29 Mar 2019

Gali dena ka Saheeh Tareeqa Daryaft

گالی دینے کا صحیح طریقہ دریافت
محمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
انسان تو انسان ؛ اور جانور بھی بہت دور کی بات ہے؛ چھوٹے موٹے موذی کیڑے؛ آپ کو کاٹ بھی لیں، تو بھی اسلامی تعلیمات اسے برا بھلا کہنے اور گالی دینے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی محفل میں ایک شخص کو مچھر نے کاٹ لیا تو وہ اس پر لعنت بھیجنے لگا، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مچھر کو گالی مت دو،کیوں کہ اس نے ایک نبی کو نماز فجر کے لیے جگایا تھا۔ 
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالکٍ، أَنَّ رَجُلًا لَعَنَ بُرْغُوثًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:لَا تَلْعَنْہُ، فَإِنّہُ أَیْقَظَ نَبِیًّا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ لِلصَّلَاۃِ۔ (الادب المفرد، باب لاتسبوا البرغوث، قال الشیخ الالبانی: ضعیف)
ایک دوسری حدیث میں مرغے کو گالی دینے پر تنبیہہ کی گئی ہے ارشاد نبوی ہے کہ مرغے کو گالی مت دو، کیوں کہ وہ نماز کی دعوت دیتا ہے۔ 
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’لَا تَسُبُّوا الدِّیکَ فَإِنَّہُ یَدْعُو إِلَیٰ الصَّلَاۃِ۔ (مسند ابی داؤد الطیالسی، باب اسند عن زید بن خالد)
مچھر، مرغ تو ذی روح مخلوق ہیں؛ نبوی تعلیمات غیر ذی روح کو بھی گالی دینے سے منع کرتی ہیں۔ چنانچہ حدیث قدسی ہے کہ زمانہ کو برا بھلا مت کہو ، کیوں کہ زمانہ تو میں ہی ہوں۔ ہوا کو گالی مت دو ، کیوں کہ وہ اللہ کے حکم سے چلتی ہے۔ 
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ: یُؤْذِینِي ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدّھْرَ وَأَنَا الدَّھْرُ، بِیَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنّھَارَ۔(بخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب: وما یھلکنا الا الدھر الجاثیۃ، ۲۴)
لا تَسُبُّوا الرِّیحَ ۔ (الترمذی، ابواب الفتن،باب ما جاء فی النھی عب سب الریح)
ان تعلیمات سے یہ واضح ہوگیا کہ زبان سے گندے الفاظ نکالنا، اور غیر ذی روح کو بھی گالی دینا اسلامی اخلاق و تعلیم کے منافی ہے۔ اور جب ان چیزوں کے ساتھ معاملہ ایسا ہے، تو پھر انسان ، جس کی توقیر و تعظیم ضروری ہے، اسے گالی دینا شرافت و نجابت سے گری ہوئی بے شعور ذہنیت کی ہی اپج ہوسکتی ہے۔ 
ان تعلیمات کے باوجود ہم کبھی کبھار اس بے شعور ذہنیت کے عملی مجسمہ بن جاتے ہیں ، اور اپنی زبان سے ان تمام گندگیوں کو گذار دیتے ہیں، جن کا تصور بھی تعفن خیز ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر گالی دینا ہماری فطرت بن جائے، تو ہم آپ کے لیے ایک نایاب فارمولہ لائے ہیں۔ ہمارا عندیہ ہے کہ اگر اس فارمولہ پر عمل کریں گے، تو بالیقین گالی دینا ، آپ کے لیے عذاب جان بن جائے گا اور آپ ایسی توبہ کرلیں گے کہ اس تو بہ کی تقلید کرنے والے کی بھی گالی دینے کی فطری عادت بدل جائے گی ۔
ڈاکٹر کلیم عاجز نے ہمیں سکھایا ہے کہ 
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کرنے کا سلیقہ چاہیے
تواس کا فارمولہ یہ ہے کہ گالی کے کسی بھی لفظ سے پہلے، ’’تیری‘‘ کے بجائے ’’ میری ‘‘ لگاکر گالی دیا کریں۔ 
ہمیں امید ہی نہیں؛ یقین ہے کہ گالی دینے کا یہ نایاب طریقہ آپ کی فطرت بدل کر رکھ دے گا۔ اگر ہمیں گالی دینے کی عادت ہے، تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس فارمولہ پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی کرے، اللہم آمین یا رب۔

22 Mar 2019

رمضان میں ووٹنگ۔۔۔ کیا یہ سازش ہے؟ ایک ووٹ ستر ووٹوں کا کرشمہ بھی توکرسکتا ہے

حمد یاسین جہازی، جمعیت علمائے ہند
بہانہ جواور ذمہ داری کی جواب دہی سے بے شعور فرد، اسی طرح فکری مفلوک قوموں کی ہر بے عملی اور ناکامی کے پیچھے غیروں کی سازش نظر آتی ہے۔ راقم نے جب سے ادراک سنبھالا ہے، تب سے یہی سنتا آیا ہے ؛ حتیٰ کہ مثبت اور تعمیری ایجادات میں بھی یہود و نصاریٰ کی سازش کا ہی عقیدہ رکھتے ہیں۔حقیقی واقعہ ہے کہ ایک مسجد کے صحن میں بیٹھا تھا، قریب میں دو عمر رسیدہ افراد محو گفتگو تھے ۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ وضو کے لیے بنائی گئی یہ ٹوٹیاں بھی یہودی سازش کی تخلیق ہیں، کیوں کہ اس سے لوٹے کی بنسبت پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ ادنی عقل و شعور کا حامل شخص بھی ایسی فکری دو رنگیوں کے مناظر سے اچنبھے میں پڑ جاتے ہیں کہ اگر سازش ہے، تو اس کا حصہ کیوں بنتے ہیں۔۔۔ ؟ کیا کسی یہودی نے آپ کو مجبور کیا تھا کہ اپنی مسجد میں آپ ٹوٹی لگائیں۔۔۔ ؟
آ ج کل مسلمانوں کا ایک طبقہ جوفیس بک یونی ور سیٹی اور واٹس ایپ کالجز سے بے سند یافتہ فضیلت کیے ہوئے ہیں، کا ماننا ہے کہ رمضان میں ووٹنگ در اصل بی جے پی ، آر ایس ایس اور ہندو راشٹر واد کے لیے کوشاں افراد کی تخریبی ذہنیت ہے۔ اس میں کتنی سچائی ہے، یہ کہنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ پارلیمنٹری الیکشن کے سسٹم اور تاریخی دورانیہ سے جو لوگ واقفیت رکھتے ہیں، وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ یہ سازش نہیں؛ بلکہ سسٹم کا میعادی دورانیہ ہے، جسے عام حالات میں آگے پیچھے نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے باوجود ، عام لوگ تو عام لوگ ہیں، خود کو موقر کہلانے والے کچھ اخبارات اس عنوان سے مستقل کالم اور مراسلہ لکھواکر مسلمانوں کے جذبات کی خدمت کے نام پر جو صفحات سیاہ کررہے ہیں، آپ اسے کیا کہیں گے۔۔۔ ؟ ۔
حالاں کہ اس موقع پر دیگر کئی اہم مسائل تھے، جنھیں اگرموضوع بحث بناکر خصوصی اشاعتیں کی جاتیں،تو بالیقین امت کو بڑا فائدہ ہوتا۔ مثلا ، رمضان میں مدارس میں چھٹیاں ہوتی ہیں اور اکثر اساتذہ سفارت کے سفر پر نکل جاتے ہیں۔ حفاظ کی بڑی تعداد تراویح کے لیے دوسری جگہوں پر رمضان گذارتے ہیں۔ حلقہ تصوف سے وابستہ افراد اپنے شیوخ کی خدمت میں اعتکاف کے لیے محو سفر ہوتے ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد ، گھریلو، معاشی ، چھٹی اور دیگر ضروریات کی وجہ سے اپنے ووٹنگ بوتھ سے دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور اس قسم کے کئی دیگر مسائل پر بحث و گفتگو کرکے اس کا مناسب حل نکالنے اور ووٹ ڈالنے کی مہم چلاتے، تو یہ زیادہ کارگر بحث ہوتی۔ ۔۔۔ لیکن کیا کریں، ہمارے کچھ وہ مسائل جن کا حل خود ہمارے پاس ہے، ان کے حل کرنے کی باتیں کریں گے، تو سماج کا مفکر طبقہ یہی کہے گا کہ ۔۔۔ارے یہ تو سازش ہے۔۔۔!!۔
راقم کا ماننا ہے کہ رمضان برکتوں کا پربہار موسم لاتا ہے۔ اس میں نوافل فرائض کے درجات حاصل کرلیتے ہیں ۔ اور ہر ایک فرض ستر فرضوں کا عوض بن جاتا ہے۔ تو بھلا کیا پتہ ۔۔۔رمضان میں ایک مسلمان کا ایک ووٹ ۔۔۔ سترووٹوں کا کرشمہ کرجائے ۔ اور اس طرح سے ظالم و جابر حکمراں سے آزاد ہونے کا خوب صورت موقع میسر آجائے۔ اس لیے ناچیز درخواست گذار ہے کہ کسی بھی مسئلے کو لے کر جذباتی ہونے سے پہلے غوروفکر کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ صحیح مسئلہ اور فیصلے پر ہمیں اکساکر ہماری غلط شبیہہ بنانے کی منظم سازش ہورہی ہے ۔ اور اس طرح سے ہم سازش سے پاک کام میں ہمیں غلط طور پر شامل کرکے ہمارے خلاف تو سازش نہیں کی جارہی ہے ۔ ۔۔۔ یہ سوچنا ضروری ہے کہ ۔۔۔کیوں کہ قرآن بارہا ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ۔۔۔افلا تدبرون۔۔۔ افلا تعقلون۔۔۔۔

15 Mar 2019

مجھے ایک ٹرانسلیٹر چاہیے:خفتہ بزرگ کی کرب آمیز اپیل


مزاروں پہ آویزاں مختلف زبانوں کے خطوط کو سمجھنے کے لیے بزرگ کی فریادمحمد یاسین جہازی
جب کوئی قوم فکری دیوالیہ پن کی شکار ہوجاتی ہے، تو چاہے فکرو دانش میں کتنی ہی لچرو پوچ حرکت کیوں نہ ہو، اسے جذباتیت کی تسکین اور ایمان کی تکمیل کا حصہ سمجھنے لگتی ہے۔ یہ حرکت اور اس کے پیچھے چھپے عقیدے ؛ اسلام کے نقطہ نظر سے دونوں غلط ہیں۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر ۷۳ میں ہے کہ و الذین اذا ذکروا بآیات ربھم لم یخروا علیھا صما و عمیانا۔ اور جب انھیں اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے، تو وہ ان پر بہرے اور اندھے بن کر نہیں گرتے۔ اس کی تفسیر میں صاحب تفسیر بغوی اور علامہ طنطاوی تفسیر وسیط میں لکھتے ہیں کہ مومنین کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ محض دین کی بات سن کر اندھے بہرے ہوکر تقلید نہیں کرتے، جب تک کہ وہ یہ نہ دیکھ لیں کہ ایا وہ عقلی طور پر بھی صحیح ہوسکتی ہے یا نہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ہر کسی سے سنی ہوئی باتوں کو دین سمجھ کر اسے ایمان و تسلیم کا حصہ نہیں بنانا چاہیے ۔ اس میں خود بھی غور کرکے دیکھنا چاہیے کہ ایسی بات صحیح ہوسکتی ہے یا نہیں۔ ایک حدیث میں پیروکاران اسلام کے لیے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ۔ غیر ضروری چیزوں سے پرہیز مسلمان کے کردار کو خوب صورت بناتا ہے۔ اسلام کی ان تعلیمات کے جاننے کے بعدہمارے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ یوں تو زندگی میں ہم کئی لایعنی کام کرتے ہیں، جسے دیکھ کر ادنیٰ شعور و آگہی رکھنے والا فرد یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ’’ کیا یہی اسلام ہے!‘‘ ۔ ’’ کیا اسلام میں اس کی گنجائش ہوسکتی ہے!‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں سے ہمارا ایک کام یہ بھی ہے کہ ہم اپنی حاجت روائی کے لیے اللہ کے علاوہ بزرگ کے مزار پر بھی جاتے ہیں۔ اگر معاملہ صرف جانے تک رہتا تو بھی غنیمت تھی؛ لیکن ہم اس سے آگے کیا کرتے ہیں کہ اللہ سے مانگنے کے بجائے بابا بزرگ سے ہی مانگنے لگتے ہیں۔ چلو کسی حد تک مان لیتے ہیں کہ یہ بھی درست ہوسکتا ہے، لیکن غضب تو تب ڈھاتے ہیں، جب ہم اپنی فریادیں ایک کاغذ پر لکھ کر مزار کی دیوار پر لٹکا آتے ہیں۔ چلو اسے بھی مان لیتے ہیں کہ بابا کو جب فرصت ملے گی تو پڑھ کر ہماری حاجت روائی کردیں گے۔ لیکن بزرگ بابا آج تک حیران و پریشان ہے کہ ان چٹھیوں کو پڑھیں کیسے۔۔۔ ؟ کیوں کہ بھارت کی بات کریں، تو اکثر بابا بزرگ کے بارے میں یہی بتاتے ہیں کہ وہ عرب ایران توران سے آئے تھے، تو ان کی زبان تو عربی فارسی وغیرہ تھی، تو یہ بابا تو وہی خطوط پڑھ پائیں گے، جو عربی فارسی میں لکھے ہوئے ہوں۔ یا پھر ان زبانوں میں ہوں، جو زبان ان کے یہاں بھارت میں آبسنے کے وقت رائج تھی اور جو زبان انھوں نے سیکھی تھی۔ اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ اس وقت نہ تو آج کی اردو تھی، نہ ہندی تھی اور انگریزی تو تھی ہی نہیں۔ اور آج ہم جو خطوط بابا کو بھیج رہے ہیں، وہ زیادہ تر ہندی، اس سے کم انگریزی اور اس سے بھی کم اردو میں لکھ کر بھیج رہے ہیں۔ اور بابا ہیں کہ خطوط سمجھنے کے لیے ہی بہت پریشان ہیں ، انھیں کوئی ٹرانسلیٹر ہی نہیں مل رہا ہے ۔ تو جب بابا ہمارے خطوط ہی نہیں سمجھ پار ہے ہیں اور انھیں کوئی ٹرانسلیٹر بھی نہیں مل رہا ہے، تو بھلا بتائیے سہی ۔۔۔ بابا ہماری حاجت روائی کیسے کرے اور ہماری درخواستوں پر کیسے غور کرے۔۔۔۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ بابا مزاری سے کی گئی ہماری کوئی بھی درخواست قبول ہی نہیں ہورہی ہے اور ہم آج بھی اتنے ہی پریشان ہیں، جتنے کہ درخواست بھیجنے سے پہلے تھے۔ اسلامی ہدایت کے مطابق حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے لیے علاوہ کسی اور کو ایسا سمجھنا کفرو شرک کے مترادف ہے، بھلا بتائیے جو انسان زندہ ہونے کی صورت میں ہر ایک کی ضرورت پوری نہیں کرسکتا اور نہ ہی ہر زبان پڑھ سکتا ہے، بھلا وہ مرنے کے بعد ، جب کہ خود کی حرکت کے لیے وہ دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔۔۔ ہماری حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے۔۔۔ افلا تعقلون !!!!۔ x

8 Mar 2019

آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔

آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔
محمد یاسین جہازی، خادم جمعیۃ علماء ہند


ایک دوسرے کی دعوت کرتے رہنا ، اسلامی تعلیمات کا ایک اہم باب ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ سے جب دریافت کیا گیا کہ کونسا اسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے یہی جواب دیا کہ کھانا کھلانا بہترین اسلام ہے۔عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الإِسْلاَمِ خَیْرٌ؟ قَالَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ۔ (صحیح البخاری،کتاب الایمان، باب اطعام الطعام من الاسلام)ایک مومن کی شان کرم و سخا یہی ہے کہ اپنی ضرورت و خواہش کے باوجود ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتا ہے ۔ اور اس کے بدلے اس کا معاوضہ تو بہت دور کی بات ہے، شکریہ ادا کرنے کی بھی تمنا دل میں نہیں رکھتا ۔وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا ویَتِیمًا وَأَسِیرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیدُ مِنکُمْ جَزَاءً وَلَا شُکُورًا (9)( سورۃ الانسان)کائنات عالم میں سب سے زیادہ سخی خود نبی اکرم ﷺ تھے، بعد ازاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔ اسی طرح ان حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت میں بھی ایک دوسرے کی دعوت کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ یوں تو دعوت کرنے کا کوئی وقت معتین نہیں ہے، آپ کا جب جی چاہے، کسی کی دعوت کرسکتے ہیں، اس کے باوجود زندگی کے کچھ اہم موڑ ایسے ہیں، جہاں اسلام یہ رہنمائی کرتا ہے کہ اپنی خوشی کے اظہار یا بھوکے پیاسوں کو کھلانے کے لیے اپنے دوستوں، رشتوں اور ضرورت مندوں کی دعوت کرنا چاہیے۔ فقہی اصطلاحات کے اعتبار سے دعوت کی تین قسمیں ہیں: مستحب، سنت اور واجب۔ (۱) مستحب دعوت(۱) عقیقہ کی دعوت: بچے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار فطرت کا تقاضا ہے ، اس لیے شریعت کہتی ہے کہ اس خوشی میں اپنے احباب کو بھی شامل کرنا چاہیے اور ساتویں دن ان کی دعوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ عقیقہ عام دعوت کی طرح ہی ایک دعوت ہے، لیکن ہم نے اپنے بے جا رسوم و رواج کی زنجیروں میں قید کرکے اسے مشکل بنادیا ہے۔ہر علاقے میں الگ الگ رسمیں ہیں، بعض علاقے میں دیکھا گیا ہے کہ عقیقہ اسی وقت درست مانا جاتا ہے،جب تک کہ دعوت میں شریک سبھی افراد کو کپڑے اور قیمتی تحفے نہ دے دیے جائیں۔ یہ سب غلط چیزیں ہیں۔ وسعت کے مطابق محض دعوت کردینا کافی ہے۔(۲) افطاری کی دعوت: رمضان المبارک میں افطاری کی دعوت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس لیے ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ روزہ داروں ؛ بالخصوص مسافر روزے داروں کو افطاری کرائیں، اور اس طرح سے روزہ رکھنے کا ڈبل ثواب حاصل کریں۔(۲)سنت دعوتدعوت ولیمہ: ولیمہ کی دعوت کے پیچھے اسلام کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مرد کو عورت پر دو وجہ سے حاکمیت بخشی ہے: (۱) کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے حاکم و محکوم کا رشتہ ضروری ہے، اس لیے ایک کو حاکم اور دوسرے کو محکوم بنادیا گیا ہے۔ (۲) چوں کہ مرد مال خرچ کرتا ہے، اس لیے خرچ کرنے والا خرچ کیے جانے والے سے اونچا مقام رکھتا ہے۔ اخراجات چوں کہ مرد کے ذمہ ہے ، اس لیے ولیمہ کے اخراجات بھی مرد ہی کے ذمہ ہوں گے۔ علاوہ ازیں فرمان نبوی کے بموجب لڑکی رحمت ہے ۔ اور شادی کے بعد جب رحمت لڑکے کے گھر آئی ہے، تو اس کی خوشی کے اظہار کے لیے ولیمہ کرنا مسنون قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے ہمیں ولیمہ کی دعوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ لیکن آج کل ولیمہ کی دعوت ، دعوت کم اور بزنس زیادہ بن چکی ہے، لفافہ کا رواج اور اس میں مقابلہ آرائی کی ذہنیت ، اسی طرح کم لفافہ پیش کرنے والے کو حقیر اور ثانوی حیثیت دینے کے رجحانات سے سنت کے بجائے لعنت کا سبب بنتا جارہا ہے۔ اسی طرح جب ولیمہ کا کھانا بچ جاتا ہے یا خراب ہونے لگتا ہے، توتب ہم مدرسے کے بچوں کو کھلانا ثواب کا کام سمجھتے ہیں؛ ایسارویہ عذاب الٰہی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سے پرہیز ضروری ہے۔ (۳) واجب دعوتدرج بالا تمام دعوتیں اختیاری دعوتیں ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ دعوت کریں گے، تو اس کا ثواب ملے گا ۔ اور اگر نہیں کریں گے، تو کوئی بات نہیں؛ لیکن اسلام نے کچھ لازمی دعوتیں بھی رکھی ہیں،جنھیں انسان کو کرنا ضروری ہے، تاکہ آپسی ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ فروغ پاسکے ، اس کی تفصیلات پیش ہیں: (۱) مہمان کی دعوتفرمان نبوی علیہ السلام کے مطابق ایک دن اور ایک رات مہمان کا اعزازو اکرام اور دعوت کرنا واجب ہے۔ اس کے بعد تین دن تک سنت ہے۔ بعد ازاں مستحب ہے۔ ( بخاری، کتاب الادب،باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ) (۲) روزہ کے کفارہ کی دعوتاگر کوئی اتنا بوڑھا ہوگیا ہے کہ رمضان میں روزہ رکھنے کی قدرت باقی نہیں رہی اور نہ ہی یہ امید ہے کہ آگے قدرت لوٹ پائے گی ، تو ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ ہر روزہ کے بدلہ غریبوں کی دعوت کرے۔ (البقرہ، آیت ۱۸۴) (۳) قسم کے کفارہ کی دعوتکسی نے صحیح قسم کھائی اور اس کو پورا نہیں کرپایا، قسم حانث ہوگیا، تو اس کے کفارہ کے لیے ضروری ہے کہ دس غریبوں کی دعوت کرے۔ (المائدہ، آیت ۸۹) (۳) حالت احرام میں شکار کے کفارہ کی دعوتاگر کوئی شخص حالت احرام میں تھا اور اس نے کوئی جانور شکار کرلیا، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسی جیسا جانور کی قربانی حرم میں کرکے فقیروں کی دعوت کرے۔(المائدہ، آیت ۹۵) (۴) ظہار کے کفارہ کی دعوتکسی نے اپنی بیوی کو کسی محرمات کی عورت سے تشبیہ دے دی، مثلا یہ کہہ دیا کہ تو میری ماں کی طرح ہے، تو شریعت میں اسے ظہار کہا جاتا ہے۔ اس سے بیوی ماں کی طرح حرام ہوجاتی ہے۔ زوجیت کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے اس سے رجوع کرنا ضروری ہے؛ لیکن جب رجوع کریں گے، تو ظہار کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ اور وہ کفارہ یہ ہے کہ غلام آزاد کرے۔ آج کل چوں کہ غلام نہیں ہے، اس لیے دوسرا حکم یہ ہے کہ دو مہینے مسلسل روزے رکھے۔ لیکن اگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے، تو دو وقت پیٹ بھر کر ، ساٹھ غریبوں کی دعوت کرنا ضروری ہے۔ (المجادلہ، آیت : ۴) خلاصہ کلام یہ ہے کہ سماجی نفسیات کے تناظر میں اسلام دعوت کرنے کرانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور انسان کے حسب ضرورت مستحب، سنت اور واجب قرار دیتا ہے۔ ان تمام دعوتوں کے پیچھے داعی کا دل اس جذبہ سے لبریز ہونا ضروری ہے کہ وہ محض رضائے الٰہی اور حکم خداوندی کی تعمیل میں دعوت کر رہا ہے۔ اگر دل میں ذرا سا بھی مفاد خوری تو دور ؛شکر طلبی کی تمنا بھی آگئی، تو آپ کی دعوت ، رحمت اور ثواب کے بجائے لعنت اور عذاب کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس لیے آئیے ہم سب اپنے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خالص دل سے ایک دوسرے کے ساتھ یہ کہنے اور کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ: ’’ آج آپ کی دعوت ہے۔۔۔‘‘۔