18 Jul 2020

جہازی صاحب خیریت سے ہیں …… سے خیریت پوچھنے والے نہیں رہے!

جہازی صاحب خیریت سے ہیں …… سے خیریت پوچھنے والے نہیں رہے!
محمد یاسین جہازی 9891737350
غالبا 1996میں راقم کانپور کے ایک تعلیمی ادارہ ’مدرسہ مظہر العلوم بیگم گنج، دادا میاں چوراہا‘ میں زیر تعلیم تھا، اس وقت میری عمر بارہ چودہ سال کی تھی؛ اسی لاشعوری دور میں مدرسہ کے باشعور طلبہ سے مولانا متین الحق اسامہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی شعلہ آسا خطابت کے تذکرے سنا کرتا تھا؛ بالخصوص فرق باطلہ کے خلاف ان کی تقریر گویاشمشیر آبدار ہوا کرتی تھی، ہر ذہن و فکر کو متاثر کرنا، ان کی خطابت کا طلمساتی خاصہ تھا۔ بعد ازاں 2009کے آواخر میں راقم جب جمعیت علمائے ہند سے عملی طور پر وابستہ ہوا؛ تو مولانا کو بارہا دیکھا اور مزید جاننے کا موقع ملا۔ دہلی میں منعقد ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے حضرت کی معیت کا شرف حاصل ہوا؛ اس سفر میں حضرت کے کریمانہ و متواضعانہ اخلاق کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
مولانا مرحوم جمعیت علمائے ہند کی میٹنگوں میں برابر شرکت فرمایا کرتے تھے اور اکابرین کی صف میں نمایاں نظر آتے تھے۔ دفتر جمعیت علمائے ہند میں جب بھی مولانا سے ملاقات ہوئی، توہمیشہ چہرے پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ خود سلام کرتے یا سلام کا جواب دیتے اور ساتھ ہی فرمایا کرتے کہ’’جہازی صاحبخیریت سے ہیں!“۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ملاقات ہوئی اور یہ جملہ نہ کہا ہو۔ کبھی کبھار اس کے ساتھ ”جہازی میڈیا“ کے حال احوال بھی پوچھا کرتے تھے۔
10مارچ 2018کو لکھنو میں منعقد جمعیت علمائے اتر پردیش کا تحفظ ملک و ملت کے اجلاس عام کی تیاریوں کے سلسلے میں مرکزی دفتر سے جو حضرات لکھنو میں قیام پذیر رہے، ان میں ناچیز بھی شامل تھا، جب اجلاس مکمل طور پر کامیاب رہا، توکلمات تشکر پیش کرتے ہوئے کامیابی کا سہرا، دیگر اکابرین کے سر باندھتے ہوئے، مولانا مرحوم نے ناچیز کا بھی نام لیا۔ یقین مانیے کہ مولانا مرحوم کی اس حوصلہ افزائی نے ان کے تئیں جو جذبات قدر دل میں پیدا کیے، ان کے بیان کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
11/ستمبر1917بروز سوموار میری دادی ماں کا انتقال ہوگیا تھا۔ کچھ دنوں بعد جب میں دہلی واپس ہوا اور مولانا سے دہلی دفتر میں ملاقات ہوئی، تو سب سے پہلے مولانا نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں نے آپ کی دادی کے لیے مدرسہ میں ایصال ثواب کرایا تھا۔ مولانا کا یہ مشفقانہ کردار جان کر بلا اختیار آنکھیں نم ہوگئیں۔
مولانا کے ہم سبق مولانا حکیم الدین صاحب قاسمی سکریٹری جمعیت علمائے ہند سے ملی جان کاری کے مطابق آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت جامعہ ہتھورا باندہ میں ہوئی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور ممتاز شاگرد کے طور پر 1989میں فراغت حاصل کی۔
عملی زندگی میں پہلے جامع العلوم پٹکاپور میں تدریس میں قدم رکھا۔ بعد ازاں انھوں نے مدرسہ اشرف العلوم جاجمؤ قائم کیا۔ تدریس کے ساتھ ساتھ ملی خدمات میں بھی وہ پیش پیش رہے اور ملی تنظمیوں کو اپنی وابستگی سے زینت بخشتے رہے۔ چنانچہ وہ پہلے جمعیت علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے مدعو خصوصی رہے، بعد ازاں رکن منتخب کیے گئے۔ جمعیت علمائے اتر پردیش کے سکریٹری، نائب صدر، جمعیت علمائے کان پور کے صدر اور حالیہ ٹرم کے 2016میں جمعیت علمائے اتر پردیش کے صدر تھے۔
دو دن پہلے مولانا مرحوم کے صاحبزادے مولانا امین الحق عبد اللہ اسامہ صاحب سے منسوب واٹس ایپ پر ایک خبر نظر سے گذری، جس میں مولانا کو کورونا پوزیٹیو بتایا گیا تھا۔ خبر پڑھ کر انہونی کا شبہ گذرا۔ یہ شبہ اتنا بھی قوی نہیں تھا کہ وہ آج کی خبر کا سبب بن جائے۔ بس شبہ اتنا تھا کہ ہاسپٹیل والے کہیں غیر انسانی حرکت نہ کردے۔ لیکن آج مورخہ 18جولائی 2020بروز سنیچر صبح صبح تقریبا چار بجے، جو تہجد اور مقبولیت کی گھڑی ہوتی ہے، گھڑی دیکھنے کے لیے موبائل آن کیا، تو سب سے پہلے اسی جان کاہ خبر پر نظر پڑی۔ دل دھک سا ہوکر رہ گیا۔ طبیعت میں کافی بے چینی محسوس ہونے لگی، جب کسی پہلو قرار نہیں آیا، تو مسجد کا رخ کیااور امام صاحب سے مل کر واقعہ کی اطلاع دی، انھوں نے بھی انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا۔ اور بعد نماز فجر الحاح و زاری کے ساتھ مولانا مرحوم کے لیے جہاز قطعہ گڈا کی جامع مسجد میں دعائے مغفرت کی۔
پونے آٹھ بجے صبح مدرسہ اشرف العلوم جاج مؤ کے احاطہ میں پہلی نماز جنازہ ہوئی، پھر یکے بعد دیگرے لوگ آتے گئے، تو کئی کئی بار جنازے کی نماز اد اکی گئی۔ موقع پر موجود مولانا مرحوم کے خادم خاص مولانا اظہار مکرم صاحب سے ملی فونک رابطہ کی معلومات کے مطابق آٹھ نو مرتبہ جناز کی نماز ادا کی گئی اور مدرسہ کے احاطہ میں ہی تدفین عمل میں آئی۔ …… اس طر ح چہرے کی بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ”جہازی صاحب خیریت سے ہیں!“ سے خیریت پوچھنے والے ہمیشہ ہمیش کے لیے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ آمین

4 Jul 2020

مولانا معز الدین صاحب! مشکور ہوں آپ کا

مولانا معز الدین صاحب! مشکور ہوں آپ کا
محمد یاسین جہازی
مشہور اسلامی اہل قلم، استاذگرامی قدر حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب دامت برکاتہم استاذ ادب عربی دارالعلوم دیوبند، تاجدار ادب حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمۃ اللہ علیہ کی زبان و بیان کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
ہم ایسے لوگوں کو ان سے بات کرکے اتنا مزا آتا تھا کہ اسے بیان کرنے کے لیے راقم کے پاس موزوں الفاظ نہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں ان کے ایسے چند ہی لوگ دیکھے ہیں، جو اس صفت میں ان کے شریک تھے، ان کی جدائی سے شدید رنج ہوا۔ اور ایسے ہی مولاناؒ کی وفات سے؛ کیوں کہ سخن وری اور الفاظ و تعبیرات کی نزاکت کی معرفت کی صفت جن لوگوں میں ہوتی ہے، وہ اپنے ایسے دیگر لوگوں کی بھی بے حد قدر کرتے ہیں اور ان سے مخاطب ہوکر جی اتنا خوش ہوتا ہے کہ تا دیر وہ خوشی قائم رہتی ہے۔ان کے برعکس لوگوں سے بات کرکے بہت افسوس ہوتا ہے؛ کیوں کہ یہ لوگ گھوڑے اور گدھے کے فرق کو ذرا بھی در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔“ (ہفت روزہ الجمعیۃ، مولانا ریاست علی بجنوری نمبر، ص/31، اکتوبر 2017)
واقعہ یہ ہوا کہ ناچیز ”جمعیت کا دائرہ حربیہ یا مجلس حربی“ کے مضمون کے تعلق سے کچھ استفسار کے لیے مولانا معز الدین احمد صاحب قاسمی ناظم امارت شرعیہ ہند جمعیت علمائے ہند کی خدمت میں حاضر ہوا۔جمعیت نے کچھ دنوں پہلے حضرت مولانا احمد سعید صاحب ناظم جمعیت علمائے ہند نور اللہ مرقدہ پر ایک سیمنار کیا تھا اوراب اس کے مقالات کو کتابی شکل دے دی گئی ہے۔ چوں کہ راقم کے پاس یہ کتاب نہیں تھی، تو سوچا کہ لاک ڈاون میں کتاب خریدنے سے بچنے کے لیے عاریت پر پڑھ لیتے ہیں۔ اگر کوئی نئی تحقیق ہوگی، تو استفادہ کرلیا جائے گا۔چنانچہ حضرت سے یہ کتاب عاریت پردو دن کے لیے عنایت فرمانے کی گزارش کی۔ حضرت نے یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ میں خرید کر لایا ہوں،اور میں کتاب بیچتا ہوں، اس لیے میں نہیں دوں گا، تمھیں خریدنی ہوگی۔ میں نے دوبارہ گزارش کی اور صرف ایک دن کے لیے مانگا، اس پر جواب تھا کہ جب میں ایسے ہی دے دوں گا، تو کتاب کون خریدے گا۔ بعد ازاں یہ وقت کم کرتے کرتے راقم اس پرپہنچا کہ صرف مشمولات دیکھنے کی اجازت دے دیں؛ حضرت نے بظاہر ناراضگی ظاہر فرماتے ہوئے سختی سے دینے کی ممانعت کی۔ کچھ دیر دوسرے موضوعات پر گفت و شنید ہوتی رہی۔ جب راقم نے واپسی کی اجازت طلب کی، تو مولانا محترم نے نہ صرف یہ کہ ”تذکرہ سحبان الہند“ ہدیہ کردیا؛ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حال کی اشاعت پذیر ایک اور کتاب ”تذکرہ مولانا عبد الباری فرنگی محلی“ بھی پیش کردی۔ یہ کتاب 1108صفحات پر مشتمل ہے، جب کہ اول الذکر میں 880صفحات ہیں۔ اور بازار کی قیمت کے اعتبار سے دونوں کتابیں خریدینے میں تقریبا دو ہزار روپے لگ سکتے ہیں۔
مولانا محترم اس سے پہلے بھی دو ضخیم کتابیں: ”تذکرہ فدائے ملت“ اور”تذکرہ ابوالمحاسن“ عنایت فرماچکے ہیں۔
جمعیت کے دائرہ حربیہ پر میری جان کاری کے مطابق اس کی پچاسی سالہ مدت میں کسی نے بھی مستقل موضوع بناکر نہیں لکھا ہے۔ اور جن حضرات نے بھی کچھ لکھا ہے، تو مورخ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی لکھی ایک صفحہ کی تحریر کو مآخذ بناکر لکھا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھا ہے۔اور اس تحریر کے متعلق خود مورخ ملت کا بیان یہ ہے کہ
بہرحال احقر کو اپنے متعلق یہ بات یاد ہے کہ وہ جمعیت علمائے ہند کانواں ڈکٹیٹر تھا۔(اس زما نہ کا تمام ریکارڈپولیس کے چھاپو ں اور باقی ماندہ دیمک کی نذر ہوچکا، لہذاپختہ بات عرض کرنی مشکل ہے)علاوہ ازیں ایسی باتیں ریکارڈ میں رکھی بھی نہیں جاتی تھیں۔ ان کو یا تو ذہن میں محفوظ رکھا جاتا یا انفرادی یادداشتوں میں۔“ (الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص/90)
جس کی وجہ سے بعد کے تمام مولف اور مقالہ نگار سے یہ تسامح ہوگیا کہ کچھ سے کچھ لکھتے رہے۔ لیکن راقم نے اصل ریکارڈ تلاش کرکے، مستند جان کاری پیش کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اور اب تک اختصار کے باوجود سو صفحات سے متجاوز ہوچکی ہے۔ یہ تحریر ناچیز کی تالیف”جمعیت علمائے ہند کے سو سال …… قدم بہ قدم، جلد سوم“ کا حصہ ہے۔
جب اس تحریر کو کچھ ارباب علم و دانش کے سامنے تنقید و تبصرہ کے مقصد سے پیش کیا، تو کسی سے یہ تاثر ملا جیسے کہ بھینس کے سامنے بیم بجانے کی غلطی ہوگئی؛ لیکن بعض محقق اہل قلم نے نہ صرف اس تحریر کو سراہا، اور مفید مشورے دیے؛ بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی بھی نصیحت کی۔ ناچیز ان سبھی ارباب ذوق کا شکر گزار ہے۔
ان محقق اہل قلم میں مولانا معز الدین احمد صاحب کے سامنے جب یہ تحریر آئی، تو انھوں نے  بھی حوصلہ افزائی کی اور درج بالا واقعہ میں مذکور خود کے لیے خریدی دو دو کتابیں ناچیز کو بطور ہدیہ پیش کردیا۔ ایسے وقت میں جب کہ ضروریات حیات کے لیے پیسے کی قلت ہے اور  راقم کے لیے شوق طلب کو تسکین دینے کے لیے کتاب خریدنا بھی ضروریات حیات کا ایک حصہ بن چکا ہے؛ دو دو کتابیں ہدیہ کردینا؛ یہ کسی”نزاکت کی معرفت کی صفتشخصیت کا کارنامہ ہی ہوسکتا  ہے، جواپنے ایسے دیگر لوگوں کی بھی بے حد قدر کرتے ہیں اور ان سے مخاطب ہوکر جی اتنا خوش ہوتا ہے کہ تا دیر وہ خوشی قائم رہتی ہے۔
یہ کام ایسے لوگوں کا بالکل نہیں ہوسکتا جو بقول اسلامی اہل قلم ”ان کے برعکس لوگوں سے بات کرکے بہت افسوس ہوتا ہے؛ کیوں کہ یہ لوگ گھوڑے اور گدھے کے فرق کو ذرا بھی در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔
اس لیے مولانا کا دوبارہ تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مولانا معز الدین احمد صاحب کی عمر کو دراز فرمائے اور ہم چھوٹوں پر شفقت و عنایات کا سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے۔

2 Jul 2020

تجارتی شادی کے بھیانک انجام

تجارتی شادی کے بھیانک انجام
محمد یاسین جہازی 9891737350
مکئی اپنی پورے شباب پر تھی،اس کے ہرے بھرے پتے اور بھٹوں کی دراز زلفوں نے مسکرا مسکرا کر منظر کو بے انتہا حسین بنا دیا تھا؛ ساتھ ہی بادل سے آنکھ مچولی کرتے چمچماتی دھوپ اور خنک آمیز پر لطف ہواموسم کو انتہائی خوشگوار بنا رہی تھی۔اتنے پرکیف ماحول میں کھیتوں کے بیچوں مچان کی چارپائی پرلیٹا ہواایک یتیم نہ جانے کس غم میں ڈوب کر پر فریب مناظر کا منھ چڑھا رہا تھا۔وہ موسم کی دل کشی سے بے خبر کسی اور دنیا میں گم سم ہوکر سوچ کی عمیق گہرائی ڈوبا ہوا تھا، تو اسے کیسے پتہ رہتا کہ وہ پرکیف موسم میں ایک اونچے مچان پر ہے۔ اسی دوران ایک نیک صفت آدمی ادھر سے گذرے، انھوں نے پرکیف موسم میں بے کیف یتیم کو دیکھ کر مخاطب ہوا کہ آخر اس بے چینی کی وجہ کیا ہے۔ یتیم نے جواب دیا کہ بارہ تیرہ سال کی عمر میں میرے والد محترم کا انتقال ہوا۔ میں نے اس غم کو برداشت کرلیا۔ یتیمی نے پیروں میں زنجیریں ڈالیں، پڑھائی چھوڑ دی۔ بھکمری نے ستایا، تو نوکری کر رہا ہوں۔ تین چارسالہ بھائی کی پرورش و پرداخت کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے؛ والد محترم نے بینک سے جو بھاری قرض لیا تھا، اس کی قسطیں بھی ادا کرنے کی ہمت ہے مجھ میں؛لیکن میرے دوش ناتواں پر بہن کی شادی کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔…… میں کیسے پورا کروں بھاری بھرکم جہیز کے مطالبہ کو۔ پورے گوتیہ کی دعوت کا انتظام کیسے ہوگا۔ باراتیوں کی سواگت میرے لیے کیسے ممکن ہے۔ سماج کے درجنوں رسوم کی ادائیگی کے لیے میں کیا کروں، کہاں جاوں ……۔ کیا میں خود کشی کرلوں؟۔ عزت کا جنازہ نکلنے سے تو بہتر ہے کہ عزت کے وجود کو ہی ختم کردیا جائے۔ اس بے رحم سماج میں گھٹ گھٹ کر زندہ لاش بن کررہنے سے تو بہتر ہے کہ لاش کا کفن اوڑھ لوں۔ زندگی میں نہیں، تو کم از کم کفن میں دیکھ کر لوگ فاتحہ خوانی کا رحم تو کریں گے ہی۔ …… آپ ہی بتائیے نا، کیا ایک زندگی بسانے کے لیے ایک گھر کو برباد کرنا ضروری ہے؟۔ …… یتیم بولتے بولتے بے قابو ہوگیا، آنکھیں بادل بن گئیں۔ گلے میں خشکی کے تالے لٹک گئے…… اور بالآخر الفاظ نے بھی زبان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ بس آنکھوں میں آنسو تھے، جو رواں تھے۔ ایک بے بسی تھی، جو اس کے پورے وجود پر چھائی ہوئی تھی۔ نیک صفت آدمی نے جب یہ دیکھا کہ اب اس یتیم کی زبان میں تاب گویائی نہیں بچی ہے، اور سارے جذبات نچوڑ کر غم میں تبدیل ہوگیا ہے، تواس نے بولنا شروع کیا کہ زندگی سے ہارمان لینا شیر صفت بچوں کو زیب نہیں دیتا، اور تم تو شیر ہو شیر۔ تم اٹھو اور حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے دوسروں کے لیے مثال بننے کی کوشش کرو۔
بہر کیف اس افسانوی دنیا سے نکل کر حقیقی واقعہ کی طرف آتے ہیں۔ اس نیک صفت آدمی نے پوچھا کہ سر دست تمھارے پاس کیا انتظام ہے۔ یتیم نے جواب دیا کہ میرے پاس  کچھبیگھا کھیت ہے، اس کے علاوہ کوئی سرمایہ حیات نہیں ہے۔ نیک صفت آدمی نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہے۔ تم ایسا کرو کہ یہ کھیت مجھے سود بھرنا پر دے دواور تم ہی اس میں کھیتی بھی کرنا؛ البتہ آدھی پیداوار خود رکھ لینا اور آدھی پیداوار مجھے حوالے کردینا۔ چنانچہ سود بھرنے کا حساب لگایا گیا، تو بھی شادی کے اخراجات پورے نہیں ہوسکے، تو اس یتیم نے اپنے کھیتوں کا اسی قسم کا معاملہ ایک اور شخص سے کیا۔ اور یہ کہا کہ کھیتی بھی میں ہی کروں گا؛ البتہ آدھی پیداوار آپ کو دے دیا جائے گا۔ چنانچہ معاملہ طے ہوگیا۔ان دو معاملے کی وجہ سے ہوتا یہ تھا کہ یتیم کھیتی کرتا تھا اور آدھی پیداوار ایک شخص کو اور آدھی پیداوار اس بزرصفت شخص کو حوالے کردیتا تھا؛ لیکن گھر کے لیے ایک کلو پیداوار بھی نہیں بچاپاتا تھا۔
دو دو شخص سے معاملہ کرنے کے باوجود جب شادی کے اخراجات مکمل نہیں ہوئے، علاوہ ازیں گھر میں بھی پیداوار کا کوئی حصہ نہیں آنے لگا کہ تو یتیم اور پریشان ہوااور اس کی حالت بد سے بد تر ہونے لگی۔ البتہ اس یتیم کے لیے ایک راحت کا واقعہ یہ ہوا کہ جب اس بزرگ صفت کو اس دوسرے معاملہ کا علم ہوا، تو انھوں نے اپنا حصہ لینے سے انکار کردیا اور یہ کہا کہ میرا حصہ بھی تم ہی رکھ لینا۔
ذرا خود کو اس جگہ رکھتے ہوئے سوچیے کہ آپ چھوٹی عمر میں یتیم ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے آپ کی پڑھائی رک جاتی ہے، ساتھ ہی آپ اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کی پرورش کرنے کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ آپ کے والد محترم بینک کا بھاری قرضہ آپ کے سر چھوڑ کے چلے جاتے ہیں۔ پھر جب آپ کی عمر تیرہ چودہ سال کی ہوتی ہے، توآپ کواپنی بہن کی شادی کے انتظامات کے لیے پریشان ہونا پڑتاہے، مزید برآں پورا سماج آپ کو جہیز، لین دین اور دعوت کرنے پر مجبور کرتا ہے، تو بتائیے کہ آپ کی کیا حالت ہوگی۔ کیا آپ خود کشی کے بارے میں سوچنے پر مجبورنہیں ہوں گے……؟
پھر اس کے بعد اس یتیم کی زندگی کا نقشہ یہ بنا کہ والد محترم کے  بینک قرضہ کے ساتھ ساتھ اپنی بہن کی شادی کے قرضوں کے بوجھ تلے دبتا رہا، دبتا رہا اور اتنا دبا کہ بینک نے گھر قرق کرلیے، سماج نے یتیم کی لعنت سمجھ کر ساتھ دینا چھوڑ دیا؛ حتیٰ کہ رشتہ دار بھی کوئی معاملہ کرنے سے اس لیے بچنے لگے کہ یہ پھر ہمیں دے گا کہاں سے، وغیرہ وغیرہ۔
راقم نے جب سے اس یتیم کی کہانی کو سنا اور دیکھا ہے، تب سے مجھے شادی کی رسوم و رواج سے نفرت سی ہوگئی ہے۔ جہیز کے لین دین سے نہ صرف شادی مشکل ہوتی ہے؛ بلکہ اس سے کئی نسلیں متاثر ہوجاتی ہیں۔یتیم خودغریب ہوتا ہے، اس کا بیٹا بھی غریب ہوجاتا ہے اور یہ غریبی کئی نسلوں تک محیط ہوجاتی ہے۔ ایک بات اور بتا دوں کہ جس شخص نے اس یتیم کی بہن سے شادی کی تھی، اور یتیم کو غریبی کے دلدل میں دھکیلنے کا کام کیا تھا، جب اس کی بیٹی کی شادی کا معاملہ آیا، تو راقم نے دولہے کو ماضی کے واقعات بتاکر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ ماضی کے اس کردار کو نہ دھرائیں۔ چنانچہ دولہے نے حقیقت جاننے کے بعد وعدہ کیا کہ اب میری وجہ سے کوئی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے قرضے میں نہیں ڈوبے گا اور نہ ہی وہ اس کی نسلوں کو مقروض ہونے پر مجبور ہونے دے گا۔ چنانچہ اس نے اس یتیم کی بہن کی بیٹی سے شادی کی اور شادی میں ایک ڈھیلا تک لینے سے انکار کردیا۔ اس حقیقت کو جاننے کے بعد کیا آپ بھی کسی کو جہیز دینے، یا لینے کے لیے مجبور کریں گے……؟  میرے خیال سے جس کے دل میں ذرہ  برابربھی انسانیت باقی ہوگی، وہ کبھی رسمی شادی کی حمایت نہیں کرے گا۔ میرا فیصلہ اور عمل تو یہ تھا اور آپ کا……؟۔ 
آج 2 جولائی 2020 کو ایک اور یتیم حضرت مولانا محمد منیر الدین جہازی نور اللہ مرقدہ کی پوتی کی شادی ہے۔ سنا ہے کہ لڑکا حافظ ہے، اس نے اس یتیم خاندان سے ستر ہزار کیش جہیز اور گھریلو سازو سامان کے ساتھ ایک تعداد باراتی لے کرآیا ہے۔ ساتھ ہی گوتیہ نے دعوت کے لیے مجبور کرتے ہوئے کھانا بھی پکوایا ہے۔ اس دعوت میں شریک تمام حضرات سے میری گذارش ہے کہ جس وقت آپ دعوت کا لقمہ اپنے منھ میں ڈالیں گے، تو اس وقت یہ ضرور سوچنا کہ یہ اس یتیم بچی کی دعوت ہے، جس کا باپ دنیا میں نہیں ہے اور نہ جانے کہاں کہاں سے قرضہ کرکے اس کھانے کا انتظام کیا ہے۔ اور دولہے سے کیا کہوں ، جو خود حافظ ہے ، یعنی قرآن اس کے سینے میں محفوظ ہے، اسے مجھے کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہے، بس شادی مبارک ہو اوردعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایسے حالات پیدا نہ کرے۔ آمین۔

1 Jul 2020

اصل ہیرو تو یہ لوگ ہیں

اصل ہیرو تو یہ لوگ ہیں
محمد یاسین جہازی 9891737350
ایک چھوٹے سے قبیلے: قائی قبیلے سے تعلق رکھنے والا ارطغرل، اور شاہی عیش و عشرت کو چھوڑ کر دربدر کی زندگی کو ترجیح دینے والی حلیمہ سلطان؛ کروڑوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن اس لیے بن گئے کہ ارطغرل نے قبیلہ کی نگہ بانی کو خلافت اسلامیہ عثمانیہ کے تاج تک پہنچا دیا۔ اورحلیمہ نے محبت کو امر کرنے کے لیے زندگی کے مصائب و حالات کی کوئی پرواہ نہ کی؛ اس لیے تاریخ میں یہ دونوں ہمیشہ کے لیے ”ہیرو“ بن گئے۔
 مسلمانوں کے سماج نے شادی کو ایک تجارت اور بھیگ مانگنے کا ذریعہ بنالیا ہے؛ اتنے گندے ماحول اور تعفن زدہ سماج میں، زر طلبی کی ہوس و حرص کوٹھوکر مارتے ہوئے شریعت کی سادگی کے ساتھ نکاح کرکے، ایک مردہ سنت کو زندہ کرنا؛ بالیقین بڑی بہادری اور ہیرو گیری کا کام ہے۔اور جن لوگوں نے ایسا کیا ہے؛ وہ اس کے حق دار ہیں کہ انھیں ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات میں زندہ جاوید کردیا جائے۔ چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر آئیے ہم آپ کو متعارف کراتے ہیں، ایسے ہی چند عظیم ہیرو سے، جنھوں نے انتہائی سادگی کے ساتھ نکاح کرکے یہ پیغام دیا کہ زندگی کا اصل لطف محبت میں ہے؛ شادی کی تجارت میں نہیں۔
ہیرو نمبر۶: مفتی محمد سفیان ظفر صاحب قاسمی جہازی
میری جان کاری کے مطابق گڈا و اطراف کے علاقہ میں نئی نسلوں میں مفتی صاحب وہ پہلی شخصیت ہیں، جنھوں نے تمام رسوم و رواج اور لین دین پر لعنت بھیجتے ہوئے، مدرسہ اشرف المدارس رحمان ڈی کے جلسہ میں بہت ہی سادگی کے ساتھ …… 2020میں الحاج مولانا یونس صاحب کیتھپورہ کی صاحب زادی سے نکاح کیا۔ ان کا نکاح مولانا تشریف صاحب پلواڑہ غازی آباد نے پڑھایا۔
ہیرو نمبر ۵: مولانا عبد القیوم صاحب قاسمی جہازی
مولانا کا نکاح، علاقہ کا ایک بڑا دینی ادارہ مدرسہ اسلامیہ سین پور کے مہتمم مولانا محمد نعمان صاحب کی صاحبزادی سے 15مئی 2013میں ہوا۔ اگرچہ مہتمم صاحب نے اپنے لڑکے کی شادی میں جتنی مذموم حرکتیں ہوسکتی تھیں، ان کو کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی؛ لیکن اس سے پہلے، جب مولانا عبد القیوم صاحب نے ان کی صاحبزادی سے نکاح کیا، تو چند لوگوں کے ہمراہ جاکر نکاح پڑھ آئے اور ساتھ ہی دلہن کو بھی رخصت کرالیا۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی شادی میں جو کیا اور اس کا جو بھی انجام ہوا، اس کو دھرانے کا یہ موقع نہیں ہے؛ لیکن مولانا عبد القیوم کی فیملی لائف آج بھی خوش و خرم ہے۔
ہیرو نمبر۴: مفتی محمد نظام الدین قاسمی جہازی مہتمم مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ
مفتی محمد نظام الدین صاحب کے سامنے کئی بڑے بڑے آفرز آئے؛ لیکن انھوں نے اپنی شادی کے متعلق ناچیز سے مشورہ کیا اور خود ہی ایک یتیم لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔چنانچہ میں نے اپنے نظریے کے مطابق یتیمی رشتہ کا مشورہ دیا؛ چنانچہ مفتی صاحب نے سماج کی لعنتوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے حافظ سخاوت صاحب مرحوم بسنت رائے کی صاحبزادی سے سادگی کے ساتھ جمعہ کی محفل میں نکاح کیا۔ آپ کا نکاح مشہور صوفی شخصیت مولانا احمد نصر بنارسی صاحب نے پڑھایا۔ یہ بابرکت نکاح 15اگست 2013میں ہوا۔
ہیرو نمبر۳: مفتی محمد زاہد امان قاسمی مہتمم جامعہ خدیجۃ الکبریٰ بسنت رائے
”چٹ منگنی، پٹ بیاہ“ کا پھکڑا آپ نے بہت سنا ہوگا؛ لیکن میں نے اسے دیکھا ہے۔ مفتی زاہد صاحب کے نکاح کے تعلق سے 8فروری 2014کو صبح نو بجے بات شروع ہوئی۔ گیارہ بجتے بجتے نکاح طے ہوگیا۔ تین بجے نکاح کی تاریخ متعین کردی گئی۔ اور اسی دن شام کو پانچ ساڑھے پانچ بجے پرسہ کے اجتماع میں بعد العصر نکاح ہوگیا۔ نکاح کے بعد لڑکی والوں کی طرف سے یہ پیغام ملا کہ شام کو پندرہ بیس لوگوں کی زبردست دعوت ہے۔ دولہے اور ناچیز میں آپسی صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے ہوا کہ جب لڑکی والوں کے یہاں کھانا ہی نہیں ہے، تو پھر سادگی کے باوجود یہ کھانا کیوں؛ چنانچہ ہم دونوں اجتماع کی اختتامی دعا سے پہلے ہی بھاگ آئے اور موبائل سوچ آف کرکے گمنام جگہ پر رات گذاری۔ اگرچہ بے صبری سے دعوت اڑانے والوں نے برا بھلا کہا؛ لیکن رسم کی ادائیگی کو بالکل بھی برداشت نہیں کیا گیا۔ آپ کا نکاح ڈاکٹر سلیم الدین صاحب سانچپور سانکھی کی صاحب زادی سے ہوا۔
ہیرو نمبر۲: مولانا محمد تحسین قاسمی جہازی
علاقے میں ہم لوگوں نے سادی شادی اور جہیز کے خلاف جو تحریک چھیڑ رکھی تھی، اس میں میرے چھوٹے بھائی عزیزم تحسین سلمہ نے نہ صرف دل سے قبول کیا؛ بلکہ اس کے محرک اور عملی مثال پیش کرنے والے بھی بنے۔ سلمہ کے کئی بڑے چھوٹے رشتے آئے؛ لیکن نگاہ طلب اچانک آنے والے اس رشتہ پر ٹھہر گئی، جو نہ صرف خود سادگی کے حامی تھے؛ بلکہ کئی صاحبزادیوں کے ابو جان ہونے کی وجہ سے سماج سے بہت زیادہ دکھی تھے۔ چنانچہ ایک دو دن کی گفتگو کے بعد نکاح طے ہوگیا اور نہایت سادگی کے ساتھ، ایک مسجد میں 30جون 2020کو حیدرآباد میں مقیم مولانا عبد الحمید صاحب سرسی کی صاحبزادی سے ہوگیا۔
ہیرو نمبر ون: جناب جمال صاحب جہازی
یہ میرے نزدیک ہیرو نمبر ون ہیں۔ اوپر جتنے لوگوں کا تذکرہ ہوا، وہ یا تو مولوی ہیں یا مفتی ہیں؛ لیکن یہ نام نہ تو عالم اور نہ ہی مفتی؛ اس کے باوجود انھوں نے سادگی اور سنت کو حرز جان بنایا؛ اس کے لیے انھیں اپنے گھر والوں کی مخالفت بھی سہنی پڑی اور گھر نکالا بھی دیا گیا، اس کے باوجود اپنے فیصلے پر اٹل رہے اور سادگی کے ساتھ اور وہ بھی ایک طلاق یافتہ سے شادی کرکے مثال قائم کردی۔ واقعہ یہ ہوا کہ ڈلیوری کیس میں ان کی پہلی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ اس کے کچھ مہینے کے بعد شادی کا معاملہ سامنے آیا۔ راقم ”اگوا“ بنا۔ اور تین کنواری لڑکیاں اور ایک طلاق یافتہ لڑکی کے رشتہ کی پیشکش کی گئی۔ اس کے علاوہ خود ان کے ایک رشتہ دار کی طرف سے پانچ لاکھ نقد کیش کا آفر بھی ملا۔ ان تمام چیزوں کے باوجود مجھ سے مشورہ طلب کیا۔ ناچیز نے نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث سنائی اور کہا کہ اس مردہ سنت کو زندہ کرنے کی وجہ سے سو شہیدوں کا درجہ ملے گا۔اور سماج کے خلاف سنتی شادی کرنے کا ثواب الگ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہمارے آقا کا یہ فرمان ہے، تو پھر چھوڑیے کنواریوں کو اور پیچھے دھکیل دییجیے پانچ لاکھ کے آفرکو؛ میں تو سو شہیدوں کا ثواب حاصل کرنے کے لیے مطلقہ سے شادی کرنے کو رواج دوں گا۔ اس عزم کو دیکھتے ہوئے، گھر اور سماج کی مخالفت کا خدشہ بتایا گیا۔ انھوں نے تمام مخالفتوں کا سامنے کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے اسی رشتہ کو ترجیح دی۔ چنانچہ شادی کی تاریخ طے کردی گئی اور وقت آنے کا انتظار کیا جانے لگا۔
۲ / ستمبر2017عید الاضحی کے دن، نماز عید کے بعد عیدگاہ کے محراب کے پاس نکاح کی محفل سجی۔ سیکڑوں لوگوں اور درجنوں علمائے کرام کی موجودگی میں خطبہ نکاح پڑھا گیا۔ ا ن کے بڑے بھائی مسلسل اختلاف کرتے رہے، حتیٰ کہ مائک کو چھین کر پھینک دیا، اس کے باوجودنکاح خواں حضرت مولانا قاری عبدالجبار صاحب قاسمی صدر شعبہ خطاطی دارالعلوم دیوبند نے یہ کہا کہ……کیا آپ نے قبول کیا،تو دولہا میاں نے اپنے عزم کا اعلان کرتے ہوئے بآواز بلند کہا کہ ”ہاں میں نے قبول کیا“۔ اس آواز پر اہل دل نے خوشی کے تالی بجائے اور جہیز کے بھوکے بھیڑیوں کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگا۔
شادی کے بعد عید گاہ سے گھر لوٹے، تو امی نے برے بھلے الفاظ سے دھتکارتے ہوئے گھر سے نکال دیا۔ اور اس پروگرام میں شامل شریک لوگوں کو بھی صلواتیں سنائیں۔ بہرکیف ان تمام مزاحمتوں کے باوجود وہ اپنے فیصلہ پر قائم رہے اور آج بھی خوش و خرم پاکیزہ زندگی گذار رہے ہیں۔ اور ہزاروں ایسے نوجوانوں کے لیے ہیرو بنے ہوئے ہیں، جو اپنی شادی کو پرمسرت اور سادہ بنانا چاہتے ہیں۔اگر یہ کام کوئی عالم کرتا، تو تعریفی عمل ہونے کے باوجود اتنا تعریفی کام نہیں ہوتا؛ جتنا کہ ایک غیر عالم شخص نے محض نبی اکرم ﷺ کی ایک متروک العمل حدیث سن کراس پر عمل کرنے کا تہیہ کیا اور ہمیشہ کے لیے مثال بن گئے۔ معاشرے کو ایسے نوجوانوں کو سلام کرنا چاہیے۔
معلومات کے لیے عرض کردوں جس مطلقہ سے جمال صاحب نے شادی کی، وہ دو دن کے لیے ایک ایسے عالم کی بیوی بنی تھی، جو اپنے نام کے آگے مظاہری کا لاحقہ لگاتے ہوئے مولانا امتیاز گھٹیانی کہلاتے ہیں۔ اور ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا کے والد ماشاء اللہ حاجی بھی ہیں؛ یعنی حاجی سمیر پہلوان گھٹیانی صاحب۔ شادی کے دوسرے ہی دن اس بات پر جھگڑا شروع ہوگیا کہ موٹر سائیکل اور گھر کے سارے سازو سامان تو مل گئے؛ لیکن مزید ایک لاکھ روپے دینا ہوگا۔ لڑکی کے والد اپنی بچی کی زندگی کو دیکھتے ہوئے دینے کے لیے تیار بھی ہوگئے؛ لیکن حاجی صاحب مصر تھے کہ پیسہ حاجی کے ہاتھ میں دیا جائے؛ جب کہ مولانا شہاب الدین صاحب کھیتپورہ کا کہنا تھا کہ پیسہ میں اپنی بچی کے اکاونٹ میں دوں گا۔ بس اسی بات پر بات بڑھی اور مظاہری صاحب نے دوسرے دن ہی ایک سانس میں تینوں طلاق دے ڈالی۔ …… اور بھیک کی ساری امید پر خود ہی پانی پھیر دیا۔
مجھے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ میں ”ہیرو“ کی اس ترتیب میں سے کسی نمبر پر نہیں آسکا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میری شادی 27جون 2012میں پھوپھا کی صاحبزادی سے ہوئی۔ میرا ارادہ سادگی والا نکاح کا تھا؛ لیکن گارجین اور معاشرے نے ایسا کرنے نہیں دیا۔ میں نے مخالفت کی۔ لیکن گھر والوں نے کہاکہ میری بات نہیں مانو گے، تو گھر سے نکل جاو۔ میں گھر سے نکل گیا، تو پھر گھر والے ہی ڈھونڈھ کر لائے اور مختصر سہی؛ لیکن برات لے کر چلے گئے اور جزوی رسموں کی کراہت کے ساتھ نکاح کرادیا۔ …… میری اس طرح کی شادی پر مجھے آج بھی افسوس ہے۔ کاش میرے ساتھ بھی میرا کوئی ساتھی یا رشتہ دار کھڑا ہوتا، اور سادگی کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دیتا، تو اپنے بارے میں فخر کے ساتھ کہتا کہ ’ہاں میں بھی ہیرو ہوں‘۔ اس فہرست میں نام نہ آنے پر میں خود کے ساتھ گارجین کو بھی مورد الزام ٹھہراوں گا، جنھوں نے مجھے ایساکرنے نہیں دیا۔
بہرکیف! درج بالا حضرات بالیقین سماج اور بالخصوص نوجوانوں کے لیے آئیڈیل اور قابل تقلید ہیرو ہیں، جنھوں نے سماج کی لعنتوں کو دھتکارتے ہوئے اسوہ نبی ﷺ کو زندہ کیا اور ہمیشہ کے لیے تاریخ کے ہیرو بن گئے۔ راقم ان تمام حضرات کو اس مقام کے لیے تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہے۔