6 Apr 2018

سہانے ماضی کے حوالے سے یوم اساتذہ پر چند یادیں اور تاثرات

محمد یاسین جہازی
(تقریر برائے یوم اساتذہ برائے لڑکی)
ناظرین و سامعین! میں جناب ۔۔۔کی نور نظر بی بی۔۔۔ ، کلاس ۔۔۔ کی طالبہ سب سے پہلے آپ تمام حضرات کادل کی اتھاہ گہرائیوں سے استقبال کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں سلام کی سوغات پیش کرتی ہوں : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
میری پیاری پیاری سہیلیواور سامعین! جب گھڑی کی تینوں سوئیاں اپنی اپنی رفتار سے گھومتی ہوئی چوبیس کے علامتی دائرے کو مکمل کر لیتی ہیں ، تو ہماری زندگی سے ایک ’دن ‘نکل چکا ہوتا ہے اور ایک دوسرا’ڈے‘ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ زندگی کے یہ ایام یوں ہی گذرتے رہتے ہیں۔ کچھ ڈے تو یوں ہی آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ، ان میں نہ تو تذکرۂ سرورو مستی ہوتا ہے اور نہ ہی وہ لمحات رنج وغم فراہم کرتے ہیں، بس آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، لیکن کچھ ڈے ایسے بھی آتے ہیں ، جو ہماری زندگی کے لیے خوشیوں کی بہار کا نویدفرحت ہوتے ہیں ، پھر وہ دن ہماری زندگی کا ایک یادگار اور مسرت آمیز دن ہوتا ہے، جس کے ایک ایک لمحہ کو قیمتی جانتے ہوئے اپنے دامن میں خوشیاں سمیٹنے اور باٹنے کا کام کرتے ہیں ۔ یہ سال میں صرف ایک ہی دن، اور ایک ہی ڈے نہیں ہوتا، بلکہ ہماری شعبہ ہائے حیات سے وابستگی جس نوعیت کی ہوتی ہے، اس کے اعتبار سے یہ ایام بار بار ہمیں یہ موقع فراہم کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب ایک سال میں اتنے ڈے آنے لگے ہیں کہ کبھی ہم خود کنفیوز ہوجاتے ہیں کہ سال کے ایام زیادہ ہوتے ہیں یا پھر یہ ڈے۔ 
چنانچہ 
کبھی فادرس ڈے آتا ہے ، تو کبھی مدرس ڈے
کبھی واٹر ڈے آ دھمکتا ہے ، تو کبھی گڈ فرائڈے
کبھی فرینڈ شپ ڈے کی رنگینیاں آتی ہیں تو کبھی میرج ڈے
کبھی بینک ہولی ڈے ہوتا ہے، تو کبھی کرسمس ڈے 
مزدور ڈے، گاندھی ڈے، گرو نانک ڈے،شب معراج ڈے، آزادی دے ، برتھ ڈے اور خدا جانے کتنے ڈے ڈے ڈے۔ المختصر سلیبریشن اور جشن کے اتنے ڈے آتے ہیں کہ ہمارے ممی ڈیڈی، ان ڈیڈوں کے اخراجات اور فنکشن سے بس ڈیڈ ہوتے ہوتے ہی بچتے ہیں۔
میری ہم نفسو! ہوائیں ہر موسم میں چلتی ہیں، لیکن ساون کے مہینے کی باد نسیم کی خنکی کچھ اور ہی پیام لے کر آتی ہے، پرندوں کی چہچہاہٹ سب کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ، لیکن کوئلوں کی کوں کوں اور پپیہوں کی پیہوں پیہوں کی صدائے نشاط سے کون جھومنے پر مجبور نہیں ہوتا،کھیتوں کی ہریالی، باغوں کی لہلہاہٹ ہمیں ضرور دعوت نظارہ دیتی ہے ، پر جو بات یاسمین و نسترن کی رنگت اور چمپاو چمیلی کی مہک میں ہوتی ہے ، اس کی بات ہی الگ ہے۔ اسی طرح سورج ہر دن نکلتا ہے ، شام ہر روز آتی ہے، لیکن جو بات ’یوم اساتذہ‘ میں ہے، وہ کسی اور ڈے میں نہیں۔ 
کیوں کہ جب ہم ان سلیبریشن ایام کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان میں کچھ ڈے تو وہ ہیں ، جو صرف ہماری ذات سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے :برتھ ڈے ، اور کچھ وہ ہوتے ہیں، جو ہماری عشق و شیفتگی اور الفت وارفتگی کا مظہر ہوتے ہیں جیسے شادی ڈے ،فرینڈشپ ڈے۔ کچھ ڈے ایسے ہوتے ہیں ، جو ہمیں ماضی کے سہانے ایام کی یاد دلاتے ہیں ، آزادی ڈے، کرسمس ڈے اس کی مثالیں ہیں۔ اور کچھ زندگی کے تلخ و کڑوی حقیقت سے روشناس کراتے ہیں ، مزدور ڈے اور وفات ڈے کی یہی خصوصیات ہوتی ہیں۔ یعنی یہ ڈیز یا تو ہمیں ماضی کی خوشیاں فراہم کرتے ہیں یا پھر اس کی کسی تاریخی سچائی سے روشناس کراتے ہیں ، ان میں ہمارے حال اور مستقبل کے لیے کوئی لائحۂ عمل یا درس عبرت نہیں ہوتا
لیکن 
میری باتمکین و شگفتین سہیلیوں اور معزز سماعتیں! یہ ٹیچرس ڈے، یہ یوم اساتذہ ، یہ گرو اتسو، یہ یوم المعلمین ہمیں کبھی ماضی میں بھی لے جاتا ہے اور جب کبھی ہمیں اپنا ماضی یاد آنے لگتا ہے تو ہمارے پہلے کے اساتذہ کی شفقتیں اور عنایتیں آنکھوں میں آنسو بن کرامتنان و تشکر کی سوغات پیش کرتی ہیں اور ہم بہ زبان قال نہ سہی، بہ زبان حال یہ ترانہ سنجی کرتی ہیں کہ ؂
کتنی حسین صبح ، حسیں شام آئے گی 
لیکن تمھاری یاد بھلائی نہ جائے گی
یہی ہمارے ماضی کے دھندلکے خواب ہمارے حال کے لائحۂ عمل طے کرنے کے لیے روشنی کا کام کرتے ہیں، اگر ہمارے سابقہ اساتذہ ہمیں تعلیم و تربیت کی شکل میں وہ خواب نہ دکھاتے ، تو آج حال کے اس پردے پر یہ تعبیر ہاں ہاں یہی تعبیر،جو آپ ہیں ،آپ ہیں اور آپ ہیں اور ہم سب ہیں،اسی’ ہم‘ میں سے ایک فرحت جہاں ،آپ کے سامنے کھڑی ہوکر ہمت و حوصلے سے الفاظ کے یہ موتی بکھیرنے کی قابل نہیں ہوتی ۔ آج میں بول رہی ہوں ، آپ بول رہے ہیں اور ہم سب بول رہے ہیں ، تو یہ انھیں اساتذہ کی کرشمہ سازیاں ہیں ۔ انھوں نے ہمیں زندگی کی تلخ راہوں میں چلنے کا شعور بخشتے ہوئے سکھایا کہ 
تیرے بال و پر کا مقصد ہے بلندیوں پہ جانا 
نہ سکوں نہ سیر گلشن نہ تلاش آب و دانہ
انھوں نے ہمیں حوصلہ دیا کہ ؂ 
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا 
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے
چنانچہ ان اساتذہ کی ہدایات و ارشادات کی روشنی میں حال سے گذرتے ہوئے ہم مستقبل کو تلاش کرنے کے سفر پر نکلے ہوئے ہیں اور جب تک ہمیں اپنے مستقبل میں محفوظ منزل نہیں مل جاتی 
ہم چلتے ہی رہیں گے 
ہم بڑھتے ہی رہیں گے
اور قدم بڑھاتے ہی رہیں گے
لہذمیں اپنی طرف سے اور تمام سہیلیوں و ساتھیوں کی طرف سے 
زندگی کے اس موڑ پر 
شب و روز کی اس گردش پر
کلینڈرکی اس تاریخ پر 
میرا مطلب
’’یوم اساتذہ‘‘ کے اس حسین و خوب صورت جشن پر 
ٹیچرس ڈے کے اس سلیبریشن پر
اپنے ماضی وحال کے اساتذہ کے حضور، ممنونیت و مشکوریت کے پھول نچھاور کرتی ہوں اور رنگ ہائے رنگ سے آراستہ و پیراستہ گل دستۂ سلام و محبت پیش کرتی ہوں۔ اس جذباتی لمحات میں ان کی یاد نے میرے دل کے اندر وہ ہلچل پیدا کردی ہے کہ میں یہ کہنے پر پر مجبور ہوئی جارہی ہوں کہ 
ڈھونڈتا ہوں جہاں در جہاں
کھوگیا میرا بچپن کہاں
جی ہاں، وہ بچپن، بچپن کی وہ یادیں، میں ننھی منھی، میرے ننھے مننھے دوست، ہماری معصوم ذہانت، معصومیت و بے شعوری کی شوخی، کبھی ہنسنا، کبھی رونا، کبھی گڈے گڑیے کی لڑائی، کبھی ساتھیوں و ہم جولیوں کی محفل اور ان تمام کیفیتوں میں ہمارے ماں باپ اور اساتذہ کی شفقتیں و عنایتیں، جب کبھی مجھے یاد بن کر ستاتی ہیں ، تو میرا دل اس تمنا سے مچل مچل اٹھتا ہے کہ ؂
ہاں دکھادے ائے تصور ، پھر وہ صبح و شام تو 
لوٹ پیچھے کی طرف ائے گردش ایام تو
لہذاجشن یوم اساتذہ اس کے سلیبریٹی پر چھوڑ دیجیے ان باتوں کو اور فراموش کرجائیے ماضی کی حسین یادوں کو ، جن کو دہرانے سے ماتم کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے، اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ ؂
یہ سچ کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیں
اوراق نظر سے جلووں کی تحریر مٹانا کھیل نہیں
لیکن ؂
لیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاؤ رہنے دو
جو آگ دبی ہے سینے میں ، ہونٹوں پہ نہ لاؤ رہنے دو
میرے ہم صفیرو! ہندی کاایک مشہور محاورہ ہے کہ پیدا کرنے والے سے ، پالنے والا کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے ۔ ہمارے والدین ہماری زندگی کا سبب ہوتے ہیں،ہماری دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں، لیکن اساتذہ ہمارے حال اور مستقبل کو سجانے اور سنوارنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرتے ہیں ، یہ کردار کوئی معمولی کردار نہیں ہوتا۔ اگر والدین کی عنایتوں کے علاوہ اساتذہ کی رہنمائی ہمارے شامل حال نہ ہو ، تو یقین جانیے کہ ہماری زندگی لاحاصل اور بے مقصد ہوسکتی ہے، ہماری ترقی کے تمام راستے مسدود ہوجائیں گے ، ہمارے اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا، گویا ہمیں صف انسان میں شامل ہونے کا شعور اساتذہ کی مرہون منت ہے، اس لیے آج اس یوم اساتذہ کے موقع پر اپنے تمام اساتذہ کے ادب و احترام کے عزم کا اعلان کرتے ہوئے یہ استدعا کرتی ہوں کہ جس طرح آپ نے اب تک ہماری بے لوث رہ نمائی فرمائی
ہم نے اپنی زندگی کے حسین لمحات آپ کے حوالے کیے، آپ نے ہمیں زیور تعلیم وتربیت سے مزین کیا اس کے لیے آپ کا شکریہ
ہم کردار سے خالی تھے ، آپ نے ہمارے کرداروں میں اخلاق حسنہ کے پھولوں کے ہار پہنادیے اس کے لیے بھی شکریہ 
ہم آداب گفتگو سے عاری تھے ،ہماری گفتارمیں شیرینی اور مٹھاس پیدا کی اس کے لیے بھی شکریہ
ہم کردار سے نابلد تھے ،ہمارے کردار کوآپ نے معیار بخشا اس کے لیے بھی شکریہ
راہ حیات کی پر خار وادی میں چلنے کا سلیقہ عطا کیا اس کے لیے بھی شکریہ
زمانے کی سرد و گرم ہواوں سے حفاظت کا طریقہ بتلایا اس کے لیے بھی شکریہ
فکرو فن کا شعور دیا اس کے لیے بھی شکریہ
اخوت و محبت کے درس دیے اس کے لیے بھی شکریہ
فلسفۂ خیر وشرسمجھایا اس کے لیے بھی شکریہ
حسن و عشق کے منطقی انجام سے آگاہ کیا اس کے لیے بھی شکریہ
مستقبل کے حسین خواب دیکھنے کی حوصلہ افزائی کی اس کے لیے بھی شکریہ
خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا گر بتایا اس کے لیے بھی شکریہ
المختصر ہر وہ اس عمل کے لیے شکریہ، جوآپ نے ہمارے لیے کیا اور آئندہ آپ کا ہمارے تئیں جو بھی رول پلے ہوگا، ان کے لیے بھی شکریہ ،شکریہ، شکریہ۔
آخر میں سمع خراشی کی معذرت چاہتے ہوئے اپنے اساتذہ کے لیے دعا گو ہوں کہ ؂
تم سلامت رہو ہزاربرس
ہربرس کے دن ہو پچاس ہزار
اور آپ سے اس وعدے کے ساتھ اجازت چاہتی ہوں کہ ؂
شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تک
تمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

تراویح


محمد یاسین جہازی
تراویح کی روایت
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن آدھی رات کو آپ ﷺ مسجد تشریف لے گئے اور نماز پڑھی ۔ صحابہؓ نے بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح اس بات کا چرچا ہوا، تو دوسرے دن کافی لوگ مسجد میں آگئے۔ آپ ﷺ نے ان سب کو نماز پڑھائی۔ تیسرے دن اور صحابہؓ کو معلوم ہوا تو وہ سب آگئے ، اس دن بھی آپ ﷺ نے ان سب کو نماز پڑھائی ۔ چوتھے دن اور زیادہ چرچا ہوا اور شوق نماز میں اتنے صحابہ مسجد نبوی میں جمع ہوگئے ، مسجد کھچاکھچ بھر گئی۔ اس دن آپ ﷺ مسجدمیں تشریف نہیں لائے۔ جب فجر کی نماز کے لیے تشریف لے گئے اور فجر کی نماز پڑھادی، تو آپ ﷺ نے ایک تقریر فرمائی۔ حمدو صلاۃ کے بعد ارشاد فرمایا کہ :مجھ سے تم لوگوں کی موجودگی پوشیدہ نہیں تھی، لیکن مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ ہوجائے اور پھرتم اس نمازکو ادا نہ کرسکو۔آپ ﷺ کی تا وفات معاملہ یوں ہی رہا۔ یعنی پھر کبھی آپ ﷺ نے نماز نہیں پڑھائی اور لوگ اپنے اپنے طور پر پڑھتے رہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں: 
ان رسول اللہ ﷺ خرج لیلۃ من جوف اللیل، فصلی فی المسجد، و صلٰی رجال بصلاتہ، فاصبح الناس، فتحدثوا، فاجتمع اکثر منھم، فصلیٰ فصلوا معہ، فاصبح الناس فتحدثوا، فکثر اھل المسجد من اللیلۃ الثالثۃ، فخرج رسول اللہ ﷺ فصلیٰ فصلوا بصلاتہ، فلما کانت اللیلۃ الرابعۃِ عجز المسجد عن اھلہ، حتٰی خرج لصلاۃ الصبح، فلما قضٰی الفجر، اقبل علیٰ الناس، فتشھد، ثم قال اما بعد! فانہ لم یخف علی مکانکم، ولٰکن خشیت ان تفترض علیکم، فعجزوا عنھا،فتوفی رسول اللہ ﷺ والامر علیٰ ذالک (بخاری، کتاب صلاۃ التراویح ، باب فضل من قام رمضان) 
آپ ﷺ کے بعد
آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں بھی معاملہ یوں ہی رہا۔ صحابہ انفرادی طور پر یہ نماز پڑھتے رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا دور فتنوں اور ارتداد کا دور ہونے کی وجہ سے دیگر کاموں میں مصروف رہے اور اس کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ پھر جب حضرت عمر فاروقؓ کا دور خلافت آیا ، تو انھوں نے جہاں بہت سے سیاسی و ملکی مسائل پر توجہ دی، وہیں صحابہ میں بعض مختلف فیہ مسائل کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور ان اختلاف آراء کو یک جا کرتے ہوئے کبار صحابہ سے مشورے سے کسی ایک رائے پر اجماع کیا، جیسے جماع کے بعد غسل واجب ہونے پر صحابہ کے آرا الگ الگ تھے۔ حضرت عمرؓ نے غسل واجب پر اجماع کیا۔(دیکھیں :مشکل الآثار للطحاوی ، باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللہ ﷺ مما تعلق بہ امامۃ الصبیان الذین لم یبلغوا فی الفرائض من الصلوات ، اذا جاوز الختان الختان، فقد وجب الغسل )اسی طرح اس نماز کے تعلق سے حضرت عمرؓ نے اجماع کیا۔ اجماع کی ضرورت کیوں پیش آئی ، ذیل کی سطروں میں ملاحظہ فرمائیے:
حضرت عمرؓ کا اجماع 
حضرت عبد الرحمانؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ نے کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا۔ وہاں لوگوں کو دیکھا کہ کوئی الگ (تنہا) نماز پڑھ رہا ہے۔ اور کہیں ایک شخص نماز پڑھا رہا ہے اور اس کے ساتھ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ (یہ منظر دیکھ کر) حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرا خیا ل ہے کہ ان سب کو ایک قاری پر جمع کردوں، (تنہا یا مختلف الگ الگ جماعتوں سے پڑھنے کے بجائے ایک ہی جماعت میں سب لوگ شریک ہوکر یہ نماز پڑھیں)تو بہتر ہوگا۔حضرت عمرؓ نے پختہ ارادہ کرکے حضرت ابی ابن کعبؓ کو امام بناکر سب کو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ پھر میں ان کے ساتھ دوسری رات کو نکلا ۔ لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ ( یہ دیکھ کر ) حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ اچھی بدعت ہے ۔ سونے والی گھڑی:، یعنی: رات کے آخری حصے سے ، رات کا شروع والا حصہ بہتر ہے، جس میں وہ لوگ نماز پڑھتے تھے۔ (یعنی صحابہ یہ نماز تہجد کے وقت کے بجائے عشا کے بعد ہی یہ نماز پڑھ لیا کرتے تھے)۔ حدیث کے الفاظ میں : 
عن عبدالرحمان بن عبد القاری انہ قال خرجت مع عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ لیلۃ فی رمضان الیٰ المسجد ، فاذا الناس اوزاع متفرقون ، یصلی الرجل لنفسہ، و یصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط۔ فقال عمر: انی اریٰ لو جمعتُ ھولاء علیٰ قاری واحد، لکان امثل، ثم عزم ، فجمعھم علیٰ ابی ابن کعبؓ ، ثم خرجت معہ لیلۃ اخریٰ ، والناس یصلون بصلاۃ قارءھم۔ قال عمر : نعم البدعۃ ھذہ۔ والتی ینامون عنھاافضل من التی یقومون ، یرید آخر اللیل۔ وکان الناس یقومون اولہ۔ (بخاری، فضل من قام رمضان) 
اس طرح امت مسلمہ میں تراویح کی روایت شروع ہوئی ، جس کا سلسلہ تا ہنوز جاری ہے اور تا قیامت ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
رکعات کی تعداد
نبی اکرم ﷺ سے نماز تراویح کی رکعات کی کوئی تعدادثابت نہیں ہے۔ اس تعلق سے نہ کوئی قولی روایت ہے اور نہ ہی فعلی روایت ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ نے مجموع فتاوی ٰابن تیمیۃ، ج؍ ۵ فصل صلاۃ الخوف صلاھا الرسول مرۃ علیٰ وجہ و مرۃ علیٰ وجہ میں ،علامہ شوکانی نے نیل الاوطار ، جلد ۳ میں ، مولانا وحید الزماں اہل حدیث نے نزل الابرار ، جلد ؍ ۱ میں اور دیگر علما نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔لیکن حضرات صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبع تابعین، ائمۂ مجتہدین،سلف صالحین اور علمائے راسخین کا تواتر کے ساتھ بیس رکعات پڑھنے کا عمل ثابت ہے۔بارھویں صدی تک امت کا توارث و تعامل بھی بیس ہی رکعات پڑھنے کا رہا ہے، ان تمام استشہادات سے ثابت ہوتا ہے کہ تروایح کی نماز بیس رکعات ہیں۔
بارھویں صدی کے اختتام میں اہل حدیث نامی فرقہ کا کہنا ہے کہ تراویح کی نماز بیس رکعات نہیں ؛ بلکہ آٹھ رکعات ہیں، اس کے اثبات کے لیے دو دعوے کرتے ہیں ۔ 
اہل حدیث کے دو دعوے 
پہلا دعویٰ : آٹھ رکعات آں حضرت ﷺ سے ثابت ہے ۔اس پر تین حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں: 
پہلی حدیث:
انہ سال کیف کانت صلاۃ رسول اللہ ﷺ فی رمضان؟ فقالت: ماکان رسول اللہ ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علیٰ احدیٰ عشرۃ رکعۃ ،یصلی اربعا ، فلا تسئل عن حسنھن و طولھن، ثم یصلی اربعا ، فلا تسئل عن حسنھن و طولھن، ثم یصلی ثلاثا، قالت عائشۃؓ فقلت : یا رسول اللہ ﷺ اتنام قبل ان توتر؟ فقال : یا عائشہ ان عینی تنامان ولاینام قلبی (بخاری باب قیام النبی ﷺ فی رمضان و غیرہ)
جوابات
(۱) غیر رمضان کا لفظ قرینہ ہے کہ سائل نے تراویح کے بارے میں نہیں؛ بلکہ تہجدکے بارے میں سوال کیا تھا؛ ورنہ غیر رمضان میں بھی آٹھ رکعات تراویح کا ثبوت ماننا پڑے گا، جو کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
(۲) حضرت عائشہ سے تیرہ رکعات بھی مروی ہے، حدیث میں ہے کہ و عن عائشۃ قالت: کان النبی ﷺ یصلی من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ، منھا الوتر و رکعتا الفجر۔ رواہ مسلم۔ ( مشکوٰ ۃ المصابیح، باب صلاۃ اللیل)، لہذا آٹھ ہی رکعات کی تعیین صحیح نہیں ہوگی۔
(۳) اس میں چار چار رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے اور تراویح دو دو رکعات پڑھی جاتی ہیں، لہذا یہ حدیث تراویح سے متعلق نہیں ہوسکتی۔
(۴) وتر سے پہلے سونے کا بھی تذکرہ ہے، حالاں کہ کسی بھی دیگر روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ آٹھ رکعات پڑھا کر سوجاتے تھے اور صحابہ انتظار میں رہتے تھے پھر آپ ﷺ بیدار ہوکر آتے اور وتر کی نماز پڑھاتے تھے۔
(۵) کسی بھی محدث نے اس روایت کو قیام رمضان کے تحت ذکر نہیں کیا ہے ، اکثر نے قیام اللیل یعنی تہجد کے باب میں ذکر کیا ہے۔
(۶) علامہ قرطبی نے تعداد کے تعلق سے حدیث عائشہ کو مضطرب قرار دیا ہے۔
لہذا انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ حدیث تراویح کی نہیں، بلکہ تہجد کی کیفیت کا بیان ہے ، لہذا تراویح کی آٹھ رکعات کے ثبوت میں اس سے استدلال کسی طرح بھی درست نہیں۔اور تہجد و تراویح دوالگ الگ نمازیں ہیں ؛کیوں کہ
(۱) تہجد کی مشروعیت مکہ میں ہوئی ہے جب کہ تراویح کی مدینہ میں۔
(۲) تہجد کا ثبوت کلام پاک فتہجد بہ نافلۃ لک اور قم اللیل الا قلیلا سے اور تراویح کا ثبوت حدیث سے ہے ۔ ابن ماجہ میں ہے سننت لکم قیامہ (باب ما جاء فی قیام رمضان)
(۳) تہجد کی رکعات بالاتفاق متعین ہیں :کم ازکم سات مع الوتر اور زیادہ سے زیادہ تیرہ مع الوترہیں اورتراویح کی تعداد آپ ﷺ سے منقول نہیں ۔
(۴) تہجد کا وقت سونے کے بعدہے اور تراویح کا عشا کے بعد ہوتا ہے۔
دوسری حدیث 
حدثنا محمد بن حمید الرازی، حدثنا یعقوب ابن عبداللہ حدثنا عیسیٰ ابن جاریہ عن جابر قال: صلٰی رسول اللہ ﷺ فی رمضان لیلۃ ثمان رکعات والوتر ، فلما کان من القابلۃ، اجتمعنا فی المسجد ورجونا ان یخرج الینا ، فلم نزل فیہ حتیٰ اصبحنا، قال کرھت او خشیت ان یکتب علیکم الوتر (صحیح ابن خزیمہ، باب ذکر الاخبار)
عیسیٰ بن جاریہ کو حافظ ذہبی نے میزن الاعتدال میں علامہ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں اور امام فن جرح و تعدیل یحیٰ ابن معین کہا ہے کہ لیس بذالک یعنی قوی نہیں ہے ، امام نسائی اور ابو داود نے منکر الحدیث کہا ہے۔ اور محمد ابن حمید الرازی کو بھی ضعیف کہا گیا ہے ، لہذا یہ حدیث قابل حجت نہیں۔ 
تیسری حدیث 
حدثنا محمد بن حمید الرازی، حدثنا یعقوب ابن عبداللہ حدثنا عیسیٰ ابن جاریہ عن جابر جاء ابی ابن کعب فی رمضان ۔ فقال یا رسول اللہ ﷺ کان منی لیلۃ شئی ، قال وما ذالک یا ابی قال نسوۃ داری قلن انا لا نقرا القرآن ، فنصلی خلفک بصلاتک ، فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر، فسکت عنہ النبی ﷺ (قیام اللیل ، ) 
عیسیٰ بن جاریہ مجروح ہیں۔
دوسرا دعویٰ 
آٹھ رکعات تراویح کا حکم حضرت عمرؓ نے دیا تھا ۔
مالک عن محمد بن یوسف عن سائب بن یزید انہ قال امر عمر ابن الخطاب ابی ابن کعب و تمیما الدارمی ان یقوما للناس باحدیٰ عشرۃ رکعۃ (موطا امام مالک، ماجاء فی قیام رمضان) 
اس سند میں موجود محمد بن یوسف کے پانچ شاگرد ہیں 
امام مالک کی روایت میں حکم، دونوں صحابہ اور تعداد کا تذکرہ ہے ، رمضان کا نہیں۔
یحیٰ ابن قطان کی روایت میں لوگوں کو جمع کرنے اور گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے ، حکم، رمضان کا ذکر نہیں ہے۔
عبدالعزیز ابن محمد کی روایت میں زمانہ عمر میں گیارہ رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے ، حکم صحابہ اور رمضان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
ابن اسحاق کی روایت میں حضرت عمر کے زمانے میں بماہ رمضان تیرہ رکعات کا تذکرہ ہے۔
عبدالرزاق کی روایت میں حضرت عمر کا حکم اکیس رکعت مذکور ہے۔ 
لہذا تعداد میں مضطرب ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔
محمد ابن یوسف کے ساتھی یزید بن خصیفہ سے بیس رکعات کی روایت مروی ہے سنن کبریٰ للبیھقی جلد ۲ میں۔ اس سند کو امام نووی ، امام عراقی اورامام سیوطی نے صحیح قرار دیا ہے۔لہذ اس حدیث پر عمل ہی انصاف اور عقل کا تقاضا ہوگا۔

شب قدر: مسائل، فضائل اور اسراروحکم

محمد یاسین جہازی 
شب قدر: مسائل، فضائل اور اسراروحکم
شریعت اسلامی میں تین چیزیں ہیں: (۱) مسائل: یعنی عمل و عبادت کا طریقہ۔ (۲) فضائل: یعنی اس کے کرنے کا اخروی فائدہ اور ثواب ۔ (۳) اسراروحکم: یعنی فطرت انسانی کے تقاضے کے مطابق ملحوظ حکمتیں اور کسی قدر دنیاوی فائدے۔ 
مسائل کی حیثیت بنیادی ہے، ان کا جاننا سب سے زیادہ اہم ہے۔ کیوں کہ ان کے بغیر انسان کوئی عمل اورعبادت نہیں کرسکتا۔ فضائل ثانوی چیز ہیں، ان کے جاننے سے عبادت کرنے کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے ۔اور اسراروحکم معلوم ہوجانے سے ذوق و شوق میں اضافہ اورثواب کی امید یقین میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
شریعت اسلامیہ کے ہر حکم اور ہر عمل میں یہ تینوں امتیازات وخصوصیات پائی جاتی ہیں۔ موضوع کی مناسبت سے آئیے دیکھتے ہیں کہ شب قدر میںیہ تینوں خصوصیات کس طرح پائی جاتی ہیں۔ 
شب قدر کے مسائل
اس رات کوتلاش کرنا، رات بھر ذکرو اذکار میں مشغول رہنا،بتائے گئے امکانی اوقات : رمضان کے آخری عشرے کے طاق راتوں میں اسے ڈھونڈھنا؛ شب قدر کے مسائل کی باتیں ہیں۔ اس رات کے لیے کوئی مخصوص عمل نہیں ہے، اپنے ذوق وشوق کے پیش نظر ، نفلی نمازیں، تلاوت کلام پاک اور تسبیحات وغیرہ میں سے جو آپ پڑھنا چاہیں، وہ پڑھ سکتے ہیں۔
شب قدر کے فضائل
اس کی فضیلت کلام پاک کی آیتوں اور احادیث مبارکہ دونوں سے ثابت ہیں۔ کلام پاک میں ایک جگہ تیسویں پارہ میں مکمل ایک سورت :سورہ القدر موجود ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ رات ہزار مہینے سے بہتر ہے ۔ حضرت جبرئیل فرشتوں کی جماعت کے جلو میں دنیا میں تشریف لاتے ہیں ۔ اس رات کو فرشتے ہر امر خیر کو لے کر زمین پر آتے ہیں ۔ یہ رات سراپا سلامتی ہوتی ہے ، اس میں شیطان کوئی شرارت نہیں کرپاتا۔ اور پوری رات خیروسلامتی کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔ دوسری جگہ پچیسویں پارہ میں سورہ الدخان کی چوتھی آیت ہے۔اس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ طے کیا جاتا ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس رات سے اگلے سال کی اس رات تک جتنے بھی معاملات ہیں، ان تمام کا فیصلہ اسی رات کو کیا جاتا ہے ۔ کون مرے گا، کس کی موت نہیں آئے گی ، کس کی شادی ہوگی ، کس کے یہاں اولاد ہوگی ، کس کو کتنا رزق ملے گااور ان جیسے تمام تقدیرات کے فیصلے کی یہ رات ہوتی ہے۔ المختصرفضیلت میں قرآن کریم کا اترنا، فرشتوں کا نزول، حضرت جبرئیل کی آمد ، عبادت گذار کے لیے دعائے رحمت، پوری رات خیرو سلامتی کا برقرار رہنااورہر انسان کے پورے سال کی تمام چیزوں کا فیصلہ ہونا شامل ہیں۔
متعدد احادیث میں اس کی رات کی فضلیتیں بیان گئی ہیں۔ ایک روایت میں ہے:
من قام لیلۃ القدر ایمانا و احتسابا، غفرلہ ما تقدم من ذنبہ (بخاری، باب فضل من قام رمضان)
ترجمہ: جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ یعنی ثواب کا یقین کرتے ہوئے اور احتساب یعنی ریا وغیرہ کسی بد نیتی کے بغیر عبادت کرے گا، تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
ایک دوسری روایت میں آیا ہے: 
عن انسؓ قال دخل رمضان، فقال رسول اللہ ﷺ ان ھذا الشھر قد حضرکم و فیہ لیلۃ خیر من الف شھر ، من حرمھا ، فقد حرم الخیر کلہ، ولا یحرم خیرھا الا محروم (سنن ابن ماجہ، باب ماجاء فی فضل شھر رمضان)
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا ، تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ تمھارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے، جس میں ایک رات ہے ، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا سارے ہی خیر سے محروم رہ گیا۔ اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا ؛مگر وہ شخص جو حقیقۃ محروم ہی ہے۔
ان کے علاوہ بھی کئی ایک حدیثیں ہیں ، جن میں اس رات کی فضیلت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
شب قدر کے اسرار و وحکم
اس رات کے اسرار وحکم میں کئی باتیں شامل ہیں : ایک تو یہ کہ یہ رات دیگر راتوں سے الگ کیوں ہے۔ دوسری یہ کہ ایک ہی رات میں تراسی سال چارہ ماہ سے بھی زیادہ عبادت کا ثواب کیوں مل جاتا ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ شب قدر کی ضرورت کیا تھی؟۔ ان باتوں کی وضاحت کے لیے پہلے ہمیںیہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ کے مقررکردہ بارہ مہینے میں سے رمضان میں کچھ ایسی تبدیلیاں کردی جاتی ہیں ، جو غیر رمضان میں نہیں ہوتیں۔ وہ تبدیلیاں تین طرح کی ہوتی ہیں:
(۱) تکوینی نظام میں تبدیلیاں
رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتے ہی کائنات کے نظام کا جو سسٹم ہے، اس میں قدرت الٰہی تھوڑی بہت تبدیلی کردیتی ہے۔ پوری تبدیلی نہیں کرتی، مثلا عام دنوں کا تکوینی نظام یہ ہے کہ سورج مشرق سے نکل کرمغرب میں غروب ہوتا ہے ، تو رمضان میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جو جزوی تغیر ہوتا ہے ، وہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے ، جس کا اشارہ درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ :
اذا دخل شھر رمضان ، غلقت ابواب جھنم ، و فتحت ابواب الرحمۃ، و سلسلت الشیاطین (مسند عبد بن حمید، باب اذا دخل) 
ترجمہ: جب رمضان کا مہینہ آجاتا ہے تو جہنم کے دروازے بندکردیے جاتے ہیں۔ رحمت و جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف رمضان میں ہوتی ہے ۔ دوسرے مہینوں میں ایسا نہیں کیا جاتا؛لیکن لیلۃ القدر میں اس تکوینی نظام میں مزید تبدیلیاں کردی جاتی ہیں، جو کچھ درج ذیل ہیں:
(الف) یہ رات کھلی ہوئی اور چمک دار ہوتی ہے۔
(ب) نہ زیادہ گرم ہوتی ہے اور نہ زیادہ سرد ، معتدل رہتی ہے۔ 
(ج) اس رات صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے۔
(د) اس صبح کا آفتاب شعاع کی تیزی کے بغیر چودھویں چاند کی طرح نکلتا ہے۔
(ہ) عبدۃ ابن لبابہؓ کہتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو سمندر کا پانی چکھا تو وہ بالکل میٹھا تھا۔
(و) ایوب بن خالد کہتے ہیں کہ مجھے نہانے کی ضرورت ہوئی ۔ میں نے سمندر کے پانی سے غسل کیا تو وہ بالکل میٹھا تھا۔
(ز) آسمان تھوڑا بہت ابر آلود ہوتا ہے ۔ درخت وغیرہ جھکے جھکے سے نظر آتے ہیں گویا وہ بھی سجدہ زیری کی کوشش کر رہا ہو۔
(ک) حضرت جبرئیل فرشتوں کی ایک جماعت لے کر دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔ 
(ل) پوری رات عام راتوں کے بالمقابل شیاطین کی ضرر رسانی سے محفوظ و مامون رہتی ہے۔
(۲ ) اعمال کے ثواب میں کئی گنا کا اضافہ
رمضان میں تیسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ اعمال کا ثواب عام دنوں کے مقابلے کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے ۔ حدیث میں ارشاد ہے کہ:
کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر امثالھا الیٰ سبع ماءۃ ضعف، الا الصوم ، فانہ لی و انا اجزی بہ، یدعو شھوتہ و طعامہ من اجلی (مسلم ، باب فضل الصیام) 
انسان کے ہر عمل کا ثواب بڑھا دیاجاتا ہے۔ ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک کردیا جاتا ہے۔ (آگے حدیث قدسی ہے ۔ اللہ فرماتا ہے کہ )مگر روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ ددں گا، کیوں کہ اس نے کھانا پینا اور خواہشات کو میری خاطر چھوڑا۔ایک دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ رمضان کی عبادتوں کا اجر باقی گیارہ مہینے کی عبادتوں سے ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ملتا ہے۔ گویا ثواب ملنے کا نظام یہ ہے کہ بندہ ایک نیکی کرتا ہے ، تو اللہ اس پر دس گنا ثواب لکھتے ہیں ۔ اور دس ہی تک محدود نہیں رہتا ؛ بلکہ رمضان کی وجہ سے اس سے بڑھا کر ستر اور ستر سے بھی اضافہ کرکے سات سو گنا تک کردیا جاتا ہے۔لیکن روزہ کی جزا اس سے بھی زیادہ ہے۔ 
(۳) روز مرہ کی عبادات اور معمولات میں تبدیلیاں
عبادات میں تبدیلیاں
(الف) تراویح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔
(ب)نماز وتر جماعت سے ادا کی جاتی ہے۔
(ج) آخر عشرے کا اعتکاف کیا جاتا ہے۔
(د) تراویح میں پورا قرآن سننے اور سنانے کا بہت زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔
معمولات میں تبدیلیاں
(الف) دن میں کھانے، پینے اور جماع کرنے سے رکا جاتا ہے۔
(ب) بطور خاص رمضان میں فحش باتوں اور لایعنی چیزوں سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
(ج) افطاری کی جاتی ہے۔
(د) سحری کا کھانا کھایا جاتا ہے۔
فضائل کی باتوں کو پیش نظر رکھیں ، تو یہ بات خود بخود واضح ہوجائے گی کہ یہ رات دیگر راتوں سے الگ کیوں ہے ؛ کیوں کہ جس رات میں قرآن کریم کا نزول اجلال ہواہو، جس رات میں فرشتے جوق در جوق زمین پر اتریں ، جو رات سراپا خیرو سلامتی والی ہواور جس رات میں انسان کے تمام تقدیرات کے فیصلے کیے جائیں، اگر وہ رات ایک خاص رات ہوتی ہے ، تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ ایسا ہونا خود انسانی فطرت کے مقتضیات میں سے ہے ؛ کیوں کہ اس کی فطرت میں یہ چیز شامل ہے کہ جب اس کی زندگی کی کوئی تقریب ہوتی ہے تو وہ اس وقت کو خاص بنانے اور اس کو سلیبریٹ کرنے کے لیے عام دنوں سے کچھ الگ کرنا چاہتا ہے، تو بھلا بتائیے جس رات میں انسان کے ایک سال کی زندگی کا فیصلہ ہورہا ہو تو کیا اس رات کو دیگر راتوں سے بالکل الگ اور خاص نہیں ہوناچاہیے۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو اور راتوں سے ممتاز اور الگ رات بنائی ہے۔ اور جہاں تک یہ بات ہے کہ اس ایک رات کی عبادت سے تراسی سال چارہ ماہ سے بھی زیادہ عبادت کرنے کا ثواب کیوں مل جاتا ہے ۔ تواس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ رمضان اور شب قدر کی رات میں تکوینی نظام میں جو تبدیلیاں کی جاتی ہیں ، ان کا لازمی تقاضا ہے کہ ان لمحات میں کیے جانے اعمال کے اثرات اور نتیجے بھی الگ ہوں ؛ ورنہ تکوینات میں تبدیلی بے معنی ہوجائے گی ، اس لیے صرف اس ایک رات کی عبادتوں کا ثواب ہزار مہینے سے متجاوز ہوجاتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو یہ انعام اس لیے مرحمت فرمایا ؛ کیوں کہ یا تو (الف) سابقہ امتوں کی عمریں بہت لمبی ہوتی تھیں اور امت محمدیہ کی بہت تھوڑی ، اس لیے ان کے بدلے امت مسلمہ کو یہ فضیلت بھری رات عطا کی گئی۔یا پھر (ب)ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے بنی اسرائیل کے چار افراد : حضرت ایوب، حضرت زکریا، حضرت حزقیل اور حضرت یوشع کے اسی اسی سال تک عبادت کرنے اور پل جھپکنے کے برابر بھی نافرنانی نہ کرنے کا تذکرہ کیا ، تو صحابہ کوحیرت ہوئی ، اس پر اللہ نے یہ رات عنایت فرمائی۔یا پھر اس وجہ سے کہ (ج)بنی اسرائیل کا ایک شخص ایک ہزار مہینے تک اللہ کے راستے میں جہاد کرتا رہا ، اس تذکرہ سے صحابہ کو رشک آیا اور یہ رات عطا ہوئی۔المختصر سبب جو بھی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس بے نہایت انعام کی قدر کرنی چاہیے ۔ بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو اس رات کی عبادت نصیب ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شب قدر پالینے اور عبادت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ، آمین۔

روزے کا احترام

محمد یاسین جہازی 
بتاریخ: ۱۲؍ رمضان المبارک ۱۴۳۵ھ مطابق ۱۱؍ جولائی ۲۰۱۴ء
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ : من لم یدع قول الزور والعمل بہ ، فلیس للہ حاجۃ ان یدع طعامہ و شرابہ (بخاری، باب من لم یدع قول الزور)
و عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال : الصیام جنۃ ، فاذا کان احدکم صائما، فلا یرفث ولا یجھل فان امرء قاتلہ او شاتمہ، فلیقل : انی صائم، انی صائم (موطا امام مالک، باب جامع الصیام)
سامعین کرام! جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ ماہ رمضان میں غیر رمضان کی بنسبت تین طرح کی تبدیلیاں کی جاتی ہیں: (۱) تکوینی نظام میں تبدیلی۔ (۲) اعمال کے ثواب میں اضافہ۔ (۳) روزہ مرہ کے معمولات اور عبادات میں تبدیلیاں۔ پہلی دونوں باتوں کے حوالے سے گذشتہ جمعہ میں بات ہوچکی ہے۔ آئیے آج تیسری تبدیلی کے تعلق سے گفتگو کرتے ہیں۔ 
محترم حضرات! عام دنوں کے مقابلے میں رمضان کے روز مرہ کی عبادات میں بھی تغیر وتبدل ہوتا ہے اور معمولات میں بھی فرق آتا ہے۔ اسی طرح عام دنوں کے مقابلے میں ماہ رمضان میں افعال و اقوال کے تعلق سے بھی ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ عبادات میں تبدیلیاں یہ ہوتی ہیں:کہ(الف) تراویح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔(ب)نماز وتر جماعت سے ادا کی جاتی ہے۔(ج) آخر عشرے کا اعتکاف کیا جاتا ہے۔(د) تراویح میں پورا قرآن سننے اور سنانے کا بہت زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔اور معمولات میں تبدیلیاںیہ ہوتی ہیں کہ(الف) دن میں کھانے، پینے اور جماع کرنے سے رکا جاتا ہے۔(ب) افطاری کی جاتی ہے۔(ج) سحری کا کھانا کھایا جاتا ہے۔(د) سونے جاگنے کا شیڈول بھی بدل جاتا ہے۔یہ وہ باتیں ہیں ، جو ہمارے لیے ایک گونہ غیر اختیاری ہیں ، یعنی ہم چاہیں یا نہ چاہیں ، ان تبدیلیوں سے ہم کو گزرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر دن میں کھانے پینے سے روکنا ضروری ہے، اس کے بغیر ہمارا روزہ ہی صحیح نہیں ہوگا؛ لہذا یہ ہمارے لیے غیر اختیاری ہے ؛ لیکن اگر آپ افطاری نہ کریں اورسحری نہ کھائیں ، تو بھی آپ کا روزہ ہوجائے گا ، آپ کے لیے یہ دونوں کام واجب نہیں ہیں ؛ لیکن پورا مہینہ آپ سحری نہ کھائیں اور افطاری نہ کریں، ایسا کرنا دشوار ہوگا؛ لہذایہ افعال ہمارے لیے ایک حد تک غیر اختیاری ہیں۔ 
عبادات و معمولات کے علاوہ دو اور چیزیں ہیں، جو سراسر اختیاری ہیں ، جن کا کرنا نہ کرنا مکمل ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ اور روزہ کی تکمیل اور اس میں کمال پیدا کرنے کے لیے ان سے بچنا نہایت ضروری ہیں۔ اگر ان سے نہیں بچتے ، تو مسئلے کی رو سے اور شکل کے اعتبارسے آپ کا روزہ تو ہوجائے گا ، لیکن صحیح معنی میں ثواب و نتیجہ مرتب ہونے کے اعتبار سے وہ روزہ نہیں ہوگا۔ ان میں سے پہلی چیز ہے کہ: روزوں کو شہوانی، شیطانی اور درندگی والے اقوال و افعال سے پاک رکھا جائے؛ کیوں کہ یہ چیزیں نفس انسانی کو اخلاق رذیلہ پر ابھارتی ہیں اور اسے بہیمیت کی طرف لے جاتی ہیں ، یہ روزوں کے بنیادی مقصد کے خلاف ہے ، کیوں کہ روزہ کا بنیادی مقصد تقویٰ و پرہیز گاری پیدا کرنا اور نفس کے اندر موجود قوت شہویہ کو زیر کرنا ہے اور یہ چیزیں قوت شہویہ کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : من لم یدع قول الزور والعمل بہ ، فلیس للہ حاجۃ ان یدع طعامہ و شرابہ کہ جو شخص جھوٹ بولنااور جھوٹی باتوں پر عمل کرنا نہ چھوڑے ، تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی قدر نہیں ہے۔ یاد رکھیے ایک طرف حدیث قدسی ہے کہ روزہ میرے لیے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا کہ ، کیوں کہ اس نے کھاناپینا اور خواہشات کو میری خاطر چھوڑا اور دوسری طرف یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اس کی بھوک اور پیاس سے کوئی سروکار نہیں، معلوم ہوا کہ روزہ میں لایعنی باتوں سے بچنا، جھوٹ، غیبت، چغل خوری ، لڑائی جھگڑااور ہر برے اعمال سے بچنا ضروری ہے ، ورنہ پھر روزہ کا کوئی فائدہ ہی حاصل نہیں ہوگا۔
اور اگر ایسا ہوتا ہے کہ آپ ان برائیوں سے بچنا چاہتے ہیں ، لیکن آپ کا ساتھی ان باتوں پر مجبور کرتا ہے ، تو ایسے وقت میں نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کو سینے سے لگالیجیے کہ الصیام جنۃ ، فاذا کان احدکم صائما، فلا یرفث ولا یجھل فان امرء قاتلہ او شاتمہ، فلیقل : انی صائم، انی صائم 
روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کوئی روزہ سے ہو، تو بے حیائی کی باتیں نہ کرے اور نہ ہی جہالت کی باتیں کرے ۔ اگر کوئی شخصے لڑے یا گالی دے ، تو ایسا نہ کرے کہ جواب میں لڑنے اور گالی دینے لگے ؛ بلکہ اس کے بجائے یہ کہہ دے کہ دیکھو بھائی ، میرا روزہ ہے ، میں روزے سے ہوں۔ 
دوسری چیز ہے :ایسی چیزوں سے بھی بچنا ضروری ہے ، جو روزہ توڑنے کی دعوت دیتی ہے، چنانچہ بلا ضرورت کسی چیز کو چبانا، منہ میں تھوک جمع کرکے نگلنا، ٹوتھ پیسٹ اور منجن وغیرہ سے دانت صاف کرنا، تمام دن حالت جنابت میں گذاردینا، بیوی سے دل لگی کی باتیں کرنا، جس سے جماع یا انزال کا خوف ہو، عورت کا ہونٹوں پر اس طرح سرخی لگانا کہ پیٹ میں جانے کا اندیشہ ہواور اس طرح کے تمام کام مکروہ ہیں۔ ان سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ ارشاد نبوی ہے : افطر الحاجم والمحجوم (بخاری، باب الحجامۃ والقئی للصائم) پچھنا لگانے والے اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا، یعنی ٹوٹنے کے قریب ہوگیا ، کیوں کہ ممکن ہے کہ خون چوستے وقت پیٹ میں چلایائے یا خون نکلنے کی وجہ سے کمزوری لاحق ہوجائے اور روزہ توڑنے کی نوبت آجائے۔ روزے کو اس کے تقاضے کے ساتھ پورا کرنے کے لیے ان باتوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔

5 Apr 2018

ملی تشخصات و امتیازات کے تحفظ کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے اقدامات

ملی تشخصات و امتیازات کے تحفظ کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے اقدامات

#محمد یاسین جہازی


جب ملک آزادہوا اور تقسیم ہوکر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ’پاکستان‘ چلی گئی،اورہندستان کے لیے کثیر لسانی وکثیر مذہبی ملک ہونے کے پیش نظر ڈیموکریسی نظام حکومت کو بطور آئین تسلیم کیا گیا اور سیکولرزم ، یعنی مذہبی غیر جانب داری کو اس نظام حکومت کی بنیاد قرار دیا گیا ، تو اس وقت کے رہ نمایانِ ملت اسلامیہ ہند کے سامنے دو مسئلے چیلنج بن کر سامنے آئے:
(الف) ایک یہ کہ مسلمان اس ملک میں کس طرح کا کردار پیش کرے کہ جس سے وہ بیک وقت مسلمان بھی رہے اور ایک سچا پکا ہندستانی بھی کہلائے۔ (ب)اور دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ملک کے فرقہ وارانہ ماحول میں، ایک مسلمان اسلامی تہذیب و ثقافت، دینی تعلیم و ہدایات اور ملی تشخصات و امتیازات کو کس طرح محفوظ رکھے۔ 
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے ، تو اس حوالے سے مسلم مجاہدین آزادی کی سرگرمیاں، قربانیاں اوراکابرین ملت اسلامیہ کی ذاتی زندگیاں رہ نمائی کے لیے کافی ہیں۔ان نفوس قدسی صفات نے جنگ آزادی میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، وہ مسلمانوں کو پکا ہندستانی ثابت کرنے کے لیے سب سے بڑی دلیل ہے۔علاوہ ازیں جمعیۃ علماء ہند کی مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم کی مخالفت اور متحدہ قومیت کی پالیسی ہندستانی مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار ہے۔
اور جہاں تک دوسرے مسئلے کی بات ہے ، تو اس حوالے سے رہبران ملت اسلامیہ ہند اور بالخصوص اکابر جمعیۃ علماء ہندکی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ چنانچہ جمعیۃ علماء ہند نے روز اول ہی سے مسلمانوں کی قومی اور ملی امتیازات و تشخصات کی حفاظت کا کام انجام دیا ہے۔اور آزادی کے سال۱۹۴۷ ء میں ۲۷،۲۸؍ دسمبر کولکھنو میں منعقد آزاد کانفرنس کے ذریعے پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کرتے ہوئے باضابطہ اپنے دائرۂ عمل کو مذہبی اور تمدنی حقوق و فرائض تک محدود کر لینے کا فیصلہ کیا۔ یوں تو جمعیۃ علماء ہند کی خدمات ہمہ جہت ہیں، لیکن موضوع گفتگو کی مناسبت سے صرف اس کی ملی تشخصات اور مذہبی روایات و افکارکی خدمات کا جائزہ لیں ، توان کا نقشہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ ۱۹۲۳ء میں ہندو مسلمانوں کے مثالی اتحاد کو توڑنے اور آزادی کے جذبے کو ختم کرنے کے لیے جب انگریزوں نے شدھی سنگٹھن کی تحریکیں شروع کرائیں، توان سے جہاں ارتدادی فتنوں نے جنم لیا، وہیں پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔جمعیۃ نے ان کی روک تھام کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ فتنۂ ارتداد کو روکنے کے لیے ’’شعبۂ تبلیغ و دعوت ‘‘ کے نام سے ایک مستقل شعبہ کا قیام عمل میں آیا۔اورقادیانی فتنے کے مقابلے کے لیے ’’انسداد فتنۂ قادیانی کمیٹی‘‘ کی تشکیل کی۔۱۹۲۴ء میں حکومت برطانیہ کی طرف سے بار بار توہین و انہدام مساجد کے خلاف سخت جدوجہدکی۔۱۹۲۶ء میں اصلاح معاشرہ ،تبلیغ دین اور انگریزی میں قرآن کریم کی تفسیر کی اشاعت کے فرائض انجام دیے۔ ۱۹۲۹ء میں کمسنی کی شادی کو قانونا جرم قراردینے والا قانون :’’ شاردا ایکٹ‘‘ کی مسلم پر سنل لاء میں مداخلت کی وجہ سے مخالفت کی۔۱۹۳۲ء میں سول میرج ایکٹ( مسلم و غیر مسلم کی باہمی شادی) قانون پر تنقید اور اس کو واپس لینے کے لیے ملک گیر احتجاج کیا۔۱۹۳۶ء میں مسودہ قانون فسخ نکاح کو تیار کرایا اور اسے اسمبلی میں پاس کرانے کے لیے جدوجہدکی۔۱۹۳۷ء میں صوبہ سرحد کی اسمبلی میں شریعت بل کا مسودہ پاس کرانے کی کوشش میں کامیابی حاصل کی ۔۱۹۳۹ء میں لکھنو میں شیعوں کی طرف سے تبرا ایجی ٹیشن کی پرزور مذمت اور مدح صحابہ کو مسلمانوں کا مذہبی حق قرار دیتے ہوئے اس میں حکومت سے مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔۱۹۴۴ء میں فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حکومت سے انتظامات کرنے کی اپیل کی۔۱۹۴۵ء میں آں حضور ﷺ اور حضرت جبرئیل امین ؑ کی فرضی تصویریں شائع کرنے والی کرنل پی ایم سائیکس کی کتاب ’’اے ہسٹری آف پرشیا‘‘ سے ان تصویروں کو خارج کرنے کے لیے احتجاج کیا۔۱۹۴۶ ء میں آزادیِ ملک، آزادیِ مذہب، کلچر، زبان، رسم الخط،مذہبی تعلیم و تبلیغ، مذہبی عقائد واعمال، عبادت گاہیں اور اوقاف سے جیسے مسلم پرسنل لاء بطور فنڈا منٹل رائٹس(مذہبی آزادی) منظور کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا۔۱۹۴۸ء میں پرائمری اسکولوں کے لیے چار نکاتی پروگرام پیش کیے: (۱)مسلمان مذہبی تعلیم کے ساتھ سرکاری اسکولوں کے نصاب پر مشتمل ابتدائی مدارس قائم کریں اور حکومت ان مدارس کی تعلیم کو مستند قرار دے اور امداد کرے۔ (۲)حکومت ابتدائی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم لازمی قراردے۔ (۳) پرائمری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو خارجی اوقات میں مذہبی تعلیم دینے کے لیے پرائیوٹ مکاتب کا قیام۔ (۴)لڑکوں کے لیے لازمی تعلیم کی ابتدائی عمر آٹھ سال قراردے تاکہ اس عمر کے بچوں کو مذہبی تعلیم دی جاسکے۔ ۱۹۵۰ء میں بابری مسجد کے مسئلے پر اظہار تشویش اور فرقہ وارانہ رویے پر یوپی حکومت کی مذمت کی۔ بعض اسکولوں ، کالجوں اور سرکاری اداروں میں جمعہ کے دن چھٹی کی سابقہ روایت کو ختم کرنے پر احتجاج کیا۔ غیر مسلموں کے قبضے سے مساجد کی وا گذاری ، مسلمانوں کے نقصانات کی تلافی اور کسٹوڈین سے متعلق مسائل کو حل کرانے کی جدوجہد کی ۔ ۱۹۵۵ء میں ممبئی میں بتاریخ ۸، ۹؍ جنوری کل ہند دینی تعلیمی کنونشن کا انعقادکیااور پورے ملک میں مکاتب و مدارس قائم کرنے کے لیے مرکزی دینی تعلیمی بورڈ کی تشکیل کی۔۱۹۶۰ء میں مسلمانوں سے تعلیم کی طرف توجہ دینے اور مدارس و مکاتب قائم کرنے کی تحریک شروع کی۔اور مسلمانوں سے اپنے اپنے علاقوں میں شرعی پنچایت قائم کرنے کی مخلصانہ اپیل کی۔ ۱۹۶۶ء میں تعلیمات اسلام، سیرت رسول ﷺ اور قرآن مجید کے ترجمے ومضامین ہندی میں شائع کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔۱۹۷۰ء میں ہندستانی مسلمانوں کے دینی مسائل کی رہ نمائی کے لیے ادارۃ المباحث الفقہیہ قائم کیا۔۱۹۷۱ء میں پورے ملک سے منتخب علمائے کرام کا اجتماع کیا اور رویت ہلال کمیٹی کی تشکیل کی اور اس کا ضابطۂ عمل تیار کیا۔۱۹۷۲ء میں متبنیٰ بل سے مسلمانوں کو مستثنیٰ کرنے کا مطالبہ کیا۔۱۹۷۵ء میں حضور ﷺ کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم کے خلاف سخت احتجاج کیا۔۱۹۷۸ ء میں شادی لازمی رجسٹریشن بل کی شدید مخالفت کی۔ اور مساجدو مقابر کے ایکوائر سے متعلق الٰہ باد ہائی کورٹ کے فیصلے میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔۱۹۸۴ء میں مسلم پر سنل لاء کے تعلق سے کورٹ فیس ایکٹ میں دعویٰ مہر کے لیے کورٹ فیس کو ختم کرنے، قانون خاتمہ زمین داری اتر پردیش کی دفعات : ۱۲۹ ؍ اور ۱۷۵؍ میں وراثت، وصیت، ہبہ وغیرہ حقوق شرعی کو مستثنیٰ کرنے ، نکاح کے لیے رجسٹریشن کو لازم قرار نہ دینے ، بنارس کی قبور کی منتقلی کو روکنے، ضابطہ دیوانی کی دفعہ ۱۲۵؍ اور ۱۲۷؍ میں مہر و عدت کے نان و نفقہ کی ادائیگی کے بعد تا نکاح ثانی پہلے شوہر پر نان و نفقہ کو لازم نہ ٹھہرانے اور یکساں سول کوڈ کا دفعہ ۴۴؍ کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا۔۱۹۹۷ء میں عیسائی مشنریز کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے موثر اقدامات کیے ۔اوروندے ماترم گانے اور بھارت ماتا کی تصویر پر پھول چڑھانے کی پرزور مذمت کی۔۱۹۹۸ء میں دینی مدارس و مساجد کے خلاف افسران اور اخبارات کی شر انگیز مہم پر تشویش کا اظہارکیا۔۲۰۰۰ء میں یوپی حکومت کے عبادت گاہ بل کے خلاف بڑے پیمانے پر پروگرام کا انعقاد کیا ۔۲۰۰۳ء میں دینی مدارس و مساجد میں سرکاری مداخلت کی راہ ہموار کرنے والے بل کی شدید مخالفت کی۔۲۰۰۹ء میں سرکاری ملازموں کی جبری داڑھی کٹوانے کے مسئلے پر قانونی کاروائی کی۔۲۰۱۳ء میں ملک کے مختلف حصوں میں تبلیغی جماعت پر شرپسندوں کے حملوں کی شدید مذمت کی۔سوشل نیٹ ورک : گوگل کے یوٹیوب سے اہانت آمیز مواد ہٹانے کے لیے کیس کیا، وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب بھی جس طرح کا موقع آیا، جمعیۃ علماء ہند نے ملت اسلامیہ کی حفاظت اور اس کی شناخت و امتیازات کو باقی رکھنے کی ہر ممکن جدوجہد کی ہے اور آئندہ بھی اپنے اسلاف کے لائحۂ عمل پر عمل کرتے ہوئے برابر جدوجہد کرتی رہے گی۔ جمعیۃ کی یہی وہ خصوصیات و امتیازات ہیں ، جن کی بنا پر ہر ایک حقیقت پسند مورخ کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارۂ کار نہیں کہ آج ہندستان میں جتنی بھی اور جس نوعیت سے بھی اسلامی رنگارنگی، تہذیب و روایات اوراقدارو افکار کی جھلکیاں پائی جاتی ہیں، ان تمام میں اکابر جمعیۃ علماء ہند کے بے انتہا خلوص، بے لوث جذبۂ خدمت اسلامی اور بے پناہ ایمانی غیرت وحمیت کا عنصر ضرور شامل ہے۔

مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی

مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی
#محمدیاسین جہازی


شاعر مشرق علامہ اقبال نے ایک میر کارواں کے لیے ضروری اوصاف بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ؂
نگہ بلند ،سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی رخت سفر میر کارواں کے لیے
جنگ آزادی میں فعال کردارادا کرنے والی ،متحدہ قومیت کا نظریہ پیش کرنے والی،تقسیم ہند کی مخالف اور اسلامیان ہند کی سب سے بڑی نمائندہ اور فعال تنظیم’’ جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے موجودہ قائم مقام ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی اس شعر کے مجسم نمونے ہیں۔ مولانا قاسمی جہاں دور رس نگاہ کے حامل ہیں، وہیں دل نواز گفتگو اورپُرسوز جاں کے صفات بھی بدرجۂ اتم ان کے اند ر موجود ہیں۔
صوبہ اترپردیش کے ضلع پرتاپ گڑھ میں کھرگ پور ایک گاوں ہے۔ آپ اسی گاوں میں جناب حاجی ذاکر (مرحوم) کے گھر پیدا ہوئے ۔ تاریخ پیدائش ۱۹۶۷ء ہے۔نام حکیم الدین تجویز کیا گیا۔ نشوونما گھریلو روایات کے مطابق انجام پاتی رہی۔ کھیلنے کودنے کی عمر میں ہی گاوں کے مکتب میں بسم اللہ کرائی گئی ۔حفظِ قرآن اور ابتدائی عربی فارسی کی تعلیم کے لیے گاوں سے باہر قدم رکھا اور مدرسہ نورالعلوم ہرہرپور پرتاپ گڑھ میں داخلہ لیا۔پھر جب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا مرحلہ آیا تو ایشیا کی سب سے بڑی دینی یونی ورسٹی دارلعلوم دیوبند کا رخ کیااور ۱۹۸۹ء میں سند فضیلت لے کر ہی نکلے۔ دارالعلوم کے جن اساتذہ سے آپ نے فیض حاصل کیا، ان میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی، حضرت علامہ محمد حسین بہاری، حضرت مولانا محمود حسن ، حضرت مولانا نصیر احمد خان، حضرت مولانا عبدالحق ، حضرت مولانا نعمت اللہ ، حضرت مولانا قمر الدین ، مفتی سعید پالن پوری، مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری اور مولانا عبدالخالق مدراسی کے نام قابل ذکر ہیں۔
زمان�ۂ طالب علمی ہی سے امیر الہند ،فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ سے اصلاحی تعلق قائم ہوگیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سالانہ رخصت کی مناسبت سے اکثر طلبہ جہاں اپنے گھروں کو لوٹ جایا کرتے ہیں، وہاں مولانا ہر سال پورے رمضان میں دارالعلوم دیوبند کی جامع رشید میں حضرت فدائے ملت ؒ کے واردین و صادرین کی خدمت اور میزبانی کے لیے خود کو وقف کردیتے تھے اور اس میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتے تھے۔ حضرت سے اس تعلق و خدمت نے آپ کو کندن بنادیا تھا ، یہی وجہ تھی کہ جب مدرسہ و خانقاہ کی چہاردیوار ی سے نکل کر میدان میں انسانیت کی خدمت کا موقع آیا ، تو فدائے ملت ؒ کی نگاہِ دوربیں نے آپ ہی کو موزوں پایا ۔ چنانچہ جب ۱۹۸۹ء کے اکتوبر میں بھاگل پور بہار میں بھیانک فرقہ وارانہ فساد کا شعلہ بھڑکا،تو اس موقع پر ریلیف اور باز آباد کاری کے لیے آپ کو ہی منتخب کیا گیا۔ مولانا موصوف نے آگ و خون کے اس ماحول میں اپنی جان کی پراہ کیے بغیر مسلسل چار ماہ تک انسانیت کی جو خدمت کی، وہ ایک تاریخ بن گئی، حالاں کہ یہ آپ کے عملی زندگی کے آغاز کا سال تھا ۔ 
ان خدمات کو سراہتے ہوئے ۱۰؍ جون ۱۹۹۰ء کو بحیثیت آرگنائزر جمعیۃ علماء ہند میں آپ کی تقرری عمل میں آئی اور آپ باضابطہ جمعیۃ کے فرد بن گئے۔فدائے ملت ؒ سے قلبی تعلق تو پہلے ہی سے تھا، لیکن جمعیۃ میں آجانے کے بعد یہ رشتہ اور مضبوط ہوگیا اور اس کی شکل یہ ہوئی کہ فدائے ملت ؒ نے اپنے سفر و حضر کا ساتھی بنالیا، چنانچہ حضرت جہاں بھی رہتے،کہیں بھی تشریف لے جاتے، مولانا موصوف سایہ کی طرح ہم رکاب رہتے۔اور یہ سلسلہ کوئی ایک دو سال نہیں ؛بلکہ متواتر سترہ سال تک جاری رہا۔ 
جمعیۃ علماء ہند کے ایک خادم ہونے کی حیثیت سے جس میدان میں آپ کی شناخت قائم ہوئی ، وہ انسانی خدمات کا بے پناہ جذبہ اورذات و مذہب کے امتیاز سے اوپر اٹھ کر مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی ہے، چنانچہ پورے ملک میں جہاں کہیں بھی فسادات کے شعلے بھڑکتے ہیں، لوگ سماوی آفات سے متاثر ہوتے ہیں، تو آپ بے چین ہواٹھتے ہیں، ان کی تکلیف اپنی تکلیف بنالیتے ہیں اور جب تک حالات کا جائزہ اور ان کی ریلیف و باز آباد کاری کے کام انجام نہیں دے لیتے ، آپ چین سے نہیں بیٹھتے ۔ اگر ۱۹۹۰ ء سے لے کر ۲۰۱۵ء تک اور اس سال کی شروعات سے لے کر تا دم تحریرجمعیۃ علماء ہند کی خدمات کا جائزہ لیا جائے، تو کوئی بھی موقع ایسا نہیں ملے گا ، جہاں آپ کا نام اور آپ کا واضح کردار شامل نہ ہو۔
۲۶؍ جنوری ۲۰۰۱ء میں کچھ کے بھانک زلزلے اور ۲۰۰۲ ء کے گجرات فساد اور مسلمانوں کی منظم نسل کشی کے موقع پر جب آپ گجرات پہنچے، تو وہاں اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر سینکڑوں لوگوں کو موت کے منھ سے باہر نکالا، بے شمار خانما برباد لوگوں اور موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا انسانوں کو ایک نئی زندگی عطا کی۔ مصیبت زدگان کو دلاسہ دیا اور ان کے مرجھائے چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرنے کی جاں توڑ محنت کی۔یہی نہیں کہ ان کے چند وقت کھانے پینے اور رہنے سہنے کا انتظام کرادیا ، بلکہ ان کے اور ان کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ،تعلیمی و اقتصادی بدحالی کو دور کرنے کے لیے مستقل سامان بہم پہنچا دیا ۔ پی ۔ ٹی۔ سی کالج، شاہ حاجی پیر زکریا کالج، جمعیۃ چلڈرن ولیج، آئی ۔ ٹی۔ آئی سینٹرس اور دیگر ادارے قائم کرکے جو خدمات انجام دی ہیں اور تا ہنوز دے رہے ہیں ، وہ ناقابل فراموش ہیں۔
مولانا کے ان بلند حوصلے کا یہ صلہ تھا کہ ۲۰۰۳ء میں جمعیۃ علماء ہند کے ناظم بنائے گئے۔ ۲۰۰۵ء میں قائم مقام ناظم عمومی کا عہدہ تفویض کیاگیا۔۲۰۰۸ء کے قضیہ نامرضیہ کے موقع پر ۔جب کہ جمعیۃ ایک بحرانی دور سے گذر رہی تھی ، ایسی سخت اور آزمائش کی گھڑی میں۔ آپ کو باضابطہ طور پر ناظم عمومی کے جلیل القدر عہدے سے سرفراز کیاگیا۔سردست مولانا موصوف قائم مقام جنرل سکریڑی کے عہدے پر فائز ہیں۔
نرم گفتاری، خاکساری، فروتنی، سبھی سے خندہ پیشانی سے ملنااور چھوٹے بڑے ہر ایک کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آنامولانا قاسمی کا جہاں طرۂ امتیاز ہے، وہیں آپ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے کبھی کسی عہدے کی خواہش نہیں کی،اور نہ ہی کبھی خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کی؛ بلکہ آپ کی جمعیۃ سے وابستگی قوم و ملت کی خدمت اور مدنی خاندان سے الفت و محبت اور عقیدت کی بنیاد پر تھی۔ مہمان نوازی اور مہمانوں کا اعزاز و اکرام بھی آپ کا ایک نمایاں وصف ہے۔ضلع پرتاپ گڑھ میں جمعیۃ علماء یوپی کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں مہمانوں کی تعظیم و توقیر کی خاظر آپ نے اپنی پوری تنخواہ پیش کردی تھی۔ ملک کے طول و عرض میں ہونے والے بڑے بڑے اجلاس کے انتظام اور ان کو کامیاب بنانے کا مسئلہ ہو یا قدرتی و سماوی آفات سے متاثرین کی باز آباد کاری درپیش ہو، ہرجگہ آپ ایک نمایاں رول میں نظر آتے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں خواہ وہ مظفر نگر کا فسا دہو، یا آسام کا تشدد یا پھر کشمیر، گجرات، مغربی بنگال اور منی پورمیں سیلاب متاثرین کی راحت رسانی ہر جگہ آپ کا چہرہ نظر آتا ہے۔ 
آج جب کہ مولانا قائم مقام ناظم عمومی کے عہدے پر فائز ہیں، امیر الہند رابع جناب حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند اور قائد ملت جناب حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی جنرل سکریڑی جمعیۃ علماء ہند کی ہدایت میں بحسن و خوبی اپنے فرائض کو انجام دے رہے ہیں ۔ مولائے کریم سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا موصوف کو مزید ترقیات سے نوازے اور ان کی زندگی امت مسلمہ کے لیے حیات بخش بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔

اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑجائیں گی

دارالعلوم دیوبند سے جدائی پر مبنی زمانہ طالب علمی کی ایک تحریر


آج قلم کی روح بے چین ہے، کاغذ کا دل ماتم کناں ہے، خامہ فرسا نمدیدہ ہے ، اس کا چہرہ رنجیدہ، جبیں افسردہ، سر شوریدہ، دل گرفتہ، جاں سوختہ، سوچ و خیال کا سراپا اور غم و اندوہ کا مجسم بنا ہوا ہے، اس کے آئینہ فکرو خیال میں ماضی کی یادوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ؛ لیکن کیوں؟ ؂
دلِ ناداں ! تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
قلم کی روح کیا اس لیے بے چین ہے کہ وہ افسانۂ ہجرو فراق کی خامہ فرسائی کررہا ہے ؟ دلِ قرطاس کیا اس لیے ماتم آسا ہے کہ حکایت بر ق خرمن کی منظر آرائی سے کرب و کسک محسوس ہورہی ہےَ ۔۔۔ ہاں! وقت نے گیت ہی ایسا گایا ہے کہ قلم اشک افشانی اور قرطاس احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے لمحات کی کسک بیان کرنے پر مجبور و بے بس ہے۔
ہم طالبان علوم نبویہ کی یہ فطری تمنا ہوتی ہے کہ ہمارے سفر علم کی آخری منزل ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ ہو؛ بلکہ شروع ہی سے گلشن قاسمیہ میں بلبل بن کر چہکتے رہیں۔ ؂
چوں طالباں شنیدند از ہر طرف دویدند
باغ و بہار ایں جا، ایں گلشن دوامی
چنانچہ ہم اپنی فطری تمنا کی تکمیل کے لیے عازم دیوبند ہوجاتے ہیں اور شوال میں ’’امتحان داخلہ‘‘ دے کر اپنی تقدیر کے فیصلے کا انتظار کرتے ہیں ، وقت اس عدالت کا منصف اعظم ہوتا ہے ، جو بالکل صحیح فیصلہ کرتا ہے ۔ اگر ہم زندگی کے سابقہ لمحات کی قدر کیے ہوئے ہوتے ہیں ، تو منصف اعظم کا فیصلہ ہوتا ہے کہ تمھاری آرزو پوری ہوگی۔ اور افر سابقہ زندگی کے اوقات کو یوں ہی لاابالی پن اور لایعنی کاموں میں ضائع کیے ہوئے ہوتے ہیں ، تو تقدیر کا شکوہ کرتے ہوئے خائب و خاسر لوٹ جاتے ہیں۔ جب ہماری آرزو پوری ہوجاتی ہے ، تو ہماری خوشیوں کی کوئی انتہا نہیں رہتی اور ہم مسرتوں سے پھولے نہیں سماتے ۔ اس جشن مسرت میں ہم مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور پھر عزم مصمم کرتے ہیں کہ دیگر مدرسوں کی زندگی کو جیسے گزار دیا ، گزار دیا؛ لیکن اب دارالعلوم کی زندگی صرف جدوجہد اور سعی پیہم میں گزاریں گے۔ پھر سب اس وعدے کی تکمیل میں مصروف طلب ہوجاتے ہیں ۔ یہاں تک ہم تمام کی دارالعلوم کی ابتدائی زندگی کی کیفیت یہی ہوتی ہے اور ایسی ہی رہتی ہے ۔
لیکن اس موڑ سے آگے صرف میری زندگی تمام ہی طلبا سے الگ راہ اختیار کرلیتی ہے ، ہر ایک کو وسعت طلب کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور ناچیز ادنیٰ طلب سے بھی ناآشنا۔ وہ علم و حکمت کے خزانے لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں ؛ لیکن بندہ ناتواں علم و حکمت کے حصولِ ذرہ سے بھی لاپرواہ۔ وہ شب و روز درس و تدریس کی ہر گھڑی کی قدر کرتے ہیں؛ مگر خاکسار ضیاع اوقات کے احساس سے بھی بے حس۔ وہ میدان علم و معرفت میں سبقت کے لیے کوشاں رہتے ہیں ؛ پر احقر ذوق طلب سے بھی انجان۔ وہ اپنی زندگی سنت و شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ؛ پر ہیچ مداں فکر آراستگی سے ہی بے خبر۔وہ کامیابی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں اور نیاز مند بربادی کی راہ پر رواں دواں۔ چنانچہ چھ سالے کا لمبا عرصہ گزرگیا اور ناچیز بربادی، بے فکری اور بے ذوقی کی راہ پر سرپٹ دوڑتا رہا ۔ اتنے لمبے عرصے میں کبھی بھی فکر طلب و عمل پیدا نہیں ہوئی ۔ دورۂ حدیث میں قدم رکھا، پھر بھی ذوق طلب نہیں پھڑکا اور جب کہ یہ آخری سال بھی اختتام پذیر ہے ، پھر بھی احساس طلب نہیں۔ بس جو کچھ احساس ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ ساحل سمندر پر بھی تشنہ کا تشنہ ہی رہا۔ اب یہاں سے جانا پڑے گا۔ اس چہار دیواری سے باہر قدم رکھنا پڑے گا، جو یہاں کے حالات و ماحول سے یکسر مختلف اور جدا ہے۔
ایک دن کی کہانی ہے کہ احقر اسی خیال ہجرو فراق میں پریشان تھا ، تصورات جدائی سے نڈھال ہوکر سونے کے لیے دارالحدیث کی چھت پر اور گنبد بیضا کے جنوبی حصہ میں بستر ڈال کر لیٹ گیا، چاند رات تھی، تاروں بھرا آسمان تھا، باد سرسرنرم خرام انداز میں چل رہی تھی، بادلوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری تھا، موسم انتہائی پرکیف اور فضا بے حد خوشگوار تھی ، چاند اور بادل آنکھ مچولی کر رہے تھے، شبنمی قطروں کی دھیمی دھیمی پھواریں دل و دماغ کو معطر کر رہی تھیں، چاند کی کرنیں گنبد بیضا کی رونق میں اضافہ کر رہی تھیں، تصورات کا یہی سلسلہ جاری تھا کہ مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تمام مناظر رفتہ رفتہ نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ چند ہی لمحے بعد آنکھ کھل گئی اور پھر تصورات کا سیلاب امنڈ پڑا اور دل پر عجیب سا احساس ہونے لگا کہ جس طرح رفتہ رفتہ ابھی میری آنکھوں سے یہ گنبد بیضا اوجھل ہوگیا، اسی طرح کسی دن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ گنبد بیضا ہماری نظروں سے اوجھل ہوجائے گا اور ہم دیدار کو ترس جائیں گے۔ 
قصہ مختصر وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ ’’بخاری شریف‘‘ مکمل کرادی گئی ۔ شیخ زمن نصیحت فرماچکے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے ، دعائے سری کا دور تھا ۔ ہر طرف سراسیمگی اور سناٹا چھایا ہوا تھا ، دل کی دھڑکنیں تیز سے تیز تر ہوتی گئیں، قبل از وقت جدائی کی کسک محسوس ہورہی تھی۔ ہم دعا کر رہے تھے ، پر ہماری نظریں شیخ صاحب کی طرف تھیں، خموشی کا یہی عالم تھا کہ شیخ صاحب درد بھری آواز اور ماتم سرا لہجہ میں بول اٹھے کہ ’’ یا اللہ! آپ نے ہمیں یہ امانت سپرد کی تھی، لیکن ہم امانت کا حق ادا نہ کرسکے۔ ائے رحیم! تو معاف فرما۔ یا بار الٰہ! یہ امانت اب تیرے حوالے ہے، تو ان کی کفالت فرما‘‘۔ بس کیا تھا : دارالحدیث آہ و بکا کی چیخ سے گونج اٹھا، ہر شخص کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، چہروں کا رنگ فق ہوگیا، آنسووں کا سیل رواں ہوگیا، جو تھمتے نہ تھے، کچھ غم فراق کے آنسو تھے تو کچھ غم احساس کے آنسو تھے۔ایک طرف درد فرقت سے تڑپ رہے تھے تو دوسری طرف احساس تہی دامن سے شرمندہ شرمندہ ، ذہن و دماغ پر بس ایک ہی جملہ رقص کر رہا تھا کہ ’الآن کما کان‘ یعنی آٹھ سال پہلے جس جہالت کی حالت میں گھر سے نکلے تھے ، آج آٹھ سال بعد بھی ہماری وہی کیفیت ہے کہ ہاتھ خالی اور علم سے عاری گھر جارہے ہیں۔ علم و فن کا دریا موجزن تھا ؛ لیکن ہائے ہماری بدبختی کہ ہم نے کچھ فائدہ نہیں اٹھایا۔ علم و حکمت کا سیل رواں تھا ؛ لیکن آہ ہماری غفلت! ہم اپنے دامن کو بچاتے ہی رہ گئے۔ مسند درس بیٹھنے والے میراث رسول علیہ السلام تقسیم کرتے رہے، لیکن آہ! ہماری شقاوت کہ حصول میراث سے لاپرواہی برتنے رہے۔ مادر علمی کا فیضان عام مسلسل جاری رہا؛ لیکن وائے ہماری نادانی کہ ہم کسب فیض سے باز رہے ۔ دارالعلوم نے اپنی داد و دہش اور عطیہ و بخشش میں کچھ بھی کمی نہ کی؛ لیکن جس کا دست طلب ہی شل ہوگیا ہو اور جو لینا ہی نہ چاہے، تو اس میں دارالعلوم کا کیا قصور؟ آفتاب اپنی شعاعوں سے پوری دنیا کو منور کردیتا ہے ؛ لیکن اگر چمگادڑ کو نظر نہ آئے تو اس میں سورج کا کیا قصور؟ ؂
حسرت سے اس مسافر بے کس پہ روئیے
جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے 
جدائی کی اس گھڑی میں سب کی روح بے چین ، دل کشیدہ، چہرے غم زدہ، جبیں افسردہ اور آنکھیں نمدیدہ ہیں ۔ تمام ساتھی دو ملی و جلی متضاد کیفیتوں میں کشمکش نظر آرہے ہیں ، خیال فراق میں غم کی تصویر بنیہوئے ہیں، درد و فرقت سے تڑپ رہے ہیں ، احساس جدائی سے مضطرب و بے چین ہیں،کسک فراق سے نالاں وپریشان ہیں، ایک دوسرے کو رخصت کر رہے ہیں، الوداع الوداع کہہ رہے ہیں اور اپنی تقدیر پر شکوہ کناں ہیں کہ آج ہم سے یہ مادر علمی چھوٹ رہا ہے، ہم اپنے اساتذہ کی شفقتوں اور عنایتوں سے محروم ہورہے ہیں ، بزم احباب سے ہمیشہ کے لیے جدا ہورہے ہیں، اب ہم اس طرح کبھی جمع نہیں ہوسکیں گے۔ درس و تدریس کے لمحہ لمحہ کی یاد ہمیں ستائے گی ، ہم ان درودیوار کی دیدار کے لیے ترستے رہیں گے ، یہ دارالحدیث کا گنبد بیضا، مسجد رشید کی حسین میناریں،مسجد چھتہ کی روحانیت، مسجد قدیم کی نورانیت، ساقی کوثر کا مے خانہ ، میکدہ قاسم کا جام و سبو، گہوارۂ طیب، چمن نصیری، قلزم مدنی، مینائے مدراسی، صہبائے سعیدی، بزم قمری، بہار حبیبی، درس نعمتی، بئر زمزم کا پرتو، دار جدید کی پرشکوہ عمارتیں، اس چمن میں بیتے ہوئے لمحات، احاطہ مولسری میں گزری ہوئی زندگی کی صبح و شام، یہاں سے وابستہ سنہری یادیں، شب و روز کے مشاغل، تعلیم وتعلم کے معمولات، پند و وعظ کی قیمتی باتیں، تقریر و تکرار میں گزری ہوئی باتیں، اساتذہ کی نصیحتیں، صدائے قال قال کی باز گشت ، دوست و احباب کے میل ملاپ، یاران ہم نوا کے اجتماع و اختلاف باہمی الفت و لگن، آپسی خلش و چپقلش، ایک دوسرے سے روٹھنا منانا، پڑھنا لکھنا، کھیلنا کودنا، رفقا کے ساتھ مستیاں واٹھکھیلیاں، انجمن کی بزم آرائیاں اور احباب کی طرب انگیزیاں ، ان سب کی یادیں ہمیں تڑپائیں گی۔
دوستو ! یہ اجتماع و اختلاف، یہ اتحادو اتفاق، یہ وصال و فراق، یہ جمع و تفریق، یہ جدائیو جفائی، یہ بے کسی و بے بسی، یہ ہماری آمدورفت سب قدرت کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ یہاں کسی کو بقا و دوام نہیں۔ خود دنیا کی کیا حقیقت ہے کہ کلی پھول بنی اور مرجھا گئی ، گلاب میں چمک آئی اور ماند پڑگئی، چمبیلی مہکی اور ختم ہوگئی، کنول کھلا اور کمھلا گیا،نرگس شہلا مسکرائی اور خاموش ہوگئی، چمپا میں تازگی آئی اور پژمردگی چھا گئی، بلبل شاخ پر چہکا اور اڑگیا، چاندی آئی اور غائب ہوگئی، سورج طلوع ہوا اور ذوب گیا، دن رخصت ہوا اور رات کی تاریکی چھاگئی، رات کافور ہوئی اور دن آگیا، صبح ہوئی اور شام ہوگئی۔ 
بقا کسی کو نہیں قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
تو جب دنیا ہی کو بقا ودوام نہیں ہے ، تو ہم کب تک اس گلشن میں رہتے ؟ زندگی کا اور کتنا حصہ یہاں بتاتے ہیں ؟ اور کب تک زندگی کی بہار لوٹتے؟ 
چلے گا بزم میں جام شراب مشک و بو کب تک
رہیں گے زینت محفل بتان شعلہ رو کب تک
کریں گے بزم قاسم میں سکون آرزو کب تک
ہماری کروفرکب تک رہے گی اور ہم کب تک
یقیناًہمیں یہاں سے کسی دن نکلنا ہی پڑتا اورہ ہمیں رخت سفر باندھنا ہی پڑتا، آج وہی رخصت کی گھڑی ہے، تو پھر یہ کیسا شکوہ اور کس کا شکوہ؟ یہ کیسا گلہ اور کس کا گلہ؟ یہ کیسا غم اور کس کا غم ؟ یہ کیسی کسک اور کیسا درد؟ یہ کیسی رنجش اور کیسا رونا؟ اور کیوں کر رونا؟ ارے 
غم تو غذائے روح ہے اس سے گریز کیا
جس کو ملے، جہاں سے ملے، جس قدر ملے
لہذا چھوڑ دیجیے ان باتوں کو اور فراموش کرجائیے ماضی کی حسین یادوں کو ، جس کو دہراکر ماتم کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں، اگرچہ
یہ سچ کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیں
اوراق نظر سے جلووں کی تحریر مٹانا کھیل نہیں
لیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاؤ رہنے دو
جو آگ دبی ہے سینے میں ، ہونٹوں پہ نہ لاوٌ رہنے دو
پس جدائی کی اس جاں سوز گھڑی میں نمناک آنکھوں اور غم ناک چہروں سے نہیں؛ بلکہ انتہائی بہجت و سرور اور ہشاش بشاش چہروں سے ایک دوسرے کو الوداع کہیے اور یہ تسلی دیجیے کہ اگرچہ فی الوقت ہم ایک دوسرے سے بچھڑ رہے ہیں اور جدا ہورہے ہیں اور یہ شعر زبان زد ہے کہ 
جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی،جہاں نغمے ہی نغمے تھے
وہ گلشن اور وہ یاران غزل خواں یاد آئیں گے
لیکن زندگی کے ہر موڑ پر ، جہاں بھی موقع ملے گا۔۔۔ان شاء اللہ ملاقات کرتے رہیں گے اور ایک دوسرے سے ملتے رہیں گے۔
شمع کی لو سے ستاروں کی ضو تک
تمھیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگی
اور اگر زندگی نے وفا نہ کی اور قبل از وصال وفات ہوگئے ، تو ان شاء اللہ ایک وقت سایہ عرش میں ضرور ملاقات ہوگی، جس وقت اگرچہ نفسی نفسی کا عالم ہوگا، لیکن ہماری یہ سچی دوستی ضرور کام آئے گی، الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدوا الا المتقین۔
علیکم سلام اللہ انی راحل
و عینای من خوف التفرق تدمع
ان نحن عشنا فھو یجمع بیننا
و ان نحن متنا فالقیامۃ تجمع
دل حکایت غم سے لبریز ہے، جی چاہتا ہے کہ یوں ہی ساز غم کو چھیڑتا رہوں اور اشک بہاتا رہوں، لیکن اپنے جذبات کے اس قدر اظہار سے مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں جھوٹا نہ سمجھ لیا جاؤں کہ 
کہیں دوست تم سے نہ ہوجائیں بد ظن
جتاؤ نہ حد سے محبت زیادہ
اس لیے اپنے جذبات کو ضبط کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ 
ان درو دیوار پر حسرت کی نظر کرتے ہیں 
خوش رہو اہل چمن ہم تو سفر کرتے ہیں۔

روح بے چین ہے ، اس دل کی اذیت کیا ہے

دارلعلوم دیوبند سے جدائی پر مبنی زمانہ طالب علمی کی تحریر
اگر یہ حقیقت ہے کہ آفتاب مغرب سے طلوع اور مشرق میں غروب نہیں ہوسکتا، مچھلی خشکی میں اور پرندے دریا میں زندہ نہیں رہ سکتے ، نباتات پانی کے بغیر سرسبزو شاداب اور انسان زمین چھوڑ کر سمندر کی تہہ میں آباد نہیں ہوسکتے اور دودو چار ہی ہوتا ہے ، پانچ کبھی نہیں ہوسکتا ، تو یہ بھی ایک اٹل صداقت ہے اور سراپا حقیقت ہے کہ سچے تشنگان علوم نبویہ (خواہ وہ کہیں بھی ہوں، وہ کتنے ہی ناز و نعم اور عیش و آرام میں کیوں نہ پل رہے ہوں، زیبائش کے لیے عمدہ سے عمدہ حریر و ریشم اور افزائش کے لیے لذیذ ترین کھانے کیوں نہ دی جاتی ہوں) ازہر ہند کے سوا ایشیا کے کسی بھی دینی ادارے سے کما حقہ سیراب نہیں ہوسکتے اور نہ ہی کوئی معہد یا دینی ادارہ اور مدرسہ ان کی اس علمی پیاس کو بجھاسکتا ہے، اس لیے کہ ہر طالب علم کی سب سے بڑی آرزو اور دیرینہ تمنا یہ ہوتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند ہی اس کے تعلیمی سفر کی آخری منزل ہو۔ ع
چوں طالباں شنیدند از ہر طرف دویدند
باغ وبہار ایں جا، ایں گلشن دوامی
چنانچہ اسی دیرینہ آرزو اور تمنا کی تکمیل کے لیے ایام رمضان کے پورے ہونے سے قبل ہی اپنے عزیز و اقارب کی شفقت و محبت کو الوداع کہہ کر ماں باپ کے والہانہ عشق و الفت سے منھ موڑ کر اور وطن عزیز سے رخت سفر باندھ کر عازم دیوبند ہوجاتے ہیں ؛ کیوں کہ دارالعلوم دیوبند کی عظمت و رفعت اور علم و حکم کی مقناطیسی جاذبیت انھیں یہاں کھینچ لاتی ہے، وہ یہاں آکر جہاں ایک طرف محنت و مشقت کا بار گراں سر پر اٹھائے رہتے ہیں وہیں بمقتضائے انسانی فطرت ان کی زندگی دو ملی جلی متضاد کیفیتوں سے دوچار ہوکر گذرتی ہے ، کبھی آفتاب رجا کی شعاعوں سے ان کے آشیانہ دل کے تاریک گوشے یک دم منور ہوجاتے ہیں ، ان کے عزائم بلنداور امنگیں جواں ہوجاتی ہیں اور خوشیوں کے تمام چراغ روشن ہوجاتے ہیں ، توکبھی وحشت امتحان اور اس میں ناکامی کے خوف سے دل و دماغ کے خلیات تاریکیوں سے بھر جاتے ہیں ، امید و ولولے کے تمام چراغ یکا یک گل ہونے لگتے ہیں اور ان پر مایوسیوں اور اداسیوں کے بادل چھا جاتے ہیں۔
پھر وسط شوال میں ان کی قسمت کی عدالت قائم ہوتی ہے، اور وقت اس عدالت کا منصف ہوتا ہے، جو بالکل ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرتا ہے، چنانچہ جو طلبہ خوش نصیب ہوتے ہیں اور سچی لگن اور تڑپ لے کر اس مرکز علم و عرفان پر حاضری دیتے ہیں تو ان کے متعلق منصف اعظم کا یہ فیصلہ صادر ہوتا ہے کہ مادر علمی کی آغوش میں ان فرزندوں کے استراحت اور استقامت کی اجازت ہے ۔ اور جن کی قسمت ہی ساتھ نہیں دیتی، تو ان کے متعلق فیصلہ آئندہ سال کے لیے ملتوی کردیا جاتا ہے، اور اس طرح ایک امید کی راہ ان کے لیے ہموار رہتی ہے ۔ 
تمام تشنگان علوم نبویہ اسی راستے دارالعلوم دیوبند آئے اور آتے رہیں گے اور اس بحر بیکراں سے فیضیاب ہوتے رہیں گے؛ مگر یہاں سے محرومی کا فیصلہ نہ تو کبھی لکھا گیا اور نہ لکھا جائے گا (ان شاء اللہ تعالیٰ)
جب ہمارا یہاں داخلہ ہوجاتا ہے، تو ہمارے لاشعور میں یہ خیال بس جاتا ہے کہ اب ہماری دنیا بس یہی چہار دیواری ہے ، اسی میں جینا ہے اور اسی میں مرنا ہے۔ ؂
ہمیں دنیا سے کیا مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا
ہمارے ذہنوں سے یہ خیال وراء الوریٰ تھا کہ کسی دن ہم یہاں سے خود ہی نہیں نکلیں گے؛ بلکہ نکالے جائیں گے ۔ کبھی ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس احاطہ کے علاوہ بھی دنیا ہے اور وہ بھی ایسی دنیا جو دارالعلوم کی دنیا سے بالکل مختلف اور بدلی ہوئی ہے ، ماحول بدلا ہوا ہے، حالات بدلے ہوئے ہیں ، سب کچھ بدلا ہوا ہے؛ بلکہ کیا کچھ نہیں بدلا ہوا ہے۔یہی وجہ تھی کہ ہم دنیا سے منھ موڑ کر صرف کتابوں سے جڑے رہتے تھے۔ہمیں کتابوں کی محفل قوس و قزح کی رنگینیوں سے زیادہ بھلی معلوم ہوتی تھی ، اس گنبد بیضا کے آگے بڑے بڑے شاہی قصورات و محلات ہیچ اور کمتر دکھائی دیتے تھے (جیسا کہ حقیقت بھی یہی ہے ) اس طلسم کدہ کی نت نئی رنگینیاں اور دل فریبیاں بے سود لگتی تھیں؛ جب کہ درس و تدریس کی مجلس کا ہر لمحہ اور اساتذہ کی پند ونصائح کا ایک ایک حرف قیمتی اور سونے سے زیادہ گراں محسوس ہوتا تھا ، کتاب اور کاپی قلم ہمار اوڑھنا بچھونا تھا، تحقیق و تدقیق ہمارا خاص مشغلہ رہتا تھا ، علم و حکم کے دربار میں غوطہ زنی ہمارا خصوصی امتیاز تھا ، محنت و عرق ریزی اور انتہائی کدو کاوش ہمارے روز کے معمولات تھے ، احکام شرعیہ پر عمل اور اس پر مداومت ہماری زندگی کا جزولاینفک تھا ، گناہوں سے اجتناب ہمارے لیے ایک معمولی امر تھا اور حرام وغیرہ کو ہم جانتے بھی نہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دارالعلوم جو کہ آسمان علم ہے، ہم اس کے چمکتے ستارے تھے ۔ ازہر ہند جوعلوم و فنون کا آفتاب و ماہتبا ہے ، ہم اس کی شعاعیں تھے۔ یہ قلعہ اسلام جو گلشن بہار ہے ، ہم اس کے معطر پھول تھے۔ یہ مرکز اسلام جو باغ ہے ، ہم اس میں عندلیب بن کر چہکتے پھدکتے تھے اور مسکراتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسی دنیا میں رہتے ہوئے کسی اور دنیا کا تصور ہم کیسے کرسکتے تھے۔
وقت کا پہیا تیزی سے گھومتا رہا۔ اس گلشن میں پھلنے پھولنے کے لمحات اس سرعت سے برف کی طرح پگھلتے رہے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ قدرت کے غیبی ہاتھوں نے گھڑیوں کی رفتار بڑھا دی تھی ، جس کی وجہ سے گھنٹوں کی سوئی منٹوں اور منٹوں کی سوئی سکنڈوں کی رفتار سے چل رہی تھی اور بالآخر وہ وقت بھی آہی گیا، جس میں ہمیں یہ احساس دامن گیر ہوگیا کہ ہم اس جامعہ کے بس چند روز کے مہمان رہ گئے ہیں۔
لیکن دوستو! آج یہ کونسی گھڑی آگئی ہے کہ روح بے چینی محسوس کر رہی ہے ، دل تڑپ رہا ہے، جگر لہولہان اور آنکھیں خوں چکاں ہیں ، گلشن قاسمیہ کے عندلیبان مغموم مغموم، ان کے چہرے اداس اداس اور یارو احباب روٹھے روٹھے سے لگ رہے ہیں ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مادر علمی ہم سے روٹھ گئی ہے اور گلشن اسلام میں کوئی طوفان آگیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں ، الوداع الوداع کہہ رہے ہیں ، غم فرقت کی شکوہ و شکایت کر رہے ہیں اور آنکھیں ساون بن کے برس رہی ہیں۔
آخر ہم کیوں نہ روئیں؟ ہمیں رنج و غم کیوں نہ ہوَ جب کہ ہماری مادر علمی ہم سے چھوٹ رہی ہے ، جس کو پانے کے لیے ہم نے لاکھوں جتن کیے تھے ۔ ہمارا چہرہ مغموم کیوں نہ نظر آئے ، جب کہ ہماری آنکھیں قلعہ اسلام کی دیدار سے محروم ہوجائیں گی۔ ہمارا دل زخموں سے پارہ پارہ ؛ بلکہ ریزہ ریزہ کیوں نہ ہوجائے ، جب کہ ہمارے کان اب دارالحدیث کی پر کیف و مقدس صداوں اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پیارے پیارے نغموں کے لیے ترس جائیں گے ۔ ہاں ! ہمارے تمام شکوے و گلے اسی لیے ہیں کہ اب تمام احباب کی فرقت بھی نصیب نہیں ہوسکے گی ، جن کے ساتھ ہنستے بولتے تھے اور زندگی کے حسین ترین لمحات ان کے مابین گزارتے تھے ۔ ہماری روحوں کی بے چینی کا سبب یہی ہے کہ ساقی کوثر صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے اس میخانے ، میخانہ کے جام و سبو اور ساقیان میخانہ کی عنایتوں اور نوازشوں سے ہم محروم ہونے والے ہیں۔ہمارا جگر لہولہان اسی لیے ہے کہ اس چمن کے پھولوں ، رات رانی کی مہکتی تیزخوشبووں، گل گلاب کی عطر بیزیوں، چمیلی کی معصوم اداوں اور کلیوں کے حسین منظروں کا نظارہ ہمارے لیے ایک مشکل امر ہوجائے گا؛ بلکہ اس چمن قاسم ہی میں آمدو رفت کوئی آسان نہیں رہ جائے گی۔ ہمیں کبھی دارالعلوم کی یاد یں رلائیں گی ،کبھی اساتذہ کی جدائی کا خیال جھنجھوڑے گا، کبھی احباب کا فراق ستائے گا اور کبھی قال اللہ و قال الرسول کے پرکیف نغموں کی یاد آئے گی۔
ساتھیو! یہ اجتماع و تفریق، یہ جدائی و جفائی ، یہ شادمانی و ناشادی، یہ وصال و فراق اور یہ دوری و مجبوری تو صرف تقدیر الٰہی کی کرشمہ سازیاں ہیں اور مقدرات الٰہی کے آگے ارسطو کی حکمت کام آتی ہے اور نہ ہی فارابی کی دانش مندی۔ لقمان کی دانائی کام دیتی ہے اور نہ ہی سکندر کے عزائم اور رستم کی جواں مردی سے کچھ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کی قوت و طاقت سے کچھ فرق پڑسکتا ہے۔لیکن ایک مرد مومن تو مشیت الٰہی کے آگے اپنا سر تسلیم خم کردیتا ہے اور سراپا رضا بتقدیر کا نمونہ بن جاتا ہے۔لہذا یہ کیسا گلہ اورکس کا گلہ؟ اور کیسا شکوہ؟ یہ کیسا غم اور کس کا غم؟ یہ کیسا درد اور کیسا صدمہ؟ یہ کیسی مایوسی اور کیسی اداسی؟ چھوڑیے ان باتوں کو اور بھلادیجیے ماضی کی یادوں کو۔ اور ان تمام باتوں کو ذہنوں سے یوں فراموش کردیجیے جیسے ان کا کبھی تصور ہی نہیں آیا تھا۔ اور میری جانب سے مبارک بادی قبول کیجیے کہ آج کے یہ لمحات اور گھڑیاں آپ کی زندگی کے تاریخی لمحات ہیں کہ آج آپ اس گلشن اسلام سے ان گنت علوم و فنون کے پھول اپنے دامن میں بھر کر لے جارہے ہیں ، نہر قاسمی سے سیراب ہوکر ، قاسمی کا خطاب حاصل کرکے اور قوم مسلم کے قائدین بن کر یہاں سے نکل رہے ہیں ۔ اور ایک ایسی عظیم نسبت حاصل کرکے جارہے ہیں ،جو سیدھے ساقی کوثر علیہ السلام تک جاتا ہے اور یہ نسبت دنیا کی سب سے قیمتی شئی ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کا ایک عظیم سرمایہ بھی ہے ، لہذا اتنی عظیم نعمت اور زندگی کا بہترین سرمایا حاصل کرنے کے بعد شکوے شکایت اور نمناک آنکھوں سے نہیں؛ بلکہ آئے ان اشعار کے ساتھ جدا ہوتے ہیں کہ ع
تم گلے جو مل گئے سارا گلہ جاتا رہا 



4 Apr 2018

صوفیا کی اصطلاح وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہودکی وضاحت

بسم اللہ الرحمان الرحیم
ماخوذ از: تاریخ دعوت و عزیمت: مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندویؒ ۔ 
وحدت الوجود کے جملے:سبحانی ما أعظم شانی (بایزید بسطامی) أنا الحق (حسین بن منصور حلاج) 
وحدت الوجود کے نظریے کے بانی : شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ہیں۔جس کی شرح یہ ہے ( جودو وجود کا قائل ہوا اور اس نے کہا کہ ایک اللہ کا وجود ہے اور ایک ممکن کا ، تو شرک کررہا ہے اور اس کا یہ شرک شرک خفی ہے اور جو صرف ایک وجود کا قائل ہواور اس نے کہا کہ وجود صرف اللہ کا ہے ، اس کے سوا جو کچھ ہے، وہ اس کے مظاہر ہیں اور مظاہر کی کثرت اس کی وحدت کے منافی نہیں، تو یہ شخص موحد ہے)۔اللہ تعالی اپنے ذاتی کمال میں قطعا غنی ہے، لیکن اسمائی کمال میں عالم کے وجود خارجی سے مستغنی نہیں۔یہی مطلب ہے حدیث قدسی : کنتُ کنزا مخفیا فأحببتُ أن أعرفَ فَخلقتُ الخلقَ (الفتوحات المکیۃ، الجزء الثامن والثمانون)۔ ا قتباسات از: رسالہ علامہ عبدالحی بحرالعلوم لکھنوی) م؍۱۲۲۵، دعوت و عزیمت، ج؍۴، ص؍۲۷۶)
عقیدہ وحدت الوجود کے غلو کے اثرات یہ تھے کہ تلسمانی شراب پیتے تھے اور محرمات کا ارتکاب کرتے تھے کہ جب وجود ایک ہے تو حلال و حرام کی تفریق کیسی؟ بعض لوگوں سے کہاگیا کہ جب وجود ایک ہے تو بیوی کیوں حلال اور ماں حرام ہے؟ اس محقق(تلسمانی) نے جواب دیا کہ ہمارے نزدیک سب ایک ہے؛ لیکن ان محجومین (جو توحید حقیقی سے نا آشنا ہیں)نے کہا کہ ماں حرام ہے تو میں نے بھی کہا ہاں تم محجومین پر حرام ہے۔(دعوت و عزیمت،ج؍۴، ص؍۲۸۰؍
شیخ شرف الدین یحی منیریؒ (م؍۷۸۲ھ) وحدت الوجو د کے متوازی وحدت الشہود کا ذکر فرما تے ہیں کہ عام طور پر جس کو وحدت الوجود اور غیر حق کا عدم محض اور فنائے کا مل سمجھا جا تا ہے وہ در اصل وجود حقیقی کے سامنے دوسرے موجو دات کا اس طرح ماند پڑ جا نا اور مغلوب ہو جانا ہے جس طرح آفتاب کی روشنی کے سامنے ستا روں کی روشنی ماند اور ذات کا وجود بے حقیقت ہو جاتا ہے، 146146نا بودن دیگر و نا دیدن دیگر145145 تاریخ دعوت و عزیمت، ج؍ ۴، ص؍۲۸۵) 
وحدت الوجود کے سلسلے میں تین نظریات ہیں:
۱۔ وحدت الوجود تحقیق و معرفت کی آخری منزل ہے۔
۲۔ وحدت الوجود قوت متخیلہ کی کارفرمائی اور باطنی مشاہدہ کے سوا کچھ نہیں، یعنی اس کا مکمل انکار ۔
۳۔ وحدت الشہود وہ وحدت الوجودکے متوازی شئی ہے کہ حقیقت میں سالک کوجو کچھ نظر آتا ہے، وہ یہ نہیں کہ وجودواحد ہے اور واجب الوجود کے سوا ہر وجود حقیقتا منتفی ومعدوم ہے؛ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ موجودات اپنی جگہ پر موجود اور قائم ہیں ، لیکن واجب الوجود کے وجود حقیقی کے نور نے ان پر ایسا پرد ہ ڈال دیا ہے کہ وہ معدوم نظر آتے ہیں اور جس طرح ستارے آفتاب کے طلوع کے بعد اس کے نور کے سامنے اس طرح ماند پڑجاتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ ستارے نہیں ہیں، تو وہ کاذب نہیں ہوگا، اسی طرح موجودات اس وجود کامل و حقیقی کے سامنے ایسے بے حقیقت نظر آتے ہیں کہ گویا ان کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔(دعوت و عزیمت، ج؍ ۴، ص؍۲۸۷)
حضرت مجدد ؒ سرہندی نے ان تین مسلکوں کے مقابلے میں ایک چوتھا مسلک اختیار کیا ، وہ یہ کہ وحدۃ الوجد سالک کے سیر وسلوک کی ایک منزل ہے ، اگر توفیق الٰہی شامل حال رہی اور شریعت کا چراغ رہنما ہوا اور سالک کی ہمت بلند ہوتی ہے، تو دوسری منزل بھی سامنے آتی ہے اور وہ وحدۃ الشہود کی منزل ہے۔ (دعوت و عزیمت، ج؍ ۴، ص؍۲۸۷)۔ اس طرح حضرت مجدد ؒ ، وحدۃ الوجود کے نفی اور اس کے سب سے بڑے علم بردار شارح شیخ اکبر محی الدین بن عربی (جن کے علوم و معارف، نکات و اسرار اور کمالات روحانی کا انکار مکابرہ ہے) کے علو مقام، مقبولیت عند اللہ اور اخلاص کا انکار کیے بغیر ؛ بلکہ بلند الفاظ میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے ایک اضافہ فرماتے ہیں اور ایک نئی دریافت کا اعلان کرتے ہیں ، جو ایک طرف عقیدۂ جمہور مسلمین، کتاب و سنت اور شریعت حقہ کے مطابق ہے اور دوسری طرف پیچھے کی طرف لے جانے اور بڑے گروہ کے علوم و تحقیقات پر خط نسخ پھیرنے کے بجائے ایک ایسی چیز کا اضافہ کیا ہے، جس کے نصوص شرعیہ، اصول قطعیہ اور سیر انفس وآفاق کے آخری مکشوفات و تحقیقات میں مطابقت پیدا ہوجاتی ہے۔(دعوت و عزیمت ، ج؍ ۴، ص؍۲۸۸)۔
حضرت مجدد صاحب شیخ فرید بخاری کو لکھتے ہیں:
146146وہ توحید، جو سلوک کے دوران حضرات صوفیا کو حاصل ہوتی ہے ، اس کی دو قسمیں ہیں: توحید شہودی و توحید وجودی۔ توحید شہودی نام ہے : ایک دیکھنے کا ، یعنی سالک کا مشہود سوائے ایک کے نہ ہو۔ اور توحید وجودی نام ہے : ایک کو موجود جاننے کا اور غیرکو معدوم سمجھنے کا145145۔(دعوت و عزیمت ، ج؍ ۴، ص؍۲۹۲)
حضرت مجددؒ صاحب نے توحیدی شہودی کے اثبات اور اس کی ترجیح پر کیوں زور دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ توحید وجودی کے قائلین نے اپنے کو قیود شرعی و واجبات اسلامی سے آزاد سمجھ لیا تھا اور یہ سمجھ کر کہ جب سب کچھ حق کی طرف سے ہے ؛ بلکہ سب حق ہے ، تو پھر حق و باطل کی تفریق اور کفرو ایمان کے امتیاز کا کیا سوال؟ حضرت مجدد صاحب کے زمانے ( دسویں صدی ہجری ) میں اس توحید وجودی کا رنگ ہندستان پر ایسا چھایا ہوا تھا کہ عارفانہ ذوق رکھنے والے شعرا اس کے گیت گاتے تھے اور کفرو ایمان کو مساوی قرار دیتے تھے ؛ بلکہ بعض اوقات کفر کو ایمان پر ترجیح دیتے تھے، مثلا ؂
کفرو ایمان قرین یک دگرند
ہر کہ را کفر نیست ایمان نیست
پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے ایک کتاب میں لکھا ہے کہ 
146146 پس ازیں معنی اسلام در کفر ست و کفر در اسلام، یعنی : تولج اللیل فی النہار وتولج النہار فی اللیل، مراد از لیل کفر ست، و مراد از نہار اسلام145145َ
آگے چل کر لکھتے ہیں: 
146146 العلم حجاب اکبرگشت، مراد ازیں علم عبودیت کہ حجاب اکبر ست، ایں حجاب اکبر اگر از میاں مرتفع شود، کفر بہ اسلام و اسلام بہ کفر آمیزدوعبارت خدائی و بندگی برخیزد145145۔ (دعوت و عزیمت ، ج؍ ۴، ص؍۲۹۷)۔
اس غلو کی وجہ سے شریعت کی گرفت طبیعتوں پر سے ڈھیلی پڑتی جاتی تھی۔ 
مغربی مصنف پیٹر ہارڈی نے لکھا ہے کہ 
146146 شیخ احمد سرہندی کی بڑی کامیابی یہی ہے کہ انھوں نے ہندی اسلام کو متصوفانہ انتہاپسندی سے خود تصوف کے ذریعے نجات دلائی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جس نظریہ کی انھوں نے تردیدکی اس کے مطلب و مفہوم اور قدرو قیمت کا ان کو ذاتی طور پر عمیق ادراک تھا145145۔ (دعوت و عزیمت ، ج؍ ۴، ص؍۳۰۰)