ۔ اس کے بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ شروع میں لفظ ’کاش‘ اور علامت مصدر ختم کر کے ’تا، تے، تیں‘ بڑھا دیا جاتاہے، جیسے: کاش! وہ پڑھتا۔ اس کے صرف تین صیغے آتے ہیں: واحد غائب ، جمع غائب اور واحد متکلم ۔ 
فعل کی تمام اقسام کے چھ چھ صیغے ہوتے ہیں: 
(۱)واحد غائب(۲)جمع غائب (۳) واحد حاضر (۴) جمع حاضر (۵) واحد متکلم(۶)جمع متکلم۔ سہولت کے لیے فعل کی تمام اقسام کی گردانیں لکھی جارہی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: 
گردانیں
افعال 
واحد غائب 
جمع غائب 
واحد حاضر
جمع حاضر
واحد متکلم
جمع متکلم
ماضی مطلق معروف
اس نے مارا 
ان سبھوں نے مارا
تو نے مارا
تم سبھوں نے مارا
میں نے مارا
ہم سب نے مارا
ماضی مطلق مجہول
وہ مارا گیا 
وہ سب مارا گیا 
تو مارا گیا 
تم سب مارے گئے
میں مارا گیا 
ہم سب مارے گئے
ماضی قریب معروف 
اس نے مارا ہے

ان سبھوں نے مارا ہے 
تم نے مارا ہے 
تم سبھوں نے مارا ہے 
میں نے مارا ہے
ہم سب نے مارا ہے
ماضی قریب مجہول
وہ مارا گیا ہے
وہ سب مارے گئے ہیں
تو مارا گیا ہے
تم سب مارا گئے ہو
میں مارا گیا ہوں
ہم سب مارے گئے ہیں
ماضی بعید معروف
اس نے مارا تھا
ان سبھوں نے مارا تھا
تو نے مارا تھا
تم سبھو ں نے مارا تھا
میں نے مارا تھا
ہم سبھوں نے مارا تھا
ماضی بعید مجہول
وہ مارا گیا تھا
وہ سب مارے گئے تھے
تو مارا گیا تھا
تم سب مارے گئے تھے
میں مارا گیا تھا
ہم سب مارے گئے تھے
ماضی بعید معروف
وہ مار چکا تھا
وہ سب مار چکے تھے
تو مار چکا تھا
تم سب مار چکے تھے
میں مار چکا تھا
ہم سب مار چکے تھے
ماضی بعید مجہول
وہ مارا جاچکا تھا
وہ سب مارے جا چکے تھے
تو مارا جا چکاتھا
تم سب مارے جا چکے تھے
میں مارا جا چکا تھا
ہم مارے جاچکے تھے
ماضی ناتمام معروف
وہ مارتا تھا
وہ سب مارتے تھے
تو مارتا تھا
تم سب مارتے تھے
میں مارتا تھا
ہم سب مارتے تھے
ماضی ناتمام مجہول
وہ مارا جاتا تھا
وہ سب مارے جاتے تھے
تو مارا جاتا تھا
تم سب مارے جاتے تھے
میں مارا جاتا تھا
ہم سب مارے جاتے تھے
ماضی ناتمام معروف
وہ ماررہا تھا
وہ سب مار رہے تھے
تو مار رہاتھا
تم سب مار رہے تھے
میں مار رہا تھا
ہم سب مار رہے تھے
ماضی ناتمام مجہول
وہ مارا جارہا تھا
وہ سب مارے جا رہے تھے
تو مارا جا رہا تھا
تم سب مارے جا رہے تھے
میں مارا جا رہا تھا
ہم سب مارے جا رہے تھے
ماضی احتمالی معروف
اس نے مارا ہوگا
ان سبھوں نے مارا ہوگا
تو نے مارا ہوگا
تم سبھوں نے مارا ہوگا
میں نے مارا ہوگا
ہم سب نے مارا ہوگا
ماضی احتمالی مجہول
وہ مارا گیا ہوگا
وہ سب مارے گئے ہوں گے
تو مارا گیا ہوگا
تم سب مارے گئے ہوں گے
میں مارا گیا ہوں گا
ہم سب مارے گئے ہوں گے
ماضی تمنائی معروف
کاش!وہ مارتا
کاش !وہ سب مارتے


کاش! میں مارتا

ماضی تمنائی مجہول
کاش! وہ مارا جاتا
کاش! وہ سب مارے جاتے


کاش! میں مارا جاتا

ماضی شرطیہ معروف
اگر وہ مارتا
اگر وہ سب مارتے


اگر میں مارتا

ماضی شرطیہ مجہول
اگر وہ مارا جاتا
اگر وہ سب مارے جاتے


اگر میں مارا جاتا

مضارع معروف
وہ مارے 
وہ سب مارے
تو مارا
تم سب مارے
میں ماروں
ہم سب ماریں
مضارع مجہول
وہ مارا جائے
وہ سب مارے جائیں
تو مارا جائے
تم سب مارے جاؤ
میں مارا جاؤں
ہم سب مارے جائیں
حال معروف
وہ مارتا ہے
وہ سب مارتے ہیں
تو مارتا ہے
تم سب مارتے ہو
میں مارتا ہوں
ہم سب مارتے ہیں
حال مجہول
وہ مارا جاتا ہے
وہ سب مارے جاتے ہیں
تو مارا جاتا ہے
تم سب مارے جاتے ہو
میں مارا جاتا ہوں
ہم مارے جاتے ہیں
حال استمراری معروف
وہ مار رہا ہے
وہ سب مار رہے ہیں
تو مار رہا ہے
تم سب مار رہے ہو
میں مار رہا ہوں
ہم سب مار رہے ہیں
حال استمراری مجہول
وہ مارا جارہا ہے
وہ مارے جارہے ہیں
تو مارا جارہا ہے
تم سب مارے جارہے ہو
میں مارا جارہا ہوں
ہم سب مارے جارہے ہیں
حال استمراری معروف
وہ مارتا رہا ہے
وہ سب مارتے رہے ہیں
تو مارتا رہا ہے
تم سب مارتے رہے ہو
میں مارتا رہا ہوں
ہم سب مارتے رہے ہیں
حال استمراری مجہول
وہ مارا جاتا رہا ہے
وہ سب مارے جاتے رہے ہیں
تو مارا جاتا رہا ہے
تم سب مارے جاتے رہے ہو
میں ماراجاتا رہا ہوں
ہم سب مارے جاتے رہے ہیں
مستقبل معروف
وہ مارے گا
وہ سب ماریں گے
تو مارے گا
تم سب مارو گے
میں ماروں گا
ہم سب ماریں گے
مستقبل مجہول
وہ مارا جائے گا
وہ سب مارے جائیں گے
تو مارا جائے گا
تم سب مارے جاؤگے
میں مارا جاؤں گا
ہم سب مارے جائیں گے
امر معروف
وہ مارے
وہ سب ماریں
تو مار
تم سب مارو
میں ماروں
ہم سب ماریں
امر مجہول
وہ مارا جائے
وہ سب مارے جائیں
تو مارا جائے
تم سب مارے جاؤ
میں مارا جاؤں
ہم سب مارے جائیں
نہی معروف
وہ نہ مارے
وہ سب نہ ماریں
تو نہ مار
تم سب نہ مارو
میں نہ ماروں
ہم سب نہ ماریں
نہی مجہول
وہ نہ مارا جائے
وہ سب نہ مارے جائیں
تو نہ مارا جائے
تم سب نہ مارے جاؤ
میں نہ مارا جاؤں
ہم نہ مارے جائیں
نوٹ: حال اور مستقبل سے بنائی گئی مضارع کی گردان دونوں گردانوں سے مل کر بنے گی، جیسے: وہ مارتا ہے یا مارے گا ۔ وہ مارا جاتا ہے یا مارا جائے گا۔
علامت فاعل : ’نے‘کے مواقع استعمال 
اردو میں فاعل کی علامت لفظ ’نے‘ہے ، چوں کہ اس کے استعمال میں اکثر غلطی واقع ہوجاتی ہے، جس سے تقریر وتحریر دونوں کی شگفتگی جاتی رہتی ہے۔ اس لیے ذیل میں علامت فاعل کے استعمال کے چند قواعد لکھے جارہے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں: 
(۱)علامت فاعل کا استعمال صرف فعل متعدی کے جملوں میں کیا جائے گا، جیسے: خالد نے کھانا کھایا۔ لیکن کبھی کبھی بعض متعدی افعال میں استعمال نہیں کیا جا تا ، جیسے: وہ بھولا، وہ بولا۔ 
(۲)کچھ افعال ایسے ہیں ، جن کے ساتھ علامت فاعل کا استعمال ضروری ہے، جیسے: غالب کے اس شعر میں 
میں نے چاہاتھا کہ اندوہِ وفاسے چھوٹوں 
وہ ستم گر میرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
(۳)فعل متعدی کے ساتھ آنے والا ’فعل امدادی‘ اگر متعدی ہو؛ تو علامت فاعل کا استعمال کیا جائے گا، جیسے: عارف نے خط بھیج دیا،فاروق نے جواب دے دیا۔اور اگر فعل امدادی لازم ہو؛ تو علامت فاعل کا استعمال نہیں ہوگا، جیسے: تحسین قلم لے گیا،عارف چلا گیا۔
فعل امدادی ایسے فعل کو کہاجاتا ہے ،جوفعل کے ساتھ اسے مدد دینے کے لیے آتا ہے ،جیسے : جواب دینا میں لفظ دینا اور سوال کرنا میں لفظ کرنا فعل امدادی ہے۔
مندرجہ ذیل صورتوں میں علامت فاعل کا استعمال نہیں ہوگا: 
(۱) فعل حال کے تمام صیغوں میں ، جیسے: وہ لکھتا ہے ،میں لکھ رہاہوں، تم لکھتے رہے ہو۔ 
(۲)فعل مستقبل کے تمام صیغوں میں جیسے: وہ جائے گا، میں جاؤں گا،ہم سب جائیں گے۔
(۳)ماضی ناتمام اور ماضی تمنائی کے تمام صیغوں میں، جیسے: وہ لکھتا تھا،میں لکھ رہاتھا ، کاش ! وہ لکھتا ۔ کاش ! میں دیکھتا۔
(۴)فعل لازم کے صیغوں میں ، خواہ وہ ماضی ہی کیوں نہ ہو،جیسے: میں دوڑا ، میں آیا ، وہ گیا۔
نوٹ: علامت فاعل جس جملے میں استعمال ہوگی ، اس میں فعل فاعل کے بجائے مفعول کے تابع ہوگا،جیسے : حامد نے روٹی کھائی ، شاہد نے کتابیں پڑھیں ۔ ان کو حامد نے روٹی کھایا اور کتابیں پڑھا نہیں کہا جائے گا۔
مطابقتِ فعل ، فاعل اور مفعول کے چند اصول
(۱) فعل لازم، واحد ، جمع اور تذکیر و تانیث میں فاعل کے مطابق ہوگا ، جیسے : مرغااڑا ، مرغی اڑی ، بکری آئی،حامد گیا،مردآئے،عورتیں آئیں۔
(۲)فعل متعدی معروف میں اگر علامت فاعل نہ ہو ، تو واحد ، جمع اور تذکیر و تانیث میں فعل فاعل کے مطابق ہوگا ، جیسے : بکری دوڑتی ہے، خالد کھا تا ہے،بکریاں دوڑ رہی ہیں ۔
(۳) فعل متعدی معروف میں اگر علامت فاعل ہو ، لیکن علامت مفعول (کو) نہ ہو، توفعل مفعول کے مطابق ہوگا، جیسے : خالد نے روٹی کھائی۔ عورتوں نے خط لکھا۔
(۴) فعل متعدی معروف میں اگر علامت فاعل اور علامت مفعول دونوں ہوں ، تو فاعل و مفعول (خواہ واحد ہوں یا جمع ،مذکرہوں یا مؤنث ) فعل متعدی معروف واحد مذکر ہی رہے گا، جیسے : زیدنے کتاب کو پڑھا ، لڑکیوں نے قلموں کوخریدا،تاجر نے کتابوں کو بیچا،میں نے ملکوں کا دورہ کیا۔
(۵) فعل متعدی مجہول، واحد ، جمع اورتذکیر وتانیث میں اپنے مفعول (نائب فاعل)کے مطابق ہوگا ، جیسے : چور پکڑ ا گیا ، بکری لائی گئی ، لڑکے بلائے گئے ،لڑکیاں بلائی گئیں ۔
(۶) جب فاعل لفظ تعظیمی اور واحد ہو، تو فعل جمع لایا جائے گا ، اور تذکیر و تانیث میں فاعل کے مطابق ہوگا،جیسے:آپ کب تشریف لائیں گے؟ آپ آئی تھیں ،مہمان تشریف لارہے ہیں۔
(۷) جب فاعل جمع کی ضمیرہو اور مذکر و مؤنث دونوں طرف لوٹے ، تو فعل مذکر اور جمع ہو گا ، جیسے : لڑکے اورلڑکیوں نے کہا کہ : ہم ہر وقت تلاوت کریں گے ،عورتوں اور مردوں نے مل کر عہدکیا کہ ہم حق بات کہنے سے نہ روکیں گے،بچے اور بچیوں نے مل کر ترانے گائے۔
(۸) جب مختلف قسم کی متعدد ضمیریں فاعل ہوں ، توفعل جمع ہوگا ، جیسے: وہ تم اور ہم مدرسہ گئے تھے ۔
(۹) جب اسم جمع فاعل ہو ، تو فعل واحد ہو گا ، جیسے : فوج جارہی ہے، قوم آ رہی ہے۔
(۱۰) جب متعدد اسما حرف عطف کے بغیر فاعل واقع ہوں، تو فعل جمع ہو گا، جیسے: دن رات چین سے گزررہے ہیں ،ماں باپ گھر پر آرہے ہیں۔
(۱۱) رشتے کے دو مذکر اسم جب بغیر عطف کے آئیں ،تو پہلا اسم واحد، دوسرا اسم جمع اور فعل جمع مذکر ہوگا ، جیسے: باپ بیٹے جا رہے ہیں،چچا بھتیجے سورہے ہیں ۔ اور اگر رشتے کے دو مؤنث اسم بغیر عطف کے آئیں، تو فعل جمع مؤنث ہوگا، جیسے : ماں بیٹی جارہی ہیں، ساس بہو سو رہی ہیں ۔
(۱۲) اگر فاعل غیر ذوی العقول ہو اور متعددہوں ، تو(خواہ فاعل واحد ہو یا جمع ، مذکر ہو یا مؤنث ) فعل جمع لایا جائے گا ، جیسے : بیل ، گھوڑ ے ،مرغی ، بکریاں چر رہی ہیں ۔
(۱۳)اگر متکلم کی ضمیر یں دوسری ضمیر وں کے ساتھ فاعل ہو کر آئیں ، تو فعل ہمیشہ متکلم کی ضمیروں کے مطابق ہو گا ، جیسے: وہ تم اور ہم آئے،وہ تم اور میں سویا۔
(۱۴) اگر جملے میں صرف حاضر اور غائب کی ضمیریں ہوں ، تو فعل، حاضر کی ضمیر کے مطابق لایا جائے گا ، جیسے:وہ اور تم جاؤگے۔ میں اور تم کھا ؤ گے۔
(۱۵) جن دو لفظوں نے مل کر مفرد کی شکل اختیا رکرلی ہو ، اگر ایسے الفاظ فاعل واقع ہوں ، توفعل قریب والے لفظ کے مطابق ہوگا ،جیسے: آب و ہوا خراب ہو رہی ہے ۔آب ودانہ اٹھ گیا۔
(۱۶) اگر متعدد واحد ذوی العقول حرف عطف کے بغیر فاعل واقع ہوں، تو فعل جمع لایا جائے گا ، جیسے : فاروق ، محسن ، عارف، تحسین حج کرنے گئے ۔
(۱۷) فاعل جمع ہواور دو یا دوسے زیادہ افعال ہوں؛ تو تمام افعال علامت فاعل سے متصل فعل کے مطابق ہوں گے، جیسے: میرے تمام لڑکوں نے ساتھ پڑھا، ساتھ کھیلا اور ساتھ کھایا۔ 
(۱۸)اگر فاعل، واحدکی شکل میں متعدد ہوں ، غیر ذوی العقول ہوں اور حرف عطف بھی ہو ، تو فعل واحد ہوگا، جیسے: گھوڑا، گدھا، بیل اور بکری چررہی ہے۔ 
(۱۹)اگر افعال دو یا دوسے زیادہ ہوں اور فاعل ایک ہی ہو؛ تو فاعل صرف ایک بار آئے گا۔ اور اگر افعال کا آخر ی حصہ بھی ایک ہی ہو، تو آخری حصے کو سب فعلوں کے بعد صرف آخری فعل میں لایا جا ئے گا، جیسے: محسن پڑھتا، لکھتا ، کھا تا ، پیتا اور سوتاہے۔ 
(۲۰)حروف اضافت:’کا ‘ واحد مذکر کے لیے ’کی‘ واحد اور جمع مؤنث کے لیے اور ’کے‘ جمع مذکر کے لیے استعمال کیے جائیں گے، جیسے: احمد کا قلم، سلمیٰ کا بھائی ،حلوائی کی مٹھائیاں،عارف کی کتاب ،عارف کی کتابیں،عارف کے کپڑے۔